احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب فِي الظِّهَارِ
باب: ظہار کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2213
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، ومحمد بن العلاء المعنى، قالا: حدثنا ابن إدريس، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن عمرو بن عطاء، قال ابن العلاء ابن علقمة بن عياش: عن سليمان بن يسار، عن سلمة بن صخر، قال ابن العلاء البياضي، قال: كنت امرا اصيب من النساء ما لا يصيب غيري، فلما دخل شهر رمضان خفت ان اصيب من امراتي شيئا يتابع بي حتى اصبح، فظاهرت منها حتى ينسلخ شهر رمضان، فبينما هي تخدمني ذات ليلة إذ تكشف لي منها شيء، فلم البث ان نزوت عليها، فلما اصبحت خرجت إلى قومي فاخبرتهم الخبر، وقلت: امشوا معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: لا والله، فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال:"انت بذاك يا سلمة"، قلت: انا بذاك يا رسول الله، مرتين، وانا صابر لامر الله، فاحكم في ما اراك الله، قال:"حرر رقبة"، قلت: والذي بعثك بالحق ما املك رقبة غيرها وضربت صفحة رقبتي، قال:"فصم شهرين متتابعين"، قال: وهل اصبت الذي اصبت إلا من الصيام، قال:"فاطعم وسقا من تمر بين ستين مسكينا"، قلت: والذي بعثك بالحق، لقد بتنا وحشين ما لنا طعام، قال:"فانطلق إلى صاحب صدقة بني زريق فليدفعها إليك، فاطعم ستين مسكينا وسقا من تمر، وكل انت وعيالك بقيتها"، فرجعت إلى قومي، فقلت: وجدت عندكم الضيق وسوء الراي ووجدت عند النبي صلى الله عليه وسلم السعة وحسن الراي، وقد امرني، او امر لي، بصدقتكم، زاد ابن العلاء، قال ابن إدريس: بياضة بطن من بني زريق.
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا تو میں خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری بات بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! تم نے ایسا کیا؟ میں نے جواب دیا: ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سجھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک گردن آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو، میں نے کہا: میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ، میں نے جواب دیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق 20 (1198)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 25 (2062)، (تحفة الأشراف: 4555)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/37، 5/436)، سنن الدارمی/الطلاق 9 (2319) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو الإرواء: 2091) ویأتی ہذا الحدیث برقم (2213)

وضاحت: ۱؎: ظہار یہ ے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے «أنت علي كظهر أمي» یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، شریعت اسلامیہ میں ایسا کہنے والا گنہگار ہو گا اور اس پر کفارہ لازم ہو گا، جب تک کفارہ ادا نہ کر دے وہ بیوی کے قریب نہیں جا سکتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 1198،3299،جه 2062 ¤ ابن إسحاق مدلس (تقدم:47) ولم أجد تصريح سماعه وسليمان بن يسار لم يسمعه من سلمة وللحديث شواهد ضعيفة ۔

Share this: