احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

8: باب فِي عِتْقِ أُمَّهَاتِ الأَوْلاَدِ
باب: ام ولد (بچے والی لونڈی) مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3953
حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن خطاب بن صالح مولى الانصاري، عن امه، عن سلامة بنت معقل امراة من خارجة قيس عيلان، قالت:"قدم بي عمي في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو، اخي ابي اليسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب، ثم هلك، فقالت امراته: الآن والله تباعين في دينه، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم: فقلت: يا رسول الله، إني امراة من خارجة قيس عيلان قدم بي عمي المدينة في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو اخي ابي اليسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب، فقالت امراته: الآن والله تباعين في دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولي الحباب ؟ قيل: اخوه ابو اليسر بن عمرو، فبعث إليه، فقال: اعتقوها، فإذا سمعتم برقيق قدم علي فاتوني اعوضكم منها، قالت: فاعتقوني وقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم رقيق، فعوضهم مني غلاما".
بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون سلامہ بنت معقل کہتی ہیں کہ جاہلیت میں مجھے میرے چچا لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، ان سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، پھر وہ مر گئے تو ان کی بیوی کہنے لگی: قسم اللہ کی اب تو ان کے قرضہ میں بیچی جائے گی، یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون ہوں، جاہلیت میں میرے چچا مدینہ لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ مجھے بیچ دیا ان سے میرے بطن سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، اب ان کی بیوی کہتی ہے: قسم اللہ کی تو ان کے قرض میں بیچی جائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: حباب کا وارث کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ان کے بھائی ابوالیسر بن عمرو ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہلا بھیجا کہ اسے (سلامہ کو) آزاد کر دو، اور جب تم سنو کہ میرے پاس غلام اور لونڈی آئے ہیں تو میرے پاس آنا، میں تمہیں اس کا عوض دوں گا، سلامہ کہتی ہیں: یہ سنا تو ان لوگوں نے مجھے آزاد کر دیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام اور لونڈی آئے تو آپ نے میرے عوض میں انہیں ایک غلام دے دیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15899)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/360) (ضعیف الإسناد) (اس کی راویہ ام خطاب مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ ابن إسحاق عنعن (تقدم:47) ، وأم خطاب : لا تعرف (تق:8727)

Share this: