احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: باب فِي الْبَتَّةِ
باب: طلاق بتہ (یعنی قطعی طلاق) کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2206
حدثنا ابن السرح، وإبراهيم بن خالد الكلبي ابو ثور في آخرين، قالوا: حدثنا محمد بن إدريس الشافعي، حدثني عمي محمد بن علي بن شافع، عن عبد الله بن علي بن السائب، عن نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة، ان ركانة بن عبد يزيد طلق امراته سهيمة البتة، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، وقال: والله ما اردت إلا واحدة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"والله ما اردت إلا واحدة ؟"فقال ركانة: والله ما اردت إلا واحدة، فردها إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطلقها الثانية في زمان عمر والثالثة في زمان عثمان. قال ابو داود: اوله لفظ إبراهيم وآخره لفظ ابن السرح.
نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ۱؎ (قطعی طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق 2 (1177)، ق / الطلاق 19 (2051)، (تحفة الأشراف: 3613)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/ الطلاق 8 (2318) (ضعیف) (اس کے راوی نافع مجہول ہیں، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے)

وضاحت: ۱؎: البتہ: «بتّ» کا اسم مرہ ہے، البتہ اور «بتات» کے معنی یقیناً اور قطعاً کے ہیں، طلاق بتہ یا البتہ ایسی طلاق جو یقینی اور قطعی طور پر پڑ چکی ہے، اورصحیح احادیث کی روشنی میں تین طلاق سنت کے مطابق تین طہر میں دی جائے، تو اس کے بعد یہ طلاق قطعی اور بتہ ہو گی، واضح رہے کہ یزید بن رکانہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

Share this: