احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب اسْتِحْبَابِ الْوِتْرِ
باب: وتر کے مستحب ہونے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1416
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا عيسى، عن زكريا، عن ابي إسحاق، عن عاصم، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا اهل القرآن، اوتروا فإن الله وتر يحب الوتر".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لیے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 216، (453)، سنن النسائی/قیام اللیل 25 (1674)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 114 (1169)،(تحفة الأشراف:10135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 110، 115، 120، 143، 144، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 209 (1621) (صحیح) (ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء و حفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تو یہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء و حفاظ و علماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے «ليس لك ولا لأصحابك» جو فرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 453،ن 1676،جه 1169 ¤ أبو إسحاق السبيعي مدلس وعنعن (تقدم:162) وللحديث شواھد ضعيفة عند أحمد (107/1) وأبي نعيم (حليه الأولياء 313/7) وغيرھما ۔

Share this: