احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

9: باب فِي الْخُلَفَاءِ
باب: خلفاء کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4632
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا عبد الرزاق، قال: محمد كتبته من كتابه، قال: اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: كان ابو هريرة يحدث: ان رجلا اتى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"إني ارى الليلة ظلة ينطف منها السمن والعسل، فارى الناس يتكففون بايديهم فالمستكثر والمستقل، وارى سببا واصلا من السماء إلى الارض فاراك يا رسول الله اخذت به فعلوت به، ثم اخذ به رجل آخر فعلا به، ثم اخذ به رجل آخر فعلا به، ثم اخذ به رجل آخر فانقطع ثم وصل فعلا به، قال ابو بكر: بابي وامي لتدعني فلاعبرنها، فقال: اعبرها، قال: اما الظلة: فظلة الإسلام، واما ما ينطف من السمن والعسل: فهو القرآن لينه وحلاوته، واما المستكثر والمستقل: فهو المستكثر من القرآن والمستقل منه، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض: فهو الحق الذي انت عليه تاخذ به فيعليك الله، ثم ياخذ به رجل فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فينقطع ثم يوصل له فيعلو به، اي رسول الله لتحدثني اصبت ام اخطات ؟ فقال: اصبت بعضا واخطات بعضا، فقال: اقسمت يا رسول الله لتحدثني ما الذي اخطات ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تقسم".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹوٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا، تو وہ بھی اوپر چلا گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تعبیر بیان کرو وہ بولے: بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت (شیرینی) اور نرمی مراد ہے، کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کو کم یا زیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں، آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں، اللہ آپ کو اٹھا لے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھر ایک اور شخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھر اسے ایک اور شخص پکڑے گا، تو وہ ٹوٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا، اللہ کے رسول! آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم نہ دلاؤ۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (3268)، (تحفة الأشراف: 13575) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: