احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

47: باب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ
باب: جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 547
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زائدة، حدثنا السائب بن حبيش، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري، عن ابي الدرداء، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليك بالجماعة، فإنما ياكل الذئب القاصية"، قال زائدة: قال السائب: يعني بالجماعة: الصلاة في الجماعة.
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے۔ زائدہ کا بیان ہے: سائب نے کہا: جماعت سے مراد نماز باجماعت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الإمامة 48 (848)، مسند احمد (5/196، 6/446)، (تحفة الأشراف: 10967) (حسن)

وضاحت: جماعت کو لازم پکڑو کی تاکید سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ نماز باجماعت کا اہتمام ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اجتماعیت کا التزام رکھو اور کوئی عقیدہ یا عمل ایسا اختیار نہ کرو جو جماعت صحابہ کے عقیدہ و عمل کے برعکس ہو۔ جماعت اور اجتماعیت میں عدد اور گنتی کی اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ دین اسلام کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت صحیحہ پر ہے۔ اس کے اختیار کرنے ہی میں اجتماعیت ہے خواہ افراد کتنے ہی کم ہوں اور اس اصل کو چھوڑنے میں افتراق ہے خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ دیکھئیے ابراہیم علیہ السلام کو اکیلے ہوتے ہوئے بھی امت قرار دیا گیا ہے۔ «إن إبراهيم كان أمة قانتا للـه حنيفا ولم يك من المشركين» (النحل ۱۲۰)۔ بلاشبہ ابراہیم ایک امت تھے اللہ کے مطیع، یکسو اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

Share this: