احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

62: باب إِمَامَةِ النِّسَاءِ
باب: عورتوں کی امامت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 591
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع، قال: حدثتني جدتي، وعبد الرحمن بن خلاد الانصاري، عن ام ورقة بنت عبد الله بن نوفل الانصارية، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما غزا بدرا، قالت: قلت له: يا رسول الله، ائذن لي في الغزو معك امرض مرضاكم، لعل الله ان يرزقني شهادة، قال:"قري في بيتك، فإن الله تعالى يرزقك الشهادة، قال: فكانت تسمى الشهيدة، قال: وكانت قد قرات القرآن، فاستاذنت النبي صلى الله عليه وسلم ان تتخذ في دارها مؤذنا، فاذن لها"، قال: وكانت قد دبرت غلاما لها وجارية، فقاما إليها بالليل فغماها بقطيفة لها حتى ماتت وذهبا، فاصبح عمر فقام في الناس، فقال: من كان عنده من هذين علم او من رآهما فليجئ بهما، فامر بهما فصلبا فكانا اول مصلوب بالمدينة.
ام ورقہ بنت عبداللہ بن نوفل انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ بدر میں جانے لگے تو میں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! اپنے ساتھ مجھے بھی جہاد میں چلنے کی اجازت دیجئیے، میں آپ کے بیماروں کی خدمت کروں گی، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو، اللہ تمہیں شہادت نصیب کرے گا۔ راوی کہتے ہیں: چنانچہ انہیں شہیدہ کہا جاتا تھا، وہ کہتے ہیں: ام ورقہ رضی اللہ عنہا نے قرآن پڑھ رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر میں مؤذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی، تو آپ نے انہیں اس کی اجازت دی، اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی کو اپنے مر جانے کے بعد آزاد کر دینے کی وصیت کر دی تھی، چنانچہ وہ دونوں (یعنی غلام اور لونڈی) رات کو ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہی کی ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئیں اور وہ دونوں بھاگ نکلے، صبح ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ان دونوں کے متعلق جس کو بھی کچھ معلوم ہو، یا جس نے بھی ان دونوں کو دیکھا ہو وہ انہیں پکڑ کر لائے، (چنانچہ وہ پکڑ کر لائے گئے) تو آپ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں سولی دے دی گئی، یہی دونوں تھے جنہیں مدینہ منورہ میں سب سے پہلے سولی دی گئی۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18364)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/405) (حسن) (اس کے دو راوی ولید کی دادی اور عبدالرحمن بن خلاد دونوں مجہول ہیں، لیکن ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہیں، ابن خزیمہ نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 3؍142)

قال الشيخ الألباني: حسن

Share this: