احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

34: باب فِي الْحَذَرِ مِنَ النَّاسِ
باب: لوگوں کے دغا و فریب سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4861
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا نوح بن يزيد بن سيار المؤدب، حدثنا إبراهيم بن سعد، قال: حدثنيه ابن إسحاق، عن عيسى بن معمر، عن عبد الله بن عمرو بن الفغواء الخزاعي، عن ابيه، قال:"دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اراد ان يبعثني بمال إلى ابي سفيان يقسمه في قريش بمكة بعد الفتح، فقال: التمس صاحبا , قال: فجاءني عمرو بن امية الضمري، فقال: بلغني انك تريد الخروج وتلتمس صاحبا، قال: قلت: اجل، قال: فانا لك صاحب، قال: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: قد وجدت صاحبا، قال: فقال: من ؟ قلت:عمرو بن امية الضمري، قال: إذا هبطت بلاد قومه فاحذره , فإنه قد قال القائل: اخوك البكري ولا تامنه، فخرجنا حتى إذا كنت بالابواء، قال: إني اريد حاجة إلى قومي بودان، فتلبث لي، قلت راشدا , فلما ولى ذكرت قول النبي صلى الله عليه وسلم فشددت على بعيري حتى خرجت اوضعه حتى إذا كنت بالاصافر إذا هو يعارضني في رهط، قال: واوضعت فسبقته، فلما رآني قد فته انصرفوا وجاءني، فقال: كانت لي إلى قومي حاجة، قال: قلت: اجل ومضينا حتى قدمنا مكة، فدفعت المال إلى ابي سفيان".
عمرو بن فغواء خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، آپ مجھے کچھ مال دے کر ابوسفیان کے پاس بھیجنا چاہتے تھے، جو آپ فتح مکہ کے بعد قریش میں تقسیم فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: کوئی اور ساتھی تلاش کر لو، تو میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ارادہ نکلنے کا ہے اور تمہیں ایک ساتھی کی تلاش ہے، میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: میں تمہارا ساتھی بنتا ہوں چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا، مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، آپ نے فرمایا: کون؟ میں نے کہا: عمرو بن امیہ ضمری، آپ نے فرمایا: جب تم اس کی قوم کے ملک میں پہنچو تو اس سے بچ کے رہنا اس لیے کہ کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہارا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو اس سے مامون نہ رہو، چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم ابواء میں پہنچے تو اس نے کہا: میں ودان میں اپنی قوم کے پاس ایک ضرورت کے تحت جانا چاہتا ہوں لہٰذا تم میرے لیے تھوڑی دیر ٹھہرو، میں نے کہا: جاؤ راستہ نہ بھولنا، جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آئی، تو میں نے زور سے اپنے اونٹ کو بھگایا، اور تیزی سے دوڑاتا وہاں سے نکلا، یہاں تک کہ جب مقام اصافر میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مجھے روکنے آ رہا ہے میں نے اونٹ کو اور تیز کر دیا، اور میں اس سے بہت آگے نکل گیا، جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں، تو وہ لوگ لوٹ گئے، اور وہ میرے پاس آیا اور بولا، مجھے اپنی قوم میں ایک کام تھا، میں نے کہا: ٹھیک ہے اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو میں نے وہ مال ابوسفیان کو دے دیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10786)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/289) (ضعیف)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ عبدالله بن عمرو بن الفغواء مستور (تق:3504) أي مجهول الحال ۔

Share this: