احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

45: باب فِي التَّثْوِيبِ
باب: تثویب کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 538
حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، حدثنا ابو يحيى القتات، عن مجاهد، قال: كنت مع ابن عمر، فثوب رجل في الظهر او العصر،قال:"اخرج بنا فإن هذه بدعة".
مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب ۱؎ کی، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہمیں یہاں سے لے چلو، اس لیے کہ یہ بدعت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 7395) (حسن)

وضاحت: ۱؎: اذان کے بعد دوبارہ نماز کے لئے اعلان کرنے کا نام تثویب ہے، اور تثویب کا اطلاق اقامت پر بھی ہوتا ہے۔ تثویب سے مراد ایک تو وہ کلمہ ہے جو فجر کی اذان میں کہا جاتا ہے یعنی «الصلاة خير من النوم» یہ حق اور مسنون ہے، مگر یہاں اس سے مراد وہ اعلانات وغیرہ ہیں جو اذان ہو جانے کے بعد لوگوں کو مسجد میں بلانے کے لیے کہے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ حیلہ بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہیں درود شریف پڑھا جاتا ہے اور کہیں تلاوت قرآن کی جاتی ہے اور کہیں صاف سیدھا اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ جماعت میں اتنے منٹ باقی ہیں تو ایسی کوئی صورت بھی جائز نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے اپنے قائد سے کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بدعت اور بدعتیوں سے انتہائی نفرت کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اتباع سنت کا شوق مثالی تھا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أبو يحيي القتات ضعيف ولم يثبت عن أحمد بأنه قال فيه : ” وأما حديث سفيان عنه فمقارب “ وانظر ح 4069

Share this: