احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

44: بَابُ: الْحُوَّارَى
باب: میدہ کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 3335
حدثنا محمد بن الصباح , وسويد بن سعيد , قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , حدثني ابي , قال: سالت سهل بن سعد هل رايت النقي ؟ قال:"ما رايت النقي حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم", فقلت: فهل كان لهم مناخل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال:"ما رايت منخلا , حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم", قلت: فكيف كنتم تاكلون الشعير غير منخول ؟ قال:"نعم , كنا ننفخه فيطير منه ما طار , وما بقي ثريناه".
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا: کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، میں نے عرض کیا: آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے؟ فرمایا: ہاں! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4731، ومصباح الزجاجة: 1151)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 22 (5410)، سنن الترمذی/الزہد 38 (2364)، مسند احمد (5/332، 6/71) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہو جاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بے چھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: