احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

159: باب فِي السَّرِيَّةِ تَرُدُّ عَلَى أَهْلِ الْعَسْكَرِ
باب: اس فوجی دستہ کا بیان جو واپس لوٹ کر لشکر میں مل جائے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2751
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ابن ابي عدي، عن ابن إسحاق هو محمد ببعض هذا. ح وحدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، حدثني هشيم، عن يحيى بن سعيد جميعا، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"المسلمون تتكافا دماؤهم، يسعى بذمتهم ادناهم ويجير عليهم اقصاهم، وهم يد على من سواهم، يرد مشدهم على مضعفهم ومتسرعهم على قاعدهم، لا يقتل مؤمن بكافر ولا ذو عهد في عهده"، ولم يذكر ابن إسحاق القود والتكافؤ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے خون برابر ہیں ۱؎ ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے (گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو) اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ۲؎ جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ (غنیمت کے مال میں) اس کے برابر ہو گا جس کی سواریاں کمزور ہیں، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو۔ ابن اسحاق نے «القود» ۳؎ اور «التكافؤ» کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وأعاد بعض المؤلف فی الدیات (4531)، (تحفة الأشراف: 8786، 8815)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات 31 (2685) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی شریف اور رذیل کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
۲؎: یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوں گے ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور سب مل کر غیروں کا مقابلہ کریں گے۔
۳؎: اس سے مراد «لا يقتل مؤمن بكافر» کا جملہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: