احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

41: باب لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
باب: محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانا کیسا ہے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1849
حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سليمان بن كثير، عن حميد الطويل، عن إسحاق بن عبد الله بن الحارث، عن ابيه، وكان الحارث خليفة عثمان على الطائف فصنع لعثمان طعاما فيه من الحجل واليعاقيب ولحم الوحش، قال: فبعث إلى علي بن ابي طالب، فجاءه الرسول صلى الله عليه وسلم وهو يخبط لاباعر له فجاءه وهو ينفض الخبط عن يده، فقالوا له: كل، فقال:"اطعموه قوما حلالا فإنا حرم"، فقال علي رضي الله عنه: انشد الله من كان ها هنا من اشجع، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اهدى إليه رجل حمار وحش وهو محرم فابى ان ياكله ؟ قالوا: نعم.
عبداللہ بن حارث سے روایت ہے (حارث طائف میں عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ تھے) وہ کہتے ہیں حارث نے عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا تیار کیا، اس میں چکور ۱؎، نر چکور اور نیل گائے کا گوشت تھا، وہ کہتے ہیں: انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا چنانچہ قاصد ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹوں کے لیے چارہ تیار کر رہے ہیں، اور اپنے ہاتھ سے چارا جھاڑ رہے تھے جب وہ آئے تو لوگوں نے ان سے کہا: کھاؤ، تو وہ کہنے لگے: لوگوں کو کھلاؤ جو حلال ہوں (احرام نہ باندھے ہوں) میں تو محرم ہوں تو انہوں نے کہا: میں قبیلہ اشجع کے ان لوگوں سے جو اس وقت یہاں موجود ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے نیل گائے کا پاؤں ہدیہ بھیجا تو آپ نے کھانے سے انکار کیا کیونکہ آپ حالت احرام میں تھے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10165)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/100، 103) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: تیتر کے قسم کا ایک پہاڑی خوبصورت و خوش آواز پرندہ ہے، یہ چاندنی رات میں خوب چہچہاتا ہے اس لئے اسے چاند کا عاشق کہتے ہیں۔
۲؎: محرم کے لئے خشکی کا شکار کرنا یا کھانا دونوں ممنوع ہے، اسی طرح اگر کسی غیر محرم آدمی نے خشکی کا شکار خاص کر محرم کے لئے کیا ہو تو بھی محرم کو اس کا کھانا ممنوع ہے، البتہ اگر حلال آدمی نے شکار اپنے لئے کیا ہو اور کسی محرم نے اس میں اشارہ کنایہ تک سے بھی تعاون نہیں کیا ہو، پھر اس میں سے کسی محرم کو ہدیہ پیش کیا ہو تو ایسے شکار کا کھانا جائز ہے، اس باب میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے، اور اس لحاظ سے ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ حميد الطويل مدلس (طبقات المدلسين:3/71) وعنعن ۔

Share this: