احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

168: باب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2765
حدثنا محمد بن عبيد، ان محمد بن ثور حدثهم، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم زمن الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد الهدي واشعره واحرم بالعمرة وساق الحديث قال: وسار النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس: حل حل خلات القصواء مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"ما خلات وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل، ثم قال: والذي نفسي بيده لا يسالوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا اعطيتهم إياها، ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل باقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي، ثم اتاه يعني عروة بن مسعود، فجعل يكلم النبي صلى الله عليه وسلم فكلما كلمه اخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على النبي صلى الله عليه وسلم ومعه السيف، وعليه المغفر، فضرب يده بنعل السيف، وقال: اخر يدك عن لحيته فرفع عروة راسه فقال: من هذا ؟ قالوا: المغيرة بن شعبة، فقال: اي غدر اولست اسعى في غدرتك، وكان المغيرة صحب قوما في الجاهلية فقتلهم واخذ اموالهم، ثم جاء فاسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"اما الإسلام فقد قبلنا، واما المال فإنه مال غدر لا حاجة لنا فيه فذكر الحديث، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، وقص الخبر فقال سهيل، وعلى: انه لا ياتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، فلما فرغ من قضية الكتاب قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: قوموا فانحروا، ثم احلقوا، ثم جاء نسوة مؤمنات مهاجرات الآية، فنهاهم الله ان يردوهن وامرهم ان يردوا الصداق، ثم رجع إلى المدينة فجاءه ابو بصير رجل من قريش يعني فارسلوا في طلبه فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذ بلغا ذا الحليفة نزلوا ياكلون من تمر لهم، فقال ابو بصير لاحد الرجلين: والله إني لارى سيفك هذا يا فلان جيدا، فاستله الآخر فقال: اجل قد جربت به فقال ابو بصير: ارني انظر إليه فامكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى اتى المدينة فدخل المسجد يعدو، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد راى هذا ذعرا فقال: قد قتل والله صاحبي وإني لمقتول، فجاء ابو بصير فقال: قد اوفى الله ذمتك فقد رددتني إليهم، ثم نجاني الله منهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ويل امه مسعر حرب لو كان له احد فلما سمع ذلك عرف انه سيرده إليهم، فخرج حتى اتى سيف البحر وينفلت ابو جندل، فلحق بابي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: حل حل ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ڈر گیا ہے، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 106 (1694)، والشروط 16 (2734)، والمغازي 35 (4148)، ن الحج 62 (2772)، (تحفة الأشراف: 11270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/323، 327، 328) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: حل حل: یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رک جائے اور چلنا چھوڑ دے۔
۲؎: اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا و تحائف دئیے لیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آ گئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہو گئے، مغیرہ رضی اللہ عنہ کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کر دیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔
۳؎: کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: