احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب نَسْخِ قِيَامِ اللَّيْلِ وَالتَّيْسِيرِ فِيهِ
باب: تہجد کی فرضیت کی منسوخی اور اس میں آسانی کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1304
حدثنا احمد بن محمد المروزي ابن شبويه، حدثني علي بن حسين، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس،قال في المزمل: قم الليل إلا قليلا { 2 } نصفه سورة المزمل آية 1-2 نسختها الآية التي فيها علم ان لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرءان سورة المزمل آية 20 وناشئة الليل: اوله، وكانت صلاتهم لاول الليل، يقول: هو اجدر ان تحصوا ما فرض الله عليكم من قيام الليل، وذلك ان الإنسان إذا نام لم يدر متى يستيقظ، وقوله: واقوم قيلا سورة المزمل آية 6 هو اجدر ان يفقه في القرآن، وقوله: إن لك في النهار سبحا طويلا سورة المزمل آية 7، يقول: فراغا طويلا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں سورۃ مزمل کی آیت «قم الليل إلا قليلا، نصفه» ۱؎ رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی رات یعنی آدھی رات کو دوسری آیت «علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن» ۲؎ اسے معلوم ہے کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے لہٰذا اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا اب تم جتنی آسانی سے ممکن ہو (نماز میں) قرآن پڑھا کرو نے منسوخ کر دیا ہے، «ناشئة الليل» کے معنی شروع رات کے ہیں، چنانچہ صحابہ کی نماز شروع رات میں ہوتی تھی، اس لیے کہ رات میں جو قیام اللہ نے تم پر فرض کیا تھا اس کی ادائیگی اس وقت آسان اور مناسب ہے کیونکہ انسان سو جائے تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کب جاگے گا اور «أقوم قيلا» سے مراد یہ ہے رات کا وقت قرآن سمجھنے کے لیے بہت اچھا وقت ہے اور اس کے قول «إن لك في النهار سبحا طويلا» ۳؎ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج کے واسطے دن کو بہت فرصت ہوتی ہے (لہٰذا رات کا وقت عبادت میں صرف کیا کرو)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6254) (حسن)

وضاحت: ۱؎: سورة المزمل: (۲،۳) ۲؎: سورة المزمل: (۲۰) ۳؎: سورة المزمل: (۷)

قال الشيخ الألباني: حسن

Share this: