احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

27: باب مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الإِزَارِ
باب: تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4084
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابي غفار، حدثنا ابو تميمة الهجيمي وابو تميمة اسمه طريف بن مجالد، عن ابي جري جابر بن سليم، قال:"رايت رجلا يصدر الناس عن رايه لا يقول شيئا إلا صدروا عنه، قلت: من هذا ؟ قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: عليك السلام يا رسول الله مرتين، قال: لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت، قل السلام عليك، قال: قلت انت رسول الله، قال: انا رسول الله الذي إذا اصابك ضر فدعوته كشفه عنك، وإن اصابك عام سنة فدعوته انبتها لك، وإذا كنت بارض قفراء او فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك، قال: قلت اعهد إلي، قال: لا تسبن احدا، قال: فما سببت بعده حرا ولا عبدا ولا بعيرا ولا شاة، قال: ولا تحقرن شيئا من المعروف، وان تكلم اخاك وانت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف، وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين، وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة، وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه فإنما وبال ذلك عليه".
ابوجری جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا: «عليك السلام يا رسول الله» آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عليك السلام» نہ کہو، یہ مردوں کا سلام ہے اس کے بجائے «السلام عليك» کہو۔ میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، جس کو تمہیں کوئی ضرر لاحق ہو تو پکارو وہ تم سے اس ضرر کو دور فرما دے گا، جب تم پر کوئی قحط سالی آئے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہارے لیے غلہ اگا دے گا، اور جب تم کسی چٹیل زمین میں ہو یا میدان پھر تمہاری اونٹنی گم ہو جائے تو اگر تم اس اللہ سے دعا کرو تو وہ اسے لے آئے گا میں نے کہا: مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا: کسی کو بھی گالی نہ دو۔ اس کے بعد سے میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو، نہ بکری کو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی بھلائی کے کام کو معمولی نہ سمجھو، اور اگر تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے بات کرو گے تو یہ بھی بھلے کام میں داخل ہے، اور اپنا تہ بند نصف «ساق» (پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا، اور اگر تمہیں کوئی گالی دے اور تمہارے اس عیب سے تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم اسے اس کے اس عیب سے عار نہ دلاؤ جسے تم جانتے ہو کیونکہ اس کا وبال اسی پر ہو گا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2124)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 28 (2722)، سنن النسائی/ الکبری (9691)، مسند احمد (3/482، 5/63) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: