احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

252: باب تَرْكِ الأَذَانِ فِي الْعِيدِ
باب: عید میں اذان نہ دینے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1146
حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، قال: سال رجل ابن عباس: اشهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال: نعم، ولولا منزلتي منه ما شهدته من الصغر، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم العلم الذي عند دار كثير بن الصلت"فصلى، ثم خطب ولم يذكر اذانا ولا إقامة، قال: ثم امر بالصدقة، قال: فجعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن، قال: فامر بلالا، فاتاهن، ثم رجع إلى النبي صلى الله عليه وسلم".
عبدالرحمٰن بن عابس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عید میں حاضر رہے ہیں؟ آپ نے کہا: ہاں اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک میری قدر و منزلت نہ ہوتی تو میں کمسنی کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہ ہو پاتا ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نشان کے پاس تشریف لائے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس تھا تو آپ نے نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا اور اذان اور اقامت کا انہوں نے ذکر نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقے کا حکم دیا، تو عورتیں اپنے کانوں اور گلوں (یعنی بالیوں اور ہاروں) کی طرف اشارے کرنے لگیں، وہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا چنانچہ وہ ان کے پاس آئے پھر (صدقہ لے کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لوٹ آئے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان 161 (863)، العیدین 16 (975)، 81 (977)، النکاح 125 (5249)، الاعتصام 125 (5249)، سنن النسائی/العیدین 18 (1576)، (تحفة الأشراف: 5816) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا شرف حاصل تھا اس لئے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ملا ورنہ میری کمسنی کی وجہ سے لوگ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا نہ ہونے دیتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: