احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: باب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ
باب: نماز وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1425
حدثنا قتيبة بن سعيد، واحمد بن جواس الحنفي، قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن بريد بن ابي مريم، عن ابي الحوراء، قال: قال الحسن بن علي رضي الله عنهما: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، قال ابن جواس: في قنوت الوتر،"اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما اعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت".
حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔ اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 224 (الوتر 9) (464)، سنن النسائی/قیام اللیل 42 (1746)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 117 (1178)، (تحفة الأشراف:3404)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/199، 200)، سنن الدارمی/الصلاة 214 (1632) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں نسائی کے حوالہ سے «وصلى الله على النبي محمد» کا اضافہ کیا ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے، علامہ عزالدین بن عبدالسلام نے فتاویٰ (۱/۶۶) میں لکھا ہے کہ قنوت وتر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) بھیجنا ثابت نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ کرنا مناسب نہیں، علامہ البانی لکھتے ہیں کہ صحیح ابن خزیمہ (۱۰۹۷) میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی ماہ رمضان میں امامت والی حدیث میں ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قنوت وتر کے آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) بھیجتے تھے نیز اسی طرح اسماعیل قاضی کی فضل صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (۱۰۷) وغیرہ میں ابو سلمہ معاذ بن حارث انصاری سے عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں تراویح کی امامت میں قنوت وتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) بھیجنا ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: