احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

58: باب الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ
باب: عرفات میں وقوف (ٹھہرنے) کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1910
حدثنا هناد، عن ابي معاوية، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت:"كانت قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة، وكانوا يسمون الحمس، وكان سائر العرب يقفون بعرفة، قالت: فلما جاء الإسلام، امر الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم ان ياتي عرفات فيقف بها ثم يفيض منها، فذلك قوله تعالى: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے: «‏‏‏‏ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» (سورۃ البقرہ: ۱۹۹) تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں - یعنی عرفات سے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 91 (1665)، وتفسیر البقرة 35 (4520)، م /الحج 21 (1219)، سنن النسائی/ الحج 202 (3015)، (تحفة الأشراف: 17195)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 53 (884)، سنن ابن ماجہ/المناسک 58 (3018) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: