احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّاءَ بَيْنَ قَوْمٍ
باب: لوگوں کے درمیان ان دیکھے تیر سے مارے گئے شخص کا کیا حکم ہے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4539
حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا حماد. ح وحدثنا ابن السرح، حدثنا سفيان وهذا حديثه، عن عمرو، عن طاوس، قال: من قتل ؟ وقال ابن عبيد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من قتل في عميا في رمي يكون بينهم بحجارة او بالسياط او ضرب بعصا فهو خطا وعقله عقل الخطإ، ومن قتل عمدا فهو قود، قال ابن عبيد: قود يد ثم اتفقا، ومن حال دونه فعليه لعنة الله وغضبه لا يقبل منه صرف ولا عدل"، وحديث سفيان اتم.
طاؤس کہتے ہیں کہ جو مارا جائے، اور ابن عبید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی لڑائی یا دنگے میں جو لوگوں میں چھڑ گئی ہو غیر معروف پتھر، کوڑے، یا لاٹھی سے مارا جائے ۱؎ تو وہ قتل خطا ہے، اور اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی، اور جو قصداً مارا جائے تو اس میں قصاص ہے (البتہ ابن عبید کی روایت میں ہے کہ) اس میں ہاتھ کا قصاص ہے، ۲؎ (پھر دونوں کی روایت ایک ہے کہ) جو کوئی اس کے بیچ بچاؤ میں پڑے ۳؎ تو اس پر اللہ کی لعنت، اور اس کا غضب ہو، اس کی نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ فدیہ، یا اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل اور سفیان کی حدیث زیادہ کامل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة 26 (4793)، سنن ابن ماجہ/الدیات 8 (2635)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (4591)، (تحفة الأشراف: 5739 18828) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکے۔
۲؎: یعنی جان کا قصاص ہے جان کی تعبیر ہاتھ سے کی گئی ہے۔
۳؎: یعنی قصاص نہ لینے دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

Share this: