احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

87: باب التَّحْصِيبِ
باب: وادی محصب میں اترنے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2008
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:"إنما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم المحصب ليكون اسمح لخروجه، وليس بسنة فمن شاء نزله ومن شاء لم ينزله".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محصب میں صرف اس لیے اترے تاکہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے میں آسانی ہو، یہ کوئی سنت نہیں، لہٰذا جو چاہے وہاں اترے اور جو چاہے نہ اترے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16785، 17330)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 147 (1765)، صحیح مسلم/الحج 59 (1311)، سنن الترمذی/الحج 82 (923)، سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3067)، مسند احمد (6/190) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: محصب، ابطح، بطحاء، خیف کنانہ سب ہم معنی ہیں اور اس سے مراد مکہ اور منٰی کے درمیان کا علاقہ ہے جو منٰی سے زیادۃ قریب ہے۔ محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے بعد آرام فرمانے کے لئے یہاں اقامت کی تھی اور یہاں پر عصر، ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ادا فرمائیں اور چودہویں رات گزاری، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نزول فرمایا، تو آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ہے، امام شافعی، امام مالک اور جمہور اہل علم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے، اور اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں، نیز ظہر، عصر اور مغرب و عشاء کی نماز پڑھنی، نیز رات کا ایک حصہ یا پوری رات سونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں مستحب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: