احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1567
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، قال: اخذت من ثمامة بن عبد الله بن انس كتابا زعم ان ابا بكر كتبه لانس وعليه خاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بعثه مصدقا وكتبه له،"فإذا فيه هذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين التي امر الله عز وجل بها نبيه صلى الله عليه وسلم، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعطه فيما دون خمس وعشرين من الإبل الغنم في كل خمس ذود شاة، فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض إلى ان تبلغ خمسا وثلاثين، فإن لم يكن فيها بنت مخاض فابن لبون ذكر، فإذا بلغت ستا وثلاثين ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا بلغت ستا واربعين ففيها حقة طروقة الفحل إلى ستين، فإذا بلغت إحدى وستين ففيها جذعة إلى خمس وسبعين، فإذا بلغت ستا وسبعين ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا بلغت إحدى وتسعين ففيها حقتان طروقتا الفحل إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل اربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة، فإذا تباين اسنان الإبل في فرائض الصدقات فمن بلغت عنده صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه، وان يجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده حقة وعنده جذعة فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليس عنده حقة وعنده ابنة لبون فإنها تقبل. قال ابو داود: من هاهنا لم اضبطه عن موسى كما احب، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه، قال ابو داود: إلى هاهنا، ثم اتقنته، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة ابنة لبون وليس عنده إلا بنت مخاض فإنها تقبل منه وشاتين او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة مخاض وليس عنده إلا ابن لبون ذكر فإنه يقبل منه وليس معه شيء، ومن لم يكن عنده إلا اربع فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي سائمة الغنم إذا كانت اربعين ففيها شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففيها شاتان إلى ان تبلغ مائتين، فإذا زادت على مائتين ففيها ثلاث شياه إلى ان تبلغ ثلاث مائة، فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة شاة ولا يؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عوار من الغنم ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق، ولا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، فإن لم تبلغ سائمة الرجل اربعين فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر فإن لم يكن المال إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها".
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کر دی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ۱؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پورے ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جائیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذعہ واجب ہو گی، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جائیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کر لی جائے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے «ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا» سے لے کر «ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه» تک اچھی ضبط نہ کر سکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (۴۰) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (۱۲۰) تک ایک بکری دینی ہو گی، جب ایک سو اکیس (۱۲۱) ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہو گی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کر لیں گے ۲؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة 33 (1448)، 39 (1455)، الشرکة 2 (2487)، فرض الخمس 5 (3016)، الحیل 3 (6955)، سنن النسائی/الزکاة 5 (2449)، 10 (2457)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 10 (1800)، (تحفة الأشراف: 6582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/11، 13) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (۷) تفسیر اسنان الابل میں دیکھئے۔
۲؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور د وسو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور (۲۵) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: