احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: باب فِي حُرْمَةِ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ
باب: جہاد میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر مجاہدین کی بیویوں کی حرمت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2496
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا سفيان، عن قعنب، عن علقمة بن مرثد، عن ابن بريدة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم وما من رجل من القاعدين يخلف رجلا من المجاهدين في اهله إلا نصب له يوم القيامة"، فقيل له: هذا قد خلفك في اهلك، فخذ من حسناته ما شئت، فالتفت إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما ظنكم ؟، قال ابو داود: كان قعنب رجلا صالحا وكان ابن ابي ليلى اراد قعنبا على القضاء فابى عليه، وقال: انا اريد الحاجة بدرهم فاستعين عليها برجل قال: واينا لا يستعين في حاجته قال: اخرجوني حتى انظر فاخرج، فتوارى قال سفيان: بينما هو متوار إذ وقع عليه البيت فمات.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پھر تم کیا سمجھتے ہو ۱؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں: قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا: کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا: تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں (کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں: اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گر پڑا اور وہ مر گئے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة 39 (1897)، سنن النسائی/الجھاد 47 (3191)، (تحفة الأشراف: 1933)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352، 355) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی نیکیاں لینے والے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے کی اس کی چاہت کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہ جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: