احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

120: باب فِي الرَّجُلِ يَنْتَمِي إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ
باب: غلام اپنے آقا کو چھوڑ کر اپنی نسبت کسی اور سے کرے تو کیسا ہے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 5113
حدثنا النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا عاصم الاحول، قال: حدثني ابو عثمان، قال: حدثني سعد بن مالك، قال: سمعته اذناي، ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم، انه قال:"من ادعى إلى غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام", قال: فلقيت ابا بكرة فذكرت ذلك له، فقال: سمعته اذناي ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم، قال عاصم: فقلت: يا ابا عثمان، لقد شهد عندك رجلان ايما رجلين ؟ فقال: اما احدهما: فاول من رمى بسهم في سبيل الله او في الإسلام يعني سعد بن مالك، والآخر: قدم من الطائف في بضعة وعشرين رجلا على اقدامهم , فذكر فضلا، قال النفيلي: حيث حدث بهذا الحديث: والله إنه عندي احلى من العسل , يعني قوله: حدثنا , وحدثني، قال ابو علي: وسمعت ابا داود، يقول: سمعت احمد، يقول: ليس لحديث اهل الكوفة نور، قال: وما رايت مثل اهل البصرة كانوا تعلموه من شعبة.
سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر، اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو جنت اس پر حرام ہے۔ عثمان کہتے ہیں: میں سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا، تو انہوں نے بھی کہا: میرے کانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا، عاصم کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوعثمان تمہارے پاس دو آدمیوں نے اس بات کی گواہی دی، لیکن یہ دونوں صاحب کون ہیں؟ ان کی صفات و خصوصیات کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ایک وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں یا اسلام میں سب سے پہلے تیر چلایا یعنی سعد بن مالک رضی اللہ عنہ اور دوسرے وہ ہیں جو طائف سے بیس سے زائد آدمیوں کے ساتھ پیدل چل کر آئے پھر ان کی فضیلت بیان کی۔ نفیلی نے یہ حدیث بیان کی تو کہا: قسم اللہ کی! یہ حدیث میرے لیے شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے، یعنی ان کا «حدثنا وحدثني»  کہنا (مجھے بہت پسند ہے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد سے سنا ہے، وہ کہتے تھے: میں نے احمد کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل کوفہ کی حدیث میں کوئی نور نہیں ہوتا (کیونکہ وہ اسانید کو صحیح طریقہ پر بیان نہیں کرتے، اور اخبار و تحدیث کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے) اور کہا: میں نے اہل بصرہ جیسے اچھے لوگ بھی نہیں دیکھے انہوں نے شعبہ سے حدیث حاصل کی (اور شعبہ کا طریقہ اسناد کو اچھی طرح بتا دینے کا تھا)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي 56 (4326)، صحیح مسلم/الإیمان 27 (63)، سنن ابن ماجہ/الحدود 36 (2610)، (تحفة الأشراف: 3902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/169، 174، 179، 5/38، 46)، سنن الدارمی/السیر 83 (2572)، الفرائض 2 (2902) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: