احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
50: كتاب التوبة
توبہ کا بیان
صحيح مسلم حدیث نمبر: 6952
حدثني سويد بن سعيد، حدثنا حفص بن ميسرة، حدثني زيد بن أسلم، عن أبي، صالح عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ قال الله عز وجل أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حيث يذكرني والله لله أفرح بتوبة عبده من أحدكم يجد ضالته بالفلاة ومن تقرب إلى شبرا تقربت إليه ذراعا ومن تقرب إلى ذراعا تقربت إليه باعا وإذا أقبل إلى يمشي أقبلت إليه أهرول ‏"‏ ‏.‏
ابوصالح نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل نے فرمایا : میرے بارے میں میرے بندے کا جو گمان ہو میں اس کے ساتھ ( مطابق ہوتا ) ہوں اور وہ مجھے جہاں ( بھی ) یاد کرے میں اس کے پاس ہوتا ہوں ۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے ایسے آدمی کی نسبت بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے چٹیل بیابان میں اپنی گم شدہ سواری ( سامان سمیت واپس ) مل جاتی ہے ۔ ( میرا ) جو بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے ، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آ جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے ، میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو چلتا ہوا میری طرف آتا ہے ، میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2675.08

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6953
حدثني عبد الله بن مسلمة بن قعنب القعنبي، حدثنا المغيرة، - يعني ابن عبد الرحمن الحزامي - عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة أحدكم من أحدكم بضالته إذا وجدها ‏"‏ ‏.‏
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ یقینا تم میں سے کسی کے توبہ کرنے پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص اپنی گم شدہ سواری ( واپس ) پا کر خوش ہوتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2675.09

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6954
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعناه ‏.‏
ہمام بن منبہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2675.1

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6955
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، - واللفظ لعثمان - قال إسحاق أخبرنا وقال، عثمان حدثنا جرير، عن الأعمش، عن عمارة بن عمير، عن الحارث بن، سويد قال دخلت على عبد الله أعوده وهو مريض فحدثنا بحديثين حديثا عن نفسه وحديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة عبده المؤمن من رجل في أرض دوية مهلكة معه راحلته عليها طعامه وشرابه فنام فاستيقظ وقد ذهبت فطلبها حتى أدركه العطش ثم قال أرجع إلى مكاني الذي كنت فيه فأنام حتى أموت ‏.‏ فوضع رأسه على ساعده ليموت فاستيقظ وعنده راحلته وعليها زاده وطعامه وشرابه فالله أشد فرحا بتوبة العبد المؤمن من هذا براحلته وزاده ‏"‏ ‏.‏
جریر نے اعمش سے ، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے اور انہوں نے حارث بن سُوید سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کے ہاں حاضر ہوا ، اس وقت وہ بیمار تھے ، انہوں نے ہمیں وہ حدیثیں بیان کیں ، ایک حدیث اپنی طرف سے اور ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرماتے تھے : " اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا وہ آدمی ( خوش ہوتا ہے ) جو ہلاکت خیز سنسان اور بے آب و گیاہ میدان میں ہو ، اس کے ساتھ اس کی سواری ہو ، اس ( سواری ) پر اس کا کھانا اور پانی لدا ہوا ہو ، وہ ( تھکا ہارا کچھ دیر کے لئے ) سو جائے اور جب جاگے تو سواری جا چکی ہو ۔ وہ ڈھونڈتا رہے یہاں تک کہ اسے شدید پیاس لگ جائے ، پھر وہ کہے : میں جہاں پر تھا ، اسی جگہ واپس جاتا ہوں اور سو جاتا ہوں ، یہاں تک کہ ( اس نیند کے عالم میں ) مجھے موت آ جائے ۔ وہ اپنی کلائی پر سر رکھ کر مرنے کے لیے لیٹ جائے اور ( اچانک ) اس کی آنکھ کھلے تو اس کی وہ سواری جس پر اس کا زادراہ کھانا اور پانی تھا اس کے پاس کھڑی ہو ۔ تو اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا یہ آدمی اپنی سواری اور زادراہ سے خوش ہوتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2744.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6956
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن آدم، عن قطبة بن عبد العزيز، عن الأعمش، بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ من رجل بداوية من الأرض ‏"‏ ‏.‏
قطبہ بن عبدالعزیز نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا : " اس آدمی کی نسبت ( زیادہ خوش ہوتا ہے ) جو زمین کے سنسان بے آب و گیاہ صحرا میں ہو ۔ " دوية کے بجائے داوية کا لفظ بولا ، معنی ایک ہی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2744.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6957
وحدثني إسحاق بن منصور، حدثنا أبو أسامة، حدثنا الأعمش، حدثنا عمارة، بن عمير قال سمعت الحارث بن سويد، قال حدثني عبد الله، حديثين أحدهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم والآخر عن نفسه فقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة عبده المؤمن ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث جرير ‏.‏
ابواسامہ نے کہا : ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں عمارہ بن عمیر نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : میں نے حارث بن سوید سے سنا ، کہا : مجھے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے وہ حدیثیں بیان کیں ، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( نقل کرتے ہوئے ) اور دوسری اپنی طرف سے ، چنانچہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بلاشبہ اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے ( اس آدمی کی نسبت ) زیادہ خوش ہوتا ہے " ( آگے ) جریر کی حدیث کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2744.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6958
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا أبو يونس، عن سماك، قال خطب النعمان بن بشير فقال ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة عبده من رجل حمل زاده ومزاده على بعير ثم سار حتى كان بفلاة من الأرض فأدركته القائلة فنزل فقال تحت شجرة فغلبته عينه وانسل بعيره فاستيقظ فسعى شرفا فلم ير شيئا ثم سعى شرفا ثانيا فلم ير شيئا ثم سعى شرفا ثالثا فلم ير شيئا فأقبل حتى أتى مكانه الذي قال فيه فبينما هو قاعد إذ جاءه بعيره يمشي حتى وضع خطامه في يده فلله أشد فرحا بتوبة العبد من هذا حين وجد بعيره على حاله ‏"‏ ‏.‏ قال سماك فزعم الشعبي أن النعمان رفع هذا الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأما أنا فلم أسمعه ‏.‏
ابو یونس نے سماک سے روایت کی ، کہا : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ) بیان کیا : "" اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنا زادراہ اور اپنی پانی کی بڑی مشک کو اونٹ پر لادا ، پھر ( سفر پر ) چل پڑا ، یہاں تک کہ جب وہ ایک چٹیل زمین پر تھا تو اسے دوپہر کی نیند نے بے بس کر دیا ، وہ اترا اور ایک درخت کے نیچے دوپہر کے آرام کے لیے لیٹ گیا ، اس کی آنکھ لگ گئی اور اس کا اونٹ کسی طرف کو نکل گیا ، پھر وہ جاگا تو کوشش کر کے ایک ٹیلے پر چڑھا ( ہر طرف دیکھا ) لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا ، پھر وہ مشقت اٹھا کر دوسرے ٹیلے پر چڑھا ، اسے کچھ نظر نہ آیا ، پھر ( مزید ) مشقت سے تیسرے ٹیلے پر چڑھا تو اسے کچھ نظر نہ آیا ، پھر وہ آیا ، اسی جگہ پہنچا جہاں دوپہر کا آرام کیا تھا ، وہ ( اس جگہ ) بیٹھا ہوا تھا کہ اس کا اونٹ چلتا ہوا ( واپس ) آ گیا اور اپنی مہار ( نکیل سے بندھی ہوئی رسی ) اس آدمی کے ہاتھ پر گرا دی ۔ ( اسے اٹھ کر مہار پکڑنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑی ) تو اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے جب یہ آدمی اپنی سواری کو اس کی اصل حالت میں ( زادراہ اور پانی سمیت صحیح سالم ) پا لیتا ہے ۔ "" سماک نے کہا : تو شعبی نے سمجھا کہ حضرت نعمان ( بن بشیر رضی اللہ عنہ ) نے یہ بات مرفوع ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ) بیان کی ہے ، لیکن میں نے ان کو ( مرفوع بیان کرتے ) نہیں سنا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2745

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6959
حدثنا يحيى بن يحيى، وجعفر بن حميد، قال جعفر حدثنا وقال، يحيى أخبرنا عبيد الله بن إياد بن لقيط، عن إياد، عن البراء بن عازب، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كيف تقولون بفرح رجل انفلتت منه راحلته تجر زمامها بأرض قفر ليس بها طعام ولا شراب وعليها له طعام وشراب فطلبها حتى شق عليه ثم مرت بجذل شجرة فتعلق زمامها فوجدها متعلقة به ‏"‏ ‏.‏ قلنا شديدا يا رسول الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما والله لله أشد فرحا بتوبة عبده من الرجل براحلته ‏"‏ ‏.‏ قال جعفر حدثنا عبيد الله بن إياد عن أبيه ‏.‏
یحییٰ بن یحییٰ اور جعفر بن حمید نے ہمیں عبیداللہ بن ایاد بن لقیط سے ، انہوں نے ایاد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم اس شخص کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی ایسی بے آب و گیاہ زمین میں ، جہاں کھانے کی کوئی چیز ہو نہ پینے کی ، اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی ( کسی طرف ) نکل گئی ۔ اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر تھا ۔ اس شخص نے اسے ( بہت ) ڈھونڈا حتی کہ تھک کر ہار گیا ، پھر وہ ( اونٹنی چلتے چلتے ) ایک درخت کے ٹنڈ منڈ تنے کے پاس سے گزری تو اس کی نکیل کی رسی اس کے ساتھ اٹک گئی اور اس شخص نے اس ( اونٹنی ) کو اس ( تنے ) کے ساتھ لگی کھڑی پا لیا؟ "" ہم نے عرض کی : اللہ کے رسول! ( اس شخص کی خوشی ) بے پناہ ہو گی ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا یہ شخص اپنی سواری کو پا کر ہوتا ہے ۔ "" جعفر نے کہا : ہمیں عبیداللہ بن یاد نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2746

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6960
حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، قالا حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، حدثنا أنس بن مالك، - وهو عمه - قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة عبده حين يتوب إليه من أحدكم كان على راحلته بأرض فلاة فانفلتت منه وعليها طعامه وشرابه فأيس منها فأتى شجرة فاضطجع في ظلها قد أيس من راحلته فبينا هو كذلك إذا هو بها قائمة عنده فأخذ بخطامها ثم قال من شدة الفرح اللهم أنت عبدي وأنا ربك ‏.‏ أخطأ من شدة الفرح ‏"‏ ‏.‏
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ ) ان کے چچا ہیں ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ، جب وہ ( بندہ ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے ، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر ( سفر کر رہا ) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل ( کر گم ہو ) گئی ، اس کا کھانا اور پانی اسی ( سواری ) پر ہے ۔ وہ اس ( کے ملنے ) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا ۔ وہ اپنی سواری ( ملنے ) سے ناامید ہو چکا تھا ۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ ( آدمی ) اس کے پاس ہے ، وہ ( اونٹنی ) اس کے پاس کھڑی ہے ، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا ، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا ، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2747.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6961
حدثنا هداب بن خالد، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لله أشد فرحا بتوبة عبده من أحدكم إذا استيقظ على بعيره قد أضله بأرض فلاة ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه أحمد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا أنس بن، مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
ہداب بن خالد نے کہا : ہمیں ہمام نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے ، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت ہمیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جب کٹیل صحرا میں اس کے ( اس ) اونٹ ( کے آں ے ) پر اس کی آنکھ کھلتی ہے جسے وہ صحرا میں گم کر چکا ہوتا ہے ۔

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6962
حبان نے کہا : ہمیں ہمام نے حدیث بیان کی ۔ کہا : ہمیں قتادہ نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6963
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن محمد بن قيس، - قاص عمر بن عبد العزيز - عن أبي صرمة، عن أبي أيوب، أنه قال حين حضرته الوفاة كنت كتمت عنكم شيئا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لولا أنكم تذنبون لخلق الله خلقا يذنبون يغفر لهم ‏"‏ ‏.‏
عمر بن عبدالعزیز کے قصہ گو محمد بن قیس نے ابوصرمہ سے ، انہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے چھپا رکھی تھی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا : " اگر تم ( لوگ ) گناہ نہ کرو تو ( تمہاری جگہ ) اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق کو پیدا فرما دے جو گناہ کریں ( پھر اللہ سے توبہ کریں اور ) وہ ان کی مغفرت فرما دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2748.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6964
حدثنا هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، حدثني عياض، - وهو ابن عبد الله الفهري - حدثني إبراهيم بن عبيد بن رفاعة، عن محمد بن كعب القرظي، عن أبي صرمة، عن أبي أيوب الأنصاري، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ لو أنكم لم تكن لكم ذنوب يغفرها الله لكم لجاء الله بقوم لهم ذنوب يغفرها لهم ‏"‏ ‏.‏
محمد بن کعب قرظی نے ابوصرمہ سے ، انہوں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر تم ایسے ہوتے کہ تمہارے ( نامہ اعمال میں کچھ بھی ) گناہ نہ ہوتے جن کی اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بخشش فرماتا تو وہ ایسی قوم کو ( اس دنیا میں ) لے آتا جن کے گناہ ہوتے اور وہ ان کے لیے ان ( گناہوں ) کی مغفرت فرماتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2748.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6965
حدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن جعفر الجزري، عن يزيد بن الأصم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم ولجاء بقوم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم ( لوگ ) گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو ( اس دنیا سے ) لے جائے اور ( تمہارے بدلے میں ) ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2749

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6966
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، وقطن بن نسير، - واللفظ ليحيى - أخبرنا جعفر، بن سليمان عن سعيد بن إياس الجريري، عن أبي عثمان النهدي، عن حنظلة الأسيدي، قال - وكان من كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال - لقيني أبو بكر فقال كيف أنت يا حنظلة قال قلت نافق حنظلة قال سبحان الله ما تقول قال قلت نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأى عين فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات فنسينا كثيرا قال أبو بكر فوالله إنا لنلقى مثل هذا ‏.‏ فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت نافق حنظلة يا رسول الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وما ذاك ‏"‏ ‏.‏ قلت يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأى عين فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ والذي نفسي بيده إن لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ولكن يا حنظلة ساعة وساعة ‏"‏ ‏.‏ ثلاث مرات ‏.‏
جعفر بن سلیمان نے سعید بن ایاس جریری سے ، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے اور انہوں نے حضرت حنظلہ ( بن ربیع ) اُسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا ۔ ۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے تھے ۔ ۔ کہا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور دریافت کیا : حنظلہ! آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا : حنظلہ منافق ہو گیا ہے ، ( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں حتی کہ ایسے لگتے ہیں گویا ہم ( انہیں ) آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے نکلتے ہیں تو بیویوں ، بچوں اور کھیتی باڑی ( اور دوسرے کام کاج ) کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بھول بھلا جاتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! یہی کچھ ہمیں بھی پیش آتا ہے ، پھر میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ کیا معاملہ ہے؟ " میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں ، تو حالت یہ ہوتی ہے گویا ہم ( جنت اور دوزخ کو ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم آپ کے ہاں سے باہر نکلتے ہیں تو بیویوں ، بچوں اور کام کاج کی دیکھ بھال میں لگ جاتے ہیں ۔ ۔ ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس طرح میرے پاس ہوتے اور ذکر میں لگے رہو تو تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں فرشتے ( آ کر ) تمہارے ساتھ مصافحے کریں ، لیکن اے حنظلہ! کوئی گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور کوئی گھڑی کسی ( اور ) طرح ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2750.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6967
حدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد، سمعت أبي يحدث، حدثنا سعيد، الجريري عن أبي عثمان النهدي، عن حنظلة، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فوعظنا فذكر النار - قال - ثم جئت إلى البيت فضاحكت الصبيان ولاعبت المرأة - قال - فخرجت فلقيت أبا بكر فذكرت ذلك له فقال وأنا قد فعلت مثل ما تذكر ‏.‏ فلقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله نافق حنظلة فقال ‏"‏ مه ‏"‏ ‏.‏ فحدثته بالحديث فقال أبو بكر وأنا قد فعلت مثل ما فعل فقال ‏"‏ يا حنظلة ساعة وساعة ولو كانت تكون قلوبكم كما تكون عند الذكر لصافحتكم الملائكة حتى تسلم عليكم في الطرق ‏"‏ ‏.‏
عبدالصمد کے والد ( عبدالوارث بن سعید ) نے کہا : ہمیں سعید جریری نے ابوعثمان نہدی سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے ہمیں وعظ فرمایا اور دوزخ کی یاد دلائی ۔ کہا : پھر میں گھر آیا تو بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا اور بیوی سے خوش طبعی کی ، پھر میں باہر نکلا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ، ، میں نے یہی بات ان کو بتائی ۔ انہوں نے کہا : میں نے بھی یہی کیا ہے جس طرح تم نے ذکر کیا ہے ، پھر ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ، میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ کیا بات ہے؟ " تو میں نے پوری بات آپ سے عرض کر دی ، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : جس طرح انہوں نے کیا ہے ، میں بھی بالکل یہی کیا ہے ( گھر جا کر بیوی بچوں کے ساتھ مشغول ہو گیا ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " حنظلہ ( یہ ) گھڑی گھڑی کا معاملہ ہے ( ایک گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور دوسری کسی اور طرح ۔ ) اگر تمہارے دل ہر وقت اسی طرح رہیں جیسے تذکیر و تلقین کے وقت ہوتے ہیں تو تمہارے ساتھ فرشتے مصافحے کریں حتی کہ راستوں میں تم کو سلام کہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2750.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6968
حدثني زهير بن حرب، حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا سفيان، عن سعيد الجريري، عن أبي عثمان النهدي، عن حنظلة التميمي الأسيدي الكاتب، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا الجنة والنار ‏.‏ فذكر نحو حديثهما ‏.‏
سفیان نے سعید جریری سے ، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے اور انہوں نے حضرت حنظلہ تمیمی اُسیدی کاتب ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روایت کی ، کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ۔ ۔ ۔ پھر ان دونوں ( جعفر بن سلیمان اور عبدالوارث بن سعید ) کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2750.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6969
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا المغيرة، - يعني الحزامي - عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لما خلق الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش إن رحمتي تغلب غضبي ‏"‏ ‏.‏
مغیرہ حزامی نے ابوزناد سے ، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا اور وہ ( کتاب ) عرش کے اوپر اس کے پاس ہے : یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہو گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2751.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6970
حدثني زهير بن حرب، حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ قال الله عز وجل سبقت رحمتي غضبي ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے ابوزناد سے ، انہوں نے اعرج سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل نے فرمایا : میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2751.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6971
حدثنا علي بن خشرم، أخبرنا أبو ضمرة، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن عطاء، بن ميناء عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لما قضى الله الخلق كتب في كتابه على نفسه فهو موضوع عنده إن رحمتي تغلب غضبي ‏"‏ ‏.‏
عطاء بن مینا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کے بارے میں فیصلہ فرما لیا تو اس نے اپنی کتاب میں اپنے اوپر لازم کرتے ہوئے لکھ دیا ، وہ اس کے پاس رکھی ہوئی ہے : یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2751.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6972
حدثنا حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أن سعيد بن المسيب، أخبره أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ جعل الله الرحمة مائة جزء فأمسك عنده تسعة وتسعين وأنزل في الأرض جزءا واحدا فمن ذلك الجزء تتراحم الخلائق حتى ترفع الدابة حافرها عن ولدها خشية أن تصيبه ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسیب نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ایک سو حصے کیے ، ننانوے حصے اپنے پاس روک کر رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر اتارا ، اسی ایک حصے میں سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے حتی کہ ایک چوپایہ اس ڈر سے اپنا سم اپنے بچے اوپر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اس کو لگ نہ جائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2752.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6973
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر قالوا حدثنا إسماعيل، - يعنون ابن جعفر - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ خلق الله مائة رحمة فوضع واحدة بين خلقه وخبأ عنده مائة إلا واحدة ‏"‏ ‏.‏
علاء کے والد ( عبدالرحمٰن ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں ، اس نے ایک رحمت اپنی مخلوق میں رکھی اور ایک کم سو رحمتیں ( آئندہ کے لیے ) اپنے پاس چھپا کر رکھ لیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2752.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6974
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن لله مائة رحمة أنزل منها رحمة واحدة بين الجن والإنس والبهائم والهوام فبها يتعاطفون وبها يتراحمون وبها تعطف الوحش على ولدها وأخر الله تسعا وتسعين رحمة يرحم بها عباده يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
عطاء نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ، ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و انس ، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان نازل فرما دی ، اسی ( ایک حصے کے ذریعے ) سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں ، آپس میں رحمت کا برتاؤ کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں مؤخر کر کے رکھ لی ہیں ، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2752.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6975
حدثني الحكم بن موسى، حدثنا معاذ بن معاذ، حدثنا سليمان التيمي، حدثنا أبو عثمان النهدي عن سلمان الفارسي، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن لله مائة رحمة فمنها رحمة بها يتراحم الخلق بينهم وتسعة وتسعون ليوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
معاذ نے کہا : ہمیں سلیمان تیمی نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں ابوعثمان نہدی نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ، ان میں سے ایک رحمت ہے جس کے ذریعے سے مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور ننانوے ( رحمتیں ) قیامت کے دن کے لیے ( محفوظ ) ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2753.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6976
وحدثناه محمد بن عبد الأعلى، حدثنا المعتمر، عن أبيه، بهذا الإسناد ‏.‏
معتمر نے اپنے والد ( سلیمان تیمی ) سے اسی سند کے ساتھ ( یہی ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2753.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6977
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبو معاوية، عن داود بن أبي هند، عن أبي عثمان، عن سلمان، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله خلق يوم خلق السموات والأرض مائة رحمة كل رحمة طباق ما بين السماء والأرض فجعل منها في الأرض رحمة فبها تعطف الوالدة على ولدها والوحش والطير بعضها على بعض فإذا كان يوم القيامة أكملها بهذه الرحمة ‏"‏ ‏.‏
داود بن ابی ہند نے ابو عثمان سے اور انہوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بےشک اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن اس نے سو رحمتیں پیدا کیں ، ہر رحمت آسمانوں اور زمین کےدرمیان کی وسعت کے برابر ہے ، اس نے ان میں سے ایک رحمت زمین میں رکھی ، اسی رحمت کی وجہ سے والدہ اپنی اولاد پر رحمت کرتی ہے اور وحشی جانور اور پرندے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت کا سلوک کرتے ہیں ، جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کو اس رحمت کے ساتھ ملا کر پوری ( سو ) کرے گا ( اور بندوں کے ساتھ سو فیصد رحمت کا سلوک فرمائے گا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2753.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6978
حدثني الحسن بن علي الحلواني، ومحمد بن سهل التميمي، - واللفظ لحسن - حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا أبو غسان، حدثني زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عمر بن الخطاب، أنه قال قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبى فإذا امرأة من السبى تبتغي إذا وجدت صبيا في السبى أخذته فألصقته ببطنها وأرضعته فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أترون هذه المرأة طارحة ولدها في النار ‏"‏ ‏.‏ قلنا لا والله وهي تقدر على أن لا تطرحه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لله أرحم بعباده من هذه بولدها ‏"‏ ‏.‏
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے ، ان قیدیوں میں سے ایک عورت کسی کو تلاش کر رہی تھی ، اچانک قیدیوں میں سے اس ایک کو بچہ مل گیا ، اس نے بچے کو اٹھا کر پیٹ سے چمتا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : " کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ " ہم نے کہا : اللہ کی قسم! اگر اس کے بس میں ہو کہ اسے نہ پھینکے ( تو ہرگز نہیں پھینکے گی ۔ ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا اس عورت کو اپنے بچے کے ساتھ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2754

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6979
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر جميعا عن إسماعيل بن جعفر، قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لو يعلم المؤمن ما عند الله من العقوبة ما طمع بجنته أحد ولو يعلم الكافر ما عند الله من الرحمة ما قنط من جنته أحد ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر مومن کو یہ علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سزا کیا ہے تو کوئی شخص اس کی جنت کی امید ہی نہ رکھے ، اور اگر کافر کو یہ پتہ چل جائے کہ اللہ کے پاس رحمت کس قدر ہے تو کوئی ایک بھی اس کی جنت سے مایوس نہ ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2755

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6980
حدثني محمد بن مرزوق ابن بنت مهدي بن ميمون، حدثنا روح، حدثنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله إذا مات فحرقوه ثم اذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه وأمر البحر فجمع ما فيه ثم قال لم فعلت هذا قال من خشيتك يا رب وأنت أعلم ‏.‏ فغفر الله له ‏"‏ ‏.‏
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ایک آڈمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی ، اپنے گھر والوں سے کہا : جب وہ مرے تو اسے جلا دیں ، پھر اس کا آدھا حصہ ( ۃواؤں میں اڑا کر ) خشکی پر بکھیر دیں اور آدھا حصہ سمندر میں بہا دیں ، کیونکہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اسے قابو کر لیا تو اس کو ضرور بالضرور ایسا عذاب دے گا جو تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دے گا ، چنانچہ جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا ، اس شخص کا جو بھی حسہ اس ( خشکی ) میں تھا اس نے اس کو اکٹھا کر دیا اور سمندر کو حکم تو جو کچھ اس میں تھا اس نے اکٹھا کر دیا ، پھر ( اللہ نے ) اس سے پوچھا : تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا : میرے رب! تیرے ڈر سے ( ایسا کیا تھا ) اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے ( کہ میری بات سچ ہے ) تو اللہ نے ( اس سچی خشیت کی بنا پر ) اسے بخش دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2756.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6981
حدثنا محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرنا وقال ابن رافع، - واللفظ له - حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، قال قال لي الزهري ألا أحدثك بحديثين عجيبين قال الزهري أخبرني حميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أسرف رجل على نفسه فلما حضره الموت أوصى بنيه فقال إذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم اذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر على ربي ليعذبني عذابا ما عذبه به أحدا ‏.‏ قال ففعلوا ذلك به فقال للأرض أدي ما أخذت ‏.‏ فإذا هو قائم فقال له ما حملك على ما صنعت فقال خشيتك يا رب - أو قال - مخافتك ‏.‏ فغفر له بذلك ‏"‏ ‏.‏ قال الزهري وحدثني حميد، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلا هي أطعمتها ولا هي أرسلتها تأكل من خشاش الأرض حتى ماتت هزلا ‏"‏ ‏.‏ قال الزهري ذلك لئلا يتكل رجل ولا ييأس رجل ‏.‏
معمر نے کہا : زہری نے مجھ سے کہا : کیا میں تمہیں دو عجیب حدیثیں نہ سناؤں؟ ( پھر ) زہری نے کہا : مجھے حمید بن عبدالرحمان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی ، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ایک شخص نے اپنے آپ پر ہر قسم کی زیادتی کی ( ہر گناہ کا ارتکاب کر کے خود کو مجرم بنایا ۔ ) تو جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور کہا : جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا ، پھر مجھے ریزہ ریزہ کر دینا ، پھر مجھے ہوا میں ، سمندر میں اڑا دینا ۔ اللہ کی قسم! اگر میرے رب نے مجھے قابو کر لیا تو مجھے یقینا ایسا عذاب دے گا جو کسی اور کو نہ دیا ہو گا ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " انہوں نے اس کے ساتھ یہی کیا ۔ تو اللہ نے زمین سے کہا : جو تو نے لیا پورا واپس کر ، تو وہ ( پورے کا پورا سامنے ) کھڑا تھا ۔ اللہ نے اس سے فرمایا : تو نے جو کیا اس پر تمہیں کس چیز نے اکسایا؟ اس نے کہا : میرے پروردگار! تیری خشیت نے ۔ ۔ یا کہا ۔ ۔ : تیرے خوف نے تو اسی ( بات ) کی بنا پر اس ( اللہ ) نے اسے بخش دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6982
زہری نے کہا : اور حمید نے مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا ۔ اس نے نہ اس کو کھلایا ، نہ اسے چھوڑا ہی کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی ، وہ لاغر ہو کر مر گئی ۔ "" زہری نے کہا؛ یہ اس لیے ( فرمایا کیا : ) ہے کہ کوئی شخص نہ صرف ( رحمت پر ) بھروسہ کر لے اور نہ صرف مایوسی ہی کو اپنا لے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2619.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6983
حدثني أبو الربيع، سليمان بن داود حدثنا محمد بن حرب، حدثني الزبيدي، قال الزهري حدثني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، عن أبي هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ أسرف عبد على نفسه ‏"‏ ‏.‏ بنحو حديث معمر إلى قوله ‏"‏ فغفر الله له ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر حديث المرأة في قصة الهرة وفي حديث الزبيدي قال ‏"‏ فقال الله عز وجل لكل شىء أخذ منه شيئا أد ما أخذت منه ‏"‏ ‏.‏
زبیدی نے مجھے حدیث سنائی کہ زہری نے کہا : مجھے حُمید بن عبدالرحمان بن عوف نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "" ایک بندے نے اپنے آپ پر ہر طرح کی زیادتی کی ۔ "" ( آگے ) معمر کی حدیث کی طرح ہے ، اس قول تک : "" پس اللہ نے اسے بخش دیا ۔ "" اور انہوں نے بلی کے واقعے ( کے بارے ) میں عورت والی حدیث کا ذکر نہیں کیا ۔ اور زُبیدی کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اللہ عزوجل نے ہر شے سے ، جس نے اس ( جلائے جانے والے شخص ) کی کوئی بھی چیز لی تھی ، فرمایا : اس کا جو حصہ تیرے پاس ہے پورا واپس کر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2756.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6984
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن قتادة، سمع عقبة بن عبد الغافر، يقول سمعت أبا سعيد الخدري، يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أن رجلا فيمن كان قبلكم راشه الله مالا وولدا فقال لولده لتفعلن ما آمركم به أو لأولين ميراثي غيركم إذا أنا مت فأحرقوني - وأكثر علمي أنه قال - ثم اسحقوني واذروني في الريح فإني لم أبتهر عند الله خيرا وإن الله يقدر على أن يعذبني - قال - فأخذ منهم ميثاقا ففعلوا ذلك به وربي فقال الله ما حملك على ما فعلت فقال مخافتك ‏.‏ قال فما تلافاه غيرها ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عقبہ بن عبدالغافر کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے تھے : " تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد سے نوازا تھا ۔ اس نے اپنے بچوں سے کہا : ہر صورت وہی کچھ کرو گے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ، یا میں اپنا ورثہ دوسروں کے سپرد کر دوں گا ، جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دو ۔ ۔ اور مجھے زیادہ یہ لگتا ہے کہ قتادہ نے کہا ۔ ۔ پھر مجھے کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دو ، پھر مجھے ہوا میں اڑا دو کیونکہ میں نے اللہ کے ہاں کوئی اچھائی ذخیرہ نہیں کی ۔ اللہ مجھ پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ مجھے عذاب دے ۔ کہا : اس نے ان ( اپنی اولاد ) سے پختہ عہد و پیمان لیا ، تو میرے رب کی قسم! انہوں نے اس کے ساتھ وہی کیا ( جو اس نے کہا تھا ۔ ) اللہ تعالیٰ نے پوچھا : تم نے جو کچھ کیا اس پر تمہیں کس نے اکسایا؟ اس نے کہا : تیرے خوف نے ۔ فرمایا : پھر اسے اس کے سوا ( جو وہ بھگت چکا تھا ، یعنی لاش کا جلنا اور اللہ کے سامنے پیشی وغیرہ ) اور کوئی عذاب نہ ہوا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2757.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6985
وحدثناه يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا معتمر بن سليمان، قال قال لي أبي حدثنا قتادة، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا شيبان، بن عبد الرحمن ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا أبو الوليد، حدثنا أبو عوانة، كلاهما عن قتادة، ذكروا جميعا بإسناد شعبة نحو حديثه وفي حديث شيبان وأبي عوانة ‏"‏ أن رجلا من الناس رغسه الله مالا وولدا ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث التيمي ‏"‏ فإنه لم يبتئر عند الله خيرا ‏"‏ ‏.‏ قال فسرها قتادة لم يدخر عند الله خيرا ‏.‏ وفي حديث شيبان ‏"‏ فإنه والله ما ابتأر عند الله خيرا ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث أبي عوانة ‏"‏ ما امتأر ‏"‏ ‏.‏ بالميم ‏.‏
سلیمان ، شیبان بن عبدالرحمٰن اور ابوعوانہ سب نے قتادہ سے شعبہ کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔ شیبان اور ابوعوانہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں : "" لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے بہت مال اور اولاد سے نوازا ۔ "" اور تمیمی کی حدیث میں ہے : "" اس نے اللہ کے پاس کوئی اچھائی جمع نہ کرائی "" کہا کہ قتادہ نے اس کی یہ تشریح کی : اس نے اللہ کے پاس کوئی اچھائی ذخیرہ نہ کی ۔ اور شیبان کی حدیث میں ہے : "" بےشک اس نے ، اللہ کی قسم! اللہ کے ہاں کوئی نیکی محفوظ نہ کرائی ۔ "" اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے : "" اس نے کچھ جمع نہ کیا "" امتار میم کے ساتھ ( یہ سب بولنے میں بھی ملتے جلتے الفاظ ہیں اور معنی میں بھی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2757.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6986
حدثني عبد الأعلى بن حماد، حدثنا حماد بن سلمة، عن إسحاق بن عبد الله، بن أبي طلحة عن عبد الرحمن بن أبي عمرة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يحكي عن ربه عز وجل قال ‏"‏ أذنب عبد ذنبا فقال اللهم اغفر لي ذنبي ‏.‏ فقال تبارك وتعالى أذنب عبدي ذنبا فعلم أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب ‏.‏ ثم عاد فأذنب فقال أى رب اغفر لي ذنبي ‏.‏ فقال تبارك وتعالى عبدي أذنب ذنبا فعلم أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب ‏.‏ ثم عاد فأذنب فقال أى رب اغفر لي ذنبي ‏.‏ فقال تبارك وتعالى أذنب عبدي ذنبا فعلم أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب واعمل ما شئت فقد غفرت لك ‏"‏ ‏.‏ قال عبد الأعلى لا أدري أقال في الثالثة أو الرابعة ‏"‏ اعمل ما شئت ‏"‏ ‏.‏
عبدالاعلیٰ بن حماد نے مجھے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں حماد بن سلمہ نے اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے نقل کرتے ہوئے فرمایا : "" ایک بندے نے گناہ کیا ، اس نے کہا : اے اللہ! میرا گناہ بخش دے ، تو ( اللہ ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا ہے ، اس کو پتہ ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے ، اس بندے نے پھر گناہ کیا تو کہا : میرے رب! میرا گناہ بخش دے ، تو ( اللہ ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میرا بندہ ہے ، اس نے گناہ کیا ہے تو اسے معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور ( چاہے تو ) گناہ پر پکڑتا ہے ۔ اس بندے نے پھر سے وہی کیا ، گناہ کیا اور کہا : میرے رب! میرے لیے میرا گناہ بخش دے ، تو ( اللہ ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا تو اسے معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور ( چاہے تو ) گناہ پر پکڑ لیتا ہے ، ( میرے بندے! اب تو ) جو چاہے کر ، میں نے تجھے بخش دیا ہے ۔ "" عبدالاعلیٰ نے کہا : مجھے ( پوری طرح ) معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار : "" جو چاہے کر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2758.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6987
قال أبو أحمد حدثني محمد بن زنجويه القرشي القشيري، حدثنا عبد الأعلى، بن حماد النرسي بهذا الإسناد ‏.‏
محمد بن زنجویہ قشیری نے کہا : ہمیں عبدالاعلیٰ بن حماد نرسی نے اسی سند کے ساتھ ( یہی ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2758.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6988
حدثني عبد بن حميد، حدثني أبو الوليد، حدثنا همام، حدثنا إسحاق بن عبد الله، بن أبي طلحة قال كان بالمدينة قاص يقال له عبد الرحمن بن أبي عمرة - قال - فسمعته يقول سمعت أبا هريرة يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن عبدا أذنب ذنبا ‏"‏ ‏.‏ بمعنى حديث حماد بن سلمة ‏.‏ وذكر ثلاث مرات ‏"‏ أذنب ذنبا ‏"‏ ‏.‏ وفي الثالثة ‏"‏ قد غفرت لعبدي فليعمل ما شاء ‏"‏ ‏.‏
ہمام نے کہا : ہمیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مدینہ میں ایک واعظ تھا جسے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا جاتا تھا ، میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " یقینا ایک بندے نے گناہ کیا " ( آگے ) حماد بن سلمہ کی حدیث کے مطابق بیان کیا اور اس نے " گناہ کیا " ( کے الفاظ ) تین بار کہے اور تیسری دفعہ کے بعد کہا : " میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ، لہذا جو چاہے کرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2758.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6989
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال سمعت أبا عبيدة، يحدث عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الله عز وجل يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل حتى تطلع الشمس من مغربها ‏"‏ ‏.‏ وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے عمرہ بن مرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے ابوعبید کو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : " اللہ عزوجل رات کو اپنا دست ( رحمت بندوں کی طرف ) پھیلا دیتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن کو اپنا دست ( رحمت ) پھیلا دیتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے ( اور وہ اس وقت تک یہی کرتا رہے گا ) یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے ۔

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6990
ابوداود نے کہا : ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6991
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال، عثمان حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس أحد أحب إليه المدح من الله من أجل ذلك مدح نفسه وليس أحد أغير من الله من أجل ذلك حرم الفواحش ‏"‏ ‏.‏
جریر نے اعمش سے ، انہوں نے ابووائل ( شقیق ) سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح ( اس کی رحمت و عنایت کا اقرار اور اس پر اس کی تعریف ) پسند ہو ، اسی لیے اس نے خود اپنی مدح فرمائی ہے اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو ، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام ، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں ، حرام کر دیے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2760.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6992
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، - واللفظ له - حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو معاوية عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا أحد أغير من الله ولذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا أحد أحب إليه المدح من الله ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ نے اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ سے بڑھ کر کوئی غیور نہیں ہے ، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام ، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں حرام کر دیے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے جسے مدح زیادہ پسند ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2760.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6993
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال سمعت أبا وائل، يقول سمعت عبد الله بن مسعود، يقول قلت له آنت سمعته من عبد الله، قال نعم ورفعه أنه قال ‏ "‏ لا أحد أغير من الله ولذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا أحد أحب إليه المدح من الله ولذلك مدح نفسه ‏"‏ ‏.‏
عمرو بن مرہ نے کہا : میں نے ابووائل کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ، وہ کہتے تھے ۔ ۔ ( عمرو بن مرہ نے ) کہا : میں نے ان ( ابووائل ) سے کہا : کیا آپ نے خود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا تھا؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ اور انہوں نے اسے مرفوعا بیان کیا : ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ، اسی لیے اس نے تمام کھلی اور پوشیدہ فواحش ( بے حیائی کی باتیں ) حرام کر دیں اور اللہ سے بڑھ کر کسی کو مدح پسند نہیں ( کیونکہ حقیقت میں وہی مدح کا حقدار ہے ) ، اسی لیے اس نے اپنی مدح فرمائی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2760.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6994
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن مالك بن الحارث، عن عبد الرحمن، بن يزيد عن عبد الله بن مسعود، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس أحد أحب إليه المدح من الله عز وجل من أجل ذلك مدح نفسه وليس أحد أغير من الله من أجل ذلك حرم الفواحش وليس أحد أحب إليه العذر من الله من أجل ذلك أنزل الكتاب وأرسل الرسل ‏"‏ ‏.‏
عبدالرحمٰن بن یزید نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر مدح پسند ہو ، اسی بنا پر اس نے اپنی مدح فرمائی اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو ، اسی بنا پر اس نے تمام فواحش حرام کر دیں اور کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر ( بندوں کا اس سے ) معذرت کرنا پسند ہو ، اسی بنا پر اس نے کتاب نازل فرمائی اور پیغمبروں کو بھیجا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2760.04

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6995
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ابن علية، عن حجاج بن أبي، عثمان قال قال يحيى وحدثني أبو سلمة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله يغار وإن المؤمن يغار وغيرة الله أن يأتي المؤمن ما حرم عليه ‏"‏ ‏.‏
حجاج بن ابی عثمان نے کہا : یحییٰ ( بن ابی کثیر ) نے کہا : مجھے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ غیرت فرماتا ہے اور بےشک مومن بھی غیرت کرتا ہے ۔ اللہ کی غیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مومن ایسے کام کا ارتکاب کرے جو اس نے اس پر حرام کیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2761.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6996
قال يحيى وحدثني أبو سلمة، أن عروة بن الزبير، حدثه أن أسماء بنت أبي بكر حدثته أنها، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ ليس شىء أغير من الله عز وجل ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ نے کہا : مجھے ابوسلمہ نے حدیث بیان کی ، انہٰن عروہ بن زبیر نے بیان کیا ، انہیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے حدیث سنائی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : " کوئی نہیں جو اللہ عزوجل سے زیادہ غیرت مند ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2762.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6997
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا أبان بن يزيد، وحرب بن شداد، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثل رواية حجاج حديث أبي هريرة خاصة ولم يذكر حديث أسماء ‏.‏
ابان بن یزید اور حرب بن شداد نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ، انہوں نے ابوسلمہ سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حجاج کی روایت کے مانند صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2761.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6998
وحدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، حدثنا بشر بن المفضل، عن هشام، عن يحيى، بن أبي كثير عن أبي سلمة، عن عروة، عن أسماء، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ لا شىء أغير من الله عز وجل ‏"‏ ‏.‏
ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ، انہوں نے ابوسلمہ سے ، انہوں نے عروہ سے ، انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل سے بڑھ کر کوئی غیور نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2762.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6999
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ المؤمن يغار والله أشد غيرا ‏"‏ ‏.‏
عبدالعزیز بن محمد نے علاء سے ، انہوں نے اپنے والد ( عبدالرحمٰن ) سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مومن ( دوسرے ) مومن کے لیے غیرت کرتا ہے ( کہ اس کی حرمت پامال نہ کی جائے ) اور اللہ تعالیٰ تو غیرت میں اس سے بڑھ کر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2761.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7000
وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت العلاء، بهذا الإسناد ‏.‏
شعبہ نے کہا : میں نے علاء کو اسی سند کے ساتھ ( یہی حدیث بیان کرتے ہوئے ) سنا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2761.04

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7001
حدثنا قتيبة بن سعيد، وأبو كامل فضيل بن حسين الجحدري كلاهما عن يزيد، بن زريع - واللفظ لأبي كامل - حدثنا يزيد، حدثنا التيمي، عن أبي عثمان، عن عبد الله، بن مسعود أن رجلا، أصاب من امرأة قبلة فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له ذلك - قال - فنزلت ‏{‏ أقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين‏}‏ قال فقال الرجل ألي هذه يا رسول الله قال ‏ "‏ لمن عمل بها من أمتي ‏"‏ ‏.‏
یزید نے کہا؛ ہمیں تیمی نے ابوعثمان سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے ایک عورت کو بوسہ دیا ، ( پھر ) وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعے کا ذکر کیا ، تب ( یہ آیت ) نازل ہوئی : " دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم رکھو ، بےشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ، یہ یاد دہانی ہے یاد رکھنے والوں کے لیے ۔ " اس شخص نے کہا : اللہ کے رسول! کیا یہ ( بشارت ) صرف میرے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میری امت میں سے جو بھی ( گناہوں سے پاک ہونے کے لیے ) اس پر عمل کرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2763.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7002
حدثنا يحيى بن يحيى، وقتيبة بن سعيد، وأبو بكر بن أبي شيبة - واللفظ ليحيى - قال يحيى أخبرنا وقال الآخران، حدثنا أبو الأحوص، عن سماك، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن عبد الله، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني عالجت امرأة في أقصى المدينة وإني أصبت منها ما دون أن أمسها فأنا هذا فاقض في ما شئت ‏.‏ فقال له عمر لقد سترك الله لو سترت نفسك - قال - فلم يرد النبي صلى الله عليه وسلم شيئا فقام الرجل فانطلق فأتبعه النبي صلى الله عليه وسلم رجلا دعاه وتلا عليه هذه الآية ‏{‏ أقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين‏}‏ فقال رجل من القوم يا نبي الله هذا له خاصة قال ‏"‏ بل للناس كافة ‏"‏ ‏.‏
معتمر نے اپنے والد ( سلیمان تیمی ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہمیں ابوعثمان نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے ذکر کیا کہ اس نے ایک عورت کو بوسہ دیا ہے یا اس کو ہاتھ سے مس کیا ہے ( یا ایسا ) کوئی اور کام کیا ہے ، گویا کہ وہ اس کے کفار کے متعلق سوال کر رہا ہے ، کہا : تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی ، پھر یزید کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2763.04

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7003
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو النعمان الحكم بن عبد الله العجلي، حدثنا شعبة، عن سماك بن حرب، قال سمعت إبراهيم، يحدث عن خاله الأسود، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث أبي الأحوص وقال في حديثه فقال معاذ يا رسول الله هذا لهذا خاصة أو لنا عامة قال ‏ "‏ بل لكم عامة ‏"‏ ‏.‏
جریر نے سلیمان تیمی سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، کہا : ایک شخص نے ایک عورت کے ساتھ زنا سے کم درجے کا کوئی کام کیا ۔ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ، انہوں نے اس کے سامنے اس کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ، پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، انہوں نے بھی اس کے لیے اس کو بہت بڑی بات قرار دیا ، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، ( آگے ) یزید اور معتمر کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2763.05

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7004
حدثنا محمد بن عبد الأعلى، حدثنا المعتمر، عن أبيه، حدثنا أبو عثمان، عن ابن، مسعود أن رجلا، أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر أنه أصاب من امرأة إما قبلة أو مسا بيد أو شيئا كأنه يسأل عن كفارتها - قال - فأنزل الله عز وجل ‏.‏ ثم ذكر بمثل حديث يزيد ‏.‏
ابو احوص نے سماک سے ، انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے علقمہ اور اسود سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے کہا : اللہ کے رسول! میں نے مدینہ کے آخری حصے میں ایک عورت کو قابو کر لیا اور اس کے علاوہ کہ میں اس سے جماع کروں میں نے اس سے اور سب کچھ حاصل کر لیا ۔ تو ( اب ) میں آپ کے سامنے حاضر ہوں ، آپ میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ کر لیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : اللہ نے تمہارا پردہ رکھا ، کاش! تم خود بھی اپنا پردہ رکھتے ۔ ( حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ تو ( کچھ دیر بعد ) وہ شخص اٹھا اور چل دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھی : " دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو ، بےشک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں ۔ یہ ان کے لیے یاددہانی ہے جو اچھی بات کو یاد رکھنے والے ہیں ۔ " اس پر لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللہ کے نبی! کیا یہ خاص اسی کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " بلکہ تمام لوگوں کے لیے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2763.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7005
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن سليمان التيمي، بهذا الإسناد قال أصاب رجل من امرأة شيئا دون الفاحشة فأتى عمر بن الخطاب فعظم عليه ثم أتى أبا بكر فعظم عليه ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر بمثل حديث يزيد والمعتمر ‏.‏
شعبہ نے سماک بن حرب سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے ابراہیم کو اپنے ماموں اسود سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو احوص کی حدیث کے ہم معنی روایت کی ، انہوں نے اپنی حدیث میں کہا : تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اللہ کے رسول! کیا یہ خاص اسی کے لیے ہے یا عمومی طور پر ہم سب کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بلکہ تم سب کے لیے عام ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2763.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7006
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن إسحاق، بن عبد الله بن أبي طلحة عن أنس، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أصبت حدا فأقمه على - قال - وحضرت الصلاة فصلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى الصلاة قال يا رسول الله إني أصبت حدا فأقم في كتاب الله ‏.‏ قال ‏"‏ هل حضرت الصلاة معنا ‏"‏ ‏.‏ قال نعم ‏.‏ قال ‏"‏ قد غفر لك ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی : اللہ کے رسول! میں نے حد ( لگنے والے کام ) کا ارتکاب کر لیا ہے ، مجھ پر حد قائم کیجئے ۔ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ( تب ) نماز کا وقت آ گیا ، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ۔ جب نماز پڑھ لی تو کہنے لگا : اللہ کے رسول! میں نے حد ( کے قابل گناہ ) کا ارتکاب کیا ہے ، میرے بارے میں اللہ کی کتاب کا ( جو ) فیصلہ ( ہے اسے ) نافذ فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا؟ " اس نے عرض کی : ہاں ، فرمایا : " تیرا گناہ بخش دیا گیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2764

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7007
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، وزهير بن حرب، - واللفظ لزهير - قالا حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا شداد، حدثنا أبو أمامة، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ونحن قعود معه إذ جاء رجل فقال يا رسول الله إني أصبت حدا فأقمه على ‏.‏ فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أعاد فقال يا رسول الله إني أصبت حدا فأقمه على ‏.‏ فسكت عنه وأقيمت الصلاة فلما انصرف نبي الله صلى الله عليه وسلم قال أبو أمامة فاتبع الرجل رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انصرف واتبعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أنظر ما يرد على الرجل فلحق الرجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت حدا فأقمه على - قال أبو أمامة - فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أرأيت حين خرجت من بيتك أليس قد توضأت فأحسنت الوضوء ‏"‏ ‏.‏ قال بلى يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ ثم شهدت الصلاة معنا ‏"‏ ‏.‏ فقال نعم يا رسول الله ‏.‏ قال فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإن الله قد غفر لك حدك - أو قال - ذنبك ‏"‏ ‏.‏
شداد نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور ہم بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا تو کہنے لگا : اللہ کے رسول! میں نے حد ( کے قابل گناہ ) کا ارتکاب کر دیا ہے ، لہذا آپ مجھ پر حد قائم کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، اس نے دوبارہ کہا : اللہ کے رسول! میں حد کا مستحق ہو گیا ہوں ، آپ مجھ پر حد قائم کیجئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، اس نے تیسری بار ( یہی ) کہا تو ( اس وقت ) نماز کی اقامت کہہ دی گئی ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے ( فارغ ہو کر ) واپس ہوئے تو وہ شخص آپ کے پیچھے چل پڑا ، میں ( بھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑا کہ دیکھوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کیا جواب دیتے ہیں ۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا اور کہا : اللہ کے رسول! میں نے حد ( کے قابل گناہ ) کا ارتکاب کیا ہے ، آپ مجھ پر حد قائم فرمائیں ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا : " ذرا دیکھو : جب تم اپنے گھر سے نکلے تھے تو تم نے وضو کیا تھا اور اچھی طرح وضو کیا تھا؟ " اس نے عرض کی : ہاں ، اللہ کے رسول! ( اچھی طرح وضو کیا تھا ۔ ) فرمایا : " اس کے بعد تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ " اس نے عرض کی : جی ہاں ، اللہ کے رسول! ( حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا : " تو یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہاری حد ۔ ۔ یا فرمایا ۔ ۔ تمہارے گناہ کو معاف کر دیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2765

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7008
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قال حدثنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن أبي الصديق، عن أبي سعيد الخدري، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ كان فيمن كان قبلكم رجل قتل تسعة وتسعين نفسا فسأل عن أعلم أهل الأرض فدل على راهب فأتاه فقال إنه قتل تسعة وتسعين نفسا فهل له من توبة فقال لا ‏.‏ فقتله فكمل به مائة ثم سأل عن أعلم أهل الأرض فدل على رجل عالم فقال إنه قتل مائة نفس فهل له من توبة فقال نعم ومن يحول بينه وبين التوبة انطلق إلى أرض كذا وكذا فإن بها أناسا يعبدون الله فاعبد الله معهم ولا ترجع إلى أرضك فإنها أرض سوء ‏.‏ فانطلق حتى إذا نصف الطريق أتاه الموت فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فقالت ملائكة الرحمة جاء تائبا مقبلا بقلبه إلى الله ‏.‏ وقالت ملائكة العذاب إنه لم يعمل خيرا قط ‏.‏ فأتاهم ملك في صورة آدمي فجعلوه بينهم فقال قيسوا ما بين الأرضين فإلى أيتهما كان أدنى فهو له ‏.‏ فقاسوه فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد فقبضته ملائكة الرحمة ‏"‏ ‏.‏ قال قتادة فقال الحسن ذكر لنا أنه لما أتاه الموت نأى بصدره ‏.‏
ہشام نے قتادہ سے ، انہوں نے ابوصدیق سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ، پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا ( کہ وہ کون ہے ۔ ) اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ ( کی کوئی سبیل ) ہے؟ اس نے کہا : نہیں ۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس ( کے قتل ) سے سو قتل پورے کر لیے ۔ اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔ اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ۔ تو اس نے ( جا کر ) کہا : اس نے سو قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ ( کا امکان ) ہے؟ اس ( عالم ) نے کہا : ہاں ، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ، وہاں ( ایسے ) لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری ( باتوں سے بھری ہوئی ) سرزمین ہے ۔ وہ چل پڑا ، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت آ لیا ۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا : یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ، انہوں نے اسے اپنے درمیان ( ثالث ) مقرر کر لیا ۔ اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی ( زمین کے لوگوں ) میں سے ہو گا ۔ انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ، چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ "" قتادہ نے کہا : حسن ( بصری ) نے کہا : ( اس حدیث میں ) ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے ( گھسیٹ کر ) خود کو ( گناہوں بھری زمین سے ) دور کر لیا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2766.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7009
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن قتادة، أنه سمع أبا الصديق الناجي، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أن رجلا قتل تسعة وتسعين نفسا فجعل يسأل هل له من توبة فأتى راهبا فسأله فقال ليست لك توبة ‏.‏ فقتل الراهب ثم جعل يسأل ثم خرج من قرية إلى قرية فيها قوم صالحون فلما كان في بعض الطريق أدركه الموت فنأى بصدره ثم مات فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فكان إلى القرية الصالحة أقرب منها بشبر فجعل من أهلها ‏"‏ ‏.‏
معاذ بن عنبری نے کہا : ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو صدیق ناجی سے سنا ، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی : " ایک شخص نے ننانوے انسان قتل کیے ، پھر اس نے یہ پوچھنا شروع کر دیا : کیا اس کی توبہ ( کی کوئی سبیل ) ہو سکتی ہے؟ وہ ایک راہب کے پاس آیا ، اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا : تیرے لیے کوئی توبہ نہیں ۔ اس نے اس راہب کو ( بھی ) قتل کر دیا ۔ اس کے بعد اس نے پھر سے ( توبہ کے متعلق ) پوچھنا شروع کر دیا ، پھر ایک بستی سے ( دوسری ) بستی کی طرف نکل پڑا جس میں نیک لوگ رہتے تھے ۔ وہ راستے کے کسی حصے میں تھا کہ اسے موت نے آن لیا ، وہ ( اس وقت ) اپنے سینے کے ذریعے سے ( پچھلی گناہوں بھری بستی سے ) دور ہوا ، پھر مر گیا ۔ تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں نے آپس میں جھگڑا کیا ۔ تو وہ شخص ایک بالشت برابر نیک بستی کی طرف قریب تھا ، اسے اس بستی کے لوگوں میں سے ( شمار ) کر لیا گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2766.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7010
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن أبي عدي، حدثنا شعبة، عن قتادة، بهذا الإسناد نحو حديث معاذ بن معاذ وزاد فيه ‏ "‏ فأوحى الله إلى هذه أن تباعدي وإلى هذه أن تقربي ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح معاذ بن معاذ کی حدیث ہے اور اس میں مزید یہ کہا : " تو اللہ نے اس ( گناہگاروں کی بستی ) کو وحی کر دی کہ تو دور ہو جا اور اس ( نیک لوگوں کی بستی ) کو وحی کر دی کہ تو قریب ہو جا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2766.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7011
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، عن طلحة بن يحيى، عن أبي، بردة عن أبي موسى، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا كان يوم القيامة دفع الله عز وجل إلى كل مسلم يهوديا أو نصرانيا فيقول هذا فكاكك من النار ‏"‏ ‏.‏
طلحہ بن یحییٰ نے ابوبردہ سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ( ایک مرحلے پر ) ہر مسلمان کو ایک یہودی یا نصرانی عطا کر دے گا ، پھر فرمائے گا : یہ جہنم سے تمہارے لیے چھٹکارے کا ذریعہ بنے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2767.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7012
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا همام، حدثنا قتادة، أن عونا، وسعيد بن أبي بردة، حدثاه أنهما، شهدا أبا بردة يحدث عمر بن عبد العزيز عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يموت رجل مسلم إلا أدخل الله مكانه النار يهوديا أو نصرانيا ‏"‏ ‏.‏ قال فاستحلفه عمر بن عبد العزيز بالله الذي لا إله إلا هو ثلاث مرات أن أباه حدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فحلف له - قال - فلم يحدثني سعيد أنه استحلفه ولم ينكر على عون قوله ‏.‏
عفان بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ہمام نے قتادہ سے حدیث بیان کی کہ عون ( بن عبداللہ ) اور سعید بن ابی بردہ نے انہیں حدیث بیان کی ، وہ دونوں ابو بردہ کے سامنے موجود تھے جب وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنے والد سے حدیث بیان کر رہے تھے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : " جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر ایک یہودی یا ایک نصرانی کو دوزخ میں داخل کر دیتا ہے ۔ " کہا : عمر بن عبدالعزیز نے حضرت ابوبُردہ کو تین بار اس اللہ کی قسم دی جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں کہواقعی ان کے والد نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی تھی ۔ انہوں نے ان ( عمر بن عبدالعزیز ) کے سامنے قسم کھائی ۔ ( قتادہ نے ) کہا : سعید نے مجھ سے یہ بیان نہیں کیا کہ انہوں نے ان سے قسم لی اور نہ انہوں نے عون کی ( بتائی ہوئی ) بات پر کوئی اعتراض کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2767.02

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7013
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن المثنى، جميعا عن عبد الصمد بن عبد، الوارث أخبرنا همام، حدثنا قتادة، بهذا الإسناد نحو حديث عفان وقال عون بن عتبة ‏.‏
عبدالصمد بن عبدالوارث سے روایت ہے ، کہا : ہمیں ہمام نے خبر دی ، انہوں نے کہا : ہمیں قتادہ نے اسی سند کے ساتھ عفان کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی اور ( عون بن عبداللہ کی نسبت اس کے دادا کی طرف کرتے ہوئے ) کہا : عون بن عتبہ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2767.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7014
حدثنا محمد بن عمرو بن عباد بن جبلة بن أبي رواد، حدثنا حرمي بن عمارة، حدثنا شداد أبو طلحة الراسبي، عن غيلان بن جرير، عن أبي بردة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يجيء يوم القيامة ناس من المسلمين بذنوب أمثال الجبال فيغفرها الله لهم ويضعها على اليهود والنصارى ‏"‏ ‏.‏ فيما أحسب أنا ‏.‏ قال أبو روح لا أدري ممن الشك ‏.‏ قال أبو بردة فحدثت به عمر بن عبد العزيز فقال أبوك حدثك هذا عن النبي صلى الله عليه وسلم قلت نعم ‏.‏
(ابوروح ) حرمی بن عمارہ نے کہا : ہمیں شداد ابو طلحہ راسبی نے غیلان بن جریر سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابو بردہ سے ، انہوں نے اپنے والد ( حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ ) سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" قیامت کے دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ پہاڑوں جیسے ( بڑے بڑے ) گناہ لے کر آئیں گے ، اللہ تعالیٰ ان کے لیے وہ گناہ بخش دے گا ، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ، وہ ان ( گناہوں ) کو یہود اور نصاری پر ڈال دے گا ۔ "" ابو روح نے کہا : مجھے معلوم نہیں کہ یہ شک کس ( راوی ) کی طرف سے ہے ۔ حضرت ابو بردہ نے کہا : میں نے یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز کو بیان کی ، انہوں نے کہا : کیا تمہارے والد نے تمہیں یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تھی؟ میں نے کہا : ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2767.04

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7015
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن هشام الدستوائي، عن قتادة، عن صفوان بن محرز، قال قال رجل لابن عمر كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى قال سمعته يقول ‏ "‏ يدنى المؤمن يوم القيامة من ربه عز وجل حتى يضع عليه كنفه فيقرره بذنوبه فيقول هل تعرف فيقول أى رب أعرف ‏.‏ قال فإني قد سترتها عليك في الدنيا وإني أغفرها لك اليوم ‏.‏ فيعطى صحيفة حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله ‏"‏ ‏.‏
قتادہ نے صفوان بن محرز سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ ( مومن سے اللہ کی سرگوشی ) کے متعلق کس طرح سنا تھا؟ انہوں نے کہا : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " مومن کو قیامت کے دن اس کے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا ، حتی کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا ( تاکہ کوئی اور اس کے راز پر مطلع نہ ہو ) ، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور فرمائے گا : کیا تو ( ان سب گناہوں کو ) پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا : میرے رب! میں ( ان سب گناہوں کو ) پہچانتا ہوں ۔ ( اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا : میں نے دنیا میں تم پر ( رحم کرتے ہوئے ) ان گناہوں کو چھپا لیا تھا اور آج ( تم پر رحم کرتے ہوئے ) تمہارے لیے ان سب کو معاف کرتا ہوں ، پھر اسے ( محض ) اس کی نیکیوں کا صحیفہ پکڑا دیا جائے گا اور رہے کفار اور منافقین تو ساری مخلوقات کے سامنے بلند آواز سے انہیں کہا جائے گا : یہی ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2768

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7017
حدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح مولى بني أمية أخبرني ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال ثم غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك وهو يريد الروم ونصارى العرب بالشام ‏.‏ قال ابن شهاب فأخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك أن عبد الله بن كعب كان قائد كعب من بنيه حين عمي قال سمعت كعب بن مالك يحدث حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك قال كعب بن مالك لم أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك غير أني قد تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنه إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون يريدون عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلام وما أحب أن لي بها مشهد بدر وإن كانت بدر أذكر في الناس منها وكان من خبري حين تخلفت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك أني لم أكن قط أقوى ولا أيسر مني حين تخلفت عنه في تلك الغزوة والله ما جمعت قبلها راحلتين قط حتى جمعتهما في تلك الغزوة فغزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد واستقبل سفرا بعيدا ومفازا واستقبل عدوا كثيرا فجلا للمسلمين أمرهم ليتأهبوا أهبة غزوهم فأخبرهم بوجههم الذي يريد والمسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير ولا يجمعهم كتاب حافظ - يريد بذلك الديوان - قال كعب فقل رجل يريد أن يتغيب يظن أن ذلك سيخفى له ما لم ينزل فيه وحى من الله عز وجل وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغزوة حين طابت الثمار والظلال فأنا إليها أصعر فتجهز رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه وطفقت أغدو لكى أتجهز معهم فأرجع ولم أقض شيئا ‏.‏ وأقول في نفسي أنا قادر على ذلك إذا أردت ‏.‏ فلم يزل ذلك يتمادى بي حتى استمر بالناس الجد فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غاديا والمسلمون معه ولم أقض من جهازي شيئا ثم غدوت فرجعت ولم أقض شيئا فلم يزل ذلك يتمادى بي حتى أسرعوا وتفارط الغزو فهممت أن أرتحل فأدركهم فيا ليتني فعلت ثم لم يقدر ذلك لي فطفقت إذا خرجت في الناس بعد خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم يحزنني أني لا أرى لي أسوة إلا رجلا مغموصا عليه في النفاق أو رجلا ممن عذر الله من الضعفاء ولم يذكرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ تبوكا فقال وهو جالس في القوم بتبوك ‏"‏ ما فعل كعب بن مالك ‏"‏ ‏.‏ قال رجل من بني سلمة يا رسول الله حبسه برداه والنظر في عطفيه ‏.‏ فقال له معاذ بن جبل بئس ما قلت والله يا رسول الله ما علمنا عليه إلا خيرا ‏.‏ فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم فبينما هو على ذلك رأى رجلا مبيضا يزول به السراب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كن أبا خيثمة ‏"‏ ‏.‏ فإذا هو أبو خيثمة الأنصاري وهو الذي تصدق بصاع التمر حين لمزه المنافقون ‏.‏ فقال كعب بن مالك فلما بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد توجه قافلا من تبوك حضرني بثي فطفقت أتذكر الكذب وأقول بم أخرج من سخطه غدا وأستعين على ذلك كل ذي رأى من أهلي فلما قيل لي إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أظل قادما زاح عني الباطل حتى عرفت أني لن أنجو منه بشىء أبدا فأجمعت صدقه وصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما وكان إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فركع فيه ركعتين ثم جلس للناس فلما فعل ذلك جاءه المخلفون فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعة وثمانين رجلا فقبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله حتى جئت فلما سلمت تبسم تبسم المغضب ثم قال ‏"‏ تعال ‏"‏ ‏.‏ فجئت أمشي حتى جلست بين يديه فقال لي ‏"‏ ما خلفك ‏"‏ ‏.‏ ألم تكن قد ابتعت ظهرك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله إني والله لو جلست عند غيرك من أهل الدنيا لرأيت أني سأخرج من سخطه بعذر ولقد أعطيت جدلا ولكني والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب ترضى به عني ليوشكن الله أن يسخطك على ولئن حدثتك حديث صدق تجد على فيه إني لأرجو فيه عقبى الله والله ما كان لي عذر والله ما كنت قط أقوى ولا أيسر مني حين تخلفت عنك ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك ‏"‏ ‏.‏ فقمت وثار رجال من بني سلمة فاتبعوني فقالوا لي والله ما علمناك أذنبت ذنبا قبل هذا لقد عجزت في أن لا تكون اعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بما اعتذر به إليه المخلفون فقد كان كافيك ذنبك استغفار رسول الله صلى الله عليه وسلم لك ‏.‏ قال فوالله ما زالوا يؤنبونني حتى أردت أن أرجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكذب نفسي - قال - ثم قلت لهم هل لقي هذا معي من أحد قالوا نعم لقيه معك رجلان قالا مثل ما قلت فقيل لهما مثل ما قيل لك - قال - قلت من هما قالوا مرارة بن ربيعة العامري وهلال بن أمية الواقفي - قال - فذكروا لي رجلين صالحين قد شهدا بدرا فيهما أسوة - قال - فمضيت حين ذكروهما لي ‏.‏ قال ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا أيها الثلاثة من بين من تخلف عنه - قال - فاجتنبنا الناس - وقال - تغيروا لنا حتى تنكرت لي في نفسي الأرض فما هي بالأرض التي أعرف فلبثنا على ذلك خمسين ليلة فأما صاحباى فاستكانا وقعدا في بيوتهما يبكيان وأما أنا فكنت أشب القوم وأجلدهم فكنت أخرج فأشهد الصلاة وأطوف في الأسواق ولا يكلمني أحد وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلم عليه وهو في مجلسه بعد الصلاة فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام أم لا ثم أصلي قريبا منه وأسارقه النظر فإذا أقبلت على صلاتي نظر إلى وإذا التفت نحوه أعرض عني حتى إذا طال ذلك على من جفوة المسلمين مشيت حتى تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي وأحب الناس إلى فسلمت عليه فوالله ما رد على السلام فقلت له يا أبا قتادة أنشدك بالله هل تعلمن أني أحب الله ورسوله قال فسكت فعدت فناشدته فسكت فعدت فناشدته فقال الله ورسوله أعلم ‏.‏ ففاضت عيناى وتوليت حتى تسورت الجدار فبينا أنا أمشي في سوق المدينة إذا نبطي من نبط أهل الشام ممن قدم بالطعام يبيعه بالمدينة يقول من يدل على كعب بن مالك - قال - فطفق الناس يشيرون له إلى حتى جاءني فدفع إلى كتابا من ملك غسان وكنت كاتبا فقرأته فإذا فيه أما بعد فإنه قد بلغنا أن صاحبك قد جفاك ولم يجعلك الله بدار هوان ولا مضيعة فالحق بنا نواسك ‏.‏ قال فقلت حين قرأتها وهذه أيضا من البلاء ‏.‏ فتياممت بها التنور فسجرتها بها حتى إذا مضت أربعون من الخمسين واستلبث الوحى إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم يأتيني فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تعتزل امرأتك ‏.‏ قال فقلت أطلقها أم ماذا أفعل قال لا بل اعتزلها فلا تقربنها - قال - فأرسل إلى صاحبى بمثل ذلك - قال - فقلت لامرأتي الحقي بأهلك فكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الأمر - قال - فجاءت امرأة هلال بن أمية رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت له يا رسول الله إن هلال بن أمية شيخ ضائع ليس له خادم فهل تكره أن أخدمه قال ‏"‏ لا ولكن لا يقربنك ‏"‏ ‏.‏ فقالت إنه والله ما به حركة إلى شىء ووالله ما زال يبكي منذ كان من أمره ما كان إلى يومه هذا ‏.‏ قال فقال لي بعض أهلي لو استأذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امرأتك فقد أذن لامرأة هلال بن أمية أن تخدمه - قال - فقلت لا أستأذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يدريني ماذا يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استأذنته فيها وأنا رجل شاب - قال - فلبثت بذلك عشر ليال فكمل لنا خمسون ليلة من حين نهي عن كلامنا - قال - ثم صليت صلاة الفجر صباح خمسين ليلة على ظهر بيت من بيوتنا فبينا أنا جالس على الحال التي ذكر الله عز وجل منا قد ضاقت على نفسي وضاقت على الأرض بما رحبت سمعت صوت صارخ أوفى على سلع يقول بأعلى صوته يا كعب بن مالك أبشر - قال - فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج ‏.‏ - قال - فآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا فذهب قبل صاحبى مبشرون وركض رجل إلى فرسا وسعى ساع من أسلم قبلي وأوفى الجبل فكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشرني فنزعت له ثوبى فكسوتهما إياه ببشارته والله ما أملك غيرهما يومئذ واستعرت ثوبين ‏.‏ فلبستهما فانطلقت أتأمم رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلقاني الناس فوجا فوجا يهنئوني بالتوبة ويقولون لتهنئك توبة الله عليك ‏.‏ حتى دخلت المسجد فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في المسجد وحوله الناس فقام طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهنأني والله ما قام رجل من المهاجرين غيره ‏.‏ قال فكان كعب لا ينساها لطلحة ‏.‏ قال كعب فلما سلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو يبرق وجهه من السرور ويقول ‏"‏ أبشر بخير يوم مر عليك منذ ولدتك أمك ‏"‏ ‏.‏ قال فقلت أمن عندك يا رسول الله أم من عند الله فقال ‏"‏ لا بل من عند الله ‏"‏ ‏.‏ وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سر استنار وجهه كأن وجهه قطعة قمر - قال - وكنا نعرف ذلك - قال - فلما جلست بين يديه قلت يا رسول الله إن من توبتي أن أنخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أمسك بعض مالك فهو خير لك ‏"‏ ‏.‏ قال فقلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر - قال - وقلت يا رسول الله إن الله إنما أنجاني بالصدق وإن من توبتي أن لا أحدث إلا صدقا ما بقيت - قال - فوالله ما علمت أن أحدا من المسلمين أبلاه الله في صدق الحديث منذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا أحسن مما أبلاني الله به والله ما تعمدت كذبة منذ قلت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا وإني لأرجو أن يحفظني الله فيما بقي ‏.‏ قال فأنزل الله عز وجل ‏{‏ لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رءوف رحيم * وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى إذا ضاقت عليهم الأرض بما رحبت وضاقت عليهم أنفسهم‏}‏ حتى بلغ ‏{‏ يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين‏}‏ قال كعب والله ما أنعم الله على من نعمة قط بعد إذ هداني الله للإسلام أعظم في نفسي من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا أكون كذبته فأهلك كما هلك الذين كذبوا إن الله قال للذين كذبوا حين أنزل الوحى شر ما قال لأحد وقال الله ‏{‏ سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم لتعرضوا عنهم فأعرضوا عنهم إنهم رجس ومأواهم جهنم جزاء بما كانوا يكسبون * يحلفون لكم لترضوا عنهم فإن ترضوا عنهم فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين‏}‏ قال كعب كنا خلفنا أيها الثلاثة عن أمر أولئك الذين قبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حلفوا له فبايعهم واستغفر لهم وأرجأ رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا حتى قضى الله فيه فبذلك قال الله عز وجل ‏{‏ وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏}‏ وليس الذي ذكر الله مما خلفنا تخلفنا عن الغزو وإنما هو تخليفه إيانا وإرجاؤه أمرنا عمن حلف له واعتذر إليه فقبل منه ‏.‏ وحدثنيه محمد بن رافع، حدثنا حجين بن المثنى، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، بإسناد يونس عن الزهري، سواء ‏.‏
عُقیل بن ابن شہاب سے یونس کی سند کے ساتھ زہری سے بالکل اسی طرح روایت کی ۔

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7018
زہری کے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن مسلم نے ہمیں اپنے چچا محمد بن مسلم زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مجھے عبدالرحمان بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب بن مالک نے ، اور وہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنمائی کرتے تھے ، کہا : میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ اپنی حدیث ( اپنا واقعہ ) بیان کرتے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے ، پھر انہوں نے ( سابقہ حدیث کی طرح ) حدیث بیان کی اور اس میں یونس کی روایت پر مزید یہ کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم ہی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تھے مگر عملا اس جنگ کے ہونے تک ، کسی اور ( مہم ) کی جہت ظاہر فرماتے حتی کہ یہ غزوہ ( بھی اسی نہج پر ) ہوا ۔ اور انہوں نے زہری کے بھتیجے کی حدیث میں ابوخیثمہ کا اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملنے کا ذکر نہیں لیا ۔

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7019
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا معقل، - وهو ابن عبيد الله - عن الزهري، أخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن عمه، عبيد الله بن كعب وكان قائد كعب حين أصيب بصره وكان أعلم قومه وأوعاهم لأحاديث أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال سمعت أبي كعب بن مالك وهو أحد الثلاثة الذين تيب عليهم يحدث أنه لم يتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط غير غزوتين ‏.‏ وساق الحديث وقال فيه وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم بناس كثير يزيدون على عشرة آلاف ولا يجمعهم ديوان حافظ ‏.‏
معقل بن عبیداللہ نے زہری سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب سے روایت کی اور جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں جاتی رہیں تو وہی ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنما کرتے تھے ۔ وہ اپنی قوم میں سب سے بڑے عالم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی احادیث کے سب سے بڑے حافظ تھے ، انہوں نے کہا : میں نے اپنے والد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ ان تین لوگوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول کی گئی ، وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ وہ دو غزووں کو چھوڑ کر کبھی کسی غزوے میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا ، آپ سے پیچھے نہیں رہے ۔ انہوں نے ( سابقہ حدیث کی طرح ) حدیث بیان کی اور اس میں کہا : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ، جو دس ہزار سے زیادہ تھے اور کسی محفوظ رکھنے والے کے دیوان ( رجسٹر ) میں ان سب کے نام درج نہ تھے ، اس جنگ کے لیے نکلے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2769.04

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7020

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7021
حدثنا حبان بن موسى، أخبرنا عبد الله بن المبارك، أخبرنا يونس بن يزيد، الأيلي ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ومحمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال ابن رافع حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، والسياق، حديث معمر من رواية عبد وابن رافع قال يونس ومعمر جميعا عن الزهري أخبرني سعيد بن المسيب وعروة بن الزبير وعلقمة بن وقاص وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن حديث عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين قال لها أهل الإفك ما قالوا فبرأها الله مما قالوا وكلهم حدثني طائفة من حديثها وبعضهم كان أوعى لحديثها من بعض وأثبت اقتصاصا وقد وعيت عن كل واحد منهم الحديث الذي حدثني وبعض حديثهم يصدق بعضا ذكروا أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يخرج سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها رسول الله صلى الله عليه وسلم معه - قالت عائشة - فأقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج فيها سهمي فخرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وذلك بعد ما أنزل الحجاب فأنا أحمل في هودجي وأنزل فيه مسيرنا حتى إذا فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوه وقفل ودنونا من المدينة آذن ليلة بالرحيل فقمت حين آذنوا بالرحيل فمشيت حتى جاوزت الجيش فلما قضيت من شأني أقبلت إلى الرحل فلمست صدري فإذا عقدي من جزع ظفار قد انقطع فرجعت فالتمست عقدي فحبسني ابتغاؤه وأقبل الرهط الذين كانوا يرحلون لي فحملوا هودجي فرحلوه على بعيري الذي كنت أركب وهم يحسبون أني فيه - قالت - وكانت النساء إذ ذاك خفافا لم يهبلن ولم يغشهن اللحم إنما يأكلن العلقة من الطعام فلم يستنكر القوم ثقل الهودج حين رحلوه ورفعوه وكنت جارية حديثة السن فبعثوا الجمل وساروا ووجدت عقدي بعد ما استمر الجيش فجئت منازلهم وليس بها داع ولا مجيب فتيممت منزلي الذي كنت فيه وظننت أن القوم سيفقدوني فيرجعون إلى فبينا أنا جالسة في منزلي غلبتني عيني فنمت وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني قد عرس من وراء الجيش فادلج فأصبح عند منزلي فرأى سواد إنسان نائم فأتاني فعرفني حين رآني وقد كان يراني قبل أن يضرب الحجاب على فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني فخمرت وجهي بجلبابي ووالله ما يكلمني كلمة ولا سمعت منه كلمة غير استرجاعه حتى أناخ راحلته فوطئ على يدها فركبتها فانطلق يقود بي الراحلة حتى أتينا الجيش بعد ما نزلوا موغرين في نحر الظهيرة فهلك من هلك في شأني وكان الذي تولى كبره عبد الله بن أبى ابن سلول فقدمنا المدينة فاشتكيت حين قدمنا المدينة شهرا والناس يفيضون في قول أهل الإفك ولا أشعر بشىء من ذلك وهو يريبني في وجعي أني لا أعرف من رسول الله صلى الله عليه وسلم اللطف الذي كنت أرى منه حين أشتكي إنما يدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيسلم ثم يقول ‏"‏ كيف تيكم ‏"‏ ‏.‏ فذاك يريبني ولا أشعر بالشر حتى خرجت بعد ما نقهت وخرجت معي أم مسطح قبل المناصع وهو متبرزنا ولا نخرج إلا ليلا إلى ليل وذلك قبل أن نتخذ الكنف قريبا من بيوتنا وأمرنا أمر العرب الأول في التنزه وكنا نتأذى بالكنف أن نتخذها عند بيوتنا فانطلقت أنا وأم مسطح وهي بنت أبي رهم بن المطلب بن عبد مناف وأمها ابنة صخر بن عامر خالة أبي بكر الصديق وابنها مسطح بن أثاثة بن عباد بن المطلب فأقبلت أنا وبنت أبي رهم قبل بيتي حين فرغنا من شأننا فعثرت أم مسطح في مرطها فقالت تعس مسطح ‏.‏ فقلت لها بئس ما قلت أتسبين رجلا قد شهد بدرا ‏.‏ قالت أى هنتاه أولم تسمعي ما قال قلت وماذا قال قالت فأخبرتني بقول أهل الإفك فازددت مرضا إلى مرضي فلما رجعت إلى بيتي فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم ثم قال ‏"‏ كيف تيكم ‏"‏ ‏.‏ قلت أتأذن لي أن آتي أبوى قالت وأنا حينئذ أريد أن أتيقن الخبر من قبلهما ‏.‏ فأذن لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت أبوى فقلت لأمي يا أمتاه ما يتحدث الناس فقالت يا بنية هوني عليك فوالله لقلما كانت امرأة قط وضيئة عند رجل يحبها ولها ضرائر إلا كثرن عليها - قالت - قلت سبحان الله وقد تحدث الناس بهذا قالت فبكيت تلك الليلة حتى أصبحت لا يرقأ لي دمع ولا أكتحل بنوم ثم أصبحت أبكي ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب وأسامة بن زيد حين استلبث الوحى يستشيرهما في فراق أهله - قالت - فأما أسامة بن زيد فأشار على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالذي يعلم من براءة أهله وبالذي يعلم في نفسه لهم من الود فقال يا رسول الله هم أهلك ولا نعلم إلا خيرا ‏.‏ وأما علي بن أبي طالب فقال لم يضيق الله عليك والنساء سواها كثير وإن تسأل الجارية تصدقك - قالت - فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بريرة فقال ‏"‏ أى بريرة هل رأيت من شىء يريبك من عائشة ‏"‏ ‏.‏ قالت له بريرة والذي بعثك بالحق إن رأيت عليها أمرا قط أغمصه عليها أكثر من أنها جارية حديثة السن تنام عن عجين أهلها فتأتي الداجن فتأكله - قالت - فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر فاستعذر من عبد الله بن أبى ابن سلول - قالت - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ‏"‏ يا معشر المسلمين من يعذرني من رجل قد بلغ أذاه في أهل بيتي فوالله ما علمت على أهلي إلا خيرا ولقد ذكروا رجلا ما علمت عليه إلا خيرا وما كان يدخل على أهلي إلا معي ‏"‏ ‏.‏ فقام سعد بن معاذ الأنصاري فقال أنا أعذرك منه يا رسول الله إن كان من الأوس ضربنا عنقه وإن كان من إخواننا الخزرج أمرتنا ففعلنا أمرك - قالت - فقام سعد بن عبادة وهو سيد الخزرج وكان رجلا صالحا ولكن اجتهلته الحمية فقال لسعد بن معاذ كذبت لعمر الله لا تقتله ولا تقدر على قتله ‏.‏ فقام أسيد بن حضير وهو ابن عم سعد بن معاذ فقال لسعد بن عبادة كذبت لعمر الله لنقتلنه فإنك منافق تجادل عن المنافقين فثار الحيان الأوس والخزرج حتى هموا أن يقتتلوا ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكتوا وسكت - قالت - وبكيت يومي ذلك لا يرقأ لي دمع ولا أكتحل بنوم ثم بكيت ليلتي المقبلة لا يرقأ لي دمع ولا أكتحل بنوم وأبواى يظنان أن البكاء فالق كبدي فبينما هما جالسان عندي وأنا أبكي استأذنت على امرأة من الأنصار فأذنت لها فجلست تبكي - قالت - فبينا نحن على ذلك دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم ثم جلس - قالت - ولم يجلس عندي منذ قيل لي ما قيل وقد لبث شهرا لا يوحى إليه في شأني بشىء - قالت - فتشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين جلس ثم قال ‏"‏ أما بعد يا عائشة فإنه قد بلغني عنك كذا وكذا فإن كنت بريئة فسيبرئك الله وإن كنت ألممت بذنب فاستغفري الله وتوبي إليه فإن العبد إذا اعترف بذنب ثم تاب تاب الله عليه ‏"‏ ‏.‏ قالت فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالته قلص دمعي حتى ما أحس منه قطرة فقلت لأبي أجب عني رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما قال ‏.‏ فقال والله ما أدري ما أقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت لأمي أجيبي عني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت والله ما أدري ما أقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت وأنا جارية حديثة السن لا أقرأ كثيرا من القرآن إني والله لقد عرفت أنكم قد سمعتم بهذا حتى استقر في نفوسكم وصدقتم به فإن قلت لكم إني بريئة والله يعلم أني بريئة لا تصدقوني بذلك ولئن اعترفت لكم بأمر والله يعلم أني بريئة لتصدقونني وإني والله ما أجد لي ولكم مثلا إلا كما قال أبو يوسف فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون ‏.‏ قالت ثم تحولت فاضطجعت على فراشي - قالت - وأنا والله حينئذ أعلم أني بريئة وأن الله مبرئي ببراءتي ولكن والله ما كنت أظن أن ينزل في شأني وحى يتلى ولشأني كان أحقر في نفسي من أن يتكلم الله عز وجل في بأمر يتلى ولكني كنت أرجو أن يرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في النوم رؤيا يبرئني الله بها قالت فوالله ما رام رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسه ولا خرج من أهل البيت أحد حتى أنزل الله عز وجل على نبيه صلى الله عليه وسلم فأخذه ما كان يأخذه من البرحاء عند الوحى حتى إنه ليتحدر منه مثل الجمان من العرق في اليوم الشات من ثقل القول الذي أنزل عليه - قالت - فلما سري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يضحك فكان أول كلمة تكلم بها أن قال ‏"‏ أبشري يا عائشة أما الله فقد برأك ‏"‏ ‏.‏ فقالت لي أمي قومي إليه فقلت والله لا أقوم إليه ولا أحمد إلا الله هو الذي أنزل براءتي - قالت - فأنزل الله عز وجل ‏{‏ إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏}‏ عشر آيات فأنزل الله عز وجل هؤلاء الآيات براءتي - قالت - فقال أبو بكر وكان ينفق على مسطح لقرابته منه وفقره والله لا أنفق عليه شيئا أبدا بعد الذي قال لعائشة ‏.‏ فأنزل الله عز وجل ‏{‏ ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى‏}‏ إلى قوله ‏{‏ ألا تحبون أن يغفر الله لكم‏}‏ قال حبان بن موسى قال عبد الله بن المبارك هذه أرجى آية في كتاب الله ‏.‏ فقال أبو بكر والله إني لأحب أن يغفر الله لي ‏.‏ فرجع إلى مسطح النفقة التي كان ينفق عليه وقال لا أنزعها منه أبدا ‏.‏ قالت عائشة وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم سأل زينب بنت جحش زوج النبي صلى الله عليه وسلم عن أمري ‏"‏ ما علمت أو ما رأيت ‏"‏ ‏.‏ فقالت يا رسول الله أحمي سمعي وبصري والله ما علمت إلا خيرا ‏.‏ قالت عائشة وهي التي كانت تساميني من أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فعصمها الله بالورع وطفقت أختها حمنة بنت جحش تحارب لها فهلكت فيمن هلك ‏.‏ قال الزهري فهذا ما انتهى إلينا من أمر هؤلاء الرهط ‏.‏ وقال في حديث يونس احتملته الحمية ‏.‏
ابو ربیع عتکی نے مجھے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں فلیح بن سلیمان نے حدیث سنائی ، نیز ہمیں حسن بن علی حلوانی اور عبد بن حمید نے حدیث سنائی ، دونوں نے کہا : ہمیں یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں میرے والد نے صالح بن کیسان سے حدیث سنائی ، ان دونوں ( فلیح بن سلیمان اور صالح بن کیسان ) نے زہری سے یونس اور معمر کی روایت کے مطابق انہی کی سند کے ساتھ ( یہی ) حدیث بیان کی ۔ فلیح کی حدیث میں اسی طرح ہے جیسے معمر نے بیان کیا : انہیں ( قبائلی ) حمیت نے جاہلیت ( کے دور ) میں گھسیٹ لیا ۔ اور صالح کی حدیث میں یونس کے قول کی طرح ہے : انہیں ( قبائلی ) حمیت نے اکسا دیا ۔ اور صالح کی حدیث میں مزید یہ ہے : عروہ نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو ناپسند کرتی تھیں کہ حسان ( بن ثابت رضی اللہ عنہ ) کو ان کے سامنے برا بھلا کہا جائے ۔ وہ فرماتی تھیں : انہوں نے یہ ( عظیم شعر ) کہا ہے : "" بےشک میرا باپ اور اس کا باپ اور میری عزت ، تم لوگوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کے لیے ڈھال ہیں ۔ "" اور انہوں نے مزید بھی کہا : عروہ نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اللہ کی قسم! جس شخص کے بارے میں وہ ساری باتیں ، جو گھڑی گئی تھیں ، وہ کہتا تھا : سبحان اللہ! ( یہ کیسی باتیں ہیں ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے کبھی کسی عورت کے حجلہ عروسی 0تک کا ) پردہ بھی نہیں اٹھایا ۔ ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : پھر بعد میں وہ اللہ کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو گیا ۔ اور یعقوب بن ابراہیم کی حدیث میں موغرين في نحر الظهيرة ( لوگ دوپہر کے وقت بے سایہ بنجر راستے میں سفر سے بے حال ہو گئے تھے ۔ ) عبدالرزاق نے موغرين ( گرمی کی شدت سے بے حال ہوئے ) کہا ہے ۔ عبد بن حمید نے کہا : میں نے عبدالرزاق سے پوچھا : "" موغرين "" کا مطلب کیا ہے؟ کہا : الوغرة گرمی کی شدت ہوتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2770.01

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7022
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن العلاء، قالا حدثنا أبو أسامة، عن هشام، بن عروة عن أبيه، عن عائشة، قالت لما ذكر من شأني الذي ذكر وما علمت به قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا فتشهد فحمد الله وأثنى عليه بما هو أهله ثم قال ‏ "‏ أما بعد أشيروا على في أناس أبنوا أهلي وايم الله ما علمت على أهلي من سوء قط وأبنوهم بمن والله ما علمت عليه من سوء قط ولا دخل بيتي قط إلا وأنا حاضر ولا غبت في سفر إلا غاب معي ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بقصته وفيه ولقد دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي فسأل جاريتي فقالت والله ما علمت عليها عيبا إلا أنها كانت ترقد حتى تدخل الشاة فتأكل عجينها أو قالت خميرها - شك هشام - فانتهرها بعض أصحابه فقال اصدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أسقطوا لها به فقالت سبحان الله والله ما علمت عليها إلا ما يعلم الصائغ على تبر الذهب الأحمر ‏.‏ وقد بلغ الأمر ذلك الرجل الذي قيل له فقال سبحان الله والله ما كشفت عن كنف أنثى قط ‏.‏ قالت عائشة وقتل شهيدا في سبيل الله ‏.‏ وفيه أيضا من الزيادة وكان الذين تكلموا به مسطح وحمنة وحسان وأما المنافق عبد الله بن أبى فهو الذي كان يستوشيه ويجمعه وهو الذي تولى كبره وحمنة ‏.‏
ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جب میرے معاملے میں وہ باتیں کہی گئیں جو کہی گئیں اور مجھے اس معاملے کا علم نہ تھا ، ( اس وقت ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ شہادتین پڑھیں ، اللہ کی حمد و ژنا کی جو اس کے شایان شان ہے ، پھر فرمایا : "" اس ( حمد و ثنا ) کے بعد! مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر بہتان لگایا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میری اہلیہ کے خلاف کبھی کوئی برائی میرے علم میں نہیں آئی ۔ وہ ( صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ ) جس کے بارے میں انہوں نے تہمت لگائی ہے ، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں کسی برائی کا علم نہیں ، وہ کبھی میرے گھر نہیں آیا مگر اس وقت جب میں موجود تھا اور میں کبھی سفر کی وجہ سے ( مدینہ سے ) غیر حاضر نہیں رہا مگر وہ بھی ( اس سفر میں ) میرے ساتھ ( مدینہ س ) غیر حاضر تھا ۔ "" اور پورے واقعے سمیت حدیث بیان کی اور اس میں یہ ( بھی ) ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری خادمہ سے پوچھا ۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم! میں ان میں کوئی ایک عیب بھی نہیں جانتی ، اس کے سوا کہ وہ سو جایا کرتی تھیں اور بکری اندر آتی اور ان کا آٹا یا کہا : ان کا خمیر ( جو آٹے میں ملایا جاتا ہے ) کھا جاتی ۔ ہشام کو شک ہوا ہے ۔ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی نے جھڑکیاں دیں اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل سچ بتاؤ ، حتی کہ اس معاملے میں ان لوگوں نے اسے تحقیر آمیز باتیں کہیں تو اس نے جواب میں کہا : سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں بالکل اسی طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص سونے کو جانتا ہے ۔ ( ان میں ذرہ برابر کھوٹ نہیں ، وہ خالص سونا ہیں ۔ ) اور یہ معاملہ اس شخص تک پہنچا جس کے بارے میں یہ بات کہی گئی تو اس نے کہا : سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے آج تک کسی عورت کی خلوت گاہ کا پردہ بھی نہیں اٹھایا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : وہ اللہ عزوجل کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو گیا ۔ اور اس حدیث میں مزید یہ بات بھی ہے کہ جن لوگوں نے ( بہتان پر مبنی ) باتیں کی تھیں ان میں مسطح ، حمنہ اور حسان ( بن ثابت ) رضی اللہ عنہم تھے ۔ اور منافق عبداللہ بن ابی وہ شخص تھا جو ( سیدھے سادھے واقعے کے اندر سے ) جھوٹے الزام نکالتا تھا اور ( بہتان کی جھوٹی کہانی کی صورت میں ) انہیں یکجا کرتا تھا ۔ اسی نے اس بہتان تراشی میں سب سے بڑا کردار سنبھالا اور ( اس کے بعد ) حمنہ رضی اللہ عنہا تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2770.03

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7023
حدثني زهير بن حرب، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، أخبرنا ثابت، عن أنس، أن رجلا، كان يتهم بأم ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي ‏ "‏ اذهب فاضرب عنقه ‏"‏ ‏.‏ فأتاه علي فإذا هو في ركي يتبرد فيها فقال له علي اخرج ‏.‏ فناوله يده فأخرجه فإذا هو مجبوب ليس له ذكر فكف علي عنه ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنه لمجبوب ما له ذكر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد ( آپ کے فرزند کی والدہ ) کے ساتھ مہتم کیا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے تو وہ ایک اتھلے ( کم گہرے ) کنویں میں ٹھنڈک کے لیے غسل کر رہا تھا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : نکلو ، اور ( سہارا دینے کے لیے ) اسے اپنا ہاتھ پکڑایا اور اسے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ہیجڑا ہے ، اس کا عضو مخصوص تھا ہی نہیں ۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ( اس کو قتل کرنے سے ) رُک گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اللہ کے رسول! وہ تو ہیجڑا ہے ، اس کا عضو مخصوص ہے ہی نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2771

صحيح مسلم باب:50 حدیث نمبر : 68

Share this: