احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: باب إِذَا أَخَّرَ الإِمَامُ الصَّلاَةَ عَنِ الْوَقْتِ
باب: جب امام نماز کو دیر سے پڑھے تو کیا کرنا چاہئے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 431
حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي عمران يعني الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا ابا ذر، كيف انت إذا كانت عليك امراء يميتون الصلاة ؟ او قال: يؤخرون الصلاة. قلت: يا رسول الله، فما تامرني ؟ قال: صل الصلاة لوقتها، فإن ادركتها معهم فصلها، فإنها لك نافلة".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے؟ یا فرمایا: نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ۱؎، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، سنن الترمذی/الصلاة 15 (176)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 150 (1256)، (تحفة الأشراف: 11950)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 2 (780)، 55 (860)، مسند احمد (5/168، 169)، سنن الدارمی/الصلاة 25 (1264) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام فتنہ کی خبر دی ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں حکام وقت پر ثابت ہو چکی ہے اور اب حکام اور عوام سب ہی اس میں مبتلا ہیں «الا من رحم ربی»۔ نماز کو بے وقت کر کے پڑھنا اس کی روح نکال دینے کے مترادف ہے گویا اسے مار ڈالا گیا ہو اور ایسی نماز اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ نماز سرے سے چھوڑ دینا تو اور زیادہ ظلم ہے۔ ایسی صورت میں جب حاکم یا اہل مسجد افضل اور مختار وقت کے علاوہ میں نماز ادا کرتے ہوں تو متبع سنت کو صحیح اور مختار وقت میں اکیلے ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ اگر انسان مسجد میں یا ان کی مجلس میں موجود ہو تو ان کے ساتھ مل کر بھی پڑھ لے تاکہ فتنہ نہ ہو اور وحدت قائم رہے۔ پہلی نماز فرض ہو گی اور دوسری نفل، خواہ باجماعت ہی کیوں نہ پڑھی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: