احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

22: باب كَيْفَ كَانَ إِخْرَاجُ الْيَهُودِ مِنَ الْمَدِينَةِ
باب: مدینہ سے یہود کیسے نکالے گئے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3000
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، ان الحكم بن نافع حدثهم، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن ابيه، وكان احد الثلاثة الذين تيب عليهم، وكان كعب بن الاشرف يهجو النبي صلى الله عليه وسلم ويحرض عليه كفار قريش، وكان النبي صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة واهلها اخلاط منهم المسلمون والمشركون يعبدون الاوثان واليهود، وكانوا يؤذون النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه فامر الله عز وجل نبيه بالصبر والعفو ففيهم انزل الله: ولتسمعن من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم سورة آل عمران آية 186 الآية، فلما ابى كعب بن الاشرف ان ينزع عن اذى النبي صلى الله عليه وسلم، امر النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن معاذ ان يبعث رهطا يقتلونه، فبعث محمد بن مسلمة وذكر قصة قتله، فلما قتلوه فزعت اليهود والمشركون فغدوا على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: طرق صاحبنا فقتل، فذكر لهم النبي صلى الله عليه وسلم الذي كان يقول: ودعاهم النبي صلى الله عليه وسلم إلى ان يكتب بينه كتابا ينتهون إلى ما فيه، فكتب النبي صلى الله عليه وسلم بينه وبينهم وبين المسلمين عامة صحيفة.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور آپ ان تین لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی ۱؎): کعب بن اشرف (یہودی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف اکسایا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پوجتے تھے، اور یہود بھی، وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبر اور عفوو درگزر کا حکم دیا، انہیں کی شان میں یہ آیت «ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم» تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے (سورۃ آل عمران: ۱۸۶) اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی سے باز نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کو قتل کرا دیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا، جب ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہو گئے، اور دوسرے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: رات میں ہمارا سردار مارا گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ باتیں ذکر کیں جو وہ کہا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پابندی کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمومی صحیفہ (تحریری معاہدہ) لکھا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11152) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: سند میں «عبدالرحمن بن عبدالله بن كعب بن مالك، عن أبيه» ہے، اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ بن کعب بن مالک ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ کے بجائے ان کے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور باقی دو کے نام مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہما ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ الزهري عنعن (تقدم:145)

Share this: