احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

115: باب مَنْ قَالَ الْمُسْتَحَاضَةُ تَغْتَسِلُ مَنْ ظُهْرٍ إِلَى ظُهْرٍ
باب: مستحاضہ ایک ظہر سے دوسرے ظہر تک ایک غسل کرے درمیان میں وضو کیا کرے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 301
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر، ان القعقاع، وزيد بن اسلم ارسلاه إلى سعيد بن المسيب يساله كيف تغتسل المستحاضة ؟، فقال"تغتسل من ظهر إلى ظهر، وتتوضا لكل صلاة، فإن غلبها الدم استثفرت بثوب"، قال ابو داود: وروي عن ابن عمر، وانس بن مالك، تغتسل من ظهر إلى ظهر، وكذلك روى داود، وعاصم، عن الشعبي، عن امراته، عن قمير، عن عائشة، إلا ان داود، قال: كل يوم، وفي حديث عاصم، عند الظهر، وهو قول سالم بن عبد الله، والحسن، وعطاء، قال ابو داود: قال مالك: إني لاظن حديث ابن المسيب من طهر إلى طهر، فقلبها الناس من ظهر إلى ظهر، ولكن الوهم دخل فيه، ورواه المسور بن عبد الملك بن سعيد بن عبد الرحمن بن يربوع، قال فيه: من طهر إلى طهر، فقلبها الناس من ظهر إلى ظهر.
ابوبکر کے غلام سمیّ کہتے ہیں کہ قعقاع اور زید بن اسلم دونوں نے انہیں سعید بن مسیب کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ مستحاضہ عورت کس طرح غسل کرے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ایک ظہر سے دوسرے ظہر تک ایک غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور اگر استحاضہ کا خون زیادہ آئے تو کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ وہ ظہر سے ظہر تک ایک غسل کرے، اور اسی طرح داود اور عاصم نے شعبی سے، شعبی نے اپنی بیوی سے، انہوں نے قمیر سے، اور قمیر نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، مگر داود کی روایت میں لفظ «كل يوم» کا (اضافہ) ہے یعنی ہر روز غسل کرے، اور عاصم کی روایت میں «عند الظهر» کا لفظ ہے اور یہی قول سالم بن عبداللہ، حسن اور عطاء کا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ ابن مسیب کی حدیث: «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» کے بجائے «من طهرٍ إلى طهرٍ» ہے، لیکن اس میں وہم داخل ہو گیا اور لوگوں نے اسے بدل کر «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» کر دیا، نیز اسے مسور بن عبدالملک بن سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع نے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے «من طهر إلى طهر» کہا ہے، پھر لوگوں نے اسے «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» میں بدل دیا۔

تخریج دارالدعوہ: موطا امام مالک/الطہارة 29 (107)، أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 84 (837) (صحیح) (انس، عائشہ اور حسن کے اقوال بھی سنداً صحیح ہیں)

Share this: