احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
44: كتاب فضائل الصحابة
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
صحيح مسلم حدیث نمبر: 6169
حدثني زهير بن حرب، وعبد بن حميد، وعبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، قال عبد الله أخبرنا وقال الآخران، حدثنا حبان بن هلال، حدثنا همام، حدثنا ثابت، حدثنا أنس بن مالك، أن أبا بكر الصديق، حدثه قال نظرت إلى أقدام المشركين على رءوسنا ونحن في الغار فقلت يا رسول الله لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال ‏ "‏ يا أبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالثهما ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بتایا ، کہا : جس وقت ہم غار میں تھے ، میں نے اپنے سرو ں کی جانب ( غار کے اوپر ) مشرکین کے قدم دیکھے ، میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف نظر کی تووہ نیچے ہمیں دیکھ لے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ابو بکر!تمھارا ان دو کے بارے میں کیا گیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے؟ " ( انھیں کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2381

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6170
حدثنا عبد الله بن جعفر بن يحيى بن خالد، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن أبي، النضر عن عبيد بن حنين، عن أبي سعيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر فقال ‏"‏ عبد خيره الله بين أن يؤتيه زهرة الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عنده ‏"‏ ‏.‏ فبكى أبو بكر وبكى فقال فديناك بآبائنا وأمهاتنا ‏.‏ قال فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير وكان أبو بكر أعلمنا به ‏.‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن أمن الناس على في ماله وصحبته أبو بكر ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ولكن أخوة الإسلام لا تبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بكر ‏"‏ ‏.‏
امام مالک نے ابو نضر سے ، انھوں نے عبید بن حنین سے ، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا : " کہ اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ چاہے دنیا کی دولت لے اور چاہے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کرے ، پھر اس نے اللہ کے پاس رہنا اختیار کیا ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ روئے ( سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہے ) اور بہت روئے ۔ پھر کہا کہ ہمارے باپ دادا ہماری مائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ( پھر معلوم ہوا ) کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھتے تھے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر ابوبکر کا احسان ہے مال کا بھی اور صحبت کا بھی اور اگر میں کسی کو ( اللہ تعالیٰ کے سوا ) دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا ۔ ( اب خلّت تو نہیں ہے ) لیکن اسلام کی اخوت ( برادری ) ہے ۔ مسجد میں کسی کی کھڑکی نہ رہے ( سب بند کر دی جائیں ) لیکن ابوبکر کے گھر کی کھڑکی قائم رکھو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2382.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6171
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا فليح بن سليمان، عن سالم أبي النضر، عن عبيد، بن حنين وبسر بن سعيد عن أبي سعيد الخدري، قال خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس يوما ‏.‏ بمثل حديث مالك ‏.‏
سالم نےابو نضر سے ، انھوں نے عبید بن حنین اور بسر بن سعید سے ، انھوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا ، ( اس کے بعد ) مالک کی حدیث کی مانند ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2382.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6172
حدثنا محمد بن بشار العبدي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن إسماعيل، بن رجاء قال سمعت عبد الله بن أبي الهذيل، يحدث عن أبي الأحوص، قال سمعت عبد، الله بن مسعود يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ لو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ولكنه أخي وصاحبي وقد اتخذ الله عز وجل صاحبكم خليلا ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن رجاء نے کہا : میں نے عبداللہ بن ابی ہذیل کو ابواحوص سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انھوں نے کہا : میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کررہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں کسی شخص کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے ( دینی ) بھائی اور ساتھی ہیں اور تمھارے ساتھی ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ عزوجل نےاپنا خلیل بنایا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6173
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ لو كنت متخذا من أمتي أحدا خليلا لاتخذت أبا بكر ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ابو اسحاق سے ، انھوں نے ابو احوص سے ، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6174
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا عبد الرحمن، حدثني سفيان، عن أبي إسحاق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، ح وحدثنا عبد بن حميد، أخبرنا جعفر بن عون، أخبرنا أبو عميس، عن ابن أبي، مليكة عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لو كنت متخذا خليلا لاتخذت ابن أبي قحافة خليلا ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے ابو اسحاق سے ، انھوں نے ابو احوص سے ، انھوں نے عبداللہ سے روایت کی ، ابو عمیس نے ابن ابی ملیکہ سے ، انھوں نے عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں کسی کو خلیل بناتاتو ابوقحافہ کے فرزند ( ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو خلیل بناتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6175
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن واصل بن حيان، عن عبد الله بن أبي، الهذيل عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لو كنت متخذا من أهل الأرض خليلا لاتخذت ابن أبي قحافة خليلا ولكن صاحبكم خليل الله ‏"‏ ‏.‏
واصل بن حیان نے عبداللہ بن ابی ہذیل سے ، انھوں نے ابو احوص سے ، انھوں نے عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں زمین پر رہنے والوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابو قحافہ کے بیٹے کو خلیل بناتا ، لیکن تمہارے صاحب ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے خلیل ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6176
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، ح وحدثنا إسحاق بن، إبراهيم أخبرنا جرير، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، كلهم عن الأعمش، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، وأبو سعيد الأشج - واللفظ لهما - قالا حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ألا إني أبرأ إلى كل خل من خله ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا إن صاحبكم خليل الله ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن مرہ نے ابو احوص سے ، انھوں نے عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سن رکھو!میں ہر خلیل کی رازدارانہ دوستی سے براءت کا اظہار کرتا ہوں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا ۔ تمھارا صاحب ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کا خلیل ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6177
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن أبي عثمان، أخبرني عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت أى الناس أحب إليك قال ‏"‏ عائشة ‏"‏ ‏.‏ قلت من الرجال قال ‏"‏ أبوها ‏"‏ ‏.‏ قلت ثم من قال ‏"‏ عمر ‏"‏ ‏.‏ فعد رجالا ‏.‏
عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے ان کو ذات السلاسل کے لشکر کے ساتھ بھیجا ( ذات السلاسل نواحی شام میں ایک پانی کا نام ہے وہاں کی لڑائی جمادی الاخری۸ھ میں ہوئی ) ۔ وہ آئے آپ کے پاس انہوں نے کہا یا رسول اﷲؐ! سب لوگوں میں آپ کو کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ صدیقہؓ سے ۔ انہوں نے کہا مرودں میں کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ان کے باپ سے ۔ انہوں نے کہا پھر ان کے بعد کس سے؟ آپؐ نے فرمایا عمرؓ سے یہاں تک کہ آپ نے کئی آدمیوں کا ذکر کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2384

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6178
وحدثني الحسن بن علي الحلواني، حدثنا جعفر بن عون، عن أبي عميس، ح وحدثنا عبد بن حميد، - واللفظ له - أخبرنا جعفر بن عون، أخبرنا أبو عميس، عن ابن، أبي مليكة سمعت عائشة، وسئلت، من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مستخلفا لو استخلفه قالت أبو بكر ‏.‏ فقيل لها ثم من بعد أبي بكر قالت عمر ‏.‏ ثم قيل لها من بعد عمر قالت أبو عبيدة بن الجراح ‏.‏ ثم انتهت إلى هذا ‏.‏
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، ان سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ کرتے تو کس کو کرتے؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ( خلیفہ ) بناتے ۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو ( خلیفہ ) بناتے؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ( خلیفہ ) بناتے ۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو ( خلیفہ ) بناتے؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح کو ۔ پھر خاموش ہو رہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2385

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6179
حدثني عباد بن موسى، حدثنا إبراهيم بن سعد، أخبرني أبي، عن محمد بن جبير، بن مطعم عن أبيه، أن امرأة، سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا فأمرها أن ترجع إليه فقالت يا رسول الله أرأيت إن جئت فلم أجدك قال أبي كأنها تعني الموت ‏.‏ قال ‏ "‏ فإن لم تجديني فأتي أبا بكر ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه حجاج بن الشاعر، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن أبيه، أخبرني محمد بن جبير بن مطعم، أن أباه، جبير بن مطعم أخبره أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمته في شىء فأمرها بأمر ‏.‏ بمثل حديث عباد بن موسى ‏.‏
عباد بن موسیٰ نے کہا ، ہمیں ابراہیم بن سعد نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے میرے والد نے محمد بن جبیر بن مطعم سے خبر دی ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر آنا ۔ وہ بولی کہ یا رسول اللہ! اگر میں آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاؤں ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا ۔

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6180
یعقوب بن ابراہیم نے کہا : ہمیں میرے والد نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے محمد بن جبیر بن معطم نے خبر دی کہ انھیں ان کے والد حضرت جبیر بن معطم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے آپ سے کسی چیز کے بارے میں بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ کرنے ( دوبارہ آنے ) کو کہا ۔ ( آگے ) عباد بن موسیٰ کی حدیث کے مانند ( ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6181
حدثنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا إبراهيم بن سعد، حدثنا صالح بن كيسان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه ‏ "‏ ادعي لي أبا بكر وأخاك حتى أكتب كتابا فإني أخاف أن يتمنى متمن ويقول قائل أنا أولى ‏.‏ ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر ‏"‏ ‏.‏
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ( آخری ) مرض کے دوران میں مجھ سے فرمایا؛ " اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں ، مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا : میں زیادہ حقدار ہوں جبکہ اللہ بھی ابو بکر کے سوا ( کسی اور کی جانشینی ) سے انکار فرماتا ہے اور مومن بھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2387

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6182
حدثنا محمد بن أبي عمر المكي، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن يزيد، - وهو ابن كيسان - عن أبي حازم الأشجعي، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أصبح منكم اليوم صائما ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن تبع منكم اليوم جنازة ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن أطعم منكم اليوم مسكينا ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن عاد منكم اليوم مريضا ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر أنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما اجتمعن في امرئ إلا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریا فت کیا : " آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا ہے؟ " حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " آج تم میں سے کون جنازے میں شامل ہوا ۔ ؟ " ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " آج تم میں سے کس شخص نے کسی مسکین کو کھا نا کھلا یا ؟ " حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے ۔ آپ نے فر ما یا : " آج تم میں سے کس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی ہے ۔ ؟حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " جس کسی آدمی میں یہ سب اوصاف اکٹھے ہو تے ہیں تو وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1028.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6183
حدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن سرح وحرملة بن يحيى قالا أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني سعيد بن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أنهما سمعا أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينما رجل يسوق بقرة له قد حمل عليها التفتت إليه البقرة فقالت إني لم أخلق لهذا ولكني إنما خلقت للحرث ‏"‏ ‏.‏ فقال الناس سبحان الله ‏.‏ تعجبا وفزعا ‏.‏ أبقرة تكلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإني أومن به وأبو بكر وعمر ‏"‏ ‏.‏ قال أبو هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينا راع في غنمه عدا عليه الذئب فأخذ منها شاة فطلبه الراعي حتى استنقذها منه فالتفت إليه الذئب فقال له من لها يوم السبع يوم ليس لها راع غيري ‏"‏ ‏.‏ فقال الناس سبحان الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإني أومن بذلك أنا وأبو بكر وعمر ‏"‏ ‏.‏
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی ، کہا : مجھے سعد بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمان ( بن عوف ) نے حدیث سنائی کہ ان دونوں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ایک شخص اپنی گا ئے کو ہانک رہاتھا اس پر بو جھ لادا ہوا تھا ۔ اس گائے نے منہ پیچھے کیا اور کہا : مجھے اس کا م کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ " لوگوں نے تعجب اور حیرت سے کہا : سبحان اللہ ! کیا گائے بولتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " ( کسی اور کو یقین ہو نہ ہو ) میرا ابو بکر کا اور عمر کا اس پر ایمان ہے ۔ " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " ایک چرواہااپنی بکریوں میں ( مو جود ) تھا کہ بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری پکڑلی ، چرواہا اس کے پیچھے لگ گیا حتی کہ اس بکری کو بھیڑیے سے بچا لیا ۔ اس ( بھیڑیے ) نے کہا : اس دن اسے کون بچا ئے گا جب درندوں ( کے حملے ) کا دن آئے گا اور میرے سوا اس کا چرواہا ( مالک ) کو ئی نہ ہو گا ؟ " لوگوں نے کہا : سبحان اللہ !تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور ابو بکر اور عمر ( بھی یقین رکھتے ہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2388.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6184
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث، حدثني أبي، عن جدي، حدثني عقيل بن، خالد عن ابن شهاب، بهذا الإسناد ‏.‏ قصة الشاة والذئب ولم يذكر قصة البقرة ‏.‏
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ بکری اور بھیڑیے کا واقعہ بیان کیا اور گا ئے کا واقعہ بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2388.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6185
وحدثنا محمد بن عباد، حدثنا سفيان بن عيينة، ح وحدثني محمد بن رافع، حدثنا أبو داود الحفري، عن سفيان، كلاهما عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي سلمة، عن أبي، هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمعنى حديث يونس عن الزهري وفي حديثهما ذكر البقرة والشاة معا وقالا في حديثهما ‏ "‏ فإني أومن به أنا وأبو بكر وعمر ‏"‏ ‏.‏ وما هما ثم ‏.‏
سفیان بن عیینہ اور سفیان ( ثوری ) دونوں نے ابو زناد سے ، انھوں نے اعرج سے ، انھوں نے ابو سلمہ سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےزہری سے یونس کی روایت کے ہم معنی روایت کی ۔ ان دونوں کی حدیث میں گا ئے اور بکری دونوں کا ذکر ہے اور دونوں نے اپنی حدیث کے الفا ظ کہے ۔ " میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ابو بکراور عمر ( بھی یقین رکھتے ہیں ۔ ) " اور وہ دونوں وہاں نہیں تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2388.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6186
وحدثناه محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، ح وحدثنا محمد بن عباد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن مسعر، كلاهما عن سعد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
شعبہ اور مسعر دونوں نے سعد بن ابرا ہیم سے انھوں نے ابو سلمہ سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2388.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6187
حدثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، وأبو الربيع العتكي، وأبو كريب محمد بن العلاء - واللفظ لأبي كريب - قال أبو الربيع حدثنا وقال الآخران، أخبرنا ابن المبارك، عن عمر بن سعيد بن أبي حسين، عن ابن أبي مليكة، قال سمعت ابن عباس، يقول وضع عمر بن الخطاب على سريره فتكنفه الناس يدعون ويثنون ويصلون عليه قبل أن يرفع وأنا فيهم - قال - فلم يرعني إلا برجل قد أخذ بمنكبي من ورائي فالتفت إليه فإذا هو علي فترحم على عمر وقال ما خلفت أحدا أحب إلى أن ألقى الله بمثل عمله منك وايم الله إن كنت لأظن أن يجعلك الله مع صاحبيك وذاك أني كنت أكثر أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ جئت أنا وأبو بكر وعمر ودخلت أنا وأبو بكر وعمر وخرجت أنا وأبو بكر وعمر ‏"‏ ‏.‏ فإن كنت لأرجو أو لأظن أن يجعلك الله معهما ‏.‏
ابن مبارک نے عمر بن سعید بن ابو حسین سے ، انھوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہو ئے سنا ، جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( کے جسد خاکی ) کو چار پائی پر رکھا گیا تو ( جنازہ ) اٹھا نے سے پہلے لوگوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا ۔ وہ دعائیں کر رہے تھے تعریف کر رہے تھے دعائے رحمت کر رہے تھے ۔ میں بھی ان میں شامل تھا تو مجھے اچانک کسی ایسے شخص نے چونکا دیا جس نے پیچھے سے ( آکر ) میرا کندھا تھا ما ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا : آپ نے کو ئی ایسا آدمی پیچھے نہ چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر اس بات میں مجھے محبوب ہو کہ میں اللہ سے اس کے جیسے عملوں کے ساتھ ملوں ۔ اللہ کی قسم!مجھے ۔ ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکرتا تھا ، آپ فر ما یا کرتے تھے ، " میں ابو بکر اور عمر آئے ۔ میں ابو بکر اور عمر اندر گئے ، میں ابو بکر اور عمر باہر نکلے ۔ " مجھے امید تھی بلکہ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا کہ اللہ آپ کو ان دونوں کے ساتھ رکھے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2389.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6188
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، في هذا الإسناد بمثله ‏.‏
عیسیٰ بن یونس نے عمربن سعید سے اسی سند سے اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2389.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6189
حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، ح وحدثنا زهير بن حرب، والحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، - واللفظ لهم - قالوا حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدثني أبو أمامة، بن سهل أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي ومنها ما يبلغ دون ذلك ومر عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره ‏"‏ ‏.‏ قالوا ماذا أولت ذلك يا رسول الله قال ‏"‏ الدين ‏"‏ ‏.‏
ابو امامہ بن سہل نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " میں سویا ہوا تھا : میں نے دیکھا کہ لو گ میرے سامنے لا ئے جا رہے ہیں ۔ انھوں نے قمیص پہنی ہو ئی ہیں ، کسی کی قمیص چھا تی تک پہنچتی ہے کسی کی اس سے نیچے تک پہنچتی ہے اور عمر بن خطاب گزرے تو ان پر جو قمیص ہے وہ اسے گھسیٹ رہے ہیں ۔ " لوگوں نے عرض کی : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرما ئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " دین ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2390

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6190
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، أن ابن شهاب، أخبره عن حمزة بن عبد الله بن عمر بن الخطاب، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بينا أنا نائم إذ رأيت قدحا أتيت به فيه لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يجري في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب ‏"‏ ‏.‏ قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال ‏"‏ العلم ‏"‏ ‏.‏
یو نس نے کہا : کہ ابن شہاب نے انھیں بتا یا ، انھوں نےحمزہ بن عبد اللہ بن عمربن خطاب سے روایت کی ، انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : " میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ایک پیا لہ دیکھا جو میرے پاس لا یا گیا ۔ اس میں دودھ تھا ۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ مجھے محسوس ہوا کہ سیرابی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے ۔ پھر اپنا بچا ہوا دودھ میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا ۔ " ( حاضرین نے ) کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فر ما ئی ؟آپ نے فرما یا : " علم ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2391.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6191
وحدثناه قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن عقيل، ح وحدثنا الحلواني، وعبد بن، حميد كلاهما عن يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، بإسناد يونس نحو حديثه ‏.‏
صالح نے یونس کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2391.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6192
حدثنا حرملة، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أن سعيد بن، المسيب أخبره أنه، سمع أبا هريرة، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ بينا أنا نائم رأيتني على قليب عليها دلو فنزعت منها ما شاء الله ثم أخذها ابن أبي قحافة فنزع بها ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه والله يغفر له ضعف ثم استحالت غربا فأخذها ابن الخطاب فلم أر عبقريا من الناس ينزع نزع عمر بن الخطاب حتى ضرب الناس بعطن ‏"‏ ‏.‏
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی کہ سعید بن مسیب نے انھیں خبر دی ، انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فر ما رہےتھے ۔ " میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود ایک کنویں پر دیکھا اس پر ایک ڈول تھا میں نے اس میں جتنا اللہ نے چا ہا پانی نکالا ، پھر ابن ابی قحافہ نے اس سے ایک یا دوڈول نکالے ، اللہ ان کی مغفرت کرے!ان کے پانی نکا لنے میں کچھ کمزوری تھی ، پھر وہ ایک بڑا ڈول بن گیا تو عمر بن خطاب نے اسے پکڑ لیا ، چنانچہ میں نے لوگوں میں کو ئی ایسا عبقری ( غیر معمولی صلاحیت کا مالک ) نہیں دیکھا جو عمر بن خطاب کی طرح سے پانی نکا لے حتی کہ لو گ اونٹوں کو ( سیراب کر کے گھاٹ سے سے باہر ) آرام کرنے کی جگہ پر لے گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2392.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6193
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث، حدثني أبي، عن جدي، حدثني عقيل بن، خالد ح وحدثنا عمرو الناقد، والحلواني، وعبد بن حميد، عن يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، بإسناد يونس نحو حديثه ‏.‏
صالح نے یو نس کی سند کے ساتھ انھی کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی ،

صحيح مسلم حدیث نمبر:2392.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6194
حدثنا الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن صالح، قال قال الأعرج وغيره إن أبا هريرة قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ رأيت ابن أبي قحافة ينزع ‏"‏ ‏.‏ بنحو حديث الزهري ‏.‏
صالح نے کہا : اعرج وغیرہ نے کہا : کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " میں نے ابن ابی قحافہ کو ڈول کھینچتے دیکھا ۔ " زہری کی حدیث کی طرح ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2392.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6195
حدثني أحمد بن عبد الرحمن بن وهب، حدثنا عمي عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، أن أبا يونس، مولى أبي هريرة حدثه عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ بينا أنا نائم أريت أني أنزع على حوضي أسقي الناس فجاءني أبو بكر فأخذ الدلو من يدي ليروحني فنزع دلوين وفي نزعه ضعف والله يغفر له فجاء ابن الخطاب فأخذ منه فلم أر نزع رجل قط أقوى منه حتى تولى الناس والحوض ملآن يتفجر ‏"‏ ‏.‏
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میں سویا ہوا تھا تو مجھے خواب میں دکھا یا گیا کہ میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں ، پھر ابو بکر آئے اور انھوں نے مجھے آرام پہنچانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا ، انھوں نے دو ڈول پانی نکا لا ، ان کے پانی نکا لنے میں کچھ کمزوری تھی ، اللہ ان کی مغفرت کرے!پھر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو انھوں نے ان سے ڈول لے لیا ، میں نے کسی شخص کو ان سے زیادہ قوت کے ساتھ ڈول کھینچتےنہیں دیکھا ، یہاں تک کہ لوگ ( سیراب ہو کر ) چلے گئے ۔ اور حوض پوری طرح بھراہوا تھا ( اس میں سے ) پانی امڈ رہا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2392.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6196
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا محمد بن بشر، حدثنا عبيد الله بن عمر، حدثني أبو بكر بن سالم، عن سالم، بن عبد الله عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أريت كأني أنزع بدلو بكرة على قليب فجاء أبو بكر فنزع ذنوبا أو ذنوبين فنزع نزعا ضعيفا والله تبارك وتعالى يغفر له ثم جاء عمر فاستقى فاستحالت غربا فلم أر عبقريا من الناس يفري فريه حتى روي الناس وضربوا العطن ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن سالم نے سالم بن عبد اللہ سے ، انھوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " میں نے ( خواب میں دیکھا ) کہ جیسے میں ایک کنویں پر چرخی والے ڈول سے پانی نکا ل رہا ہوں ، پھر ابو بکر آگئے ، انھوں نے ایک یا دوڈول نکا لے اللہ تبارک وتعا لیٰ ان کی مغفرت فرما ئے ، انھوں نے کچھ کمزوری سے ڈول نکالے ۔ پھر عمر آئے انھوں نے پانی نکا لا تو وہ بہت بڑا ڈول بن گیا ، میں نے لوگوں میں کو ئی غیر معمولی آدمی بھی ایسا نہیں دیکھا جوان جیسی طاقت کا مظاہرہ کرسکتا ہو یہاں تک کہ لو گ سیراب ہو گئے اور انھوں نے جانوروں کو سیراب کرکے ) آرام کرنے کی جگہ پہنچادیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2393.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6197
حدثنا أحمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زهير، حدثني موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، عن رؤيا، رسول الله صلى الله عليه وسلم في أبي بكر وعمر بن الخطاب رضى الله عنهما بنحو حديثهم ‏.‏
موسیٰ بن عقبہ نے سالم بن عبداللہ سے ، انھوں نے اپنے والد سے حضرت ابو بکر اور عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب ان سب کی حدیث کی طرح روایت کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2393.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6198
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا سفيان، عن عمرو، وابن المنكدر، سمعا جابرا، يخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا زهير بن حرب، - واللفظ له - حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن المنكدر، وعمرو، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ دخلت الجنة فرأيت فيها دارا أو قصرا فقلت لمن هذا فقالوا لعمر بن الخطاب ‏.‏ فأردت أن أدخل ‏.‏ فذكرت غيرتك ‏"‏ ‏.‏ فبكى عمر وقال أى رسول الله أوعليك يغار
محمد بن عبد اللہ بن نمیر اور زہیر بن حرب نے کہا : ۔ الفاظ انھی ( زہیر ) کے ہیں ۔ ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے عمرواور ابن منکدر سے انھوں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ۔ کہ آپ نے فرما یا : " میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک گھر یا محل دیکھا میں نے پو چھا : یہ کس کا ہے؟فرشتوں نے کہا : یہ عمر بن خطاب کا ( محل ) ہے ، میں نے اس میں داخل ہو نے کا ارادہ کیا ، پھر مجھے تمھا ری غیرت یاد آگئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ سے غیرت کی جا تی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:2394.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6199
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سفيان، عن عمرو، وابن المنكدر، عن جابر، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع جابرا، ح وحدثناه عمرو الناقد، حدثنا سفيان، عن ابن المنكدر، سمعت جابرا، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث ابن نمير وزهير ‏.‏
اسحٰق بن ابرا ہیم ، ابو بکر بن ابی شیبہ اور عمرو ناقد نے سفیان بن عیینہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عمرو اور ابن منکدر سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن نمیر اور زہیر کی حدیث کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2394.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6200
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، أن ابن شهاب، أخبره عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ بينا أنا نائم إذ رأيتني في الجنة فإذا امرأة توضأ إلى جانب قصر فقلت لمن هذا فقالوا لعمر بن الخطاب ‏.‏ فذكرت غيرة عمر فوليت مدبرا ‏"‏ ‏.‏ قال أبو هريرة فبكى عمر ونحن جميعا في ذلك المجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال عمر بأبي أنت يا رسول الله أعليك أغار وحدثنيه عمرو الناقد، وحسن الحلواني، وعبد بن حميد، قالوا حدثنا يعقوب بن، إبراهيم حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
یونس نے کہا : ابن شہاب نے انھیں سعید بن مسیب سے خبر دی ، انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فر ما یا : " میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت ، ایک محل کے جانبی حصے میں وضو کر رہی تھی ۔ میں نے پو چھا : یہ کس کا ( محل ) ہے ؟انھوں نے بتا یا یہ عمر خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے ۔ مجھے عمر کی غیر ت یاد آئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس آگیا ۔ " ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اس پر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے جبکہ ہم اس مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان !کیا میں آپ پر غیرت کروں گا ؟

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6201
صالح نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانندروایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6202
حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد، ح وحدثنا حسن، الحلواني وعبد بن حميد قال عبد أخبرني وقال، حسن حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، أخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن، بن زيد أن محمد بن سعد بن أبي وقاص، أخبره أن أباه سعدا قال استأذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه عالية أصواتهن فلما استأذن عمر قمن يبتدرن الحجاب فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك فقال عمر أضحك الله سنك يا رسول الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب ‏"‏ ‏.‏ قال عمر فأنت يا رسول الله أحق أن يهبن ‏.‏ ثم قال عمر أى عدوات أنفسهن أتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم قلن نعم أنت أغلظ وأفظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك ‏"‏ ‏.‏
ابرا ہیم بن سعد نے صالح سے ، انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی ، کہا : مجھے عبد الحمید بن عبد الرحمٰن بن زید نے بتا یا کہ انھیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی ، ان کے والد سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی ، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس ( بیٹھی ) آپ سے گفتگو کر رہی تھیں ، بہت بول رہی تھیں ، ان کی آوازیں بھی اونچی تھیں ، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جا نے لگیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اجازت دی ، آپ اس وقت ہنس رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعا لیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے!اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہو ئی تھیں تمھا ری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں ۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر کہنے لگے ۔ اپنی جان کی دشمنو!مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ان عورتوں نے کہا : ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے!جب کبھی شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہو ئے ملتا ہے تو تمھا را راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2396

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6203
حدثنا هارون بن معروف، حدثنا به عبد العزيز بن محمد، أخبرني سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن عمر بن الخطاب، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة قد رفعن أصواتهن على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما استأذن عمر ابتدرن الحجاب ‏.‏ فذكر نحو حديث الزهري ‏.‏
سہیل نے اپنے والد صالح سے ، انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور ( اس وقت ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خواتین تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے باتیں کر رہی تھیں ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( اندر آنےکی ) اجازت مانگی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں ۔ پھر انھوں نے زہری کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2397

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6204
حدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن سرح حدثنا عبد الله بن وهب، عن إبراهيم، بن سعد عن أبيه، سعد بن إبراهيم عن أبي سلمة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يقول ‏ "‏ قد كان يكون في الأمم قبلكم محدثون فإن يكن في أمتي منهم أحد فإن عمر بن الخطاب منهم ‏"‏ ‏.‏ قال ابن وهب تفسير محدثون ملهمون ‏.‏
ابرا ہیم سعد نے اپنے والد سعد بن ابرا ہیم سے ، انھوں نے ابو سلمہ سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، کہ آپ نے فر ما یا کرتے تھے ۔ " تم سے پہلے کی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن سے بات کی جا تی تھیں اگر ان میں سے کو ئی میری امت میں ہے تو عمر خطاب انھی میں سے ہے ۔ " ابن وہب نے کہا : مُحَدَّثُونَکا مطلب ہے جن پر الہام کیا جا تا ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2398.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6205
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا عمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا ابن عيينة، كلاهما عن ابن عجلان، عن سعد بن إبراهيم، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
سعید ابرا ہیم نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2398.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6206
حدثنا عقبة بن مكرم العمي، حدثنا سعيد بن عامر، قال جويرية بن أسماء أخبرنا عن نافع، عن ابن عمر، قال قال عمر وافقت ربي في ثلاث في مقام إبراهيم وفي الحجاب وفي أسارى بدر ‏.‏
نافع نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : " میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ، مقام ابرا ہیم ( کو نماز کی جگہ بنا نے ) میں حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں ( کہ ان کو قتل کر دیا جا ئے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2399

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6207
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال لما توفي عبد الله بن أبى ابن سلول جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله أن يعطيه قميصه أن يكفن فيه أباه فأعطاه ثم سأله أن يصلي عليه فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه فقام عمر فأخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أتصلي عليه وقد نهاك الله أن تصلي عليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما خيرني الله فقال ‏{‏ استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة‏}‏ وسأزيد على سبعين ‏"‏ ‏.‏ قال إنه منافق ‏.‏ فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنزل الله عز وجل ‏{‏ ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره‏}‏ ‏.‏
ابو اسامہ نے کہا : ہمیں عبید اللہ نے نافع سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب ( رئیس المنافقین ) عبد اللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنی قمیص عنایت فر ما ئیں جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دے ، آپ نے اسے عنایت کر دی ، پھر اس نے یہ درخواست کی کہ آپ اس کا نماز جنازہ پڑھا ئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہو ئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو ئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑااور عرض کی : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھیں گے جبکہ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فر ما یا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فر ما یا ہے : " آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں ۔ آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے ( تو بھی اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا ۔ ) تو میں ستر سے زیادہ بار بخشش مانگ لوں گا ۔ انھوں ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : وہ منا فق ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔ اس پر اللہ تعا لیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی : " ان میں سے کسی کی بھی ، جب وہ مرجائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑےہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2400.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6208
وحدثناه محمد بن المثنى، وعبيد الله بن سعيد، قالا حدثنا يحيى، - وهو القطان - عن عبيد الله، بهذا الإسناد في معنى حديث أبي أسامة وزاد قال فترك الصلاة عليهم ‏.‏
یحییٰ قطان نے عبید اللہ سے اسی سند کے ساتھ ابو اسامہ کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور مزید بیان کیا : کہا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2400.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6209
حدثنا يحيى بن يحيى، ويحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر قال يحيى بن يحيى أخبرنا وقال الآخرون، حدثنا إسماعيل، - يعنون ابن جعفر - عن محمد بن أبي حرملة، عن عطاء، وسليمان، ابنى يسار وأبي سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيتي كاشفا عن فخذيه أو ساقيه فاستأذن أبو بكر فأذن له وهو على تلك الحال فتحدث ثم استأذن عمر فأذن له وهو كذلك فتحدث ثم استأذن عثمان فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه - قال محمد ولا أقول ذلك في يوم واحد - فدخل فتحدث فلما خرج قالت عائشة دخل أبو بكر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك فقال ‏ "‏ ألا أستحي من رجل تستحي منه الملائكة ‏"‏ ‏.‏
محمد بن ابی حرملہ نے یسار کے دونوں بیٹوں عطاء اور سلیمان اور ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے ۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے ۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے ۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں ۔ ( راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا ) جب وہ چلے گئے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا ، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:2401

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6210
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث بن سعد، حدثني أبي، عن جدي، حدثني عقيل، بن خالد عن ابن شهاب، عن يحيى بن سعيد بن العاص، أن سعيد بن العاص، أخبره أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وعثمان حدثاه أن أبا بكر استأذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع على فراشه لابس مرط عائشة فأذن لأبي بكر وهو كذلك فقضى إليه حاجته ثم انصرف ثم استأذن عمر فأذن له وهو على تلك الحال فقضى إليه حاجته ثم انصرف ‏.‏ قال عثمان ثم استأذنت عليه فجلس وقال لعائشة ‏"‏ اجمعي عليك ثيابك ‏"‏ ‏.‏ فقضيت إليه حاجتي ثم انصرفت فقالت عائشة يا رسول الله ما لي لم أرك فزعت لأبي بكر وعمر رضي الله عنهما كما فزعت لعثمان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن عثمان رجل حيي وإني خشيت إن أذنت له على تلك الحال أن لا يبلغ إلى في حاجته ‏"‏ ‏.‏
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے ، انھوں نے یحییٰ بن سعید بن عاص سے روایت کی ، انھیں سعید بن عاص نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں اندر آنے کی اجازت دے دی ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بات کی ، پھر چلے گئے ، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت طلب کی ، آپ نے اجازت دے دی ۔ وہ بھی جس کام کے لئے آئے تھے ، وہ کیا ، پھر چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : پھر میں نے آپ کے پاس حاضری کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا : " اپنے کپڑے اپنے اوپر اکھٹے کرلو ۔ " پھر میں جس کام کے لئے آیا تھا وہ کیا اور واپس آگیا توحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اس طرح ہڑ بڑا کے اٹھے ہوں جس طرح عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اٹھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " عثمان انتہائی حیادار ہیں ، مجھے ڈر تھا کہ میں نے اسی حالت میں ان کو آنے کی اجازت دی تو وہ اپنی ضرورت کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کرسکیں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2402.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6211
حدثناه عمرو الناقد، والحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، كلهم عن يعقوب، بن إبراهيم بن سعد حدثنا أبي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال أخبرني يحيى، بن سعيد بن العاص أن سعيد بن العاص، أخبره أن عثمان وعائشة حدثاه أن أبا بكر الصديق استأذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فذكر بمثل حديث عقيل عن الزهري ‏.‏
صالح بن کیسان نے ابن شہاب سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے یحییٰ بن سعید بن عاص نے بتایا ، انھیں سعید بن عاص نے خبر دی کہ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں حدیث سنائی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( حاضر ہونے کی ) اجازت طلب کی ، پھر زہری سے عقیل کی حدیث کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2402.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6212
حدثنا محمد بن المثنى العنزي، حدثنا ابن أبي عدي، عن عثمان بن غياث، عن أبي عثمان النهدي، عن أبي موسى الأشعري، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط من حائط المدينة وهو متكئ يركز بعود معه بين الماء والطين إذا استفتح رجل فقال ‏"‏ افتح وبشره بالجنة ‏"‏ ‏.‏ قال فإذا أبو بكر ففتحت له وبشرته بالجنة - قال - ثم استفتح رجل آخر فقال ‏"‏ افتح وبشره بالجنة ‏"‏ ‏.‏ قال فذهبت فإذا هو عمر ففتحت له وبشرته بالجنة ثم استفتح رجل آخر - قال - فجلس النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ افتح وبشره بالجنة على بلوى تكون ‏"‏ ‏.‏ قال فذهبت فإذا هو عثمان بن عفان - قال - ففتحت وبشرته بالجنة - قال - وقلت الذي قال فقال اللهم صبرا أو الله المستعان ‏.‏
عثمان بن غیاث نے ابو عثمان نہدی سے ، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس ( کی نوک ) کو پانی اور مٹی کے درمیان ماررہے تھے کہ ایک شخص نے ( باغ کا دروازہ ) کھولنے کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دروازہ کھول دو اور اس ( آنے والے ) کو جنت کی خوشخبری سنادو ۔ " ( ابو موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا : وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی ، کہا : پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دروازہ کھول دو اور اسے ( بھی ) جنت کی خوشخبری سنادو ۔ " میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی ، اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، کہا : تو آپ ( سیدھے ہوکر ) بیٹھ گئے ، پھر فرمایا : " دروازہ کھولو اور فتنے پر جو ( برپا ) ہوگا ، انھیں جنت کی خوشخبری دے دو ۔ " کہا : میں گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ کہا : میں نے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی خوشخبری دی اور آپ نے جو کچھ فرمایا تھا ، انھیں بتایا ۔ انھوں نے کہا : اے اللہ صبر عطا فرمانا اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2403.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6213
حدثنا أبو الربيع العتكي، حدثنا حماد، عن أيوب، عن أبي عثمان النهدي، عن أبي موسى الأشعري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل حائطا وأمرني أن أحفظ الباب ‏.‏ بمعنى حديث عثمان بن غياث ‏.‏
ایوب نے ابو عثمان نہدی سے ، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں دروازے کی حفاظت کروں ۔ ( پھر ) عثمان بن غیاث کی حدیث کے ہم معنی ( حدیث بیا ن کی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2403.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6214
حدثنا محمد بن مسكين اليمامي، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا سليمان، - وهو ابن بلال - عن شريك بن أبي نمر، عن سعيد بن المسيب، أخبرني أبو موسى الأشعري، أنه توضأ في بيته ثم خرج فقال لألزمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأكونن معه يومي هذا ‏.‏ قال فجاء المسجد فسأل عن النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا خرج ‏.‏ وجه ها هنا - قال - فخرجت على أثره أسأل عنه حتى دخل بئر أريس - قال - فجلست عند الباب وبابها من جريد حتى قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجته وتوضأ فقمت إليه فإذا هو قد جلس على بئر أريس وتوسط قفها وكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر - قال - فسلمت عليه ثم انصرفت فجلست عند الباب فقلت لأكونن بواب رسول الله صلى الله عليه وسلم اليوم ‏.‏ فجاء أبو بكر فدفع الباب فقلت من هذا فقال أبو بكر ‏.‏ فقلت على رسلك - قال - ثم ذهبت فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر يستأذن فقال ‏"‏ ائذن له وبشره بالجنة ‏"‏ ‏.‏ قال فأقبلت حتى قلت لأبي بكر ادخل ورسول الله صلى الله عليه وسلم يبشرك بالجنة - قال - فدخل أبو بكر فجلس عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم معه في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي صلى الله عليه وسلم وكشف عن ساقيه ثم رجعت فجلست وقد تركت أخي يتوضأ ويلحقني فقلت إن يرد الله بفلان - يريد أخاه - خيرا يأت به ‏.‏ فإذا إنسان يحرك الباب فقلت من هذا فقال عمر بن الخطاب ‏.‏ فقلت على رسلك ‏.‏ ثم جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه وقلت هذا عمر يستأذن فقال ‏"‏ ائذن له وبشره بالجنة ‏"‏ ‏.‏ فجئت عمر فقلت أذن ويبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة - قال - فدخل فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في القف عن يساره ودلى رجليه في البئر ثم رجعت فجلست فقلت إن يرد الله بفلان خيرا - يعني أخاه - يأت به فجاء إنسان فحرك الباب فقلت من هذا فقال عثمان بن عفان ‏.‏ فقلت على رسلك - قال - وجئت النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال ‏"‏ ائذن له وبشره بالجنة مع بلوى تصيبه ‏"‏ ‏.‏ قال فجئت فقلت ادخل ويبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة مع بلوى تصيبك - قال - فدخل فوجد القف قد ملئ فجلس وجاههم من الشق الآخر ‏.‏ قال شريك فقال سعيد بن المسيب فأولتها قبورهم ‏.‏
یحییٰ بن حسان نے کہا : ہمیں سلیمان بن بلال نے شریک بن ابی نمر سے ، انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی ، کہا : کہ مجھے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا ، پھر باہر نکلے ۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا ۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا ۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں ۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں ۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا کہ میں آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان ، چوکیدار رہوں گا ۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے کو دھکیلا ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ہوں ، میں نے کہا ذرا ٹھہرو ۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو ۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر سے کہا کہ اندر داخل ہو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے ۔ پس سیدنا ابوبکر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے ، بیٹھ گئے ۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی ( عامر ) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا ، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں ( یعنی ) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا ۔ اتنے میں ( کیا دیکھتا ہوں کہ ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب ۔ میں نے کہا ٹھہر جا ۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو ۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے ۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے ۔ پھر میں لوٹ آیا اور ( دروازے پر ) بیٹھ گیا ۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی ( عامر ) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا ۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا ۔ میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان ۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا ۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے ۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی ۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے ، پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے ۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی ۔ ( ویسا ہی ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی ، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2403.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6215
حدثنيه أبو بكر بن إسحاق، حدثنا سعيد بن عفير، حدثني سليمان بن بلال، حدثني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، سمعت سعيد بن المسيب، يقول حدثني أبو موسى الأشعري، ها هنا - وأشار لي سليمان إلى مجلس سعيد ناحية المقصورة - قال أبو موسى خرجت أريد رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدته قد سلك في الأموال فتبعته فوجدته قد دخل مالا فجلس في القف وكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر ‏.‏ وساق الحديث بمعنى حديث يحيى بن حسان ولم يذكر قول سعيد فأولتها قبورهم ‏.‏
سعید بن عفیر نے کہا : مجھے سلیمان بن بلال نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے سعید بن مسیب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ ۔ اور سلیمان نے سعید بن مسیب کے بیٹھنے کی جگہ کی جانب اشارہ کیا ۔ حدیث سنائی ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ ( لوگوں کے ) باغات کے اندر سے گزر کرگئے ہیں ۔ میں آپ کے پیچھے ہولیا ، میں نے دیکھا کہ آپ ایک باغ کے اندر تشریف لے گئے ہیں ، کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے ہیں اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر انھیں کنویں میں لٹکا لیا ہے ، پھر یحییٰ بن حسان کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی اور ( اس میں ) حضرت سعید بن مسیب کا قول : " میں نے ان کی قبریں مراد لیں " بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2403.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6216
حدثنا حسن بن علي الحلواني، وأبو بكر بن إسحاق قالا حدثنا سعيد بن أبي، مريم حدثنا محمد بن جعفر بن أبي كثير، أخبرني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن سعيد، بن المسيب عن أبي موسى الأشعري، قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما إلى حائط بالمدينة لحاجته فخرجت في إثره ‏.‏ واقتص الحديث بمعنى حديث سليمان بن بلال وذكر في الحديث قال ابن المسيب ‏.‏ فتأولت ذلك قبورهم اجتمعت ها هنا وانفرد عثمان ‏.‏
محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے سعید بن مسیب سے خبر دی ، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضرورت کے لئے مدینہ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے ، میں آپ کے پیچھے پیچھے نکل پڑا ، اور سلیمان بن بلال کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ بیا ن کیاکہ ابن مسیب نےکہا : میں نے ان سے ان کی قبریں مراد لیں ( جو ) یہاں اکھٹی ہیں اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی الگ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2403.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6217
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، وأبو جعفر محمد بن الصباح وعبيد الله القواريري وسريج بن يونس كلهم عن يوسف الماجشون، - واللفظ لابن الصباح - حدثنا يوسف، أبو سلمة الماجشون حدثنا محمد بن المنكدر، عن سعيد بن المسيب، عن عامر بن سعد، بن أبي وقاص عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي ‏ "‏ أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏"‏ ‏.‏ قال سعيد فأحببت أن أشافه بها سعدا فلقيت سعدا فحدثته بما حدثني عامر فقال أنا سمعته ‏.‏ فقلت آنت سمعته فوضع إصبعيه على أذنيه فقال نعم وإلا فاستكتا ‏.‏
سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ، انھوں نے ا پنے والد سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےفرمایا : "" تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہے جو ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ "" سعید ( بن مسیب ) نے کہا : میں نے چاہا کہ یہ بات میں خود حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منہ سے سنوں تو میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر ملا اور جو حدیث مجھے عامر نے سنائی تھی ، ان کے سامنے بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ) یہ بات سنی تھی ، میں نے کہا : آپ نے خود سنی تھی؟کہا : تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے دونوں کانوں پر رکھیں اورکہا : ہاں ، ورنہ ( اگر یہ بات نہ سنی ہو ) تو ان دونوں کو سنائی نہ دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2404.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6218
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا غندر، عن شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مصعب بن سعد بن، أبي وقاص عن سعد بن أبي وقاص، قال خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب في غزوة تبوك فقال يا رسول الله تخلفني في النساء والصبيان فقال ‏ "‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر ( غندر ) نے کہا : ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ، انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ( مدینہ میں ) خلیفہ بنایا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا ، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2404.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6219
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، في هذا الإسناد ‏.‏
معاذ نے کہا : ہمیں شعبہ نے اسی سند سے حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2404.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6220
حدثنا قتيبة بن سعيد، ومحمد بن عباد، - وتقاربا في اللفظ - قالا حدثنا حاتم، - وهو ابن إسماعيل - عن بكير بن مسمار، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن أحب إلى من حمر النعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول له خلفه في بعض مغازيه فقال له علي يا رسول الله خلفتني مع النساء والصبيان فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدي ‏"‏ ‏.‏ وسمعته يقول يوم خيبر ‏"‏ لأعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال فتطاولنا لها فقال ‏"‏ ادعوا لي عليا ‏"‏ ‏.‏ فأتي به أرمد فبصق في عينه ودفع الراية إليه ففتح الله عليه ولما نزلت هذه الآية ‏{‏ فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم‏}‏ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال ‏"‏ اللهم هؤلاء أهلي ‏"‏ ‏.‏
بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا ، کہا : آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب ( حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو براکہیں ۔ انھوں نے جواب دیا : جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ( حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے کہی تھیں ، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا ۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا ، آپ ان سے ( اس وقت ) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جارہے تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا تھا : اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں پیچھے چھوڑ کرجارہے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جوحضرت ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا ، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے ۔ " اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سناتھا : " اب میں جھنڈ ا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ " کہا : پھر ہم نے اس بات ( مصداق جاننے ) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر ( ہرطرف ) دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " علی کو میرے پاس بلاؤ ۔ " انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا ۔ آپ نےان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اورجھنڈا انھیں عطافرمادیا ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کردیا ۔ اورجب یہ آیت اتری : " ( تو آپ کہہ دیں : آؤ ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلالیں ۔ " تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا : " اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2404.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6221
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا غندر، عن شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، سمعت إبراهيم، بن سعد عن سعد، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي ‏ "‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ‏"‏ ‏.‏
ابراہیم بن سعد نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روای کی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : " کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسےہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:2404.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6222
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - يعني ابن عبد الرحمن القاري - عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم خيبر ‏"‏ لأعطين هذه الراية رجلا يحب الله ورسوله يفتح الله على يديه ‏"‏ ‏.‏ قال عمر بن الخطاب ما أحببت الإمارة إلا يومئذ - قال - فتساورت لها رجاء أن أدعى لها - قال - فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب فأعطاه إياها وقال ‏"‏ امش ولا تلتفت حتى يفتح الله عليك ‏"‏ ‏.‏ قال فسار علي شيئا ثم وقف ولم يلتفت فصرخ يا رسول الله على ماذا أقاتل الناس قال ‏"‏ قاتلهم حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فإذا فعلوا ذلك فقد منعوا منك دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ‏"‏ ‏.‏
سہیل کے والد ( ابو صالح ) نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کےدن فرمایا : " کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے ، اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا ۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے کہا : اس ایک دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی ، کہا : میں نے اس امید کہ مجھے اس کے لئے بلایا جائے گا اپنی گردن اونچی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا ، ان کو وہ جھنڈا دیا اور فرمایا : " جاؤ ، پیچھےمڑ کر نہ دیکھو ، یہاں تک کہ اللہ تمھیں فتح عطا کردے ۔ " کہا : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دور گئے ، پھر ٹھر گئے ، پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور بلند آواز سے پکار کر کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کس بات پر لوگوں سے جنگ کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اگرانھوں نے ایسا کرلیا توانھوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال تم سے محفوظ کرلیے ، سوائے یہ کہ اسی ( شہادت ) کاحق ہو اوران کاحساب اللہ پر ہوگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2405

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6223
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن أبي حازم - عن أبي، حازم عن سهل، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، - واللفظ هذا - حدثنا يعقوب، - يعني ابن عبد الرحمن - عن أبي حازم، أخبرني سهل بن سعد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم خيبر ‏"‏ لأعطين هذه الراية رجلا يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها - قال - فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجون أن يعطاها فقال ‏"‏ أين علي بن أبي طالب ‏"‏ ‏.‏ فقالوا هو يا رسول الله يشتكي عينيه - قال - فأرسلوا إليه فأتي به فبصق رسول الله صلى الله عليه وسلم في عينيه ودعا له فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع فأعطاه الراية فقال علي يا رسول الله أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا ‏.‏ فقال ‏"‏ انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى الإسلام وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من أن يكون لك حمر النعم ‏"‏ ‏.‏
ابوحازم نے کہا : مجھے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے ۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں ۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا ۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ( مسلمان ) ہو جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا ، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے ، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے ۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2406

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6224
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم، - يعني ابن إسماعيل - عن يزيد بن أبي، عبيد عن سلمة بن الأكوع، قال كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر وكان رمدا فقال أنا أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فخرج علي فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لأعطين الراية - أو ليأخذن بالراية - غدا رجل يحبه الله ورسوله أو قال يحب الله ورسوله يفتح الله عليه ‏"‏ ‏.‏ فإذا نحن بعلي وما نرجوه فقالوا هذا علي ‏.‏ فأعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم الراية ففتح الله عليه ‏.‏
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : غزوہ خیبر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے ، انھیں آشوب چشم تھا ۔ پھر انھوں نے کہا : میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گیا!چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( وہاں سے ) نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے ، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کل میں جھنڈا اس کودوں گایا ( فرمایا : ) کل جھنڈا وہ شخص لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت ہے یا فرمایا : جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتاہے ، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح دے گا ۔ " پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا اور ہمیں اس کے بارے میں کوئی توقع نہیں تھی تو صحابہ رضوان للہ عنھم اجمعین نے کہا : یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا کردیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پرفتح عطا کردی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2407

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6225
حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعا عن ابن علية، قال زهير حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال انطلقت أنا وحصين، بن سبرة وعمر بن مسلم إلى زيد بن أرقم فلما جلسنا إليه قال له حصين لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعت حديثه وغزوت معه وصليت خلفه لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - يا ابن أخي والله لقد كبرت سني وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما حدثتكم فاقبلوا وما لا فلا تكلفونيه ‏.‏ ثم قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال ‏"‏ أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به ‏"‏ ‏.‏ فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال ‏"‏ وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي ‏"‏ ‏.‏ فقال له حصين ومن أهل بيته يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته قال نساؤه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده ‏.‏ قال ومن هم قال هم آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس ‏.‏ قال كل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم ‏.‏
زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم ( ابن علیہ ) سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے ابوحیان نے حدیث بیان کی ، کہا : یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں ، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم ( تینوں ) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے ۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا : زید!آ پ کو خیر کثیرحاصل ہوئی ، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ، ان کی بات سنی ، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں ۔ زید!آپ کوخیر کثیرحاصل ہوئی ۔ زید!ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ( کوئی ) حدیث سنایئے ۔ ( حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : بھتیجے!میری عمر زیادہ ہوگی ، زمانہ بیت گیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں ، اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو ۔ اور جو ( بیان ) نہ کرسکوں تو اس کا مجھےمکلف نہ ٹھہراؤ ۔ پھر کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی ۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں ، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا ( موت کا فرشتہ ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں ۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے ۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو ۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی ۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں ۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں ، تین بار فرمایا ۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے ۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی ، عقیل ، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں ۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2408.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6226
وحدثنا محمد بن بكار بن الريان، حدثنا حسان، - يعني ابن إبراهيم - عن سعيد بن مسروق، عن يزيد بن حيان، عن زيد بن أرقم، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وساق الحديث بنحوه بمعنى حديث زهير ‏.‏
سعید بن مسروق نے یزید بن حیان سے ، انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، نیز ( سعید بن مسروق نے ) ان ( ابوحیان ) کی حدیث کے مانند زہیر کی حدیث کے ہم معنی روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2408.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6227
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن فضيل، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، كلاهما عن أبي حيان، بهذا الإسناد ‏.‏ نحو حديث إسماعيل وزاد في حديث جرير ‏ "‏ كتاب الله فيه الهدى والنور من استمسك به وأخذ به كان على الهدى ومن أخطأه ضل ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں محمد بن فضیل نے حدیث بیان کی ، اسحاق بن ابراہیم نے کہا : ہمیں جریر نے خبر دی ، ان دونوں ( محمد بن فضیل اورجریر ) نے ابوحیان سے اسی سند کےساتھ اسماعیل کی حدیث کے مانند بیان کیا اور ( اسحاق بن ابراہیم نے ) جریر کی روایت میں مزید یہ بیان کیا : " اللہ کی کتاب جس میں ہدایت اورنور ہے ، جس نے اس کو مضبوطی سےتھام لیا اور اسے لےلیا وہ ہدایت پر ہوگا اور جو اس سے ہٹ گیا وہ گمراہ ہوجائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2408.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6228
حدثنا محمد بن بكار بن الريان، حدثنا حسان، - يعني ابن إبراهيم - عن سعيد، - وهو ابن مسروق - عن يزيد بن حيان، عن زيد بن أرقم، قال دخلنا عليه فقلنا له لقد رأيت خيرا ‏.‏ لقد صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وصليت خلفه ‏.‏ وساق الحديث بنحو حديث أبي حيان غير أنه قال ‏ "‏ ألا وإني تارك فيكم ثقلين أحدهما كتاب الله عز وجل هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على ضلالة ‏"‏ ‏.‏ وفيه فقلنا من أهل بيته نساؤه قال لا وايم الله إن المرأة تكون مع الرجل العصر من الدهر ثم يطلقها فترجع إلى أبيها وقومها أهل بيته أصله وعصبته الذين حرموا الصدقة بعده ‏.‏
سعید بن مسروق نے یزید بن حیان سے ، انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہم ان ( زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس آئے اور اُن سے عرض کی : آپ نے بہت خیر دیکھی ہے ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں ہیں ، اور پھر ابو حیان کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی ، مگرانھوں نے ( اس طرح ) کہا : ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ) " دیکھو ، میں تمھارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ ایک اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کی رسی ہے جس نے ( اسے تھام کر ) اس کا اتباع کیا وہ سیدھی راہ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا ۔ " اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا : آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ ( صرف ) آپ کی ازواج؟انھوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم!عورت اپنے مرد کے ساتھ زمانے کا بڑا حصہ رہتی ہے ، پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کی طرف واپس چلی جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اہل بیت وہ ( بھی ) ہیں جو آپ کے خاندان سے ہیں ، آپ کے وہ ددھیال رشتہ دار جن پر صدقہ حرام ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2408.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6229
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن أبي حازم - عن أبي، حازم عن سهل بن سعد، قال استعمل على المدينة رجل من آل مروان - قال - فدعا سهل بن سعد فأمره أن يشتم عليا - قال - فأبى سهل فقال له أما إذ أبيت فقل لعن الله أبا التراب ‏.‏ فقال سهل ما كان لعلي اسم أحب إليه من أبي التراب وإن كان ليفرح إذا دعي بها ‏.‏ فقال له أخبرنا عن قصته لم سمي أبا تراب قال جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت فقال ‏"‏ أين ابن عمك ‏"‏ ‏.‏ فقالت كان بيني وبينه شىء فغاضبني فخرج فلم يقل عندي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان ‏"‏ انظر أين هو ‏"‏ ‏.‏ فجاء فقال يا رسول الله هو في المسجد راقد ‏.‏ فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه فأصابه تراب فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه ويقول ‏"‏ قم أبا التراب قم أبا التراب ‏"‏ ‏.‏
ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے ۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور ( ان کے بدن سے ) مٹی لگ گئی تھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ ۔ اے ابوتراب! اٹھ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2409

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6230
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان بن بلال، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن عائشة، قالت أرق رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فقال ليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة ‏.‏ قالت وسمعنا صوت السلاح فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من هذا ‏"‏ ‏.‏ قال سعد بن أبي وقاص يا رسول الله جئت أحرسك ‏.‏ قالت عائشة فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سمعت غطيطه ‏.‏
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے ، انھوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو نہ سکے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" کاش! میرے ساتھیوں میں سے کوئی صالح شخص آج پہرہ دے ۔ "" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آوازسنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" یہ کون ہے؟حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2410.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6231
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، أن عائشة، قالت سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم مقدمه المدينة ليلة فقال ‏"‏ ليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة ‏"‏ ‏.‏ قالت فبينا نحن كذلك سمعنا خشخشة سلاح فقال ‏"‏ من هذا ‏"‏ ‏.‏ قال سعد بن أبي وقاص ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما جاء بك ‏"‏ ‏.‏ قال وقع في نفسي خوف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت أحرسه ‏.‏ فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم نام ‏.‏ وفي رواية ابن رمح فقلنا من هذا
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے حدیث بیان کی ، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے ، انھوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : کہ ایک رات مدینہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2410.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6232
حدثناه محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، سمعت يحيى بن سعيد، يقول سمعت عبد الله بن عامر بن ربيعة، يقول قالت عائشة أرق رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة ‏.‏ بمثل حديث سليمان بن بلال ‏.‏
عبد الواہاب نے کہا : میں نے یحییٰ بن سعید کو کہتے ہو ئے سنا کہا : میں نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونہ سکے ۔ ( آگے ) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ( ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2410.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6233
حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثنا إبراهيم، - يعني ابن سعد - عن أبيه، عن عبد الله بن شداد، قال سمعت عليا، يقول ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أبويه لأحد غير سعد بن مالك فإنه جعل يقول له يوم أحد ‏ "‏ ارم فداك أبي وأمي ‏"‏ ‏.‏
منصور بن ابی مزاحم نے کہا : ہمیں ابرا ہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عبد اللہ بن شداد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہ حضرت سعد بن مالک ( سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے اکٹھا اپنے ماں باپ کا نام نہیں لیا ۔ جنگ اُحد کے دن آپ بار بار ان سے کہہ رہے تھے ۔ " تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2411.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6234
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ح حدثنا وكيع، ح وحدثنا أبو كريب، وإسحاق الحنظلي، عن محمد بن بشر، عن مسعر، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن مسعر، كلهم عن سعد بن إبراهيم، عن عبد الله بن شداد، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
شعبہ ، وکیع اور مسعر ، سب نے سعد بن ابرا ہیم سے ، انھوں نے عبد اللہ بن شدادسے ، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2411.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6235
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان، - يعني ابن بلال - عن يحيى، - وهو ابن سعيد - عن سعيد، عن سعد بن أبي وقاص، قال لقد جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم أبويه يوم أحد ‏.‏
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے انھوں نے سعید سے انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ۔ کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحد کے دن میرے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام نہیں لیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2412.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6236
حدثنا قتيبة بن سعيد، وابن، رمح عن الليث بن سعد، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، كلاهما عن يحيى بن سعيد، بهذا الإسناد ‏.‏
لیث بن سعد اور عبد الوہاب دونوں نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2412.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 66

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6237
حدثنا محمد بن عباد، حدثنا حاتم، - يعني ابن إسماعيل - عن بكير بن مسمار، عن عامر بن سعد، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم جمع له أبويه يوم أحد ‏.‏ قال كان رجل من المشركين قد أحرق المسلمين فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ارم فداك أبي وأمي ‏"‏ ‏.‏ قال فنزعت له بسهم ليس فيه نصل فأصبت جنبه فسقط فانكشفت عورته فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نظرت إلى نواجذه ‏.‏
عامر بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی ، کہ جنگ اُحد کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام لیا ۔ مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے کہا : " تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں ! " حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے اس کے لیے ( ترکش سے ) ایک تیر کھینچا ، اس کے پرَہی نہیں تھے ۔ میں نے وہ اس کے پہلو میں مارا تو وہ گر گیا اور اس کی شرمگاہ ( بھی ) کھل گئی تو ( اس کے اس طرح گرنے پر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ، یہاں تک کے مجھے آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلاکرہنسے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2412.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6238
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، قالا حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا زهير، حدثنا سماك بن حرب، حدثني مصعب بن سعد، عن أبيه، أنه نزلت فيه آيات من القرآن - قال - حلفت أم سعد أن لا تكلمه أبدا حتى يكفر بدينه ولا تأكل ولا تشرب ‏.‏ قالت زعمت أن الله وصاك بوالديك وأنا أمك وأنا آمرك بهذا ‏.‏ قال مكثت ثلاثا حتى غشي عليها من الجهد فقام ابن لها يقال له عمارة فسقاها فجعلت تدعو على سعد فأنزل الله عز وجل في القرآن هذه الآية ‏{‏ ووصينا الإنسان بوالديه حسنا‏}‏ ‏{‏ وإن جاهداك على أن تشرك بي‏}‏ وفيها ‏{‏ وصاحبهما في الدنيا معروفا‏}‏ قال وأصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم غنيمة عظيمة فإذا فيها سيف فأخذته فأتيت به الرسول صلى الله عليه وسلم فقلت نفلني هذا السيف فأنا من قد علمت حاله ‏.‏ فقال ‏"‏ رده من حيث أخذته ‏"‏ ‏.‏ فانطلقت حتى إذا أردت أن ألقيه في القبض لامتني نفسي فرجعت إليه فقلت أعطنيه ‏.‏ قال فشد لي صوته ‏"‏ رده من حيث أخذته ‏"‏ ‏.‏ قال فأنزل الله عز وجل ‏{‏ يسألونك عن الأنفال‏}‏ قال ومرضت فأرسلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأتاني فقلت دعني أقسم مالي حيث شئت ‏.‏ قال فأبى ‏.‏ قلت فالنصف ‏.‏ قال فأبى ‏.‏ قلت فالثلث ‏.‏ قال فسكت فكان بعد الثلث جائزا ‏.‏ قال وأتيت على نفر من الأنصار والمهاجرين فقالوا تعال نطعمك ونسقيك خمرا ‏.‏ وذلك قبل أن تحرم الخمر - قال - فأتيتهم في حش - والحش البستان - فإذا رأس جزور مشوي عندهم وزق من خمر - قال - فأكلت وشربت معهم - قال - فذكرت الأنصار والمهاجرون عندهم فقلت المهاجرون خير من الأنصار - قال - فأخذ رجل أحد لحيى الرأس فضربني به فجرح بأنفي فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته فأنزل الله عز وجل في - يعني نفسه - شأن الخمر ‏{‏ إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان‏}‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا : ہمیں حسن بن موسیٰ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں زہیر نےسماک بن حرب سے حدیث بیان کی کہ قرآن مجید میں ان کے حوالے سے کئی آیات نازل ہوئیں کہا : ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک ان سے بات نہیں کریں گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین ( اسلام ) سے کفر کریں اور نہ ہی کچھ کھا ئیں گی اور نہ پئیں گی ان کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کی بات مانو اور میں تمھا ری ماں ہوں لہٰذا میں تمھیں اس دین کو چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہوں ۔ کہا : وہ تین دن اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئیں تو ان کا بیٹا جو عمارہ کہلا تا تھا کھڑا ہوا اور انھیں پانی پلا یا ۔ ( ہوش میں آکر ) انھوں نے سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بددعائیں دینی شروع کر دیں تو اللہ تعا لیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل فر ما ئی : " ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ دونوں یہ کو شش کریں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہراؤ جس بات کو تم ( درست ہی ) نہیں جانتے تو تم ان کی اطاعت نہ کرواور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو ۔ " کہا : اور ( دوسری آیت اس طرح اتری کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی ۔ اس میں ایک تلوار بھی تھی ۔ میں نے وہ اٹھا لی اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور عرض کی : ( میرےحصے کے علاوہ ) یہ تلوارمزید مجھے دے دیں ، میری حالت کا تو آپ کو علم ہے ہی آپ نے فر ما یا : " اسے وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے اٹھائی ہے ۔ " میں چلا گیا جب میں نے اسے مقبوضہ غنائم میں واپس پھینکنا چا ہا تو میرے دل نے مجھے ملا مت کی ( کہ واپس کیوں کر رہے ہو؟ ) تو میں آپ کے پاس واپس آگیا ۔ میں نے کہا : یہ مجھے عطا کر دیجئے ، آپ نے میرے لیے اپنی آواز کو سخت کیا اور فر ما یا : " جہاں سے اٹھا ئی ہے وہیں واپس رکھ دو ۔ " کہا : اس پر اللہ عزوجل نے یہ نازل فر ما یا : " یہ لو گ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ " کہا : ( ایک موقع نزول وحی کا یہ تھا کہ ) میں بیمار ہو گیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا ۔ آپ میرے پاس تشریف لے آئے ۔ میں نے کہا : مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا ( سارا ) مال جہاں چاہوں تقسیم کر دوں ۔ کہا : آپ نے انکا ر فر مادیا ۔ میں نے کہا : تو آدھا؟ آپ اس پر بھی نہ مانے ، میں نے کہا : تو پھر تیسرا حصہ ؟اس پر آپ خاموش ہوگئے ۔ اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جا ئز ہو گئی ۔ کہا : اور ( ایک اور موقع بھی آیا ) میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس آیا انھوں نے کہا : آؤ ہم تمھیں کھانا کھلا ئیں اور شراب پلا ئیں اور یہ شراب حرام کیے جا نے سے پہلے کی بات ہے ۔ کہا : میں کھجوروں کے ایک جھنڈکے درمیان خالی جگہ میں ان کے پاس پہنچا دیکھا تو اونٹ کا ایک بھنا ہوا سران کے پاس تھا اور شراب کی ایک مشک تھی ۔ میں نے ان کے ساتھ کھا یا ، شراب پی ، پھر ان کے ہاں انصار اور مہاجرین کا ذکر آگیا ۔ میں نے ( شراب کی مستی میں ) کہہ دیا : مہاجرین انصار سے بہتر ہیں تو ایک آدمی نے ( اونٹ کا ) ایک جبڑا پکڑا ، اس سے مجھے ضرب لگا ئی اور میری ناک زخمی کردی ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو یہ ( ساری ) بات بتا ئی تو اللہ تعا لیٰ نے میرے بارے میں ۔ ۔ ۔ ان کی مراد اپنے آپ سے تھی ۔ ۔ ۔ شراب کے متعلق ( یہ آیت ) نازل فر ما ئی : " بے شک شراب ، جوا بت اور پانسے شیطان کے گندے کام ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1748.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 68

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6239
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سماك بن حرب، عن مصعب بن سعد، عن أبيه، أنه قال أنزلت في أربع آيات ‏.‏ وساق الحديث بمعنى حديث زهير عن سماك وزاد في حديث شعبة قال فكانوا إذا أرادوا أن يطعموها شجروا فاها بعصا ثم أوجروها ‏.‏ وفي حديثه أيضا فضرب به أنف سعد ففزره وكان أنف سعد مفزورا ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مصعب بن سعد سے ، انھوں نے اپنے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میرے بارے میں چار آیات نازل ہو ئیں پھر زبیر سے سماک کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور شعبہ کی حدیث میں ( محمد بن جعفر نے ) مزید یہ بیان کیا کہ لوگ جب میری ماں کو کھانا کھلا نا چاہتے تو لکڑی سے اس کا منہ کھولتے ، پھر اس میں کھا نا ڈالتے ، اور انھی کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناک پر ہڈی ماری اور ان کی ناک پھاڑ دی ، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناک پھٹی ہوئی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1748.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 69

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6240
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن المقدام بن شريح، عن أبيه، عن سعد، في نزلت ‏{‏ ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي‏}‏ قال نزلت في ستة أنا وابن مسعود منهم وكان المشركون قالوا له تدني هؤلاء ‏.‏
سفیان نے مقدام بن شریح سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ( آیت ) " اور ان ( مسکین مو منوں ) کو خود سے دورنہ کریں جو صبح و شام اپنے رب کو پکا رتے ہیں " کے بارے میں روایت کی ، کہا : یہ چھ لو گوں کے بارے میں نازل ہو ئی ۔ میں اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان میں شامل تھے مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا ۔ ان لوگوں کو اپنے قریب نہ کریں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2413.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 70

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6241
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن عبد الله الأسدي، عن إسرائيل، عن المقدام بن شريح، عن أبيه، عن سعد، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ستة نفر فقال المشركون للنبي صلى الله عليه وسلم اطرد هؤلاء لا يجترئون علينا ‏.‏ قال وكنت أنا وابن مسعود ورجل من هذيل وبلال ورجلان لست أسميهما فوقع في نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقع فحدث نفسه فأنزل الله عز وجل ‏{‏ ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه‏}‏
اسرائیل نے مقدام بن شریح سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت کی ، کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم چھ شخص تھے تو مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : " ان لوگوں کو بھگا دیجیے ، یہ ہمارے سامنے آنے کی جرات نہ کریں ۔ ( حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : ( یہ لوگ تھے ) میں ابن مسعود ہذیل کا ایک شخص بلال اور دواور شخص جن کا نام میں نہیں لو ں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا سوآیا ، آپ نے اپنے دل میں کچھ کہا : بھی ، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی : " اور ان لوگوں کو دورنہ کیجیے جو صبح ، شام اپنے رب کو پکا رتے ہیں صرف اس کی رضا چاہتے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2413.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 71

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6242
حدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، وحامد بن عمر البكراوي، ومحمد بن عبد الأعلى، قالوا حدثنا المعتمر، - وهو ابن سليمان - قال سمعت أبي، عن أبي عثمان، قال لم يبق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض تلك الأيام التي قاتل فيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير طلحة وسعد ‏.‏ عن حديثهما ‏.‏
معتمر کے والد سلیمان نے کہا : میں نے حضرت ابو عثمان سے سنا ، کہا : ان ایام میں سے ایک میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کیا تو جنگ کے دوران میں آپ کے ساتھ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کو ئی باقی نہیں رہا تھا ۔ ( یہ میں ) ان دونوں کی بتا ئی ہو ئی بات سے ( بیان کر رہا ہوںَ)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2414

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 72

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6243
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، بن عبد الله قال سمعته يقول ندب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس يوم الخندق فانتدب الزبير ثم ندبهم فانتدب الزبير ثم ندبهم فانتدب الزبير فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي حواري وحواري الزبير ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے محمد بن منکدر سے انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دن لوگوں کو پکارا ۔ ( کو ن ہے جو ہمیں دشمنوں کے اندر کی خبر دے گا ۔ ؟ ) تو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے آئے ( کہا : میں لا ؤں گا ) پھر آپ نے ان کو ( دوسری بار ) پکا را تو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی آگے بڑھے پھر ان کو ( تیسری بار ) پکا را تو بھی زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی آگے بڑھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ہر نبی کا حواری ( خاص مددگار ) ہو تا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2415.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 73

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6244
حدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، عن هشام بن عروة، ح وحدثنا أبو كريب، وإسحاق بن إبراهيم جميعا عن وكيع، حدثنا سفيان، كلاهما عن محمد بن المنكدر، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث ابن عيينة ‏.‏
ہشام بن عروہ اور سفیان بن عیینہ نے محمد بن منکدر سے ، انھوں نے جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عیینہ کی حدیث کے ہم معنی روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2415.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 74

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6245
حدثنا إسماعيل بن الخليل، وسويد بن سعيد، كلاهما عن ابن مسهر، قال إسماعيل أخبرنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، قال كنت أنا وعمر بن أبي سلمة، يوم الخندق مع النسوة في أطم حسان فكان يطأطئ لي مرة فأنظر وأطأطئ له مرة فينظر فكنت أعرف أبي إذا مر على فرسه في السلاح إلى بني قريظة ‏.‏ قال وأخبرني عبد الله بن عروة عن عبد الله بن الزبير قال فذكرت ذلك لأبي فقال ورأيتني يا بنى قلت نعم ‏.‏ قال أما والله لقد جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ أبويه فقال ‏ "‏ فداك أبي وأمي ‏"‏ ‏.‏
علی بن مسہر نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : میں اور حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلعے میں تھے کبھی وہ میرے لیے کمر جھکا کر کھڑے ہو جا تے اور میں ( ان کی کمر پر کھڑا ہو کر مسلمانوں کے لشکر کو ) دیکھ لیتا کبھی میں کمر جھکا کر کھڑا ہو جا تا اور وہ دیکھ لیتے ۔ میں نے اس وقت اپنے والد کو پہچان لیا تھا جب وہ اپنے گھوڑے پر ( سوار ہو کر ) بنو قریظہ کی طرف جا نے کے لیے گزرے ۔ ( ہشام بن عروہ نے ) کہا : مجھے عبد اللہ بن عروہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ( روایت کرتے ہو ئے ) بتا یا کہا : میں نے یہ بات اپنے والد کو بتا ئی تو انھوں نے کہا : میرے بیٹے !تم نے مجھے دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہاں انھوں نے کہا : اللہ کی قسم! اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہو ئے کہا : تھا " میرے ماں باپ تم پر قربان

صحيح مسلم حدیث نمبر:2416.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 75

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6246
وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عبد الله بن الزبير، قال لما كان يوم الخندق كنت أنا وعمر بن أبي سلمة في الأطم الذي فيه النسوة يعني نسوة النبي صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بمعنى حديث ابن مسهر في هذا الإسناد ولم يذكر عبد الله بن عروة في الحديث ولكن أدرج القصة في حديث هشام عن أبيه عن ابن الزبير ‏.‏
ابو اسامہ نے ہشام سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : خندق کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قلعے میں تھے جس میں عورتیں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تھیں اس کے بعد ابن مسہر کی اسی سند کے ساتھ روایت کردہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور حدیث ( کی سند ) میں عبد اللہ بن عروہ کا ذکر نہیں کیا لیکن ( ان کا بیان کیا ہوا سارا ) قصہ اس روایت میں شامل کردیا جو ہشام نے اپنے والد سے اور انھوں نے ( عبد اللہ ) ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2416.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 76

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6247
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على حراء هو وأبو بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير فتحركت الصخرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اهدأ فما عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد ‏"‏ ‏.‏
عبد العزیزبن محمد نے سہیل ( بن ابی صالح ) سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو چٹان ( جس پر یہ سب تھے ) ہلنے لگی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ٹھہرجاؤ ، تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ اور کو ئی نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2417.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 77

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6248
حدثنا عبيد الله بن محمد بن يزيد بن خنيس، وأحمد بن يوسف الأزدي، قالا حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، حدثني سليمان بن بلال، عن يحيى بن سعيد، عن سهيل، بن أبي صالح عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على جبل حراء فتحرك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اسكن حراء فما عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد ‏"‏ ‏.‏ وعليه النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد بن أبي وقاص رضى الله عنهم ‏.‏
یحییٰ بن سعید نے سہیل بن ابی صالح سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ حراء پر تھے ۔ وہ ہلنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ٹھہرجا ، تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے سوااور کو ئی نہیں ۔ " اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ( آپ کے ساتھ ) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2417.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 78

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6249
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا ابن نمير، وعبدة، قالا حدثنا هشام، عن أبيه، قال قالت لي عائشة أبواك والله من الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح ‏.‏
(ابن نمیر اور عبدہ نے کہا : ہمیں ہشام نے اپنے والد عروہ ) سے حدیث بیان کی کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے فر ما یا : اللہ کی قسم! تمھا رے دو والد ( والد زبیراور نانا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ( اُحد میں ) زخم کھا لینے کے بعد ( بھی ) اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلا وے پر لبیک کہا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2418.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 79

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6250
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا هشام، بهذا الإسناد وزاد تعني أبا بكر والزبير ‏.‏
ابو اسامہ نے کہا : ہمیں ہشام نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا کہ وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد لے رہی تھیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2418.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 80

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6251
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا وكيع، حدثنا إسماعيل، عن البهي، عن عروة، قال قالت لي عائشة كان أبواك من الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح ‏.‏
بہی نے عروہ سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے فرمایا : " تمھا رے دونوں والد ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے زخم کھا نے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلا وے پر لبیک کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2418.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 81

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6252
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل ابن علية، عن خالد، ح وحدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل ابن علية، أخبرنا خالد، عن أبي قلابة، قال قال أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن لكل أمة أمينا وإن أميننا أيتها الأمة أبو عبيدة بن الجراح ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ہر امت کا ایک امین ہو تا ہے اور اے امت! ہمارے امین ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2419.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 82

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6253
حدثني عمرو الناقد، حدثنا عفان، حدثنا حماد، - وهو ابن سلمة - عن ثابت، عن أنس، أن أهل اليمن، قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا ابعث معنا رجلا يعلمنا السنة والإسلام ‏.‏ قال فأخذ بيد أبي عبيدة فقال ‏ "‏ هذا أمين هذه الأمة ‏"‏ ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ یمن کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، انھوں نے کہا : ہمارے ساتھ ایک شخص بھیجیے جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے ( حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فر ما یا : یہ اس امت کے امین ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2419.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 83

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6254
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، قال سمعت أبا إسحاق، يحدث عن صلة بن زفر، عن حذيفة، قال جاء أهل نجران إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله ابعث إلينا رجلا أمينا ‏.‏ فقال ‏ "‏ لأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين حق أمين ‏"‏ ‏.‏ قال فاستشرف لها الناس - قال - فبعث أبا عبيدة بن الجراح ‏.‏
شعبہ نے کہا : میں نے ابو اسحٰق کو صلہ بن زفر سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا ، انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اہل نجران آئے اور کہنے لگے ۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس ایک امین شخص بھیجیے ۔ آپ نے فر ما یا : میں تمھا رے پاس ایسا شخص بھیجوں گا جو ایسا امین ہے جس طرح امین ہو نے کا حق ہے ۔ لو گوں نے اس بات پراپنی نگا ہیں اٹھا ئیں ( کہ اس کا مصداق کو ن ہے ) کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ فرما یا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2420.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 84

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6255
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا أبو داود الحفري، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
سفیان نے ابو اسحٰق سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2420.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 85

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6256
حدثني أحمد بن حنبل، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثني عبيد الله بن أبي يزيد، عن نافع بن جبير، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لحسن ‏ "‏ اللهم إني أحبه فأحبه وأحبب من يحبه ‏"‏ ‏.‏
احمد بن حنبل نے کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے عبیداللہ بن ابی یزید نے نافع بن جبیر سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کی کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا : " اے اللہ! میں اس سے محبت کرتاہوں ، تو ( بھی ) اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے ، اس سے ( بھی ) محبت فرما ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2421.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 86

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6257
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن عبيد الله بن أبي يزيد، عن نافع بن جبير، بن مطعم عن أبي هريرة، قال خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في طائفة من النهار لا يكلمني ولا أكلمه حتى جاء سوق بني قينقاع ثم انصرف حتى أتى خباء فاطمة فقال ‏"‏ أثم لكع أثم لكع ‏"‏ ‏.‏ يعني حسنا فظننا أنه إنما تحبسه أمه لأن تغسله وتلبسه سخابا فلم يلبث أن جاء يسعى حتى اعتنق كل واحد منهما صاحبه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم إني أحبه فأحبه وأحبب من يحبه ‏"‏ ‏.‏
ابن ابی عمر نے کہا : ہمیں سفیان نے عبیداللہ بن ابی یزید سے ، انھوں نے نافع بن جبیر بن معطم سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا ، کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا ( یعنی خاموش چلے جاتے تھے ) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے؟ بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا پوچھ رہے تھے ۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2421.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 87

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6258
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عدي، - وهو ابن ثابت - حدثنا البراء بن عازب، قال رأيت الحسن بن علي على عاتق النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏ "‏ اللهم إني أحبه فأحبه ‏"‏ ‏.‏
عبیداللہ کے والد معاذ نے کہا : ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : ہمیں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر دیکھا ، اور آپ فرمارہے تھے : " اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2422.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 88

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6259
حدثنا محمد بن بشار، وأبو بكر بن نافع قال ابن نافع حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن عدي، - وهو ابن ثابت - عن البراء، قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه وهو يقول ‏ "‏ اللهم إني أحبه فأحبه ‏"‏ ‏.‏
۔ ( محمد بن جعفر ) غندر نے کہا : ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھا رکھا تھا اور فرمارہے تھے : " اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت فرما ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2422.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 89

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6260
حدثني عبد الله بن الرومي اليمامي، وعباس بن عبد العظيم العنبري، قالا حدثنا النضر بن محمد، حدثنا عكرمة، - وهو ابن عمار - حدثنا إياس، عن أبيه، قال لقد قدت بنبي الله صلى الله عليه وسلم والحسن والحسين بغلته الشهباء حتى أدخلتهم حجرة النبي صلى الله عليه وسلم هذا قدامه وهذا خلفه ‏.‏
ہمیں ایاس نے اپنے والد سے حدیث سنائی ، کہا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حسن اور حسین رضوان للہ عنھم اجمعین کو آپ کے سفید خچر پر بٹھا کر اس کی باگ پکڑ کر چلا ، یہاں تک کہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں لے گیا ۔ یہ ( ایک بچہ ) آپ کے آگے بیٹھ گیا اور وہ ( دوسرا بچہ ) آپ کے پیچھے بیٹھ گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2423

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 90

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6261
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا محمد بن بشر، عن زكرياء، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، قالت قالت عائشة خرج النبي صلى الله عليه وسلم غداة وعليه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن علي فأدخله ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء علي فأدخله ثم قال ‏{‏ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا‏}‏
۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں ۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا ۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا ۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو ۔ ( الاحزاب : 33 ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2424

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 91

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6262
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن القاري، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أنه كان يقول ما كنا ندعو زيد بن حارثة إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن ‏{‏ ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله‏}‏ قال الشيخ أبو أحمد محمد بن عيسى أخبرنا أبو العباس السراج ومحمد بن عبد الله بن يوسف الدويري قالا حدثنا قتيبة بن سعيد بهذا الحديث ‏.‏
قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں یعقوب بن عبدالرحمان القاری نے موسیٰ بن عقبہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے سالم بن عبداللہ ( بن عمر ) سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ وہ کہا کرتے تھے : ہم زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اورکسی نام سے نہیں پکارتے تھے ، یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی؛ "" ان ( متنبیٰ ) کو ان کے اپنے باپوں کی نسبت سے پکارو ، اللہ کے نزدیک یہی زیادہ انصاف کی بات ہے ۔ "" ( اس کتاب کے ایک راوی ) شیخ ابو احمد محمد بن عیسیٰ ( نیشار پوری ) نے کہا : ہمیں ابو عباس سراج اور محمد بن عبداللہ بن یوسف دویری نے بیان کیا ، کہا : ہمیں بھی ( امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ) قتیبہ بن سعید نے یہ حدیث بیان کی ( یعنی اس کتاب کے راوی نے یہ حدیث امام مسلم کے علاوہ قتیبہ سے ان کے دو اور شاگردوں کے حوالے سے بھی سنی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2425.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 92

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6263
حدثني أحمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا وهيب، حدثنا موسى بن عقبة، حدثني سالم، عن عبد الله، بمثله ‏.‏
وہیب نے کہا : موسیٰ بن عقبہ نےہمیں حدیث بیان کی ، کہا : مجھے سالم نے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی سند کے مانند حدیث بیان کی ، ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2425.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 93

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6264
حدثنا يحيى بن يحيى، ويحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر قال يحيى بن يحيى أخبرنا وقال الآخرون، حدثنا - إسماعيل، - يعنون ابن جعفر - عن عبد الله بن دينار، أنه سمع ابن عمر، يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا وأمر عليهم أسامة بن زيد فطعن الناس في إمرته فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ إن تطعنوا في إمرته فقد كنتم تطعنون في إمرة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمرة وإن كان لمن أحب الناس إلى وإن هذا لمن أحب الناس إلى بعده ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے ، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اُسامہ بن زید کو اس کا امیر مقرر فرمایا ۔ کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( خطبہ دینے کے لئے ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : " تم نےاگر اس ( اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی امارت پر اعتراض کیا ہےتواس سے پہلے اس کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کرتے تھے ۔ اللہ کی قسم! وہ بھی امارت کا اہل تھا اور بلاشبہ میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور ا س کے بعد بلاشبہ یہ ( بھی ) میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2426.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 94

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6265
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن عمر، - يعني ابن حمزة - عن سالم، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر ‏ "‏ إن تطعنوا في إمارته - يريد أسامة بن زيد - فقد طعنتم في إمارة أبيه من قبله وايم الله إن كان لخليقا لها ‏.‏ وايم الله إن كان لأحب الناس إلى ‏.‏ وايم الله إن هذا لها لخليق - يريد أسامة بن زيد - وايم الله إن كان لأحبهم إلى من بعده فأوصيكم به فإنه من صالحيكم ‏"‏ ‏.‏
سالم نے اپنے والد ( حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ( اس وقت ) آپ منبر پر تھے : " اگر تم اسکی امارت پر اعتراض کررہے ہو آپ کی مراد حضرت اُسامہ بن زید سے تھی ۔ تو اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر ( بھی ) اعتراض کرچکے ہو ۔ اللہ کی قسم!اس کے بعد یہ بھی مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے ۔ میں تمھیں اس کے ساتھ ہر طرح کی اچھائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمھارے نیک ترین لوگوں میں سے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2426.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 95

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6266
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل ابن علية، عن حبيب بن الشهيد، عن عبد الله بن مليكة، قال عبد الله بن جعفر لابن الزبير أتذكر إذ تلقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا وأنت وابن عباس قال نعم فحملنا وتركك ‏.‏
اسماعیل بن علیہ نے حبیب بن شہید سے ، انھوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے روایت کی ، کہا : حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : تمھیں یاد ہے جب ہم ، میں ، تم اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تھے؟انھوں نے کہا : ہاں ، ( کہا : ) تو آپ نے ہمیں سوار کرلیا تھا اور ( جگہ نہ ہونے کی بناء پر ) تمھیں چھوڑ دیاتھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2427.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 96

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6267
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا أبو أسامة، عن حبيب بن الشهيد، بمثل حديث ابن علية وإسناده ‏.‏
ابو اسامہ نے حبیب بن شہید سے ابن علیہ کی حدیث کے مانند اور اسی کی سند سے حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2427.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 97

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6268
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة - واللفظ ليحيى - قال أبو بكر حدثنا وقال، يحيى أخبرنا أبو معاوية، عن عاصم الأحول، عن مورق العجلي، عن عبد، الله بن جعفر قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر تلقي بصبيان أهل بيته - قال - وإنه قدم من سفر فسبق بي إليه فحملني بين يديه ثم جيء بأحد ابنى فاطمة فأردفه خلفه - قال - فأدخلنا المدينة ثلاثة على دابة ‏.‏
ابو معاویہ نے عاصم احول سے ، انھوں نے مورق عجلی سے ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو ( باہر لے جاکر ) آپ سے ملایا جاتا ، ایک بار آپ سفر سے آئے ، مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے بٹھا لیا ۔ کہا : تو ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2428.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 98

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6269
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن عاصم، حدثني مورق، حدثني عبد الله بن جعفر، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر تلقي بنا - قال - فتلقي بي وبالحسن أو بالحسين - قال - فحمل أحدنا بين يديه والآخر خلفه حتى دخلنا المدينة ‏.‏
عبدالرحیم بن سلیمان نے عاصم سے روایت کی ، کہا : مجھے مورق عجلی نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی ، کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو ہمیں ( آپ کی محبت میں ) آگے لے جاکر آپ سے ملایا جاتا ، کہا : مجھے اور حسن یا حسین رضوان اللہ عنھم اجمعین کو آپ کے پاس آگے لے جایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ایک کو ا پنے آگے اور ایک کو اپنے پیچھے سوار کرلیا ، یہاں تک کہ ہم ( اسی طرح ) مدینہ میں داخل ہوئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2428.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 99

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6270
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا محمد بن عبد الله بن، أبي يعقوب عن الحسن بن سعد، مولى الحسن بن علي عن عبد الله بن جعفر، قال أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم خلفه فأسر إلى ��ديثا لا أحدث به أحدا من الناس ‏.‏
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام حسن بن سعد نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ، پھر مجھے راز داری سے ایک بات بتائی جو میں لوگوں میں سے کسی بھی شخص کو نہیں سناؤں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2429

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 100

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6271
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو أسامة ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، وابن، نمير ووكيع وأبو معاوية ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبدة بن سليمان، كلهم عن هشام بن عروة، واللفظ، حديث أبي أسامة ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، قال سمعت عبد الله بن جعفر، يقول سمعت عليا، بالكوفة يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ خير نسائها مريم بنت عمران وخير نسائها خديجة بنت خويلد ‏"‏ ‏.‏ قال أبو كريب وأشار وكيع إلى السماء والأرض ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابوکریب نے ابو اسامہ ، ابن نمیر ، وکیع اور ابو معاویہ سے حدیث بیان کی ۔ اسحاق بن ابراہیم نے کہا : ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی ۔ ان سب نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ۔ الفاظ حدیث ابو اسامہ کے ہیں ۔ ہشام نے اپنے والد سے روایت کی ، انھوں نےکہا : میں نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ، میں نے کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : "" ( اپنے دور کی ) تمام عورتوں میں سے بہترین مریم بنت عمران علیہ السلام ہیں اور ( اس دور کی ) تمام عورتوں میں سے بہترین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں ۔ "" ابو کریب نے کہا : وکیع نے آسمان وزمین کی طرف اشارہ کرکے بتایا ( کہ ان دونوں کے درمیان بہترین خواتین یہ ہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2430

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 101

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6272
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا وكيع، ح وحدثنا محمد، بن المثنى وابن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، جميعا عن شعبة، ح وحدثنا عبيد الله، بن معاذ العنبري - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن مرة، عن أبي موسى، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كمل من الرجال كثير ولم يكمل من النساء غير مريم بنت عمران وآسية امرأة فرعون وإن فضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے ہیں اور ( لیکن ) عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت عورتوں پر اسی طرح ہے جس طرح ثرید کی باقی کھانوں پر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2431

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 102

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6273
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب وابن نمير قالوا حدثنا ابن فضيل، عن عمارة، عن أبي زرعة، قال سمعت أبا هريرة، قال أتى جبريل النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله هذه خديجة قد أتتك معها إناء فيه إدام أو طعام أو شراب فإذا هي أتتك فاقرأ عليها السلام من ربها عز وجل ومني وبشرها ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب ‏.‏ قال أبو بكر في روايته عن أبي هريرة ولم يقل سمعت ‏.‏ ولم يقل في الحديث ومني ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ ، ابو کریب اور ابن نمیر نے کہا : ہمیں ابن فضیل نے عمارہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابو زرعہ سے ، انھوں نےکہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ خدیجہ ہیں ، آپ کے پاس آئی ہیں ، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا مشروب ہے ، چنانچہ جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو انھیں ان کے رب عزوجل کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور انھیں جنت میں ایک گھر کی خوش خبری دیں جو ( موتیوں کی ) لمبی چھڑیوں کا بنا ہواہے ، نہ اس میں کوئی شور ہے اور نہ تھکاوٹ کا گزر ہے ۔ ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں کہا : "" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے ۔ "" انھوں نے "" میں نے سنا "" ( کا لفظ ) نہیں کہا اور نہ ہی حدیث میں "" اورمیری طرف سے "" ( کالفظ ) کہا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2432

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 103

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6274
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي ومحمد بن بشر العبدي، عن إسماعيل، قال قلت لعبد الله بن أبي أوفى أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بشر خديجة ببيت في الجنة قال نعم بشرها ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب ‏.‏
عبداللہ بن نمیر اور محمد بن بشر عبدی نے اسماعیل سے روایت کی ، کہا : میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت میں ایک گھر کی بشارت دی تھی؟انھوں نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایسے گھر کی بشارت دی تھی جو ( موتیوں کی ) شاخوں سے بنا ہے ، اس میں نہ شور وشغب ہوگا اور نہ تکان ہوگی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2433.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 104

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6275
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو معاوية، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا المعتمر بن سليمان، وجرير، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، كلهم عن إسماعيل بن أبي خالد، عن ابن أبي أوفى، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
ابو معاویہ ، وکیع ، معتمر بن سلیمان ، جریر اور سفیان سب نے اسماعیل بن ابی خالد سے ، انھوں نے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مثل روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2433.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 105

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6276
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت بشر رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة بنت خويلد ببيت في الجنة ‏.‏
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت میں ایک گھر کی بشارت دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2434

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 106

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6277
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت ما غرت على امرأة ما غرت على خديجة ولقد هلكت قبل أن يتزوجني بثلاث سنين لما كنت أسمعه يذكرها ولقد أمره ربه عز وجل أن يبشرها ببيت من قصب في الجنة وإن كان ليذبح الشاة ثم يهديها إلى خلائلها ‏.‏
ابواسامہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیا ن کی ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : مجھے کبھی کسی خاتون پر ایسا رشک نہیں آتا تھا جیسا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر آتاتھا ، حالانکہ مجھ سے نکاح کرنے سے تین سال قبل وہ فوت ہوچکی تھیں ، کیونکہ میں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر سنتی تھی ، آپ کے ر ب عزوجل نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ ان کو جنت میں ( موتیوں کی ) شاخون سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دیں ۔ اور بے شک آپ بکری ذبح کرتے ، پھر اس ( کے پارچوں ) کو ان کی سہیلیوں کی طرف بھیج دیتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2435.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 107

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6278
حدثنا سهل بن عثمان، حدثنا حفص بن غياث، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت ما غرت على نساء النبي صلى الله عليه وسلم إلا على خديجة وإني لم أدركها ‏.‏ قالت وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذبح الشاة فيقول ‏"‏ أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة ‏"‏ ‏.‏ قالت فأغضبته يوما فقلت خديجة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني قد رزقت حبها ‏"‏ ‏.‏
حفص بن غیاث نے ہشام بن عروہ سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے مجھے کسی پر رشک نہیں آتاتھا ، سوائے حضرت خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ، حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں دیکھا تھا ۔ کہا : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے : "" اس کو خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف بھیجو ۔ "" کہا : میں نے ایک دن آپ کو غصہ دلادیا ۔ میں نے کہا : خدیجہ؟ ( آپ انھی کا نام لیتے رہتے ہیں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" مجھے ان کی محبت عطا کی گئی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2435.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 108

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6279
حدثنا زهير بن حرب، وأبو كريب جميعا عن أبي معاوية، حدثنا هشام، بهذا الإسناد ‏.‏ نحو حديث أبي أسامة إلى قصة الشاة ولم يذكر الزيادة بعدها ‏.‏
ابو معاویہ نے کہا : ہمیں ہشام نے اسی سند کے ساتھ بکری ( ذبح کرنے ) کے قصے تک ابو اسامہ کی حدیث کی طرح حدیث بیا ن کی ۔ اس کے بعد کے زائد الفاظ بیان نہیں کیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2435.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 109

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6280
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت ما غرت للنبي صلى الله عليه وسلم على امرأة من نسائه ما غرت على خديجة لكثرة ذكره إياها وما رأيتها قط ‏.‏
زہری نے عروہ سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ، آپ کی کسی بیوی پر ایسا رشک نہیں ہوا جیسا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ہوا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ ان کو بہت کثرت سے یاد کرتے تھے ، حالانکہ میں نے انھیں کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2435.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 110

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6281
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت لم يتزوج النبي صلى الله عليه وسلم على خديجة حتى ماتت ‏.‏
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک اور شادی نہیں کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2436

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 111

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6282
حدثنا سويد بن سعيد، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت استأذنت هالة بنت خويلد أخت خديجة على رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرف استئذان خديجة فارتاح لذلك فقال ‏ "‏ اللهم هالة بنت خويلد ‏"‏ ‏.‏ فغرت فقلت وما تذكر من عجوز من عجائز قريش حمراء الشدقين هلكت في الدهر فأبدلك الله خيرا منها ‏.‏
علی بن مسہر نے ہشام سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : کہ خدیحہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ! ہالہ بنت خویلد ۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں ( یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو ، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو ) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہتر عورت دی ( جوان باکرہ جیسے میں ہوں ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2437

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 112

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6283
حدثنا خلف بن هشام، وأبو الربيع، جميعا عن حماد بن زيد، - واللفظ لأبي الربيع - حدثنا حماد، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، أنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أريتك في المنام ثلاث ليال جاءني بك الملك في سرقة من حرير فيقول هذه امرأتك ‏.‏ فأكشف عن وجهك فإذا أنت هي فأقول إن يك هذا من عند الله يمضه ‏"‏ ‏.‏
حماد نے کہا : ہمیں ہشام نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " تم مجھے تین راتوں تک خواب میں دکھائی دیتی رہی ہو ، ایک فرشتہ ریشم کے ایک ٹکڑے پر تمھیں ( تمھاری تصویر کو ) لے کر میرے پاس آیا ۔ وہ کہتا : یہ تمھاری بیوی ہے ، میں تمھارے چہرے سے کپڑا ہٹاتا تو وہ تم ہوتیں ، میں کہتا : یہ ( پیشکش ) اگر اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کردے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2438.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 113

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6284
حدثنا ابن نمير، حدثنا ابن إدريس، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، جميعا عن هشام، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
ابن ادریس اور ابو اسامہ نے ہشام سے ، اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2438.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 114

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6285
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، قال وجدت في كتابي عن أبي أسامة، حدثنا هشام، ح وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني لأعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت على غضبى ‏"‏ ‏.‏ قالت فقلت ومن أين تعرف ذلك قال ‏"‏ أما إذا كنت عني راضية فإنك تقولين لا ورب محمد وإذا كنت غضبى قلت لا ورب إبراهيم ‏"‏ ‏.‏ قالت قلت أجل والله يا رسول الله ما أهجر إلا اسمك ‏.‏
ابو اسامہ نے ہشام سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم ، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے رب کی ۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے سوا اور کسی بات کو ترک ن ہیں کرتی ( محبت ، اطاعت ، توجہ ہر لمحہ آپ ہی کی طرف رہتی ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2439.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 115

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6286
وحدثناه ابن نمير، حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، بهذا الإسناد إلى قوله لا ورب إبراهيم ‏.‏ ولم يذكر ما بعده ‏.‏
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان؛ " نہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! " تک روایت کی اور بعد کا حصہ بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2439.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 116

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6287
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا عبد العزيز بن محمد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أنها كانت تلعب بالبنات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت وكانت تأتيني صواحبي فكن ينقمعن من رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسربهن إلى ‏.‏
عبدالعزیز بن محمد نے ہشام بن عروہ سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں ، کہا : اور میری سہیلیاں میرے پاس آتی تھیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( آمد کی ) وجہ سے ( گھر کے کسی کونے میں ) چھپ جاتی تھیں ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ( بلا کر ) میری طرف بھیج دیتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2440.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 117

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6288
حدثناه أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، ح وحدثنا زهير بن حرب، حدثنا جرير، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا محمد بن بشر، كلهم عن هشام، بهذا الإسناد وقال في حديث جرير كنت ألعب بالبنات في بيته وهن اللعب ‏.‏
ابو اسامہ ، جریر اور محمد بن بشر سب نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، اور جریر کی حدیث میں کہا : میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور وہ ( ہمارے ) کھلونے ہوتی تھیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2440.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 118

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6289
حدثنا أبو كريب، حدثنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن الناس، كانوا يتحرون بهداياهم يوم عائشة يبتغون بذلك مرضاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ لوگ اپنے ہدیے بھیجنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( کی باری ) کا دن ڈھونڈا کرتے تھے ، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرناچاہتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2441

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 119

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6290
حدثني الحسن بن علي الحلواني، وأبو بكر بن النضر وعبد بن حميد قال عبد حدثني وقال الآخران، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثني أبي، عن صالح، عن ابن، شهاب أخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنت عليه وهو مضطجع معي في مرطي فأذن لها فقالت يا رسول الله إن أزواجك أرسلنني إليك يسألنك العدل في ابنة أبي قحافة وأنا ساكتة - قالت - فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أى بنية ألست تحبين ما أحب ‏"‏ ‏.‏ فقالت بلى ‏.‏ قال ‏"‏ فأحبي هذه ‏"‏ ‏.‏ قالت فقامت فاطمة حين سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجعت إلى أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرتهن بالذي قالت وبالذي قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن لها ما نراك أغنيت عنا من شىء فارجعي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولي له إن أزواجك ينشدنك العدل في ابنة أبي قحافة ‏.‏ فقالت فاطمة والله لا أكلمه فيها أبدا ‏.‏ قالت عائشة فأرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش زوج النبي صلى الله عليه وسلم وهي التي كانت تساميني منهن في المنزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم أر امرأة قط خيرا في الدين من زينب وأتقى لله وأصدق حديثا وأوصل للرحم وأعظم صدقة وأشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به وتقرب به إلى الله تعالى ما عدا سورة من حد كانت فيها تسرع منها الفيئة قالت فاستأذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع عائشة في مرطها على الحالة التي دخلت فاطمة عليها وهو بها فأذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن أزواجك أرسلنني إليك يسألنك العدل في ابنة أبي قحافة ‏.‏ قالت ثم وقعت بي فاستطالت على وأنا أرقب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأرقب طرفه هل يأذن لي فيها - قالت - فلم تبرح زينب حتى عرفت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكره أن أنتصر - قالت - فلما وقعت بها لم أنشبها حين أنحيت عليها - قالت - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وتبسم ‏"‏ إنها ابنة أبي بكر ‏"‏ ‏.‏
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی ، کہا : مجھے محمد بن عبدالرحمان بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ انہوں نے اجازت مانگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے ، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں ( یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں ۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے ) اور میں خاموش تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا ۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں ، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں ( ابوقحافہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں ) ۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار ، اللہ سے ڈرنے والی ، سچی بات کہنے والی ، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی ، فقط ان میں ایک تیزی تھی ( یعنی غصہ تھا ) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے ، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں ۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے ، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2442.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 120

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6291
حدثنيه محمد بن عبد الله بن قهزاذ، قال عبد الله بن عثمان حدثنيه عن عبد، الله بن المبارك عن يونس، عن الزهري، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله في المعنى غير أنه قال فلما وقعت بها لم أنشبها أن أثخنتها غلبة ‏.‏
یونس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ ، معنی میں بالکل اسی کے مانند روایت کی ، مگر انھوں نے یوں کہا : جب میں نے ان کے بارے میں بات کی تو انھیں مہلت تک نہ دی کہ میں نے غالب آکر ان کو بے بس کردیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2442.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 121

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6292
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، قال وجدت في كتابي عن أبي أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتفقد يقول ‏ "‏ أين أنا اليوم أين أنا غدا ‏"‏ ‏.‏ استبطاء ليوم عائشة ‏.‏ قالت فلما كان يومي قبضه الله بين سحري ونحري ‏.‏
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( بیماری کے دوران میں ) دریافت کرتے فرماتے تھے : " آج میں کہاں ہوں؟کل میں کہاں ہوں گا؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگتا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن آہی نہیں رہا ۔ انھوں نےکہا : جب میری باری کا دن آیاتو اللہ نے آپ کو اس طرح اپنے پاس بلایا کہ آپ میرے سینے اور حلق کے درمیان ( سر رکھے ہوئے ) تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2443

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 122

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6293
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك بن أنس، فيما قرئ عليه عن هشام بن عروة، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، أنها أخبرته أنها، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قبل أن يموت وهو مسند إلى صدرها وأصغت إليه وهو يقول ‏ "‏ اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق ‏"‏ ‏.‏
مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے ، انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبتایا کہ انھوں نے سنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے فرمارہے تھے اور آپ ان کے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور انھوں نے کان لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی ، آپ فرمارہے تھے : " اللہ!مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق ( اعلیٰ ) کے ساتھ ملادے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2444.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 123

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6294
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو أسامة، ح وحدثنا ابن، نمير حدثنا أبي ح، وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبدة بن سليمان، كلهم عن هشام، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
ابواسامہ ، عبداللہ بن نمیر اورعبدہ بن سلیمان ، سب نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2444.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 124

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6295
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن عروة، عن عائشة، قالت كنت أسمع أنه لن يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة - قالت - فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه وأخذته بحة يقول ‏{‏ مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا‏}‏ قالت فظننته خير حينئذ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے سعد بن ابرا ہیم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عروہ سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، فر ما یا : میں سناکرتی تھی ۔ کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا : تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فر ما تے ہو ئے سنا ۔ اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر ما رہے تھے : " ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فر ما یا : " یعنی انبیاء ، صدیقین شہداء اور صالحین ( کے ساتھ ) اور یہی بہترین رفیق ہیں ۔ " کہا : تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2444.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 125

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6296
حدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي قالا، حدثنا شعبة، عن سعد، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
وکیع اور معاذ نے کہا : ہمیں شعبہ نےسعد ( بنابرا ہیم ) سے اسی سند کے ساتھ اسکے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2444.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 126

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6297
حدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث بن سعد، حدثني أبي، عن جدي، حدثني عقيل بن خالد، قال قال ابن شهاب أخبرني سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، في رجال من أهل العلم أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو صحيح ‏"‏ إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده في الجنة ثم يخير ‏"‏ ‏.‏ قالت عائشة فلما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم ورأسه على فخذي غشي عليه ساعة ثم أفاق فأشخص بصره إلى السقف ثم قال ‏"‏ اللهم الرفيق الأعلى ‏"‏ ‏.‏ قالت عائشة قلت إذا لا يختارنا ‏.‏ قالت عائشة وعرفت الحديث الذي كان يحدثنا به وهو صحيح في قوله ‏"‏ إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير ‏"‏ ‏.‏ قالت عائشة فكانت تلك آخر كلمة تكلم بها رسول الله صلى الله عليه وسلم قوله ‏"‏ اللهم الرفيق الأعلى ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب نے کہا : مجھے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے اہل علم لوگوں کی مو جو دگی میں خبردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تندرستی کے زمانے میں فرما یا کرتے تھے ۔ "" کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جا تی ۔ یہاں تک کہ اسے جنت میں اپنا مقام دکھا دیا جا تا ہے ، پھر اس کو اختیا ر دیا جا تا ہے ۔ "" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا وقت آیا اور اس وقت آپ کاسر میرے زانو پر تھا ۔ آپ کچھ دیر غشی طاری رہی پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے چھت کی طرف نگا ہیں اٹھا ئیں ، پھر فر ما یا : "" اے اللہ !رفیق اعلیٰ! "" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں نے ( دل میں ) ) کہا : اب آپ ہمیں نہیں چنیں گے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر ما یا : اور میں نے وہ حدیث پہچان لی جو آپ ہم سے بیان فر ما یا کرتے تھے ۔ وہ آپ کےاپنے الفاظ میں بالکل صحیح تھی : کسی نبی کو اس وقت تک کبھی موت نہیں آئی یہاں تک کہ اسے جنت میں اس کا ٹھکا نا دکھایا جا تا ہے اور اسے ( موت کو قبول کرنے یا مؤخرکرانے کا ) اختیار دیا جا تا ہے ۔ "" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر ما ن : "" اے اللہ !رفیق اعلیٰ ! "" وہ آخری بات تھی جو آپ نے کہی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2444.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 127

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6298
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، وحدثنا عبد بن حميد، كلاهما عن أبي نعيم، قال عبد حدثنا أبو نعيم، حدثنا عبد الواحد بن أيمن، حدثني ابن أبي مليكة، عن القاسم، بن محمد عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج أقرع بين نسائه فطارت القرعة على عائشة وحفصة فخرجتا معه جميعا وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث معها فقالت حفصة لعائشة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك فتنظرين وأنظر قالت بلى ‏.‏ فركبت عائشة على بعير حفصة وركبت حفصة على بعير عائشة فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جمل عائشة وعليه حفصة فسلم ثم صار معها حتى نزلوا فافتقدته عائشة فغارت فلما نزلوا جعلت تجعل رجلها بين الإذخر وتقول يا رب سلط على عقربا أو حية تلدغني رسولك ولا أستطيع أن أقول له شيئا ‏.‏
قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جا تے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ، ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےنام قرعہ نکلا ، وہ دونوں آپ کے ساتھ سفر پر نکلیں ، جب را ت کا وقت ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ سفر کرتے اور ان کے ساتھ باتیں کرتے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا : آج رات تم میرے اونٹ پر کیوں نہیں سوار ہو جا تیں ۔ اور میں تمھا رے اونٹ پر سوار ہو جا تی ہوں ، پھر تم بھی دیکھو اور میں بھی دیکھتی ہوں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : کیوں نہیں !پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ کے پاس آئے تو اس پر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( سوار ) تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور ان کے ساتھ چلتے رہے حتی کہ منزل پر اتر گئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پا یا تو انھیں سخت رشک آیا ، جب سب لوگ اترے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے پاؤں اذخر ( کی گھاس ) میں مار مارکر کہنے لگیں : یارب! مجھ پر کو ئی بچھو یا سانپ مسلط کردے جو مجھے ڈس لے وہ تیرے رسول ہیں اور میں انھیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2445

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 128

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6299
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان، - يعني ابن بلال - عن عبد الله بن عبد الرحمن، عن أنس بن مالك، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ فضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام ‏"‏ ‏.‏
سلیمان بن بلال نے عبد اللہ بن عبد الرحمٰن سے ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ما تے ہو ئے سنا ، " عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسی ہے جیسی کھا نوں پر ثرید کی فضیلت ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2446.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 129

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6300
حدثنا يحيى بن يحيى، وقتيبة، وابن، حجر قالوا حدثنا إسماعيل، يعنون ابن جعفر ح وحدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - كلاهما عن عبد الله بن، عبد الرحمن عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله وليس في حديثهما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وفي حديث إسماعيل أنه سمع أنس بن مالك ‏.‏
اسماعیل بن جعفر اور عبد العزیز بن محمد دونوں نے عبد اللہ بن عبدالرحمٰن سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث روایت کی ۔ ان دونوں کی حدیث ( کی سند ) میں یہ الفاظ نہیں " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا " اور اسماعیل کی حدیث میں یہ الفا ظ ہیں : " انھوں نے انس بن مالک سے سنا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2446.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 130

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6301
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، ويعلى بن عبيد، عن زكرياء، عن الشعبي، عن أبي سلمة، عن عائشة، أنها حدثته أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها ‏ "‏ إن جبريل يقرأ عليك السلام ‏"‏ ‏.‏ قالت فقلت وعليه السلام ورحمة الله ‏.‏
عبد الرحیم بن سلیمان اور یعلیٰ بن عبید نے زکریا سے حدیث بیان کی ، انھوں نےس ( عامر ) شعبی سے ، انھوں نے ابو سلمہ سے انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے ان ( ابو سلمہ ) کو بتا یا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا : " جبرا ئیل تم کو سلام کہتے ہیں ۔ " کہا : تو میں نے ( جواب میں ) کہا : وعليه السلام ورحمة الله " اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو

صحيح مسلم حدیث نمبر:2447.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 131

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6302
حدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا الملائي، حدثنا زكرياء بن أبي زائدة، قال سمعت عامرا، يقول حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة، حدثته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها ‏.‏ بمثل حديثهما ‏.‏
۔ ( ابو بکر کو فی ) ملائی نے کہا : ہمیں زکریا بن ابی زائد ہ نے حدیث بیان کی ۔ انھوں نے کہا : میں عامر ( شعبی ) کو یہ کہتے ہو ئے سنا : مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر ما یا ، ان دونوں کی حدیث کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2447.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 132

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6303
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا أسباط بن محمد، عن زكرياء، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
اسباط بن محمد نے زکریا سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند خبر دی

صحيح مسلم حدیث نمبر:2447.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 133

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6304
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يا عائش هذا جبريل يقرأ عليك السلام ‏"‏ ‏.‏ قالت فقلت وعليه السلام ورحمة الله ‏.‏ قالت وهو يرى ما لا أرى ‏.‏
زہری نے کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اے عائش رضی اللہ تعالیٰ عنہا !یہ جبرا ئیل علیہ السلام ہیں تمھیں سلام کہہ رہے ہیں ۔ " میں نے کہا : ( وعليه السلام ورحمة الله ) ( اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو! ) ( حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا : آپ وہ کچھ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2447.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 134

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6305
حدثنا علي بن حجر السعدي، وأحمد بن جناب، كلاهما عن عيسى، - واللفظ لابن حجر - حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا هشام بن عروة، عن أخيه عبد الله بن عروة، عن عروة، عن عائشة، أنها قالت جلس إحدى عشرة امرأة فتعاهدن وتعاقدن أن لا يكتمن من أخبار أزواجهن شيئا قالت الأولى زوجي لحم جمل غث على رأس جبل وعر لا سهل فيرتقى ولا سمين فينتقل ‏.‏ قالت الثانية زوجي لا أبث خبره إني أخاف أن لا أذره إن أذكره أذكر عجره وبجره ‏.‏ قالت الثالثة زوجي العشنق إن أنطق أطلق وإن أسكت أعلق ‏.‏ قالت الرابعة زوجي كليل تهامة لا حر ولا قر ولا مخافة ولا سآمة ‏.‏ قالت الخامسة زوجي إن دخل فهد وإن خرج أسد ولا يسأل عما عهد ‏.‏ قالت السادسة زوجي إن أكل لف وإن شرب اشتف وإن اضطجع التف ولا يولج الكف ليعلم البث ‏.‏ قالت السابعة زوجي غياياء أو عياياء طباقاء كل داء له داء شجك أو فلك أو جمع كلا لك ‏.‏ قالت الثامنة زوجي الريح ريح زرنب والمس مس أرنب ‏.‏ قالت التاسعة زوجي رفيع العماد طويل النجاد عظيم الرماد قريب البيت من النادي ‏.‏ قالت العاشرة زوجي مالك وما مالك مالك خير من ذلك له إبل كثيرات المبارك قليلات المسارح إذا سمعن صوت المزهر أيقن أنهن هوالك ‏.‏ قالت الحادية عشرة زوجي أبو زرع فما أبو زرع أناس من حلي أذنى وملأ من شحم عضدى وبجحني فبجحت إلى نفسي وجدني في أهل غنيمة بشق فجعلني في أهل صهيل وأطيط ودائس ومنق فعنده أقول فلا أقبح وأرقد فأتصبح وأشرب فأتقنح ‏.‏ أم أبي زرع فما أم أبي زرع عكومها رداح وبيتها فساح ‏.‏ ابن أبي زرع فما ابن أبي زرع مضجعه كمسل شطبة ويشبعه ذراع الجفرة ‏.‏ بنت أبي زرع فما بنت أبي زرع طوع أبيها وطوع أمها وملء كسائها وغيظ جارتها ‏.‏ جارية أبي زرع فما جارية أبي زرع لا تبث حديثنا تبثيثا ولا تنقث ميرتنا تنقيثا ولا تملأ بيتنا تعشيشا ‏.‏ قالت خرج أبو زرع والأوطاب تمخض فلقي امرأة معها ولدان لها كالفهدين يلعبان من تحت خصرها برمانتين فطلقني ونكحها فنكحت بعده رجلا سريا ركب شريا وأخذ خطيا وأراح على نعما ثريا وأعطاني من كل رائحة زوجا ‏.‏ قال كلي أم زرع وميري أهلك فلو جمعت كل شىء أعطاني ما بلغ أصغر آنية أبي زرع ‏.‏ قالت عائشة قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كنت لك كأبي زرع لأم زرع ‏"‏ ‏.‏
عیسیٰ بن یونس نے کہا : ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عروہ سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی ۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے ، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو ۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے ۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں ۔ ( اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی ۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا ) ۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے ، اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی ( یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی ) ۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ ( حجاز اور مکہ ) کی رات ۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے ( یعنی معتدل المزاج ہے ) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے ( یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے ) ۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے ( یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا ) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے ۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا ۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے ( یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں ، عورت کی خبر تک نہیں لیتا ) ۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا ، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں ۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے ۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے ( زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے ) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش ( یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں ) ۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا ، لمبے پرتلے والا ( یعنی قد آور ) اور بڑی راکھ والا ( یعنی سخی ہے ) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ ( ڈیرہ وغیرہ ) ( یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے ) ۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے ۔ اور مالک کیا خوب ہے ۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے ۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شترخانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں ( یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں ، اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں ) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں ( ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا ، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا ) ۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابوذرع ہے سو واہ کیا خوب ابوذرع ہے ۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے ( یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا ) ، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے ، پس اس نے مجھے گھوڑے ، اونٹ ، کھیت اور ڈھیریوں / خرمن کا مالک کر دیا ( یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی ، اس نے مجھے باعزت اور مالدار کر دیا ) ۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے برا نہیں کہتا ۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں ( یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا ) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں ۔ اور ابوزرع کی ماں ، پس ابوزرع کی ماں بھی کیا خوب ہے ۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں ۔ ابوزرع کا بیٹا ، پس ابوزرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے ۔ اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کا میان ( یعنی نازنین بدن ہے ) ، اس کو ( بکری ) حلوان کا ہاتھ آسودہ ( سیر ) کر دیتا ہے ( یعنی کم خور ہے ) ۔ ابوزرع کی بیٹی ، پس ابوزرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے ۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی ( یعنی موٹی ہے ) اور اپنی سوتن کی رشک ( یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے ، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے ) ۔ اور ابوزرع کی لونڈی ، ابوزرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے ۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لیجاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی ۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ ( گھی نکالنے ) کے لئے بلوایا جا رہا تھا ۔ پس وہ ایک عورت سے ملا ، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں ۔ پس ابوزرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا ۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے ۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا ۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں ، تو وہ ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں ( یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے ) ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لئے تھا ۔ ( لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2448.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 135

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6306
وحدثنيه الحسن بن علي الحلواني، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا سعيد، بن سلمة عن هشام بن عروة، بهذا الإسناد غير أنه قال عياياء طباقاء ‏.‏ ولم يشك وقال قليلات المسارح ‏.‏ وقال وصفر ردائها وخير نسائها وعقر جارتها ‏.‏ وقال ولا تنقث ميرتنا تنقيثا ‏.‏ وقال وأعطاني من كل ذابحة زوجا ‏.‏
سعید بن سلمہ نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ بیان کی ، مگر ( ساتویں کے خاوندکے متعلق ) شک کے بغیر : " عاجز اور ماندہ ہے عقل پر حماقت کی تہیں لگی ہو ئی ہیں " کہا : اور ( دسویں کے خاوند کے متعلق ) کہا : ( اس کی اونٹنیاں ) چراگا ہوں میں کم بھیجی جا تی ہیں ( خدام باڑے میں چارہ مہیا کرتے ہیں ۔ ) اور ( ابو زرع کی بیٹی کےبارے میں ) کہا : اس کی اوڑھنے کی چادر خالی لگتی ہے ( اس کا پیٹ بڑھا ہوا نہیں ہے جبکہ ملء كسائهاسے مراد ہے کہ جسم کے باقی حصے لباس کو بھر دیتے ہیں ) قبیلے کی بہترین عورت ہے اور ( اپنی خوبصورتی اور وقار کی بناپر ) سوکن کے لیے نیزے کا زخم ( دردوتکلیف کا سبب ) ہے اور ( خادمہ کے بارے میں اس طرح ) کہا : " وہ ہمارا کھا نا ضائع نہیں کرتی ۔ " اور ( " وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا " کے بجائے ) وأعطاني من كل ذابحةٍ زوجاً ، ( اور مجھے ہر اعلیٰ درجے کی خوشبو دار چیز میں سے دگنا دگنا دیا ) کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2448.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 136

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6307
حدثنا أحمد بن عبد الله بن يونس، وقتيبة بن سعيد، كلاهما عن الليث بن سعد، قال ابن يونس حدثنا ليث، حدثنا عبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة القرشي التيمي، أنحدثه أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وهو يقول ‏ "‏ إن بني هشام بن المغيرة استأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يحب ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم فإنما ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها ‏"‏ ‏.‏
لیث بن سعد نے کہا : ہمیں عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ قرشی تیمی نے حدیث بیان کی کہ حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں حدیث سنائی ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر یہ سنا ، آپ فر ما رہت تھے : " بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں ، میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا ، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا ، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا ، الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے ۔ جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2449.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 137

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6308
حدثني أبو معمر، إسماعيل بن إبراهيم الهذلي حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابن أبي مليكة، عن المسور بن مخرمة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إنما فاطمة بضعة مني يؤذيني ما آذاها ‏"‏ ‏.‏
عمرو نے ابن ابی ملیکہ سے ، انھوں نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2449.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 138

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6309
حدثني أحمد بن حنبل، أخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن الوليد بن كثير، حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي، أن ابن شهاب، حدثه أن علي بن الحسين حدثه أنهم، حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضى الله عنهما لقيه المسور بن مخرمة فقال له هل لك إلى من حاجة تأمرني بها قال فقلت له لا ‏.‏ قال له هل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتى تبلغ نفسي إن علي بن أبي طالب خطب بنت أبي جهل على فاطمة فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم فقال ‏"‏ إن فاطمة مني وإني أتخوف أن تفتن في دينها ‏"‏ ‏.‏ قال ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن قال ‏"‏ حدثني فصدقني ووعدني فأوفى لي وإني لست أحرم حلالا ولا أحل حراما ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا ‏"‏ ‏.‏
محمد بن عمرو بن حلحلہ دؤلی نے کہا : ابن شہاب نے انھیں حدیث بیان کی ، انھیں علی بن حسین ( زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے حدیث بیان کی کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملے اور کہا : آپ کو مجھ سے کو ئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے ۔ ( حضرت علی بن حسین نے ) کہا : میں نے ان سے کہا : نہیں ( کو ئی کا م نہیں ) حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ( حفاظت کے لیے ) مجھے عطا کریں گے ، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لو گ اس ( تلوار ) کے معاملے میں آپ پرغالب آنے کی کو شش کریں گے اور اللہ کی قسم !اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو کو ئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ میری جا ن اپنی منزل پر پہنچ جا ئے ۔ ( مجھے یا د ہے کہ ) جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہو تے ہو ئے ابوجہل کی بیٹی کو نکا ح کا پیغام دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبرپر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور میں ان دنوں بلوغت کو پہنچ چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " فاطمہ مجھ سے ہے ( میرے جسم کا ٹکڑا ہے ) اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے معاملے میں آزمائش میں ڈالا جا ئے گا ۔ کہا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس میں سے اپنے داماد ( حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا ذکر فر ما یا اور اس کی اپنے ساتھ اس قرابت داری کی تعریف فرمائی اور اچھی طرح تعریف فر ما ئی ۔ آپ نے فر ما یا : " اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچ کہا ۔ میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیااور میں کسی حلال کا م کو حرام قرار نہیں دیتا اور کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور لیکن اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ ( ایک خاوندکے نکا ح میں ) اکٹھی نہیں ہو ں گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2449.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 139

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6310
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، أخبرني علي بن حسين، أن المسور بن مخرمة، أخبره أن علي بن أبي طالب خطب بنت أبي جهل وعنده فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سمعت بذلك فاطمة أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت له إن قومك يتحدثون أنك لا تغضب لبناتك وهذا علي ناكحا ابنة أبي جهل ‏.‏ قال المسور فقام النبي صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد ثم قال ‏ "‏ أما بعد فإني أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني وإن فاطمة بنت محمد مضغة مني وإنما أكره أن يفتنوها وإنها والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا ‏"‏ ‏.‏ قال فترك علي الخطبة ‏.‏
شعیب نے زہری سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے علی بن حسین ( زین العابدین ) نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بتا یا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کے لیے نکا ح کا پیغام دیا : جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پاس ( نکاح میں ) تھیں تو جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات سنی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ سے کہا : آپ کی قوم ( بنو ہاشم ) کے لو گ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا اور یہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکا ح کرنے والے ہیں ۔ حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( خطبہ دینے کے لیے ) کھڑے ہو ئے جب آپ نے شہادت کے الفاظ ادا کیے تو میں نے سنا ، پھر آپ نے فر ما یا : " اس کے بعد!میں نے ابو العاص بن ربیع کو رشتہ دیا تو اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچی بات کی ، بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری جان کا ایک حصہ ہے ۔ مجھے یہ بہت برا لگتا ہے کہ لو گ اسے آزمائش میں ڈالیں ۔ اور بات یہ ہے کہ اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکا ح میں اکٹھی نہیں ہو ں گی ۔ " ( حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکا ح کا ارادہ ترک کر دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2449.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 140

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6311
وحدثنيه أبو معن الرقاشي، حدثنا وهب، - يعني ابن جرير - عن أبيه، قال سمعت النعمان، - يعني ابن راشد - يحدث عن الزهري، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
نعمان بن راشد نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2449.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 141

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6312
حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثنا إبراهيم، - يعني ابن سعد - عن أبيه، عن عروة، عن عائشة، ح وحدثني زهير بن حرب، - واللفظ له - حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن أبيه، أن عروة بن الزبير، حدثه أن عائشة حدثته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا فاطمة ابنته فسارها فبكت ثم سارها فضحكت فقالت عائشة فقلت لفاطمة ما هذا الذي سارك به رسول الله صلى الله عليه وسلم فبكيت ثم سارك فضحكت قالت سارني فأخبرني بموته فبكيت ثم سارني فأخبرني أني أول من يتبعه من أهله فضحكت ‏.‏
عروہ بن زبیر نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلا یا اور ان کو راز داری سے ( سر گوشی کرتے ہو ئے ) کو ئی بات کہی تو حضرت فاطمہ روپڑیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو رازداری سے کو ئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا : یہ کیا بات تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو راز داری سے کہی اور آپ روپڑیں ، پھر دوبارہ رازداری سے بات کی تو ہنس دیں ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کا ن میں بات کی اور اپنی موت کی خبر دی تو میں روپڑی ، پھر دوسری بار میرے کان میں بات کی اور مجھے بتا یا کہ ان کے گھر والوں میں سے پہلی میں ہو ں گی جو ان سے جا ملوں گی تو میں ہنس دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2450.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 142

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6313
حدثنا أبو كامل الجحدري، فضيل بن حسين حدثنا أبو عوانة، عن فراس، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة، قالت كن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عنده لم يغادر منهن واحدة فأقبلت فاطمة تمشي ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا فلما رآها رحب بها فقال ‏"‏ مرحبا بابنتي ‏"‏ ‏.‏ ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله ثم سارها فبكت بكاء شديدا فلما رأى جزعها سارها الثانية فضحكت ‏.‏ فقلت لها خصك رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين نسائه بالسرار ثم أنت تبكين فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم سألتها ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت ما كنت أفشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره ‏.‏ قالت فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت عزمت عليك بما لي عليك من الحق لما حدثتني ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت أما الآن فنعم أما حين سارني في المرة الأولى فأخبرني ‏"‏ أن جبريل كان يعارضه القرآن في كل سنة مرة أو مرتين وإنه عارضه الآن مرتين وإني لا أرى الأجل إلا قد اقترب فاتقي الله واصبري فإنه نعم السلف أنا لك ‏"‏ ‏.‏ قالت فبكيت بكائي الذي رأيت فلما رأى جزعي سارني الثانية فقال ‏"‏ يا فاطمة أما ترضى أن تكوني سيدة نساء المؤمنين أو سيدة نساء هذه الأمة ‏"‏ ‏.‏ قالت فضحكت ضحكي الذي رأيت ‏.‏
ابو عوانہ نے فراس سے ، انھوں نے عامر سے ، انھوں نے مسروق سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج آپ کے پاس موجود تھیں ، ان میں سے کو ئی ( وہاں سے ) غیر حاضر نہیں ہوئی تھی ، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی ۔ جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فر ما یا : " میری بیٹی کو خوش آمدید ! " پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا ، پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں ۔ جب آپ نے ان کی شدید نے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کو ئی بات کہی تو ہنس پڑیں ۔ ( بعد میں ) میں نے ان سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی ، آپ روئیں ( کیوں ؟ ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اس جگہ سے ) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پو چھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا : ؟ انھوں نے کہا : میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا : میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں ( اور یہ اصرار جاری رہے گا ) الایہ کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا : اب ( اگر آپ پوچھتی ہیں ) تو ہاں ، پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا : " جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل ( مقررہ وقت ) قریب آگیا ہے ، اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا ، میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا ۔ " ( حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا : اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا : " فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا ( فرمایا : ) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟ " کہا : تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2450.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 143

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6314
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وحدثنا عبد الله بن نمير، عن زكرياء، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا زكرياء، عن فراس، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة، قالت اجتمع نساء النبي صلى الله عليه وسلم فلم يغادر منهن امرأة فجاءت فاطمة تمشي كأن مشيتها مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ مرحبا بابنتي ‏"‏ ‏.‏ فأجلسها عن يمينه أو عن شماله ثم إنه أسر إليها حديثا فبكت فاطمة ثم إنه سارها فضحكت أيضا فقلت لها ما يبكيك فقالت ما كنت لأفشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقلت ما رأيت كاليوم فرحا أقرب من حزن ‏.‏ فقلت لها حين بكت أخصك رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديثه دوننا ثم تبكين وسألتها عما قال فقالت ما كنت لأفشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ حتى إذا قبض سألتها فقالت إنه كان حدثني ‏"‏ أن جبريل كان يعارضه بالقرآن كل عام مرة وإنه عارضه به في العام مرتين ولا أراني إلا قد حضر أجلي وإنك أول أهلي لحوقا بي ونعم السلف أنا لك ‏"‏ ‏.‏ فبكيت لذلك ثم إنه سارني فقال ‏"‏ ألا ترضين أن تكوني سيدة نساء المؤمنين أو سيدة نساء هذه الأمة ‏"‏ ‏.‏ فضحكت لذلك ‏.‏
زکریا نے فراس سے ، انھوں نے عامر سے ، انھوں نے مسروق سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں ) ، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی ۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں ، پھر تم روتی ہو ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا ، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی ۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دوبار دور کیا ، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا ( دنیا سے جانے کا ) وقت قریب آ گیا ہے ، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر ، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں ۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2450.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 144

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6315
حدثني عبد الأعلى بن حماد، ومحمد بن عبد الأعلى القيسي، كلاهما عن المعتمر، - قال ابن حماد حدثنا معتمر بن سليمان، - قال سمعت أبي، حدثنا أبو عثمان، عن سلمان، قال لا تكونن إن استطعت أول من يدخل السوق ولا آخر من يخرج منها فإنها معركة الشيطان وبها ينصب رايته ‏.‏ قال وأنبئت أن جبريل عليه السلام أتى نبي الله صلى الله عليه وسلم وعنده أم سلمة - قال - فجعل يتحدث ثم قام فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم لأم سلمة ‏ "‏ من هذا ‏"‏ ‏.‏ أو كما قال قالت هذا دحية - قال - فقالت أم سلمة ايم الله ما حسبته إلا إياه حتى سمعت خطبة نبي الله صلى الله عليه وسلم يخبر خبرنا أو كما قال قال فقلت لأبي عثمان ممن سمعت هذا قال من أسامة بن زيد ‏.‏
معتمر بن سلیمان نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : میں نے اپنے والد سے سنا ، کہا : ہمیں ابو عثمان نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل ، کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے ۔ ( ابو عثمان نہدی نے ) کہا : اور مجھے خبر دی گئی کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگے ، پھر کھڑے ہوئے ( یعنی چلے گئے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھے؟ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے ۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے ، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر بیان کرتے تھے ۔ میں ( راوی حدیث ) نے کہا کہ میں نے ابوعثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2451

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 145

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6316
حدثنا محمود بن غيلان أبو أحمد، حدثنا الفضل بن موسى السيناني، أخبرنا طلحة بن يحيى بن طلحة، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة أم المؤمنين، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أسرعكن لحاقا بي أطولكن يدا ‏"‏ ‏.‏ قالت فكن يتطاولن أيتهن أطول يدا ‏.‏ قالت فكانت أطولنا يدا زينب لأنها كانت تعمل بيدها وتصدق ‏.‏
عائشہ بنت طلحہ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ "" تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی ( میری وہ اہلیہ ہوگی جو ) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے ۔ "" انھوں نے کہا : ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں ۔ انھوں نے کہا : اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور ( اس کی اجرت ) صدقہ کرتی تھیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2452

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 146

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6317
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس، قال انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أم أيمن فانطلقت معه فناولته إناء فيه شراب - قال - فلا أدري أصادفته صائما أو لم يرده فجعلت تصخب عليه وتذمر عليه ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے ، میں بھی آ پ کے ساتھ گیا ، انھوں نے آپ کے ہاتھ میں ایک برتن دیا جس میں مشروب تھا ۔ کہا : تو مجھے معلوم انھوں نے اچانک روزے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( وہ مشروب ) پکڑا دیا تھا یا آپ اسے پینا نہیں چاہتے تھے ، ( آپ نے پینے میں تردد فرمایا ) تو وہ آپ کے سامنے زور زور سے بولنے اور غصے کا اظہار کرنے لگیں ( جس طرح ایک ماں کرتی ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2453

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 147

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6318
حدثنا زهير بن حرب، أخبرني عمرو بن عاصم الكلابي، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس، قال قال أبو بكر رضى الله عنه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر انطلق بنا إلى أم أيمن نزورها كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها ‏.‏ فلما انتهينا إليها بكت فقالا لها ما يبكيك ما عند الله خير لرسوله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقالت ما أبكي أن لا أكون أعلم أن ما عند الله خير لرسوله صلى الله عليه وسلم ولكن أبكي أن الوحى قد انقطع من السماء ‏.‏ فهيجتهما على البكاء فجعلا يبكيان معها ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے ۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر ہے ۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا ۔ ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2454

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 148

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6319
حدثنا حسن الحلواني، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن إسحاق بن عبد، الله عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يدخل على أحد من النساء إلا على أزواجه إلا أم سليم فإنه كان يدخل عليها فقيل له في ذلك فقال ‏ "‏ إني أرحمها قتل أخوها معي ‏"‏ ‏.‏
اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات اور حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا اور کسی عورت کے گھر نہیں جاتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تھے ، اس کے متعلق آپ سے بات کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھے اس پر رحم آتا ہے ، اس کا بھائی میرے ساتھ ( لڑتا ہوا ) شہید ہوا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2455

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 149

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6320
وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا بشر، - يعني ابن السري - حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ دخلت الجنة فسمعت خشفة فقلت من هذا قالوا هذه الغميصاء بنت ملحان أم أنس بن مالك ‏"‏ ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میں جنت میں گیا ، وہاں میں نے ( کسی کے چلنے کی ) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان ( ام سلیم کا نام غمیصا یا رمیصا تھا ) انس بن مالک کی والدہ ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2456

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 150

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6321
حدثني أبو جعفر، محمد بن الفرج حدثنا زيد بن الحباب، أخبرني عبد العزيز، بن أبي سلمة أخبرنا محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أريت الجنة فرأيت امرأة أبي طلحة ثم سمعت خشخشة أمامي فإذا بلال ‏"‏ ‏.‏
محمد بن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " مجھے جنت دکھائی گئی ، میں نے وہاں ابو طلحہ کی بیوی ( ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کودیکھا ، پھر میں نے اپنے آگے کسی کے چلنے کی آہٹ سنی ، تو وہ بلال تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2457

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 151

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6322
حدثني محمد بن حاتم بن ميمون، حدثنا بهز، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس، قال مات ابن لأبي طلحة من أم سليم فقالت لأهلها لا تحدثوا أبا طلحة بابنه حتى أكون أنا أحدثه - قال - فجاء فقربت إليه عشاء فأكل وشرب - فقال - ثم تصنعت له أحسن ما كان تصنع قبل ذلك فوقع بها فلما رأت أنه قد شبع وأصاب منها قالت يا أبا طلحة أرأيت لو أن قوما أعاروا عاريتهم أهل بيت فطلبوا عاريتهم ألهم أن يمنعوهم قال لا ‏.‏ قالت فاحتسب ابنك ‏.‏ قال فغضب وقال تركتني حتى تلطخت ثم أخبرتني بابني ‏.‏ فانطلق حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره بما كان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بارك الله لكما في غابر ليلتكما ‏"‏ ‏.‏ قال فحملت - قال - فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر وهي معه وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى المدينة من سفر لا يطرقها طروقا فدنوا من المدينة فضربها المخاض فاحتبس عليها أبو طلحة وانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - يقول أبو طلحة إنك لتعلم يا رب إنه يعجبني أن أخرج مع رسولك إذا خرج وأدخل معه إذا دخل وقد احتبست بما ترى - قال - تقول أم سليم يا أبا طلحة ما أجد الذي كنت أجد انطلق ‏.‏ فانطلقنا - قال - وضربها المخاض حين قدما فولدت غلاما فقالت لي أمي يا أنس لا يرضعه أحد حتى تغدو به على رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فلما أصبح احتملته فانطلقت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - فصادفته ومعه ميسم فلما رآني قال ‏"‏ لعل أم سليم ولدت ‏"‏ ‏.‏ قلت نعم ‏.‏ فوضع الميسم - قال - وجئت به فوضعته في حجره ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعجوة من عجوة المدينة فلاكها في فيه حتى ذابت ثم قذفها في في الصبي فجعل الصبي يتلمظها - قال - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ انظروا إلى حب الأنصار التمر ‏"‏ ‏.‏ قال فمسح وجهه وسماه عبد الله ‏.‏
بہز نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا ، فوت ہو گیا ۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا ۔ آخر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدہ ام سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں ۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا ۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں ، پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں روک سکتے ۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو ( کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا ) ۔ یہ سن کر ابوطلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا ( یعنی جماع کیا ) تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو ۔ وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں ۔ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے ام سلیم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم کو درد زہ شروع ہوا اور ابوطلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ۔ ابوطلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں ، لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں ۔ ام سلیم نے کہا کہ اے ابوطلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو ۔ ہم چلے جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر ام سلیم کو درد شروع ہوا اور انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا ۔ میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے ۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا میں آپ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کہ شاید ام سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچہ کو لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھا دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی ، جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی بچہ اس کو چوسنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2144.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 152

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6323
حدثنا أحمد بن الحسن بن خراش، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا سليمان بن، المغيرة حدثنا ثابت، حدثني أنس بن مالك، قال مات ابن لأبي طلحة ‏.‏ واقتص الحديث بمثله ‏.‏
عمرو بن عاص نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : ہمیں ثابت نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی ، کہا : ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ فوت ہوگیا ، اور اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2144.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 153

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6324
حدثنا عبيد بن يعيش، ومحمد بن العلاء الهمداني، قالا حدثنا أبو أسامة، عن أبي حيان، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا أبو حيان التيمي يحيى بن سعيد عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لبلال عند صلاة الغداة ‏ "‏ يا بلال حدثني بأرجى عمل عملته عندك في الإسلام منفعة فإني سمعت الليلة خشف نعليك بين يدى في الجنة ‏"‏ ‏.‏ قال بلال ما عملت عملا في الإسلام أرجى عندي منفعة من أني لا أتطهر طهورا تاما في ساعة من ليل ولا نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب الله لي أن أصلي ‏.‏
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے ، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو ۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2458

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 154

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6325
حدثنا منجاب بن الحارث التميمي، وسهل بن عثمان، وعبد الله بن عامر بن، زرارة الحضرمي وسويد بن سعيد والوليد بن شجاع قال سهل ومنجاب أخبرنا وقال، الآخرون حدثنا علي بن مسهر، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال لما نزلت هذه الآية ‏{‏ ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا‏}‏ إلى آخر الآية قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ قيل لي أنت منهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : جب یہ آیت نازل ہو ئی : " جو لوگ ایمان لا ئے اور نیک اعمال کیے ان پر انھوں نے کھا یا پیا اس میں کو ئی گناہ نہیں جبکہ وہ تقویٰ پر تھے اور ایمان لے آئے تھے " آیت کے آخر تک ۔ ( تو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فر ما یا : " مجھے بتا یا گیا ہے کہ تم بھی انھی میں سے ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2459

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 155

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6326
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ومحمد بن رافع، - واللفظ لابن رافع - قال إسحاق أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا ابن أبي زائدة، عن أبيه، عن أبي إسحاق، عن الأسود بن يزيد، عن أبي موسى، قال قدمت أنا وأخي، من اليمن فكنا حينا وما نرى ابن مسعود وأمه إلا من أهل بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من كثرة دخولهم ولزومهم له ‏.‏
ابو زائدہ نے ابو اسحٰق سے ، انھوں نے اسود بن یزید سے ، انھوں نے حضرت موسی ( اشعری ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں اور میرا بھا ئی یمن سے آئے تو کچھ عرصہ ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بکثرت آنے جانے اور آپ کے ساتھ لگے رہنے کی وجہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2460.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 156

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6327
حدثنيه محمد بن حاتم، حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن أبيه، عن أبي إسحاق، أنه سمع الأسود، يقول سمعت أبا موسى، يقول لقد قدمت أنا وأخي، من اليمن ‏.‏ فذكر بمثله ‏.‏
یو سف نے ابو اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نے اسود کو یہ کہتے ہوئے سنا ، میں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں اور میرا بھائی یمن سے آئے ، پھر اسی کے مانند بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2460.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 157

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6328
حدثنا زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار قالوا حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن أبي إسحاق، عن الأسود، عن أبي موسى، قال أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أرى أن عبد الله من أهل البيت ‏.‏ أو ما ذكر من نحو هذا ‏.‏
سفیان نے ابو اسحٰق سے ، انھوں نے اسود سے ، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت میں سے ہیں یا انھوں نے اسی طرح ( کے الفا ظ میں ) بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2460.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 158

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6329
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت أبا الأحوص، قال شهدت أبا موسى وأبا مسعود حين مات ابن مسعود فقال أحدهما لصاحبه أتراه ترك بعده مثله فقال إن قلت ذاك إن كان ليؤذن له إذا حجبنا ويشهد إذا غبنا ‏.‏
ابو اسحٰق سے روایت ہے انھوں نے کہا : میں نے ابو حوص سے سنا ، انھوں نے کہا : جس وقت حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا میں نے اس وقت حضرت ابو موسیٰ اور حضرت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں حاضری دی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے پو چھا : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بعد کو ئی ایسا شخص چھوڑ گئے ہیں جو ان جیسا ہو ؟انھوں نے جواب دیا : جب آپ نے یہ بات کہہ دی تو حقیقت یہ ہے کہ انھیں اس وقت ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) حاضری کی اجا زت ہو تی تھی ، جب ہمیں روک لیا جا تاتھا ، اور وہ اس وقت بھی حاضر رہتے تھےجب ہم مو جو دنہ ہو تے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2461.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 159

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6330
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا قطبة، هو ابن عبد العزيز عن الأعمش، عن مالك بن الحارث، عن أبي الأحوص، قال كنا في دار أبي موسى مع نفر من أصحاب عبد الله وهم ينظرون في مصحف فقام عبد الله فقال أبو مسعود ما أعلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك بعده أعلم بما أنزل الله من هذا القائم ‏.‏ فقال أبو موسى أما لئن قلت ذاك لقد كان يشهد إذا غبنا ويؤذن له إذا حجبنا ‏.‏
قطبہ بن عبدالعزیز نے اعمش سے ، انھوں نے مالک بن حارث سے ، انھوں نے ابو احوص سے روایت کی ، کہا : ہم حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند ساتھیوں ( شاگردوں ) کے ہمراہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھے ۔ وہ سب ایک مصحف ( قرآن مجید کا نسخہ ) دیکھ رہے تھے ، اس اثناءمیں حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اس شخص سے ، جو ( ابھی ) اٹھا ہے ، زیادہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کو جاننے والا کوئی اور آدمی چھوڑا ہو! حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ نے یہ کہا ہے تو ( اس کی وجہ یہ ہے کہ ) یہ اس وقت حاضر ر ہتے جب ہم موجود نہ ہوتے اورا نھیں ( اس وقت بھی ) حاضری کی اجازت دی جاتی جب ہمیں اجازت نہ ہوتی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2461.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 160

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6331
وحدثني القاسم بن زكرياء، حدثنا عبيد الله، - هو ابن موسى - عن شيبان، عن الأعمش، عن مالك بن الحارث، عن أبي الأحوص، قال أتيت أبا موسى فوجدت عبد الله وأبا موسى ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا محمد بن أبي عبيدة، حدثنا أبي، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، قال كنت جالسا مع حذيفة وأبي موسى وساق الحديث وحديث قطبة أتم وأكثر ‏.‏
ابو عبیدہ نے اعمش سے ، انھوں نے زید بن وہب سے روایت کی ، کہا : میں حضرت حذیفہ اورابو موسیٰ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، اور ( یہی ) حدیث بیان کی ۔ قطبہ کی حدیث مکمل اور زیادہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2461.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 161

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6332
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، أخبرنا عبدة بن سليمان، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، أنه قال ‏{‏ ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة‏}‏ ثم قال على قراءة من تأمروني أن أقرأ فلقد قرأت على رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعا وسبعين سورة ولقد علم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أعلمهم بكتاب الله ولو أعلم أن أحدا أعلم مني لرحلت إليه ‏.‏ قال شقيق فجلست في حلق أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما سمعت أحدا يرد ذلك عليه ولا يعيبه ‏.‏
شقیق نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے پڑھا : "" ”اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا ، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا“ ( سورۃ : آل عمران : 161 ) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا ۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں ، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2462

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 162

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6333
حدثنا أبو كريب، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا قطبة، عن الأعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عبد الله، قال والذي لا إله غيره ما من كتاب الله سورة إلا أنا أعلم حيث نزلت وما من آية إلا أنا أعلم فيما أنزلت ولو أعلم أحدا هو أعلم بكتاب الله مني تبلغه الإبل لركبت إليه ‏.‏
مسروق نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں!کتاب اللہ کی کوئی صورت نہیں مگر میں اسکے متعلق جانتاہوں کہ وہ کب نازل ہوئی ، اور کتاب اللہ کی کوئی آیت نہیں مگر مجھے علم ہے کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ، اور اگر مجھے یہ معلوم ہوکہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والاہے ۔ اور اونٹ اس تک پہنچ سکتے ہیں تو میں ( اونٹوں پر سفر کرکے ) اس کے پاس جاؤں ( اور قرآن کا علم حاصل کروں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2463

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 163

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6334
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، قالا حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن مسروق، قال كنا نأتي عبد الله بن عمرو فنتحدث إليه - وقال ابن نمير عنده - فذكرنا يوما عبد الله بن مسعود فقال لقد ذكرتم رجلا لا أزال أحبه بعد شىء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ خذوا القرآن من أربعة من ابن أم عبد - فبدأ به - ومعاذ بن جبل وأبى بن كعب وسالم مولى أبي حذيفة ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا : ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اعمش نے ( ابو وائل ) شقیق سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مسروق سے روایت کی ، کہا : ہم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے تھے اور ان کے ساتھ ( علمی ) گفتگو کیاکرتے تھے ۔ اور ابن نمیر نے کہا : ان کے پاس ( گفتگو کیا کرتے تھے ) چنانچہ ایک دن ہم نے ( ان کے سامنے ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نےکہا : تم نے مجھ سے اس شخص کا ذکر کیا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سننے کے بعد سے مسلسل اس سے محبت کرتا ہوں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " قرآن چار آدمیوں سے سیکھو : ابن ام عبد ( حضرت ابن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ۔ آپ نے ابتداء ان سے کی ۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےآزاد کردہ غلام سالم سے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 164

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6335
حدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق، قال كنا عند عبد الله بن عمرو فذكرنا حديثا عن عبد الله بن مسعود، فقال إن ذاك الرجل لا أزال أحبه بعد شىء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله سمعته يقول ‏ "‏ اقرءوا القرآن من أربعة نفر من ابن أم عبد - فبدأ به - ومن أبى بن كعب ومن سالم مولى أبي حذيفة ومن معاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏ وحرف لم يذكره زهير قوله يقوله ‏.‏
قتیبہ بن سعید ، زہیر بن حرب اور عثمان بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابو وائل ( شقیق ) سے ، انھوں نے مسروق سے روایت کی ، مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں ( اس وقت سے ) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے ۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو ۔ ایک ام عبد کے بیٹے ( یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود ) سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی سے شروع کیا اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابوحذیفہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے ۔ اور زہیر بن حرب نے ( حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ) جو ایک لفظ بیان نہیں کیا وہ ہے : جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 165

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6336
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، بإسناد جرير ووكيع في رواية أبي بكر عن أبي معاوية، قدم معاذا قبل أبى ‏.‏ وفي رواية أبي كريب أبى قبل معاذ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا : ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے جریر اور وکیع کی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔ ابو معاویہ سے ابو بکر کی روایت میں انھوں نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقدم رکھا اورابو کریب کی روایت میں ابی ( بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 166

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6337
حدثنا ابن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا ابن أبي عدي، ح وحدثني بشر بن، خالد أخبرنا محمد، - يعني ابن جعفر - كلاهما عن شعبة، عن الأعمش، بإسنادهم واختلفا عن شعبة، في تنسيق الأربعة ‏.‏
ابن ابی عدی اور محمد بن جعفر دونوں نے شعبہ سے ، انھوں نے اعمش سے انھی کی سندکے ساتھ روایت کی ، شعبہ سے روایت کرتے ہوئے ان دونوں نے چاروں کی ترتیب میں اختلاف کیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 167

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6338
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن إبراهيم، عن مسروق، قال ذكروا ابن مسعود عند عبد الله بن عمرو فقال ذاك رجل لا أزال أحبه بعد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ استقرئوا القرآن من أربعة من ابن مسعود وسالم مولى أبي حذيفة وأبى بن كعب ومعاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏
ابراہیم نے مسروق سے روایت کی ، کہا : لوگوں نےحضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا : وہ ایسے ہیں جن سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( ایک بات ) سننے کے بعد سے مسلسل محبت کرتا آیا ہوں ، آپ نے فرمایا تھا؛ " چارآدمیوں سے قرآن پڑھنا سیکھو : ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابوحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 168

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6339
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، بهذا الإسناد وزاد قال شعبة بدأ بهذين لا أدري بأيهما بدأ ‏.‏
ہمیں عبیداللہ بن معاذ نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے اسی سند کےساتھ حدیث سنائی اور کچھ مزید بیان کیا ، شعبہ نے کہا : آپ نے ان دونوں کے نام سے ابتداء کی ، مجھے یاد نہیں کی ان دونوں میں سے کس کا نام پہلے لیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2464.06

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 169

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6340
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال سمعت أنسا، يقول جمع القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة كلهم من الأنصار معاذ بن جبل وأبى بن كعب وزيد بن ثابت وأبو زيد ‏.‏ قال قتادة قلت لأنس من أبو زيد قال أحد عمومتي ‏.‏
شعبہ نے قتادہ سے روایت کی ، کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعہد میں چاراشخاص نے قرآن مجید جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے تھے : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ قتادہ نے کہا : میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا : ابو زید کون؟فرمایا : وہ میرے ایک چچا ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2465.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 170

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6341
حدثني أبو داود، سليمان بن معبد حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، حدثنا قتادة، قال قلت لأنس بن مالك من جمع القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أربعة كلهم من الأنصار أبى بن كعب ومعاذ بن جبل وزيد بن ثابت ورجل من الأنصار يكنى أبا زيد ‏.‏
ہمام نے کہا : قتادہ نے ہمیں حدیث سنائی ، کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کس نے جمع کیا تھا؟انھوں نے کہا : چار آدمیوں نے اور وہ چاروں انصار میں سے تھے : حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور انصار کے ایک شخص جن کی کنیت ابو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2465.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 171

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6342
حدثنا هداب بن خالد، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لأبى ‏"‏ إن الله عز وجل أمرني أن أقرأ عليك ‏"‏ ‏.‏ قال آلله سماني لك قال ‏"‏ الله سماك لي ‏"‏ ‏.‏ قال فجعل أبى يبكي ‏.‏
ہمام نے کہا : ہمیں قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا؛ " اللہ عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے سامنے قرآن مجید پڑھوں ۔ " حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے میرا نام لے کرکہا؟آپ نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے تمھارا نام لیا ۔ " اس پر حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر گریہ طاری ہوگیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:799.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 172

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6343
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبى بن كعب ‏"‏ إن الله أمرني أن أقرأ عليك ‏{‏ لم يكن الذين كفروا‏}‏ ‏"‏ ‏.‏ قال وسماني قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال فبكى ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے قتادہ سے سنا ، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے سامنے ( قرآن مجید کی یہ سورت ) : ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ( البینہ 1 : 98 ) تلاوت کروں ۔ ( حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟آپ نے فرمایا : " ہاں ۔ " تو وہ ( حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) رونے لگے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:799.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 173

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6344
حدثنيه يحيى بن حبيب، حدثنا خالد، - يعني ابن الحارث - حدثنا شعبة، عن قتادة، قال سمعت أنسا، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبى بمثله ‏.‏
خالد بن حارث نے کہا : ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، اسی کے مانند ( جو پچھلی روایات میں ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:799.06

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 174

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6345
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجنازة سعد بن معاذ بين أيديهم ‏ "‏ اهتز لها عرش الرحمن ‏"‏ ‏.‏
ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئےسنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا ، فرمایا : " ان کی ( موت کی ) وجہ سے رحمان کا عرش جنبش میں آگیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2466.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 175

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6346
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا عبد الله بن إدريس الأودي، حدثنا الأعمش، عن أبي، سفيان عن جابر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اهتز عرش الرحمن لموت سعد بن معاذ ‏"‏ ‏.‏
ابو سفیان نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سعد بن معاذ کی موت کی وجہ سے رحمٰن کا عرش جنبش میں آگیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2466.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 176

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6347
حدثنا محمد بن عبد الله الرزي، حدثنا عبد الوهاب بن عطاء الخفاف، عن سعيد، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال وجنازته موضوعة - يعني سعدا - ‏ "‏ اهتز لها عرش الرحمن ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ ان کے جنازے کی چار پائی رکھی ہوئی تھی ۔ ان کی مراد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تھی ۔ فرمایا : " اس کی وجہ سے رحمان کا عرش جنبش میں آگیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2467

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 177

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6348
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء، يقول أهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة حرير فجعل أصحابه يلمسونها ويعجبون من لينها فقال ‏ "‏ أتعجبون من لين هذه لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها وألين ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابو اسحاق سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کا ایک حلہ ہدیہ کیاگیا تو آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کوچھونے اوراس کی گدازی پر تعجب کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم اس حلے کی گدازی پر تعجب کرتے ہو ، جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہت زیادہ اچھے اور زیادہ ملائم ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2468.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 178

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6349
حدثنا أحمد بن عبدة الضبي، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، أنبأني أبو إسحاق، قال سمعت البراء بن عازب، يقول أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بثوب حرير ‏.‏ فذكر الحديث ثم قال ابن عبدة أخبرنا أبو داود حدثنا شعبة حدثني قتادة عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو هذا أو بمثله ‏.‏
احمد بن عبدہ ضبی نے کہا : ہمیں ابو داود نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے اسحاق نے خبر دی ، انھوں نے کہا : میں نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ر یشم کا کپڑا لایاگیا ، اور ( باقی ) حدیث بیان کی ، پھر ابن عبدہ نے کہا : ہمیں ابو داود نے خبر دی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی سے اسی طرح یابالکل اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2468.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 179

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6350
حدثنا محمد بن عمرو بن جبلة، حدثنا أمية بن خالد، حدثنا شعبة، بهذا الحديث بالإسنادين جميعا كرواية أبي داود ‏.‏
امیہ بن خالد نے کہا : ہمیں شعبہ نے یہ حدیث دونوں سندوں سے ابو داود کی روایت کی طرح بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2468.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 180

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6351
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا شيبان، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، أنه أهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم جبة من سندس وكان ينهى عن الحرير فعجب الناس منها فقال ‏ "‏ والذي نفس محمد بيده إن مناديل سعد بن معاذ في الجنة أحسن من هذا ‏"‏ ‏.‏
شیبان نے قتادہ سے روایت کی ، کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سندس ( باریک ریشم ) کا ایک جبہ ہدیہ کیاگیا ، حالانکہ آپ ریشم ( پہننے ) سے منع فرماتے تھے ، لوگوں کو اس ( کی خوبصورتی ) سے تعجب ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمد کی جان ہے!جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے زیادہ اچھے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2469.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 181

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6352
حدثناه محمد بن بشار، حدثنا سالم بن نوح، حدثنا عمر بن عامر، عن قتادة، عن أنس، أن أكيدر، دومة الجندل أهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ حلة فذكر نحوه ولم يذكر فيه وكان ينهى عن الحرير ‏.‏
عمر بن عامر نے قتادہ سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ دومۃ الجندل کے ( بادشاہ ) اکیدرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حلہ ہدیہ کیا ، پھر اسی کے مانند بیان کیا ، البتہ اس میں یہ ذکر نہیں کیا : " حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریشم سے منع فرماتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2469.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 182

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6353
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ سيفا يوم أحد فقال ‏"‏ من يأخذ مني هذا ‏"‏ ‏.‏ فبسطوا أيديهم كل إنسان منهم يقول أنا أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن يأخذه بحقه ‏"‏ ‏.‏ قال فأحجم القوم فقال سماك بن خرشة أبو دجانة أنا آخذه بحقه ‏.‏ قال فأخذه ففلق به هام المشركين ‏.‏
ثابت نے ہمیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا کہ یہ مجھ سے کون لیتا ہے؟ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا؟ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے ( کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا ) سیدنا سماک بن خرشہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا ۔ پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2470

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 183

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6354
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، وعمرو الناقد، كلاهما عن سفيان، قال عبيد الله حدثنا سفيان بن عيينة، قال سمعت ابن المنكدر، يقول سمعت جابر بن عبد الله، يقول لما كان يوم أحد جيء بأبي مسجى وقد مثل به - قال - فأردت أن أرفع الثوب فنهاني قومي ثم أردت أن أرفع الثوب فنهاني قومي فرفعه رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أمر به فرفع فسمع صوت باكية أو صائحة فقال ‏"‏ من هذه ‏"‏ ‏.‏ فقالوا بنت عمرو أو أخت عمرو فقال ‏"‏ ولم تبكي فما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفع ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے کہا : میں نے ابن منکدر کو یہ کہتے ہوئے سنا : میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےسنا ، کہہ رہے تھے : جب احد کی جنگ ہوئی تو میرے والد کو کپڑے سے ڈھانپ کر لایاگیا ، ان کا مثلہ کیاگیا تھا ( ان کے چہرے تک کے اعضاء کاٹ دیے گئے تھے ) میں نے چاہا کہ میں کپڑا اٹھاؤں ( اوردیکھوں ) تو میری قوم کے لوگوں نے مجھے روک دیا ، میں نے پھر کپڑا اٹھانا چاہا تو میری قوم نے مجھے روک دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر کپڑا اٹھایا ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو کپڑا اٹھایا گیا تو ( اس وقت ) ایک رونے والی یا چیخنے والی کی آواز آئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : " یہ کون ہے؟ " تو لوگوں نے بتایا : عمرو کی بیٹی ( شہید ہونے والے عبداللہ کی بہن ) ہے یا ( کہا : ) عمرو کی بہن ( شہید کی پھوپھی ) ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ کیوں روتی ہے؟ان ( کے جنازے ) کو اٹھائے جانے تک فرشتوں نے اپنے پروں سے ان پر سایہ کیا ہواہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2471.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 184

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6355
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال أصيب أبي يوم أحد فجعلت أكشف الثوب عن وجهه، وأبكي، وجعلوا ينهونني ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا ينهاني - قال - وجعلت فاطمة بنت عمرو تبكيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ تبكيه أو لا تبكيه ما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفعتموه ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے محمد بن منکدر سے ، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا ۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے ۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ ( یعنی میری پھوپھی ) وہ بھی اس پر رو رہی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے ، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2471.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 185

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6356
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا ابن جريج، ح وحدثنا إسحاق، بن إبراهيم أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، كلاهما عن محمد بن المنكدر، عن جابر، ‏.‏ بهذا الحديث غير أن ابن جريج، ليس في حديثه ذكر الملائكة وبكاء الباكية ‏.‏
ابن جریج اور معمر دونوں نے محمد بن منکدر سے ، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی حدیث بیان کی ، مگر ابن جریج کی حدیث میں فرشتوں اور رونے والی کے رونے کا ذکر نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2471.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 186

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6357
حدثنا محمد بن أحمد بن أبي خلف، حدثنا زكرياء بن عدي، أخبرنا عبيد الله، بن عمرو عن عبد الكريم، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال جيء بأبي يوم أحد مجدعا فوضع بين يدى النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فذكر نحو حديثهم ‏.‏
عبدالکریم نے محمد بن منکدر سے ، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : اُحد کے دن میرے والد کو اس طرح لایاگیا کہ ان کی ناک اور ان ک کان کاٹ دیے گئے تھے ، انھیں لا کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ر کھ دیا گیا ، پھر ان سب کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2471.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 187

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6358
حدثنا إسحاق بن عمر بن سليط، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن كنانة، بن نعيم عن أبي برزة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في مغزى له فأفاء الله عليه فقال لأصحابه ‏"‏ هل تفقدون من أحد ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم فلانا وفلانا وفلانا ‏.‏ ثم قال ‏"‏ هل تفقدون من أحد ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم فلانا وفلانا وفلانا ‏.‏ ثم قال ‏"‏ هل تفقدون من أحد ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا ‏.‏ قال ‏"‏ لكني أفقد جليبيبا فاطلبوه ‏"‏ ‏.‏ فطلب في القتلى فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم ثم قتلوه فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فوقف عليه فقال ‏"‏ قتل سبعة ثم قتلوه هذا مني وأنا منه هذا مني وأنا منه ‏"‏ ‏.‏ قال فوضعه على ساعديه ليس له إلا ساعدا النبي صلى الله عليه وسلم قال فحفر له ووضع في قبره ‏.‏ ولم يذكر غسلا ‏.‏
حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک جنگ میں تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( فتح کے ساتھ ) مال غنیمت دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں شخص غائب ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلیبیب رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتا ۔ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا ۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا ، اس کے بعد خود مارا گیا ۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے ۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا ۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2472

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 188

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6359
حدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا سليمان بن المغيرة، أخبرنا حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال قال أبو ذر خرجنا من قومنا غفار وكانوا يحلون الشهر الحرام فخرجت أنا وأخي أنيس وأمنا فنزلنا على خال لنا فأكرمنا خالنا وأحسن إلينا فحسدنا قومه فقالوا إنك إذا خرجت عن أهلك خالف إليهم أنيس فجاء خالنا فنثا علينا الذي قيل له فقلت له أما ما مضى من معروفك فقد كدرته ولا جماع لك فيما بعد ‏.‏ فقربنا صرمتنا فاحتملنا عليها وتغطى خالنا ثوبه فجعل يبكي فانطلقنا حتى نزلنا بحضرة مكة فنافر أنيس عن صرمتنا وعن مثلها فأتيا الكاهن فخير أنيسا فأتانا أنيس بصرمتنا ومثلها معها - قال - وقد صليت يا ابن أخي قبل أن ألقى رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاث سنين ‏.‏ قلت لمن قال لله ‏.‏ قلت فأين توجه قال أتوجه حيث يوجهني ربي أصلي عشاء حتى إذا كان من آخر الليل ألقيت كأني خفاء حتى تعلوني الشمس ‏.‏ فقال أنيس إن لي حاجة بمكة فاكفني ‏.‏ فانطلق أنيس حتى أتى مكة فراث على ثم جاء فقلت ما صنعت قال لقيت رجلا بمكة على دينك يزعم أن الله أرسله ‏.‏ قلت فما يقول الناس قال يقولون شاعر كاهن ساحر ‏.‏ وكان أنيس أحد الشعراء ‏.‏ قال أنيس لقد سمعت قول الكهنة فما هو بقولهم ولقد وضعت قوله على أقراء الشعر فما يلتئم على لسان أحد بعدي أنه شعر والله إنه لصادق وإنهم لكاذبون ‏.‏ قال قلت فاكفني حتى أذهب فأنظر ‏.‏ قال فأتيت مكة فتضعفت رجلا منهم فقلت أين هذا الذي تدعونه الصابئ فأشار إلى فقال الصابئ ‏.‏ فمال على أهل الوادي بكل مدرة وعظم حتى خررت مغشيا على - قال - فارتفعت حين ارتفعت كأني نصب أحمر - قال - فأتيت زمزم فغسلت عني الدماء وشربت من مائها ولقد لبثت يا ابن أخي ثلاثين بين ليلة ويوم ما كان لي طعام إلا ماء زمزم فسمنت حتى تكسرت عكن بطني وما وجدت على كبدي سخفة جوع - قال - فبينا أهل مكة في ليلة قمراء إضحيان إذ ضرب على أسمختهم فما يطوف بالبيت أحد وامرأتين منهم تدعوان إسافا ونائلة - قال - فأتتا على في طوافهما فقلت أنكحا أحدهما الأخرى - قال - فما تناهتا عن قولهما - قال - فأتتا على فقلت هن مثل الخشبة غير أني لا أكني ‏.‏ فانطلقتا تولولان وتقولان لو كان ها هنا أحد من أنفارنا ‏.‏ قال فاستقبلهما رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وهما هابطان قال ‏"‏ ما لكما ‏"‏ ‏.‏ قالتا الصابئ بين الكعبة وأستارها قال ‏"‏ ما قال لكما ‏"‏ ‏.‏ قالتا إنه قال لنا كلمة تملأ الفم ‏.‏ وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى استلم الحجر وطاف بالبيت هو وصاحبه ثم صلى فلما قضى صلاته قال أبو ذر ‏.‏ فكنت أنا أول من حياه بتحية الإسلام - قال - فقلت السلام عليك يا رسول الله ‏.‏ فقال ‏"‏ وعليك ورحمة الله ‏"‏ ‏.‏ ثم قال ‏"‏ من أنت ‏"‏ ‏.‏ قال قلت من غفار - قال - فأهوى بيده فوضع أصابعه على جبهته فقلت في نفسي كره أن انتميت إلى غفار ‏.‏ فذهبت آخذ بيده فقدعني صاحبه وكان أعلم به مني ثم رفع رأسه ثم قال ‏"‏ متى كنت ها هنا ‏"‏ ‏.‏ قال قلت قد كنت ها هنا منذ ثلاثين بين ليلة ويوم قال ‏"‏ فمن كان يطعمك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت ما كان لي طعام إلا ماء زمزم ‏.‏ فسمنت حتى تكسرت عكن بطني وما أجد على كبدي سخفة جوع قال ‏"‏ إنها مباركة إنها طعام طعم ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو بكر يا رسول الله ائذن لي في طعامه الليلة ‏.‏ فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وانطلقت معهما ففتح أبو بكر بابا فجعل يقبض لنا من زبيب الطائف وكان ذلك أول طعام أكلته بها ثم غبرت ما غبرت ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنه قد وجهت لي أرض ذات نخل لا أراها إلا يثرب فهل أنت مبلغ عني قومك عسى الله أن ينفعهم بك ويأجرك فيهم ‏"‏ ‏.‏ فأتيت أنيسا فقال ما صنعت قلت صنعت أني قد أسلمت وصدقت ‏.‏ قال ما بي رغبة عن دينك فإني قد أسلمت وصدقت ‏.‏ فأتينا أمنا فقالت ما بي رغبة عن دينكما فإني قد أسلمت وصدقت ‏.‏ فاحتملنا حتى أتينا قومنا غفارا فأسلم نصفهم وكان يؤمهم إيماء بن رحضة الغفاري وكان سيدهم ‏.‏ وقال نصفهم إذا قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة أسلمنا ‏.‏ فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة فأسلم نصفهم الباقي وجاءت أسلم فقالوا يا رسول الله إخوتنا نسلم على الذي أسلموا عليه ‏.‏ فأسلموا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله ‏"‏ ‏.‏
ہداب بن خالد ازدی نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن صامت سے خبر دی ، انھوں نے کہا ، کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے ۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے ۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور ( ہمارے ماموں سے ) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے ۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات ( حماقت سے ) مشہور کر دی ۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے ، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا ۔ ہم چلے ، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے ۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی ۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے ۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا ۔ ابوذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے ۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا ۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا ۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے ، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں ۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی ۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے ۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر ، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں ۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا ۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا ۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں ۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا ( اس لئے کہ طاقتور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے ) ، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی ( بےدین ) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے ( جب تو صابی کا پوچھتا ہے ) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا ، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا ۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں ( یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں ) ۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا ۔ پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا ( جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا ) ۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں ( موٹاپے سے ) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی ۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا ، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں ( اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا ، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے ) ، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں ۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو ( یعنی اساف کا نائلہ سے ) ۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں ۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی ( یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے ) اور میں نے کنایہ نہ کیا ( یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی ، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں ) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا ( جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا ) ۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے ۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے ( یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں ) ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، یہاں تک حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی ۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیک ورحمۃ اللہ ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں ( جیسے کوئی ذکر کرتا ہے ) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں ( قبیلہ ) غفار میں سے ہوں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے مجھے روکا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے ۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں ، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا ۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے ۔ ( یثرب مدینہ کا نام تھا ) ، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے ، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے ۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی ۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا ، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے ۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا ۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور ( قبیلہ ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2473.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 189

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6360
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، أخبرنا النضر بن شميل، حدثنا سليمان، بن المغيرة حدثنا حميد بن هلال، بهذا الإسناد وزاد بعد قوله قلت فاكفني حتى أذهب فأنظر ‏.‏ قال نعم وكن على حذر من أهل مكة فإنهم قد شنفوا له وتجهموا ‏.‏
ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی ، کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حمید بن ہلال نے اسی سند کے ساتھ روایت کی اورابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول : ۔ ۔ ۔ میں نے کہا : اب میری طرف سے تو ( سب کام ) سنبھال تاکہ میں جاؤں اور دیکھوں ۔ کے بعد مزید یہ کہا : اس نے کہا : ہاں اور اہل مکہ سے محتاط رہنا کیونکہہ وہ ان ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نفرت کرنے لگے ہیں اور بُری طرح پیش آتے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2473.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 190

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6361
حدثنا محمد بن المثنى العنزي، حدثني ابن أبي عدي، قال أنبأنا ابن عون، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال قال أبو ذر يا ابن أخي صليت سنتين قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال قلت فأين كنت توجه قال حيث وجهني الله ‏.‏ واقتص الحديث بنحو حديث سليمان بن المغيرة وقال في الحديث فتنافرا إلى رجل من الكهان ‏.‏ قال فلم يزل أخي أنيس يمدحه حتى غلبه - قال - فأخذنا صرمته فضممناها إلى صرمتنا ‏.‏ وقال أيضا في حديثه قال فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت وصلى ركعتين خلف المقام - قال - فأتيته فإني لأول الناس حياه بتحية الإسلام - قال - قلت السلام عليك يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ وعليك السلام من أنت ‏"‏ ‏.‏ وفي حديثه أيضا فقال ‏"‏ منذ كم أنت ها هنا ‏"‏ ‏.‏ قال قلت منذ خمس عشرة ‏.‏ وفيه فقال أبو بكر أتحفني بضيافته الليلة ‏.‏
ابن عون نے حمید بن ہلال سے ، انھوں نے عبداللہ بن صامت سے روایت کی ، کہا : حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا : بھتیجے!میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دو سال پہلے نماز پڑھی ہے ، کہا : میں نے پوچھا : آپ کس طرف رخ کیاکرتے تھے؟انھوں نے کہا : جس طرح اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتاتھا؟پھر ( ابن عون نے ) سلیمان بن مغیرہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ کہا : " ان دونوں کا آپس میں مقابلہ کاہنوں میں سے ایک آدمی کے سامنے ہوا اور میرا بھائی انیس ( اشعار میں مسلسل ) اس ( کاہن ) کی مدح کرتا رہا یہاں تک کہ اس شخص پر غالب آگیا تو ہم نے اس کا گلہ بھی لے لیا اور اسے اپنے گلے میں شامل کرلیا ۔ انھوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا : ( ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، بیت اللہ کاطواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں ۔ کہا : تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں پہلا شخص ہوں جس نے آپ کو اسلامی طریقے سے سلام کیا ۔ تو کہا : میں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلامتی ہو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " اورتم پر بھی سلامتی ہو!تم کون ہو؟اور ان کی حدیث میں یہ بھی ہے : آپ نے پوچھا : " تم کتنے دنوں سے یہاں ہو؟ " کہا : میں نے عرض کی : پندرہ دن سے ، اور اس میں یہ ( بھی ) ہے کہ کہا : ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اس کی آج رات کی میزبانی بطور تحفہ مجھے عطا کردیجئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2473.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 191

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6362
وحدثني إبراهيم بن محمد بن عرعرة السامي، ومحمد بن حاتم، - وتقاربا في سياق الحديث واللفظ لابن حاتم - قالا حدثنا عبد الرحمن بن مهدي حدثنا المثنى بن سعيد عن أبي جمرة عن ابن عباس قال لما بلغ أبا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بمكة قال لأخيه اركب إلى هذا الوادي فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم أنه يأتيه الخبر من السماء فاسمع من قوله ثم ائتني ‏.‏ فانطلق الآخر حتى قدم مكة وسمع من قوله ثم رجع إلى أبي ذر فقال رأيته يأمر بمكارم الأخلاق وكلاما ما هو بالشعر ‏.‏ فقال ما شفيتني فيما أردت ‏.‏ فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة فأتى المسجد فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه وكره أن يسأل عنه حتى أدركه - يعني الليل - فاضطجع فرآه علي فعرف أنه غريب فلما رآه تبعه فلم يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء حتى أصبح ثم احتمل قريبته وزاده إلى المسجد فظل ذلك اليوم ولا يرى النبي صلى الله عليه وسلم حتى أمسى فعاد إلى مضجعه فمر به علي فقال ما أنى للرجل أن يعلم منزله فأقامه فذهب به معه ولا يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء حتى إذا كان يوم الثالث فعل مثل ذلك فأقامه علي معه ثم قال له ألا تحدثني ما الذي أقدمك هذا البلد قال إن أعطيتني عهدا وميثاقا لترشدني فعلت ‏.‏ ففعل فأخبره فقال فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا أصبحت فاتبعني فإني إن رأيت شيئا أخاف عليك قمت كأني أريق الماء فإن مضيت فاتبعني حتى تدخل مدخلي ‏.‏ ففعل فانطلق يقفوه حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه فسمع من قوله وأسلم مكانه فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ارجع إلى قومك فأخبرهم حتى يأتيك أمري ‏"‏ ‏.‏ فقال والذي نفسي بيده لأصرخن بها بين ظهرانيهم ‏.‏ فخرج حتى أتى المسجد فنادى بأعلى صوته أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ‏.‏ وثار القوم فضربوه حتى أضجعوه فأتى العباس فأكب عليه فقال ويلكم ألستم تعلمون أنه من غفار وأن طريق تجاركم إلى الشام عليهم ‏.‏ فأنقذه منهم ثم عاد من الغد بمثلها وثاروا إليه فضربوه فأكب عليه العباس فأنقذه ‏.‏
ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ جب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے ، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ ۔ وہ روانہ ہوا ، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا ، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا ، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس سے تسلی نہیں ہوئی ۔ پھر انہوں نے خود زادراہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجدالحرام میں داخل ہوئے ۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا ، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا ۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے ۔ وہاں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو ۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی ۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا ، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا ، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے ( یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا ) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا ۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ پہنچے ۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات ( یعنی دین قبول کرنے کی ) مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا ۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں“ ۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو ، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص ( قوم ) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف ( قوم ) غفار کے ملک پر سے ہے ( تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے ) ۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور انہیں چھڑا لیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2474

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 192

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6363
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا خالد بن عبد الله، عن بيان، عن قيس بن أبي، حازم عن جرير بن عبد الله، ح وحدثني عبد الحميد بن بيان، حدثنا خالد، عن بيان، قال سمعت قيس بن أبي، حازم يقول قال جرير بن عبد الله ما حجبني رسول الله صلى الله عليه وسلم منذ أسلمت ولا رآني إلا ضحك ‏.‏
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی اور عبد الحمید بن بیان واسطی نے خالد بن عبد اللہ سے ، انھوں نے بیان سے روایت کی ، کہا : میں نے قیس بن ابی حازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا ، حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے جب سے اسلام قبول کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی اپنے حجرے سے باہر نہیں روکا اور آپ نے جب بھی مجھے دیکھا آپ ہنس دیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2475.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 193

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6364
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدث��ا وكيع، وأبو أسامة عن إسماعيل، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا عبد الله بن إدريس، حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال ما حجبني رسول الله صلى الله عليه وسلم منذ أسلمت ولا رآني إلا تبسم في وجهي ‏.‏ زاد ابن نمير في حديثه عن ابن إدريس ولقد شكوت إليه أني لا أثبت على الخيل فضرب بيده في صدري وقال ‏ "‏ اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ‏"‏ ‏.‏
بو بکربن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں وکیع اور ابو اسامہ نے اسماعیل سے حدیث بیان کی ، نیز ابن نمیر نے کہا : ہمیں عبد اللہ بن ادریس نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اسماعیل نے قیس سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب سے میں اسلام لا یا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی گھر سے باہر نہیں رو کا اور آپ نے کبھی مجھے نہیں مگر آپ ہمیشہ میرے سامنے مسکرا ئے ہیں ۔ ابن نمیر نے ابن ادریس سے اپنی روایت میں مزید یہ کہا : میں نے آپ سے شکا یت کی کہ میں گھوڑےپر جم کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا اور فر ما یا : " اے اللہ!اسے ثبات ( مضبوطی ) عطا کر اور اسے ہدایت پہنچانے والاہدایت پا نے والابنا دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2475.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 194

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6365
حدثني عبد الحميد بن بيان، أخبرنا خالد، عن بيان، عن قيس، عن جرير، قال كان في الجاهلية بيت يقال له ذو الخلصة وكان يقال له الكعبة اليمانية والكعبة الشامية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ هل أنت مريحي من ذي الخلصة والكعبة اليمانية والشامية ‏"‏ ‏.‏ فنفرت إليه في مائة وخمسين من أحمس فكسرناه وقتلنا من وجدنا عنده فأتيته فأخبرته - قال - فدعا لنا ولأحمس ‏.‏
عبد الحمید بن بیان نے کہا : ہمیں خ رحمۃ اللہ علیہ الد نے بیان سے خبر دی ، انھوں نے قیس سے ، انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : زمانہ جاہلیت میں ایک عبادت گاہ تھی جس کو ذوالخلصہ کہتے تھے اور اس کو کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ بھی کہا جا تا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما یا : " کیا تم مجھے ذوالخلصہ کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کی اذیت سے راحت دلا ؤ گے؟ " تو میں قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو جوانوں کے ساتھ اس کی طرف گیا ۔ ہم نے اس بت خانے کو تو ڑ دیا اور جن لو گوں کو وہاں پا یا ان سب کو قتل کر دیا پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو خبر سنائی تو آپ نے ہمارے لیے اور ( پورے ) قبیلہ احمس کے لیے دعا فر ما ئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2476.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 195

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6366
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس، بن أبي حازم عن جرير بن عبد الله البجلي، قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا جرير ألا تريحني من ذي الخلصة ‏"‏ ‏.‏ بيت لخثعم كان يدعى كعبة اليمانية ‏.‏ قال فنفرت في خمسين ومائة فارس وكنت لا أثبت على الخيل فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب يده في صدري فقال ‏"‏ اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلق فحرقها بالنار ثم بعث جرير إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يبشره يكنى أبا أرطاة منا فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له ما جئتك حتى تركناها كأنها جمل أجرب ‏.‏ فبرك رسول الله صلى الله عليه وسلم على خيل أحمس ورجالها خمس مرات ‏.‏
جریر نے اسماعیل بن ابی خالد سے انھوں نے قیس بن ابی حازم سے ، انھوں نے حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فر ما یا : " جریر!کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے راحت نہیں دلا ؤ گے؟ " یہ خثعم کا بت خانہ تھا جسے کعبہ یمانیہ بھی کہا جا تا تھا ۔ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : پھر میں ڈیڑھ سو گھڑسوار لے کر اس کی طرف روانہ ہوا اور میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا تھا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی تو آپ نے میرے سینے پر اپنا مبارک ہاتھ مارا اور دعا فر ما یا : " اے اللہ !اس کو ( گھوڑے پر ) جماد ے اور اسے ہدایت پہنچانے والا ہدایت پانے والا بنادے ۔ " ( قیس بن ابی حازم نے ) کہا؛ پھر وہ روانہ ہو ئے اور اس بت خانے کو آگ لگا کر جلا دیا ، پھر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشخبری دینے کے لیے روانہ کیا ۔ اس کی کنیت ابوار طاۃ تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی ، میں آپ کے پاس اسی وقت حاضر ہوا ہوں جب ہم نے اس ( بت خانے ) کو خارش زدہ اونٹ کی طرح ( دیکھنے میں مکروہ ٹوٹا پھوٹا ) کر چھوڑا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور پیا دوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فر ما ئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2476.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 196

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6367
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي ح، وحدثنا محمد بن عباد، حدثنا سفيان، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا مروان، - يعني الفزاري ح وحدثني محمد بن رافع، حدثنا أبو أسامة، كلهم عن إسماعيل، بهذا الإسناد وقال في حديث مروان فجاء بشير جرير أبو أرطاة حصين بن ربيعة يبشر النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
وکیع عبد اللہ بن نمیر ، سفیان ، مروان فرازی اور ابو اسامہ سب نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، اور مروان کی حدیث میں کہا : تو حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے خوش خبری دینے والے ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری دینے والے کے لیے آئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2476.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 197

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6368
حدثنا زهير بن حرب، وأبو بكر بن النضر قالا حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا ورقاء بن عمر اليشكري، قال سمعت عبيد الله بن أبي يزيد، يحدث عن ابن عباس، أنوسلم أتى الخلاء فوضعت له وضوءا فلما خرج قال ‏"‏ من وضع هذا ‏"‏ ‏.‏ في رواية زهير قالوا ‏.‏ وفي رواية أبي بكر قلت ابن عباس ‏.‏ قال ‏"‏ اللهم فقهه ‏"‏ ‏.‏
زہیر بن حرب اور ابو بکر بن نضر نے کہا : ہمیں ہاشم بن قاسم نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ورقا ء بن عمر یشکری نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : میں نے عبید اللہ بن ابی یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہو ئے سنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر ( انسانوں سے ) خالی علاقے میں تشریف لے گئے میں نے ( اس دورا ن میں ) آپ کے لیے وضوکا پا نی رکھ دیا ۔ جب آپ آئے تو آپ نے پو چھا : " یہ پانی کس نے رکھا ہے ۔ ؟ ۔ ۔ ۔ زہیر کی روایت میں ہے ۔ لوگوں نے کہا : اور ابوبکر کی روایت میں ہے ۔ میں نے کہا ۔ ۔ ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۔ آپ نے فر ما یا : " اے اللہ !اسے دین کا گہرا فہم عطا کر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2477

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 198

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6369
حدثنا أبو الربيع العتكي، وخلف بن هشام، وأبو كامل الجحدري كلهم عن حماد، بن زيد - قال أبو الربيع حدثنا حماد بن زيد، - حدثنا أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال رأيت في المنام كأن في يدي قطعة إستبرق وليس مكان أريد من الجنة إلا طارت إليه - قال - فقصصته على حفصة فقصته حفصة على النبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أرى عبد الله رجلا صالحا ‏"‏ ‏.‏
نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں باریک ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور جنت میں کو ئی بھی جگہ جہاں میں جا نا چاہ رہا ہوں ، وہ مجھے اڑا کر وہاں لے جا تا ہے ۔ کہا : میں نے یہ خواب حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتا یا حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میں عبد اللہ ( ابن عمر ) کو ایک نیک آدمی دیکھتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2478

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 199

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6370
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد، - واللفظ لعبد - قالا أخبرنا عبد، الرزاق أخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال كان الرجل في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رأى رؤيا قصها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فتمنيت أن أرى رؤيا أقصها على النبي صلى الله عليه وسلم قال وكنت غلاما شابا عزبا وكنت أنام في المسجد على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأيت في النوم كأن ملكين أخذاني فذهبا بي إلى النار فإذا هي مطوية كطى البئر وإذا لها قرنان كقرنى البئر وإذا فيها ناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار - قال - فلقيهما ملك فقال لي لم ترع ‏.‏ فقصصتها على حفصة فقصتها حفصة على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي من الليل ‏"‏ ‏.‏ قال سالم فكان عبد الله بعد ذلك لا ينام من الليل إلا قليلا ‏.‏
زہری نے سالم سے ، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جو شخص کو ئی خواب دیکھتا تو وہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کرتا ، میری بھی آرزوتھی کہ میں بھی کو ئی خواب دیکھوں اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کروں ۔ میں ایک غیر شادی شدہ نو جوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں مسجد میں سویا کرتا تھا ، میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے دوفرشتوں نے مجھے پکڑا اور جہنم کی طرف لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ کے کنارے پر کنویں کی منڈیر کی طرح تہ در تہ منڈیر بنی ہو ئی ہے اور اس کے دو ستون ہیں جس طرح کنویں کے ستون ہو تے ہیں اور اس کے اندر لو گ ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں تو میں نے کہنا شروع کر دیا ۔ میں آگ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ، میں آگ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں آگ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔ کہا : تو ان دونوں فرشتوں سے ایک اور فرشتہ آکر ملا ، اس نے مجھ سے کہا : تم مت ڈرو ۔ میں نے یہ خواب حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ، حضرت حفصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " عبد اللہ خوب آدمی ہے! اگر یہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کرے ۔ " سالم نے کہا : اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو بہت کم سوتے تھے ۔ ( زیادہ وقت نماز پڑھتے تھے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2479.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 200

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6371
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا موسى بن خالد، ختن الفريابي عن أبي إسحاق الفزاري، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال كنت أبيت في المسجد ولم يكن لي أهل فرأيت في المنام كأنما انطلق بي إلى بئر ‏.‏ فذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث الزهري عن سالم عن أبيه ‏.‏
عبید اللہ بن عمر نے نافع سے ، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں را ت کو مسجد میں سوتا تھا ( اس وقت ) میرے اہل وعیال نہ تھے میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے مجھے ایک کنویں کی طرف لے جا یا گیا ہے پھر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کےہم معنی بیان کیا جو زہری نے سالم سے اور انھوں نے اپنے والد ( عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2479.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 201

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6372
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، سمعت قتادة، يحدث عن أنس، عن أم سليم، أنها قالت يا رسول الله خادمك أنس ادع الله له فقال ‏ "‏ اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيما أعطيته ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : میں نے قتادہ سے سنا ، وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے ، انھوں نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !انس آپ کا خادم ہے آپ اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے تو آپ نے کہا : : " اے اللہ !اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر اور اس کو جو کچھ تو نے عطا کیا ہے ، اس میں برکت عطافر ما

صحيح مسلم حدیث نمبر:2480.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 202

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6373
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، سمعت أنسا، يقول قالت أم سليم يا رسول الله خادمك أنس ‏.‏ فذكر نحوه ‏.‏
ابو داود نے کہا : ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی ، میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا ، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !انس آپ کا خادم ہے ، پھر اسی طرح بیان کیا ( جس طرح پچھلی حدیث میں ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2480.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 203

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6374
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن هشام بن زيد، سمعت أنس بن مالك، يقول مثل ذلك ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ( جس طرح پچھلی حدیث میں ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2480.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 204

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6375
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا سليمان، عن ثابت، عن أنس، قال دخل النبي صلى الله عليه وسلم علينا وما هو إلا أنا وأمي وأم حرام خالتي فقالت أمي يا رسول الله خويدمك ادع الله له - قال - فدعا لي بكل خير وكان في آخر ما دعا لي به أن قال ‏ "‏ اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيه ‏"‏ ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لا ئے ، اس وقت گھر میں صرف میں میری والدہ اور میری خالہ ام حرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں ، میری والدہ نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انس آپ کا چھوٹاسا خادم ہے آپ اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے ۔ آپ نے میرے لیے ہر بھلا ئی کی دعا کی ، آپ نے میرے لیے جو دعاکی اس کے آخر میں آپ نے فر ما یا : " اے اللہ !اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر اور اس کو برکت عطافر ما

صحيح مسلم حدیث نمبر:2481.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 205

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6376
حدثني أبو معن الرقاشي، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة، حدثنا إسحاق، حدثنا أنس، قال جاءت بي أمي أم أنس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أزرتني بنصف خمارها وردتني بنصفه فقالت يا رسول الله هذا أنيس ابني أتيتك به يخدمك فادع الله له ‏.‏ فقال ‏ "‏ اللهم أكثر ماله وولده ‏"‏ ‏.‏ قال أنس فوالله إن مالي لكثير وإن ولدي وولد ولدي ليتعادون على نحو المائة اليوم ‏.‏
اسحٰق نے کہا : مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی کہا : میری والدہ ام انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، انھوں نے اپنی آدھی اوڑھنی سے میری کمر پر چادر باندھ دی تھی اور اوڑھنی میرے شانوں پر ڈال دی تھی ۔ انھوں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ انیس ( انس کی تصغیر ) ہے میرا بیٹا ہے ، میں اسے آپ کے پاس لا ئی ہوں تا کہ یہ آپ کی خدمت کرے ، آپ اس کے لیےاللہ سے دعاکریں تو آپ نے فر ما یا : " اے اللہ !اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم!میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاداور اولاد کی اولاد کی گنتی سو کے لگ بھگ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2481.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 206

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6377
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جعفر، - يعني ابن سليمان - عن الجعد أبي عثمان، قال حدثنا أنس بن مالك، قال مر رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعت أمي أم سليم صوته فقالت بأبي وأمي يا رسول الله أنيس ‏.‏ فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات قد رأيت منها اثنتين في الدنيا وأنا أرجو الثالثة في الآخرة ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ہمارے گھر کے قریب سے ) گزرے میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی آواز سنی انھوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان !یہ انیس ہے اس کے لیے دعا فر مائیے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تین دعائیں کیں ۔ جن میں سے دو دعاؤں ( کی قبولیت ) کو میں نے دیکھ لیا اور تیسری ( کی قبولیت ) کے متعلق آخرت میں امید رکھتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2481.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 207

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6378
حدثنا أبو بكر بن نافع، حدثنا بهز، حدثنا حماد، أخبرنا ثابت، عن أنس، قال أتى على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا ألعب مع الغلمان - قال - فسلم علينا فبعثني إلى حاجة فأبطأت على أمي فلما جئت قالت ما حبسك قلت بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجة ‏.‏ قالت ما حاجته قلت إنها سر ‏.‏ قالت لا تحدثن بسر رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدا ‏.‏ قال أنس والله لو حدثت به أحدا لحدثتك يا ثابت ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لا ئے اس وقت میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہا : آپ نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا تو میں اپنی والد ہ کے پاس تا خیر سے پہنچا ، جب میں آیا تو والدہ نے پو چھا : تمھیں دیر کیوں ہوئی ۔ ؟میں نے کہا : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا م سے بھیجا تھا ۔ انھوں نے پو چھا : آپ کا وہ کام کیا تھا؟ میں نے کہا : وہ ایک راز ہے ۔ میری والدہ نے کہا : تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی پر افشانہ کرنا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! ثابت !اگر میں وہ راز کسی کو بتاتاتو تمہیں ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طلبگار ہو ) ضرور بتا تا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2482.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 208

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6379
حدثنا حجاج بن الشاعر، حدثنا عارم بن الفضل، حدثنا معتمر بن سليمان، قال سمعت أبي يحدث، عن أنس بن مالك، قال أسر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم سرا فما أخبرت به أحدا بعد ‏.‏ ولقد سألتني عنه أم سليم فما أخبرتها به ‏.‏
معتمر بن سلیمان نے کہا : میں نے اپنے والد سے سنا ، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے ۔ ( کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راز میں مجھے شریک کیا ۔ میں نے اب تک وہ راز کسی کو نہیں بتا یا میری والد ہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے متعلق پو چھا ، میں نے وہ راز ان کو بھی نہیں بتا یا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2482.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 209

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6380
حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسحاق بن عيسى، حدثني مالك، عن أبي النضر، عن عامر بن سعد، قال سمعت أبي يقول، ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لحى يمشي أنه في الجنة إلا لعبد الله بن سلام ‏.‏
عامر بن سعد نے کہا : میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہو ئے سنا ، میں نے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی زندہ چلتے پھرتے شخص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا ، بلا شبہ وہ جنت میں جا ئے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2383

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 210

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6381
حدثنا محمد بن المثنى العنزي، حدثنا معاذ بن معاذ، حدثنا عبد الله بن عون، عن محمد بن سيرين، عن قيس بن عباد، قال كنت بالمدينة في ناس فيهم بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فجاء رجل في وجهه أثر من خشوع فقال بعض القوم هذا رجل من أهل الجنة هذا رجل من أهل الجنة ‏.‏ فصلى ركعتين يتجوز فيهما ثم خرج فاتبعته فدخل منزله ودخلت فتحدثنا فلما استأنس قلت له إنك لما دخلت قبل قال رجل كذا وكذا قال سبحان الله ما ينبغي لأحد أن يقول ما لا يعلم وسأحدثك لم ذاك رأيت رؤيا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصصتها عليه رأيتني في روضة - ذكر سعتها وعشبها وخضرتها - ووسط الروضة عمود من حديد أسفله في الأرض وأعلاه في السماء في أعلاه عروة ‏.‏ فقيل لي ارقه ‏.‏ فقلت له لا أستطيع ‏.‏ فجاءني منصف - قال ابن عون والمنصف الخادم - فقال بثيابي من خلفي - وصف أنه رفعه من خلفه بيده - فرقيت حتى كنت في أعلى العمود فأخذت بالعروة فقيل لي استمسك ‏.‏ فلقد استيقظت وإنها لفي يدي فقصصتها على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ تلك الروضة الإسلام وذلك العمود عمود الإسلام وتلك العروة عروة الوثقى وأنت على الإسلام حتى تموت ‏"‏ ‏.‏ قال والرجل عبد الله بن سلام ‏.‏
معاذ بن معاذ نے کہا : ہمیں عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی ، انھوں نے قیس بن عباد سے روایت کی ، کہا : میں مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں کےساتھ تھا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے ، پھر ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع کا اثر ( نظر آتا ) تھا ، لوگوں میں سے ایک نے کہا : یہ اہل جنت میں سے ایک آدمی ہے ۔ اس آدمی نے دو رکعت نماز پڑھی جن میں اختصار کیا پھر چلاگیا ۔ میں بھی اس کے پیچھے گیا ، پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگیا ، میں بھی ( اجازت ) لے کر اندر گیا ، پھر ہم نے آپس میں باتیں کیں ۔ جب وہ کچھ میرے ساتھ مانوس ہوگئے تو میں نے ان سے کہا : جب آپ ( کچھ دیر ) پہلے مسجد میں آئے تھے تو آپ کے متعلق ایک شخص نے اس طرح کہاتھا ۔ انھوں نے کہا : سبحان اللہ!کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کوئی بات کہے جس کا اسے پوری طرح علم نہیں اورمیں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ کیونکر ہوا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور وہ خواب آپ کے سامنے بیان کیا ۔ میں نے اپنے آپ کو ایک باغ میں دیکھا ۔ انھوں نے اس باغ کی وسعت ، اس کے پودوں اور اس کی شادابی کے بارے میں بتایا ۔ باغ کے وسط میں لوہے کا ایک ستون تھا ، اس کا نیچے کا حصہ زمین کے اندر تھا اور اسکے اوپر کا حصہ آسمان میں تھا ، اس کے اوپر کی جانب ایک حلقہ تھا ، مجھ سے کہا گیا : اس پرچڑھو ۔ میں نے کہا؛میں اس پر نہیں چڑھ سکتا ، پھر ایک منصف آیا ۔ ابن عون نے کہا : منصف ( سے مراد ) خادم ہےاس نے میرے پیچھے سے میرے کپڑے تھام لیے اور انھوں ( عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے واضح کیا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے انھیں پیچھے سےاوپر اٹھایا تو میں اوپر چڑھ گیا یہاں تک کہ میں ستون کی چوٹی پر پہنچ گیا اور حلقے کو پکڑ لیا تو مجھ سےکہا گیا : اس کو مضبوطی سے پکڑ رکھو اور وہ میرے ہاتھ ہی میں تھا کہ میں جاگ گیا ۔ میں نے یہ ( خواب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" وہ باغ اسلام ہے ۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ ( ایمان کا ) مضبوط حلقہ ہے اور تم موت تک اسلام پر رہو گے ۔ "" ( قیس بن عباد نے ) کہا : اور وہ شخص عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2484.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 211

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6382
حدثنا محمد بن عمرو بن عباد بن جبلة بن أبي رواد، حدثنا حرمي بن عمارة، حدثنا قرة بن خالد، عن محمد بن سيرين، قال قال قيس بن عباد كنت في حلقة فيها سعد بن مالك وابن عمر فمر عبد الله بن سلام فقالوا هذا رجل من أهل الجنة ‏.‏ فقمت فقلت له إنهم قالوا كذا وكذا ‏.‏ قال سبحان الله ما كان ينبغي لهم أن يقولوا ما ليس لهم به علم إنما رأيت كأن عمودا وضع في روضة خضراء فنصب فيها وفي رأسها عروة وفي أسفلها منصف - والمنصف الوصيف - فقيل لي ارقه ‏.‏ فرقيت حتى أخذت بالعروة فقصصتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يموت عبد الله وهو آخذ بالعروة الوثقى ‏"‏ ‏.‏
قرہ بن خالد نے ہمیں محمد بن سیرین سے حدیث سنائی انھوں نے کہا : قیس بن عباد نے کہا : میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں حضرت سعد بن مالک اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجودتھے اتنے میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو لو گوں نے کہا : یہ اہل جنت میں سے ایک شخص ہے میں اٹھا اور ان سے کہا : آپ کے متعلق لو گ اس اس طرح کہہ رہے تھے ، انھوں نے کہا : سبحان اللہ !انھیں زیبا نہیں کہ وہ ایسی بات کہیں جس کا انھیں ( پوری طرح ) علم نہ ہو ۔ میں نے ( خواب میں ) دیکھا کہ ایک ستون جو ایک سر سبز باغ کے اندر لا کر اس میں نصب کیا گیا تھا ۔ اس کی چوٹی پر ایک حلقہ تھا اور اس کے نیچے ایک منصف تھا ۔ اور منصف خدمت گا ر ہو تا ہے ۔ مجھ سے کہا : گیا : اس پر چڑھ جاؤ میں اس پر چڑھ گیا یہاں تک کہ حلقے کو پکڑ لیا ، پھر میں نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : عبد اللہ کی مو ت آئے گی تو اس نے عروہ ثقیٰ ( ایمان کا مضبوط حلقہ ) تھا م رکھا ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2484.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 212

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6383
حدثنا قتيبة بن سعيد، وإسحاق بن إبراهيم، - واللفظ لقتيبة - حدثنا جرير، عن الأعمش، عن سليمان بن مسهر، عن خرشة بن الحر، قال كنت جالسا في حلقة في مسجد المدينة - قال - وفيها شيخ حسن الهيئة وهو عبد الله بن سلام - قال - فجعل يحدثهم حديثا حسنا - قال - فلما قام قال القوم من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا ‏.‏ قال فقلت والله لأتبعنه فلأعلمن مكان بيته ‏.‏ قال فتبعته فانطلق حتى كاد أن يخرج من المدينة ثم دخل منزله - قال - فاستأذنت عليه فأذن لي فقال ما حاجتك يا ابن أخي قال فقلت له سمعت القوم يقولون لك لما قمت من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا ‏.‏ فأعجبني أن أكون معك قال الله أعلم بأهل الجنة وسأحدثك مم قالوا ذاك إني بينما أنا نائم إذ أتاني رجل فقال لي قم ‏.‏ فأخذ بيدي فانطلقت معه - قال - فإذا أنا بجواد عن شمالي - قال - فأخذت لآخذ فيها فقال لي لا تأخذ فيها فإنها طرق أصحاب الشمال - قال - فإذا جواد منهج على يميني فقال لي خذ ها هنا ‏.‏ فأتى بي جبلا فقال لي اصعد - قال - فجعلت إذا أردت أن أصعد خررت على استي - قال - حتى فعلت ذلك مرارا - قال - ثم انطلق بي حتى أتى بي عمودا رأسه في السماء وأسفله في الأرض في أعلاه حلقة فقال لي ‏.‏ اصعد فوق هذا ‏.‏ قال قلت كيف أصعد هذا ورأسه في السماء - قال - فأخذ بيدي فزجل بي - قال - فإذا أنا متعلق بالحلقة - قال - ثم ضرب العمود فخر - قال - وبقيت متعلقا بالحلقة حتى أصبحت - قال - فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقصصتها عليه فقال ‏ "‏ أما الطرق التي رأيت عن يسارك فهي طرق أصحاب الشمال - قال - وأما الطرق التي رأيت عن يمينك فهي طرق أصحاب اليمين وأما الجبل فهو منزل الشهداء ولن تناله وأما العمود فهو عمود الإسلام وأما العروة فهي عروة الإسلام ولن تزال متمسكا بها حتى تموت ‏"‏ ‏.‏
خرشہ بن حر سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا ، کہا : اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے ۔ وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، کہا : انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں ، کہا : جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو ، وہ اس کو دیکھے ۔ میں نے ( اپنے دل میں ) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا ۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا ، وہ چلے ، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں ، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ انہوں نے اجازت دی ، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے ، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں ۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو ۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا ، میں اس کے ساتھ چلا ، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا ، یہ بائیں طرف والوں ( یعنی کافروں ) کی راہیں ہیں ۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا ۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہا تو پیٹھ کے بل گرا ۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا ۔ پھر وہ مجھے لے چلا ، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں ، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا ۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا ۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے ۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں ۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا ( اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا ) ۔ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں ، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں ، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں ۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے ، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون ، اسلام کا ستون ہے اور حلقہ ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا ۔ ( اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے ، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2484.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 213

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6384
حدثنا عمرو الناقد، وإسحاق بن إبراهيم، وابن أبي عمر، كلهم عن سفيان، قال عمرو حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سعيد، عن أبي هريرة، أن عمر، مر بحسان وهو ينشد الشعر في المسجد فلحظ إليه فقال قد كنت أنشد وفيه من هو خير منك ‏.‏ ثم التفت إلى أبي هريرة فقال أنشدك الله أسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ أجب عني اللهم أيده بروح القدس ‏"‏ ‏.‏ قال اللهم نعم ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے زہری سے ، انھوں نے سعید ( بن مسیب ) سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے ( معلوم ہوا کہ اشعار جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہو مسجد میں پڑھنا درست ہے ) ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ( غصہ سے ) دیکھا ۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو مسجد میں ( اس وقت بھی ) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود تھے ۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے حسان! میری طرف سے جواب دے ، اے اللہ اس کی روح القدس ( جبرائیل علیہ السلام ) سے مدد کر ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یا اللہ تو جانتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2485.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 214

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6385
حدثناه إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، وعبد بن حميد، عن عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، أن حسان، قال في حلقة فيهم أبو هريرة أنشدك الله يا أبا هريرة أسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فذكر مثله ‏.‏
معمر نے زہری سے ، انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حلقے میں کہا جس میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا؟اس کے بعد اس کے مانند یوں بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2485.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 215

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6386
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أنه سمع حسان بن ثابت الأنصاري، يستشهد أبا هريرة أنشدك الله هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم أيده بروح القدس ‏"‏ ‏.‏ قال أبو هريرة نعم ‏.‏
زہری نے کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے بتایا کہ انھوں نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گواہی طلب کررہے تھے ، ( کہہ رہے تھے : ) میں تمھارے سامنے اللہ کا نام لیتا ہوں! کیاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناتھا ۔ " حسان!اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دو ۔ اےاللہ!روح القدس کے ذریعے سے اس کی تائید فرما! " ؟ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2485.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 216

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6387
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عدي، - وهو ابن ثابت - قال سمعت البراء بن عازب، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لحسان بن ثابت ‏ "‏ اهجهم أو هاجهم وجبريل معك ‏"‏ ‏.‏
معاذ نے کہا : ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا : " ان ( کافروں ) کی ہجو کرو ، یا ( فرمایا : ) ہجو میں ان کا مقابلہ کرو جبرائیل تمھارے ساتھ ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2486.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 217

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6388
حدثنيه زهير بن حرب، حدثنا عبد الرحمن، ح وحدثني أبو بكر بن نافع، حدثنا غندر، ح وحدثنا ابن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، وعبد الرحمن، كلهم عن شعبة، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
محمد بن جعفر غندر اور عبدا الرحمان ( بن مہدی ) دونوں نے شعبہ سے اسی سندک سا تھ اسی کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2486.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 218

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6389
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، أن حسان بن ثابت، كان ممن كثر على عائشة فسببته فقالت يا ابن أختي دعه فإنه كان ينافح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابو اسامہ نے ہشام ( بن عروہ ) سے ، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق بہت کچھ کہا تھا ( تہمت لگانے والوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے ) ، میں نے ان کو برا بھلا کہا توحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : بھتیجے!ان کو کچھ نہ کہو ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کو جواب دیتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2487.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 219

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6390
حدثناه عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبدة، عن هشام، بهذا الإسناد ‏.‏
عبدہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2487.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 220

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6391
حدثني بشر بن خالد، أخبرنا محمد، - يعني ابن جعفر - عن شعبة، عن سليمان، عن أبي الضحى، عن مسروق، قال دخلت على عائشة وعندها حسان بن ثابت ينشدها شعرا يشبب بأبيات له فقال حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل فقالت له عائشة لكنك لست كذلك ‏.‏ قال مسروق فقلت لها لم تأذنين له يدخل عليك وقد قال الله ‏{‏ والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم‏}‏ فقالت فأى عذاب أشد من العمى إنه كان ينافح أو يهاجي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
محمد بن جعفر نے شعبہ سے ، انھوں نے سلیمان سے ، انھوں نے ابو ضحیٰ سے ، انھوں نے مسروق سے روایت کی کہا : کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی ۔ وہ شعر یہ ہے کہ : ”پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں ۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے“ ( یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے ) ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے ( یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے ) ۔ مسروق نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ ”وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات ( یعنی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے ) کا بیڑا اٹھایا اس کے واسطے بڑا عذاب ہے ۔ ( حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حد لگائی ) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کی جوابدہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا ۔ ( اس لئے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2488.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 221

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6392
حدثناه ابن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، في هذا الإسناد وقال قالت كان يذب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ ولم يذكر حصان رزان ‏.‏
ابن ابی عدی نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورکہا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کرتے تھے ، انھوں نے ( حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مدح والاحصہ ) " وہ پاکیزہ ہیں ، عقل مند ہیں " بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2488.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 222

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6393
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا يحيى بن زكرياء، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت قال حسان يا رسول الله ائذن لي في أبي سفيان قال ‏ "‏ كيف بقرابتي منه ‏"‏ ‏.‏ قال والذي أكرمك لأسلنك منهم كما تسل الشعرة من الخمير ‏.‏ فقال حسان وإن سنام المجد من آل هاشم بنو بنت مخزوم ووالدك العبد قصيدته هذه ‏.‏
یحییٰ بن زکریا نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ابو سفیان ( مغیرہ بن حارث بن عبدالمطلب ) کی ہجو کرنے کی اجازت دیجئے ، آپ نے فرمایا : "" اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا ہوگا؟ "" حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا فرمائی!میں آپ کو ان میں سے اس طرح باہرنکال لوں گا جس طرح خمیر سے بال کو نکال لیا جاتاہے ، پھر حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قصیدہ کہا : اور آل ہاشم میں سے عظمت ومجد کی چوٹی پر وہ ہیں جو بنت مخزوم ( فاطمہ بنت عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم ) کی اولاد ہیں ( ابو طالب ، عبداللہ اور زبیر ) اورتیرا باپ تو غلام ( کنیز کا بیٹا ) تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2489.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 223

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6394
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبدة، حدثنا هشام بن عروة، بهذا الإسناد قالت استأذن حسان بن ثابت النبي صلى الله عليه وسلم في هجاء المشركين ‏.‏ ولم يذكر أبا سفيان وقال بدل الخمير العجين ‏.‏
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت مانگی ۔ اور ( عبدہ نے ) ابو سفیان کا ذکر نہیں کیا اور ۔ ۔ ۔ خمیر کے بجائے ۔ گندھا ہوا آٹا کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2489.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 224

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6395
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث، حدثني أبي، عن جدي، حدثني خالد بن يزيد، حدثني سعيد بن أبي هلال، عن عمارة بن غزية، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، بن عبد الرحمن عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اهجوا قريشا فإنه أشد عليها من رشق بالنبل ‏"‏ ‏.‏ فأرسل إلى ابن رواحة فقال ‏"‏ اهجهم ‏"‏ ‏.‏ فهجاهم فلم يرض فأرسل إلى كعب بن مالك ثم أرسل إلى حسان بن ثابت فلما دخل عليه قال حسان قد آن لكم أن ترسلوا إلى هذا الأسد الضارب بذنبه ثم أدلع لسانه فجعل يحركه فقال والذي بعثك بالحق لأفرينهم بلساني فرى الأديم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تعجل فإن أبا بكر أعلم قريش بأنسابها - وإن لي فيهم نسبا - حتى يلخص لك نسبي ‏"‏ ‏.‏ فأتاه حسان ثم رجع فقال يا رسول الله قد لخص لي نسبك والذي بعثك بالحق لأسلنك منهم كما تسل الشعرة من العجين ‏.‏ قالت عائشة فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لحسان ‏"‏ إن روح القدس لا يزال يؤيدك ما نافحت عن الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ وقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ هجاهم حسان فشفى واشتفى ‏"‏ ‏.‏ قال حسان هجوت محمدا فأجبت عنه وعند الله في ذاك الجزاء هجوت محمدا برا تقيا رسول الله شيمته الوفاء فإن أبي ووالده وعرضي لعرض محمد منكم وقاء ثكلت بنيتي إن لم تروها تثير النقع من كنفى كداء يبارين الأعنة مصعدات على أكتافها الأسل الظماء تظل جيادنا متمطرات تلطمهن بالخمر النساء فإن أعرضتمو عنا اعتمرنا وكان الفتح وانكشف الغطاء وإلا فاصبروا لضراب يوم يعز الله فيه من يشاء وقال الله قد أرسلت عبدا يقول الحق ليس به خفاء وقال الله قد يسرت جندا هم الأنصار عرضتها اللقاء لنا في كل يوم من معد سباب أو قتال أو هجاء فمن يهجو رسول الله منكم ويمدحه وينصره سواء وجبريل رسول الله فينا وروح القدس ليس له كفاء
ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ "" قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو ۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی ۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے ( یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں ) ۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں ، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے ۔ پھر حسان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے ، قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا ۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفاء دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا ۔ حسان نے کہا کہ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا ۔ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں ، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے ۔ میرے باپ دادا اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں ۔ اگر کداء ( مکہ کے دروازہ پر گھاٹی ) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں ۔ ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں ، ان کے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے ، ان کے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں ۔ اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا ۔ نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے ، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں کچھ شبہہ نہیں ہے ۔ ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں ، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے ۔ تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں ۔ اور ( روح القدس ) جبریل علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ہم میں بھیجاگیا ہے اور روح القدس کا ( کائنات میں ) کوئی مد مقابل نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2490

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 225

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6396
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا عمر بن يونس اليمامي، حدثنا عكرمة بن عمار، عن أبي كثير، يزيد بن عبد الرحمن حدثني أبو هريرة، قال كنت أدعو أمي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فأسمعتني في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أكره فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي قلت يا رسول الله إني كنت أدعو أمي إلى الإسلام فتأبى على فدعوتها اليوم فأسمعتني فيك ما أكره فادع الله أن يهدي أم أبي هريرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم اهد أم أبي هريرة ‏"‏ ‏.‏ فخرجت مستبشرا بدعوة نبي الله صلى الله عليه وسلم فلما جئت فصرت إلى الباب فإذا هو مجاف فسمعت أمي خشف قدمى فقالت مكانك يا أبا هريرة ‏.‏ وسمعت خضخضة الماء قال - فاغتسلت ولبست درعها وعجلت عن خمارها ففتحت الباب ثم قالت يا أبا هريرة أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله - قال - فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتيته وأنا أبكي من الفرح - قال - قلت يا رسول الله أبشر قد استجاب الله دعوتك وهدى أم أبي هريرة ‏.‏ فحمد الله وأثنى عليه وقال خيرا - قال - قلت يا رسول الله ادع الله أن يحببني أنا وأمي إلى عباده المؤمنين ويحببهم إلينا - قال - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم حبب عبيدك هذا - يعني أبا هريرة وأمه - إلى عبادك المؤمنين وحبب إليهم المؤمنين ‏"‏ ‏.‏ فما خلق مؤمن يسمع بي ولا يراني إلا أحبني ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی ۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی ، آج اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش ہو کر نکلا ۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا ۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی ۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہرا رہ ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی ، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے ۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے ۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنایا مجھے دیکھا ہواور میرےساتھ محبت نہ کی ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2491

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 226

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6397
حدثنا قتيبة بن سعيد، وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب جميعا عن سفيان، قال زهير حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن الأعرج، قال سمعت أبا هريرة، يقول إنكم تزعمون أن أبا هريرة، يكثر الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم والله الموعد كنت رجلا مسكينا أخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني وكان المهاجرون يشغلهم الصفق بالأسواق وكانت الأنصار يشغلهم القيام على أموالهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من يبسط ثوبه فلن ينسى شيئا سمعه مني ‏"‏ ‏.‏ فبسطت ثوبي حتى قضى حديثه ثم ضممته إلى فما نسيت شيئا سمعته منه ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے زہری سے ، انھوں نے اعرج سےروایت کی ، کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : تم یہ سمجھتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے ، اللہ ہی کے پاس پیشی ہونی ہے ۔ میں ایک مسکین آدمی تھا ، پیٹ بھرجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہتاتھا ۔ مہاجروں کو بازار میں گہما گہمی مشغول رکھتی تھی اور انصار کو اپنے مال ( مویشی ) وغیرہ کی نگہداشت مشغول رکھتی تھی ، تو ( جب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کون اپنا کپڑا پھیلائے گا ، پھر جو چیز بھی اس نے مجھ سے سنی اسے ہرگز نہیں بھولے گا ۔ " تو میں نے اپنا کپڑا پھیلا دیا ، یہاں تک کہ آپ نے اپنی بات مکمل کی تو میں نے وہ ( کپڑا سمیٹ کر ) اپنے ساتھ لگا لیا ، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اس میں سے کوئی چیز کبھی نہ بھولا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2492.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 227

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6398
حدثني عبد الله بن جعفر بن يحيى بن خالد، أخبرنا معن، أخبرنا مالك، ح وحدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، كلاهما عن الزهري، عن الأعرج، عن أبي، هريرة بهذا الحديث غير أن مالكا، انتهى حديثه عند انقضاء قول أبي هريرة ولم يذكر في حديثه الرواية عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من يبسط ثوبه ‏"‏ ‏.‏ إلى آخره ‏.‏
مالک بن انس اور معمر نے زہری سے ، انھوں نے اعرج سے اور انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ، مگر مالک کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات پر ختم ہو گئی ۔ انھوں نے اپنی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ یہ بات : " کون اپنا کپڑا پھیلا ئےگا : " آخر تک بیان نہیں کی ،

صحيح مسلم حدیث نمبر:2492.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 228

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6399
وحدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن، شهاب أن عروة بن الزبير، حدثه أن عائشة قالت ألا يعجبك أبو هريرة جاء فجلس إلى جنب حجرتي يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم يسمعني ذلك وكنت أسبح فقام قبل أن أقضي سبحتي ولو أدركته لرددت عليه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يسرد الحديث كسردكم ‏.‏
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی عروہ بن زبیر نے انھیں حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : کیا تمھیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( ایسا کرتے ہوئے ) اچھے نہیں لگتے کہ وہ آئے میرے حجرے کے ساتھ بیٹھ گئےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرنے لگے وہ مجھے ( یہ ) احادیث سنا رہے تھے ۔ میں نفل پڑھ رہی تھی تو وہ میرے نوافل ختم کرنے سے پہلے اٹھ گئے ۔ اگر میں ( نوافل ختم کرنے کے بعد ) انھیں مو جو د پا تی تو میں ان کو جواب میں یہ کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح تسلسل سے ایک کے بعد دوسری بات ارشاد نہیں فر ما تےتھے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا : حضرت سعید بن مسیب نے روایت کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : لو گ کہتے ہیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت احادیث بیان کرتے ہیں اور پیشی اللہ کے سامنے ہو نی ہے نیز وہ کہتے ہیں ، کیا وجہ ہے کہ مہاجرین اور انصار ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح احادیث بیان نہیں کرتے ؟ میں تم کو اس کے بارے میں بتا تا ہوں ۔ میرے انصاری بھا ئیوں کو ان کی زمینوں کاکام مشغول رکھتا تھا اور میرے مہاجر بھا ئیوں کو بازار کی خریدو فروخت مصروف رکھتی تھی اور میں پیٹ بھرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگا رہتا تھا ، جب دوسرے لو گ غائب ہو تے تو میں حاضر رہتا تھا اور جن باتوں کو وہ بھول جا تے تھے میں ان کو یا د رکھتا تھا ۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "" تم میں سے کو ن شخص اپنا کپڑا بچھائے گا ۔ تا کہ میری یہ بات ( حدیث ) سنے پھر اس ( کپڑے ) کو اپنے سینے سے لگا لے تو اس نے جو کچھ سنا ہو گا اس میں سے کو ئی چیز نہیں بھولے گا ۔ "" میں نے ایک چادر جو میرے کندھوں پر تھی پھیلا دی یہاں تک کہ آپ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو میں نے اس چادر کو اپنے سینے کے ساتھ اکٹھا کر لیا تو اس دن کے بعد کبھی کو ئی ایسی چیز نہیں بھولا جو آپ نے مجھ سے بیان فر ما ئی ۔ اگر دو آیتیں نہ ہو تیں ، جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل فر ما ئی ہیں تو میں کبھی کوئی چیز بیان نہ کرتا ( وہ آیتیں یہ ہیں ) "" وہ لو گ جو ہماری اتاری ہو ئی کھلی باتوں اور ہدایت کو چھپا تے ہیں ۔ ۔ ۔ دونوں آیتوں کے آخر تک ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2493

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 229

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6400
قال ابن شهاب وقال ابن المسيب إن أبا هريرة قال يقولون إن أبا هريرة قد أكثر والله الموعد ويقولون ما بال المهاجرين والأنصار لا يتحدثون مثل أحاديثه وسأخبركم عن ذلك إن إخواني من الأنصار كان يشغلهم عمل أرضيهم وإن إخواني من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق وكنت ألزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني فأشهد إذا غابوا وأحفظ إذا نسوا ولقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما ‏"‏ أيكم يبسط ثوبه فيأخذ من حديثي هذا ثم يجمعه إلى صدره فإنه لم ينس شيئا سمعه ‏"‏ ‏.‏ فبسطت بردة على حتى فرغ من حديثه ثم جمعتها إلى صدري فما نسيت بعد ذلك اليوم شيئا حدثني به ولولا آيتان أنزلهما الله في كتابه ما حدثت شيئا أبدا ‏{‏ إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدى‏}‏ إلى آخر الآيتين ‏.‏
شعیب نے زہری سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے بتا یا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا : تم لو گ یہ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت احادیث بیان کرتا ہے ۔ آگے ان کی حدیث کی طرح ( بیان کیا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2492.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 230

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6401
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، وابن أبي عمر - واللفظ لعمرو - قال إسحاق أخبرنا وقال الآخرون، حدثنا سفيان بن، عيينة عن عمرو، عن الحسن بن محمد، أخبرني عبيد الله بن أبي رافع، - وهو كاتب علي قال سمعت عليا، رضى الله عنه وهو يقول بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا والزبير والمقداد فقال ‏"‏ ائتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها ‏"‏ ‏.‏ فانطلقنا تعادى بنا خيلنا فإذا نحن بالمرأة فقلنا أخرجي الكتاب ‏.‏ فقالت ما معي كتاب ‏.‏ فقلنا لتخرجن الكتاب أو لتلقين الثياب ‏.‏ فأخرجته من عقاصها فأتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن أبي بلتعة إلى ناس من المشركين من أهل مكة يخبرهم ببعض أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا حاطب ما هذا ‏"‏ ‏.‏ قال لا تعجل على يا رسول الله إني كنت امرأ ملصقا في قريش - قال سفيان كان حليفا لهم ولم يكن من أنفسها - وكان ممن كان معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها أهليهم فأحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم أن أتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي ولم أفعله كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ فقال عمر دعني يا رسول الله أضرب عنق هذا المنافق ‏.‏ فقال ‏"‏ إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم ‏"‏ ‏.‏ فأنزل الله عز وجل ‏{‏ يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء‏}‏ وليس في حديث أبي بكر وزهير ذكر الآية وجعلها إسحاق في روايته من تلاوة سفيان ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ ، عمرو ناقد ، زہیر بن حرب ، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی ، الفاظ عمرو کے ہیں ۔ اسحاق نے کہا : ہمیں خبر دی ، دوسروں نے کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو ( بن دینار ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے ، خبر دی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی ، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال ۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار ۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا ۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے ، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام ( اور اس میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا ( ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے ۔ میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے ، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو ( بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں ) میں نے تمہیں بخش دیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“ ۔ ( سورۃ : الممتحنہ : 1 ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2494.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 232

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6402
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن فضيل، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد الله بن إدريس، ح وحدثنا رفاعة بن الهيثم الواسطي، حدثنا خالد، - يعني ابن عبد الله - كلهم عن حصين، عن سعد بن عبيدة، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي، قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا مرثد الغنوي والزبير بن العوام وكلنا فارس فقال ‏ "‏ انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن بها امرأة من المشركين معها كتاب من حاطب إلى المشركين ‏"‏ ‏.‏ فذكر بمعنى حديث عبيد الله بن أبي رافع عن علي ‏.‏
ابو عبد الرحمٰن سلمی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ، حضرت ابو مرثد غنوی اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ کیا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آپ نے فر ما یا : " تم خاخ کے باغ کی طرف روانہ ہو جاؤ ، وہاں ایک مشرک عورت ہو گئی ، اس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہو گا ۔ " آگے عبید اللہ بن ابی رافع کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے ہم معنی بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2494.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 233

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6403
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن أبي الزبير، عن جابر، أن عبدا، لحاطب جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو حاطبا فقال يا رسول الله ليدخلن حاطب النار ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كذبت لا يدخلها فإنه شهد بدرا والحديبية ‏"‏ ‏.‏
حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ( کسی بات کی ) شکایت کرتے ہو ئے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حاطب ضرور دوزخ میں جا ئے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " تم جھوٹ کہتے ہو ۔ وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا ۔ کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شر یک ہوا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2495

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 234

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6404
حدثني هارون بن عبد الله، حدثنا حجاج بن محمد، قال قال ابن جريج أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول أخبرتني أم مبشر، أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول عند حفصة ‏"‏ لا يدخل النار إن شاء الله من أصحاب الشجرة أحد ‏.‏ الذين بايعوا تحتها ‏"‏ ‏.‏ قالت بلى يا رسول الله ‏.‏ فانتهرها فقالت حفصة ‏{‏ وإن منكم إلا واردها‏}‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قد قال الله عز وجل ‏{‏ ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا‏}‏
ابو زبیر نے خبر دی کہا : انھوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے ۔ مجھےام مبشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں یہ فرما تے ہو ئے سنا ، " ان شاء اللہ اصحاب شجرہ ( درخت والوں ) میں سے کو ئی ایک بھی جس نے اس کے نیچے بیعت کی تھی جہنم میں داخل نہ ہو گا ۔ وہ ( حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کہنے لگیں ۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیوں نہیں ! ( داخل تو ہوں گے ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جھڑک دیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آیت پڑھی : " تم میں سے کو ئی نہیں مگر اس پر وارد ہو نے والاہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ( اس کے بعد ) اللہ تعا لیٰ نے یہ ( بھی ) فرمایا ہے ۔ پھر ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ( جہنم میں گرنے سے ) بچا لیں گے اور ظالموں کو اسی میں گھٹنوں کے بل پڑا رہنے دیں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2496

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 235

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6405
حدثنا أبو عامر الأشعري، وأبو كريب جميعا عن أبي أسامة، قال أبو عامر حدثنا أبو أسامة، حدثنا بريد، عن جده أبي بردة، عن أبي موسى، قال كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وهو نازل بالجعرانة بين مكة والمدينة ومعه بلال فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل أعرابي فقال ألا تنجز لي يا محمد ما وعدتني فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أبشر ‏"‏ ‏.‏ فقال له الأعرابي أكثرت على من ‏"‏ أبشر ‏"‏ ‏.‏ فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على أبي موسى وبلال كهيئة الغضبان فقال ‏"‏ إن هذا قد رد البشرى فاقبلا أنتما ‏"‏ ‏.‏ فقالا قبلنا يا رسول الله ‏.‏ ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح فيه ماء فغسل يديه ووجهه فيه ومج فيه ثم قال ‏"‏ اشربا منه وأفرغا على وجوهكما ونحوركما وأبشرا ‏"‏ ‏.‏ فأخذا القدح ففعلا ما أمرهما به رسول الله صلى الله عليه وسلم فنادتهما أم سلمة من وراء الستر أفضلا لأمكما مما في إنائكما ‏.‏ فأفضلا لها منه طائفة ‏.‏
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ میں پڑاؤ کیا ہوا تھا ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدو شخص آیا ، اس نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " خوش ہو جاؤ ۔ " ( میں نے وعدہ کیا ہے تو پورا کروں گا ۔ ) اس بدو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : آپ مجھ سے بہت دفعہ " خوش ہو جاؤ ۔ " کہہ چکے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے جیسی کیفیت میں ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرما یا : " اس شخص نے میری بشارت کو مسترد کر دیا ہے اب تم دونوں میری بشارت کو قبول کرلو ۔ " ان دونوں نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے قبول کی ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا آپ نے اس پیالے میں اپنے ہاتھ اور اپنا چہرہ دھویا اور اس میں اپنے دہن مبارک کا پانی ڈالا پھر فر ما یا : " تم دونوں اسے پی لو اور اس کو اپنے اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ ۔ " ان دونوں نے پیا لہ لے لیا اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا اسی طرح کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پردے کے پیچھے سے ان کو آواز دے کر کہا : جو تمھا رے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے بھی بچا لو ، تو انھوں نے اس میں سے کچھ ان کے لیے بھی بچا لیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2497

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 236

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6406
حدثنا عبد الله بن براد أبو عامر الأشعري، وأبو كريب محمد بن العلاء - واللفظ لأبي عامر - قالا حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبيه، قال لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس فلقي دريد بن الصمة فقتل دريد وهزم الله أصحابه فقال أبو موسى وبعثني مع أبي عامر - قال - فرمي أبو عامر في ركبته رماه رجل من بني جشم بسهم فأثبته في ركبته فانتهيت إليه فقلت يا عم من رماك فأشار أبو عامر إلى أبي موسى فقال إن ذاك قاتلي تراه ذلك الذي رماني ‏.‏ قال أبو موسى فقصدت له فاعتمدته فلحقته فلما رآني ولى عني ذاهبا فاتبعته وجعلت أقول له ألا تستحيي ألست عربيا ألا تثبت فكف فالتقيت أنا وهو فاختلفنا أنا وهو ضربتين فضربته بالسيف فقتلته ثم رجعت إلى أبي عامر فقلت إن الله قد قتل صاحبك ‏.‏ قال فانزع هذا السهم فنزعته فنزا منه الماء فقال يا ابن أخي انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقرئه مني السلام وقل له يقول لك أبو عامر استغفر لي ‏.‏ قال واستعملني أبو عامر على الناس ومكث يسيرا ثم إنه مات فلما رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم دخلت عليه وهو في بيت على سرير مرمل وعليه فراش وقد أثر رمال السرير بظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وجنبيه فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر وقلت له قال قل له يستغفر لي ‏.‏ فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فتوضأ منه ثم رفع يديه ثم قال ‏"‏ اللهم اغفر لعبيد أبي عامر ‏"‏ ‏.‏ حتى رأيت بياض إبطيه ثم قال ‏"‏ اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك أو من الناس ‏"‏ ‏.‏ فقلت ولي يا رسول الله فاستغفر ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه وأدخله يوم القيامة مدخلا كريما ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بردة إحداهما لأبي عامر والأخرى لأبي موسى ‏.‏
برید نے ابو بردہ سے اور انھوں نے اپنے والد ( حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا ۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا ۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا ۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا ۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو ۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بےحیاء ! کیا تو عرب نہیں ہے؟ ٹھہرتا نہیں ہے؟ پس وہ رک گیا ۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا ، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا ، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا ۔ پھر لوٹ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا ۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا ( خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا ) ۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے ، پھر فوت ہو گئے ۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا ۔ میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا کر وضو کیا ، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے ( عبید بن سلیم ان کا نام تھا ) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا ۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لئے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ کے لئے کی ۔ رضی اللہ عنہما ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2498

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 237

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6407
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، حدثنا بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إني لأعرف أصوات رفقة الأشعريين بالقرآن حين يدخلون بالليل وأعرف منازلهم من أصواتهم بالقرآن بالليل وإن كنت لم أر منازلهم حين نزلوا بالنهار ومنهم حكيم إذا لقي الخيل - أو قال العدو - قال لهم إن أصحابي يأمرونكم أن تنظروهم ‏"‏ ‏.‏
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اشعری رفقاء جب رات کے وقت گھروں میں داخل ہو تے ہیں تو میں ان کے قرآن مجید پڑھنے کی آواز کو پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے گھروں کو بھی پہچان لیتا ہوں ، چاہے دن میں ان کے اپنے گھروں میں آنے کے وقت میں نے ان کے گھروں کو نہ دیکھا ہو ۔ ان میں سے ایک حکیم ( حکمت و دانائی والاشخص ) ہے جب وہ گھڑسواروں ۔ ۔ ۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : دشمنوں ۔ ۔ ۔ سے ملا قات کرتا ہے تو ان سے کہتا ہے ۔ میرے ساتھی تمھیں حکم دے رہے ہیں کہ تم ان کا انتظار کرو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2499

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 238

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6408
حدثنا أبو عامر الأشعري، وأبو كريب جميعا عن أبي أسامة، قال أبو عامر حدثنا أبو أسامة، حدثني بريد بن عبد الله بن أبي بردة، عن جده أبي بردة، عن أبي موسى، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الأشعريين إذا أرملوا في الغزو أو قل طعام عيالهم بالمدينة جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد ثم اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسوية فهم مني وأنا منهم ‏"‏ ‏.‏
ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : اشعر ی لوگ جب جہاد میں رسد کی کمی کا شکار ہو جا ئیں یا مدینہ میں ان کے اہل وعیال کا کھا نا کم پڑ جائے تو ان کے پاس جو کچھ بچا ہو اسے ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں ، پھر ایک ہی برتن سے اس کو آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں ۔ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ ( وہ میرے قریب ہیں اور میں ان سے قربت رکھتا ہوں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2500

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 239

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6409
حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري، وأحمد بن جعفر المعقري، قالا حدثنا النضر، - وهو ابن محمد اليمامي - حدثنا عكرمة، حدثنا أبو زميل، حدثني ابن عباس، قال كان المسلمون لا ينظرون إلى أبي سفيان ولا يقاعدونه فقال للنبي صلى الله عليه وسلم يا نبي الله ثلاث أعطنيهن قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال عندي أحسن العرب وأجمله أم حبيبة بنت أبي سفيان أزوجكها قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال ومعاوية تجعله كاتبا بين يديك ‏.‏ قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال وتؤمرني حتى أقاتل الكفار كما كنت أقاتل المسلمين ‏.‏ قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال أبو زميل ولولا أنه طلب ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم ما أعطاه ذلك لأنه لم يكن يسئل شيئا إلا قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏
عکرمہ نے کہا : ہمیں ابو زمیل نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی ، کہا : مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے ۔ اس پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے تین چیزیں عطا فر ما دیجیے ۔ ( تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرما لیجیے ۔ ) آپ نے جواب دیا : " ہاں ۔ " کہا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں ۔ آپ نے فر مایا : " ہاں ۔ " کہا : اور معاویہ ( میرابیٹا ) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ہاں ۔ " پھر کہا : آپ مجھے کسی دستے کا امیر ( بھی ) مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلا ف بھی جنگ کروں ۔ آپ نے فرمایا : " ہاں ۔ " ابو زمیل نے کہا : اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہو تا تو آپ ( از خود ) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فر ما تے کیونکہ آپ سے کبھی کو ئی چیز نہیں مانگی جا تی تھی مگر آپ ( اس کے جواب میں ) " ہاں " کہتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2501

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 240

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6410
حدثنا عبد الله بن براد الأشعري، ومحمد بن العلاء الهمداني، قالا حدثنا أبو أسامة حدثني بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال بلغنا مخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن باليمن فخرجنا مهاجرين إليه أنا وأخوان لي أنا أصغرهما أحدهما أبو بردة والآخر أبو رهم - إما قال بضعا وإما قال ثلاثة وخمسين أو اثنين وخمسين رجلا من قومي - قال فركبنا سفينة فألقتنا سفينتنا إلى النجاشي بالحبشة فوافقنا جعفر بن أبي طالب وأصحابه عنده فقال جعفر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثنا ها هنا وأمرنا بالإقامة فأقيموا معنا ‏.‏ فأقمنا معه حتى قدمنا جميعا - قال - فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح خيبر فأسهم لنا - أو قال أعطانا منها - وما قسم لأحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا إلا لمن شهد معه إلا لأصحاب سفينتنا مع جعفر وأصحابه قسم لهم معهم - قال - فكان ناس من الناس يقولون لنا - يعني لأهل السفينة - نحن سبقناكم بالهجرة ‏.‏ قال فدخلت أسماء بنت عميس - وهي ممن قدم معنا - على حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم زائرة وقد كانت هاجرت إلى النجاشي فيمن هاجر إليه فدخل عمر على حفصة وأسماء عندها فقال عمر حين رأى أسماء من هذه قالت أسماء بنت عميس ‏.‏ قال عمر الحبشية هذه البحرية هذه فقالت أسماء نعم ‏.‏ فقال عمر سبقناكم بالهجرة فنحن أحق برسول الله صلى الله عليه وسلم منكم ‏.‏ فغضبت وقالت كلمة كذبت يا عمر كلا والله كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يطعم جائعكم ويعظ جاهلكم وكنا في دار أو في أرض البعداء البغضاء في الحبشة وذلك في الله وفي رسوله وايم الله لا أطعم طعاما ولا أشرب شرابا حتى أذكر ما قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن كنا نؤذى ونخاف وسأذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأسأله ووالله لا أكذب ولا أزيغ ولا أزيد على ذلك ‏.‏ قال فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم قالت يا نبي الله إن عمر قال كذا وكذا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس بأحق بي منكم وله ولأصحابه هجرة واحدة ولكم أنتم أهل السفينة هجرتان ‏"‏ ‏.‏ قالت فلقد رأيت أبا موسى وأصحاب السفينة يأتوني أرسالا يسألوني عن هذا الحديث ما من الدنيا شىء هم به أفرح ولا أعظم في أنفسهم مما قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال أبو بردة فقالت أسماء فلقد رأيت أبا موسى وإنه ليستعيد هذا الحديث مني ‏.‏
بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( مکہ سے ) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ ہم ( بھی ) آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے ۔ میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا ۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم ۔ ۔ ۔ اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا : تریپن یا باون لوگ ( نکلے ) ۔ ۔ کہا : ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا ۔ اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے ۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو ۔ کہا : ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے ۔ حتی کہ ہم سب اکٹھے ( واپس ) آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( عین ) اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا : ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر ما یا : آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا ، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ ( فتح میں ) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا ، ان کے لیے ان ( فتح میں شریک ہو نے والوں ) کے ساتھ ہی حصہ نکا لا ۔ کہا : تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں ۔ ۔ ۔ یعنی کشتی والوں کو ۔ ۔ ۔ کہتے تھے ، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6411
کہا : ( تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ) اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے ۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پا س گئیں ۔ ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے ۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے ، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے ۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں ، تم نے جھوٹ کہا ۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے ، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں ۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا ۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی ، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی ، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“ ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے ۔ کیونکہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں ( ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو ) ۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے ۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی ۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو ( خوشی کے لئے ) باربار سننا چاہتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2503

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 241

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6412
حدثنا محمد بن حاتم، حدثنا بهز، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن معاوية، بن قرة عن عائذ بن عمرو، أن أبا سفيان، أتى على سلمان وصهيب وبلال في نفر فقالوا والله ما أخذت سيوف الله من عنق عدو الله مأخذها ‏.‏ قال فقال أبو بكر أتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره فقال ‏ "‏ يا أبا بكر لعلك أغضبتهم لئن كنت أغضبتهم لقد أغضبت ربك ‏"‏ ‏.‏ فأتاهم أبو بكر فقال يا إخوتاه أغضبتكم قالوا لا يغفر الله لك يا أخى ‏.‏
معاویہ بن قرہ نے عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند اور لوگوں کی موجودگی میں حضرت سلیمان ، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا : اللہ کی قسم! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں ۔ کہا : اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا : تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو ۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتا ئی تو آپ نے فر ما یا : " ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے ۔ اگر تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا : میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا؟ انھوں نے کہا : نہیں بھا ئی ! اللہ آپ کی مغفرت فر ما ئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2504

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 242

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6413
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، وأحمد بن عبدة، - واللفظ لإسحاق - قالا أخبرنا سفيان، عن عمرو، عن جابر بن عبد الله، قال فينا نزلت ‏{‏ إذ همت طائفتان منكم أن تفشلا والله وليهما‏}‏ بنو سلمة وبنو حارثة وما نحب أنها لم تنزل لقول الله عز وجل ‏{‏ والله وليهما‏}‏ ‏.‏
عمرو ( بن دینار ) نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہو ئی " جب تم میں سے دوجماعتوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا اور اللہ ان دونوں کا مدد گا ر تھا " یہ آیت بنوسلمہ اور بنو حارثہ کے متعلق نازل ہو ئی ( اس کے اندر ) اللہ کے اس فر ما ن : " اللہ ان دونوں ( جماعتوں ) کا مددگار تھا " کی بنا پر ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ آیت نال نہ ہو ئی ہوتی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2505

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 243

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6414
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، وعبد الرحمن بن مهدي، قالا حدثنا شعبة، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن زيد بن أرقم، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللهم اغفر للأنصار ولأبناء الأنصار وأبناء أبناء الأنصار ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه يحيى بن حبيب، حدثنا خالد، - يعني ابن الحارث - حدثنا شعبة، بهذا الإسناد ‏.‏
محمد بن جعفر اور عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا : ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے نضر بن انس سے انھوں نے حضرت زید بن راقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حنین کی غنیمتیں تقسیم کرنے کے بعد انصار کو خطبہ دیتے ہو ئے ) فر ما یا : " اے اللہ !انصار کی مغفرت فر ما ، انصار کے بیٹوں کی مغفرت فرما ، انصار بیٹوں کے بیٹوں کی مغفرت فر ما

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 244

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6415
خالد بن حارث نے کہا : ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6416
حدثني أبو معن الرقاشي، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة، - وهو ابن عمار - حدثنا إسحاق، - وهو ابن عبد الله بن أبي طلحة - أن أنسا، حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استغفر للأنصار - قال - وأحسبه قال ‏ "‏ ولذراري الأنصار ولموالي الأنصار ‏"‏ ‏.‏ لا أشك فيه ‏.‏
عکرمہ بن عمار نے کہا : ہمیں اسحٰق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حدیث بیان کی ، کہا : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے لیے مغفرت کی دعاکی ۔ ( اسحاق نے ) کہا : میرا خیال ہے کہ انھوں ( انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : " اور انصارکی اولاد دوں اور انصارکے ساتھ نسبت رکھنے والوںکی بھی ( مغفرت فرما ۔ ) " مجھے اس کے بارےمیں کو ئی شک نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2507

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 245

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6417
حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، جميعا عن ابن علية، - واللفظ لزهير - حدثنا إسماعيل، عن عبد العزيز، - وهو ابن صهيب - عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى صبيانا ونساء مقبلين من عرس فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم ممثلا فقال ‏ "‏ اللهم أنتم من أحب الناس إلى اللهم أنتم من أحب الناس إلى ‏"‏ ‏.‏ يعني الأنصار ‏.‏
عبد العزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( انصارکے ) کچھ بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہو ئے دیکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے کھڑے ہو گئے ۔ اور فرما یا : " میرا اللہ! ( گواہ ہے ) تم ان لوگوں میں سے ہو جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ میرا اللہ ! ( گواہ ہے ) تم ان لوگوں میں سے ہوجو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ " آپ کی مراد انصار سے تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2508

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 246

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6418
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن غندر، قال ابن المثنى حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن هشام بن زيد، سمعت أنس بن مالك، يقول جاءت امرأة من الأنصار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - فخلا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال ‏ "‏ والذي نفسي بيده إنكم لأحب الناس إلى ‏"‏ ‏.‏ ثلاث مرات ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا : انصار میں سے ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدگی میں اس کی بات سنی اور تین بار فر ما یا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے! تم لو گ سب سے زیادہ پیارےہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2509.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 247

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6419
حدثنيه يحيى بن حبيب، حدثنا خالد بن الحارث، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا ابن إدريس، كلاهما عن شعبة، بهذا الإسناد ‏.‏
خالد بن حارث اور ابن ادریس نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ،

صحيح مسلم حدیث نمبر:2509.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 248

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6420
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، أخبرنا شعبة، سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الأنصار كرشي وعيبتي وإن الناس سيكثرون ويقلون فاقبلوا من محسنهم واعفوا عن مسيئهم ‏"‏ ‏.‏
ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، کہا : میں نے قتادہ سے سنا ، وہ حجرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " انصار میرا پوٹا ہیں ( جہاں پرندوں کی غذا محفوظ رہتی ہے ) اور میرا قیمتی چیزیں رکھنے کا صندوق ( اثاثہ ) ہیں ۔ لو گ پڑھتے جا ئیں گے اور یہ کم ہو تے جائیں گے ۔ ان میں سے جواچھا کام کرے اسے قبول کرو اور جو غلط کرے اس سے در گزر کرو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2510

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 249

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6421
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، عن أبي أسيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خير دور الأنصار بنو النجار ثم بنو عبد الأشهل ثم بنو الحارث بن الخزرج ثم بنو ساعدة وفي كل دور الأنصار خير ‏"‏ ‏.‏ فقال سعد ما أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قد فضل علينا ‏.‏ فقيل قد فضلكم على كثير ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : شعبہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے قتادہ سے سنا ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے ۔ انھوں نے حضرت ابو اُسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : : " " انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجا ر ہیں پھر بنو عبدالاشہل ہیں ، پھر بنو حارث بن خزرج ہیں پھر بنوساعدہ ہیں اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیرہے ۔ " حضرت سعد ( بن عبادہ ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور لوگوں کو ) ہم پر فضیلت دی ہے تو ان سے کہاگیا ۔ آپ کو بھی بہت لو گوں پر فضیلت دی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 250

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6422
حدثناه محمد بن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، سمعت أنسا، يحدث عن أبي أسيد الأنصاري، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه ‏.‏
ابو داؤد نے کہا : ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث روایت کر رہے تھے ، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، اسی ( گزشتہ ) روایت کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 251

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6423
حدثنا قتيبة، وابن، رمح عن الليث بن سعد، ح وحدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، يعني ابن محمد ح وحدثنا ابن المثنى، وابن أبي عمر، قالا حدثنا عبد الوهاب الثقفي، كلهم عن يحيى بن سعيد، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله غير أنه لا يذكر في الحديث قول سعد ‏.‏
یحییٰ بن سعید نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی کے مانند روایت کی مگر انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات بیان نہیں کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 252

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6424
حدثنا محمد بن عباد، ومحمد بن مهران الرازي، - واللفظ لابن عباد - حدثنا حاتم، - وهو ابن إسماعيل - عن عبد الرحمن بن حميد، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، قال سمعت أبا أسيد، خطيبا عند ابن عتبة فقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خير دور الأنصار دار بني النجار ودار بني عبد الأشهل ودار بني الحارث بن الخزرج ودار بني ساعدة ‏"‏ ‏.‏ والله لو كنت مؤثرا بها أحدا لآثرت بها عشيرتي ‏.‏
ابرا ہیم بن محمد بن طلحہ سے روایت ہے کہا : میں نے حضرت ابواُسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ( ولید ) ابن عتبہ ( بن ابی سفیان ) کے ہاں خطبہ دیتے ہو ئے سنا ۔ انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " انصار کے گھرانوں میں سے بہترین گھرانہ بنو نجار کا گھرا نہ ہے اور بنوعبد الا شہل کا گھرا نہ ہے اور بنوحارث بن خزرج کا گھرا نہ ہے اوربنوساعدہ کا گھرا نہ ہے ۔ " اللہ کی قسم! اگرمیں ( ابو اسید ) ان میں سے کسی کو خود ترجیح دیتا تو اپنے خاندان ( بنوساعدہ ) کو ترجیح دیتا ۔ ( لیکن میں انے اسی ترتیب سے بیان کیا جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 253

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6425
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، أخبرنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن أبي الزناد، قال شهد أبو سلمة لسمع أبا أسيد الأنصاري يشهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ خير دور الأنصار بنو النجار ثم بنو عبد الأشهل ثم بنو الحارث بن الخزرج ثم بنو ساعدة وفي كل دور الأنصار خير ‏"‏ ‏.‏ قال أبو سلمة قال أبو أسيد أتهم أنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كنت كاذبا لبدأت بقومي بني ساعدة ‏.‏ وبلغ ذلك سعد بن عبادة فوجد في نفسه وقال خلفنا فكنا آخر الأربع أسرجوا لي حماري آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وكلمه ابن أخيه سهل فقال أتذهب لترد على رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم أعلم أوليس حسبك أن تكون رابع أربع ‏.‏ فرجع وقال الله ورسوله أعلم وأمر بحماره فحل عنه ‏.‏
ابو زناد نے کہا : ابو سلمہ نے گواہی دی کہ انھوں نے حضرت ابواسید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ گو اہی دیتے ہو ئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجارہیں پھر بنوعبد الا شہل پھر بنوحارث بن خزرج پھر بنو ساعدہ کا گھرا نوں میں خیر ہے ۔ ابو سلمہ نے کہا : حضرت ابو اسید نے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مجھ پر تہمت لگا ئی جا رہی ہے؟ اگر میں جھوٹا ہو تا تو اپنی قوم بنوساعدہ کا نام پہلے لیتا ۔ ( انھوں نے کہا : ) سیہ بات حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو ان کو رنج ہوا اور انھوں نے کہا : ہم کو پیچھے کر دیا گیا ہم چاروں خاندانوں کے آخر میں آگئے ، میرے گدھے پر زین کسور ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا تو ان کے بھتیجے سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بات کی ، کہا آپ اس لیے جا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کردیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جا نتے ہیں ۔ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپ چار میں سے چوتھے ہوں ( خیرو برکت میں شامل ہوں؟ ) تو وہ باز آئے اور کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جا ننے والے ہیں ۔ اور گدھے ( کی زین کھول دینے ) کے بارے میں حکم دیا تو وہ کھول دی گئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 254

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6426
حدثنا عمرو بن علي بن بحر، حدثني أبو داود، حدثنا حرب بن شداد، عن يحيى، بن أبي كثير حدثني أبو سلمة، أن أبا أسيد الأنصاري، حدثه أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ خير الأنصار أو خير دور الأنصار ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديثهم في ذكر الدور ولم يذكر قصة سعد بن عبادة رضى الله عنه ‏.‏
یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا : مجھے ابو سلمہ نے حدیث بیان کی ، انھیں حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہو ئے سنا : " انصار میں سے یا ( فر ما یا : ) انصار کے گھرانوں میں سے بہترین ۔ ۔ ۔ " ( آگے انصار کے ) گھرا نوں کے بارے میں ان سب ( راویوں ) کی حدیث کے مانند ہے ۔ انھوں نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2511.06

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 255

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6427
وحدثني عمرو الناقد، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال قال أبو سلمة وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود سمعا أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في مجلس عظيم من المسلمين ‏"‏ أحدثكم بخير دور الأنصار ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم يا رسول الله ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بنو عبد الأشهل ‏"‏ ‏.‏ قالوا ثم من يا رسول الله قال ‏"‏ ثم بنو النجار ‏"‏ ‏.‏ قالوا ثم من يا رسول الله قال ‏"‏ ثم بنو الحارث بن الخزرج ‏"‏ ‏.‏ قالوا ثم من يا رسول الله قال ‏"‏ ثم بنو ساعدة ‏"‏ ‏.‏ قالوا ثم من يا رسول الله قال ‏"‏ ثم في كل دور الأنصار خير ‏"‏ ‏.‏ فقام سعد بن عبادة مغضبا فقال أنحن آخر الأربع حين سمى رسول الله صلى الله عليه وسلم دارهم فأراد كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رجال من قومه اجلس ألا ترضى أن سمى رسول الله صلى الله عليه وسلم داركم في الأربع الدور التي سمى فمن ترك فلم يسم أكثر ممن سمى ‏.‏ فانتهى سعد بن عبادة عن كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابو سلمہ اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہا : کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ مسلمانوں کی ایک بڑی مجلس میں تھے فرما یا : " میں تم کو انصار کا بہترین گھرا نہ بتاؤں؟ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : جی ہاں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فر ما یا : " بنو عبدالاشہل ۔ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کون ہیں ؟فرما یا : " بنو نجا ر ۔ ۔ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کو ن ہیں؟فر ما یا : " پھر بنو حارث بن خزرج ۔ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کو ن ؟فر ما یا : " پھر بنو ساعدہ ۔ " صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کون ہیں ؟فر ما یا : " پھر انصار کے تمام گھرا نوں میں خیر ہے ۔ " جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھرانےکا نا م لیا تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصے میں کھڑے ہو گئے اور کہا : کیا ہم چاروں میں سے آخری ہیں ؟انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنی چا ہی تو ان کی قوم کے لوگوں نے کہا : بیٹھ جاؤ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھا رے گھرا نے کا نام ان چار گھرانوں میں لیا ہے جن کا آپ نے نام لیا ہے ۔ حالانکہ جن گھرانوں کو آپ نے چھوڑ دیا اور ان کا نام نہیں لیا ، ان کی تعداد ان سے زیادہ ہے جن کا نام لیا ۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے سے رک گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2512

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 256

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6428
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن ابن، عرعرة - واللفظ للجهضمي - حدثني محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن يونس بن عبيد، عن ثابت البناني، عن أنس بن مالك، قال خرجت مع جرير بن عبد الله البجلي في سفر فكان يخدمني فقلت له لا تفعل ‏.‏ فقال إني قد رأيت الأنصار تصنع برسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا آليت أن لا أصحب أحدا منهم إلا خدمته ‏.‏ زاد ابن المثنى وابن بشار في حديثهما وكان جرير أكبر من أنس ‏.‏ وقال ابن بشار أسن من أنس ‏.‏
نصر بن علی جہضمی ، محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے ابن عرعرہ سے روایت کی ۔ الفاظ جہضمی کے ہیں ۔ انھوں نے کہا : مجھے عرعرہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : ہمیں شعبہ نے یو نس بن عبید سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ثابت بنانی سے ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفر کے لیے نکلا ، وہ ( اس سفر میں ) میری خدمت کرتے تھے ، میں نے ان سے کہا : ایسا نہ کریں ، انھوں نے کہا کہ میں نے ( جب ) انصار کو دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( خدمت و تواضع ) کا سلوک کرتے ہیں تو میں نے قسم کھا ئی کہ میں جب بھی کسی انصاری کے ساتھ ہوں گا تو اس کی خدمت کروں گا ۔ ابن مثنیٰ اور ابن بشار نے اپنی اپنی حدیث میں مزید یہ بیان کیا ، ( ابن مثنیٰ نے کہا ) حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑے تھے ابن بشار نے کہا : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عمر میں زیادہ تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2513

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 257

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6429
حدثنا هداب بن خالد، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد بن هلال، عن عبد، الله بن الصامت قال قال أبو ذر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " غفار ، اللہ ان کی مغفرت کرے اور اسلم ، اللہ انھیں سلامت رکھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2514.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 258

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6430
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن ابن مهدي، قال قال ابن المثنى حدثني عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن أبي عمران، الجوني عن عبد الله بن الصامت، عن أبي ذر، قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ائت قومك فقل إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أسلم سالمها الله وغفار غفر الله لها ‏"‏ ‏.‏
عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابو عمران جونی سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عبد اللہ بن صامت سے ، انھوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سےفرمایا : " اپنی قوم کے پاس جاؤاور ( ان سے ) کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرما یا ہے ۔ " اسلم کو اللہ تعا لیٰ سلامت رکھے ۔ " اورغفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے

صحيح مسلم حدیث نمبر:2514.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 259

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6431
حدثناه محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، في هذا الإسناد ‏.‏
ابو داؤد نے کہا : ہمیں شعبہ نے یہ حدیث اسی سند سے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2514.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 260

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6432
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار وسويد بن سعيد وابن أبي عمر قالوا حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن أيوب، عن محمد، عن أبي هريرة، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي ح، وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد، الرحمن بن مهدي قالا حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة، ح وحدثني محمد بن رافع، حدثنا شبابة، حدثني ورقاء، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، ح وحدثنا يحيى بن حبيب، حدثنا روح بن عبادة، ح وحدثنا محمد بن عبد الله، بن نمير وعبد بن حميد عن أبي عاصم، كلاهما عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر، ح وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا معقل، عن أبي الزبير، عن جابر، كلهم قال عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أسلم سالمها الله وغفار غفر الله لها ‏"‏ ‏.‏
محمد ( بن سیرین ) محمد بن زیاد اور اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، نیز ابن جریج اور معقل نے ابو زبیر سے انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، سب نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہےکہ آپ نے فرمایا : " اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامتی عطاکرے ۔ " اورغفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے

صحيح مسلم حدیث نمبر:2515

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 261

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6433
وحدثني حسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن خثيم بن عراك، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أسلم سالمها الله وغفار غفر الله لها أما إني لم أقلها ولكن قالها الله عز وجل ‏"‏ ‏.‏
خثیم بن عراک نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : اسلم کو اللہ تعا لیٰ نےسلامتی عطا کی ۔ " اورغفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرمادی ، یہ میں نے نہیں کہا ، اللہ تعا لیٰ نے فرما یا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2516

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 262

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6434
حدثني أبو الطاهر، حدثنا ابن وهب، عن الليث، عن عمران بن أبي أنس، عن حنظلة بن علي، عن خفاف بن إيماء الغفاري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة ‏ "‏ اللهم العن بني لحيان ورعلا وذكوان وعصية عصوا الله ورسوله غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله ‏"‏ ‏.‏
حنظلہ بن علی نے حضرت خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دعا کرتےہو ئے فرما یا : اے اللہ !بنو لحیان ، رعل ، ذکوان اور عصیہ پر لعنت فر ما جنھوں نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ، اورغفار کی اللہ مغفرت فر ما ئے اسلم کو اللہ سلامتی عطا کرے

صحيح مسلم حدیث نمبر:2517

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 263

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6435
حدثنا يحيى بن يحيى، ويحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر قال يحيى بن يحيى أخبرنا وقال الآخرون، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، أنه سمع ابن، عمر يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله وعصية عصت الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " غفار کی اللہ نے مغفرت فرمائی اور اسلم کو اللہ سلامتی عطا کیاور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافر ما نی کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2518.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 264

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6436
حدثنا ابن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، ح وحدثنا عمرو بن سواد، أخبرنا ابن وهب، أخبرني أسامة، ح وحدثني زهير بن حرب، والحلواني، وعبد بن حميد، عن يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، كلهم عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله وفي حديث صالح وأسامة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك على المنبر ‏.‏
عبید اللہ ، اسامہ اور ابو صالح سب نے نافع سے ، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےانھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی صالح اور اسامہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات منبر پر ارشاد فر ما ئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2518.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 265

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6437
وحدثنيه حجاج بن الشاعر، حدثنا أبو داود الطيالسي، حدثنا حرب بن شداد، عن يحيى، حدثني أبو سلمة، حدثني ابن عمر، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏.‏ مثل حديث هؤلاء عن ابن عمر ‏.‏
ابو سلمہ نے کہا : مجھے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہو ئے سنا ، ان سب ( سابقہ حدیث کے راویوں ) کی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ حدیث کے مانند

صحيح مسلم حدیث نمبر:2518.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 266

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6438
حدثني زهير بن حرب، حدثنا يزيد، - وهو ابن هارون - أخبرنا أبو مالك، الأشجعي عن موسى بن طلحة، عن أبي أيوب، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الأنصار ومزينة وجهينة وغفار وأشجع ومن كان من بني عبد الله موالي دون الناس والله ورسوله مولاهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " انصار مزینہ ، جہینہ ، غفار ، اشجع اور جو بھی بنو عبد اللہ میں سے ہیں ( ان کے علاقے میں رہنے والے ) باقی لوگوں کو چھوڑ کر میرے اپنے مدد گار ہیں اور اللہ اور اس کا رسول ان کے مددگار ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2519

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 267

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6439
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ قريش والأنصار ومزينة وجهينة وأسلم وغفار وأشجع موالي ليس لهم مولى دون الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏
سفیان ( بن سعید ) نے سعد بن ابرا ہیم سے ، انھوں نے عبد الرحمان بن ہر مز اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " قریش ، انصار مزینہ جہینہ ، اسلم ، غفار اور اشجع ( میرے ) مدد گار ہیں اور ان کا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کو ئی اور مددگار نہیں ہے ۔ ( انھیں خالصتاً اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت حاصل ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2520.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 268

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6440
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله غير أن في الحديث قال سعد في بعض هذا فيما أعلم ‏.‏
عبید اللہ بن معاذ کے والد نے کہا : ہمیں شعبہ نے سعد بن ابرا ہیم سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی ، مگر اس حدیث میں یہ ہے کہ سعد نے ان میں سے بعض قبائل کے بارے میں کہا : " میرے علم کے مطابق ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2520.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 269

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6441
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال سمعت أبا سلمة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ أسلم وغفار ومزينة ومن كان من جهينة أو جهينة خير من بني تميم وبني عامر والحليفين أسد وغطفان ‏"‏ ‏.‏
سعد بن ابرا ہیم سے روایت ہے ، کہا : میں نے ابو سلمہ سے سنا ، وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلم ، غفاراور مزینہ اور جو لوگ جہینہ سے ہیں یاآپ نے جہینہ فرما یا ، بنو تمیم اور بنو عامر اور دو باہمی حلیفوں اسد اور غطفان سے بہتر ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2521.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 270

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6442
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا المغيرة، - يعني الحزامي - عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا عمرو الناقد، وحسن الحلواني، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرني وقال، الآخران حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، عن الأعرج، قال قال أبو هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والذي نفس محمد بيده لغفار وأسلم ومزينة ومن كان من جهينة أو قال جهينة ومن كان من مزينة خير عند الله يوم القيامة من أسد وطيئ وغطفان ‏"‏ ‏.‏
ابو زناد اور صالح نے اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے! یقیناً غفار ، اسلم مزینہ اورجو لوگ جہینہ سے ہیں یا آپ نے فرمایا : " جہینہ اور جو لو گ مزینہ سے ہیں ( خود آکر اسلام قبول کرنے کی بنا پر ) قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اسد طے اور غطفان سے بہتر ہوں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2521.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 271

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6443
حدثني زهير بن حرب، ويعقوب الدورقي، قالا حدثنا إسماعيل، - يعنيان ابن علية - حدثنا أيوب، عن محمد، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لأسلم وغفار وشىء من مزينة وجهينة أو شىء من جهينة ومزينة خير عند الله - قال أحسبه قال - يوم القيامة من أسد وغطفان وهوازن وتميم ‏"‏ ‏.‏
ایوب نے محمد ( بن سیرین ) سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " اسلم ، غفار اور مزینہ کے کچھ گھرا نے اور جہینہ یا جہینہ کے کچھ گھرا نے اور مزینہ ، اللہ کے نزدیک ۔ کہا : میرا خیال ہے ( محمد بن سیرین نے ) کہا ۔ ۔ قیامت کے دن اسد ، غطفان ، ہوازن اور تمیم سے ( جنھوں نے خود آکر اسلام قبول نہ کیا ) بہتر ہوں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2521.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 272

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6444
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا غندر، عن شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن محمد بن أبي يعقوب، سمعت عبد، الرحمن بن أبي بكرة يحدث عن أبيه، أن الأقرع بن حابس، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إنما بايعك سراق الحجيج من أسلم وغفار ومزينة - وأحسب جهينة - محمد الذي شك - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أرأيت إن كان أسلم وغفار ومزينة - وأحسب جهينة - خيرا من بني تميم وبني عامر وأسد وغطفان أخابوا وخسروا ‏"‏ ‏.‏ فقال نعم ‏.‏ قال ‏"‏ فوالذي نفسي بيده إنهم لأخير منهم ‏"‏ ‏.‏ وليس في حديث ابن أبي شيبة محمد الذي شك ‏.‏
ابو بکربن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں غندر نے شعبہ سے حدیث بیان کی ، اسی طرح محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے حدیث بیان کی ، دونوں نے کہا : ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے محمد بن ابی یعقوب سے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے سنا ، وہ اپنے والد سے حدیث بیان کررہے تھے ۔ کہ حضرت اقرع بن حابس ( تمیمی ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : آپ سے حاجیوں کا سامان چرا نے والے ( قبائل ) اسلم اور غفار اور مزینہ اور میرا خیال ہے جہینہ ( کابھی نام لیا ) ۔ ۔ ۔ محمد ( بن یعقوب ) ہیں جنھیں شک ہوا ۔ نے بیعت کر لی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " تمھا را کیا خیال ہے کہ اگر اسلم اور غفار اور مزینہ اور میرا خیال ہے ( آپ نے فرما یا ) جہینہ بنو تمیم ، بنو عامر بنو اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو کیا یہ ( قبیلے لوگوں کی نظر میں مرتبے کے اعتبار سے ) ناکام ہو جا ئیں گے ، خسارے میں رہیں گے؟ " اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرما یا : " مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ ان سے بہت بہتر ہیں ۔ " ابن ابی شیبہ کی حدیث میں : " محمد ( بن یعقوب ) ہیں جنھیں شک ہوا ۔ " ( کے الفاظ ) نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2522.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 273

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6445
حدثني هارون بن عبد الله، حدثنا عبد الصمد، حدثنا شعبة، حدثني سيد بني، تميم محمد بن عبد الله بن أبي يعقوب الضبي بهذا الإسناد ‏.‏ مثله قال ‏ "‏ وجهينة ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل أحسب ‏.‏
عبد الصمد نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی کہا : مجھے بنو تمیم کے سردار محمد بن عبد اللہ بن ابی یعقوب ضبی نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث سنائی اور انھوں نے صرف جہینہ کہا : ۔ " میرا خیال ہے " ( کاجملہ ) نہیں کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2522.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 274

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6446
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن أبي بشر، عن عبد، الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أسلم وغفار ومزينة وجهينة خير من بني تميم ومن بني عامر والحليفين بني أسد وغطفان ‏"‏ ‏.‏
نصر بن علی جہضمی کے والد نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے ابو بشر سے ، انھوں نے عبد الرحمان بن ابی بکرہ سے انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : " " اسلم ، غفار مزینہ اور جہینہ بنو تمیم ، بنو عامر اور دو حلیف قبیلوں بنو اسد اور بنو غطفان سے بہتر ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2522.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 275

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6447
حدثنا محمد بن المثنى، وهارون بن عبد الله، قالا حدثنا عبد الصمد، ح وحدثنيه عمرو الناقد، حدثنا شبابة بن سوار، قالا حدثنا شعبة، عن أبي بشر، بهذا الإسناد ‏.‏
عبد الصمد اور شبابہ بن سوار نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابوبشر سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2522.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 276

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6448
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أرأيتم إن كان جهينة وأسلم وغفار خيرا من بني تميم وبني عبد الله بن غطفان وعامر بن صعصعة ‏"‏ ‏.‏ ومد بها صوته فقالوا يا رسول الله فقد خابوا وخسروا ‏.‏ قال ‏"‏ فإنهم خير ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية أبي كريب ‏"‏ أرأيتم إن كان جهينة ومزينة وأسلم وغفار ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور کریب نے ۔ ۔ ۔ اور الفاظ ابو بکر کے ہیں ۔ ۔ ۔ حدیث بیان کی ، دونوں نے کہا : ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عبد الملک بن عمیر سے ، انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " تم لوگ کیا سمجھتے ہو اگر جہینہ ، اسلم اور غفار بنو تمیم ، بنو عبد اللہ بن غطفان اور عامر بن صعصہ سے بہتر ہوں ۔ " اور ( پوچھتے ہو ئے ) آپ نے آواز بلند کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر وہ ( لوگوں کے نزدیک اپنی عزت بڑھانے میں ) ناکام ہوں گے اورکم مرتبہ ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرما یا : " بے شک وہ ان سے بہتر ہیں ۔ " ابو کریب کی روایت میں ہے : " تم کیا سمجھتے ہو اگر جہینہ اور مزینہ اور اسلم اور غفار " ( مزینہ کے نام کا اضافہ ہے جس طرح متعدد دوسری روایات میں بھی مزینہ کا نا م شامل ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2522.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 277

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6449
حدثني زهير بن حرب، حدثنا أحمد بن إسحاق، حدثنا أبو عوانة، عن مغيرة، عن عامر، عن عدي بن حاتم، قال أتيت عمر بن الخطاب فقال لي إن أول صدقة بيضت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووجوه أصحابه صدقة طيئ جئت بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عدی بن حاتم سے روایت ہے ، کہا : میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا تو انھوں نے مجھ سے کہا : سب سے پہلا صدقہ ( باقاعدہ وصول شدہ زکاۃ ) جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چہروں کو روشن کر دیا تھا بنو طے کا صدقہ تھا ، جس کو آپ ( عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2523

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 278

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6450
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قدم الطفيل وأصحابه فقالوا يا رسول الله إن دوسا قد كفرت وأبت فادع الله عليها ‏.‏ فقيل هلكت دوس فقال ‏ "‏ اللهم اهد دوسا وائت بهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : حضرت طفیل ( بن عمرو دوسی ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی آئے اور آکر عرض کی : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ( ہمارے قبیلے ) دوس نے کفر کیا اور ( اسلام لا نے سے ) انکا ر کیا ، آپ ان کے خلا ف دعا کیجیے! ( بعض لوگوں کی طرف سے ) کہا گیا ۔ کہ اب دوس ہلا ک ہو گئے ۔ ( لیکن ) آپ نے ( دعا کرتے ہو ئے ) فر ما یا : " اے اللہ !دوس کو ہدایت دےاور ان کو ( یہاں ) لےآ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2524

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 279

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6451
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن الحارث، عن أبي زرعة، قال قال أبو هريرة لا أزال أحب بني تميم من ثلاث سمعتهن من، رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ هم أشد أمتي على الدجال ‏"‏ ‏.‏ قال وجاءت صدقاتهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذه صدقات قومنا ‏"‏ ‏.‏ قال وكانت سبية منهم عند عائشة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أعتقيها فإنها من ولد إسماعيل ‏"‏ ‏.‏
حارث نے ابو زرعہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں بنو تمیم کے ساتھ تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں محبت کرتا آرہا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہو ئے سنا ، یہ میری امت میں سے دجال کے خلا ف زیادہ سخت ہوں گے ۔ کہا : اور ان لوگوں کے صدقات ( زکاۃ کے اموال ) آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " یہ ہماری اپنی قوم کے صدقات ہیں ۔ کہا : ان میں سے جنگ میں پکڑی ہو ئی ایک باندی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھی ۔ آپ نے ان سے فرما یا : " اسے آزاد کردو ۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا د میں سے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2525.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 280

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6452
وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال لا أزال أحب بني تميم بعد ثلاث سمعتهن من، رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها فيهم ‏.‏ فذكر مثله ‏.‏
عمارہ نے ابو زرعہ سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : تین باتوں کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں ، میں بنو تمیم سے مسلسل محبت کرتا آرہا ہوں ، پھر اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2525.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 281

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6453
وحدثنا حامد بن عمر البكراوي، حدثنا مسلمة بن علقمة المازني، إمام مسجد داود حدثنا داود، عن الشعبي، عن أبي هريرة، قال ثلاث خصال سمعتهن من، رسول الله صلى الله عليه وسلم في بني تميم لا أزال أحبهم بعد وساق الحديث بهذا المعنى غير أنه قال ‏ "‏ هم أشد الناس قتالا في الملاحم ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر الدجال ‏.‏
۔ شعبی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : تین صفات ہیں جو میں نے بنوتمیم کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں اس کے بعد سے میں ان سے محبت کرتا ہوں اور ( آگے ) اسی معنی میں حدیث بیان کی ، البتہ ( شعبی نے ) یہ کہا : " وہ ( مستقبل میں ہو نے والی ) بڑی جنگوں کے دوران میں لڑنے میں سب لوگوں سے زیادہ سخت ہوں گے ۔ " اور انھوں نے دجال کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2525.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 282

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6454
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ تجدون الناس معادن فخيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا وتجدون من خير الناس في هذا الأمر أكرههم له قبل أن يقع فيه وتجدون من شرار الناس ذا الوجهين الذي يأتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب نے کہا : مجھے سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگوں کو کانوں کی طرح پاؤ گے ۔ پس جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب دین میں سمجھدار ہو جائیں اور تم بہتر اس کو پاؤ گے جو مسلمان ہونے سے پہلے اسلام سے بہت نفرت رکھتا ہو ( یعنی جو کفر میں مضبوط تھا وہ اسلام لانے کے بعد اسلام میں بھی ایسا ہی مضبوط ہو گا جیسے سیدنا عمر اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہما وغیرہ یا یہ مراد ہے کہ جو خلافت سے نفرت رکھے اسی کی خلافت عمدہ ہو گی ) ۔ اور تم سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دو روّیہ ہو کہ ان کے پاس ایک منہ لے کر آئے اور ان کے پاس دوسرا منہ لے کر جائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2526.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 283

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6455
حدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن الحزامي، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تجدون الناس معادن ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث الزهري غير أن في حديث أبي زرعة والأعرج ‏"‏ تجدون من خير الناس في هذا الشأن أشدهم له كراهية حتى يقع فيه ‏"‏ ‏.‏
ابو زرعہ اور اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم لوگوں کو معدنیات کی کانوں کی طرح پاؤگے ۔ ۔ ۔ " ( آگے اسی طرح ہے ) جس طرح زہری کی حدیث ہے ، البتہ ابو زرعہ اور اعرج کی روایت میں ہے : " تم اس ( دین کے ) معاملے میں سب لوگوں سے بہتر انھیں پاؤگے جو اس ( دین ) میں داخل ہونے سے پہلے سب لوگوں سے بڑھ کر اس کو ناپسند کرتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2526.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 284

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6456
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، وعن ابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خير نساء ركبن الإبل - قال أحدهما صالح نساء قريش ‏.‏ وقال الآخر نساء قريش - أحناه على يتيم في صغره وأرعاه على زوج في ذات يده ‏"‏ ‏.‏
ابن ابی عمر نے کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابو زناد سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور ابن طاوس نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ان عورتوں میں سے بہترین جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں ۔ ان دونوں ( اعرج اورطاؤس ) میں سے ایک نے کہا : قریش کی نیک عورتیں ہیں اور دوسرے نے کہا : قریش کی عورتیں ہیں ۔ جو یتیم بچے کی کم عمری میں اس پر سب سے زیادہ مہربان ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 285

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6457
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم وابن طاوس عن أبيه يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله غير أنه قال ‏ "‏ أرعاه على ولد في صغره ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل يتيم ‏.‏
عمرو ناقد نےکہا : ہمیں سفیان نے ابو زناد سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اعرض سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی جو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے ( آپ سے روایت کرتے تھے ۔ ) اس ( سابقہ روایت ) کے مانند ، اور ابن طاوس نے اپنے والد سے روایت کی جو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے ، مگر انھوں نے اس طرح کہا : " وہ ا پنے بچے کی اس کی کم سنی میں سب سے زیادہ نگہداشت کرنے والی ہوتی ہیں ۔ " انھوں نے " یتیم ( پر ) " نہیں کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 286

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6458
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ نساء قريش خير نساء ركبن الإبل أحناه على طفل وأرعاه على زوج في ذات يده ‏"‏ ‏.‏ قال يقول أبو هريرة على إثر ذلك ولم تركب مريم بنت عمران بعيرا قط ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے سعید بن مسیب نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ سے سنا ، آپ نے فرمایا : "" قریش کی عورتیں اونٹوں پر سواری کرنے والی تمام عورتوں میں سب سے اچھی ہیں ، بچے پر سب سے بڑھ کر مہربان ہیں اور اپنے خاوند کے لئے اس کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہیں ۔ "" ( سعیدبن مسیب نے ) کہا : ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بعد کہا کر تے تھے : مریم بنت عمران علیہ السلام اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 287

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6459
حدثني محمد بن راف��، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب أم هانئ بنت أبي طالب فقالت يا رسول الله إني قد كبرت ولي عيال ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خير نساء ركبن ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر بمثل حديث يونس غير أنه قال ‏"‏ أحناه على ولد في صغره ‏"‏ ‏.‏
معمر نے زہری سے ، انھوں نے ابن مسیب سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نکاح کا پیغام بھجوایا ، انھوں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں اور میرےبہت سے بچے ہیں ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ( اونٹوں پر ) سوار ہونے والی عورتوں میں سے بہترین " پھر یونس کی حدیث کی طرح بیان کیا مگر یوں کیا : " اس کی کم سنی میں بچے پر سب سے زیادہ مہربان ہوتی ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 288

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6460
حدثني محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال ابن رافع حدثنا وقال عبد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة، ح وحدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خير نساء ركبن الإبل صالح نساء قريش أحناه على ولد في صغره وأرعاه على زوج في ذات يده ‏"‏ ‏.‏
معمر نے ابن طاوس سے اورانھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، نیز معمر نے ہمام بن منبہ سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اونٹوں پر سفر کرنے والی عورتوں میں سے بہترین ، قریش کی نیک عورتیں ہیں جو بچے پر اس کی کم سنی میں زیادہ شفقت کرنے و الی ہوتی ہیں اور اپنے خاوند کے مال کی زیادہ حفاظت کرتی ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 289

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6461
حدثني أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي، حدثنا خالد، - يعني ابن مخلد - حدثني سليمان، - وهو ابن بلال - حدثني سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثل حديث معمر هذا سواء ‏.‏
سہیل ( بن ابی صالح ) نے اپنے والد سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معمر کی حدیث کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2527.06

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 290

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6462
حدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا عبد الصمد، حدثنا حماد، - يعني ابن سلمة - عن ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم آخى بين أبي عبيدة بن الجراح وبين أبي طلحة ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2528

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 291

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6463
حدثني أبو جعفر، محمد بن الصباح حدثنا حفص بن غياث، حدثنا عاصم الأحول، قال قيل لأنس بن مالك بلغك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا حلف في الإسلام ‏"‏ ‏.‏ فقال أنس قد حالف رسول الله صلى الله عليه وسلم بين قريش والأنصار في داره ‏.‏
حفص بن غیاث نے کہا : ہمیں عاصم احول نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا : کیا آپ تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " اسلام میں حلیف بننا بنانا ( جائز ) نہیں " ؟حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکان میں قریش اور انصار کو ایک دوسرے کا حلیف بنایا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2529.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 292

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6464
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، قالا حدثنا عبدة بن، سليمان عن عاصم، عن أنس، قال حالف رسول الله صلى الله عليه وسلم بين قريش والأنصار في داره التي بالمدينة ‏.‏
عبدہ بن سلیمان نے عاصم سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں میرے گھر میں قریش اور انصار کو ایک دوسرے کا حلیف بنایا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2529.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 293

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6465
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو أسامة عن زكرياء، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، عن جبير بن مطعم، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا حلف في الإسلام وأيما حلف كان في الجاهلية لم يزده الإسلام إلا شدة ‏"‏ ‏.‏
سعد بن ابراہیم نے ا پنے والد سے ، انھوں نے حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " اسلام میں ایک دوسرے کو حلیف بنانے کی ضرورت نہیں ، جو شخص کا جاہلیت میں جو حلف تھا ، اسلام نے اس کی مضبوطی میں اور اضافہ کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2530

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 294

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6466
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، وعبد الله بن عمر بن أبان، كلهم عن حسين، - قال أبو بكر حدثنا حسين بن علي الجعفي، - عن مجمع بن يحيى، عن سعيد بن أبي بردة، عن أبي بردة، عن أبيه، قال صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قلنا لو جلسنا حتى نصلي معه العشاء - قال - فجلسنا فخرج علينا فقال ‏"‏ ما زلتم ها هنا ‏"‏ ‏.‏ قلنا يا رسول الله صلينا معك المغرب ثم قلنا نجلس حتى نصلي معك العشاء قال ‏"‏ أحسنتم أو أصبتم ‏"‏ ‏.‏ قال فرفع رأسه إلى السماء وكان كثيرا مما يرفع رأسه إلى السماء فقال ‏"‏ النجوم أمنة للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون ‏"‏ ‏.‏
سعید بن ابی بردہ نے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے ا پنے والد ( ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی ، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا ۔ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہیں بیٹھے رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب پڑھی ، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا یا ٹھیک کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے ، پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں ، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی ( یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا ) ۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں ۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے ( یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں ) ۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں ۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے ( یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2531

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 295

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6467
حدثنا أبو خيثمة، زهير بن حرب وأحمد بن عبدة الضبي - واللفظ لزهير - قالا حدثنا سفيان بن عيينة، قال سمع عمرو، جابرا يخبر عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يأتي على الناس زمان يغزو فئام من الناس فيقال لهم فيكم من رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون ‏.‏ نعم فيفتح لهم ثم يغزو فئام من الناس فيقال لهم فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون نعم ‏.‏ فيفتح لهم ثم يغزو فئام من الناس فيقال لهم هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون نعم ‏.‏ فيفتح لهم ‏"‏ ‏.‏
عمرو ( بن دینار ) نے حضرت جابر ( بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے سنا ، وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خبر دیتے تھے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " ایک زمانہ آئے گا کہ آدمیوں کے جھنڈ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں سے وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہو ( یعنی تابعین میں سے کوئی ہے؟ ) لوگ کہیں کے کہ ہاں! پھر ان کی فتح ہو جائے گی ۔ پھر آدمیوں کے لشکر جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے صحابی کے دیکھنے والے کو دیکھا ہو ( یعنی تبع تابعین میں سے ) ؟ تو لوگ کہیں گے کہ ہاں ۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو پوچھیں گے کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے اتباع تابعین کو دیکھا ہو؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:2532.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 296

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6468
حدثني سعيد بن يحيى بن سعيد الأموي، حدثنا أبي، حدثنا ابن جريج، عن أبي، الزبير عن جابر، قال زعم أبو سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يأتي على الناس زمان يبعث منهم البعث فيقولون انظروا هل تجدون فيكم أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيوجد الرجل فيفتح لهم به ثم يبعث البعث الثاني فيقولون هل فيهم من رأى أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيفتح لهم به ثم يبعث البعث الثالث فيقال انظروا هل ترون فيهم من رأى من رأى أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم يكون البعث الرابع فيقال انظروا هل ترون فيهم أحدا رأى من رأى أحدا رأى أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيوجد الرجل فيفتح لهم به ‏"‏ ‏.‏
ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یقین تھا ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں سے کوئی لشکر بھیجاجائے گا تو لوگ کہیں گے : دیکھو ، کیا تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی فرد ہے؟تو ایک شخص مل جائے گا ، چنانچہ اس کی وجہ سے انھیں فتح مل جائے گی ، پھر ایک اور لشکر بھیجا جائے گا تو لوگ ( آپس میں ) کہیں گے : کیا ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہو؟تو انھیں اس ( شخص ) کی بنا پر فتح حاصل ہوجائےگی ، پھر تیسرا لشکر بھیجاجائے گا تو کہا جائے گا : دیکھو ، کیا ان میں کوئی ایسا دیکھتے ہو جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہو؟پھر چوتھا لشکر بھیجاجائے گاتو کہا جائے گا : دیکھو ، کیا ان میں کوئی ایسا شخص دیکھتے ہو جس نے کسی ایسے آدمی کو دیکھا ہو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں میں سے کسی کو دیکھا ہو؟تو وہ آدمی مل جائے گا اور اس کی وجہ سے انھیں فتح مل جائے گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2532.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 297

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6469
حدثنا قتيبة بن سعيد، وهناد بن السري، قالا حدثنا أبو الأحوص، عن منصور، عن إبراهيم بن يزيد، عن عبيدة السلماني، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادته ‏"‏ ‏.‏ لم يذكر هناد القرن في حديثه وقال قتيبة ‏"‏ ثم يجيء أقوام ‏"‏ ‏.‏
قتیبہ بن سعید اور ہناد بن سری نے کہا : ہمیں ابواحوص نے منصور سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابراہیم بن یزید سے ، انھوں نے عبیدہ سلیمانی سے ، انھوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میر ی امت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں ( صحابہ ) ، پھر وہ ہیں جو ان کےساتھ ( کے دور میں ) ہوں گے ( تابعین ) ، پھر وہ جوان کے ساتھ ( کے دور میں ) ہوں گے ( تبع تابعین ) ، پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہی ان کی قسم سے پہلے ہوگی ۔ اور ان کی قسم ان کی گواہی سے پہلے ہوگی ۔ " ہناد نے اپنی حدیث میں قرن ( دور ) کا ذکر نہیں کیا ۔ اور قتیبہ نے کہا : " پھر ایسی اقوام آئیں گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2533.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 298

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6470
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال إسحاق أخبرنا وقال، عثمان حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الناس خير قال ‏ "‏ قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه وتبدر يمينه شهادته ‏"‏ ‏.‏ قال إبراهيم كانوا ينهوننا ونحن غلمان عن العهد والشهادات ‏.‏
جریر نے منصور سے ، انھوں نے ابراہیم سے ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : لوگوں میں سب سے بہتر کون ہیں؟آپ نے فرمایا : "" میرے دور کے لوگ پھر وہ جو ان کے ساتھ ( کے دور میں ) ہوں گے ، پھر وہ جو ان کے ساتھ ہوں گے ، پھر ایک ایسی قوم آئے گی کہ ان کی شہادت ان کی قسم سے جلدی ہوگی اور ان کی قسم انکی شہادت سے جلدی ہوگی ۔ "" ابراہیم ( نخعی ) نے کہا : جس وقت ہم کم عمر تھے ( تو بڑی عمرکے ) لوگ ہمیں قسم کھانے اور شہادت دینے سے منع کرتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2533.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 299

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6471
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، كلاهما عن منصور، بإسناد أبي الأحوص وجرير بمعنى حديثهما وليس في حديثهما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
شعبہ اور سفیان دونوں نے منصور سے ابو احوص اور جریر کی سند کے ساتھ انھی دونوں کی حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی ، دونوں کی حدیث میں " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا " ( کے الفاظ ) نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2533.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 300

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6472
وحدثني الحسن بن علي الحلواني، حدثنا أزهر بن سعد السمان، عن ابن عون، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ‏"‏ ‏.‏ فلا أدري في الثالثة أو في الرابعة قال ‏"‏ ثم يتخلف من بعدهم خلف تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادته ‏"‏ ‏.‏
ابن عون نے ابراہیم سے ، انھوں نے عبیدہ سے ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا؛ " لوگوں میں سے بہترین میرے دور کے لوگ ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) ہیں ، پھر وہ جو ان کے ساتھ ( کے دورکے ) ہوں گے ( تابعین رحمۃ اللہ علیہ ) ، پھر وہ جوان کے ساتھ ( کے دور کے ) ہوں گے ( تبع تابعین ۔ ) " ( عبیدہ سلیمانی نے کہا : ) مجھے یاد نہیں ( کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) تیسری بار کہا یاچوتھی بار : " پھر ان کے جانشین ایسے لوگ ہوں گے کہ ان میں سے کسی ایک کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اوراور اس کی قسم اس کی گواہی سے پہلے ہوگی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2533.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 301

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6473
حدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا هشيم، عن أبي بشر، ح وحدثني إسماعيل، بن سالم أخبرنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، عن عبد الله بن شقيق، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خير أمتي القرن الذين بعثت فيهم ثم الذين يلونهم ‏"‏ ‏.‏ والله أعلم أذكر الثالث أم لا قال ‏"‏ ثم يخلف قوم يحبون السمانة يشهدون قبل أن يستشهدوا ‏"‏ ‏.‏
ہشیم نے ابو بشر سے ، انھوں نے عبداللہ بن شقیق سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میری امت کے بہترین لوگ اس زمانے کے ہیں جن میں میری بعثت ہوئی ہے ، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ( کے دور کے ) ہیں ۔ " اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ آپ نے تیسرے زمانے کا ذکر کیاتھا یا نہیں ، فرمایا؛ " پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو موٹا ہونا پسند کریں گے ، وہ شہادت طلب کیے جانے سے پہلے شہادت دیں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2534.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 302

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6474
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، ح وحدثني أبو بكر بن نافع، حدثنا غندر، عن شعبة، ح وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا أبو الوليد، حدثنا أبو عوانة، كلاهما عن أبي بشر، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله غير أن في حديث شعبة قال أبو هريرة فلا أدري مرتين أو ثلاثة ‏.‏
شعبہ اور ابو عوانہ دونوں نے ابو بشر سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی ، مگر شعبہ کی حدیث میں ہے : ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نہیں جانتا ( کہ آپ نے ) دوبار ( کہا ) یا تین بار ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2534.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 303

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6475
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن غندر، قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، سمعت أبا جمرة، حدثني زهدم بن، مضرب سمعت عمران بن حصين، يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ‏"‏ ‏.‏ قال عمران فلا أدري أقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد قرنه مرتين أو ثلاثة ‏"‏ ثم يكون بعدهم قوم يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يتمنون وينذرون ولا يوفون ويظهر فيهم السمن ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے ابو جمرہ سے سنا ، انھوں نےکہا : مجھے زہدم بن مضرب نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ حدیث بیان کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم میں سب سے اچھے میرے دور کے لوگ ہیں ، پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں ۔ پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں ، " حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : مجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے بعد دوبار فرمایا یا تین بار؟ ( پھر آپ نے فرمایا : ) " پھر ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ وہ گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی مطلوب نہیں ہوگی اورخیانت کریں جبکہ ان کو امانت دار نہیں بنایا جائے گا ( جس مال کی ذمہ داری ان کے پاس نہیں ہوگی اس میں بھی خیانت کے راستے نکالیں گے ) ، وہ نذر مانیں گے لیکن اپنی نذریں پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2535.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 304

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6476
حدثني محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد، ح وحدثنا عبد الرحمن بن بشر، العبدي حدثنا بهز، ح وحدثني محمد بن رافع، حدثنا شبابة، كلهم عن شعبة، بهذا الإسناد ‏.‏ وفي حديثهم قال لا أدري أذكر بعد قرنه قرنين أو ثلاثة ‏.‏ وفي حديث شبابة قال سمعت زهدم بن مضرب وجاءني في حاجة على فرس فحدثني أنه سمع عمران بن حصين ‏.‏ وفي حديث يحيى وشبابة ‏"‏ ينذرون ولا يفون ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث بهز ‏"‏ يوفون ‏"‏ ‏.‏ كما قال ابن جعفر ‏.‏
یحییٰ بن سعید ، بہز اور شبابہ سب نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور ان سب کی حدیث میں ہے ( حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کےبعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا ، شبابہ کی حدیث میں ہے کہ ( ابو جمرہ نے ) کہا : میں نے زہدم بن مضرب سےسنا ، وہ گھوڑے پرسوارہوکرمیرے پاس ایک کام کے لئے آئے تھے ، انھوں نے مجھے حدیث سنائی کہ انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، نیز یحییٰ ( بن سعید ) اورشبابہ کی حدیث میں ہے : " وہ نذریں مانیں گے لیکن وفا نہیں کریں گے ۔ " اور بہز کی حدیث میں اسی طرح ہے جس طرح ابن جعفر کی حدیث میں ہے : " وہ ( اپنی نذریں ) پوری نہیں کریں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2535.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 305

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6477
وحدثنا قتيبة بن سعيد، ومحمد بن عبد الملك الأموي، قالا حدثنا أبو عوانة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا أبي كلاهما، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث ‏"‏ خير هذه الأمة القرن الذين بعثت فيهم ثم الذين يلونهم ‏"‏ ‏.‏ زاد في حديث أبي عوانة قال والله أعلم أذكر الثالث أم لا ‏.‏ بمثل حديث زهدم عن عمران وزاد في حديث هشام عن قتادة ‏"‏ ويحلفون ولا يستحلفون ‏"‏ ‏.‏
ابو عوانہ اور ہشام دونوں نے قتادہ سے ، انھوں نے زرارہ بن اوفیٰ سے ، انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ( ان الفاظ میں ) روایت کی : " اس امت کے بہترین لوگ اس دور کے ہیں جس میں مجھے ان میں بھیجاگیا ہے ، پھر وہ جوان کےساتھ ( کے دور میں ) ہوں گے ۔ " ۔ ۔ ۔ ابو عوانہ کی حدیث میں مزید یہ ہے کہ ( حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : اللہ زیادہ جاننے والا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے ( دور ) کا ذکر کیا یا نہیں ، جس طرح حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےزہدم کی روایت کردہ حدیث ہے ۔ اور قتادہ سے ہشام کی روایت کردہ حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں : " وہ قسمیں کھائیں گے جبکہ ان سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2535.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 306

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6478
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وشجاع بن مخلد، - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا حسين، - وهو ابن علي الجعفي - عن زائدة، عن السدي، عن عبد الله البهي، عن عائشة، قالت سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم أى الناس خير قال ‏ "‏ القرن الذي أنا فيه ثم الثاني ثم الثالث ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بہی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، کہا : ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سے لوگ سب سے بہتر ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس دور میں جس میں ہوں ، پھر دوسرے ( دورکے ) ، پھر تیسرے ( دور کے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2536

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 307

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6479
حدثنا محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال محمد بن رافع حدثنا وقال عبد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، أخبرني سالم بن عبد الله، وأبو بكر بن سليمان أن عبد الله بن عمر، قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة صلاة العشاء في آخر حياته فلما سلم قام فقال ‏ "‏ أرأيتكم ليلتكم هذه فإن على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد ‏"‏ ‏.‏ قال ابن عمر فوهل الناس في مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك فيما يتحدثون من هذه الأحاديث عن مائة سنة وإنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض ‏.‏ أحد يريد بذلك أن ينخرم ذلك القرن ‏.‏
معمر نے زہری سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے سالم بن عبداللہ اور ابو بکر بن سلیمان نے بتا یا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبا رکہ کے آخری حصے میں ایک را ت ہمیں عشاء کی نما ز پڑھا ئی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلا م پھیرا تو کھڑے ہو گئے تو فرما یا : " کیا تم لوگوں نے اپنی اس را ت کو دیکھا ہے؟ ( اسے یا د رکھو ) بلا شبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لو گ ( اس را ت میں ) روئے زمین پر مو جودہیں ان میں سے کو ئی بھی باقی نہیں ہو گا ۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ( بعض ) لو گ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ہیں جو اس میں سو سال کے حوالے سے مختلف باتیں کر رہے ہیں ( کہ سو سال بعد زندگی کا خاتمہ ہو جا ئے گا ۔ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما یا تھا ۔ " آج جو لوگ روئےزمین پر مو جو د ہیں ان میں سے کو ئی باقی نہیں ہو گا ۔ " آپ کا مقصود یہ تھا کہ اس قرن ( اس دور میں رہنے والے لوگوں ) کا خاتمہ ہو جائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2537.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 308

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6480
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، ورواه، الليث عن عبد الرحمن بن خالد بن مسافر، كلاهما عن الزهري، بإسناد معمر كمثل حديثه ‏.‏
شعیب اور عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافر دونوں نے زہری سے معمر کی سند کے ساتھ انھی کی حدیث کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2537.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 309

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6481
حدثني هارون بن عبد الله، وحجاج بن الشاعر، قالا حدثنا حجاج بن محمد، قال قال ابن جريج أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول قبل أن يموت بشهر ‏ "‏ تسألوني عن الساعة وإنما علمها عند الله وأقسم بالله ما على الأرض من نفس منفوسة تأتي عليها مائة سنة ‏"‏ ‏.‏
حجاج بن محمد نے کہا : ابن جریج نے کہا : مجھے ابو زبیر نے بتا یا ، انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہو ئے سناکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے ایک مہینہ قبل یہ فر ما تے ہو ئے سنا : " تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو ؟اس کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ( البتہ اس بات پر ) میں اللہ کی قسم کھا تا ہوں کہ اس وقت کو ئی زندہ نفس موجود نہیں جس پر سوسال پورے ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2538.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 310

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6482
حدثنيه محمد بن حاتم، حدثنا محمد بن بكر، أخبرنا ابن جريج، بهذا الإسناد ولم يذكر قبل موته بشهر ‏.‏
ابن جریج نے اسی سند کے ساتھ ہمیں خبر دی اور اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ( آپ نے ) اپنی وفات سے ایک ماہ قبل ( یہ ارشاد فرمایا تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2538.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 311

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6483
حدثني يحيى بن حبيب، ومحمد بن عبد الأعلى، كلاهما عن المعتمر، قال ابن حبيب حدثنا معتمر بن سليمان، قال سمعت أبي، حدثنا أبو نضرة، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ذلك قبل موته بشهر أو نحو ذلك ‏ "‏ ما من نفس منفوسة اليوم تأتي عليها مائة سنة وهى حية يومئذ ‏"‏ ‏.‏ وعن عبد الرحمن، صاحب السقاية عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك وفسرها عبد الرحمن قال نقص العمر ‏.‏
معتمر بن سلیمان نے کہا : میں نے اپنے والد سے سنا ، کہا : ابو نضرہ نے ہمیں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : آپ نے اپنی وفات سے ایک مہینہ یا قریباًاتنا عرصہ پہلے فرما یا : " آج کو ئی ایسا سانس لیتا ہوا انسان موجود نہیں کہ اس پر سوسال گزریں تو وہ اس دن بھی زندہ ہو ۔ اور لوگوں کو پانی پلا نے والے عبدالرحمان ( بن آدم ) سے روایت ہے انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی ۔ عبدالرحمان نے اس کا مفہوم بتا یا اور کہا : عمر کی کمی ( مراد ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2538.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 312

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6484
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا سليمان التيمي، بالإسنادين جميعا ‏.‏ مثله ‏.‏
یزید بن ہارون نے کہا : ہمیں سلیمان تیمی نے دونوں سندوں سے اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2538.04

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 313

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6485
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبو خالد، عن داود، واللفظ، له ح وحدثنا أبو بكر بن أبي، شيبة حدثنا سليمان بن حيان، عن داود، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، قال لما رجع النبي صلى الله عليه وسلم من تبوك سألوه عن الساعة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تأتي مائة سنة وعلى الأرض نفس منفوسة اليوم ‏"‏ ‏.‏
ابو نضر ہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس آئے تو اس کے بعد لوگوں نے آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " سو سال نہیں گزریں گے ۔ کہ آج زمین پر سانس لیتا ہوا کو ئی شخص موجود ہو ۔ " ( اس سے پہلے یہ سب ختم ہو جا ئیں گے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2539

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 314

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6486
حدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا أبو الوليد، أخبرنا أبو عوانة، عن حصين، عن سالم، عن جابر بن عبد الله، قال قال نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ما من نفس منفوسة تبلغ مائة سنة ‏"‏ ‏.‏ فقال سالم تذاكرنا ذلك عنده إنما هي كل نفس مخلوقة يومئذ ‏.‏
حصین نے سالم سے ، انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : " ( آج ) سانس لیتا ہوا شخص سو سال ( کی مدت ) تک نہیں پہنچےگا ۔ " سالم نے کہا : ہم نے ان ( حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے سامنے اس کے بارے میں گفتگو کی اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اس وقت پیدا ہو چکا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2538.05

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 315

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6487
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، وأبو بكر بن أبي شيبة ومحمد بن العلاء قال يحيى أخبرنا وقال الآخران، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي، هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تسبوا أصحابي لا تسبوا أصحابي فوالذي نفسي بيده لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ نے اعمش سے ، انھوں نے ابو صالح سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو برا مت کہو ، میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ !اگر تم میں سے کو ئی شخص اُحد پہا ڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) میں سے کسی ایک کے دیے ہو ئے مد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی ( اجر ) نہیں پاسکتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2540

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 316

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6488
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي، سعيد قال كان بين خالد بن الوليد وبين عبد الرحمن بن عوف شىء فسبه خالد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تسبوا أحدا من أصحابي فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه ‏"‏ ‏.‏
جریر نے اعمش سے ، انھوں نے ابو صالح سے ، انھوں نے حضرت ابو سعید ( خدری ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت خالد بن ولید اور عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان کو ئی مناقشہ تھا ، حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو برا کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی کو برا نہ کہو ، کیونکہ تم میں سے کسی شخص نے اگر اُحدپہاڑ کے برابرسونا بھی خرچ کیاتو وہ ان میں سے کسی کے دیے ہو ئے ایک مدکے برابر بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی ( اجر ) نہیں پاسکتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2541.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 317

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6489
حدثنا أبو سعيد الأشج، وأبو كريب قالا حدثنا وكيع، عن الأعمش، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي ح، وحدثنا ابن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا ابن أبي عدي، جميعا عن شعبة، عن الأعمش، بإسناد جرير وأبي معاوية ‏.‏ بمثل حديثهما وليس في حديث شعبة ووكيع ذكر عبد الرحمن بن عوف وخالد بن الوليد ‏.‏
وکیع اور شعبہ نے اعمش سے جریر اور ابو معاویہ کی سند کے ساتھ ان دونوں کی حدیث کے مانند روایت کی ، لیکن شعبہ اور وکیع کی حدیث میں عبدالرحمٰن بن عوف اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2541.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 318

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6490
حدثني زهير بن حرب، حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثني سعيد الجريري، عن أبي نضرة، عن أسير بن جابر، أن أهل الكوفة، وفدوا، إلى عمر وفيهم رجل ممن كان يسخر بأويس فقال عمر هل ها هنا أحد من القرنيين فجاء ذلك الرجل فقال عمر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ‏ "‏ إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له أويس لا يدع باليمن غير أم له قد كان به بياض فدعا الله فأذهبه عنه إلا موضع الدينار أو الدرهم فمن لقيه منكم فليستغفر لكم ‏"‏ ‏.‏
سلیمان بن مغیرہ نے کہا : مجھے سعید جریری نے ابو نضرہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ اہل کوفہ ایک وفد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے ، ان میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو حضرت اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ٹھٹا اڑاتا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا : یہاں قرن کے رہنے والوں میں سے کوئی ہے؟وہ شخص ( آگے ) آگیاتوحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : " تمھارے پاس یمن سے ایک شخص آئے گا ، اس کا نام اویس ہوگا ، یمن میں اس کی والدہ کےسوا کوئی نہیں جسے وہ چھوڑ کرآئے ۔ اس ( کے جسم ) پرسفید ( برص کے ) نشان ہیں ۔ اس نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے ایک دینار یا درہم کے برابر چھوڑ کر باقی سارا نشان ہٹادیا ، وہ تم میں سے جس کو ملے ( وہ اس سے درخواست کرےکہ ) وہ تم لوگوں کےلیے مغفرت کی دعاکرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2542.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 319

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6491
حدثنا زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حماد، - وهو ابن سلمة - عن سعيد الجريري، بهذا الإسناد عن عمر بن الخطاب، قال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن خير التابعين رجل يقال له أويس وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم ‏"‏ ‏.‏
حماد بن سلمہ نے سعید جریری سے اسی سند کےساتھ حدیث بیان کی ، کہا : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تابعین میں ایک بہترین شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں ، اس کی ایک ماں ہے ( یعنی رشتہ داروں میں سے صرف ماں زندہ ہو گی ) اور اس کو ایک سفیدی ہو گی ۔ تم اس سے کہنا کہ تمہارے لئے دعا کرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2542.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 320

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6492
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ومحمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا - واللفظ، لابن المثنى - حدثنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن أسير بن جابر، قال كان عمر بن الخطاب إذا أتى عليه أمداد أهل اليمن سألهم أفيكم أويس بن عامر حتى أتى على أويس فقال أنت أويس بن عامر قال نعم ‏.‏ قال من مراد ثم من قرن قال نعم ‏.‏ قال فكان بك برص فبرأت منه إلا موضع درهم قال نعم ‏.‏ قال لك والدة قال نعم ‏.‏ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ يأتي عليكم أويس بن عامر مع أمداد أهل اليمن من مراد ثم من قرن كان به برص فبرأ منه إلا موضع درهم له والدة هو بها بر لو أقسم على الله لأبره فإن استطعت أن يستغفر لك فافعل ‏"‏ ‏.‏ فاستغفر لي ‏.‏ فاستغفر له ‏.‏ فقال له عمر أين تريد قال الكوفة ‏.‏ قال ألا أكتب لك إلى عاملها قال أكون في غبراء الناس أحب إلى ‏.‏ قال فلما كان من العام المقبل حج رجل من أشرافهم فوافق عمر فسأله عن أويس قال تركته رث البيت قليل المتاع ‏.‏ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ يأتي عليكم أويس بن عامر مع أمداد أهل اليمن من مراد ثم من قرن كان به برص فبرأ منه إلا موضع درهم له والدة هو بها بر لو أقسم على الله لأبره فإن استطعت أن يستغفر لك فافعل ‏"‏ ‏.‏ فأتى أويسا فقال استغفر لي ‏.‏ قال أنت أحدث عهدا بسفر صالح فاستغفر لي ‏.‏ قال استغفر لي ‏.‏ قال أنت أحدث عهدا بسفر صالح فاستغفر لي ‏.‏ قال لقيت عمر قال نعم ‏.‏ فاستغفر له ‏.‏ ففطن له الناس فانطلق على وجهه ‏.‏ قال أسير وكسوته بردة فكان كلما رآه إنسان قال من أين لأويس هذه البردة
زرارہ بن اوفیٰ نے اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے ( یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں ) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا ، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے ۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے ۔ اس کی ایک ماں ہے ۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے ۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا ۔ تو میرے لئے دعا کرو ۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی ۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا ۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور ( خرچ سے ) تنگ تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا ، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے ۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے ۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے ۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے ۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا ۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو ۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے ( یعنی حج سے ) میرے لئے دعا کر ۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر ۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا ۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی ۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے ۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے ۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟ ( وہ ایسے تھے کہ ایک مناسب چادر بھی ان کے پاس ہونا باعث تعجب تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:2542.03

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 321

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6493
حدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، أخبرني حرملة، ح وحدثني هارون بن، سعيد الأيلي حدثنا ابن وهب، حدثني حرملة، - وهو ابن عمران التجيبي - عن عبد الرحمن، بن شماسة المهري قال سمعت أبا ذر، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إنكم ستفتحون أرضا يذكر فيها القيراط فاستوصوا بأهلها خيرا فإن لهم ذمة ورحما فإذا رأيتم رجلين يقتتلان في موضع لبنة فاخرج منها ‏"‏ ‏.‏ قال فمر بربيعة وعبد الرحمن ابنى شرحبيل بن حسنة يتنازعان في موضع لبنة فخرج منها ‏.‏
ابن وہب نے کہا : ہمیں حرملہ بن عمران تحبیی نے عبدالرحمٰن بن شماسہ مہری سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ "" تم عنقریب ایک زمین کو فتح کرو گےجس میں قیراط کا نام لیا جاتا ہوگا ( یہ ان کے چھوٹے سکے کا نام ہوگا ) تم اس سرزمین کے رہنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بات سن رکھو ، کیونکہ ان کا ( ہم پر ) حق بھی ہے اور رشتہ بھی ، پھر جب تم دو انسانوں کو ایک اینٹ کی جگہ کے لئے قتال پر آمادہ دیکھو تو وہاں سے چلے آنا ۔ "" ( حرملہ بن عمران نے ) کہا : تو ( عبدالرحمان بن شماسہ ) حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں ربیعہ اور عبدالرحمان کے قریب سے گزرے ، وہ ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑ رہے تھے تو وہ وہاں ( مصر ) سے نکل آئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2543.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 322

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6494
حدثني زهير بن حرب، وعبيد الله بن سعيد، قالا حدثنا وهب بن جرير، حدثنا أبي، سمعت حرملة المصري، يحدث عن عبد الرحمن بن شماسة، عن أبي بصرة، عن أبي، ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنكم ستفتحون مصر وهي أرض يسمى فيها القيراط فإذا فتحتموها فأحسنوا إلى أهلها فإن لهم ذمة ورحما ‏"‏ ‏.‏ أو قال ‏"‏ ذمة وصهرا فإذا رأيت رجلين يختصمان فيها في موضع لبنة فاخرج منها ‏"‏ ‏.‏ قال فرأيت عبد الرحمن بن شرحبيل بن حسنة وأخاه ربيعة يختصمان في موضع لبنة فخرجت منها ‏.‏
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ حَرْمَلَةَ الْمِصْرِيَّ ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ وَهِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ ، فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا ، فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا» أَوْ قَالَ «ذِمَّةً وَصِهْرًا ، فَإِذَا رَأَيْتَ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِيهَا فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ ، فَاخْرُجْ مِنْهَا» قَالَ : فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَحْبِيلَ بْنِ حَسَنَةَ ، وَأَخَاهُ رَبِيعَةَ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَخَرَجْتُ مِنْهَا

صحيح مسلم حدیث نمبر:2543.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 323

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6495
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا مهدي بن ميمون، عن أبي الوازع، جابر بن عمرو الراسبي سمعت أبا برزة، يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا إلى حى من أحياء العرب فسبوه وضربوه فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لو أن أهل عمان أتيت ما سبوك ولا ضربوك ‏"‏ ‏.‏
جابر بن عمرو راسبی نے کہا : میں نے حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قبائل عرب میں سے ایک قبیلے کے پاس بھیجا تو ان لوگوں نے ان کو گالیاں دیں اور مارا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کوخبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر تم اہل عمان کے پاس جاتے تو وہ تمھیں گالیاں دیتے نہ مارتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2544

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 324

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6496
حدثنا عقبة بن مكرم العمي، حدثنا يعقوب، - يعني ابن إسحاق الحضرمي - أخبرنا الأسود بن شيبان، عن أبي نوفل، رأيت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة - قال - فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر فوقف عليه فقال السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم أما والله لأمة أنت أشرها لأمة خير ‏.‏ ثم نفذ عبد الله بن عمر فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله فأرسل إليه فأنزل عن جذعه فألقي في قبور اليهود ثم أرسل إلى أمه أسماء بنت أبي بكر فأبت أن تأتيه فأعاد عليها الرسول لتأتيني أو لأبعثن إليك من يسحبك بقرونك - قال - فأبت وقالت والله لا آتيك حتى تبعث إلى من يسحبني بقروني - قال - فقال أروني سبتى ‏.‏ فأخذ نعليه ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها فقال كيف رأيتني صنعت بعدو الله قالت رأيتك أفسدت عليه دنياه وأفسد عليك آخرتك بلغني أنك تقول له يا ابن ذات النطاقين أنا والله ذات النطاقين أما أحدهما فكنت أرفع به طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعام أبي بكر من الدواب وأما الآخر فنطاق المرأة التي لا تستغني عنه أما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا ‏ "‏ أن في ثقيف كذابا ومبيرا ‏"‏ ‏.‏ فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه - قال - فقام عنها ولم يراجعها ‏.‏
ہمیں اسود بن شیبان نے ابو نوافل سے خبردی ، کہا : میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( کے جسد خاکی ) کو شہر کی گھاٹی میں ( کھجور کے ایک تنے سے لٹکا ہوا ) دیکھا ، کہا : تو قریش اور دوسرے لوگوں نے وہاں سے گزرنا شروع کردیا ، یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو وہ ان ( ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس کھڑے ہوگئے ، اور ( انھیں مخاطب کرتے ہوئے ) کہا : ابو خبیب!آپ پر سلام! ابو خبیب!آپ پر سلام! ابو خبیب!آپ پر سلام!اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا ، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا ، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا ، اللہ کی قسم!آپ ، جتنا مجھے علم ہے بہت روزے رکھنے والے ، بہت قیام کرنے والے ، بہت صلہ رحمی کرنے و الے تھے ۔ اللہ کی قسم!وہ امت جس میں آپ سب سے بُرے ( قرار دیے گئے ) ہوں ، وہ امت تو پوری کی پوری بہترین ہوگی ( جبکہ اس میں تو بڑے بڑے ظالم ، قاتل اور مجرم موجود ہیں ۔ آپ کسی طور پر اس سلوک کے مستحق نہ تھے ۔ ) پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چلے گئے ۔ حجاج کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہاں کھڑے ہونے کی خبر پہنچی تو اس نے کارندے بھیجے ، ان ( کے جسدخاکی ) کو کھجور کے تنے سے اتارا گیا اور انھیں جاہلی دور کی یہود کی قبروں میں پھینک دیا گیا ، پھر اس نے ( ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کارندہ بھیجا ۔ انھوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کردیا ۔ اس نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ یا تو تم میرے پاس آؤ گی یا پھر میں تمھارے پاس ان لوگوں کو بھیجو ں گا جو تمھیں تمھارے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر انکار کردیا اورفرمایا : میں ہرگز تیرے پاس نہ آؤں گی یہاں تک کہ تو میرے پاس ایسے شخص کو بھیجے جو مجھے میرے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لےجائے ۔ کہا : توحجاج کہنے لگا : مجھے میرے جوتے دکھاؤ ، اس نے جوتے پہنے اور اکڑتا ہوا تیزی سے چل پڑا ، یہاں تک کہ ان کے ہاں پہنچا اور کہا : تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟انھوں نے جواب دیا : میں نے تمھیں دیکھا ہے کہ تم نے اس پر اس کی دنیا تباہ کردی جبکہ اس نے تمھاری آخرت برباد کردی ، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو اسے دو پیٹیوں والی کا بیٹا ( ابن ذات النطاقین ) کہتا ہے ۔ ہاں ، اللہ کی قسم!میں دو پیٹیوں والی ہوں ۔ ایک پیٹی کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھانا سواری کے جانور پر باندھتی تھی اور دوسری پیٹی وہ ہے جس سے کوئی عورت مستغنی نہیں ہوسکتی ( سب کو لباس کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ) اور سنو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ بنو ثقیف میں ایک بہت بڑا کذاب ہوگا اور ایک بہت بڑا سفاک ہوگا ۔ کذاب ( مختار ثقفی ) کو تو ہم نے دیکھ لیا اور رہا سفاک تو میں نہیں سمجھتی کہ تیرے علاوہ کوئی اورہوگا ، کہا : تو وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور انھیں کوئی جواب نہ دے سکا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2545

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 325

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6497
حدثني محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن جعفر الجزري، عن يزيد بن الأصم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لو كان الدين عند الثريا لذهب به رجل من فارس - أو قال من أبناء فارس - حتى يتناوله ‏"‏ ‏.‏
یزید بن اصم جزری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " اگر دین ثریا پر ہوتا تب بھی فارس کا کوئی شخص ۔ ۔ ۔ یا آپ نے فرمایا ۔ ۔ ۔ فرزندان فارس میں سے کوئی شخص اس تک پہنچتا اور اسے حاصل کرلیتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2546.01

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 326

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6498
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - عن ثور، عن أبي الغيث، عن أبي هريرة، قال كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نزلت عليه سورة الجمعة فلما قرأ ‏{‏ وآخرين منهم لما يلحقوا بهم‏}‏ قال رجل من هؤلاء يا رسول الله فلم يراجعه النبي صلى الله عليه وسلم حتى سأله مرة أو مرتين أو ثلاثا - قال - وفينا سلمان الفارسي - قال - فوضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على سلمان ثم قال ‏"‏ لو كان الإيمان عند الثريا لناله رجال من هؤلاء ‏"‏ ‏.‏
ابو غیث نے حضرت ابو ہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ نازل ہوئی اور آپ نے یہ پڑھا : ﴿ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا﴾ "" ان میں اور بھی لوگ ہیں جو اب تک آکر ان سے نہیں ملے ہیں ۔ "" ( الجمعۃ 62 : 3 ) تو ایک نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون لوگ ہیں؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ، حتیٰ کہ اس نے آپ سے ایک یا دو یا تین بار سوال کیا ، کہا : اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہاتھ رکھا ، پھر فرمایا؛ "" اگر ایمان ثریا کے قریب بھی ہوتا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2546.02

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 327

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6499
حدثني محمد بن رافع، وعبد بن حميد، - واللفظ لمحمد - قال عبد أخبرنا وقال، ابن رافع حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ تجدون الناس كإبل مائة لا يجد الرجل فيها راحلة ‏"‏ ‏.‏
سالم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم لوگوں کو ایسے سواونٹوں کی مثل پاؤ گے کہ آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:2547

صحيح مسلم باب:44 حدیث نمبر : 328

Share this: