احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
55: كتاب الزهد والرقائق
زہد اور رقت انگیز باتیں
صحيح مسلم حدیث نمبر: 7417
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني الدراوردي - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2956

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7418
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان، - يعني ابن بلال - عن جعفر، عن أبيه، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بالسوق داخلا من بعض العالية والناس كنفته فمر بجدى أسك ميت فتناوله فأخذ بأذنه ثم قال ‏"‏ أيكم يحب أن هذا له بدرهم ‏"‏ ‏.‏ فقالوا ما نحب أنه لنا بشىء وما نصنع به قال ‏"‏ أتحبون أنه لكم ‏"‏ ‏.‏ قالوا والله لو كان حيا كان عيبا فيه لأنه أسك فكيف وهو ميت فقال ‏"‏ فوالله للدنيا أهون على الله من هذا عليكم ‏"‏ ‏.‏
سلیمان بن بلال نے جعفر سے ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ کی ) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے ، لوگ آپ کے پہلو میں ( آپ کے ساتھ چل رہے ) تھے ۔ آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے ، آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا ، پھر فرمایا : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟ " توانھوں ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا : ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں ، ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا : " ( پھر ) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟ " انھوں ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی : اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا ، کیونکہ ( ایک تو ) یہ حقیر سے کانوں والا ہے ( بھلانہیں لگتا ) ۔ پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2957.01

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7419
حدثني محمد بن المثنى العنزي، وإبراهيم بن محمد بن عرعرة السامي، قالا حدثنا عبد الوهاب، - يعنيان الثقفي - عن جعفر، عن أبيه، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله غير أن في حديث الثقفي فلو كان حيا كان هذا السكك به عيبا ‏.‏
محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابراہیم بن محمد بن عروہ سامی نے مجھے حدیث بیان کی ، دونوں نے کہا : ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے جعفر ( صادق ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اپنے والد ( محمد باقر ) سے ، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی البتہ ثقفی کی روایت میں ہے : ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : ) اگریہ زندہ ہوتاتب بھی حقیر سے کانوں والا ہونا اس کاعیب تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2957.02

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7420
حدثنا هداب بن خالد، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن مطرف، عن أبيه، قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرأ ‏{‏ ألهاكم التكاثر‏}‏ قال ‏ "‏ يقول ابن آدم مالي مالي - قال - وهل لك يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت أو تصدقت فأمضيت ‏"‏ ‏.‏
ہمام ( بن یحییٰ بن دینار ) نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں قتادہ نے مطرف سے ، انھوں نے اپنے والد ( حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ( سورت ) أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُتلاوت فرمارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ابن آدم کہتا ہے میرا مال ، میرا مال ۔ " فرمایا " آدم علیہ السلام کے بیٹے!تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا ، یا پہن کر پُرانا کردیا ، یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2958.01

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7421
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، وقالا، جميعا حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا أبي كلهم، عن قتادة، عن مطرف، عن أبيه، قال انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فذكر بمثل حديث همام ‏.‏
شعبہ ، سعید ( بن ابی عروبہ ) اور ہشام سب نے قتادہ سے ، انھوں نے مطرف سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا ۔ ( آگے ) ہمام کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2958.02

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7422
حدثني سويد بن سعيد، حدثنا حفص بن ميسرة، عن العلاء، عن أبيه، عن أبي، هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يقول العبد مالي مالي إنما له من ماله ثلاث ما أكل فأفنى أو لبس فأبلى أو أعطى فاقتنى وما سوى ذلك فهو ذاهب وتاركه للناس ‏"‏ ‏.‏
حفص بن میسرو نے علاء ( بن عبدالرحمان ) سے ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بندہ کہتا ہے میرا مال ، میرا مال اس لیے تو اس کے مال سے صر ف تین چیزیں ہیں ۔ جو اس نے کھایا اور فنا کردیا ، جو پہنا اور بوسیدہ کردیا ، یاجو کسی کو دےکر آخرت کے لیے ) ذخیرہ کرلیا ۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے تو وہ ( بندہ جانے والا اور اس ( مال ) کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2959.01

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7423
وحدثنيه أبو بكر بن إسحاق، أخبرنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا مجھے علاء بن عبدالرحمان نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2959.02

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7424
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، وزهير بن حرب، كلاهما عن ابن عيينة، قال يحيى أخبرنا سفيان بن عيينة، عن عبد الله بن أبي بكر، قال سمعت أنس بن مالك، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يتبع الميت ثلاثة فيرجع اثنان ويبقى واحد يتبعه أهله وماله وعمله فيرجع أهله وماله ويبقى عمله ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن ابی بکر نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میت کے پیچھے تین چیزیں ہوتی ہیں ان میں سے دو لوٹ آتی ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتی ہے اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کا عمل اس کے پیچھے رہ جا تے ہیں ، گھر والے اور مال لوٹ آ تے ہیں اور عمل ساتھ رہ جاتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2960

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7425
حدثني حرملة بن يحيى بن عبد الله، - يعني ابن حرملة بن عمران التجيبي - أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، أن المسور بن مخرمة، أخبره أن عمرو بن عوف وهو حليف بني عامر بن لؤى وكان شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا عبيدة بن الجراح إلى البحرين يأتي بجزيتها وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو صالح أهل البحرين وأمر عليهم العلاء بن الحضرمي فقدم أبو عبيدة بمال من البحرين فسمعت الأنصار بقدوم أبي عبيدة فوافوا صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف فتعرضوا له فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم ثم قال ‏"‏ أظنكم سمعتم أن أبا عبيدة قدم بشىء من البحرين ‏"‏ ‏.‏ فقالوا أجل يا رسول الله قال ‏"‏ ‏"‏ فأبشروا وأملوا ما يسركم فوالله ما الفقر أخشى عليكم ‏.‏ ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بتایا کہ عمرو بن عوف جو بنی عامر کے حلیف تھے ، انھوں نے جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی ، انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جذیہ لے آئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل بحرین سے صلح کی تھی اور علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا تھا ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے آئے ، انصار نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی ، واپس ہوئے تو وہ ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے ہوئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرادیئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میرا خیال ہے کہ تم لوگوں نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں؟انھوں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بجا فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " خوش ہوجاؤ اور اس کی اُمید رکھو جس سے تمھیں خوشی ہوگی ۔ اللہ کی قسم! مجھےتم پرفقر کا خوف نہیں ( کہ تمھیں اس سے نقصان پہنچےگا ) لیکن مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ دنیا اسی طرح تم پر کشادہ کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی ۔ پھر تم اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جس طرح ان لوگوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا اور یہ تمھیں بھی تباہ کردےگی جس طرح اس نے ان کو تباہ کردیا تھا ۔ " ؎

صحيح مسلم حدیث نمبر:2961.01

صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7426
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، جميعا عن يعقوب بن إبراهيم، بن سعد حدثنا أبي، عن صالح، ح وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان أخبرنا شعيب، كلاهما عن الزهري، بإسناد يونس ومثل حديثه غير أن في حديث صالح ‏ "‏ وتلهيكم كما ألهتهم ‏"‏ ‏.‏
صالح اور شعیب دونوں نے زہری سے یونس کی سند کے ساتھ اس کی حدیث کے مانند روایت کی ، مگر صالح کی حدیث میں ہے : " اور یہ تمھیں بھی اس طرح لبھائے گی ( دنیا میں مگن اور آخرت سے غافل کردے گی ) جس طرح اس نے ان کو لبھایا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2961.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7427
حدثنا عمرو بن سواد العامري، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن، الحارث أن بكر بن سوادة، حدثه أن يزيد بن رباح - هو أبو فراس مولى عبد الله بن عمرو بن العاص - حدثه عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ إذا فتحت عليكم فارس والروم أى قوم أنتم ‏"‏ ‏.‏ قال عبد الرحمن بن عوف نقول كما أمرنا الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أو غير ذلك تتنافسون ثم تتحاسدون ثم تتدابرون ثم تتباغضون أو نحو ذلك ثم تنطلقون في مساكين المهاجرين فتجعلون بعضهم على رقاب بعض ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مولی یزید بن ابوفراس رباح نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی کہ آپ نے فرمایا : " جب روم اور فارس فتح ہوجائیں گے تو تم کس طرح کی قوم ہوگے؟ " حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ، ہم وہی بات کریں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " یا اس کے برعکس تم ( دنیا کے معاملے میں ) ایک دوسرے سے مقابلہ کروگے ، پھر ایک د وسرے کے حسد کرنے لگوگے ، پھر ایک دوسرے سے منہ موڑ لوگے پھر ایک دوسرے سے بغض میں مبتلا ہوجاؤ گے ۔ پھرمسلمین مہاجرین کے ہاں جاؤگے اور ان میں سے کچھ کو ( حاکم بنا کر ) دوسروں کی گردنوں پر مسلط کردو گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2962

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7428
حدثنا يحيى بن يحيى، وقتيبة بن سعيد، قال قتيبة حدثنا وقال، يحيى أخبرنا المغيرة بن عبد الرحمن الحزامي، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا نظر أحدكم إلى من فضل عليه في المال والخلق فلينظر إلى من هو أسفل منه ممن فضل عليه ‏"‏ ‏.‏
ابو زناد نے اعرج سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب تم میں سے کوئی شخص اس کی طرف دیکھے جسے مال اور جمال میں فضیلت حاصل ہے تو اس کو بھی دیکھے جو اس سے کمتر ہے ، جس پر ( خود ) اسے فضیلت حاصل ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2963.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7429
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث أبي الزناد سواء ‏.‏
معمر نے ہمام بن منبہ سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، بالکل ابو زناد کی حدیث کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2963.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7430
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو معاوية، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، - واللفظ له - حدثنا أبو معاوية، ووكيع، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ انظروا إلى من أسفل منكم ولا تنظروا إلى من هو فوقكم فهو أجدر أن لا تزدروا نعمة الله ‏"‏ ‏.‏ قال أبو معاوية ‏"‏ عليكم ‏"‏ ‏.‏
جریر ، ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے ، انھوں نے ابو صالح سے اورانھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اس کی طرف دیکھو جو ( مال ور جمال میں ) تم سے کمتر ہے ، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ، یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے ۔ "" ابو معاویہ نےکہا : "" ( وہ نعمت ) جو تم پر کی گئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2963.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7431
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا همام، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، حدثني عبد الرحمن بن أبي عمرة، أن أبا هريرة، حدثه أنه، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن ثلاثة في بني إسرائيل أبرص وأقرع وأعمى فأراد الله أن يبتليهم فبعث إليهم ملكا فأتى الأبرص فقال أى شىء أحب إليك قال لون حسن وجلد حسن ويذهب عني الذي قد قذرني الناس ‏.‏ قال فمسحه فذهب عنه قذره وأعطي لونا حسنا وجلدا حسنا قال فأى المال أحب إليك قال الإبل - أو قال البقر شك إسحاق - إلا أن الأبرص أو الأقرع قال أحدهما الإبل وقال الآخر البقر - قال فأعطي ناقة عشراء فقال بارك الله لك فيها - قال - فأتى الأقرع فقال أى شىء أحب إليك قال شعر حسن ويذهب عني هذا الذي قذرني الناس ‏.‏ قال فمسحه فذهب عنه وأعطي شعرا حسنا - قال - فأى المال أحب إليك قال البقر ‏.‏ فأعطي بقرة حاملا فقال بارك الله لك فيها - قال - فأتى الأعمى فقال أى شىء أحب إليك قال أن يرد الله إلى بصري فأبصر به الناس - قال - فمسحه فرد الله إليه بصره ‏.‏ قال فأى المال أحب إليك قال الغنم ‏.‏ فأعطي شاة والدا فأنتج هذان وولد هذا - قال - فكان لهذا واد من الإبل ولهذا واد من البقر ولهذا واد من الغنم ‏.‏ قال ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهيئته فقال رجل مسكين قد انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا أتبلغ عليه في سفري ‏.‏ فقال الحقوق كثيرة ‏.‏ فقال له كأني أعرفك ألم تكن أبرص يقذرك الناس فقيرا فأعطاك الله فقال إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر ‏.‏ فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت ‏.‏ قال وأتى الأقرع في صورته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد على هذا فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت ‏.‏ قال وأتى الأعمى في صورته وهيئته فقال رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي رد عليك بصرك شاة أتبلغ بها في سفري فقال قد كنت أعمى فرد الله إلى بصري فخذ ما شئت ودع ما شئت فوالله لا أجهدك اليوم شيئا أخذته لله فقال أمسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك ‏.‏
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نےکہا : مجھے عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے حدیث بیان کی ، انھیں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ، ایک کوڑھی سفید داغ والا ، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا ۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا ۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی ۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے ۔ ( راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے ) ۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے ۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے ۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی ۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی ۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری ۔ تو اس کو گابھن بکری ملی ۔ پھر ان دونوں ( اونٹنی اور گائے ) اور اس ( بکری ) نے بچے دئیے ۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا ، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں ، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے ( یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا ) ، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے ، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے ، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے ۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں ( یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں ) ۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے ، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا ۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے ۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا ۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا ، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں ، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں ، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے ۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر ، جس نے تجھے بینائی دی ، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے ۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے ( بینائی والی ) آنکھ دی ، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا ، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا ( یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا ) ۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو ، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے ۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2964

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7432
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعباس بن عبد العظيم، - واللفظ لإسحاق - قال عباس حدثنا وقال، إسحاق أخبرنا - أبو بكر الحنفي، حدثنا بكير بن مسمار، حدثني عامر بن سعد، قال كان سعد بن أبي وقاص في إبله فجاءه ابنه عمر فلما رآه سعد قال أعوذ بالله من شر هذا الراكب فنزل فقال له أنزلت في إبلك وغنمك وتركت الناس يتنازعون الملك بينهم فضرب سعد في صدره فقال اسكت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي ‏"‏ ‏.‏
بکیر بن مسمار نے کہا : مجھے عامر بن سعد نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے کہ ان کےبیٹےعمر ( بن سعد ) ان کے پاس آئے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا : میں اس سوار کے شرسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ اترے اور ان ( حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے کہا : آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ سلطنت کے بارے میں باہم لڑرہے ہیں ( آپ کبھی اپناحصہ مانگیں ) حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا : خاموش رہو!میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے ، " اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو ، غنی ہو ، گم نام ( گوشہ نشیں ) ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2965

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7433
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا المعتمر، قال سمعت إسماعيل، عن قيس، عن سعد، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي وابن، بشر قالا حدثنا إسماعيل، عن قيس، قال سمعت سعد بن أبي وقاص، يقول والله إني لأول رجل من العرب رمى بسهم في سبيل الله ولقد كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام نأكله إلا ورق الحبلة وهذا السمر حتى إن أحدنا ليضع كما تضع الشاة ثم أصبحت بنو أسد تعزرني على الدين لقد خبت إذا وضل عملي ولم يقل ابن نمير إذا ‏.‏
معمر عبد اللہ بن نمیر اور ابن بشر نے کہا : ہمیں اسماعیل بن قیس نے حدیث سنائی ، کہا : میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ کی قسم !میں عربوں میں سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیرچلایاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس طرح جنگیں لڑتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کو خاردار درخت کے پتوں اور اس کیکر ( کےپتوں ) کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ قم میں سے کوئی بکری کی مینگنیوں کی طرح پاخانہ کرتا تھا پھر اب بنو اسد کے لوگ دین کے معاملے میں میری تادیب کرنے لگےہیں ! ( اگر اب میں دین سے اس قدر نابلد ہو گیا ہوں ) تب تو میں بالکل ناکام ہو گیا اور میرےعمل ضائع ہو گئے ۔ اور ابن نمیر نے اپنی روایت میں " تب تو " نہیں کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2966.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7434
وحدثناه يحيى بن يحيى، أخبرنا وكيع، عن إسماعيل بن أبي خالد، بهذا الإسناد وقال حتى إن كان أحدنا ليضع كما تضع العنز ما يخلطه بشىء ‏.‏
وکیع نے اسماعیل بن ابی خالد سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا : یہاں تک کہ ہم سے ایک بکرے کی ( مینگنیوں کی ) طرح کا پاخانہ کرتا تھا جس میں اور کچھ ( کسی اور کھانے کا کو ئی حصہ جو اسے پاخانہ کی شکل سے ) ملا ہوا نہیں ہو تا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2966.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7435
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد بن هلال، عن خالد بن عمير العدوي، قال خطبنا عتبة بن غزوان فحمد الله وأثنى عليه ثم قال أما بعد فإن الدنيا قد آذنت بصرم وولت حذاء ولم يبق منها إلا صبابة كصبابة الإناء يتصابها صاحبها وإنكم منتقلون منها إلى دار لا زوال لها فانتقلوا بخير ما بحضرتكم فإنه قد ذكر لنا أن الحجر يلقى من شفة جهنم فيهوي فيها سبعين عاما لا يدرك لها قعرا ووالله لتملأن أفعجبتم ولقد ذكر لنا أن ما بين مصراعين من مصاريع الجنة مسيرة أربعين سنة وليأتين عليها يوم وهو كظيظ من الزحام ولقد رأيتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام إلا ورق الشجر حتى قرحت أشداقنا فالتقطت بردة فشققتها بيني وبين سعد بن مالك فاتزرت بنصفها واتزر سعد بنصفها فما أصبح اليوم منا أحد إلا أصبح أميرا على مصر من الأمصار وإني أعوذ بالله أن أكون في نفسي عظيما وعند الله صغيرا وإنها لم تكن نبوة قط إلا تناسخت حتى يكون آخر عاقبتها ملكا فستخبرون وتجربون الأمراء بعدنا ‏.‏
شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث بیان کی کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حمید بن بلال نے خالد بن عمیر عدوی سے حدیث بیان کی انھوں نے کہا : ایک دن ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بصرہ کےعامل ) حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر کہا : حمدو ثنا کے بعد بے شک یہ دنیا خاتمے کے قریب ہو گئی ہے اور اس ( کی مہلت ) میں سے تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے جس طرح برتن کے آخری قطرےہوتے ہیں جنھیں برتن والا انڈیل رہا ہوتا ہے اور تم اس دنیا سے اس گھر کی طرف منتقل ہو رہے ہو جس پر زوال نہیں آئے گا ۔ جو تمھارے پاس ہے اس میں سے بہتر ین متاع کے ساتھ آگے جاؤ ۔ کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جاتا ہے تو وہ وہ سترسال گرتا رہتا ہے ۔ اس کی تہ تک نہیں پہنچتا ۔ اور اللہ کی قسم!یہ ( جہنم ) پوری طرح بھر جائے گی ۔ کیا تمھیں اس پر تعجب ہے؟اور ہمیں بتا یا گیا کہ جنت کے کواٹروں میں سے دو کواٹروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے اور اس پر ایک دن آئے گا جب وہ ازدحام کے سبب تنگ پڑجائے گا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ایمان لانے والے ) سات لوگوں میں سے ساتواں میں تھا ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کو ئی چیز نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں ۔ میں نے ایک چادر اٹھائی تو اسے اپنے اور سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کرلیا آدھی میں نے کمر پر باندھی اور آدھی سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اب ہم میں سے ہر کوئی شہروں میں سے کسی شہر کا امیر بن گیا ہے ۔ میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے دل میں بڑا اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہو جاؤں اور کبھی کوئی نبوت نہیں تھی ۔ مگر ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ اس کا پچھلا حصہ بادشاہت میں بدل گیا ۔ جلد ہی تمھیں ( اس کا ) پتہ چل جائے گا اور ہمارےبعد کے امیروں کا ( بھی تم لوگ خود ) تجربہ کر لو گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2967.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7436
وحدثني إسحاق بن عمر بن سليط، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد بن، هلال عن خالد بن عمير، وقد أدرك الجاهلية قال خطب عتبة بن غزوان وكان أميرا على البصرة ‏.‏ فذكر نحو حديث شيبان ‏.‏
اسحٰق بن عمر بن سلیط نے مجھے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی کہا : ہمیں حمید بن بلال نے خالد بن عمیر سے جنھوں نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا روایت کی کہا : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا وہ اس وقت بصرہ کے امیرتھے ۔ ( آگے ) شیبان کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2967.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7437
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا وكيع، عن قرة بن خالد، عن حميد، بن هلال عن خالد بن عمير، قال سمعت عتبة بن غزوان، يقول لقد رأيتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما طعامنا إلا ورق الحبلة حتى قرحت أشداقنا ‏.‏
قرہ بن خالد نے حمید بلال سے اور انھوں نے خالد بن عمیر سے روایت کی ، کہا : میں نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے ، میں نے دیکھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ایمان لانے والے ) سات لوگوں میں سے ساتواں شخص تھا خاردار درختوں کے پتوں کے سوا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2967.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7438
حدثنا محمد بن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة قال ‏"‏ هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا ‏.‏ قال ‏"‏ فهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا ‏.‏ قال ‏"‏ فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم إلا كما تضارون في رؤية أحدهما - قال - فيلقى العبد فيقول أى فل ألم أكرمك وأسودك وأزوجك وأسخر لك الخيل والإبل وأذرك ترأس وتربع فيقول بلى ‏.‏ قال فيقول أفظننت أنك ملاقي فيقول لا ‏.‏ فيقول فإني أنساك كما نسيتني ‏.‏ ثم يلقى الثاني فيقول أى فل ألم أكرمك وأسودك وأزوجك وأسخر لك الخيل والإبل وأذرك ترأس وتربع فيقول بلى أى رب ‏.‏ فيقول أفظننت أنك ملاقي فيقول لا ‏.‏ فيقول فإني أنساك كما نسيتني ‏.‏ ثم يلقى الثالث فيقول له مثل ذلك فيقول يا رب آمنت بك وبكتابك وبرسلك وصليت وصمت وتصدقت ‏.‏ ويثني بخير ما استطاع فيقول ها هنا إذا - قال - ثم يقال له الآن نبعث شاهدنا عليك ‏.‏ ويتفكر في نفسه من ذا الذي يشهد على فيختم على فيه ويقال لفخذه ولحمه وعظامه انطقي فتنطق فخذه ولحمه وعظامه بعمله وذلك ليعذر من نفسه ‏.‏ وذلك المنافق وذلك الذي يسخط الله عليه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : انھوں نے ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی ، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے ۔ ؟ "" انھوں ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا : نہیں آپ نے فرمایا : "" چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟ "" انھوں نے ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا : نہیں آپ نے فرمایا : "" مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ !تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے ۔ "" آپ نے فرمایا : "" وہ ( رب ) بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا ۔ اے فلاں !کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی ، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے ؟وہ جواب میں کہے گا ۔ کیوں نہیں ! ( بالکل ایسا ہی تھا ۔ ) تو وہ فرمائے گا ۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا ۔ نہیں ۔ تووہ فرمائے گا ۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا ۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا ۔ اے فلاں !کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے ۔ اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے ۔ ؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا ۔ تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا ۔ نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے ۔ پھر تیسرے سے ملے گا ۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا ۔ وہ کہے گا ۔ اے میرے رب !میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا ( اپنی نیکی کی ) تعریف کرے گا ، چنانچہ وہ فرمائے گا ۔ تب تم یہیں ٹھہرو ۔ فرمایا : پھر اس سے کہا جا ئے گا ۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے ۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا ۔ ؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا ۔ بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی ۔ یہ ( اس لیے ) کہا جا ئے گا کہ وہ ( اللہ ) اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے ۔ اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2968

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7439
حدثنا أبو بكر بن النضر بن أبي النضر، حدثني أبو النضر، هاشم بن القاسم حدثنا عبيد الله الأشجعي، عن سفيان الثوري، عن عبيد المكتب، عن فضيل، عن الشعبي، عن أنس بن مالك، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فضحك فقال ‏"‏ هل تدرون مم أضحك ‏"‏ ‏.‏ قال قلنا الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ من مخاطبة العبد ربه يقول يا رب ألم تجرني من الظلم قال يقول بلى ‏.‏ قال فيقول فإني لا أجيز على نفسي إلا شاهدا مني قال فيقول كفى بنفسك اليوم عليك شهيدا وبالكرام الكاتبين شهودا - قال - فيختم على فيه فيقال لأركانه انطقي ‏.‏ قال فتنطق بأعماله - قال - ثم يخلى بينه وبين الكلام - قال - فيقول بعدا لكن وسحقا ‏.‏ فعنكن كنت أناضل ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( بیٹھے ہوئے ) تھے کہ آپ ہنس پڑے پھر آپ نے پوچھا : " کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہو ں ؟ " ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : " مجھے بندے کی اپنے رب کے ساتھ کی کئی بات پر ہنسی آتی ہے وہ کہے گا ۔ اے میرے رب!کیا تونے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : وہ فرمائے گا ۔ کیوں نہیں !فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی ( کی گواہی ) کو جائز قرار نہیں دیتا ۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہواور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی ۔ اور اس کے ( اپنے ) اعضاء سے کہا جائے گا ۔ بولو ، فرمایا : تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور ( اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور ( اس کے اعضاء کے ) بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا ۔ فرمایا : تو ( ان کی گواہی سن کر ) وہ کہے گا دورہوجاؤ ، میں تمھاری طرف سے ( دوسروں کے ساتھ ) لڑا کرتا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2969

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7440
حدثني زهير بن حرب، حدثنا محمد بن فضيل، عن أبيه، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا ‏"‏ ‏.‏
ابو زرعہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دعا کرتے ہوئے ) فرمایا : " اے اللہ !محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروالوں کے رزق کو زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1055.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7441
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وزهير بن حرب، وأبو كريب قالوا حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية عمرو ‏"‏ اللهم ارزق ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ عمروناقد زہیر بن حرب اور ابو کریب نے کہا : ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا : ہمیں اعمش نے عمار ہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ !آل محمد کا رزق زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے ۔ "" اور عمرو کی روایت میں ہے : "" اے اللہ! ( آل محمدکو زندگی برقرار رکھنے جتنا ) رزق دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1055.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7442
وحدثناه أبو سعيد الأشج، حدثنا أبو أسامة، قال سمعت الأعمش، ذكر عن عمارة، بن القعقاع بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ كفافا ‏"‏ ‏.‏
ابو اسامہ نے کہا : میں نے اعمش سے سنا انھوں نے عمارہ بن قعقاع سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا : " بقدرکفایت ( کردے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1055.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7443
حدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال، زهير حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت ما شبع آل محمد صلى الله عليه وسلم منذ قدم المدينة من طعام بر ثلاث ليال تباعا حتى قبض ‏.‏
منصور نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جب سے آپ مدینہ آئے آپ کی وفات تک کبھی تین راتیں مسلسل گندم کی روٹی سیرہو کرنہیں کھائی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2970.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7444
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب وإسحاق بن إبراهيم قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت ما شبع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام تباعا من خبز بر حتى مضى لسبيله ‏.‏
اعمش نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہا : رسول اللہ نے کبھی متواتر تین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اپنی راہ پر روانہ ہو گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2970.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7445
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت عبد الرحمن بن يزيد، يحدث عن الأسود، عن عائشة، أنها قالت ما شبع آل محمد صلى الله عليه وسلم من خبز شعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عبد الرحمان بن یزید نے ہمیں اسود سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نےکہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کبھی دودن متواتر جوکی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2970.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7446
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، عن أبيه، عن عائشة، قالت ما شبع آل محمد صلى الله عليه وسلم من خبز بر فوق ثلاث ‏.‏
عابس نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے تین دن سے زیادہ کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھا ئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2970.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7447
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ ثَلَاثًا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ
حفص بن غیاث نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انھو ں نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کبھی تین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی کھائی یہاں تک کہ آپ اپنی راہ پر روانہ ہو گئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7448
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ إِلَّا وَأَحَدُهُمَا تَمْرٌ
بلال بن حمید نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مسلسل دو دن گندم کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھا ئی مگر دو دنوں میں سے ایک دن کھجورہوتی تھی ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7449
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ وَيَحْيَى بْنُ يَمَانٍ حَدَّثَنَا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ
یحییٰ بن یمان نے کہا : ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے اپنے والد سے اورانھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا : ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک اس حالت میں رہتے تھے کہ آگ نہیں جلاتے تھے بس کھجوراور پانی پر گزرہوتی تھی ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7450
و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِنْ كُنَّا لَنَمْكُثُ وَلَمْ يَذْكُرْ آلَ مُحَمَّدٍ وَزَادَ أَبُو كُرَيْبٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ ابْنِ نُمَيْرٍ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَنَا اللُّحَيْمُ
بو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا : ہمیں ابو اسامہ اور ابن نمیر نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، ہم لوگ اسی حالت میں رہتے تھے ۔ اورانھوں نے " آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم " کا ذکر نہیں کیا ۔ اور ابو کریب نے ابن نمیر سے مروی اپنی حدیث میں مزید کہا : : الایہ کہ ہمارے پاس ( کہیں سے ) تھوڑا سا گوشت آجاتا ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7451
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِي رَفِّي مِنْ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَطْرُ شَعِيرٍ فِي رَفٍّ لِي فَأَكَلْتُ مِنْهُ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور میرے طاقچےمیں کسی جگر رکھنے والے ( ذی روح ) کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کےسواکچھ نہ تھا میں اس میں سے ( پکا کر ) کھاتی رہی یہاں تک کہ بہت دن گزرگئے ( ایک دن ) میں نے ان کو ماپ لیاتو وہ ختم ہوگئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7452
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ وَاللَّهِ يَا ابْنَ أُخْتِي إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ ثُمَّ الْهِلَالِ ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ وَمَا أُوقِدَ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ قَالَ قُلْتُ يَا خَالَةُ فَمَا كَانَ يُعَيِّشُكُمْ قَالَتْ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ فَكَانُوا يُرْسِلُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهَا فَيَسْقِينَاهُ
یزید بن رومان نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ آپ بتایا کرتی تھیں : اللہ کی قسم! میرے بھانجے !ہم ایک دفعہ پہلی کا چاند دیکھتے پھر ( اگلے مہینے ) پہلی کا چاند دیکھتے دومہینوں میں تین دفعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں میں چولہا نہ جلا ہو تا ۔ ( عروہ نے ) کہا : میں نے پوچھا خالہ تو آپ کی گزران کے لیے کون سی چیز ہوتی ؟انھوں نے کہا : وہ کالی چیزیں کھجور اور پانی البتہ انصار میں سے کچھ ( گھرانے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے اور انھیں دودھ دینے والی اونٹیناں ملی ہوئی تھیں ۔ وہ ان کے دودھ میں سے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں پلادیتے تھے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7453
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ح و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَقَدْ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَزَيْتٍ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ
عروہ بن زبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئےاور آپ کبھی ایک دن میں دوبار روٹی اور زیتون کے تیل سے سیر نہیں ہو ئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7454
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَكِّيُّ الْعَطَّارُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أُمِّهِ عَنْ عَائِشَةَ ح و حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَجَبِيُّ عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ شَبِعَ النَّاسُ مِنْ الْأَسْوَدَيْنِ التَّمْرِ وَالْمَاءِ
داؤد بن عبد الرحمٰن عطاء نے ہمیں خبر دی کہا : مجھے منصور بن عبد الرحمٰن یحییٰ نے اپنی والدہ صفیہ سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہا : جب لوگ دو سیاہ چیزیں کھجور اور پانی سے سیر ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7455
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ عَنْ أُمِّهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَبِعْنَا مِنْ الْأَسْوَدَيْنِ الْمَاءِ وَالتَّمْرِ
عبد الرحمٰن ( بن مہدی ) نے ہمیں سفیان ( ثوری ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے منصور بن صفیہ سے انھوں نے اپنی والدہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہو گئی اور ہم دو سیاہ چیزوں پانی اور کھجورسے سیر ہونے لگے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7456
و حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ ح و حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ كِلَاهُمَا عَنْ سُفْيَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمَا عَنْ سُفْيَانَ وَمَا شَبِعْنَا مِنْ الْأَسْوَدَيْنِ
( عبید اللہ بن عبد الرحمٰن ) اشجعی اور ابو احمد دونوں نے سفیان سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی مگر ان دونوں کی سفیان سے مروی حدیث میں ہے ۔ ( آپ تشریف لے گئے ) جبکہ ( ابھی ) ہم دوسیاہ چیزیں ( پانی اور کھجور ) بھی پیٹ بھر کے نہیں کھاتے تھے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7457
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِيَانِ الْفَزَارِيَّ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ و قَالَ ابْنُ عَبَّادٍ وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ مَا أَشْبَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ حِنْطَةٍ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا
محمد بن عباد اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں مروان فزاری نے یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابو حازم سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جبکہ ابن عباد نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے! ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے گھروالوں کو تین لگاتار گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھلائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7458
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ قَالَ رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ مِرَارًا يَقُولُ وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ مَا شَبِعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ حِنْطَةٍ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا
یحییٰ بن سعید نے ہمیں یزید بن کیسان سے حدیث بیان کی ، انھوں نےکہا : مجھے حازم نے حدیث بیان کی کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کئی بار دیکھا وہ انگلی سے اشارہ کرتے تھے کہتے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے !اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھروالوں نے کبھی لگاتار تین دن گندم کی روٹی سیر ہوکر نہیں کھائی تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7459
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنْ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ وَقُتَيْبَةُ لَمْ يَذْكُرْ بِهِ
قتیبہ بن سعید اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں ابو احوص نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : کیا تم لوگوں کو اپنی مرضی کا کھانا اور پینا میسر نہیں ؟میں نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ کے پاس روٹی کھجور بھی اتنی نہیں ہو تی تھی جس سے آپ اپنا پیٹ بھر لیں ۔ اور قتیبہ نےبہ ( جس سے ) کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7460
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ كِلَاهُمَا عَنْ سِمَاكٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَزَادَ فِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ وَمَا تَرْضَوْنَ دُونَ أَلْوَانِ التَّمْرِ وَالزُّبْدِ
زہیر اور اسرائیل دونوں نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مطابق حدیث بیان کی اور زہیر کی حدیث میں مزید ہے اور تم کھجوروں اور مکھن کی کئی قسموں کے بغیر راضی نہیں ہوتے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7461
و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يَخْطُبُ قَالَ ذَكَرَ عُمَرُ مَا أَصَابَ النَّاسُ مِنْ الدُّنْيَا فَقَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَظَلُّ الْيَوْمَ يَلْتَوِي مَا يَجِدُ دَقَلًا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ
شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہا : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں نے دنیا میں سے کیا کچھ حاصل کر لیاہے ۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ پورا دن بھوک لوٹتے تھے اور آپ کو سوکھی ہوئی اتنی سخت کھجور بھی میسر نہ ہوتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7462
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَلَسْنَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ أَلَكَ امْرَأَةٌ تَأْوِي إِلَيْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ أَلَكَ مَسْكَنٌ تَسْكُنُهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْتَ مِنْ الْأَغْنِيَاءِ قَالَ فَإِنَّ لِي خَادِمًا قَالَ فَأَنْتَ مِنْ الْمُلُوكِ
ابو ہانی نے ابو عبد الرحمٰن کو کہتے ہوئے سنا : میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ان سے کسی آدمی نے پوچھا تھا کیا : ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا : کیا تمھاری بیوی ہے جس کے پاس تم آرام کرنے کے لیے جاتے ہو ۔ " اس نے کہا : ہاں پوچھا : کیا تمھارے پاس رہائش گاہ ہےجہاں تم رہتے ہو؟ اس نے کہا : میرے پاس تو خادم ( بھی ) ہے کہا : پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7463
قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالُوا يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ لَا نَفَقَةٍ وَلَا دَابَّةٍ وَلَا مَتَاعٍ فَقَالَ لَهُمْ مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا قَالُوا فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا
ابو عبد الرحمان نے کہا : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تین شخص آئے جبکہ میں ان کے ہاں تھا وہ کہنے لگے : ابو محمد !اللہ کی قسم! ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے نہ خرچ نہ سواری اور نہ اور نہ سامان ( وہ لوگ واقعتاًفقیر تھے ) حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا : تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم پسند کرو تو دوبارہ ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ جو تمھارےلیے مہیاکرے گا ہم تمھیں دے دیں گے ۔ اگر چاہو تو ہم تمھاراذکر بااختیار حاکم کے پاس کردیں گے ۔ ( وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا ) اور اگر تم چاہو تو صبر کرومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " بے شک ہجرت کر کے آنے والے فقیر قیامت کے روز اغنیاء کی نسبت چالیس سال پہلے جنت میں جا ئیں گے ۔ ان ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا : ہم صبر کریں گے ۔ کوئی چیز نہیں مانگیں گے ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7464
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر، جميعا عن إسماعيل، قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل بن جعفر، أخبرني عبد الله بن دينار، أنه سمع عبد الله، بن عمر يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحاب الحجر ‏ "‏ لا تدخلوا على هؤلاء القوم المعذبين إلا أن تكونوا باكين فإن لم تكونوا باكين فلا تدخلوا عليهم أن يصيبكم مثل ما أصابهم ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن دینار نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجرکے متعلق فرمایا : " ان عذاب دیے گئے لوگوں کے ہاں ( ان کے گھروں میں داخل نہ ہو نا مگر اس صورت میں کہ تم ( اللہ کےغضب کے ڈرسے ) رورہے ہو ۔ اگر تم رو نہیں رہے ہوتو ان کے ہاں داخل نہ ہونا ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آجا ئے جو ان پر آیاتھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2980.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7465
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، - وهو يذكر الحجر مساكن ثمود - قال سالم بن عبد الله إن عبد الله بن عمر قال مررنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الحجر فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين حذرا أن يصيبكم مثل ما أصابهم ‏"‏ ‏.‏ ثم زجر فأسرع حتى خلفها ‏.‏
سالم بن عبد اللہ نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر ( قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستی ) کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : " جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گا ہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو ۔ ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا " پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2980.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7466
حدثني الحكم بن موسى أبو صالح، حدثنا شعيب بن إسحاق، أخبرنا عبيد الله، عن نافع، أن عبد الله بن عمر، أخبره أن الناس نزلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الحجر أرض ثمود فاستقوا من آبارها وعجنوا به العجين فأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يهريقوا ما استقوا ويعلفوا الإبل العجين وأمرهم أن يستقوا من البئر التي كانت تردها الناقة ‏.‏
شعیب بن اسحٰق نے کہا : ہمیں عبید اللہ نے نافع سے خبر دی انھیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ( سفر کرنے والے لوگ سرزمین ثمود حجر میں اتر گئے اور وہاں کے کنوؤں سے پانی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آٹا ( بھی ) گوندھ لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیاکہ انھوں نے جو پانی بھراہے وہ بہادیں اورگندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور ان سے کہا : کہ وہ اس کنویں سے پانی حاصل کریں جہاں ( حضرت صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ) اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2981.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7467
وحدثنا إسحاق بن موسى الأنصاري، حدثنا أنس بن عياض، حدثني عبيد الله، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله غير أنه قال فاستقوا من بئارها واعتجنوا به ‏.‏
انس بن عیاض نے کہا : مجھے عبید اللہ نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی ، مگر انھوں نے ( الفاظ کی تبدیلی سے ) کہا : فاستقوا من بئارها واعتجنوا به ( معنی میں کوئی فرق نہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2981.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7468
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا مالك، عن ثور بن زيد، عن أبي الغيث، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ الساعي على الأرملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله - وأحسبه قال - وكالقائم لا يفتر وكالصائم لا يفطر ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن مسلمہ بن قعنب نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ثور بن زید سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابو غیث سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : " بیوہ اورمسکین کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ اور میرا ( عبد اللہ بن مسلمہ کا ) خیال ہے کہ انھوں ( مالک رحمۃ اللہ علیہ ) نے کہا : وہ ( اللہ کے سامنے ) اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو وقفہ کرتا ہے نہ تھکتا ہے اور اس روزے دار کی طرح ہے جو روزہ نہیں چھوڑتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2982

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7469
حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسحاق بن عيسى، حدثنا مالك، عن ثور بن زيد، الديلي قال سمعت أبا الغيث، يحدث عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كافل اليتيم له أو لغيره أنا وهو كهاتين في الجنة ‏"‏ ‏.‏ وأشار مالك بالسبابة والوسطى ‏.‏
اسحٰق بن عیسیٰ نے کہا : ہمیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نےثور بن یزید سے حدیث بیان کی انھوں نے کہا : میں نے ابو غیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یتیم کی پرورش کرنے والا اس کا اپنا ( رشتہ دار ) ہو یا غیر ہو میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ " پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انگشت شہادت اور درمیان انگلی ( کو ملاکر اس ) کے ساتھ اشارہ کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2983

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7470
حدثني هارون بن سعيد الأيلي، وأحمد بن عيسى، قالا حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو، - وهو ابن الحارث - أن بكيرا، حدثه أن عاصم بن عمر بن قتادة حدثه أنه، سمع عبيد الله الخولاني، يذكر أنه سمع عثمان بن عفان، عند قول الناس فيه حين بنى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم إنكم قد أكثرتم وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من بنى مسجدا - قال بكير حسبت أنه قال - يبتغي به وجه الله بنى الله له مثله في الجنة ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية هارون ‏"‏ بنى الله له بيتا في الجنة ‏"‏ ‏.‏
ہارون بن سعید ایلی اور احمد بن عیسیٰ نے مجھے حدیث بیان کی ، دونوں نے کہا : ہمیں ( عبد اللہ ) ابن وہب نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے عمرو بن حارث نے بتایا کہ بکیر نے انھیں حدیث بیان کی ، انھیں عاصم بن عمربن قتادہ نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عبید اللہ خولانی کو بیان کرتے ہوئے سناکہ کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی تعمیر ( نو ) کے وقت لوگوں نے ان کو باتیں کیں سنا ( وہ کہہ رہے تھے ) تم لوگوں نے بہت باتیں کی ہیں جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناتھا : " جس نے مسجد کی تعمیر کی ۔ بکیر نے کہا : میراخیال ہے کہ انھوں ( عاصم ) نے یہ جملہ بھی کہا : ۔ اس سے وہ اللہ کی رضا چاہتا ہے تو اللہ اس کے لیے جنت میں اس جیسا ( گھر ) بنائے گا ۔ اور ہارون کی روایت میں ہے : " اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:533.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7471
حدثنا زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، كلاهما عن الضحاك، - قال ابن المثنى حدثنا الضحاك بن مخلد، - أخبرنا عبد الحميد بن جعفر، حدثني أبي، عن محمود بن لبيد، أن عثمان بن عفان، أراد بناء المسجد فكره الناس ذلك وأحبوا أن يدعه على هيئته فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من بنى مسجدا لله بنى الله له في الجنة مثله ‏"‏ ‏.‏
ضحاک بن مخلد نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں عبد الحمید بن جعفر نے خبر دی کہا : ہمیں میرے والد نے محمود بن لبید سے حدیث بیان کی کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد بنانے کا ارداہ کیا تو لوگوں نے اس کو ناپسند کیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس ( مسجد ) کو اس کی اصل حالت پر رہنے دیا جائے تو انھوں ( عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں اس کے مانند گھر بنائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:533.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7472
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، حدثنا أبو بكر الحنفي، وعبد الملك بن، الصباح كلاهما عن عبد الحميد بن جعفر، بهذا الإسناد غير أن في، حديثهما ‏ "‏ بنى الله له بيتا في الجنة ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر حنفی اور عبدالملک بن صباح دونوں نے عبد الحمید بن جعفر سے اسی سند کے ساتھ خبر دی مگر ان دونوں کی حدیث میں ہے ۔ " اللہ اس کے لیے جنت میں گھربنائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:533.05

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7473
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن وهب بن كيسان، عن عبيد بن عمير، الليثي عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ بينا رجل بفلاة من الأرض فسمع صوتا في سحابة اسق حديقة فلان ‏.‏ فتنحى ذلك السحاب فأفرغ ماءه في حرة فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله فتتبع الماء فإذا رجل قائم في حديقته يحول الماء بمسحاته فقال له يا عبد الله ما اسمك قال فلان ‏.‏ للاسم الذي سمع في السحابة فقال له يا عبد الله لم تسألني عن اسمي فقال إني سمعت صوتا في السحاب الذي هذا ماؤه يقول اسق حديقة فلان لاسمك فما تصنع فيها قال أما إذا قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها فأتصدق بثلثه وآكل أنا وعيالي ثلثا وأرد فيها ثلثه ‏"‏ ‏.‏
یزید بن ہارون نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں عبد العزیز بن ابو سلمہ نے وہب بن کیسان سے خبر دی انھوں نے عبید بن عمیر لیثی سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور نھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : " ایک دفعہ ایک شخص زمین میں ایک صحرائی ٹکڑے پر کھڑاتھا ۔ اس نے ایک بادل میں آوازسنی : " فلاں کے باغ کو سیراب کرو ۔ " وہ بادل ایک جانب بنا اور ایک پتھریلی زمین میں اپناپانی انڈیل دیا ۔ پانی کے بہاؤوالی ندیوں میں سے ایک ندی نے وہ ساراپانی اپنے اندر لے لیا ۔ وہ شخص پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو وہاں ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی کا رخ ( اپنے باغ کی طرف ) پھیررہا ہے ۔ اس نے اس سے کہا : اللہ کےبندے !تمھارا نام کیا ہے؟اس نے کہا : فلاں وہی نام جو اس نے بادل میں سنا تھا ۔ اس ( آدمی ) نے اس سے کہا : اللہ کے بندے!تم نے مجھ سے میرانام کیوں پوچھا ہے؟اس نے کہا : میں نے اس بادل میں جس کا یہ پانی ہے ( کسی کو ) یہ کہتے سناتھا ۔ فلاں کے باغ کو سیراب کرو تمھارا نام لیا تھا ۔ تم اس میں کیا کرتے ہو ۔ " اس نے جواب دیا تم نے یہ بات کہہ دی ہے تو میں ( تمھیں بتادیتا ہوں ) اس باغ سے جو کچھ حاصل ہوتا ہےمیں اس پر نظر ڈال کر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں ایک تہائی میں اور میرے گھروالے کھاتے ہیں ۔ اور ایک تہائی اسی ( باغ کی دیکھ بھال ) میں لگادیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2984.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7474
وحدثناه أحمد بن عبدة الضبي، أخبرنا أبو داود، حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، حدثنا وهب بن كيسان، بهذا الإسناد غير أنه قال ‏ "‏ وأجعل ثلثه في المساكين والسائلين وابن السبيل ‏"‏ ‏.‏
ابو داود نے ہمیں خبر دی ہمیں عبد العزیز بن ابی سلمہ نے حدیث بیان کی انھوں نےکہا : ہمیں وہب بن کیسان نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی مگر انھوں نے ( اس طرح ) کہا : اس کا ایک تہائی مسکینوں سوال کرنے والوں اور مسافر کے لیے مختص کردیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2984.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7475
حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، أخبرنا روح بن القاسم، عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ قال الله تبارك وتعالى أنا أغنى الشركاء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں ۔ جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کوشریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلاچھوڑدیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2985

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7476
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثني أبي، عن إسماعيل بن سميع، عن مسلم، البطين عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من سمع سمع الله به ومن راءى راءى الله به ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو شخص ( اپناعمل لوگوں کو ) سناتا ہے اللہ اس کے بارے میں ( ہونے والا فیصلہ ) لوگوں کو سنائے گا ( اور اسے رسواکرے گا ) اور جو ( لوگوں کو ) دکھاتا پھرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں لوگوں کو دکھا دے گا ۔ ( کہ اس کا انجام کیا ہوا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2986

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7477
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سلمة بن كهيل، قال سمعت جندبا العلقي، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من يسمع يسمع الله به ومن يرائي يرائي الله به ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے سفیان سے اور انھوں نے سلمہ بن کُہیل روایت کی ۔ انھوں نے کہا : میں نے حضرت جندب علقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو شخص ( لوگوں کو ) سناتاہے اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ( سب کو ) سنوائےگا اور جو ( اپناعمل ) لوگوں کو دکھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں لوگوں کو دکھائےگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2987.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7478
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا الملائي، حدثنا سفيان، بهذا الإسناد وزاد ولم أسمع أحدا غيره يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ملائی نے کہا : ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث کی ، اور مزید کہا : اور میں ( سلمہ بن کُہیل ) نے ( اس حدیث میں ) ان کے سواکسی کو ( صراحت سے ) یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2987.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7479
حدثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، أخبرنا سفيان، عن الوليد بن حرب، - قال سعيد أظنه قال ابن الحارث بن أبي موسى - قال سمعت سلمة بن كهيل، قال سمعت جندبا، - ولم أسمع أحدا يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم غيره - يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بمثل حديث الثوري ‏.‏
سعید بن عمر واشعشی نے کہا : ہمیں سفیان نے ولید بن حرب ۔ سعیدنے کہا : میراخیال ہے انھوں ( سفیان ) نے کہا : ( ولید ) ابن حارث بن ابی موسیٰ ۔ سے روایت کی انھوں نے کہا : میں نے سلمہ بن کُہیل سے سنا انھوں نے کہا : میں نے حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اور کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے ، وہ کہتے ہیں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ( آگے ) جس طرح ( سفیان ) چوری کی حدیث ( 7478 ) میں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2987.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7480
وحدثناه ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الصدوق الأمين الوليد بن حرب، بهذا الإسناد ‏.‏
اور یہی حدیث ہمیں ابن ابی عمر نے بیان کی کہا : ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی کہا : ہمیں سچے امانتدار شخص ولید بن حرب نے اسی سند کے ساتھ روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2987.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7481
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا بكر، - يعني ابن مضر - عن ابن الهاد، عن محمد، بن إبراهيم عن عيسى بن طلحة، عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن العبد ليتكلم بالكلمة ينزل بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب ‏"‏ ‏.‏
بکر بن مضر نے ابن باد سے انھوں نے محمد بن ابرا ہیم سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " ( بعض اوقات ) بندہ کوئی کلمہ کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے دوزخ میں اس سے بھی زیادہ دور اتر جاتا ہےجتنی دوری مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2988.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7482
وحدثناه محمد بن أبي عمر المكي، حدثنا عبد العزيز الدراوردي، عن يزيد بن، الهاد عن محمد بن إبراهيم، عن عيسى بن طلحة، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين ما فيها يهوي بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب ‏"‏ ‏.‏
عبد العزیز دراوردی نے یزید بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھو ں نے محمد بن ابرا ہیم سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بندہ کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ اس کو واضح طور پر پتہ نہیں ہو تا کہ اس میں کیا ہے ، اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اس سے زیادہ دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2988.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7483
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة ومحمد بن عبد الله بن نمير وإسحاق بن إبراهيم وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قال يحيى وإسحاق أخبرنا وقال الآخرون حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن شقيق عن أسامة بن زيد قال قيل له ألا تدخل على عثمان فتكلمه فقال أترون أني لا أكلمه إلا أسمعكم والله لقد كلمته فيما بيني وبينه ما دون أن أفتتح أمرا لا أحب أن أكون أول من فتحه ولا أقول لأحد يكون على أميرا إنه خير الناس ‏.‏ بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتاب بطنه فيدور بها كما يدور الحمار بالرحى فيجتمع إليه أهل النار فيقولون يا فلان ما لك ألم تكن تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر فيقول بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه وأنهى عن المنكر وآتيه ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ نے کہا : ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت اسامہ بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : کہ ان سے کہاگیا : تم کیوں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاکر بات نہیں کرتے ؟ ( کہ وہ لوگوں کی مخالفت کا ازالہ کریں ) تو انھوں نے کہا : کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمھیں نہیں سنواتا تو میں ان سے بات نہیں کرتا؟اللہ کی قسم!میں نے ان سے بات کی جو میرے اور ان کے درمیان تھی اس کے بغیرکہ میں کسی ایسی بات کا آغاز کروں جس میں سب سے پہلے دروازہ کھولنے والا میں بنوں ۔ میں کسی سے جو مجھ پر امیر ہویہ نہیں کہتا کہ وہ سب انسانوں میں سے بہتر ہے ۔ اس بات کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی ، آپ فرما رہے تھے ۔ " قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جا ئے گا ، اس کے پیٹ کی انتڑیاں باہر نکل پڑیں گی ۔ وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد لگاتا ہے ۔ اہل جہنم اس کے پاس جمع ہو جا ئیں گے اور اس سے کہیں گے فلاں!تمھاراے ساتھ کیاہوا؟کیا تو نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے منع نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا ایسا ہی تھا ، میں نیکیوں کا حکم دیتا تھا خود ( نیکی کے کام ) نہیں کرتا تھا اور برائیوں سے روکتا تھا اور خود ان کا ارتکاب کرتاتھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2989.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 66

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7484
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، قال كنا عند أسامة بن زيد فقال رجل ما يمنعك أن تدخل على عثمان فتكلمه فيما يصنع وساق الحديث بمثله ‏.‏
جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابو وائل سے روایت کی کہا : ہم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے کہا : آپ کو کیا چیز اس سے مانع ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جائیں اور جووہ کررہے ہیں اس کے بارے میں ان سے بات کریں؟اس کے بعد اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2989.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7485
حدثني زهير بن حرب، ومحمد بن حاتم، وعبد بن حميد، قال عبد حدثني وقال، الآخران حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال قال سالم سمعت أبا هريرة، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ كل أمتي معافاة إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح قد ستره ربه فيقول يا فلان قد عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه فيبيت يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه ‏"‏ ‏.‏ قال زهير ‏"‏ وإن من الهجار ‏"‏ ‏.‏
سالم نے کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے ۔ " میری تمام امت کو ( گناہوں پر ) معافی ملے گی ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ( اپنے گناہوں کا ) اعلان کرنے والے ہیں ۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں !میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود اتاردیتا ہے ۔ " زہیر نے ( اجهاریعنی اعلان کے بجائے ) وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ ( یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے ) کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2990

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 68

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7486
حدثني محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا حفص، - وهو ابن غياث - عن سليمان، التيمي عن أنس بن مالك، قال عطس عند النبي صلى الله عليه وسلم رجلان فشمت أحدهما ولم يشمت الآخر فقال الذي لم يشمته عطس فلان فشمته وعطست أنا فلم تشمتني ‏.‏ قال ‏ "‏ إن هذا حمد الله وإنك لم تحمد الله ‏"‏ ‏.‏
حفص بن غیاث نے سلیمان تیمی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی تو آپ نے ایک آدمی کو چھینک کی دعانہ دی ۔ آپ نے جس کو چھینک کی دعانہ دی تھی اس نے کہا : فلاں کو چھینک آئی تو آپ نے اس پر اسے دعادی اور مجھے چھینک آئی تو آپ نے مجھے اس پر دعا نہ دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس نے الحمد اللہ کہا تھا اور تم نے الحمداللہ نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2991.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 69

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7487
وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو خالد، - يعني الأحمر - عن سليمان التيمي، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
ابو خالد احمر نے سلیمان تیمی سے ‘ انہوں نے حضرت انس ؓ سے اور انہوں نے نبیﷺ سے اسی کے مطابق روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2991.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 70

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7488
حدثني زهير بن حرب، ومحمد بن عبد الله بن نمير، - واللفظ لزهير - قالا حدثنا القاسم بن مالك، عن عاصم بن كليب، عن أبي بردة، قال دخلت على أبي موسى وهو في بيت بنت الفضل بن عباس فعطست فلم يشمتني وعطست فشمتها فرجعت إلى أمي فأخبرتها فلما جاءها قالت عطس عندك ابني فلم تشمته وعطست فشمتها ‏.‏ فقال إن ابنك عطس فلم يحمد الله فلم أشمته وعطست فحمدت الله فشمتها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إذا عطس أحدكم فحمد الله فشمتوه فإن لم يحمد الله فلا تشمتوه ‏"‏ ‏.‏
ابو بردہ سے روایت ہے کہا : میں ( اپنے والد ) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا وہ اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے گھر تھے ۔ مجھے چھینک آئی تو انھوں نے جواب میں دعانہیں دی اور اس ( فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ) کو چھینک آئی تو اس کو انھوں نے جواب میں دعا دی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں بتا یا جب وہ ( میرے والد ) ان ( میری والدہ ) کے پاس آئے تو انھوں نے کہا : تمھارے پاس میرے بیٹے کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا نہیں دی ۔ اور ان ( فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ) کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا دی ۔ انھوں نے کہا : تمھارے بیٹے کو چھینک آئی تو اس نے الحمد اللہ نہیں کہا : اس لیےمیں نے جواب نہیں دیا اس ( خاتون ) کو چھینک آئی تو انھوں نے الحمد اللہ کہا : اس لیے میں نےان کو جواب میں دعا دی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : آپ فرماتے تھے : " جب تم میں سےکسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد اللہ کہے تو اس کو جواب میں دعا دواور اگر وہ الحمد اللہ نہ کہے تو دعا نہ دو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2992

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 71

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7489
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا وكيع، حدثنا عكرمة بن عمار، عن إياس، بن سلمة بن الأكوع عن أبيه، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، - واللفظ له - حدثنا أبو النضر، هاشم بن القاسم حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني إياس بن سلمة بن الأكوع، أن أباه، حدثه أنه، سمع النبي صلى الله عليه وسلم وعطس رجل عنده فقال له ‏"‏ يرحمك الله ‏"‏ ‏.‏ ثم عطس أخرى فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الرجل مزكوم ‏"‏ ‏.‏
ایاس بن سلمہ بن اکوع نے مجھے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے ان سے حدیث بیان کی ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : آپ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ نے اسے دعا دی يَرْحَمُكَ اللَّهُ اللہ تم پر رحم فرمائے ۔ " اسے دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا " اس شخص کو زکام ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2993

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 72

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7490
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر السعدي، قالوا حدثنا إسماعيل، - يعنون ابن جعفر - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ التثاؤب من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليكظم ما استطاع ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جما ئی شیطان کی طرف سے ہے لہٰذاتم میں سے جب کسی شخص کو جمائی آئے تو وہ جہاں تک اس کو روک سکے روکے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2994

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 73

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7491
حدثني أبو غسان المسمعي، مالك بن عبد الواحد حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سهيل بن أبي صالح، قال سمعت ابنا، لأبي سعيد الخدري يحدث أبي عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا تثاوب أحدكم فليمسك بيده على فيه فإن الشيطان يدخل ‏"‏ ‏.‏
بشر بن مفضل نے کہا : ہمیں سہیل بن ابی صالح نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا : میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ( عبدالرحمان ) سے سنا وہ میرے والد کو اپنے والد سے حدیث بیان کر رہے تھے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب تم میں سے کسی شخص کو جمائی آئے تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو روکے کیونکہ ( ایسا نہ کرنے سے ) شیطان اندر داخل ہو تا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2995.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 74

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7492
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن سهيل، عن عبد الرحمن بن أبي، سعيد عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا تثاوب أحدكم فليمسك بيده فإن الشيطان يدخل ‏"‏ ‏.‏
عبد العزیز نے سہیل سے انھوں نے عبد الرحمان بن ابی سعید سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب تم میں سے کسی کوجمائی آئے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2995.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 75

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7493
حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سهيل بن أبي صالح، عن ابن أبي سعيد الخدري، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا تثاوب أحدكم في الصلاة فليكظم ما استطاع فإن الشيطان يدخل ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے سہیل بن ابی صالح سے انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں جمائی آئے تو وہ جتنا اس کے بس میں ہواس کو روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2995.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 76

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7494
حدثناه عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن سهيل، عن أبيه، أو عن ابن أبي، سعيد عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث بشر وعبد العزيز ‏.‏
جریر نے سہیل سے ، انھوں نے اپنے والد اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے سے ، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ( آگے ) بشراور عبدالعزیز کی حدیث کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2995.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 77

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7495
حدثنا محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خلقت الملائكة من نور وخلق الجان من مارج من نار وخلق آدم مما وصف لكم ‏"‏ ‏.‏
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اورآدم علیہ السلام کو اس ( مادے ) سے پیدا کیا گیا ہے جس کو تمہارے لئے جان کیا گیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2996

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 78

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7496
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن المثنى العنزي، ومحمد بن عبد الله الرزي، جميعا عن الثقفي، - واللفظ لابن المثنى - حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن محمد بن، سيرين عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فقدت أمة من بني إسرائيل لا يدرى ما فعلت ولا أراها إلا الفأر ألا ترونها إذا وضع لها ألبان الإبل لم تشربه وإذا وضع لها ألبان الشاء شربته ‏"‏ ‏.‏ قال أبو هريرة فحدثت هذا الحديث كعبا فقال آنت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت نعم ‏.‏ قال ذلك مرارا ‏.‏ قلت أأقرأ التوراة قال إسحاق في روايته ‏"‏ لا ندري ما فعلت ‏"‏ ‏.‏
اسحاق بن ابراہیم ، محمد بن مثنیٰ عنزی اور محمد بن عبداللہ رزی نے ہمیں ثقفی سے حدیث بیان کی ، الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں ۔ کہا : ہمیں عبدالوہاب نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں خالد نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بنی اسرائیل کی ایک امت گم ہوگئی تھی ، معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور مجھے اس کے سوا اور کوئی بات نظر نہیں آئی کہ وہ لوگ ( یہی ) چوہے ہیں ۔ ( انھوں نے مسخ ہوکریہ شکل اختیار کرلی ہے ) تم دیکھتے نہیں کہ جب ان کے سامنے اونٹنی کا دودھ رکھا جائے تو ( بنی اسرائیل کی طرح ) وہ اس کو نہیں پیتے ۔ اگر ان کے لئے بکری کا دودھ رکھا جائے تو وہ اسے پی لیتے ہیں ۔ "" حضرت ابو ہریرۃ نے کہا : میں نے یہ حدیث کعب ( احبار ) کو سنائی تو انھوں نے کہا : کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا؟میں نے کہا : انھوں نے باربار یہی کہا تو میں نے کہا : ( نہیں تو ) کیا میں تورات پڑھتا ہوں ( کہ وہاں سے بیان کروں گا؟ ) اسحاق نے اپنی روایت میں کہا : "" ہم نہیں جانتے ان کا کیابنا؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:2997.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 79

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7497
وحدثني أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن محمد، عن أبي هريرة، قال ‏ "‏ الفأرة مسخ وآية ذلك أنه يوضع بين يديها لبن الغنم فتشربه ويوضع بين يديها لبن الإبل فلا تذوقه ‏"‏ ‏.‏ فقال له كعب أسمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أفأنزلت على التوراة
ہشام نے محمد ( بن سیرین ) سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : چوہیا مسخ شدہ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے سامنے بکری کا دودھ رکھا جائے تو یہ پی لیتی ہے اور اس کے سامنے اونٹنی کا دودھ رکھا جائے تو یہ اس کو منہ تک نہیں لگاتی ۔ " تو کعب ( احبار ) نے ان سے کہا : آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : تو کیا مجھ پرتورات نازل ہوئی تھی؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:2997.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 80

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7498
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن عقيل، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يلدغ المؤمن من جحر واحد مرتين ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه أبو الطاهر، وحرملة بن يحيى، قالا أخبرنا ابن وهب، عن يونس، ح وحدثني زهير بن حرب، ومحمد بن حاتم، قالا حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي، ابن شهاب عن عمه، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
عقیل نے زہری سے ، انھوں نے ابن مسیب سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا ۔

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 81

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7499
ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچاسے ، انھوں نے ابن مسیب سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7500
حدثنا هداب بن خالد الأزدي، وشيبان بن فروخ، جميعا عن سليمان بن المغيرة، - واللفظ لشيبان - حدثنا سليمان، حدثنا ثابت، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن صهيب، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله خير وليس ذاك لأحد إلا للمؤمن إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له ‏"‏ ‏.‏
حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مومن کا معاملہ عجیب ہے ۔ اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے ۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں ۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے ۔ اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو ( اللہ کی رضا کے لیے ) صبر کر تا ہے ، یہ ( ابھی ) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2999

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 82

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7501
حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا يزيد بن زريع، عن خالد الحذاء، عن عبد الرحمن، بن أبي بكرة عن أبيه، قال مدح رجل رجلا عند النبي صلى الله عليه وسلم - قال - فقال ‏"‏ ويحك قطعت عنق صاحبك قطعت عنق صاحبك ‏"‏ ‏.‏ مرارا ‏"‏ إذا كان أحدكم مادحا صاحبه لا محالة فليقل أحسب فلانا والله حسيبه ولا أزكي على الله أحدا أحسبه إن كان يعلم ذاك كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏
یزید بن زریع نے خالد حذاء سے ، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تعریف کی ، کہا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم پر افسوس ہے!تم نے اپنے ساتھ کی گردن کاٹ دی ، اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ۔ " کئی بار کہا : ( پھر فرمایا : ) تم میں سے کسی شخص نے لامحالہ اپنے ساتھی کی تعریف کرنی ہوتو اس طرح کہے : میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ، اصلیت کو جاننے والا اللہ ہے ۔ اورمیں اللہ ( کے علم ) کے مقابلے میں کسی کی خوبی بیان نہیں کررہا ، میں اسے ( ایسا ) سمجھتا ہوں ۔ اگر وہ واقعی اس خوبی کو جانتا ہے ( تو کہے! ) ۔ وہ اس طرح ( کی خوبی رکھتا ) ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3000.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 83

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7502
وحدثني محمد بن عمرو بن عباد بن جبلة بن أبي رواد، حدثنا محمد بن جعفر، ح وحدثني أبو بكر بن نافع، أخبرنا غندر، قال شعبة حدثنا عن خالد الحذاء، عن عبد، الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ذكر عنده رجل فقال رجل يا رسول الله ما من رجل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل منه في كذا وكذا ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ويحك قطعت عنق صاحبك ‏"‏ ‏.‏ مرارا يقول ذلك ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن كان أحدكم مادحا أخاه لا محالة فليقل أحسب فلانا إن كان يرى أنه كذلك ولا أزكي على الله أحدا ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر غندر نے کہا : ہمیں شعبہ نے خالد حذاء سے ، حدیث بیان کی ، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے ، انھوں نے ا پنے والد سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر ہوا تو ایک شخص کہنے لگا؛اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فلاں فلاں بات میں اس ( آدمی ) سے افضل نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " تم پر افسوس!تم نے اپنے ساتھی کی گر دن کاٹ دی ۔ " آپ بار بار یہ کہتے رہے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر تم میں سے کسی نے لا محالہ اپنے بھائی کی تعریف کرنی ہوتو اس طرح کہے : میں سمجھتا ہوں فلاں ( اس طرح ہے ) اگر وہ واقعی اس کو ایسا سمجھتا ہو ( پھر کہے ) اور میں اللہ ( کے علم ) کے مقابلے میں کسی کی خوبی بیان نہیں کرتا ( جس سے یہ ثابت ہوکہ میں نعوذباللہ ، اللہ کے علم کو جھٹلارہا ہوں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:3000.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 84

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7503
وحدثنيه عمرو الناقد، حدثنا هاشم بن القاسم، ح وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا شبابة بن سوار، كلاهما عن شعبة، بهذا الإسناد ‏.‏ نحو حديث يزيد بن زريع وليس في حديثهما فقال رجل ما من رجل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل منه ‏.‏
ہاشم بن قاسم اور شبابہ بن سوار دونوں نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ یزید بن زریع کی حدیث کے مانند بیان کیا ، ان دونوں کی روایتوں میں یہ نہیں کہ ا س شخص نے کہا : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص اس ( آدمی ) سے افضل نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3000.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 85

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7504
حدثني أبو جعفر، محمد بن الصباح حدثنا إسماعيل بن زكرياء، عن بريد بن، عبد الله بن أبي بردة عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يثني على رجل ويطريه في المدحة فقال ‏ "‏ لقد أهلكتم أو قطعتم ظهر الرجل ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت ہے ، کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا ، وہ کسی آدمی کی تعریف کررہا تھا ، تعریف میں اسے بہت بڑھا چڑھا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم لوگوں نے اس کو ہلاک کرڈالا یا ( فرمایا : ) تم لوگوں نے اس آدمی کی کمرتوڑ دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3001

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 86

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7505
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، جميعا عن ابن مهدي، - واللفظ لابن المثنى قالا حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن حبيب، عن مجاهد، عن أبي معمر، قال قام رجل يثني على أمير من الأمراء فجعل المقداد يحثي عليه التراب وقال أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نحثي في وجوه المداحين التراب ‏.‏
ابو معمر سے روایت ہے کہ ایک شخص کھڑاہوا امراء میں سے کسی امیر کی تعریف کرنے لگا توحضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص پر مٹی ڈالنے لگے ، اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیاتھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3002.01

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 87

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7506
وحدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن منصور، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، أن رجلا، جعل يمدح عثمان فعمد المقداد فجثا على ركبتيه - وكان رجلا ضخما - فجعل يحثو في وجهه الحصباء فقال له عثمان ما شأنك فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا رأيتم المداحين فاحثوا في وجوههم التراب ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے منصور سے ، انھوں نے ابراہیم ( بن یزید نخعی ) سے ، انھوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا رخ کیا ، اپنے گھٹنوں پر بیٹھے ، وہ بھاری بھرکم ( جسم کے مالک ) تھے اور اس آدمی کے چہرے پر کنکریاں پھینکنے لگے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا : آپ کیا کررہے ہیں؟انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : " جب تم مدح سراؤں کو دیکھو تو ان کے چہروں میں مٹی ڈالو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3002.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 88

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7507
وحدثناه محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن منصور، ح وحدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا الأشجعي، عبيد الله بن عبيد الرحمن عن سفيان الثوري، عن الأعمش، ومنصور، عن إبراهيم، عن همام، عن المقداد، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
سفیان ثوری نے منصور اور اعمش سے ، انھوں نے ابراہیم سے ، انھوں نے ہمام سے ، انھوں نے حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی ( حدیث ) کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3002.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 89

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7508
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثني أبي، حدثنا صخر، - يعني ابن جويرية - عن نافع، أن عبد الله بن عمر، حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أراني في المنام أتسوك بسواك فجذبني رجلان أحدهما أكبر من الآخر فناولت السواك الأصغر منهما فقيل لي كبر ‏.‏ فدفعته إلى الأكبر ‏"‏ ‏.‏
نافع سے روایت ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کررہا ہوں ، دو آدمیوں نے مجھے اپنی اپنی جانب کھینچا ، ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا ، میں نے مسواک چھوٹے کو پکڑا دی تو مجھ سے کہا گیا : بڑے کو دیں ، چنانچہ میں نے وہ بڑے کے حوالے کردی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3003

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 90

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7509
حدثنا هارون بن معروف، حدثنا به، سفيان بن عيينة عن هشام، عن أبيه، قال كان أبو هريرة يحدث ويقول اسمعي يا ربة الحجرة اسمعي يا ربة الحجرة ‏.‏ وعائشة تصلي فلما قضت صلاتها قالت لعروة ألا تسمع إلى هذا ومقالته آنفا إنما كان النبي صلى الله عليه وسلم يحدث حديثا لو عده العاد لأحصاه ‏.‏
ہشام نے اپنے والد ( عروہ ) سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ احادیث بیان کررہے تھے اور آواز لگارہے تھے : اے حجرے کے مالک!سنیے ، اے حجرے کے مالک!سنیے ، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( اندر ) نماز پڑھ رہی تھیں ۔ انھوں نے جب نماز مکمل کی تو عروہ سے کہا : تم نے ابھی اسے اور اس کی کہی ہوئی بات نہیں سنی؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک وقت میں ) ایک بات ( حدیث ) ارشاد فرماتے تھے ، اگر کوئی گننے والا اسے گنتا تو گن سکتا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2493.02

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 91

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7510
حدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا همام، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب على - قال همام أحسبه قال - متعمدا فليتبوأ مقعده من النار ‏"‏ ‏.‏
ہداب بن خالد ازدی نے کہا : ہمیں ہمام نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھ سے ( سنی ہوئی باتیں ) مت لکھو ، جس نے قرآن مجید ( کے ساتھ اس کے علاوہ میری کوئی بات ( حدیث ) لکھی وہ اس کو مٹا دے ، البتہ میری حدیث ( یاد رکھ کرآگے ) بیان کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں ، اور جس نے مجھ پر ۔ ہمام نے کہا : میرا خیال ہے کہ انھوں ( زید بن اسلم ) نے کہا : جان بوجھ کر جھوٹ باندھاوہ ا پنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3004

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 92

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7511
حدثنا هداب بن خالد، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن عبد الرحمن بن، أبي ليلى عن صهيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ كان ملك فيمن كان قبلكم وكان له ساحر فلما كبر قال للملك إني قد كبرت فابعث إلى غلاما أعلمه السحر ‏.‏ فبعث إليه غلاما يعلمه فكان في طريقه إذا سلك راهب فقعد إليه وسمع كلامه فأعجبه فكان إذا أتى الساحر مر بالراهب وقعد إليه فإذا أتى الساحر ضربه فشكا ذلك إلى الراهب فقال إذا خشيت الساحر فقل حبسني أهلي ‏.‏ وإذا خشيت أهلك فقل حبسني الساحر ‏.‏ فبينما هو كذلك إذ أتى على دابة عظيمة قد حبست الناس فقال اليوم أعلم آلساحر أفضل أم الراهب أفضل فأخذ حجرا فقال اللهم إن كان أمر الراهب أحب إليك من أمر الساحر فاقتل هذه الدابة حتى يمضي الناس ‏.‏ فرماها فقتلها ومضى الناس فأتى الراهب فأخبره فقال له الراهب أى بنى أنت اليوم أفضل مني ‏.‏ قد بلغ من أمرك ما أرى وإنك ستبتلى فإن ابتليت فلا تدل على ‏.‏ وكان الغلام يبرئ الأكمه والأبرص ويداوي الناس من سائر الأدواء فسمع جليس للملك كان قد عمي فأتاه بهدايا كثيرة فقال ما ها هنا لك أجمع إن أنت شفيتني فقال إني لا أشفي أحدا إنما يشفي الله فإن أنت آمنت بالله دعوت الله فشفاك ‏.‏ فآمن بالله فشفاه الله فأتى الملك فجلس إليه كما كان يجلس فقال له الملك من رد عليك بصرك قال ربي ‏.‏ قال ولك رب غيري قال ربي وربك الله ‏.‏ فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الغلام فجيء بالغلام فقال له الملك أى بنى قد بلغ من سحرك ما تبرئ الأكمه والأبرص وتفعل وتفعل ‏.‏ فقال إني لا أشفي أحدا إنما يشفي الله ‏.‏ فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الراهب فجيء بالراهب فقيل له ارجع عن دينك ‏.‏ فأبى فدعا بالمئشار فوضع المئشار في مفرق رأسه فشقه حتى وقع شقاه ثم جيء بجليس الملك فقيل له ارجع عن دينك ‏.‏ فأبى فوضع المئشار في مفرق رأسه فشقه به حتى وقع شقاه ثم جيء بالغلام فقيل له ارجع عن دينك ‏.‏ فأبى فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال اذهبوا به إلى جبل كذا وكذا فاصعدوا به الجبل فإذا بلغتم ذروته فإن رجع عن دينه وإلا فاطرحوه فذهبوا به فصعدوا به الجبل فقال اللهم اكفنيهم بما شئت ‏.‏ فرجف بهم الجبل فسقطوا وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك ما فعل أصحابك قال كفانيهم الله ‏.‏ فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال اذهبوا به فاحملوه في قرقور فتوسطوا به البحر فإن رجع عن دينه وإلا فاقذفوه ‏.‏ فذهبوا به فقال اللهم اكفنيهم بما شئت ‏.‏ فانكفأت بهم السفينة فغرقوا وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك ما فعل أصحابك قال كفانيهم الله ‏.‏ فقال للملك إنك لست بقاتلي حتى تفعل ما آمرك به ‏.‏ قال وما هو قال تجمع الناس في صعيد واحد وتصلبني على جذع ثم خذ سهما من كنانتي ثم ضع السهم في كبد القوس ثم قل باسم الله رب الغلام ‏.‏ ثم ارمني فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني ‏.‏ فجمع الناس في صعيد واحد وصلبه على جذع ثم أخذ سهما من كنانته ثم وضع السهم في كبد القوس ثم قال باسم الله رب الغلام ‏.‏ ثم رماه فوقع السهم في صدغه فوضع يده في صدغه في موضع السهم فمات فقال الناس آمنا برب الغلام آمنا برب الغلام آمنا برب الغلام ‏.‏ فأتي الملك فقيل له أرأيت ما كنت تحذر قد والله نزل بك حذرك قد آمن الناس ‏.‏ فأمر بالأخدود في أفواه السكك فخدت وأضرم النيران وقال من لم يرجع عن دينه فأحموه فيها ‏.‏ أو قيل له اقتحم ‏.‏ ففعلوا حتى جاءت امرأة ومعها صبي لها فتقاعست أن تقع فيها فقال لها الغلام يا أمه اصبري فإنك على الحق ‏"‏ ‏.‏
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج کہ میں اس کو جادو سکھلاؤں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا ، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا ( عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا ) ، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا ، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو ( دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک رکھا تھا ۔ لڑکے نے کہا کہ آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے ۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو ، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں ۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا ۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا ۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا کہ یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا کہ میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا ۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا کہ تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا کہ میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا کہ میرا اور تیرا مالک اللہ ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا ۔ وہ لڑکا بلایا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے؟ وہ بولا کہ میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا بلکہ اللہ اچھا کرتا ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا ۔ راہب پکڑ لیا گیا ۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا ۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا ، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا ، اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا ، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا ، اس سے کہا کہ اپنے دین سے پلٹ جا ، اس نے بھی نہ انکار کیا ۔ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو ، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، نہیں تو اس کو دھکیل دو ۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا ۔ لڑکے نے دعا کی کہ الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا ۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے ۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا کہ اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا ۔ وہ لوگ اس کو لے گئے ۔ لڑکے نے کہا کہ الٰہی! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے ۔ وہ کشتی اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے سوا سب ساتھی ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا ، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے ۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا؟ اس نے کہا کہ تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ ، پھر کہہ کہ اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ پھر تیر مار ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرے گا ۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا ، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا ۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا کہ ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا ۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا کہ جو شخص اس دین سے ( یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو ، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا ، اس عورت نےآگ میں گرنے سے تردد کیا تو بچے نے کہا کہ اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:3005

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 93

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7512
حدثنا هارون بن معروف، ومحمد بن عباد، - وتقاربا في لفظ الحديث - والسياق لهارون قالا حدثنا حاتم بن إسماعيل عن يعقوب بن مجاهد أبي حزرة عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال خرجت أنا وأبي نطلب العلم في هذا الحى من الأنصار قبل أن يهلكوا فكان أول من لقينا أبا اليسر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه غلام له معه ضمامة من صحف وعلى أبي اليسر بردة ومعافري وعلى غلامه بردة ومعافري فقال له أبي يا عم إني أرى في وجهك سفعة من غضب ‏.‏ قال أجل كان لي على فلان بن فلان الحرامي مال فأتيت أهله فسلمت فقلت ثم هو قالوا لا ‏.‏ فخرج على ابن له جفر فقلت له أين أبوك قال سمع صوتك فدخل أريكة أمي ‏.‏ فقلت اخرج إلى فقد علمت أين أنت ‏.‏ فخرج فقلت ما حملك على أن اختبأت مني قال أنا والله أحدثك ثم لا أكذبك خشيت والله أن أحدثك فأكذبك وأن أعدك فأخلفك وكنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكنت والله معسرا ‏.‏ قال قلت آلله ‏.‏ قال الله ‏.‏ قلت آلله ‏.‏ قال الله ‏.‏ قلت آلله ‏.‏ قال الله ‏.‏ قال فأتى بصحيفته فمحاها بيده فقال إن وجدت قضاء فاقضني وإلا أنت في حل فأشهد بصر عينى هاتين - ووضع إصبعيه على عينيه - وسمع أذنى هاتين ووعاه قلبي هذا - وأشار إلى مناط قلبه - رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏"‏ من أنظر معسرا أو وضع عنه أظله الله في ظله ‏"‏ ‏.‏ قال فقلت له أنا يا عم لو أنك أخذت بردة غلامك وأعطيته معافريك وأخذت معافريه وأعطيته بردتك فكانت عليك حلة وعليه حلة ‏.‏ فمسح رأسي وقال اللهم بارك فيه يا ابن أخي بصر عينى هاتين وسمع أذنى هاتين ووعاه قلبي هذا - وأشار إلى مناط قلبه - رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏"‏ أطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ‏"‏ ‏.‏ وكان أن أعطيته من متاع الدنيا أهون على من أن يأخذ من حسناتي يوم القيامة ‏.‏ ثم مضينا حتى أتينا جابر بن عبد الله في مسجده وهو يصلي في ثوب واحد مشتملا به فتخطيت القوم حتى جلست بينه وبين القبلة فقلت يرحمك الله أتصلي في ثوب واحد ورداؤك إلى جنبك قال فقال بيده في صدري هكذا وفرق بين أصابعه وقوسها أردت أن يدخل على الأحمق مثلك فيراني كيف أصنع فيصنع مثله ‏.‏ أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجدنا هذا وفي يده عرجون ابن طاب فرأى في قبلة المسجد نخامة فحكها بالعرجون ثم أقبل علينا فقال ‏"‏ أيكم يحب أن يعرض الله عنه ‏"‏ ‏.‏ قال فخشعنا ثم قال ‏"‏ أيكم يحب أن يعرض الله عنه ‏"‏ ‏.‏ قال فخشعنا ثم قال ‏"‏ أيكم يحب أن يعرض الله عنه ‏"‏ ‏.‏ قلنا لا أينا يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ فإن أحدكم إذا قام يصلي فإن الله تبارك وتعالى قبل وجهه فلا يبصقن قبل وجهه ولا عن يمينه وليبصق عن يساره تحت رجله اليسرى فإن عجلت به بادرة فليقل بثوبه هكذا ‏"‏ ‏.‏ ثم طوى ثوبه بعضه على بعض فقال ‏"‏ أروني عبيرا ‏"‏ ‏.‏ فقام فتى من الحى يشتد إلى أهله فجاء بخلوق في راحته فأخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعله على رأس العرجون ثم لطخ به على أثر النخامة ‏.‏ فقال جابر فمن هناك جعلتم الخلوق في مساجدكم ‏.‏ سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بطن بواط وهو يطلب المجدي بن عمرو الجهني وكان الناضح يعتقبه منا الخمسة والستة والسبعة فدارت عقبة رجل من الأنصار على ناضح له فأناخه فركبه ثم بعثه فتلدن عليه بعض التلدن فقال له شأ لعنك الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من هذا اللاعن بعيره ‏"‏ ‏.‏ قال أنا يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ انزل عنه فلا تصحبنا بملعون لا تدعوا على أنفسكم ولا تدعوا على أولادكم ولا تدعوا على أموالكم لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء فيستجيب لكم ‏"‏ ‏.‏ سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كانت عشيشية ودنونا ماء من مياه العرب قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من رجل يتقدمنا فيمدر الحوض فيشرب ويسقينا ‏"‏ ‏.‏ قال جابر فقمت فقلت هذا رجل يا رسول الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أى رجل مع جابر ‏"‏ ‏.‏ فقام جبار بن صخر فانطلقنا إلى البئر فنزعنا في الحوض سجلا أو سجلين ثم مدرناه ثم نزعنا فيه حتى أفهقناه فكان أول طالع علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أتأذنان ‏"‏ ‏.‏ قلنا نعم يا رسول الله ‏.‏ فأشرع ناقته فشربت شنق لها فشجت فبالت ثم عدل بها فأناخها ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحوض فتوضأ منه ثم قمت فتوضأت من متوضإ رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب جبار بن صخر يقضي حاجته فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي وكانت على بردة ذهبت أن أخالف بين طرفيها فلم تبلغ لي وكانت لها ذباذب فنكستها ثم خالفت بين طرفيها ثم تواقصت عليها ثم جئت حتى قمت عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ بيدي فأدارني حتى أقامني عن يمينه ثم جاء جبار بن صخر فتوضأ ثم جاء فقام عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدينا جميعا فدفعنا حتى أقامنا خلفه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمقني وأنا لا أشعر ثم فطنت به فقال هكذا بيده يعني شد وسطك فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يا جابر ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ إذا كان واسعا فخالف بين طرفيه وإذا كان ضيقا فاشدده على حقوك ‏"‏ ‏.‏ سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان قوت كل رجل منا في كل يوم تمرة فكان يمصها ثم يصرها في ثوبه وكنا نختبط بقسينا ونأكل حتى قرحت أشداقنا فأقسم أخطئها رجل منا يوما فانطلقنا به ننعشه فشهدنا أنه لم يعطها فأعطيها فقام فأخذها ‏.‏ سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزلنا واديا أفيح فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته فاتبعته بإداوة من ماء فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم ير شيئا يستتر به فإذا شجرتان بشاطئ الوادي فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى إحداهما فأخذ بغصن من أغصانها فقال ‏"‏ انقادي على بإذن الله ‏"‏ ‏.‏ فانقادت معه كالبعير المخشوش الذي يصانع قائده حتى أتى الشجرة الأخرى فأخذ بغصن من أغصانها فقال ‏"‏ انقادي على بإذن الله ‏"‏ ‏.‏ فانقادت معه كذلك حتى إذا كان بالمنصف مما بينهما لأم بينهما - يعني جمعهما - فقال ‏"‏ التئما على بإذن الله ‏"‏ ‏.‏ فالتأمتا قال جابر فخرجت أحضر مخافة أن يحس رسول الله صلى الله عليه وسلم بقربي فيبتعد - وقال محمد بن عباد فيتبعد - فجلست أحدث نفسي فحانت مني لفتة فإذا أنا برسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا وإذا الشجرتان قد افترقتا فقامت كل واحدة منهما على ساق فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف وقفة فقال برأسه هكذا - وأشار أبو إسماعيل برأسه يمينا وشمالا - ثم أقبل فلما انتهى إلى قال ‏"‏ يا جابر هل رأيت مقامي ‏"‏ ‏.‏ قلت نعم يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ فانطلق إلى الشجرتين فاقطع من كل واحدة منهما غصنا فأقبل بهما حتى إذا قمت مقامي فأرسل غصنا عن يمينك وغصنا عن يسارك ‏"‏ ‏.‏ قال جابر فقمت فأخذت حجرا فكسرته وحسرته فانذلق لي فأتيت الشجرتين فقطعت من كل واحدة منهما غصنا ثم أقبلت أجرهما حتى قمت مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسلت غصنا عن يميني وغصنا عن يساري ثم لحقته فقلت قد فعلت يا رسول الله فعم ذاك قال ‏"‏ إني مررت بقبرين يعذبان فأحببت بشفاعتي أن يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين ‏"‏ ‏.‏ قال فأتينا العسكر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا جابر ناد بوضوء ‏"‏ ‏.‏ فقلت ألا وضوء ألا وضوء ألا وضوء قال قلت يا رسول الله ما وجدت في الركب من قطرة وكان ��جل من الأنصار يبرد لرسول الله صلى الله عليه وسلم الماء في أشجاب له على حمارة من جريد قال فقال لي ‏"‏ انطلق إلى فلان بن فلان الأنصاري فانظر هل في أشجابه من شىء ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلقت إليه فنظرت فيها فلم أجد فيها إلا قطرة في عزلاء شجب منها لو أني أفرغه لشربه يابسه ‏.‏ فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله إني لم أجد فيها إلا قطرة في عزلاء شجب منها لو أني أفرغه لشربه يابسه قال ‏"‏ اذهب فأتني به ‏"‏ ‏.‏ فأتيته به فأخذه بيده فجعل يتكلم بشىء لا أدري ما هو ويغمزه بيديه ثم أعطانيه فقال ‏"‏ يا جابر ناد بجفنة ‏"‏ ‏.‏ فقلت يا جفنة الركب ‏.‏ فأتيت بها تحمل فوضعتها بين يديه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده في الجفنة هكذا فبسطها وفرق بين أصابعه ثم وضعها في قعر الجفنة وقال ‏"‏ خذ يا جابر فصب على وقل باسم الله ‏"‏ ‏.‏ فصببت عليه وقلت باسم الله ‏.‏ فرأيت الماء يتفور من بين أصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم فارت الجفنة ودارت حتى امتلأت فقال ‏"‏ يا جابر ناد من كان له حاجة بماء ‏"‏ ‏.‏ قال فأتى الناس فاستقوا حتى رووا قال فقلت هل بقي أحد له حاجة فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده من الجفنة وهي ملأى ‏.‏ وشكا الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجوع فقال ‏"‏ عسى الله أن يطعمكم ‏"‏ ‏.‏ فأتينا سيف البحر فزخر البحر زخرة فألقى دابة فأورينا على شقها النار فاطبخنا واشتوينا وأكلنا حتى شبعنا ‏.‏ قال جابر فدخلت أنا وفلان وفلان حتى عد خمسة في حجاج عينها ما يرانا أحد حتى خرجنا فأخذنا ضلعا من أضلاعه فقوسناه ثم دعونا بأعظم رجل في الركب وأعظم جمل في الركب وأعظم كفل في الركب فدخل تحته ما يطأطئ رأسه ‏.‏
ہارون بن معروف اور محمد بن عباد نے ہمیں حدیث بیان کی ، الفاظ دونوں سے ملتے جلتے ہیں جبکہ سیاق ہارون کا ہے ۔ دونوں نے کہا : ہمیں حاتم بن اسماعیل نے یعقوب بن مجاہد ابو حزرہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے ر وایت کی ، انھوں نے کہا : میں اور میرے والد طلب علم کے لیے انصار کے اس قبیلے کی ہلاکت سے پہلے اس میں گئے ، سب سے پہلے شخصد جن سے ہماری ملاقات ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، ان کےساتھ ان کایک غلام بھی تھا جس کے پاس صحائف ( دستاویزات ) کا ایک مجموعہ تھا ، حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدن پر ایک دھاری دار چادر اور معافر کا بنا ہوا ایک کپرا تھا ۔ اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک دھاری دار چادر اور ایک معافری کپڑا تھا ۔ میرے والد نے ان سے کہا : چچا!میں غصے کی بنا پر آپ کے چہرے پر رنگ کی تبدیلی دیکھ رہا ہوں ، انھوں نے کہا : ہاں ، فلاں بن فلاں ، جس کاتعلق بنو حرام سے ہے ، سلام کیا اور میں نے پوچھا : کیا وہ ہے؟گھر والوں نے کہا : نہیں ہے پھر اچانک اس کا ایک کمر عمر لڑکا میرے سامنے گھر سے نکلا ، میں نے اس سے پوچھا : تیر ا باپ کہاں ہے؟اس نے کہا : انھوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری والدہ کے چھپر کھٹ میں گھس گئے ہیں ۔ میں نےکہا : نکل کرمیری طرف آجاؤ ، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں ہو ۔ وہ باہر نکل آیا میں نے پوچھا : اس بات کا باعث کیابنا کہ تم مجھ سے چھپ گئے؟اس نے کہا : اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا ، اللہ کی قسم!میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے وعدہ کروں اور آپ کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کروں ، جبکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں تنگ دست تھا ، انھوں نے کہا کہ میں نے کہا : اللہ کی قسم!اس نے کہا : اللہ کی قسم!میں نے ( دوبارہ ) کہا : اللہ کی قسم!اس نے کہا : اللہ کی قسم!میں نے ( پھر ) کہا : اللہ کی قسم!اس نے کہا : اللہ کی قسم!کہا : پھر انھوں نے اپنا صحیفہ ( جس پر قرض کی تحریر لکھی ہوئی تھی ) نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس کومٹا دیا ( پھر مقروض سے ) کہا : اگر تمھیں ادائیگی کے لیے مال مل جائے تو میرا قرض لوٹا دینا اور نہیں تو تم بری الذمہ ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے ( دیکھا ) اور ( یہ کہتے ہوئے ) انھوں نے اپنی دو انگلیاں اپنی دو آنکھوں پر رکھیں ، اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا ۔ اور انھوں نے اپنے دل والی جگہ پر اشارہ کیا ۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہےتھے : " جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض ختم کردیا اللہ تعالیٰ اپنے سائے سے اس پر سایہ کرے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7513
(عبادہ بن ولید نے ) کہا : میں نے ان سے کہا : چچاجان!اگر آپ اپنے غلام کی دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے اپنا معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے اس کا معافری کپڑا لے لیتے اور اسے اپنی دھاری دار چادر دے دیتے تو آپ کے جسم پر ایک جوڑا ہوتا اور اس کے جسم پر بھی ایک جوڑا ہوتا ۔ انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا : اے اللہ! اس کو برکت عطا فرما ۔ بھتیجے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں کی بصارت ( نے دیکھا ) اور میرے دو کانوں نے سنا اور ۔ دل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرے دل نے اسے یاد رکھا ، جبکہ آپ فرمارہے تھے ۔ " ان ( غلاموں ) کو اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور اسی میں سے پہناؤ جو تم پہنتے ہو ۔ " اگرمیں نے اسے دنیا کی نعمتوں میں سے ( اس کا حصہ ) دے دیاہے تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جاتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7514
پھر ہم ( آگے ) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں حاضر ہوئے وہ ایک کپڑے میں اسے دونوں پلوؤں کو مخالف سمتوں میں کندھوں کے اوپر سے گزار کر باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا گیا یہاں تک کہ ان کے اور قبلے کے درمیان جاکر بیٹھ گیا ۔ ( جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ) میں نے ان سے کہا : آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی چادر آپ کے پہلو میں پڑی ہوئی ہے؟ انھوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے میرے سینے میں مارا انھوں ( عبادہ ) نے اپنی انگلیاں الگ کیں اور انھیں کمان کی طرح موڑا ( اور کہنے لگے ) میں ( یہی ) چاہتا تھا کہ تم جیسا کوئی نا سمجھ میرے پاس آئے اور دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں ، پھر وہ ( بھی ) اس طرح کر لیا کرے ۔ ( پھر کہا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے آپ کے دست مبارک میں ابن طاب ( کی کھجور ) کی ایک شاخ تھی آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف ( والی دیوارپر ) جماہوا بلغم لگا دیکھا ۔ آپ نے کھجور کی شاخ سے اس کو کھرچ کر صاف کیا پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا : ’’تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے ( اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟کہا : تو ہم سب ڈر گئے ۔ آپ نے پھر فرمایا : ’’تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے ؟ "" کہا : ہم پر خوف طاری ہوگیا آپ نے پھر سے فرمایا : "" تم میں سے کسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟ "" ہم نے عرض کی ، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے کسی کو بھی ( یہ بات پسند ) نہیں آپ نے فرمایا : "" تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے لہٰذا اسے سامنے کی طرف ہر گز تھوکنا نہیں چاہیے ۔ نہ دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ۔ اگر جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح ( صاف ) کرے ۔ "" پھرآپ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرےحصے پر تہ لگائی پھر فرمایا : "" مجھے خوشبو لاکردو ۔ "" قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ( خوشبو ) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7515
(جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بواط کی جنگ میں تھے ۔ آپ ( قبیلہ جحینہ کے سردار ) مجدی بن عمروجہنی کو ڈھونڈ رہے تھے پانی ڈھونے والے ایک اونٹ پر ہم پانچ چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتےتھے ۔ انصار میں سے ایک آدمی کی اپنے اونٹ پر ( بیٹھنے کی ) باری آئی تو اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پرسوار ہوگیا ۔ پھر اس کو اٹھا یا تو اس ( اونٹ ) نے اس ( کے حکم ) پر اٹھنے میں کسی حد تک دیر کی تو اس نے کہا : کھڑا ہو ، تم پر اللہ لعنت کرے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے؟اس نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں ۔ آپ نے فرمایا : " اس سے اتر جاؤ جس پر لعنت کی گئی ہو وہ ہمارے ساتھ نہ چلے اپنے آپ کو بددعا نہ دو نہ اپنی اولاد کو بددعا دو نہ اپنے مال مویشی کو بددعا دو اللہ کی طرف سے ( مقرر کردہ قبولیت کی ) گھڑی کی موافقت نہ کرو جس میں ( جو ) کچھ مانگا جاتا ہے وہ تمھیں عطا کردیا جاتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7516
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض ( کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس ) کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟ " حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی ۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا ۔ ؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے ( کنویں سے نکال کر ) وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے ( پانی لے کر ) وضو کیا ۔ جباربن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی ۔ میں ( ایک طرف ) گیا کہ اس ( چادر ) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں ( کندھوں پر ) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی ۔ اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس ( چادر ) کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا ( گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا ) پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا ۔ آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا : " آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز سے ) فارغ ہوئے تو فرمایا : " اے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! " میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7517
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ایک مہم پرگئے ۔ ہم میں سے ہر شخص کی خوراک روز کی ایک کھجور تھی وہ اس کھجور کو چوستا رہتا اور پھر اس کو اپنے کپڑے میں لپیٹ لیتا ہم اپنی کمانوں سے درختوں کے پتےجھاڑتے تھے اور کھاتے تھے حتیٰ کہ ہماری باچھوں میں زخم ہو ئے ۔ قسم کھاتا ہوں کہ ایک دن ہم میں سے ایک غلطی سے اس ( ایک کھجور ) سے محروم رہ گیا ہم اسے ( سہارادے کر ) اٹھاتے ہوئے لے کر ( تقسیم کرنے والے کے پاس ) گئے ۔ اور اس کے حق میں گواہی دی کہ اسے وہ ایک کھجور ) نہیں دی گئی ۔ وہ اسے دی گئی تو اس نے خود کھڑے ہو کر لی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7518
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ایک مہم کے لیے ) روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم کشادہ وادی میں جا اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے میں ( چمڑے کا بناہوا ) پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر دوڑائی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے ۔ وادی کے کنارے پردودرخت نظر آئے آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑ ا اور فرمایا : "" اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ ۔ "" تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑا اور کہا : "" اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ ۔ "" تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ ( اسے چلاتے ہوئے ) دونوں کے درمیان کے آدھے فاصلے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا ( کراکٹھا کر ) دیا آپ نے فرمایا : "" دونوں اللہ کے حکم سے میرے آگے مل جاؤ ۔ تو وہ دونوں ساتھ گئے ( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کر دیا ) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ میرے قریب ہونے کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ( مزید ) دور ( جانے پر مجبور ) نہ ہو جائیں اور محمد بن عباد نے ( اپنی روایت میں ) کہا : آپ کو دورجانے کی زحمت کرنی پڑے میں ( ایک جگہ ) بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا ۔ اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں ۔ ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑاہو گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا ۔ ابو اسماعیل ( حاتم بن اسماعیل ) نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا ۔ پھر آپ آگے تشریف لائے جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا : "" جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیا تم میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟میں نے عرض کی جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : "" دونوں درختوں کی طرف جاؤ اور دونوں میں سے ہر ایک سے ایک ( ایک ) شاخ کاٹ لاؤ یہاں تک کہ آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ بائیں طرف ۔ "" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں اٹھا ایک پتھر اٹھا یا اسے توڑا اور اسے گھسایا جب وہ میرے ( کام کے ) کے لئے تیز ہوگیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا ہر ایک سے ایک ( ایک ) شاخ کاٹی ، پھر ان کو گھسیٹتا ہوا آیا ، یہاں تک کہ آکر اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور ایک اپنی بائیں طرف ۔ پھر میں آپ کے ساتھ جاملا اور عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ( جو آپ نے فرمایا تھا ) میں نے کردیا ہے وہ کس لیے تھا؟فرمایا : "" میں و قبروں کے پاس سے گزرا ان کو عذاب دیاجارہاتھا ۔ میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے اس وقت تک کے لیے تخفیف کردی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7519
(حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !وضو کے پانی کے لیے آوازدو ۔ " تو میں نے ( ہرجگہ پکار کر ) کہا : کیاوضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کہا : میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں ایک قطرہ ( پانی ) نہیں ملا ۔ انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پُرانے مشکیزے میں پانی ڈال کراسے کھجور کی ٹہنی ( سے بنی ہوئی ) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کر تا تھا ۔ ( جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : آپ نے مجھ سے فرمایا " فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پُرانے مشکیزے میں کچھ ہے؟ " کہا : میں کیا ، اس کے اندر دیکھاتو مجھے اس ( مشکیزے ) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا ۔ اگر میں اسے ( دوسرے برتن میں ) نکالتا تو اس کا خشک حصہ اسے پی لیتا ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس ( مشکیزے ) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سواکچھ نہیں ملا ۔ اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ ۔ " میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا ۔ آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیاکہا اور اس ( مشکیزے ) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے ، پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا : " جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !پانی ( پلانے ) کا بڑابرتن منگواؤ ۔ " میں نے آواز دی : سواروں کابڑا برتن ( ٹب ) لاؤ ۔ اسے اٹھا کر میرے پاس لا یاگیا تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا ، اسے پھیلایا اور اپنی انگیاں الگ الگ کیں پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا : " جابر!میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو! " میں نے اسے آپ ( کے ہاتھ ) پر انڈیلا اور کہا : بسم اللہ ۔ میں نے پانی کو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کےدرمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا ، پھر وہ بڑا برتن ( پانی کے ) جوش سے ) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا ۔ یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جابر!جس جس کو پانی کی ضرورت ہے اسے آواز دو ۔ " کہا : لوگ آئے اور پانی لیا ، یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہوگئی ، کہا : میں نے اعلان کیا کوئی باقی ہے جسے ( پانی کی ) ضرورت ہو؟ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ ( اسی طرح ) بھرا ہوا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7520
اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا ۔ " پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے ، سمندر نے جوش مارا ( ایک لہر سی آئی ) اور اس نے ایک سمندری جانور ( باہر ) پھینک دیا ، ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس ( کے گوشت ) کو پکایا ، بھونا ، کھایا اور یہ سیر ہوگئے ( حضرت جابر نے کہا : میں اور فلاں اور فلاں ، انھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے مین گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی ( ایک جانب ایک بڑا کانٹا ) لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کردیا ، پھر قافلے میں سب سے بڑے ( قد کے ) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو منگوایا ، شخص سر جھکا ئے بغیر اس پسلی کے نیچے داخل ہوگیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:3014

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 94

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7521
حدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا زهير، حدثنا أبو إسحاق، قال سمعت البراء بن عازب، يقول جاء أبو بكر الصديق إلى أبي في منزله فاشترى منه رحلا فقال لعازب ابعث معي ابنك يحمله معي إلى منزلي فقال لي أبي احمله ‏.‏ فحملته وخرج أبي معه ينتقد ثمنه فقال له أبي يا أبا بكر حدثني كيف صنعتما ليلة سريت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم أسرينا ليلتنا كلها حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق فلا يمر فيه أحد حتى رفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تأت عليه الشمس بعد فنزلنا عندها فأتيت الصخرة فسويت بيدي مكانا ينام فيه النبي صلى الله عليه وسلم في ظلها ثم بسطت عليه فروة ثم قلت نم يا رسول الله وأنا أنفض لك ما حولك فنام وخرجت أنفض ما حوله فإذا أنا براعي غنم مقبل بغنمه إلى الصخرة يريد منها الذي أردنا فلقيته فقلت لمن أنت يا غلام فقال لرجل من أهل المدينة قلت أفي غنمك لبن قال نعم ‏.‏ قلت أفتحلب لي قال نعم ‏.‏ فأخذ شاة فقلت له انفض الضرع من الشعر والتراب والقذى - قال فرأيت البراء يضرب بيده على الأخرى ينفض - فحلب لي في قعب معه كثبة من لبن قال ومعي إداوة أرتوي فيها للنبي صلى الله عليه وسلم ليشرب منها ويتوضأ - قال - فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم وكرهت أن أوقظه من نومه فوافقته استيقظ فصببت على اللبن من الماء حتى برد أسفله فقلت يا رسول الله اشرب من هذا اللبن - قال - فشرب حتى رضيت ثم قال ‏"‏ ألم يأن للرحيل ‏"‏ ‏.‏ قلت بلى ‏.‏ قال فارتحلنا بعد ما زالت الشمس واتبعنا سراقة بن مالك - قال - ونحن في جلد من الأرض فقلت يا رسول الله أتينا فقال ‏"‏ لا تحزن إن الله معنا ‏"‏ ‏.‏ فدعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فارتطمت فرسه إلى بطنها أرى فقال إني قد علمت أنكما قد دعوتما على فادعوا لي فالله لكما أن أرد عنكما الطلب ‏.‏ فدعا الله فنجى فرجع لا يلقى أحدا إلا قال قد كفيتكم ما ها هنا فلا يلقى أحدا إلا رده - قال - ووفى لنا ‏.‏
ابو اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا : حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا ، پھر ( میرے والد ) عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے : اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں ، وہ اس ( کجاوے ) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچادے ۔ میرے والد نے مجھ سے کہا : اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے ۔ میرے والد نے ان سے کہا : ابو بکر!مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ہجرت کے لیے ) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟انھوں نے کہا : ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور ( دھوپ کی شدت سے ) راستہ خالی ہوگیا ، اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا ، اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی ، اس کا سایہ بھی تھا ، اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی ۔ ہم اس کے پاس ( سواریوں سے ) اتر گئے ۔ میں چٹان کے پاس آیا ، ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سائے میں سوجائیں ، پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھادی ، پھر عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد ( کے علاقے ) کی تلاشی لیتا ہوں ( اور نگہبانی کرتا ہوں ) آ پ سو گئے ، میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چنان کی طرف آرہاتھا ۔ وہ بھی اس کے پاس اسی طرح ( آرام ) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے ۔ میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا : لڑکے !تم کس کے ( غلام ) ہو؟اس نے کہا : مدینہ کے ایک شخص کا ۔ میں نے کہا : کیا تمھاری بکریوں ( کے تھنوں ) میں دودھ ہے؟اس نے کہا : ہاں ۔ میں نے کہا : کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟اس نے کہا : ہاں ۔ اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا : تھنوں سے بال ، مٹی اور تنکے جھاڑ لو ۔ ( ابو اسحاق نے ) کہا : تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو ۔ ( ابو اسحاق نے ) کہا : میں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے ، چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا ( حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن ( بھی ) تھا ، میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں ، لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے ۔ میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا ، یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیاتو میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دودھ نوش فرمالیں ۔ آپ نے نوش فرمایا ، یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : " کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟ " میں نے عرض کی : کیوں نہیں!کہا : پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روان ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا ، جبکہ ہم ایک سخت زمین میں ( چل رہے ) تھے ۔ میں نے عرض کی : ہمیں لیا گیا ہے ، آپ نے فرمایا : " غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں ۔ میرا خیال ہے ۔ اس نے کہا : مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے ۔ میرے حق میں دعا کرو ۔ ( میری طرف سے ) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا ، پھر وہ لوٹ گیا ۔ جس ( پچھاڑنے والے ) کو ملتا اس سے یہ کہتا : میں ( تلاش کرچکا ہوں ) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں ، وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا ۔ ( حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2009.03

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 95

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7522
وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا عثمان بن عمر، ح وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا النضر بن شميل، كلاهما عن إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء، قال اشترى أبو بكر من أبي رحلا بثلاثة عشر درهما وساق الحديث بمعنى حديث زهير عن أبي إسحاق وقال في حديثه من رواية عثمان بن عمر فلما دنا دعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فساخ فرسه في الأرض إلى بطنه ووثب عنه وقال يا محمد قد علمت أن هذا عملك فادع الله أن يخلصني مما أنا فيه ولك على لأعمين على من ورائي وهذه كنانتي فخذ سهما منها فإنك ستمر على إبلي وغلماني بمكان كذا وكذا فخذ منها حاجتك قال ‏"‏ لا حاجة لي في إبلك ‏"‏ ‏.‏ فقدمنا المدينة ليلا فتنازعوا أيهم ينزل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أنزل على بني النجار أخوال عبد المطلب أكرمهم بذلك ‏"‏ ‏.‏ فصعد الرجال والنساء فوق البيوت وتفرق الغلمان والخدم في الطرق ينادون يا محمد يا رسول الله يا محمد يا رسول الله ‏.‏
زہیر بن حرب نے مجھے یہی حدیث عثمان بن عمر سے بیان کی ، نیز ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے یہی حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی ، ان دونوں ( عثمان اور نضر ) نے اسرائیل سے روایت کی ، انھوں نے ابو اسحاق سے روایت کی ، انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے والد سے تیرہ درہم میں ایک کجاوا خریدا ۔ پھر زہیر کی ابو اسحاق سے روایت کردہ حدیث کے مانند حدیث بیان کی اور اپنی حدیث میں انھوں نے کہا : عثمان بن عمر کی روایت میں ہے ، جب وہ ( سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف دعا کی ، ان کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں ۔ وہ اچھل کر اس سے اترے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپ کا کا م ہے ۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس مشکل سے ، میں جس میں پھنس گیا ہوں ، چھٹکارہ عطا کردے اور آپ کی طرف سے یہ بات میرے ذمے ہوئی کہ میرے پیچھے جو بھی ( آپ کا تعاقب کررہا ) ہے میں اس کی آنکھوں کو ( آپ کی طرف ) دیکھنے سے روک دوں گا اور یہ میرا ترکش ہے ، اس میں سے ایک تیر نکال لیں ، آپ فلاں مقام پر میرے اونٹوں اور میرے غلاموں کے پاس سے گزریں گے ، ان میں سے جس کی ضرورت ہو اسے لے لیں ۔ آپ نے فرمایا : " مجھے تمہارے اونٹوں کی ضرورت نہیں ۔ " چنانچہ ہم رات کے وقت مدینہ ( کے قریب ) پہنچے ۔ لوگوں نے اس کے بارے میں تنازع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کے ہاں اتریں گے ( مہمان بنیں گے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میں ( اپنے د ادا ) عبدالمطلب کے ننھیال بنو نجار کا مہمان بن کر ان کی عزت افزائی کروں گا ۔ " مرد ، عورتیں گھروں کے اوپر چڑھ گئے اور غلام اور نوکر چاکر راستوں میں بکھر گئے ۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ( مرحبا ) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ( مرحبا ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2009.04

صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم صحيح مسلم باب:55 حدیث نمبر : 96

Share this: