احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب فِي كَرَاهِيَةِ الاِفْتِرَاضِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ
باب: آخری زمانہ میں عطیہ لینے کی کراہت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2958
حدثنا احمد بن ابي الحواري، حدثنا سليم بن مطير شيخ من اهل وادي القرى، قال: حدثني ابى مطير، انه خرج حاجا حتى إذا كان بالسويداء إذا برجل، قد جاء كانه يطلب دواء وحضضا، فقال: اخبرني من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يعظ الناس ويامرهم وينهاهم ؟ فقال:"يا ايها الناس خذوا العطاء، ما كان عطاء فإذا تجاحفت قريش على الملك وكان عن دين احدكم فدعوه"، قال ابو داود، ورواه ابن المبارك، عن محمد بن يسار، عن سليم بن مطير.
سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارادے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک (بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ۱؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا: مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ۲؎، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں، اور عطیہ (بخشش) دین کے بدلے ۳؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3546) (ضعیف) (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)

وضاحت: ۱؎: ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے۔
۲؎: یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔
۳؎: یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ سليم بن مطير : لين الحديث وأبوه مجهول الحال (تق:2529،6715) والرجل مجهول ۔

Share this: