احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

53: باب فِي صَوْمِ الدَّهْرِ تَطَوُّعًا
باب: سدا نفلی روزے سے رہنا۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2425
حدثنا سليمان بن حرب، ومسدد، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن غيلان بن جرير، عن عبد الله بن معبد الزماني، عن ابي قتادة، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف تصوم ؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم من قوله. فلما راى ذلك عمر، قال: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا، نعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله. فلم يزل عمر يرددها حتى سكن غضب رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال:"يا رسول الله، كيف بمن يصوم الدهر كله ؟ قال: لا صام ولا افطر. قال مسدد: لم يصم ولم يفطر، او ما صام ولا افطر، شك غيلان. قال: يا رسول الله، كيف بمن يصوم يومين ويفطر يوما ؟ قال: او يطيق ذلك احد ؟ قال: يا رسول الله، فكيف بمن يصوم يوما ويفطر يوما ؟ قال: ذلك صوم داود. قال: يا رسول الله، فكيف بمن يصوم يوما ويفطر يومين ؟ قال: وددت اني طوقت ذلك. ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاث من كل شهر ورمضان إلى رمضان، فهذا صيام الدهر كله، وصيام عرفة إني احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده، وصوم يوم عاشوراء إني احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ روزہ کس طرح رکھتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے اس سوال پر غصہ آ گیا، عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا: «رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا نعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله» ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی و مطمئن ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ یہ کلمات برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر (عمر رضی اللہ عنہ نے) پوچھا: اللہ کے رسول! جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: نہ اس نے روزہ ہی رکھا اور نہ افطار ہی کیا۔ پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزہ رکھتا ہے، اور ایک دن افطار کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی کسی کے اندر طاقت ہے بھی؟۔ (پھر) انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو شخص ایک دن روزہ رکھتا ہے، اور ایک دن افطار کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔ پوچھا: اللہ کے رسول! اس شخص کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے، اور دو دن افطار کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خواہش ہے کہ مجھے بھی اس کی طاقت ملے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان کے روزے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں، یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، اور اللہ سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ یوم عاشورہ (دس محرم الحرام) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام 36 (1162)، سنن الترمذی/الصوم 56 (767)، سنن النسائی/الصیام 42 (2385)، سنن ابن ماجہ/الصیام 31 (1730)، (تحفة الأشراف: 12117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/295، 296، 297، 299، 303، 308، 310) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: