احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1371
حدثنا الحسن بن علي، ومحمد بن المتوكل، قالا: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، قال الحسن في حديثه، ومالك بن انس، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرغب في قيام رمضان من غير ان يامرهم بعزيمة، ثم يقول:"من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه"، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والامر على ذلك، ثم كان الامر على ذلك في خلافة ابي بكر رضي الله عنه، وصدرا من خلافة عمر رضي الله عنه. قال ابو داود: وكذا رواه عقيل، ويونس، وابو اويس"من قام رمضان"، وروى عقيل"من صام رمضان وقامه".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے «من قام رمضان» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں «من صام رمضان وقامه» ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن الترمذی/الصوم 1 (683)، 83 (808)، سنن النسائی/قیام اللیل 3 (1604)، والصوم 39 (2002)، والإیمان 22 (2196)، 22 (5027)، (تحفة الأشراف:12277، 15270، 15248)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 27 (37)، والصوم 6 (1901)، والتراویح 1 (2009)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 173 (1326)، موطا امام مالک/ الصلاة فی رمضان 1 (2)، مسند احمد (2/232، 241، 385، 473، 503)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1817) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: پھر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مسجد میں ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا، اسی وجہ سے اکثر علماء نے باجماعت تراویح کو افضل کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ گھر میں اکیلے پڑھنا افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن خ جعل قوله فتوفي رسول الله ... من كلام الزهري

Share this: