احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

8: باب الْقَسَامَةِ
باب: قسامہ کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4520
حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، ومحمد بن عبيد المعنى، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، ورافع بن خديج:"ان محيصة بن مسعود، وعبد الله بن سهل انطلقا قبل خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل فاتهموا اليهود، فجاء اخوه عبد الرحمن بن سهل، وابنا عمه حويصة ومحيصة فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فتكلم عبد الرحمن في امر اخيه وهو اصغرهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الكبر الكبر، او قال: ليبدإ الاكبر، فتكلما في امر صاحبهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته، قالوا: امر لم نشهده كيف نحلف ؟ قال: فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم، قالوا: يا رسول الله قوم كفار، قال: فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: دخلت مربدا لهم يوما فركضتني ناقة من تلك الإبل ركضة برجلها"، قال حماد هذا او نحوه، قال ابو داود: رواه بشر بن المفضل ومالك عن يحيى بن سعيد، قال فيه اتحلفون خمسين يمينا وتستحقون دم صاحبكم او قاتلكم، ولم يذكر بشر دما، وقال عبدة: عن يحيى، كما قال حماد، ورواه ابن عيينة عن يحيى، فبدا بقوله: تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون، ولم يذكر الاستحقاق، قال ابو داود: وهذا وهم من ابن عيينة.
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو (اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں فرمایا: بڑے کو پہلے بولنے دو چنانچہ ان دونوں (حویصہ اور محیصہ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کر دیا جائے ان لوگوں نے کہا: یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے، پھر ہم کیسے قسم کھا لیں؟ آپ نے فرمایا: پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کو تم سے بچا لیں گے وہ بولے: اللہ کے رسول! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار؟) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی، سہل کہتے ہیں: ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے: کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کے خون، یا اپنے قاتل کے مستحق ہوتے ہو؟ البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے، اور عبدہ نے یحییٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، تو انہوں نے ابتداء «تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون» سے کی ہے اور استحقاق کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کا وہم ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح 7 (2702)، الجزیة 12 (3173)، الأدب 89 (6143)، الدیات 22 (6898)، الأحکام 38 (7192)، صحیح مسلم/القسامة 1 (1669)، سنن الترمذی/الدیات 23 (1442)، سنن النسائی/القسامة 2 (4714)، سنن ابن ماجہ/الدیات 28 (2677)، (تحفة الأشراف: 4644، 15536)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القسامة 1 (1)، مسند احمد (4/2، 3)، سنن الدارمی/الدیات 2 (2398) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: قسامہ یہ ہے کہ جب مقتول کی نعش کسی بستی یا محلہ میں ملے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو تو مقتول کے ورثہ کا جس پر گمان ہو اس پر پچاس قسمیں کھائیں کہ اس نے قتل کیا ہے اگر مقتول کے ورثہ قسم کھانے سے انکار کریں تو اہل محلہ میں سے جنہیں وہ اختیار کریں ان سے قسم لی جائے گی، اگر قسم کھا لیں تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں، اور قسم نہ کھانے کی صورت میں وہ دیت دیں، اور اگر نہ مقتول کے ولی قسم کھائیں، اور نہ ہی بستی یا محلہ والے تو سرکاری خزانہ سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائے گی، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: