احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: باب فِيمَنْ حَرَّمَ بِهِ
باب: بڑی عمر میں بھی رضاعت کی حرمت ہوتی ہے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2061
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثني يونس، عن ابن شهاب، حدثني عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وام سلمة، ان ابا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس كان تبنى سالما وانكحه ابنة اخيه هند بنت الوليد بن عتبة بن ربيعة، وهو مولى لامراة من الانصار، كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيدا، وكان من تبنى رجلا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه، حتى انزل الله سبحانه وتعالى في ذلك: ادعوهم لآبائهم إلى قوله: فإخوانكم في الدين ومواليكم سورة الاحزاب آية 5، فردوا إلى آبائهم، فمن لم يعلم له اب كان مولى واخا في الدين، فجاءت سهلة بنت سهيل بن عمرو القرشي، ثم العامري، وهي امراة ابي حذيفة، فقالت: يا رسول الله، إنا كنا نرى سالما ولدا، وكان ياوي معي ومع ابي حذيفة في بيت واحد، ويراني فضلا، وقد انزل الله عز وجل فيهم ما قد علمت، فكيف ترى فيه ؟ فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:"ارضعيه"، فارضعته خمس رضعات، فكان بمنزلة ولدها من الرضاعة، فبذلك كانت عائشة رضي الله عنها تامر بنات اخواتها وبنات إخوتها ان يرضعن من احبت عائشة ان يراها ويدخل عليها وإن كان كبيرا خمس رضعات، ثم يدخل عليها، وابت ام سلمة وسائر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يدخلن عليهن بتلك الرضاعة احدا من الناس حتى يرضع في المهد، وقلن لعائشة: والله ما ندري ؟ لعلها كانت رخصة من النبي صلى الله عليه وسلم لسالم دون الناس.
ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس نے سالم کو (جو کہ ایک انصاری عورت کے غلام تھے) منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا، اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے ان کا نکاح کرا دیا، زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو لوگ اپنی طرف منسوب کرتے تھے اور اسے ان کی میراث بھی دی جاتی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیت: «ادعوهم لآبائهم» سے «فإخوانكم في الدين ومواليكم» ۱؎ تک نازل فرمائی تو وہ اپنے اصل باپ کی طرف منسوب ہونے لگے، اور جس کے باپ کا علم نہ ہوتا اسے مولیٰ اور دینی بھائی سمجھتے۔ پھر سہلہ بنت سہیل بن عمرو قرشی ثم عامری جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں آئیں اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے، اور مجھے گھر کے کپڑوں میں کھلا دیکھتے تھے اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو حکم نازل فرما دیا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے لہٰذا اب اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: انہیں دودھ پلا دو، چنانچہ انہوں نے انہیں پانچ گھونٹ دودھ پلا دیا، اور وہ ان کے رضاعی بیٹے ہو گئے، اسی کے پیش نظر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم دیتیں کہ وہ اس شخص کو پانچ گھونٹ دودھ پلا دیں جسے دیکھنا یا اس کے سامنے آنا چاہتی ہوں گرچہ وہ بڑی عمر کا آدمی ہی کیوں نہ ہو پھر وہ ان کے پاس آتا جاتا، لیکن ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات نے اس قسم کی رضاعت کا انکار کیا جب تک کہ دودھ پلانا بچپن میں نہ ہو اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ کی قسم ہمیں یہ معلوم نہیں شاید یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صرف سالم کے لیے رخصت رہی ہو نہ کہ دیگر لوگوں کے لیے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/النکاح 53 (3321)، سنن ابن ماجہ/النکاح 36 (1943)، (تحفة الأشراف: 16740، 18197، 18377)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 12 (2960)، والنکاح 15 (5088)، صحیح مسلم/الرضاع 7 (1453)، موطا امام مالک/الرضاع 2 (12)، مسند احمد (6/ 255، 271)، سنن الدارمی/النکاح 52 (2303) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: سورة الأحزاب: (۵)
۲؎: جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص ہے، کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس حکم کو برقرار مانا جائے اگر واقعی سالم جیسا معاملہ پیش آ جائے اور رضاعی ماں بننے کے لئے دودھ پلایا جائے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: