احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

91: باب فِي الْجُنُبِ يُؤَخِّرُ الْغُسْلَ
باب: جنبی نہانے میں دیر کرے اس کے حکم کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 226
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر. ح وحدثنا احمد بن حنبل، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قالا: حدثنا برد بن سنان، عن عبادة بن نسي، عن غضيف بن الحارث، قال: قلت لعائشة:"ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من الجنابة في اول الليل، او في آخره ؟ قالت: ربما اغتسل في اول الليل، وربما اغتسل في آخره، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر اول الليل، ام في آخره ؟ قالت: ربما اوتر في اول الليل، وربما اوتر في آخره، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقرآن، ام يخفت به ؟ قالت: ربما جهر به، وربما خفت، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة".
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے پہلے حصہ میں غسل جنابت کرتے ہوئے دیکھا ہے یا آخری حصہ میں؟ کہا: کبھی آپ رات کے پہلے حصہ میں غسل فرماتے، کبھی آخری حصہ میں، میں نے کہا: اللہ اکبر! شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے۔ پھر میں نے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھتے دیکھا ہے یا آخری حصہ میں؟ کہا: کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے پہلے حصہ میں پڑھتے تھے اور کبھی آخری حصہ میں، میں نے کہا: اللہ اکبر! اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی ہے۔ پھر میں نے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن زور سے پڑھتے دیکھا ہے یا آہستہ سے؟ کہا: کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم زور سے پڑھتے اور کبھی آہستہ سے، میں نے کہا: اللہ اکبر! اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس امر میں وسعت رکھی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطھارة 141 (223)، والغسل 6 (404)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 179(1354)، (تحفة الأشراف: 17429)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض 6 (307) (صحیح)

وضاحت: صالحین امت کے سوالات پر غور کیا جائے کہ ان کی بنیاد اللہ کی رضا کی طلب، اس کی قربت کا شوق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اتباع ہوتا تھا۔ غسل جنابت کو موخر کرنا مباح ہے، مگر مستحب موکد یہ ہے کہ وضو کر کے سویا جائے۔ نماز وتر کو رات کے کسی بھی وقت ادا کرنا مباح ہے، مگر ترغیب اور ترجیح یہی ہے کہ اسے رات کے آخری حصے میں (نماز تہجد کے بعد) ادا کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی تلاوت قرآن کا حقیقی وقت اور موقع رات میں نماز تہجد ہوا کرتا تھا۔ اس قراءت میں اہل خانہ کی رعایت رکھنا بہت ضروری ہے کہ زیادہ اونچی آواز سے دوسروں کو تشویش نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: