احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

39: باب فِي نَفَقَةِ الْمَبْتُوتَةِ
باب: تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2284
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن فاطمة بنت قيس، ان ابا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فارسل إليها وكيله بشعير فتسخطته، فقال: والله ما لك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال لها:"ليس لك عليه نفقة"، وامرها ان تعتد في بيت ام شريك، ثم قال:"إن تلك امراة يغشاها اصحابي، اعتدي في بيت ابن ام مكتوم، فإنه رجل اعمى، تضعين ثيابك، وإذا حللت فآذنيني"، قالت: فلما حللت ذكرت له ان معاوية بن ابي سفيان و ابا جهم خطباني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اما ابو جهم، فلا يضع عصاه عن عاتقه، واما معاوية، فصعلوك لا مال له، انكحي اسامة بن زيد"، قالت: فكرهته، ثم قال:"انكحي اسامة بن زيد"، فنكحته فجعل الله تعالى فيه خيرا كثيرا واغتبطت به.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسی عورت ہے کہ اس کے پاس میرے صحابہ کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے، لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں، پردے کی دقت نہ ہو گی، تم اپنے کپڑے اتار سکو گی، اور جب عدت مکمل ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب عدت گزر گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہما کے پیغام کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہے ابوجہم تو وہ کندھے سے لاٹھی ہی نہیں اتارتے (یعنی بہت زدو کوب کرنے والے شخص ہیں) اور جہاں تک معاویہ کا سوال ہے تو وہ کنگال ہیں، ان کے پاس مال نہیں ہے ۲؎، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو، چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اس قدر بھلائی رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن النسائی/النکاح 8 (3224)، الطلاق 73 (3582)، (تحفة الأشراف: 18038)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح 37 (1135)، سنن ابن ماجہ/النکاح 10 (1869) الطلاق 4 (2024)، 9 (2032)، 10 (2035)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/ 412، 413، 414، 415)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2223) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بعض روایتوں میں ہے انہیں تین طلاق دی اور بعض میں ہے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی اور بعض میں ہے انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی ان روایات میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ انہیں اس سے پہلے دو طلاق دے چکے تھے اور اس بار تیسری طلاق دی، تو جس نے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین طلاق میں سے آخری طلاق دی یا وہ طلاق دی جو باقی رہ گئی تھی تو وہ اصل صورت حال کے مطابق ہے اور جس نے روایت کی ہے کہ طلاق بتہ دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ ایسی طلاق دی جس سے وہ مبتوتہ ہو گی اور جس نے روایت کی ہے کہ تین طلاق دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ تین میں جو کمی رہ گئی تھی اسے پورا کر دیا۔
۲؎: صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا درست ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: