احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

136: باب فِي عَبِيدِ الْمُشْرِكِينَ يَلْحَقُونَ بِالْمُسْلِمِينَ فَيُسْلِمُونَ
باب: کفار و مشرکین کے غلام مسلمانوں سے آ ملیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2700
حدثنا عبد العزيز بن يحيى الحراني، حدثني محمد يعني ابن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن ابان بن صالح، عن منصور بن المعتمر، عن ربعي بن حراش، عن علي بن ابي طالب، قال: خرج عبدان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني يوم الحديبية قبل الصلح فكتب إليه مواليهم فقالوا: يا محمد والله ما خرجوا إليك رغبة في دينك وإنما خرجوا هربا من الرق، فقال ناس صدقوا: يا رسول الله ردهم إليهم، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:"ما اراكم تنتهون يا معشر قريش حتى يبعث الله عليكم من يضرب رقابكم على هذا، وابى ان يردهم وقال: هم عتقاء الله عز وجل".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام (بھاگ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا: اے محمد! اللہ کی قسم! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں، تو کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان لوگوں نے سچ کہا: انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے ۱؎ اور فرمایا: قریش کے لوگو، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ۲؎ تمہاری گردنیں مارے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا: یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/المناقب 20 (3715)، (تحفة الأشراف: 10088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/155) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شرع کے حکم پر ظن و تخمین کی بنیاد پر اعتراض کیا، اور مشرکین کے دعوے کی حمایت کی۔
۲؎: اس پر سے مراد جاہلی عصبیت اور بے جا قومی حمیت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 3715 ¤ محمد بن إسحاق عنعن (تقدم:47) ورواه الترمذي (3715) من حديث شريك القاضي به وهو مدلس وعنعن (تقدم:95)

Share this: