احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

190: . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ التَّسْبِيحِ
باب: صلاۃ التسبیح کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1386
حدثنا موسى بن عبد الرحمن ابو عيسى المسروقي ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا موسى بن عبيدة ، حدثني سعيد بن ابي سعيد مولى ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابي رافع ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للعباس:"يا عم، الا احبوك، الا انفعك، الا اصلك"، قال: بلى يا رسول الله، قال:"تصلي اربع ركعات، تقرا في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة، فإذا انقضت القراءة، فقل: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، خمس عشرة مرة قبل ان تركع، ثم اركع فقلها عشرا، ثم ارفع راسك فقلها عشرا، ثم اسجد فقلها عشرا، ثم ارفع راسك فقلها عشرا، ثم اسجد فقلها عشرا، ثم ارفع راسك فقلها عشرا قبل ان تقوم، فتلك خمس وسبعون في كل ركعة، وهي ثلاث مائة في اربع ركعات، فلو كانت ذنوبك مثل رمل عالج غفرها الله لك"، قال: يا رسول الله، ومن لم يستطع يقولها في يوم، قال:"قلها في جمعة، فإن لم تستطع فقلها في شهر، حتى قال: فقلها في سنة".
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے چچا! کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو فائدہ نہ پہنچاؤں؟ کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ چار رکعت پڑھیے، اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ ملا کر پڑھیے، جب قراءت ختم ہو جائے تو  «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر»  پندرہ مرتبہ رکوع سے پہلے پڑھیے، پھر رکوع کیجئیے اور انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر اپنا سر اٹھائیے اور انہیں کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر سجدہ کیجئیے، اور انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر اپنا سر اٹھائیے، اور کھڑے ہونے سے پہلے انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، تو ہر رکعت میں پچھتر (۷۵) مرتبہ ہوئے، اور چار رکعتوں میں تین سو (۳۰۰) مرتبہ ہوئے، تو اگر آپ کے گناہ ریت کے ٹیلوں کے برابر ہوں تو بھی اللہ انہیں بخش دے گا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو شخص اس نماز کو روزانہ نہ پڑھ سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہفتہ میں ایک بار پڑھ لے، اگر یہ بھی نہ ہو سکے، تو مہینے میں ایک بار پڑھ لے یہاں تک کہ فرمایا: سال میں ایک بار پڑھ لے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12015)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 303 (1297)، سنن الترمذی/الصلاة 233 (482) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، علماء نے اختلاف کیا ہے کہ یہ حدیث کیسی ہے، ابن خزیمہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا، اور ایک جماعت نے اس کو حسن کہا، اور ابن الجوزی نے اس کو موضوعات میں ذکر کیا، حافظ ابن حجر نے کہا یہ حدیث حسن ہے، اور ابن الجوزی نے برا کیا جو اس کو موضوع قرار دیا)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: