احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

126: باب الْجُنُبِ يَتَيَمَّمُ
باب: جنبی تیمم کر سکتا ہے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 332
حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة. ح حدثنا مسدد، اخبرنا خالد يعني ابن عبد الله الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن عمرو بن بجدان، عن ابي ذر، قال: اجتمعت غنيمة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابا ذر، ابد فيها، فبدوت إلى الربذة فكانت تصيبني الجنابة فامكث الخمس والست، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ابو ذر، فسكت، فقال: ثكلتك امك ابا ذر لامك الويل، فدعا لي بجارية سوداء فجاءت بعس فيه ماء فسترتني بثوب واستترت بالراحلة واغتسلت فكاني القيت عني جبلا، فقال:"الصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك فإن ذلك خير"، وقال مسدد: غنيمة من الصدقة، قال ابو داود: وحديث عمرو اتم.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بکریاں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ، چنانچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا، وہاں مجھے جنابت لاحق ہو جایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ابوذر!، میں خاموش رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے، ابوذر! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور (دوسری طرف سے) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، (غسل کر کے مجھے ایسا لگا) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے۔ مسدد کی روایت میں «غنيمة من الصدقة» کے الفاظ ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو کی روایت زیادہ کامل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطھارة 92 (124)، سنن النسائی/الطھارة 205 (323)، (تحفة الأشراف: 12008)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/155، 180) (صحیح) (بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے ایک راوی ”عمرو بن بجدان“ مجہول ہیں)

وضاحت: ۱؎: اس طرح کے الفاظ زبان پر یوں ہی بطور تعجب جاری ہو جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: