احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

57: باب فِيمَنْ صَلَّى فِي مَنْزِلِهِ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ يُصَلِّي مَعَهُمْ
باب: جو شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا ہو پھر وہ جماعت پائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 575
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، اخبرني يعلى بن عطاء، عن جابر بن يزيد بن الاسود، عن ابيه، انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو غلام شاب، فلما صلى إذا رجلان لم يصليا في ناحية المسجد، فدعا بهما فجئ بهما ترعد فرائصهما، فقال:"ما منعكما ان تصليا معنا ؟ قالا: قد صلينا في رحالنا، فقال: لا تفعلوا إذا صلى احدكم في رحله ثم ادرك الإمام ولم يصل فليصل معه، فإنها له نافلة".
یزید بن الاسودخزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، وہ ایک جوان لڑکے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے کونے میں دو آدمی ہیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، تو آپ نے دونوں کو بلوایا، انہیں لایا گیا، خوف کی وجہ سے ان پر کپکپی طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟، تو ان دونوں نے کہا: ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ (بھی) نماز پڑھے، یہ اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 49 (219)، سنن النسائی/الإمامة 54 (859)، (تحفة الأشراف: 11822)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/160، 161)، سنن الدارمی/الصلاة 97 (1407) (صحیح)

وضاحت: جس نے اکیلے نماز پڑھی ہو پھر اس کو جماعت مل جائے تو وہ امام کے ساتھ مل کر دوبارہ نماز پرھے۔ خواہ نماز کوئی سی ہو۔ ظاہر الفاظ حدیث سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ شرعی سبب کے باعث فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے اگرچہ جماعت سے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: