احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
32: كتاب الجهاد والسير
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
صحيح مسلم حدیث نمبر: 4519
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، حدثنا سليم بن أخضر، عن ابن عون، قال كتبت إلى نافع أسأله عن الدعاء، قبل القتال قال فكتب إلى إنما كان ذلك في أول الإسلام قد أغار رسول الله صلى الله عليه وسلم على بني المصطلق وهم غارون وأنعامهم تسقى على الماء فقتل مقاتلتهم وسبى سبيهم وأصاب يومئذ - قال يحيى أحسبه قال - جويرية - أو قال البتة - ابنة الحارث وحدثني هذا الحديث عبد الله بن عمر وكان في ذاك الجيش
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے کہا : سلیم بن اخضر نے ہمیں ابن عون سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے قتال سے پہلے ( اسلام کی ) دعوت دینے کے بارے میں پوچھنے کے لیے نافع کو خط لکھا ۔ کہا : تو انہوں نے مجھے جواب لکھا : یہ شروع اسلام میں تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر حملہ کیا جبکہ وہ بے خبر تھے اور ان کے مویشی پانی پی رہے تھے ، آپ نے ان کے جنگجو افراد کو قتل کیا اور جنگ نہ کرنے کے قابل لوگوں کو قیدی بنایا اور آپ کو اس دن ۔ یحییٰ نے کہا : میرا خیال ہے ، انہوں نے کہا : جویریہ ۔ یا قطیعت سے بنت حارث کہا ۔ ملیں ۔ مجھے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں موجود تھے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1730.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4520
وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله وقال جويرية بنت الحارث ‏.‏ ولم يشك ‏.‏
ابن ابی عدی نے ابن عون سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور انہوں نے جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہا ، شک نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1730.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4521
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع بن الجراح، عن سفيان، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان، قال أملاه علينا إملاء ح. وحدثني عبد الله بن هاشم، - واللفظ له - حدثني عبد الرحمن، - يعني ابن مهدي - حدثنا سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمر أميرا على جيش أو سرية أوصاه في خاصته بتقوى الله ومن معه من المسلمين خيرا ثم قال ‏ "‏ اغزوا باسم الله في سبيل الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا و لا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا وإذا لقيت عدوك من المشركين فادعهم إلى ثلاث خصال - أو خلال - فأيتهن ما أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين وأخبرهم أنهم إن فعلوا ذلك فلهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين فإن أبوا أن يتحولوا منها فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين ولا يكون لهم في الغنيمة والفىء شىء إلا أن يجاهدوا مع المسلمين فإن هم أبوا فسلهم الجزية فإن هم أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم فإن هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم ‏.‏ وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة أصحابك فإنكم أن تخفروا ذممكم وذمم أصحابكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وذمة رسوله ‏.‏ وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تنزلهم على حكم الله فلا تنزلهم على حكم الله ولكن أنزلهم على حكمك فإنك لا تدري أتصيب حكم الله فيهم أم لا ‏"‏ ‏.‏ قال عبد الرحمن هذا أو نحوه وزاد إسحاق في آخر حديثه عن يحيى بن آدم قال فذكرت هذا الحديث لمقاتل بن حيان - قال يحيى يعني أن علقمة يقوله لابن حيان - فقال حدثني مسلم بن هيصم عن النعمان بن مقرن عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں وکیع بن جراح نے سفیان سے حدی بیان کی ، نیز اسحاق بن ابراہیم نے کہا : ہمیں یحییٰ بن آدم نے خبر دی ، کہا : ہمیں سفیان نے خبر دی ، کہا : یہ حدیث انہوں نے ہمیں املا کروائی

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4522
نیز عبداللہ بن ہاشم نے کہا ۔ ۔ الفاظ انہی کے ہیں ۔ ۔ مجھے عبدالرحمٰن بن مہدی نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سفیان نے علقمہ بن مرثد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں ، جو اس کے ساتھ ہیں ، بھلائی کی تلقین کرتے ، پھر فرماتے : "" اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، جو اللہ تعالیٰ سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو ، نہ خیانت کرو ، نہ بد عہدی کرو ، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انہیں تین باتوں کی طرف بلاؤ ، ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں ، ( اسی کو ) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان ( پر حملے ) سے رک جاؤ ، انہیں اسلام کی دعوت دو ، اگر وہ مان لیں تو اسے ان ( کی طرف ) سے قبول کر لو اور ( جنگ سے ) رک جاؤ ، پھر انہیں اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے میں آ جانے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ دریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں ۔ اگر وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ پھر وہ بادیہ نشیں مسلمانوں کی طرح ہوں گے ، ان پر اللہ کا وہی حکم نافذ ہو گا جو مومنوں پر نافذ ہوتا ہے اور غنیمت اور فے میں سے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں ۔ اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو ، اگر وہ تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے قبول کر لو اور رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو اور جب تم کسی قلعے ( میں رہنے ) والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چاہیں کہ تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کا عہدوپیمان عطا کرو تو انہیں اللہ اور اس کے نبی کا عہدوپیمان نہ دو بلکہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد و امان دو ، کیونکہ یہ بات کہ تم لوگ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہدوپیمان کی خلاف ورزی کر بیٹھو ، اس کی نسبت ہلکی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدوپیمان توڑ دو ۔ اور جب تم قلعہ بند لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چاہیں کہ تم انہیں اللہ کے حکم پر ( قلعے سے ) نیچے اترنے دو تو انہیں اللہ کے حکم پر نیچے نہ اترنے دو بلکہ اپنے حکم پر انہیں نیچے اتارو کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ تم ان کے بارے میں اللہ کے صحیح حکم پر پہنچ پاتے ہو یا نہیں ۔ "" ( ابن ہشام نے کہا : ) عبدالرحمان نے یہی کہا یا اسی طرح کہا ۔ اسحا نے اپنی حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا : یحییٰ بن آدم سے روایت ہے کہ ( علقمہ نے ) کہا : میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی ۔ ۔ یحییٰ نے کہا : یعنی علقمہ نے ابن حیان سے بیان کی ۔ ۔ تو انہوں نے کہا : مجھے مسلم بن ہیصم نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4523
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثني عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا شعبة، حدثني علقمة بن مرثد، أن سليمان بن بريدة، حدثه عن أبيه، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث أميرا أو سرية دعاه فأوصاه ‏.‏ وساق الحديث بمعنى حديث سفيان ‏.‏
عبدالصمد بن عبدالوارث نے مجھے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے علقمہ بن مرثد نے حدیث بیان کی کہ انہیں سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی امیر کو یا چھوٹے لشکر کو روانہ کرتے تو آپ اسے بلاتے اور تلقین فرماتے ۔ ۔ پھر انہوں ( شعبہ ) نے سفیان کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1731.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4524
حدثنا إبراهيم، حدثنا محمد بن عبد الوهاب الفراء، عن الحسين بن الوليد، عن شعبة، بهذا ‏.‏
حسین بن ولید نے شعبہ سے یہی حدیث روایت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1731.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4525
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي بكر - قالا حدثنا أبو أسامة عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث أحدا من أصحابه في بعض أمره قال ‏ "‏ بشروا ولا تنفروا ويسروا ولا تعسروا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو جب اپنے کسی معاملے کی ذمہ داری دے کر روانہ کرتے تو فرماتے : " خوشخبری دو ، دور نہ بھگاؤ ، آسانی پیدا کرو اور مشکل میں نہ ڈالو

صحيح مسلم حدیث نمبر:1732

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4526
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن سعيد بن أبي بردة، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه ومعاذا إلى اليمن فقال ‏ "‏ يسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا وتطاوعا ولا تختلفا ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے سعید بن ابی بردہ سے ، انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا ( حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا : " تم دونوں آسانی پیدا کرنا ، مشکل میں نہ ڈالنا ، خوشخبری دینا ، دور نہ بھگانا ، آپس میں اتفاق رکھنا ، اختلاف نہ کرنا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1733.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4527
وحدثنا محمد بن عباد، حدثنا سفيان، عن عمرو، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، وابن أبي خلف عن زكرياء بن عدي، أخبرنا عبيد الله، عن زيد بن أبي أنيسة، كلاهما عن سعيد بن أبي بردة، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ نحو حديث شعبة وليس في حديث زيد بن أبي أنيسة ‏ "‏ وتطاوعا ولا تختلفا ‏"‏ ‏.‏
عمرو اور زید بن ابی انیسہ دونوں نے سعید بن ابی بردہ سے روایت کی ، انہوں نے اپنے والد سے ( آگے ) اپنے دادا سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبہ کی حدیث کی طرح روایت کی ۔ اور زید بن ابی انیسہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے : " دونوں آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1733.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4528
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن أبي التياح، عن أنس، ح. وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبيد الله بن سعيد، ح وحدثنا محمد بن، الوليد حدثنا محمد بن جعفر، كلاهما عن شعبة، عن أبي التياح، قال سمعت أنس بن مالك، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يسروا ولا تعسروا وسكنوا ولا تنفروا ‏"‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آسانی کرو ، دشواری پیدا نہ کرو ، اطمینان دلاؤ اور دور نہ بھگاؤ

صحيح مسلم حدیث نمبر:1734

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4529
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن بشر، وأبو أسامة ح وحدثني زهير، بن حرب وعبيد الله بن سعيد - يعني أبا قدامة السرخسي - قالا حدثنا يحيى، - وهو القطان - كلهم عن عبيد الله، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا جمع الله الأولين والآخرين يوم القيامة يرفع لكل غادر لواء فقيل هذه غدرة فلان بن فلان ‏"‏ ‏.‏
عبیداللہ نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " قیامت کے دن اللہ جب پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں کو جمع کرے گا تو بدعہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا : یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ( کا نشان ) ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1735.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4530
حدثنا أبو الربيع العتكي، حدثنا حماد، حدثنا أيوب، ح وحدثنا عبد الله بن عبد، الرحمن الدارمي حدثنا عفان، حدثنا صخر بن جويرية، كلاهما عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث ‏.‏
ایوب اور صخر بن جویریہ دونوں نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1735.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4531
وحدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر عن إسماعيل بن جعفر، عن عبد، الله بن دينار أنه سمع عبد الله بن عمر، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الغادر ينصب الله له لواء يوم القيامة فيقال ألا هذه غدرة فلان ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن اللہ ایک جھنڈا نصب کرے گا اور کہا جائے گا : سنو! یہ فلاں کی عہد شکنی ( کا نشان ) ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1735.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4532
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن حمزة، وسالم، ابنى عبد الله أن عبد الله بن عمر، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لكل غادر لواء يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ ( بن عمر رضی اللہ عنہ ) کے دو بیٹوں حمزہ اور سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : " ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1735.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4533
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا ابن أبي عدي، ح وحدثني بشر، بن خالد أخبرنا محمد، - يعني ابن جعفر - كلاهما عن شعبة، عن سليمان، عن أبي وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لكل غادر لواء يوم القيامة يقال هذه غدرة فلان ‏"‏ ‏.‏
(محمد بن ابراہیم ) ابن ابی عدی اور محمد بن جعفر دونوں نے شعبہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے سلیمان ( اعمش ) سے ، انہوں نے ابووائل سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : " ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا ، کہا جائے گا : یہ فلاں کی عہد شکنی ( کا نشان ) ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1736.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4534
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا النضر بن شميل، ح وحدثني عبيد الله، بن سعيد حدثنا عبد الرحمن، جميعا عن شعبة، في هذا الإسناد ‏.‏ وليس في حديث عبد الرحمن ‏ "‏ يقال هذه غدرة فلان ‏"‏ ‏.‏
نضر بن شمیل اور عبدالرحمان ( بن مہدی ) نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور عبدالرحمان کی حدیث میں یہ ( الفاظ ) نہیں ہیں : " کہا جائے گا : یہ فلاں کی عہد شکنی ( کا نشان ) ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1736.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4535
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن آدم، عن يزيد بن عبد العزيز، عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به يقال هذه غدرة فلان ‏"‏ ‏.‏
یزید بن عبدالعزیز نے اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا ، وہ اس کے ذریعے سے پہچانا جائے گا ، کہا جائے گا : یہ فلاں کی بدعہدی ( کا نشان ) ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1736.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4536
حدثنا محمد بن المثنى، وعبيد الله بن سعيد، قالا حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن شعبة، عن ثابت، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جس سے وہ پہچانا جائے گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1737

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4537
حدثنا محمد بن المثنى، وعبيد الله بن سعيد، قالا حدثنا عبد الرحمن، حدثنا شعبة، عن خليد، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لكل غادر لواء عند استه يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
خُلید نے ابونضرہ سے ، انہوں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : " بدعہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے ، قیامت کے دن اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا ( نصب ) ہو گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1738.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4538
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا المستمر بن الريان، حدثنا أبو نضرة، عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل غادر لواء يوم القيامة يرفع له بقدر غدره ألا ولا غادر أعظم غدرا من أمير عامة ‏"‏ ‏.‏
مستمر بن ریان نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ابونضرہ نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " عہد شکنی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی بدعہدی کے بقدر بلند کیا جائے گا ، سنو! عہد شکنی میں کوئی عوام کے ( عہد شکن ) امیر سے بڑا نہیں ہو گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1738.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4539
وحدثنا علي بن حجر السعدي، وعمرو الناقد، وزهير بن حرب، - واللفظ لعلي وزهير - قال علي أخبرنا وقال الآخران، حدثنا سفيان، قال سمع عمرو، جابرا يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الحرب خدعة ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جنگ ایک چال ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1739

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4540
وحدثنا محمد بن عبد الرحمن بن سهم، أخبرنا عبد الله بن المبارك، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏الحرب خدعة ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جنگ ( دشمن کو ) دھوکے ( میں رکھنے ) کا نام ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1740

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4541
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا أبو عامر العقدي، عن المغيرة، - وهو ابن عبد الرحمن الحزامي - عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي، هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تمنوا لقاء العدو فإذا لقيتموهم فاصبروا‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو ، لیکن جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو صبر کرو

صحيح مسلم حدیث نمبر:1741

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4542
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني موسى، بن عقبة عن أبي النضر، عن كتاب، رجل من أسلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يقال له عبد الله بن أبي أوفى فكتب إلى عمر بن عبيد الله حين سار إلى الحرورية يخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في بعض أيامه التي لقي فيها العدو ينتظر حتى إذا مالت الشمس قام فيهم فقال ‏"‏ يا أيها الناس لا تتمنوا لقاء العدو واسألوا الله العافية فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف ‏"‏ ‏.‏ ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم وقال ‏"‏ اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم ‏"‏ ‏.‏
ابونضر سے روایت ہے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی ، جنہیں عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ، کے خط سے روایت کی ، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو ، جب انہوں نے ( جہاد کی غرض سے ) حروریہ کی طرف کوچ کیا ، یہ بتانے کے لیے خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض ایام ( جنگ ) میں ، جن میں آپ کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ، انتظار کرتے ، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا ، آپ ان ( ساتھیوں ) کے درمیان کھڑے ہوتے اور فرماتے : " لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، ( لیکن ) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ " پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : " اے اللہ! کتاب کو اتارنے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے! انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما

صحيح مسلم حدیث نمبر:1742.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4543
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا خالد بن عبد الله، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن عبد الله بن أبي أوفى، قال دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الأحزاب فقال ‏ "‏ اللهم منزل الكتاب سريع الحساب اهزم الأحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم ‏"‏ ‏.‏
خالد بن عبداللہ نے ہمیں اسماعیل بن ابی خالد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مدینہ پر حملے کرنے والے ) لشکروں کے خلاف یہ دعا کی : " اے اللہ! کتاب کو اتارنے والے! جلد حساب کرنے والے! سب لشکروں کو شکست دے ، اے اللہ! انہیں شکست دے اور ان کے قدم لرزا دے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1742.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4544
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع بن الجراح، عن إسماعيل بن أبي، خالد قال سمعت ابن أبي أوفى، يقول دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثل حديث خالد غير أنه قال ‏"‏ هازم الأحزاب ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر قوله ‏"‏ اللهم ‏"‏ ‏.‏
وکیع بن جراح نے ہمیں اسماعیل بن ابی خالد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔ ۔ ( آگے ) خالد کی حدیث کے مانند ہے ، البتہ انہوں نے " ( اے ) لشکروں کو شکست دینے والے " کے الفاظ کہے اور آپ کے فرمان " اللهم " کا ذکر نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1742.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4545
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، وابن أبي عمر، جميعا عن ابن عيينة، عن إسماعيل، بهذا الإسناد وزاد ابن أبي عمر في روايته ‏ "‏ مجري السحاب ‏"‏ ‏.‏
اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ابن عیینہ سے ، انہوں نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور ابن ابی عمر نے اپنی روایت میں " بادلوں کو چلانے والےکے الفاظ کا اضافہ کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1742.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4546
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا عبد الصمد، حدثنا حماد، عن ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول يوم أحد ‏ "‏ اللهم إنك إن تشأ لا تعبد في الأرض ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( جنگِ ) احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( بار بار ) یہ فرما رہے تھے : " اے اللہ! اگر تو یہ چاہتا ہے تو ( آج کےبعد ) زمین میں تیری عبادے نہ کی جائے گی ۔ " ( تیری عبادت کرنے والی آخری امت ختم ہو جائے گی)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1743

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4547
حدثنا يحيى بن يحيى، ومحمد بن رمح، قالا أخبرنا الليث، ح وحدثنا قتيبة بن، سعيد حدثنا ليث، عن نافع، عن عبد الله، أن امرأة، وجدت، في بعض مغازي رسول الله صلى الله عليه وسلم مقتولة فأنكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل النساء والصبيان‏.‏
لیث نے نافع سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غزوے میں ایک عورت مقتول ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل پر ( سخت ) ناگواری کا اظہار کیا ( اور اس سے منع فرما دیا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1744.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4548
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن بشر، وأبو أسامة قالا حدثنا عبيد، الله بن عمر عن نافع، عن ابن عمر، قال وجدت امرأة مقتولة في بعض تلك المغازي فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل النساء والصبيان ‏.‏
عبیداللہ بن عمر نے ہمیں نافع کے حوالے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : غزوات میں سے ایک غزوے میں ایک عورت مقتول ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1744.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4549
وحدثنا يحيى بن يحيى، وسعيد بن منصور، وعمرو الناقد، جميعا عن ابن عيينة، قال يحيى أخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله، عن ابن عباس، عن الصعب، بن جثامة قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الذراري من المشركين يبيتون فيصيبون من نسائهم وذراريهم ‏.‏ فقال ‏ "‏ هم منهم ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے ہمیں زہری سے خبر دی ، انہوں نے عبیداللہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے گھرانے کے بارے میں پوچھا گیا ، ان پر شب خون مارا جاتا ہے تو وہ ( حملہ کرنے والے ) ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ انہی میں سے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1745.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4550
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد، الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس، عن الصعب بن جثامة، قال قلت يا رسول الله إنا نصيب في البيات من ذراري المشركين قال ‏ "‏ هم منهم ‏"‏ ‏.‏
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! شب خون میں ہم مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : وہ انہی میں سے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1745.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4551
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني عمرو، بن دينار أن ابن شهاب، أخبره عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن الصعب بن جثامة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قيل له لو أن خيلا أغارت من الليل فأصابت من أبناء المشركين قال ‏ "‏ هم من آبائهم ‏"‏ ‏.‏
عمرو بن دینار نے مجھے خبر دی کہ انہیں ابن شہاب نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے خبر دی ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کچھ گھڑ سوار رات کو دھاوا بولیں اور مشرکوں کے ( ساتھ ان کے کچھ ) بیٹوں کو ( بھی ) قتل کر دیں ( تو گناہ تو نہیں ہے؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ اپنے آباء ہی میں سے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1745.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4552
حدثنا يحيى بن يحيى، ومحمد بن رمح، قالا أخبرنا الليث، ح وحدثنا قتيبة بن، سعيد حدثنا ليث، عن نافع، عن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة ‏.‏ زاد قتيبة وابن رمح في حديثهما فأنزل الله عز وجل ‏{‏ ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين‏}‏
یحییٰ بن یحییٰ ، محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید نے لیث سے حدیث بیان کی ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجور کے درخت جلائے اور کاٹ ڈالے اور یہ بویرہ کا مقام تھا ( جہاں یہ درخت واقع تھےقتیبہ اور ابن رمح نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا : اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : " تم نے کھجور کا جو درخت کاٹ ڈالا یا اسے اپنی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لیے تاکہ وہ ( اللہ ) نافرمانوں کو رسوا کرے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1746.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4553
حدثنا سعيد بن منصور، وهناد بن السري، قالا حدثنا ابن المبارك، عن موسى، بن عقبة عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قطع نخل بني النضير وحرق ولها يقول حسان وهان على سراة بني لؤى حريق بالبويرة مستطير وفي ذلك نزلت ‏{‏ ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها‏}‏ الآية ‏.‏
موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے درخت کاٹے اور جلا دیے ۔ اسی کے بارے میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "" بنو لؤی ( قریش ) کے سرداروں کے لیے بویرہ میں ہر طرف پھیلنے والی آگ کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : "" تم نے کھجور کا جو بھی درخت کاٹا یا اسے چھوڑ دیا ۔ ۔ "" آیت کے آخر تک

صحيح مسلم حدیث نمبر:1746.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4554
وحدثنا سهل بن عثمان، أخبرني عقبة بن خالد السكوني، عن عبيد الله، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، قال حرق رسول الله صلى الله عليه وسلم نخل بني النضير‏.‏
عبیداللہ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کی کھجوروں کے درخت جلا دیے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1746.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4555
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا ابن المبارك، عن معمر، ح وحدثنا محمد، بن رافع - واللفظ له - حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ غزا نبي من الأنبياء فقال لقومه لا يتبعني رجل قد ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن ولا آخر قد بنى بنيانا ولما يرفع سقفها ولا آخر قد اشترى غنما أو خلفات وهو منتظر ولادها ‏.‏ قال فغزا فأدنى للقرية حين صلاة العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس أنت مأمورة وأنا مأمور اللهم احبسها على شيئا ‏.‏ فحبست عليه حتى فتح الله عليه - قال - فجمعوا ما غنموا فأقبلت النار لتأكله فأبت أن تطعمه فقال فيكم غلول فليبايعني من كل قبيلة رجل ‏.‏ فبايعوه فلصقت يد رجل بيده فقال فيكم الغلول فلتبايعني قبيلتك ‏.‏ فبايعته - قال - فلصقت بيد رجلين أو ثلاثة فقال فيكم الغلول أنتم غللتم - قال - فأخرجوا له مثل رأس بقرة من ذهب - قال - فوضعوه في المال وهو بالصعيد فأقبلت النار فأكلته ‏.‏ فلم تحل الغنائم لأحد من قبلنا ذلك بأن الله تبارك وتعالى رأى ضعفنا وعجزنا فطيبها لنا ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : یہ ( احادیث ) ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں ، پھر انہوں نے چند احادیث بیان کیں ، ان میں سے ( ایک ) یہ ہے : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " انبیاء میں سے کسی نبی نے جہاد کیا تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا : میرے ساتھ وہ آدمی نہ آئے جس نے کسی عورت سے شادی کی ہے ، وہ اس کے ساتھ شب زفاف گزارنا چاہتا ہے اور ابھی تک نہیں گزاری ، نہ وہ جس نے گھر تعمیر کیا ہے اور ابھی تک اس کی چھتیں بلند نہیں کیں اور نہ وہ جس نے بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہیں اور وہ ان کے بچہ دینے کا منتظر ہے ۔ کہا : وہ جہاد کے لیے نکلے ، نماز عصر کے وقت یا اس کے قریب ، وہ بستی کے نزدیک پہنچے تو انہوں نے سورج سے کہا : تو بھی ( اللہ کے حکم کا ) پابند ہے اور میں بھی پابند ہوں ، اے اللہ! اسے کچھ وقت کے لیے مجھ پر روک دے ۔ تو اسے روک دیا گیا ، حتی کہ اللہ نے انہیں فتح دی ۔ کہا : انہیں غنیمت میں جو ملا ، انہوں نے اس کو اکٹھا کر لیا ، آگ اسے کھانے کے لیے آئی تو اسے کھانے سے باز رہی ۔ اس پر انہوں نے کہا : تمہارے درمیان خیانت ( کا ارتکاب ہوا ) ہے ، ہر قبیلے کا ایک آدمی میری بیعت کرے ۔ انہوں نے ان کی بیعت کی تو ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا ۔ انہوں نے کہا : خیانت تم لوگوں میں ہوئی ہے ، لہذا تمہارا قبیلہ میری بیعت کرے ۔ اس قبیلے نے ان کی بیعت کی تو ( آپ کا ہاتھ ) دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ سے چمٹ گیا ۔ اس پر انہوں نے کہا : خیانت تم میں ہے ، تم نے خیانت کی ہے ۔ کہا : تو وہ گائے کے سر کے بقدر سونا نکال کر ان کے پاس لے آئے ۔ کہا : انہوں نے اسے مالِ غنیمت میں رکھا ، وہ بلند جگہ پر رکھا ہوا تھا ، تو آگ آئی اور اسے کھا گئی ۔ اموالِ غنیمت ہم سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھے ، یہ ( ہمارے لیے حلال ) اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عجز کو دیکھا تو اس نے ان کو ہمارے لیے حلال کر دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1747

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4556
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، عن سماك، عن مصعب بن سعد، عن أبيه، قال أخذ أبي من الخمس سيفا فأتى به النبي صلى الله عليه وسلم فقال هب لي هذا ‏.‏ فأبى فأنزل الله عز وجل ‏{‏ يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول‏}‏
ابوعوانہ نے سماک سے ، انہوں نے مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میرے والد نے خمس میں سے کوئی چیز لی ، اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی : یہ مجھے ہبہ فرما دیں تو آپ نے انکار کیا ۔ کہا : اس پر اللہ عزوجل نے ( یہ حکم ) نازل فرمایا : " لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دیجئے : اموالِ غنیمت اللہ کے لیے اور رسول کے لیے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1748.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4557
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن سماك بن حرب، عن مصعب بن سعد، عن أبيه، قال نزلت في أربع آيات أصبت سيفا فأتى به النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله نفلنيه ‏.‏ فقال ‏"‏ ضعه ‏"‏ ‏.‏ ثم قام فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ضعه من حيث أخذته ‏"‏ ‏.‏ ثم قام فقال نفلنيه يا رسول الله ‏.‏ فقال ‏"‏ ضعه ‏"‏ ‏.‏ فقام فقال يا رسول الله نفلنيه أأجعل كمن لا غناء له فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ضعه من حيث أخذته ‏"‏ ‏.‏ قال فنزلت هذه الآية ‏{‏ يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول‏}‏
شعبہ نے ہمیں سماک بن حرب سے حدیث بیان کی ، انہوں نے مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئیں : مجھے ایک تلوار ملی ، ( پھر کہا : ) وہ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اللہ کے رسول! ( اپنے حصے کے علاوہ ) یہ تلوار مجھے مزید عطا فرما دیں ۔ تو آپ نے فرمایا : " اسے رکھ دو ۔ " وہ پھر اٹھے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! ( یہ تلوار ) مجھے مزید دے دیں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو ۔ " وہ پھر اٹھے اور عرض کی : اللہ کے رسول! ( اپنے حصے کے علاوہ ) یہ بھی مجھے عنایت فرما دیں ۔ تو آپ نے فرمایا : " اسے رکھ دو ۔ " وہ پھر اٹھے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! ( اپنے حصے کے علاوہ ) یہ مجھے عنایت فرما دیں ۔ کیا میں اس شخص جیسا قرار دیا جاؤں گا جس کے لیے ( جنگ میں ) کوئی فائدہ نہیں ہوا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : " تم نے اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو ۔ " کہا : اس پر یہ آیت نازل ہوئی : " وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دیجئے! غنیمتیں اللہ کے لیے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1748.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4558
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن نافع، عن ابن عمر، قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية وأنا فيهم قبل نجد فغنموا إبلا كثيرة فكانت سهمانهم اثنى عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا ‏.‏
امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک دستہ بھیجا ، میں بھی ان میں تھا ، انہوں نے بہت سے اونٹ غنیمت میں حاصل کیے تو ان کا حصہ بارہ بارہ اونٹ یا گیارہ گیارہ اونٹ تھا اور انہیں ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1749.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4559
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية قبل نجد وفيهم ابن عمر وأن سهمانهم بلغت اثنى عشر بعيرا ونفلوا سوى ذلك بعيرا فلم يغيره رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
لیث نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک دستہ بھیجا ، ان میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ، ان کے حصے بارہ بارہ اونٹ تک پہنچ گئے اور اس کے علاوہ انہیں ایک ایک اونٹ زائد ( بھی ) ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( فیصلے ) کو تبدیل نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1749.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4560
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، وعبد الرحيم بن سليمان، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى نجد فخرجت فيها فأصبنا إبلا وغنما فبلغت سهماننا اثنى عشر بعيرا ونفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا بعيرا ‏.‏
علی بن مسہر اور عبدالرحیم بن سلیمان نے عبیداللہ بن عمر سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب ایک دستہ بھیجا ، میں بھی اس میں گیا ۔ ہمیں اونٹ اور بکریاں ملیں تو ہمارے حصے بارہ بارہ اونٹوں تک پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک اونٹ زائد بھی دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1749.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4561
وحدثنا زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا يحيى، - وهو القطان - عن عبيد الله، بهذا الإسناد ‏.‏
ٰ قطان نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1749.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4562
وحدثناه أبو الربيع، وأبو كامل قالا حدثنا حماد، عن أيوب، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، قال كتبت إلى نافع أسأله عن النفل، فكتب إلى أن4661 - وحدثنا ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني موسى، ح وحدثنا هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني أسامة بن زيد، كلهم عن نافع، بهذا الإسناد نحو حديثهم ‏.‏
ایوب نے ہمیں حدیث بیان کی ، اور ( ایک دوسری سند سے ) ابن عون نے کہا : میں نے غنیمت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نافع کی طرف خط لکھا ، انہوں نے مجھے جواب بھی لکھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دستے میں تھے ۔ ۔ ۔ ، نیز موسیٰ اور اسامہ بن زید نے بھی حدیث بیان کی ، ان سب ( ایوب ، ابن عون ، موسیٰ اور اسامہ ) نے نافع سے اسی سند کے ساتھ انہی کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1749.05

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4563
وحدثنا سريج بن يونس، وعمرو الناقد، - واللفظ لسريج - قالا حدثنا عبد، الله بن رجاء عن يونس، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، قال نفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم نفلا سوى نصيبنا من الخمس فأصابني شارف والشارف المسن الكبير ‏
عبداللہ بن رجاء نے یونس سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد ( حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خمس سے ہمارے حصے کے سوا اضافی بھی دیا تو مجھے ایک شارف ملا ۔ ۔ اور شارف سے مراد پختہ عمر کا ( مضبوط ) اونٹ ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1750.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4564
وحدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن المبارك، ح وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، كلاهما عن يونس، عن ابن شهاب، قال بلغني عن ابن عمر، قال نفل رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية بنحو حديث ابن رجاء ‏.‏
ابن مبارک اور ابن وہب دونوں نے یونس کے حوالے سے زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مجھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث پہنچی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستے کو زائد دیا ۔ ۔ ابن رجاء کی حدیث کی طرح

صحيح مسلم حدیث نمبر:1750.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4565
وحدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث، حدثني أبي، عن جدي، قال حدثني عقيل، بن خالد عن ابن شهاب، عن سالم، عن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لأنفسهم خاصة سوى قسم عامة الجيش والخمس في ذلك واجب كله ‏.‏
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات عام لشکر کی تقسیم سے ہٹ کر بعض دستوں کو ، جنہیں آپ روانہ فرماتے تھے ، خصوصی طور پر ان کے لیے زائد عطیات دیتے تھے ، اور خمس ان سب مہموں میں واجب تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1750.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4566
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، أخبرنا هشيم، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن، كثير بن أفلح عن أبي محمد الأنصاري، وكان، جليسا لأبي قتادة قال قال أبو قتادة ‏.‏ واقتص الحديث ‏.‏
ہشیم نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عمر بن کثیر بن افلح سے اور انہوں نے ابومحمد انصاری سے روایت کی اور وہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے ہم نشیں تھے ، انہوں نے کہا : حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ ۔ اور انہوں ( ابومحمد ) نے حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1751.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4567
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير، عن أبي محمد، مولى أبي قتادة أن أبا قتادة، قال ‏.‏ وساق الحديث ‏.‏
لیث نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عمر بن کثیر بن افلح سے ، انہوں نے ابومحمد ( المعروف بہ ) مولیٰ ابوقتادہ سے روایت کی کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ ۔ اور حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1751.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4568
وحدثنا أبو الطاهر، وحرملة، - واللفظ له - أخبرنا عبد الله بن وهب، قال سمعت مالك بن أنس، يقول حدثني يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن أفلح، عن أبي محمد، مولى أبي قتادة عن أبي قتادة، قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين فلما التقينا كانت للمسلمين جولة ‏.‏ قال فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين فاستدرت إليه حتى أتيته من ورائه فضربته على حبل عاتقه وأقبل على فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت ثم أدركه الموت فأرسلني فلحقت عمر بن الخطاب فقال ما للناس فقلت أمر الله ‏.‏ ثم إن الناس رجعوا وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقال ‏"‏ من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه ‏"‏ ‏.‏ قال فقمت فقلت من يشهد لي ثم جلست ثم قال مثل ذلك فقال فقمت فقلت من يشهد لي ثم جلست ثم قال ذلك الثالثة فقمت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما لك يا أبا قتادة ‏"‏ ‏.‏ فقصصت عليه القصة فقال رجل من القوم صدق يا رسول الله سلب ذلك القتيل عندي فأرضه من حقه ‏.‏ وقال أبو بكر الصديق لاها الله إذا لا يعمد إلى أسد من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صدق فأعطه إياه ‏"‏ ‏.‏ فأعطاني قال فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام ‏.‏ وفي حديث الليث فقال أبو بكر كلا لا يعطيه أضيبع من قريش ويدع أسدا من أسد الله ‏.‏ وفي حديث الليث لأول مال تأثلته ‏.‏
امام مالک بن انس کہتے ہیں : مجھے یحییٰ بن سعید نے عمر بن کثیر بن افلح سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابومحمد سے اور انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ، جب ( دشمن سے ) ہمارا سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچی ۔ کہا : میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جو مسلمانوں کے ایک آدمی پر غالب آ گیا تھا ، میں گھوم کر اس کی طرف بڑھا حتی کہ اس کے پیچھے آ گیا اور اس کی گردن کے پٹھے پر وار کیا ، وہ ( اسے چھوڑ کر ) میری طرف بڑھا اور مجھے اس زور سے دبایا کہ مجھے اس ( دبانے ) سے موت کی بو محسوس ہونے لگی ، پھر اس کو موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اس کے بعد میری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے پوچھا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا : اللہ کا حکم ہے ۔ پھر لوگ واپس پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا : "" جس نے کسی کو قتل کیا ، ( اور ) اس کے پاس اس کی کوئی دلیل ( نشانی وغیرہ ) ہو تو اس ( مقتول ) سے چھینا ہوا سامان اسی کا ہو گا ۔ "" کہا : تو میں کھڑا ہوا اور کہا : میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا ۔ پھر آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا ۔ کہا : تو میں کھڑا ہوا اور کہا : میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا ۔ پھر آپ نے تیسری بار یہی فرمایا ۔ کہا : میں پھر کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" ابوقتادہ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟ "" تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا ۔ اس پر لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول! اس نے سچ کہا ہے ۔ اس مقتول کا چھینا ہوا سامان میرے پاس ہے ، آپ انہیں ان کے حق سے ( دستبردار ہونے پر ) مطمئن کر دیجیے ۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر سے ، جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑائی کرتا ہے ، نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے مقتول کا چھینا ہوا سامان تمہیں دے دیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" انہوں نے سچ کہا : وہ انہی کو دے دو ۔ "" تو اس نے ( وہ سامان ) مجھے دے دیا ، کہا : میں نے ( اسی سامان میں سے ) زرہ فروخت کی اور اس ( کی قیمت ) سے ( اپنی ) بنو سلمہ ( کی آبادی ) میں ایک باغ خرید لیا ۔ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام ( کے زمانے ) میں بنایا ۔ لیث کی حدیث میں ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ہرگز نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر قریش کے ایک چھوٹے سے لگڑ بگھے کو عطا نہیں کریں گے ۔ لیث کی حدیث میں ہے : ( انہوں نے کہا ) وہ پہلا مال تھا جو میں نے بنایا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1751.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4569
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، أخبرنا يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم، بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه، عن عبد الرحمن بن عوف، أنه قال بينا أنا واقف، في الصف يوم بدر نظرت عن يميني، وشمالي، فإذا أنا بين، غلامين من الأنصار حديثة أسنانهما تمنيت لو كنت بين أضلع منهما فغمزني أحدهما ‏.‏ فقال يا عم هل تعرف أبا جهل قال قلت نعم وما حاجتك إليه يا ابن أخي قال أخبرت أنه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رأيته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الأعجل منا ‏.‏ قال فتعجبت لذلك فغمزني الآخر فقال مثلها - قال - فلم أنشب أن نظرت إلى أبي جهل يزول في الناس فقلت ألا تريان هذا صاحبكما الذي تسألان عنه قال فابتدراه فضرباه بسيفيهما حتى قتلاه ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبراه ‏.‏ فقال ‏"‏ أيكما قتله ‏"‏ ‏.‏ فقال كل واحد منهما أنا قتلت ‏.‏ فقال ‏"‏ هل مسحتما سيفيكما ‏"‏ ‏.‏ قالا لا ‏.‏ فنظر في السيفين فقال ‏"‏ كلاكما قتله ‏"‏ ‏.‏ وقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح ومعاذ ابن عفراء ‏.‏
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : بدر کے دن جب میں صف میں کھڑا تھا ، میں نے اپنی دائیں اور بائیں طرف نظر دوڑائی تو میں انصار کے دو لڑکوں کے درمیان میں کھڑا تھا ، ان کی عمریں کم تھیں ، میں نے آرزو کی ، کاش! میں ان دونوں کی نسبت زیادہ طاقتور آدمیوں کے درمیان ہوتا ، ( اتنے میں ) ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ لگا کر متوجہ کیا اور کہا : چچا! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ کہا : میں نے کہا : ہاں ، بھتیجے! تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا : مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجوداس وقت تک اس کے وجود سے الگ نہیں ہو گا یہاں تک کہ ہم میں سے جلد تر مرنے والے کو موت آ جائے ۔ کہا : میں نے اس پر تعجب کیا تو دوسرے نے مجھے متوجہ کیا اور وہی بات کہی ، کہا : پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ میری نظر ابوجہل پر پڑی ، وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا ۔ تو میں نے ( ان دونوں سے ) کہا : تم دیکھ نہیں رہے؟ یہ ہے تمہارا ( مطلوبہ ) بندہ جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے ۔ کہا : وہ دونوں یکدم اس کی طرف لپکے اور اس پر اپنی تلواریں برسا دیں حتی کہ اسے قتل کر دیا ، پھر پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے پوچھا : " تم دونوں میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟ " ان دونوں میں سے ہر ایک نے جواب دیا : میں نے اسے قتل کیا ہے ۔ آپ نے پوچھا : " کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟ " انہوں نے کہا : نہیں ۔ آپ نے دونوں تلواریں دیکھیں اور فرمایا : " تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے ۔ " اور اس کے سازوسامان کا فیصلہ آپ نے عاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے حق میں دیا ۔ اور وہ دونوں جوان معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہم تھے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1752

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4570
وحدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن سرح أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني معاوية بن صالح، عن عبد الرحمن بن جبير، عن أبيه، عن عوف بن مالك، قال قتل رجل من حمير رجلا من العدو فأراد سلبه فمنعه خالد بن الوليد وكان واليا عليهم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم عوف بن مالك فأخبره فقال لخالد ‏"‏ ما منعك أن تعطيه سلبه ‏"‏ ‏.‏ قال استكثرته يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ ادفعه إليه ‏"‏ ‏.‏ فمر خالد بعوف فجر بردائه ثم قال هل أنجزت لك ما ذكرت لك من رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستغضب فقال ‏"‏ لا تعطه يا خالد لا تعطه يا خالد هل أنتم تاركون لي أمرائي إنما مثلكم ومثلهم كمثل رجل استرعي إبلا أو غنما فرعاها ثم تحين سقيها فأوردها حوضا فشرعت فيه فشربت صفوه وتركت كدره فصفوه لكم وكدره عليهم ‏"‏ ‏.‏
معاویہ بن صالح نے عبدالرحمان بن جبیر سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حمیر کے ایک آدمی نے دشمن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور اس کا سلب ( مقتول کا سازوسامان ) لینا چاہا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا اور وہ ان پر امیر تھے ، چنانچہ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ( اپنے حمیری ساتھی کی حمایت کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو آپ نے خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا : " تمہیں اس کے مقتول کا سامان اسے دینے سے کیا امر مانع ہے؟ " انہوں نے جواب دیا : اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ سمجھا ۔ آپ نے فرمایا : " وہ ( سامان ) ان کے حوالے کر دو ۔ " اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان کی چادر کھینچی اور کہا : کیا میں نے پورا کر دیا جو میں نے آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کہا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن لی تو آپ کو غصہ آ گیا اور فرمایا : " خالد! اسے مت دو ، خالد! اسے مت دو ۔ کیا تم میرے ( مقرر کیے ہوئے ) امیروں کو میرے لیے چھوڑ سکتے ہو ( کہ میں اصلاح کروں ، تم طعن و تشنیع نہ کرو! ) تمہاری اور ان کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جسے اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا بنایا گیا ، اس نے انہیں چرایا ، پھر ان کو پانی پلانے کے وقت کا انتظار کیا اور انہیں حوض پر لے گیا ، انہوں نے اس میں سے پینا شروع کیا تو انہوں نے اس کا صاف پانی پی لیا اور گدلا چھوڑ دیا تو صاف پانی تمہارے لیے ہے اور گدلا ان کا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1753.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4571
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا صفوان بن عمرو، عن عبد، الرحمن بن جبير بن نفير عن أبيه، عن عوف بن مالك الأشجعي، قال خرجت مع من خرج مع زيد بن حارثة في غزوة مؤتة ورافقني مددي من اليمن ‏.‏ وساق الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بنحوه غير أنه قال في الحديث قال عوف فقلت يا خالد أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بالسلب للقاتل قال بلى ولكني استكثرته ‏.‏
صفوان بن عمرو نے عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جانے والوں کے ساتھ روانہ ہوا ، یمن سے مدد کے لیے آنے والا ایک آدمی بھی میرا رفیق سفر ہوا ۔ ۔ ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی طرح حدیث بیان کی ، البتہ انہوں نے حدیث میں کہا : عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے کہا : خالد! کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلب ( مقتول کے سازوسامان ) کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا تھا؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! لیکن میں نے اسے زیادہ خیال کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1753.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4572
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عمر بن يونس الحنفي، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني إياس بن سلمة، حدثني أبي سلمة بن الأكوع، قال غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن فبينا نحن نتضحى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل على جمل أحمر فأناخه ثم انتزع طلقا من حقبه فقيد به الجمل ثم تقدم يتغدى مع القوم وجعل ينظر وفينا ضعفة ورقة في الظهر وبعضنا مشاة إذ خرج يشتد فأتى جمله فأطلق قيده ثم أناخه وقعد عليه فأثاره فاشتد به الجمل فاتبعه رجل على ناقة ورقاء ‏.‏ قال سلمة وخرجت أشتد فكنت عند ورك الناقة ‏.‏ ثم تقدمت حتى كنت عند ورك الجمل ثم تقدمت حتى أخذت بخطام الجمل فأنخته فلما وضع ركبته في الأرض اخترطت سيفي فضربت رأس الرجل فندر ثم جئت بالجمل أقوده عليه رحله وسلاحه فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه فقال ‏"‏ من قتل الرجل ‏"‏ ‏.‏ قالوا ابن الأكوع ‏.‏ قال ‏"‏ له سلبه أجمع ‏"‏ ‏.‏
ایاس بن سلمہ نے کہا : مجھے میرے والد حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حنین کی جنگ لڑی ، اس دوران میں ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے تھے کہ سرخ اونٹ پر ایک آدمی آیا ، اسے بٹھایا ، پھر اس نے اپنے پٹکے سے چمڑے کی ایک رسی نکالی اور اس سے اونٹ کو باندھ دیا ، پھر وہ لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا اور جائزہ لینے لگا ، ہم میں کمزوری اور ہماری سواریوں میں دبلا پن موجود تھا ، ہم میں کچھ پیدل بھی تھے ، اچانک وہ دوڑتا ہوا نکلا ، اپنے اونٹ کے پاس آیا ، اس کی رسی کھولی ، پھر اسے بٹھایا ، اس پر سوار ہوا اور اسے اٹھایا تو وہ ( اونٹ ) اسے لے کر دوڑ پڑا ۔ ( یہ دیکھ کر ) خاکستری رنگ کی اونٹنی پر ایک آدمی اس کے پیچھے لگ گیا ۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں بھی دوڑتا ہوا نکلا ، میں ( پیچھا کرنے والے مسلمان کی ) اونٹنی کے پچھلے حصے کے پاس پہنچ گیا ، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے پچھلے حصے کے پاس پہنچ گیا ، پھر میں آگے بڑھا حتی کہ میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھا دیا ، جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار نکالی اور اس شخص کے سر پر وار کیا تو وہ ( گردن سے ) الگ ہو گیا ، پھر میں اونٹ کو نکیل سے چلاتا ہوا لے آیا ، اس پر اس کا پالان اور ( سوار کا ) اسلحہ بھی تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سمیت میرا استقبال کیا اور پوچھا : "" اس آدمی کو کس نے قتل کیا؟ "" لوگوں نے کہا : ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے ۔ آپ نے فرمایا : "" اس کا چھینا ہوا سازوسامان اسی کا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1754

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4573
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني إياس بن سلمة، حدثني أبي قال، غزونا فزارة وعلينا أبو بكر أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا فلما كان بيننا وبين الماء ساعة أمرنا أبو بكر فعرسنا ثم شن الغارة فورد الماء فقتل من قتل عليه وسبى وأنظر إلى عنق من الناس فيهم الذراري فخشيت أن يسبقوني إلى الجبل فرميت بسهم بينهم وبين الجبل فلما رأوا السهم وقفوا فجئت بهم أسوقهم وفيهم امرأة من بني فزارة عليها قشع من أدم - قال القشع النطع - معها ابنة لها من أحسن العرب فسقتهم حتى أتيت بهم أبا بكر فنفلني أبو بكر ابنتها فقدمنا المدينة وما كشفت لها ثوبا فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق فقال ‏"‏ يا سلمة هب لي المرأة ‏"‏ ‏.‏ فقلت يا رسول الله والله لقد أعجبتني وما كشفت لها ثوبا ثم لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغد في السوق فقال لي ‏"‏ يا سلمة هب لي المرأة لله أبوك ‏"‏ ‏.‏ فقلت هي لك يا رسول الله فوالله ما كشفت لها ثوبا فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أهل مكة ففدى بها ناسا من المسلمين كانوا أسروا بمكة ‏.‏
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم نے بنوفزارہ سے جنگ لڑی ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سربراہ تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر بنایا تھا ، جب ہمارے اور چشمے کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور رات کے آخری حصے میں ہم اتر پڑے ، پھر انہوں نے دھاوا بول دیا اور پانی پر پہنچ گئے ، میں نے ان لوگوں کی ایک قطار سی دیکھی ، اس میں عورتیں اور بچے تھے ، مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے ، چنانچہ میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا ، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے ( انہیں یقین ہو گیا کہ وہ تیر کا نشانہ بنیں گے ) ، میں انہیں ہانکتا ہوا لے آیا ، ان میں بنوفزارہ کی ایک عورت تھی ، اس ( کے جسم ) پر رنگے ہوئے چمڑے کی چادر تھی ۔ ۔ قَشع ، چمڑے کی بنی ہوئی چادر ہوتی ہے ۔ ۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی ۔ میں نے انہیں آگے لگایا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ، انہوں نے اس کی بیٹی مجھے انعام میں دے دی ۔ ہم مدینہ آئے اور میں نے ( ابھی تک ) اس کا کپڑا نہیں کھولا تھا کہ بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی ، آپ نے فرمایا : " سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو ۔ " میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے اور ( ابھی تک ) میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا ، پھر اگلے دن بازار ( ہی ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا : " سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو ، اللہ تمہارے باپ کو برکت دے! " میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! وہ آپ کے لیے ہے ۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ بھیج دیا اور اس کے بدلے مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو چھڑا لیا جو مکہ میں قید کیے گئے تھے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1755

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4574
حدثنا أحمد بن حنبل، ومحمد بن رافع، قالا حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أيما قرية أتيتموها وأقمتم فيها فسهمكم فيها وأيما قرية عصت الله ورسوله فإن خمسها لله ولرسوله ثم هي لكم ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : یہ احادیث ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں ، پھر انہوں نے چند احادیث ذکر کیں ، ان میں سے یہ بھی تھی : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم لوگ جس بستی میں آؤ اور اس میں قیام کرو ( بغیر جنگ کے تمہاری تحویل میں آ جائے ) تو اس میں تمہارے لیے ( دوسرے مسلمانوں کی طرح ایک ) حصہ ہے اور جس بستی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ( اور تم نے لڑ کر اسے حاصل کیا ) تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا حصہ ہے ، پھر وہ ( باقی سب ) تمہارا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1756

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4575
حدثنا قتيبة بن سعيد، ومحمد بن عباد، وأبو بكر بن أبي شيبة وإسحاق بن إبراهيم - واللفظ لابن أبي شيبة - قال إسحاق أخبرنا وقال الآخرون، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن الزهري، عن مالك بن أوس، عن عمر، قال كانت أموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم خاصة فكان ينفق على أهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله ‏.‏
قتیبہ بن سعید ، محمد بن عباد ، ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم نے ہمیں حدیث بیان کی ، الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں ۔ اسحاق نے کہا کہ ہمیں خبر دی ، جبکہ دوسروں نے کہا کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان نے عمرو سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے مالک بن اوس سے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : بنونضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے اپنے رسول کو ( بطور فے ) عطا کیے جس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے ۔ آپ ( ان میں سے ) اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا خرچ لیتے اور جو بچ جاتا اسے اللہ کی راہ میں ( جہاد کی ) تیاری کے لیے جنگی سواریوں اور اسلحے پر لگا دیتے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1757.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4576
حدثنا يحيى بن يحيى، قال أخبرنا سفيان بن عيينة، عن معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد ‏.‏
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1757.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4577
وحدثني عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، أن مالك بن أوس، حدثه قال أرسل إلى عمر بن الخطاب فجئته حين تعالى النهار - قال - فوجدته في بيته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله متكئا على وسادة من أدم ‏.‏ فقال لي يا مال إنه قد دف أهل أبيات من قومك وقد أمرت فيهم برضخ فخذه فاقسمه بينهم - قال - قلت لو أمرت بهذا غيري قال خذه يا مال ‏.‏ قال فجاء يرفا فقال هل لك يا أمير المؤمنين في عثمان وعبد الرحمن بن عوف والزبير وسعد فقال عمر نعم ‏.‏ فأذن لهم فدخلوا ثم جاء ‏.‏ فقال هل لك في عباس وعلي قال نعم ‏.‏ فأذن لهما فقال عباس يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا الكاذب الآثم الغادر الخائن ‏.‏ فقال القوم أجل يا أمير المؤمنين فاقض بينهم وأرحهم ‏.‏ فقال مالك بن أوس يخيل إلى أنهم قد كانوا قدموهم لذلك - فقال عمر اتئدا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث ما تركنا صدقة ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم ‏.‏ ثم أقبل على العباس وعلي فقال أنشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث ما تركناه صدقة ‏"‏ ‏.‏ قالا نعم ‏.‏ فقال عمر إن الله جل وعز كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخصص بها أحدا غيره قال ‏{‏ ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول‏}‏ ما أدري هل قرأ الآية التي قبلها أم لا ‏.‏ قال فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم بينكم أموال بني النضير فوالله ما استأثر عليكم ولا أخذها دونكم حتى بقي هذا المال فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ منه نفقة سنة ثم يجعل ما بقي أسوة المال ‏.‏ ثم قال أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون ذلك قالوا نعم ‏.‏ ثم نشد عباسا وعليا بمثل ما نشد به القوم أتعلمان ذلك قالا نعم ‏.‏ قال فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو بكر أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئتما تطلب ميراثك من ابن أخيك ويطلب هذا ميراث امرأته من أبيها فقال أبو بكر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما نورث ما تركنا صدقة ‏"‏ ‏.‏ فرأيتماه كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفي أبو بكر وأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي أبي بكر فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق فوليتها ثم جئتني أنت وهذا وأنتما جميع وأمركما واحد فقلتما ادفعها إلينا فقلت إن شئتم دفعتها إليكما على أن عليكما عهد الله أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذتماها بذلك قال أكذلك قالا نعم ‏.‏ قال ثم جئتماني لأقضي بينكما ولا والله لا أقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما عنها فرداها إلى ‏.‏
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔ کہا : میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے مال ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔ کہا : میں نے کہا : اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں ( تو کیسا رہے؟ ) انہوں نے کہا : اے مال! تم لے لو ۔ کہا : ( اتنے میں ان کے مولیٰ ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ، عبدالرحمان بن عوف ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان کو اجازت دی ۔ وہ اندر آ گئے ، وہ پھر آیا اور کہنے لگا : کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔ تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین! میرے اور اس جھوٹے ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں ۔ کہا : اس پر ان لوگوں نے کہا : ہاں ، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو ( جھگڑے کے عذاب سے ) راحت دلا دیں ۔ ۔ مالک بن اوس نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا ۔ ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم دونوں رکو ، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : " ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا " ؟ ان سب نے کہا : ہاں ۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : " تمہارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو کچھ چھوڑیں گے ، صدقہ ہو گا " ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ، اس نے فرمایا ہے : " جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے " ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ، اللہ کی قسم! آپ نے ( اپنی ذات کو ) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ، پھر جو باقی بچ جاتا اسے ( بیت المال کے ) مال کے مطابق ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے ) استعمال کرتے ۔ انہوں نے پھر کہا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہ کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی ( اور کہا ) : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ پھر کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے ، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : " ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو چھوڑیں گے ، صدقہ ہے ۔ " تو تم نے انہیں جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے وہ سچے ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کے پیروکار تھے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ، نیکوکار ، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ، میں اس کا منتظم بنا ، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے ، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔ تم نے کہا : یہ ( اموال ) ہمارے سپرد کر دو ۔ میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں اس شرط پر یہ تم دونوں کے حوالے کر دیتا ہوں کہ تم دونوں پر اللہ کے عہد کی پاسداری لازمی ہو گی ، تم بھی اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو تم نے اس شرط پر اسے لے لیا ۔ انہوں نے پوچھا : کیا ایسا ہی ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا ۔ ہاں ۔ انہوں نے کہا : پھر تم ( اب ) دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں ۔ نہیں ، اللہ کی قسم! میں قیامت کے قائم ہونے تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور فیصلہ نہیں کروں گا ۔ اگر تم اس کے انتظام سے عاجز ہو تو وہ مال مجھے واپس کر دو

صحيح مسلم حدیث نمبر:1757.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4578
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، وعبد بن حميد، - قال ابن رافع حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عبد الرزاق، - أخبرنا معمر، عن الزهري، عن مالك بن أوس، بن الحدثان قال أرسل إلى عمر بن الخطاب فقال إنه قد حضر أهل أبيات من قومك ‏.‏ بنحو حديث مالك ‏.‏ غير أن فيه، فكان ينفق على أهله منه سنة وربما قال معمر يحبس قوت أهله منه سنة ثم يجعل ما بقي منه مجعل مال الله عز وجل ‏.‏
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی ، انہوں نے مالک بن اوس بن حدثان سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف پیغام بھیجا اور کہا : تمہاری قوم میں سے کچھ گھرانوں کے لوگ آئے تھے ۔ ۔ مالک کی حدیث کی طرح ، البتہ انہوں نے اس میں کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے سال بھر اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ۔ اور ( حدیث بیان کرتے ہوئے ) بسا اوقات معمر نے کہا : آپ اس سے اپنے گھر والوں کی سال بھر کی کم از کم خوراک الگ کر لیتے ، پھر جو بچتا اسے اللہ کے مال ( بیت المال ) کے مصارف پر لگاتے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1757.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4579
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أنها قالت إن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم أردن أن يبعثن عثمان بن عفان إلى أبي بكر فيسألنه ميراثهن من النبي صلى الله عليه وسلم قالت عائشة لهن أليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا نورث ما تركنا فهو صدقة ‏"‏ ‏.‏
ام المومنین حضرت عائشہ رصی اﷲ عنہا سے روایت ہے جب رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی بیبیوں نے حضرت عثمان رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بھیجنا چاہا اپنا ترکہ مانگنے کے لیے رسول اﷲ کے مال سے، حضرت عائشہ رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا ان سے کیا جناب رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے نہیں فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو ہم چھوڑ جاویں وہ صدقہ ہے۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1758

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4580
حدثني محمد بن رافع، أخبرنا حجين، حدثنا ليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، أنها أخبرته أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسلت إلى أبي بكر الصديق تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه بالمدينة وفدك وما بقي من خمس خيبر فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا نورث ما تركنا صدقة إنما يأكل آل محمد - صلى الله عليه وسلم - في هذا المال ‏"‏ ‏.‏ وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كانت عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك - قال - فهجرته فلم تكلمه حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علي بن أبي طالب ليلا ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها علي وكان لعلي من الناس وجهة حياة فاطمة فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته ولم يكن بايع تلك الأشهر فأرسل إلى أبي بكر أن ائتنا ولا يأتنا معك أحد - كراهية محضر عمر بن الخطاب - فقال عمر لأبي بكر والله لا تدخل عليهم وحدك ‏.‏ فقال أبو بكر وما عساهم أن يفعلوا بي إني والله لآتينهم ‏.‏ فدخل عليهم أبو بكر ‏.‏ فتشهد علي بن أبي طالب ثم قال إنا قد عرفنا يا أبا بكر فضيلتك وما أعطاك الله ولم ننفس عليك خيرا ساقه الله إليك ولكنك استبددت علينا بالأمر وكنا نحن نرى لنا حقا لقرابتنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فلم يزل يكلم أبا بكر حتى فاضت عينا أبي بكر فلما تكلم أبو بكر قال والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم أحب إلى أن أصل من قرابتي وأما الذي شجر بيني وبينكم من هذه الأموال فإني لم آل فيه عن الحق ولم أترك أمرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنعه فيها إلا صنعته ‏.‏ فقال علي لأبي بكر موعدك العشية للبيعة ‏.‏ فلما صلى أبو بكر صلاة الظهر رقي على المنبر فتشهد وذكر شأن علي وتخلفه عن البيعة وعذره بالذي اعتذر إليه ثم استغفر وتشهد علي بن أبي طالب فعظم حق أبي بكر وأنه لم يحمله على الذي صنع نفاسة على أبي بكر ولا إنكارا للذي فضله الله به ولكنا كنا نرى لنا في الأمر نصيبا فاستبد علينا به فوجدنا في أنفسنا فسر بذلك المسلمون وقالوا أصبت ‏.‏ فكان المسلمون إلى علي قريبا حين راجع الأمر المعروف ‏.‏
ام المومنین حضرت عائشہ رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے حضرت فاطمہ زہرا رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی صاحبزادی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کو رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے ان مالوں میں سے جو اﷲ تعالیٰ نے دئیے آپ کو مدینہ میں اور فدک میں اور جو کچھ بچتا تھا خیبر کے خمس میں سے۔ حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جاویں وہ صدقہ ہے اور حضرت محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی اولاد اسی مال میں سے کھاوے گی اور میں تو قسم خدا کی رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے صدقہ کو کچھ بھی نہیں بدلوں گا اس حال سے جیسے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو جناب رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انکار کیا حضرت فاطمہ رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کچھ دینے اور حضرت فاطمہ کو غصہ آیا انہوں نے حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ وفات ہوئی ان کی ( نوویؒ نے کہا یہ ترک ملاقات وہ ترک نہیں جو شرع میں حرام ہے او روہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے ) اور وہ رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں۔ ( بعضوں نے کہا آٹھ مہینے یا نو مہینے یا دو مہینے یا ستر دن ) بہرحال تین تاریخ رمضان مبارک ۱۱ھ مقدس کو انہوں نے انتقال فرمایا۔ جب ان کا انتقال ہوا ت وان کے خاوند حضرت علی بن ابی طالب رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو رات کو دفن کیااور حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خبر نہ کی ( اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا بھی جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو ) اور نماز پڑھی ان پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اور جب تک حضرت فاطمہ زہرا رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ تھیں تب تک لوگ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی طرف مائل تھے ( بوجہ فاطمہ رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ) ۔ جب وہ انتقال کرگئیں تو حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دیکھا لوگ میری طرف سے پھر گئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے صلح کرلینا چاہا اور ان سے بیعت کرلینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزرے تھے انہوں نے بیعت نہیں کی تھی حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے تو حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا بھیجا او ریہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آوے کیونکہ وہ حضرت عمر رضی ‌اللہ ‌عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا قسم خدا کی تم اکیلے ان کے پاس نہ جاؤگے۔ حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا وہ میرے ساتھ کیا کریں گے قسم خدا کی میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس گئے اور حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تشہد پڑھا ( جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں ) پھر کہا ہم نے پہچانا اے ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہاری فضیلت کو اور جو اﷲ نے تم کو دیا اور ہم رشک نہیں کرتے اس نعمت پر جو اﷲ نے تم کو دی ( یعنی خلافت او رحکومت ) لیکن تم نے اکیلے اکیلے یہ کام کرلیا اور ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا بھی حق ہے اس میں کیونکہ ہم قرابت رکھتے تھے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم سے۔ پھر برابر حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ جب حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے گفتگو شروع کی تو کہا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جناب رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھ کو اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت ( یعنی فدک اور نضیر او رخمس خیبر وغیرہ ) اختلاف ہوا تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا او رمیں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے دیکھا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کو کرتے ہوئے بلکہ اس کو میں نے کیا۔ حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا اچھا آج سہ پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر چڑھے اور تشہد پڑھا او رحضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر کرنے کا بیعت سے اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا وہ بھی کہا پھر دعا کی مغفرت کی اور حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تشہد پڑھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی ‌اللہ ‌عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر کرنا بیعت میں اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھ کو حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ پر شک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت میں ہمارا بھی حصہ ہے اور حضرت ابوبکر نے اکیلے بعیر صلاح کے یہ کام کرلیا اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے مسلمان حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف مائل ہوگئے جب انہوں نے واجبی امر کو اختیار کیا۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1759.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4581
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، و محمد بن رافع وعبد بن حميد قال ابن رافع حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أنصلى الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضه من فدك وسهمه من خيبر ‏.‏ فقال لهما أبو بكر إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وساق الحديث بمثل معنى حديث عقيل عن الزهري غير أنه قال ثم قام علي فعظم من حق أبي بكر وذكر فضيلته وسابقته ثم مضى إلى أبي بكر فبايعه فأقبل الناس إلى علي فقالوا أصبت وأحسنت ‏.‏ فكان الناس قريبا إلى علي حين قارب الأمر المعروف ‏.‏
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے حضرت فاطمہ زہرا رضی ‌اللہ ‌عنہ اور حضرت عباس دونوں حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اپنا حصہ مانگتے تھے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے مال میں سے اور وہ اس وقت طلب کرتے تھے فدک کی زمین او رخیبر کا حصہ ابوبکر صدیق نے کہا کہ میں نے سنا ہے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم سے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری اس میں یہ ہے کہ پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بڑائی بیان کی اور ان کی فضیلت اور سبقت اسلام کا ذکر کیا پھر ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور ان سے بیعت کی۔ اس وقت لوگ حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف متوجہ ہوئے او رکہنے لگے آپ نے ٹھیک کیا اور اچھا کیا اور اس وقت سے لوگ ان کے طرفدار ہوگئے جب سے انہوں نے واجبی بات کو مان لیا۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1759.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4582
وحدثنا ابن نمير، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي ح، وحدثنا زهير بن حرب، والحسن بن علي الحلواني قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم سألت أبا بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه ‏.‏ فقال لها أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا نورث ما تركنا صدقة ‏"‏ ‏.‏ قال وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر وكانت فاطمة تسأل أبا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر وفدك وصدقته بالمدينة فأبى أبو بكر عليها ذلك وقال لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به إني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلى علي وعباس فغلبه عليها علي وأما خيبر وفدك فأمسكهما عمر وقال هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وأمرهما إلى من ولي الأمر قال فهما على ذلك إلى اليوم ‏.‏
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی صاحبزادی نے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اپناحصہ مانگا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے ترکہ سے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جاویں وہ صدقہ ہے اور حضرت فاطمہ رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک زندہ رہیں اور وہ اپنا حصہ مانگتی تھیں خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقہ میں سے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے نہ دیا اور یہ کہا کہ میں کوئی کام جس کو رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کرتے تھے چھوڑنے والا نہیں میں ڈرتا ہوں کہیں گمراہ نہ ہوجاؤں۔ پھر مدینہ کا صدقہ حضرت عمر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے زمانے میں حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عباس رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا لیکن حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عباس رضی ‌اللہ ‌عنہ پر غلبہ کیا ( یعنی اپنے قبضہ میں رکھا ) او رخیبر اور فدک کو حضرت عمر رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے قبضہ میں رکھا اور یہ کہا کہ یہ دونوں صدقہ تھے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم کے جو صرف ہوتے آپ کے حقوق او رکاموں میں جو پیش آتے آپ کو اور یہ دونوں اس کے اختیار میں رہیں گے جو حاکم ہو مسلمانوں کا پھر آج تک ایسا ہی رہا ( یعنی خیبر اور فدک ہمیشہ خلیفہ وقت کے قبضہ میں رہے۔ حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اپنی خلاف میں ان کو تقسیم نہیں کیا۔ پس شیعوں کا اعتراض حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہم پر لغو ہوگیا ) ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1759.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4583
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يقتسم ورثتي دينارا ما تركت بعد نفقة نسائي ومئونة عاملي فهو صدقة ‏"‏ ‏.‏
حضرت ‌ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے ‌روایت ‌ہے ‌رسول ‌اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌نے ‌فرمایا ‌میرے ‌وارث ‌ایك ‌دینار ‌بھی ‌بانٹ ‌نہیں ‌سكتے ‌جو ‌چھوڑ ‌جاؤں ‌اپنی ‌عورتوں ‌كے ‌خرچ ‌كے ‌بعد ‌اور ‌منتظم ‌كی ‌اجرت ‌كے ‌بعد ‌بچے ‌تو ‌وہ ‌صدقہ ‌ہے ‌

صحيح مسلم حدیث نمبر:1760.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4584
حدثنا محمد بن يحيى بن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن أبي الزناد، بهذا الإسناد ‏.‏ نحوه ‏.‏
ترجمہ ‌وہی ‌جو ‌اوپر ‌٤٥٨٣ ‌میں ‌گزرا۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1760.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4585
وحدثني ابن أبي خلف، حدثنا زكرياء بن عدي، أخبرنا ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا نورث ما تركنا صدقة ‏"‏ ‏.‏
ابو ‌ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے ‌روایت ‌ہے ‌كہ ‌رسول ‌اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌نے ‌فرمایا ‌ہمارا ‌كوئی ‌وارث ‌نہیں ‌جو ‌ہم ‌چھوڑ ‌جائیں ‌وہ ‌صدقہ ‌ہے ‌۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1761

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 66

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4586
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو كامل فضيل بن حسين كلاهما عن سليم، قال يحيى أخبرنا سليم بن أخضر، عن عبيد الله بن عمر، حدثنا نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قسم في النفل للفرس سهمين وللرجل سهما ‏.‏
سلیم بن اخضر نے ہمیں عبیداللہ بن عمر سے خبر دی ، کہا : ہمیں نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں سے گھوڑے کے لیے دو حصے اور آدمی ( سوار ) کے لیے ایک حصہ نکالا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1762.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4587
حدثناه ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبيد الله، بهذا الإسناد مثله ولم يذكر في النفل ‏.‏
عبداللہ بن نمیر نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور انہوں نے یہ نہیں کہا : غنیمت میں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1762.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 68

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4588
حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن المبارك، عن عكرمة بن عمار، حدثني سماك، الحنفي قال سمعت ابن عباس، يقول حدثني عمر بن الخطاب، قال لما كان يوم بدر ح وحدثنا زهير بن حرب - واللفظ له - حدثنا عمر بن يونس الحنفي حدثنا عكرمة بن عمار حدثني أبو زميل - هو سماك الحنفي - حدثني عبد الله بن عباس قال حدثني عمر بن الخطاب قال لما كان يوم بدر نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم ألف وأصحابه ثلاثمائة وتسعة عشر رجلا فاستقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم القبلة ثم مد يديه فجعل يهتف بربه ‏"‏ اللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آت ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض ‏"‏ ‏.‏ فمازال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه ‏.‏ وقال يا نبي الله كذاك مناشدتك ربك فإنه سينجز لك ما وعدك فأنزل الله عز وجل ‏{‏ إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم أني ممدكم بألف من الملائكة مردفين‏}‏ فأمده الله بالملائكة ‏.‏ قال أبو زميل فحدثني ابن عباس قال بينما رجل من المسلمين يومئذ يشتد في أثر رجل من المشركين أمامه إذ سمع ضربة بالسوط فوقه وصوت الفارس يقول أقدم حيزوم ‏.‏ فنظر إلى المشرك أمامه فخر مستلقيا فنظر إليه فإذا هو قد خطم أنفه وشق وجهه كضربة السوط فاخضر ذلك أجمع ‏.‏ فجاء الأنصاري فحدث بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ صدقت ذلك من مدد السماء الثالثة ‏"‏ ‏.‏ فقتلوا يومئذ سبعين وأسروا سبعين ‏.‏ قال أبو زميل قال ابن عباس فلما أسروا الأسارى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر ‏"‏ ما ترون في هؤلاء الأسارى ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو بكر يا نبي الله هم بنو العم والعشيرة أرى أن تأخذ منهم فدية فتكون لنا قوة على الكفار فعسى الله أن يهديهم للإسلام ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما ترى يا ابن الخطاب ‏"‏ ‏.‏ قلت لا والله يا رسول الله ما أرى الذي رأى أبو بكر ولكني أرى أن تمكنا فنضرب أعناقهم فتمكن عليا من عقيل فيضرب عنقه وتمكني من فلان - نسيبا لعمر - فأضرب عنقه فإن هؤلاء أئمة الكفر وصناديدها فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال أبو بكر ولم يهو ما قلت فلما كان من الغد جئت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر قاعدين يبكيان قلت يا رسول الله أخبرني من أى شىء تبكي أنت وصاحبك فإن وجدت بكاء بكيت وإن لم أجد بكاء تباكيت لبكائكما ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أبكي للذي عرض على أصحابك من أخذهم الفداء لقد عرض على عذابهم أدنى من هذه الشجرة ‏"‏ ‏.‏ شجرة قريبة من نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وأنزل الله عز وجل ‏{‏ ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض‏}‏ إلى قوله ‏{‏ فكلوا مما غنمتم حلالا طيبا‏}‏ فأحل الله الغنيمة لهم ‏.‏
ابوزمیل سماک حنفی نے کہا : مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : جب در کا دن تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا ، وہ ایک ہزار تھے ، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے ، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے : "" اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما ۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما ۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی ۔ "" آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے ، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا ، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے : اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا ۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا ۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : "" جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا ۔ "" پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی ۔ ابوزمیل نے کہا : مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : اس دوران میں ، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی ، جو کہہ رہا تھا : حیزوم! آگے بڑھ ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا ، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا ، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا ، وہ انصاری آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا : "" تم نے سچ کہا ، یہ تیسرے آسمان سے ( آئی ہوئی ) مدد تھی ۔ "" انہوں ( صحابہ ) نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے ۔ ابوزمیل نے کہا : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا : "" ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ "" تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں ۔ میری رائے ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں ، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا ، ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : "" ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ "" کہا : میں نے عرض کی : نہیں ، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے ، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں ۔ آپ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں ۔ ۔ عمر کے ہم نسب ۔ ۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا ۔ جب اگلا دن ہوا ( اور ) میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں رو رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! مجھے بتائیے ، آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے پیش کی تھی ، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا "" ۔ ۔ وہ درخت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا ۔ ۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں : "" کسی نبی کے لیے ( روا ) نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں ، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے ۔ ۔ ۔ "" اس فرمان تک ۔ ۔ ۔ "" تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں ۔ "" تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1763

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 69

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4589
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، أنه سمع أبا هريرة، يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة ‏.‏ فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ماذا عندك يا ثمامة ‏"‏ ‏.‏ فقال عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت ‏.‏ فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان بعد الغد فقال ‏"‏ ما عندك يا ثمامة ‏"‏ ‏.‏ قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت ‏.‏ فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان من الغد فقال ‏"‏ ماذا عندك يا ثمامة ‏"‏ ‏.‏ فقال عندي ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أطلقوا ثمامة ‏"‏ ‏.‏ فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ‏.‏ يا محمد والله ما كان على الأرض وجه أبغض إلى من وجهك فقد أصبح وجهك أحب الوجوه كلها إلى والله ما كان من دين أبغض إلى من دينك فأصبح دينك أحب الدين كله إلى والله ما كان من بلد أبغض إلى من بلدك فأصبح بلدك أحب البلاد كلها إلى وإن خيلك أخذتني وأنا أريد العمرة فماذا ترى فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمره أن يعتمر فلما قدم مكة قال له قائل أصبوت فقال لا ولكني أسلمت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا والله لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
لیث نے ہمیں سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجا تو وہ بنوحنفیہ کے ایک آدمی کو پکڑ لائے ، جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا ، وہ اہل یمامہ کا سردار تھا ، انہوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر سے ) نکل کر اس کے پاس آئے اور پوچھا : " ثمامہ! تمہارے پاس کیا ( خبر ) ہے؟ " اس نے جواب دیا : اے محمد! میرے پاس اچھی بات ہے ، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے ۔ اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے ، آپ جو چاہتے ہیں ، آپ کو دیا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ( اس کے حال پر ) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلے سے بعد کا دن ( آئندہ پرسوں ) ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : " ثمامہ! تمہارے پاس ( کہنے کو ) کیا ہے؟ " اس نے جواب دیا : ( وہی ) جو میں نے آپ سے کہا تھا ، اگر احسان کریں گے تو ایک شکر کرنے والے پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے ، آپ جو چاہتے ہیں آپ کو وہی دیا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ( اسی حال میں ) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : " ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟ " اس نے جواب دیا : میرے پاس وہی ہے جو میں نے آپ سے کہا تھا : اگر احسان کریں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون ضائع نہیں جاتا ، اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجیے ، آپ جو چاہتے ہیں وہی آپ کو دیا جائے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ثمامہ کو آزاد کر دو ۔ " وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ کی طرف گیا ، غسل کیا ، پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اے محمد! اللہ کی قسم! روئے زمین پر آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں تھا جس سے مجھے بغض ہو اور اب آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں جو مجھے زیادہ محبوب ہو ۔ اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا ، اب آپ کا دین سب سے بڑھ کر محبوب دین ہو گیا ہے ۔ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر برا نہیں لگتا تھا ، اب مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کو کوئی اور شہر محبوب نہیں ۔ آپ کے گھڑسواروں نے مجھے ( اس وقت ) پکڑا تھا جب میں عمرہ کرنا چاہتا تھا ۔ اب آپ کیا ( صحیح ) سمجھتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( ایمان کی قبولیت کی ) خوشخبری دی اور حکم دیا کہ عمرہ ادا کرے ۔ جب وہ مکہ آئے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا : کیا بے دین ہو گئے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں ، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں ، اور اللہ کی قسم! یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت دے دیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1764.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 70

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4590
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو بكر الحنفي، حدثني عبد الحميد بن جعفر، حدثني سعيد بن أبي سعيد المقبري، أنه سمع أبا هريرة، يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا له نحو أرض نجد فجاءت برجل يقال له ثمامة بن أثال الحنفي سيد أهل اليمامة ‏.‏ وساق الحديث بمثل حديث الليث إلا أنه قال إن تقتلني تقتل ذا دم ‏.‏
اور انہوں نے لیث کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی ، البتہ انہوں نے ( آپ قتل کریں گے کے بجائے ) " اگر مجھے قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے ‘ کے الفاظ کہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1764.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 71

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4591
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، عن أبي، هريرة أنه قال بينا نحن في المسجد إذ خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ انطلقوا إلى يهود ‏"‏ ‏.‏ فخرجنا معه حتى جئناهم فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فناداهم فقال ‏"‏ يا معشر يهود أسلموا تسلموا ‏"‏ ‏.‏ فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم ‏.‏ فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ذلك أريد أسلموا تسلموا ‏"‏ ‏.‏ فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم ‏.‏ فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ذلك أريد ‏"‏ ‏.‏ فقال لهم الثالثة فقال ‏"‏ اعلموا أنما الأرض لله ورسوله وأني أريد أن أجليكم من هذه الأرض فمن وجد منكم بماله شيئا فليبعه وإلا فاعلموا أن الأرض لله ورسوله ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ایک بار ہم مسجد میں تھے کہ ( اچانک ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : " یہود کی طرف چلو ۔ " ہم آپ کے ساتھ نکلے حتی کہ ان کے ہاں پہنچ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، بلند آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا : " اے یہود کی جماعت! اسلام قبول کر لو ، سلامتی پاؤ گے ۔ " انہوں نے کہا : اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " میں یہی ( پیغام پہنچانا ) چاہتا ہوں ، اسلام قبول کر لو ، سلامتی پاؤ گے ۔ " انہوں نے کہا : اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " میں یہی چاہتا ہوں ۔ " آپ نے ان سے تیسری مرتبہ کہا اور فرمایا : " جان لو! یہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس زمین سے جلا وطن کر دوں ، تم میں سے جسے اپنے مال کے عوض کچھ ملے تو وہ اسے فروخت کر دے ، ورنہ جان لو کہ یہ زمین اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1765

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 72

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4592
وحدثني محمد بن رافع، وإسحاق بن منصور، قال ابن رافع حدثنا وقال، إسحاق أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، أنالله عليه وسلم فأجلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بني النضير وأقر قريظة ومن عليهم حتى حاربت قريظة بعد ذلك فقتل رجالهم وقسم نساءهم وأولادهم وأموالهم بين المسلمين إلا أن بعضهم لحقوا برسول الله صلى الله عليه وسلم فآمنهم وأسلموا وأجلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يهود المدينة كلهم بني قينقاع - وهم قوم عبد الله بن سلام - ويهود بني حارثة وكل يهودي كان بالمدينة ‏.‏
ابن جریج نے موسیٰ بن عقبہ سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ بنونضیر اور قریظہ کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو جلاوطن کر دیا اور قریظہ کو ٹھہرنے دیا اور ان پر احسان کیا ، یہاں تک کہ اس کے ( ایک ڈیڑھ سال ) بعد قریظہ نے ( غزوہ احزاب میں دشمن کا ساتھ دیا اور ) جنگ کی تو آپ نے ( ان کے چنے ہوئے ثالث حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر ) ان کے ( جنگجو ) مردوں کو قتل کر دیا اور ان کی عورتیں ، بچے اور اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیے ، البتہ ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ ہو گئے تو آپ نے انہیں امان عطا کی اور وہ مسلمان ہو گئے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( خود اپنے فیصلے کی رو سے ) مدینہ کے تمام یہود کو جلا وطن کیا : بنی قینقاع کو ، یہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قوم تھی ، بنو حارثہ کے یہود کو اور ہر یہودی کو جو مدینہ میں تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1766.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 73

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4593
وحدثني أبو الطاهر، حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني حفص بن ميسرة، عن موسى، بهذا الإسناد هذا الحديث وحديث ابن جريج أكثر وأتم ‏.‏
حفص بن میسرہ نے موسیٰ سے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ بیان کی اور ابن جریج کی حدیث زیادہ لمبی اور زیادہ مکمل ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1766.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 74

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4594
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا الضحاك بن مخلد، عن ابن جريج، ح وحدثني محمد بن رافع، - واللفظ له - حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول أخبرني عمر بن الخطاب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلما ‏"‏ ‏.‏
ابن جریج نے ہمیں خبر دی ، کہا : مجھے ابوزبیر نے خبر دی ، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " میں یہود و نصاریٰ کو ہر صورت جزیرہ عرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ میں مسلمانوں کے سوا کسی اور کو نہیں رہنے دوں گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1767.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 75

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4595
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا روح بن عبادة، أخبرنا سفيان الثوري، ح وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا معقل، - وهو ابن عبيد الله - كلاهما عن أبي الزبير، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
سفیان ثوری اور معقل بن عبیداللہ دونوں نے ابوزبیر سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1767.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 76

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4596
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار - وألفاظهم متقاربة - قال أبو بكر حدثنا غندر، عن شعبة، وقال الآخران، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، - عن سعد بن إبراهيم، قال سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف، قال سمعت أبا سعيد، الخدري قال نزل أهل قريظة على حكم سعد بن معاذ فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى سعد فأتاه على حمار فلما دنا قريبا من المسجد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأنصار ‏"‏ قوموا إلى سيدكم - أو خيركم ‏"‏ ‏.‏ ثم قال ‏"‏ إن هؤلاء نزلوا على حكمك ‏"‏ ‏.‏ قال تقتل مقاتلتهم وتسبي ذريتهم ‏.‏ قال فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قضيت بحكم الله - وربما قال - قضيت بحكم الملك ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر ابن المثنى وربما قال ‏"‏ قضيت بحكم الملك ‏"‏ ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ ، محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے ۔ ۔ ان سب کے الفاظ قریب قریب ہیں ۔ ۔ ہمیں حدیث بیان کی ۔ ۔ ابوبکر نے کہا : ہمیں غندر نے شعبہ سے حدیث بیان کی اور دوسرے دونوں نے کہا : ہمیں محمد بن جعفر ( غندر ) نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ۔ ۔ انہوں نے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : قریظہ کے یہود حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے ( کو قبول کرنے کی شرط ) پر ( قلعہ سے ) اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا ، وہ گدھے پر سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : " اپنے سردار ۔ ۔ یا ( فرمایا : ) اپنے بہترین آدمی ۔ ۔ کے ( استقبال کے ) لیے اٹھو ۔ " پھر فرمایا : " یہ لوگ تمہارے فیصلے ( کی شرط ) پر ( قلعے سے ) اترے ہیں ۔ " انہوں نے کہا : ان کے جنگجو افراد کو قتل کر دیا جائے اور ( ان کی عورتوں اور ) ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے ۔ کہا : تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ " اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے ( اصل ) بادشاہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ " ابن مثنیٰ نے یہ بیان نہیں کیا : اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے بادشاہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1768.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 77

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4597
وحدثنا زهير بن حرب، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن شعبة، بهذا الإسناد وقال في حديثه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لقد حكمت فيهم بحكم الله ‏"‏ ‏.‏ وقال مرة ‏"‏ لقد حكمت بحكم الملك ‏"‏ ‏.‏
عبدالرحمان بن مہدی نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور انہوں نے اپنی حدیث میں کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ " اور ایک بار فرمایا : " تم نے ( حقیقی ) بادشاہ ( اللہ ) کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1768.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 78

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4598
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن العلاء الهمداني، كلاهما عن ابن نمير، قال ابن العلاء حدثنا ابن نمير، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت أصيب سعد يوم الخندق رماه رجل من قريش يقال له ابن العرقة ‏.‏ رماه في الأكحل فضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم خيمة في المسجد يعوده من قريب فلما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الخندق وضع السلاح فاغتسل فأتاه جبريل وهو ينفض رأسه من الغبار فقال وضعت السلاح والله ما وضعناه اخرج إليهم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ فأين ‏"‏ ‏.‏ فأشار إلى بني قريظة فقاتلهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزلوا على حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم الحكم فيهم إلى سعد قال فإني أحكم فيهم أن تقتل المقاتلة وأن تسبى الذرية والنساء وتقسم أموالهم ‏.‏
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : خندق کے دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے ، انہیں قریش کے ایک آدمی نے ، جسے ابن عرقہ کہا جاتا تھا ، تیر مارا ۔ اس نے انہیں بازو کی بڑی رگ میں تیر مارا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا ، آپ قریب سے ان کی تیمارداری کرنا چاہتے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس ہوئے ، اسلحہ اتارا اور غسل کیا تو ( ایک انسان کی شکل میں ) جبریل علیہ السلام آئے ، وہ اپنے سر سے گردوغبار جھاڑ رہے تھے ، انہوں نے کہا : آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے؟ اللہ کی قسم! ہم نے نہیں اتارا ، ان کی طرف نکلیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : " کہاں؟ " انہوں نے بنوقریظہ کی طرف اشارہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فیصلہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا ، انہوں نے کہا : میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جنگجو افراد کو قتل کر دیا جائے اور یہ کہ بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال تقسیم کر دیے جائیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1769.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 79

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4599
وحدثنا أبو كريب، حدثنا ابن نمير، حدثنا هشام، قال قال أبي فأخبرت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لقد حكمت فيهم بحكم الله عز وجل ‏"‏ ‏.‏
عروہ نے کہا : مجھے بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم نے ان کے بارے میں اللہ عزوجل کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1769.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 80

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4600
حدثنا أبو كريب، حدثنا ابن نمير، عن هشام، أخبرني أبي، عن عائشة، أن سعدا، قال وتحجر كلمه للبرء فقال اللهم إنك تعلم أن ليس أحد أحب إلى أن أجاهد فيك من قوم كذبوا رسولك صلى الله عليه وسلم وأخرجوه اللهم فإن كان بقي من حرب قريش شىء فأبقني أجاهدهم فيك اللهم فإني أظن أنك قد وضعت الحرب بيننا وبينهم فإن كنت وضعت الحرب بيننا وبينهم فافجرها واجعل موتي فيها ‏.‏ فانفجرت من لبته فلم يرعهم - وفي المسجد معه خيمة من بني غفار - إلا والدم يسيل إليهم فقالوا يا أهل الخيمة ما هذا الذي يأتينا من قبلكم فإذا سعد جرحه يغذ دما فمات منها ‏.‏
ابن نمیر نے ہشام سے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ، جب ان کا زخم بھر رہا تھا ، ( تو دعا کرتے ہوئے ) کہا : اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے راستے میں ، اس قوم کے خلاف جہاد سے بڑھ کر کسی کے خلاف جہاد کرنا محبوب نہیں جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور نکالا ۔ اگر قریش کی جنگ کا کوئی حصہ باقی ہے تو مجھے زندہ رکھ تاکہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں ۔ اے اللہ! میرا خیال ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی ختم کر دی ہے ۔ اگر تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی واقعی ختم کر دی ہے تو اس ( زخم ) کو پھاڑ دے اور مجھے اسی میں موت عطا فرما ، چنانچہ ان کی ہنسلی سے خون بہنے لگا ، لوگوں کو ۔ ۔ اور مسجد میں ان کے ساتھ بنو غفار کا خیمہ تھا ۔ ۔ اس خون نے ہی خوفزدہ کیا جو ان کی طرف بہہ رہا تھا ۔ انہوں نے پوچھا : اے خیمے والو! یہ کیا ہے جو تمہاری جانب سے ہماری طرف آ رہا ہے؟ تو وہ سعد رضی اللہ عنہ کا زخم تھا جس سے مسلسل خوب بہہ رہا ہے ، چنانچہ وہ اسی ( کیفیت ) میں فوت ہو گئے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1769.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 81

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4601
وحدثنا علي بن الحسين بن سليمان الكوفي، حدثنا عبدة، عن هشام، بهذا الإسناد نحوه غير أنه قال فانفجر من ليلته فمازال يسيل حتى مات وزاد في الحديث قال فذاك حين يقول الشاعر ألا يا سعد سعد بني معاذ فما فعلت قريظة والنضير لعمرك إن سعد بني معاذ غداة تحملوا لهو الصبور تركتم قدركم لا شىء فيها وقدر القوم حامية تفور وقد قال الكريم أبو حباب أقيموا قينقاع ولا تسيروا وقد كانوا ببلدتهم ثقالا كما ثقلت بميطان الصخور
عبدہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی ، البتہ انہوں نے کہا : اسی رات سے خوب بہنے لگا اور مسلسل بہتا رہا حتی کہ وہ وفات پا گئے ۔ اور انہوں نے حدیث میں یہ اضافہ کیا ، کہا : یہی وقت ہے جب ( ایک کافر ) شاعر کہتا ہے : اے سعد! بنو معاذ کے ( گھرانے کے ) سعد! وہ کیا تھا جو بنو قریظہ نے کیا اور ( وہ کیا تھا جو ) بنونضیر نے کیا؟ تمہاری زندگی کی قسم! بنو معاذ کا سعد ، جس صبح ان لوگوں نے سزا برداشت کی ، خوب صبر کرنے والا تھا ۔ تم ( اوس کے ) لوگوں نے اپنی ہڈیاں اس طرح چھوڑیں کہ ان میں کچھ باقی نہ بچا تھا جبکہ قوم ( بنو خزرج ) کی ہانڈیاں گرم تھیں ، ابل رہی تھیں ( انہوں نے اپنے حلیف بنو نضیر کا ساتھ دیا تھا ۔ ) ایک کریم انسان ابوحباب ( رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول ) نے کہا تھا : ( بنو ) قینقاع! مقیم رہو ، مت جاو ۔ وہ لوگ اپنے شہر میں بہت وزن رکھتے تھے ( باوقعت تھے ) جس طرح جبلِ میطان کی چٹانیں بہت وزن رکھتی ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1769.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 82

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4602
وحدثني عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، عن عبد الله، قال نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الأحزاب ‏ "‏ أن لا يصلين أحد الظهر إلا في بني قريظة ‏"‏ ‏.‏ فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة ‏.‏ وقال آخرون لا نصلي إلا حيث أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين ‏.‏
حضرت عبداللہ ( بن عمر رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، جس روز آپ جنگِ احزاب سے لوٹےہم میں منادی کرائی کہ کوئی شخص بنو قریظہ کے سوا کہیں اور نمازِ ظہر ادا نہ کرے ۔ کچھ لوگوں کو وقت نکل جانے کا خوف محسوس ہوا تو انہوں نے بنو قریظہ ( پہنچنے ) سے پہلے ہی نماز پڑھ لی ، جبکہ دوسروں نے کہا : چاہے وقت ختم ہو جائے ہم وہیں نماز پڑھیں گے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔ کہا : تو آپ نے فریقین میں سے کسی کو بھی ملامت نہ کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1770

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 83

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4603
وحدثني أبو الطاهر، وحرملة، قالا أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن، شهاب عن أنس بن مالك، قال لما قدم المهاجرون من مكة المدينة قدموا وليس بأيديهم شىء وكان الأنصار أهل الأرض والعقار فقاسمهم الأنصار على أن أعطوهم أنصاف ثمار أموالهم كل عام ويكفونهم العمل والمئونة وكانت أم أنس بن مالك وهى تدعى أم سليم - وكانت أم عبد الله بن أبي طلحة كان أخا لأنس لأمه - وكانت أعطت أم أنس رسول الله صلى الله عليه وسلم عذاقا لها فأعطاها رسول الله صلى الله عليه وسلم أم أيمن مولاته أم أسامة بن زيد ‏.‏ قال ابن شهاب فأخبرني أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما فرغ من قتال أهل خيبر وانصرف إلى المدينة رد المهاجرون إلى الأنصار منائحهم التي كانوا منحوهم من ثمارهم - قال - فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أمي عذاقها وأعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم أم أيمن مكانهن من حائطه ‏.‏ قال ابن شهاب وكان من شأن أم أيمن أم أسامة بن زيد أنها كانت وصيفة لعبد الله بن عبد المطلب وكانت من الحبشة فلما ولدت آمنة رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما توفي أبوه فكانت أم أيمن تحضنه حتى كبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعتقها ثم أنكحها زيد بن حارثة ثم توفيت بعد ما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمسة أشهر ‏.‏
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو اس حالت میں آئے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، جبکہ انصار زمین اور جائدادوں والے تھے ۔ تو انصار نے ان کے ساتھ اس طرح حصہ داری کی کہ وہ انہیں ہر سال اپنے اموال کی پیداوار کا آدھا حصہ دیں گے اور یہ ( مہاجرین ) انہیں محنت و مشقت سے بے نیاز کر دیں گے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ، جو ام سلیم کہلاتی تھیں اور عبداللہ بن ابی طلحہ جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے ، کی بھی والدہ تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ( انہی ) والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کے اپنے کچھ درخت دیے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اپنی آزاد کردہ کنیز ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ ، ام ایمن رضی اللہ عنہا کو عنایت کر دیے تھے ۔ ابن شہاب نے کہا : مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل خیبر کے خلاف جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ واپس آئے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے وہ عطیے واپس کر دیے جو انہوں نے انہیں اپنے پھلوں ( کھیتوں باغوں ) میں سے دیے تھے ۔ کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ کو ان کے کھجور کے درخت واپس کر دیے اور ام ایمن رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جگہ اپنے باغ میں سے ( ایک حصہ ) عطا فرما دیا ۔ ابن شہاب نے کہا : اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے حالات یہ ہیں کہ وہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی ) عبداللہ بن عبدالمطلب کی کنیز تھیں ، اور وہ حبشہ سے تھیں ، اپنے والد کی وفات کے بعد جب حضرت آمنہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی تو ام ایمن رضی اللہ عنہا آپ کو گود میں اٹھاتیں اور آپ کی پرورش میں شریک رہیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہو گئے تو آپ نے انہیں آزاد کر دیا ، پھر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ ماہ بعد فوت ہو گئیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1771.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 84

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4604
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وحامد بن عمر البكراوي، ومحمد بن عبد الأعلى، القيسي كلهم عن المعتمر، - واللفظ لابن أبي شيبة - حدثنا معتمر بن سليمان التيمي، عن أبيه، عن أنس، أن رجلا، - وقال حامد وابن عبد الأعلى أن الرجل، - كان يجعل للنبي صلى الله عليه وسلم النخلات من أرضه ‏.‏ حتى فتحت عليه قريظة والنضير فجعل بعد ذلك يرد عليه ما كان أعطاه ‏.‏ قال أنس وإن أهلي أمروني أن آتي النبي صلى الله عليه وسلم فأسأله ما كان أهله أعطوه أو بعضه وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم قد أعطاه أم أيمن فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فأعطانيهن فجاءت أم أيمن فجعلت الثوب في عنقي وقالت والله لا نعطيكاهن وقد أعطانيهن ‏.‏ فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يا أم أيمن اتركيه ولك كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ وتقول كلا والذي لا إله إلا هو ‏.‏ فجعل يقول كذا حتى أعطاها عشرة أمثاله أو قريبا من عشرة أمثاله ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ ، حامد بن عمر بکراوی اور محمد بن عبدالاعلیٰ قیسی ، سب نے معتمر سے حدیث بیان کی ۔ ۔ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں ۔ ہمیں معتمر بن سلیمان تیمی نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ کوئی آدمی ۔ ۔ جبکہ حامد اور عبدالاعلیٰ نے کہا : کوئی مخصوص آدمی ۔ ۔ اپنی زمین سے کھجوروں کے کچھ درخت ( فقرائے مہاجرین کی خبر گیری کے لیے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کر دیتا تھا ، حتی کہ قریظہ اور بنونضیر آپ کے لیے فتح ہو گئے تو اس کے بعد جو کسی نے آپ کو دیا تھا ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنا شروع کر دیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ سے وہ سب یا اس کا کچھ حصہ مانگوں ، جو ان کے گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا ۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے وہ سب کا سب مجھے دے دیا ، اس پر ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں ، میرے گلے میں کپڑا ڈالا اور کہنے لگیں : اللہ کی قسم! ہم وہ ( درخت ) تمہیں نہیں دیں گے ، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں دے چکے ہیں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" ام ایمان! اسے چھوڑ دو ، اتنا اتنا تمہارا ہوا وہ کہتی تہیں : ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! اور آپ اسی طرح فرماتے رہے حتی کہ آپ نے اسے دس گنا یا تقریبا دس گنا عطا فرما دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1771.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 85

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4605
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان، - يعني ابن المغيرة - حدثنا حميد، بن هلال عن عبد الله بن مغفل، قال أصبت جرابا من شحم يوم خيبر - قال - فالتزمته فقلت لا أعطي اليوم أحدا من هذا شيئا - قال - فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متبسما ‏.‏
ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن مغفل سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : خیبر کے دن مجھے چربی کا ( بھرا ہوا ) چمڑے کا ایک تھیلا ملا ۔ کہا : میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور کہا : آج کے دن میں اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا ۔ کہا : میں نے مڑ کر دیکھاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1772.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 86

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4606
حدثنا محمد بن بشار العبدي، حدثنا بهز بن أسد، حدثنا شعبة، حدثني حميد، بن هلال قال سمعت عبد الله بن مغفل، يقول رمي إلينا جراب فيه طعام وشحم يوم خيبرفوثبت لآخذه قال فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستحييت منه ‏.‏
بہز بن اسد نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے حمید بن ہلال نے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا : خیبر کے دن ہماری طرف چمڑے کا ایک تھیلا پھینکا گیا جس میں کھانا اور چربی تھی ، میں اسے پکڑنے کے لیے جھپٹا ۔ کہا : میں نے مڑ کر دیکھا تو ( پیچھے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ۔ تو مجھے آپ سے بہت حیا آئی ۔ ابوداود نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ، البتہ انہوں نے "" چربی کا ( بھرا ہوا ) تھیلا "" کہا ، کھانے کا ذکر نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1772.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 87

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4607
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، وابن أبي عمر، ومحمد بن رافع، وعبد بن، حميد - واللفظ لابن رافع - قال ابن رافع وابن أبي عمر حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، أن أبا سفيان، أخبره من، فيه إلى فيه قال انطلقت في المدة التي كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فبينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى هرقل يعني عظيم الروم - قال - وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل فقال هرقل هل ها هنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قالوا نعم - قال - فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسنا بين يديه فقال أيكم أقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا ‏.‏ فأجلسوني بين يديه وأجلسوا أصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه فقال له قل لهم إني سائل هذا عن الرجل الذي يزعم أنه نبي فإن كذبني فكذبوه ‏.‏ قال فقال أبو سفيان وايم الله لولا مخافة أن يؤثر على الكذب لكذبت ‏.‏ ثم قال لترجمانه سله كيف حسبه فيكم قال قلت هو فينا ذو حسب قال فهل كان من�� آبائه ملك قلت لا ‏.‏ قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال قلت لا ‏.‏ قال ومن يتبعه أشراف الناس أم ضعفاؤهم قال قلت بل ضعفاؤهم ‏.‏ قال أيزيدون أم ينقصون قال قلت لا بل يزيدون ‏.‏ قال هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخل فيه سخطة له قال قلت لا ‏.‏ قال فهل قاتلتموه قلت نعم ‏.‏ قال فكيف كان قتالكم إياه قال قلت تكون الحرب بيننا وبينه سجالا يصيب منا ونصيب منه ‏.‏ قال فهل يغدر قلت لا ‏.‏ ونحن منه في مدة لا ندري ما هو صانع فيها ‏.‏ قال فوالله ما أمكنني من كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه ‏.‏ قال فهل قال هذا القول أحد قبله قال قلت لا ‏.‏ قال لترجمانه قل له إني سألتك عن حسبه فزعمت أنه فيكم ذو حسب وكذلك الرسل تبعث في أحساب قومها ‏.‏ وسألتك هل كان في آبائه ملك فزعمت أن لا ‏.‏ فقلت لو كان من آبائه ملك قلت رجل يطلب ملك آبائه ‏.‏ وسألتك عن أتباعه أضعفاؤهم أم أشرافهم فقلت بل ضعفاؤهم وهم أتباع الرسل ‏.‏ وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فزعمت أن لا ‏.‏ فقد عرفت أنه لم يكن ليدع الكذب على الناس ثم يذهب فيكذب على الله ‏.‏ وسألتك هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخله سخطة له فزعمت أن لا ‏.‏ وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب ‏.‏ وسألتك هل يزيدون أو ينقصون فزعمت أنهم يزيدون وكذلك الإيمان حتى يتم ‏.‏ وسألتك هل قاتلتموه فزعمت أنكم قد قاتلتموه فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا ينال منكم وتنالون منه ‏.‏ وكذلك الرسل تبتلى ثم تكون لهم العاقبة وسألتك هل يغدر فزعمت أنه لا يغدر ‏.‏ وكذلك الرسل لا تغدر ‏.‏ وسألتك هل قال هذا القول أحد قبله فزعمت أن لا ‏.‏ فقلت لو قال هذا القول أحد قبله قلت رجل ائتم بقول قيل قبله ‏.‏ قال ثم قال بم يأمر كم قلت يأمرنا بالصلاة والزكاة والصلة والعفاف قال إن يكن ما تقول فيه حقا فإنه نبي وقد كنت أعلم أنه خارج ولم أكن أظنه منكم ولو أني أعلم أني أخلص إليه لأحببت لقاءه ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه وليبلغن ملكه ما تحت قدمى ‏.‏ قال ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرأه فإذا فيه ‏"‏ بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام أسلم تسلم وأسلم يؤتك الله أجرك مرتين وإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين و ‏{‏ يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون‏}‏ فلما فرغ من قراءة الكتاب ارتفعت الأصوات عنده وكثر اللغط وأمر بنا فأخرجنا ‏.‏ قال فقلت لأصحابي حين خرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة إنه ليخافه ملك بني الأصفر - قال - فما زلت موقنا بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه سيظهر حتى أدخل الله على الإسلام ‏.‏
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں روبرو بتایا ، کہا : ( معاہدہ صلح کی ) اس مدت کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی ، میں سفر پر گیا ۔ کہا : اس اثنا میں ، جب میں شام میں تھا ، ہر قل ، یعنی شامِ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خط لایا گیا ۔ کہا : اسے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے اور حاکم بُصریٰ کے حوالے کیا ، بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل تک پہنچا دیا تو ہرقل نے کہا : کیا اس شخص کی قوم میں سے ، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ، کوئی شخص یہاں موجود ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ کہا : تو قریش کے کچھ افراد سمیت مجھے بلایا گیا ، ہم ہرقل کے پاس آئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا : تم میں سے نسب میں اس آدمی کے سب سے زیادہ قریب کون ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا : میں نے جواب دیا : میں ہوں ۔ تو ان لوگوں نے مجھے ان کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا ، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا : ان سے کہہ دو : میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ، اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا ۔ کہا : ابوسفیان نے کہا : اللہ کی قسم! اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی تو میں جھوٹ بولتا ۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اس سے پوچھو : تم میں اس کا حسب ( خاندان ) کیسا ہے؟ کہا : میں نے جواب دیا : وہ ہم میں حسب والا ہے ۔ اس نے پوچھا : کیا اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا اس نے ( نبوت کے حوالے سے ) کو کہا ، اس کے کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : اس کے پیروکار کون لوگ ہیں؟ بڑے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ہیں؟ میں نے جواب دیا : بلکہ کمزور لوگ ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ کہا : میں نے جواب دیا : نہیں ، بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا ان میں سے کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اسے ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے جواب دیا : ہاں ۔ اس نے پوچھا : تو تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی؟ میں نے جواب دیا : ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح ہے ، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے اور ہم اسے نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا وہ بدعہدی کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ، ہم اس کی جانب سے ( کی گئی ) صلح کے زمانے میں ہیں ، ہمیں معلوم نہیں ، وہ اس میں کیا کرے گا ۔ کہا : اللہ کی قسم! اس ایک کلمے کے سوا اس میں کوئی اور بات ملانا میرے لیے ممکن نہ ہوا ۔ اس نے پوچھا : کیا اس سے پہلے کسی نے وہ بات کہی ہے؟ میں نے جواب دیا : نہیں ۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا : ان سے کہو : میں نے تم سے اس کے حسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں ( اونچے ) حسب والا ہے ۔ رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے اعلیٰ خاندانوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔ اور میں نے پوچھا : کیا اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے دعویٰ کیا : نہیں ، میں نے ( دل میں ) کہا : اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا : وہ آدمی اپنے آباء کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا : وہ کمزور لوگ ہیں یا اشراف ہیں؟ تو تم نے کہا : بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں ، رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں ۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ جو وہ کہتا ہے اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے تو تم نے کہا : نہیں ، اس طرح میں جان گیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناراض ہو کر اس کے دین سے نکلا ہے؟ تو تم نے کہا : نہیں ، ایمان جب دلوں میں رچ بس جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں ، ایمان ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا تم نے اس سے لڑائی کی؟ تو تم نے کہا کہ ( ہاں ) تم نے اس سے لڑائی کی ہے اور تمہارے اور اس کے درمیان جنگ ڈول کی طرح ہے ، وہ تم میں سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تم اس کے لوگوں میں سے قتل کرتے ہو ، رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، انہیں آزمایا جاتا ہے ، پھر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں ، وہ بدعہدی نہیں کرتے ۔ اور میں نے تم سے پوچھا : کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ( کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ ) تو تم نے کہا : نہیں ، میں نے ( دل میں ) کہا : اگر کسی نے اس سے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا : یہ آدمی وہی بات کہنا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے ۔ کہا : پھر اس نے پوچھا : وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا : وہ ہمیں نماز ، زکاۃ ، صلہ رحمی اور پاکبازی کا حکم دیتا ہے ۔ اس نے کہا : اگر تم جو اس کے بارے میں کہتے ہو ، سچ ہے ، تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا ، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ان سے ملنے کو محبوب رکھوں ۔ اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا اور ان کی حکومت اس زمین تک پہنچ کر رہے گی جو میرے قدموں کے نیچے ہے ۔ کہا : پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں ( لکھا ) تھا : اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا ، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ ، روم ہرقل کے نام ، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا ، اس کے بعد ، میں تمہیں اسلام کے بلاوے کے ساتھ دعوت دیتا ہوں ، اسلام قبول کر لو ، سلامتی پا لو گے ، اسلام قبول کر لو ، اللہ تمہیں دو بار اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو کسانوں ( عام لوگوں ) کا گناہ ( جو تمہارے پیچھے چلتے ہیں ) تم پر ہو گا ۔ اور "" اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں ، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے ، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیں ، ( تم ) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار ( اسلام قبول کرنے والے ) ہیں ۔ "" جب وہ خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور شور بڑھ گیا ، اس نے ہمارے بارے میں حکم دیا تو ہمیں باہر بھیج دیا گیا ۔ کہا : جب ہم باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑا ہو گیا ہے ، اس سے تو بنو اصفر ( اہل روم ) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے ۔ کہا : اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ وہ غالب آئیں گے ، یہاں تک کہ اللہ نے مجھ میں اوپر سے ( غالب کر کے ) اسلام داخل کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1773.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 89

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4608
وحدثناه حسن الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، بهذا الإسناد وزاد في الحديث وكان قيصر لما كشف الله عنه جنود فارس مشى من حمص إلى إيلياء شكرا لما أبلاه الله ‏.‏ وقال في الحديث ‏"‏ من محمد عبد الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ إثم اليريسيين ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ بداعية الإسلام ‏"‏ ‏.‏
صالح نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور حدیث میں یہ اضافہ کیا : جب اللہ نے قیصر ( کے سر پر سے ) فارس کے لشکروں کو ہتا دیا تو وہ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے ، جو اللہ نے اس پر کی تھی ، پیدل چل کر حمص سے ایلیاء گیا ، اور انہوں نے حدیث میں ( یوں ) کہا : " اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے ۔ " اور انہوں نے ( اریسین کے بجائے یاء کے ساتھ ) یریسین اور " اسلام کی طرف بلانے والے کلمے کے ساتھ ( دعوت دیتا ہوں ) " کے الفاظ کہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1773.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 90

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4609
حدثني يوسف بن حماد المعني، حدثنا عبد الأعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى كسرى وإلى قيصر وإلى النجاشي وإلى كل جبار يدعوهم إلى الله تعالى وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عبدالاعلیٰ نے ہمیں سعید ( بن ابی عروبہ ) سے حدیث بیان کی ، انہوں نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ ، قیصر ، نجاشی اور ہر متکبر بادشاہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہوئے خطوط لکھ بھیجے ، اور اس سے وہ نجاشی مراد نہیں جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ ( اس کے بعد والے نجاشی کی طرف خط لکھا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1774.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 91

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4610
وحدثناه محمد بن عبد الله الرزي، حدثنا عبد الوهاب بن عطاء، عن سعيد، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله ولم يقل وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عبدالوہاب بن عطاء نے سعید سے ، انہوں نے قتادہ سے روایت کی ، کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی ، اور انہوں نے یہ نہیں کہا : اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی تھی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1774.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 92

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4611
وحدثنيه نصر بن علي الجهضمي، أخبرني أبي، حدثني خالد بن قيس، عن قتادة، عن أنس، ولم يذكر وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
خالد بن قیس نے قتادہ سے ، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور انہوں نے بھی یہ ذکر نہیں کیا : یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی تھی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1774.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 93

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4612
وحدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن سرح أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني كثير بن عباس بن عبد المطلب، قال قال عباس شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين فلزمت أنا وأبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نفارقه ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلة له بيضاء أهداها له فروة بن نفاثة الجذامي فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرين فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار قال عباس و أنا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم أكفها إرادة أن لا تسرع وأبو سفيان آخذ بركاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أى عباس ناد أصحاب السمرة ‏"‏ ‏.‏ فقال عباس وكان رجلا صيتا فقلت بأعلى صوتي أين أصحاب السمرة قال فوالله لكأن عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على أولادها ‏.‏ فقالوا يا لبيك يا لبيك - قال - فاقتتلوا والكفار والدعوة في الأنصار يقولون يا معشر الأنصار يا معشر الأنصار قال ثم قصرت الدعوة على بني الحارث بن الخزرج فقالوا يا بني الحارث بن الخزرج يا بني الحارث بن الخزرج ‏.‏ فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا حين حمي الوطيس ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم حصيات فرمى بهن وجوه الكفار ثم قال ‏"‏ انهزموا ورب محمد ‏"‏ ‏.‏ قال فذهبت أنظر فإذا القتال على هيئته فيما أرى - قال - فوالله ما هو إلا أن رماهم بحصياته فما زلت أرى حدهم كليلا وأمرهم مدبرا ‏.‏
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی ، انہوں نے کہا : مجھے کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : حنین کے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ، میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ، آپ سے جدا نہ ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر ( سوار ) تھے جو فرقہ بن نُفاثہ جذامی نے آپ کو تحفے میں دیا تھا ۔ جب مسلمانوں اور کفار کا آمنا سامنا ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے ، ( مگر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر ، کفار کی جانب بڑھنے لگے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا ، میں چاہتا تھا کہ وہ تیزی سے ( آگے ) نہ بڑھے اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو پکڑا ہوا تھا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " عباس! کیکر کے درخت ( کے نیچے بیعت کرنے ) والوں کو آواز دو ۔ " حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ۔ ۔ اور وہ بلند آواز والے تھے ۔ ۔ میں نے اپنی بلند ترین آواز سے پکار کر کہا : کیکر کے درخت والے کہاں ہیں؟ کہا : اللہ کی قسم! میری آواز سن کر ان کا پلٹنا اس طرح تھا جیسے گائے اپنے بچوں کی ( آواز سن کر ان کی ) طرف پلٹتی ہے ۔ اور وہ ( جواب میں ) کہنے لگے : حاضر ہیں! حاضر ہیں! کہا : تو وہ کفار سے بھڑ گئے ، پھر انصار میں بلاوا دیا گیا ( بلاوا دینے والے ) کہتے تھے : اے انصار کی جماعت! اے انصار کی جماعت! پھر اس ندا کو بنی حارث بن خزرج تک محدود کر دیا گیا اور انہوں نے کہا : اے بنو حارث بن خزرج! اے بنو حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر پر بیٹھے ہوئے ، گردن کو آگے کر کے دیکھنے والے کی طرح ، ان کی لڑائی کا جائزہ لیا ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ گھڑی ہے کہ ( لڑائی کا ) تنور گرم ہوا ہے ۔ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں پکڑیں اور انہیں کافروں کے چہروں پر مارا ، پھر فرمایا : " محمد کے پروردگار کی قسم! وہ شکست کھا گئے ۔ " کہا : میں دیکھنے لگا تو میرے خیال کے مطابق لڑائی اسی طرح جاری تھی ۔ کہا : اللہ کی قسم! پھر یہی ہوا کہ جونہی آپ نے ان کی طرف کنکریاں پھینکیں تو میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی دھار کند ہو گئی ہے اور ان کا معاملہ پیچھے جانے کا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1775.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 94

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4613
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، وعبد بن حميد، جميعا عن عبد، الرزاق أخبرنا معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد ‏.‏ نحوه غير أنه قال فروة بن نعامة الجذامي ‏.‏ وقال ‏ "‏ انهزموا ورب الكعبة انهزموا ورب الكعبة ‏"‏ ‏.‏ وزاد في الحديث حتى هزمهم الله قال وكأني أنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم يركض خلفهم على بغلته ‏.‏
معمر نے ہمیں زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح خبر دی ، البتہ انہوں نے فروہ بن ( نفاثہ کی جگہ ) نعامہ جذامی ( صحیح نفاثہ ہی ہے ) کہا اور کہا : "" رب کعبہ کی قسم! وہ شکست کھا گئے ۔ رب کعبہ کی قسم! وہ شکست کھا گئے ۔ "" اور انہوں نے حدیث میں یہ اضافہ کیا : یہاں تک کہ اللہ نے انہیں شکست دے دی ۔ کہا : ایسے لگتا ہے کہ میں ( اب بھی ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ان کے پیچھے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1775.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 95

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4614
وحدثناه ابن أبي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، قال أخبرني كثير، بن العباس عن أبيه، قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين ‏.‏ وساق الحديث ‏.‏ غير أن حديث يونس وحديث معمر أكثر منه وأتم ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مجھے کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے خبر دی ، انہوں نے کہا : حنین کے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ۔ ۔ ۔ اور ( آگے باقی ماندہ ) حدیث بیان کی ، البتہ یونس اور معمر کی حدیث ان ( سفیان ) کی حدیث سے زیادہ لمبی اور زیادہ مکمل ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1775.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 96

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4615
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو خيثمة، عن أبي إسحاق، قال قال رجل للبراء يا أبا عمارة أفررتم يوم حنين قال لا والله ما ولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكنه خرج شبان أصحابه وأخفاؤهم حسرا ليس عليهم سلاح أو كثير سلاح فلقوا قوما رماة لا يكاد يسقط لهم سهم جمع هوازن وبني نصر فرشقوهم رشقا ما يكادون يخطئون فأقبلوا هناك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته البيضاء وأبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب يقود به فنزل فاستنصر وقال ‏ "‏ أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ‏"‏ ‏.‏ ثم صفهم ‏.‏
ابوخیثمہ نے ہمیں ابواسحاق سے خبر دی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے کہا : ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ تک نہیں پھیرا ، البتہ آپ کے ساتھیوں میں سے چند نوجوان اور جلد باز ( جنگ کے لیے ) نہتے نکلے تھے جن ( کے جسم ) پر اسلحہ یا بڑا اسلحہ نہیں تھا ، تو ان کی مڈبھیڑ ایسی تیر انداز قوم سے ہوئی جن کا کوئی تیر ( زمین ) پر نہ گرتا تھا ، ( نشانے پر لگتا تھا ) وہ بنو ہوازن اور بنو نضر کے جتھے تھے ، انہوں نے ان ( نوجوانوں ) کو اس طرح سے تیروں سے چھیدنا شروع کیا کہ کوئی نشانہ خطا نہ جاتا تھا ، پھر وہ لوگ وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھے ، آپ اپنے سفید خچر پر تھے اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسے چلا رہے تھے ، آپ نیچے اترے ( اللہ سے ) مدد مانگی اور فرمایا : "" میں نبی ہوں ، یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں "" پھر آپ نے ( نئے سرے سے ) ان کی صف بندی کی ( اور پانسہ پلٹ گیا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1776.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 97

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4616
حدثنا أحمد بن جناب المصيصي، حدثنا عيسى بن يونس، عن زكرياء، عن أبي، إسحاق قال جاء رجل إلى البراء فقال أكنتم وليتم يوم حنين يا أبا عمارة فقال أشهد على نبي الله صلى الله عليه وسلم ما ولى ولكنه انطلق أخفاء من الناس وحسر إلى هذا الحى من هوازن وهم قوم رماة فرموهم برشق من نبل كأنها رجل من جراد فانكشفوا فأقبل القوم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو سفيان بن الحارث يقود به بغلته فنزل ودعا واستنصر وهو يقول ‏ "‏ أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب اللهم نزل نصرك ‏"‏ ‏.‏ قال البراء كنا والله إذا احمر البأس نتقي به وإن الشجاع منا للذي يحاذي به ‏.‏ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
زکریا نے ابواسحاق سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا : ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا : میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رخ تک نہیں پھیرا ، کچھ جلد باز لوگ اور نہتے ہوازن کے اس قبیلے کی طرف بڑھے ، وہ تیر انداز لوگ تھے ، انہوں نے ان ( نوجوانوں ) پر اس طرح یکبارگی اکٹھے تیر پھینکے جیسے وہ تڈی دل ہوں ۔ اس پر وہ بکھر گئے ، اور وہ ( ہوازن کے ) لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے ، ابوسفیان ( بن حارث ) رضی اللہ عنہ آپ کے خچر کو پکڑ کر چلا رہے تھے ، تو آپ نیچے اترے ، دعا کی اور ( اللہ سے ) مدد مانگی ، آپ فرما رہے تھے : "" میں نبی ہوں ، یہ جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔ اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما ۔ "" حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کی اوٹ لیتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑا ہوتا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1776.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 98

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4617
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء، وسأله، رجل من قيس أفررتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين فقال البراء ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يفر وكانت هوازن يومئذ رماة وإنا لما حملنا عليهم انكشفوا فأكببنا على الغنائم فاستقبلونا بالسهام ولقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته البيضاء وإن أبا سفيان بن الحارث آخذ بلجامها وهو يقول ‏ "‏ أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے ( اس وقت ) حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا جب ( قبیلہ ) قیس کے ایک آدمی نے ان سے پوچھا : کیا آپ لوگ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگے تھے؟ تو حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا : لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے تھے ، اس زمانے میں ہوازن کے لوگ ( ماہر ) تیر انداز تھے ، جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ بکھر گئے ، پھر ہم غنیمتوں کی طرف متوجہ ہو گئے تو وہ تیروں کے ساتھ ہمارے سامنے آ گئے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سفید خچر پر دیکھا ، ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی باگ تھامے ہوئے تھے اور آپ فرما رہے تھے : "" میں نبی ہوں ، یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1776.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 99

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4618
وحدثني زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، وأبو بكر بن خلاد قالوا حدثنا يحيى، بن سعيد عن سفيان، قال حدثني أبو إسحاق، عن البراء، قال قال له رجل يا أبا عمارة ‏.‏ فذكر الحديث وهو أقل من حديثهم وهؤلاء أتم حديثا ‏.‏
سفیان سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : مجھے ابواسحاق نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، کہا : ایک آدمی نے ان سے پوچھا : ابوعمارہ! ۔ ۔ اور ( آگے ) حدیث بیان کی ، ان کی حدیث ان سب ( ابوخیثمہ ، زکریا اور شعبہ ) کی حدیث سے ( تفصیلات میں ) کم ہے اور ان سب کی حدیث زیادہ مکمل ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1776.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 100

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4619
وحدثنا زهير بن حرب، حدثنا عمر بن يونس الحنفي، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني إياس بن سلمة، حدثني أبي قال، غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا فلما واجهنا العدو تقدمت فأعلو ثنية فاستقبلني رجل من العدو فأرميه بسهم فتوارى عني فما دريت ما صنع ونظرت إلى القوم فإذا هم قد طلعوا من ثنية أخرى فالتقوا هم وصحابة النبي صلى الله عليه وسلم فولى صحابة النبي صلى الله عليه وسلم وأرجع منهزما وعلى بردتان متزرا بإحداهما مرتديا بالأخرى فاستطلق إزاري فجمعتهما جميعا ومررت على رسول الله صلى الله عليه وسلم منهزما وهو على بغلته الشهباء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لقد رأى ابن الأكوع فزعا ‏"‏ ‏.‏ فلما غشوا رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل عن البغلة ثم قبض قبضة من تراب من الأرض ثم استقبل به وجوههم فقال ‏"‏ شاهت الوجوه ‏"‏ ‏.‏ فما خلق الله منهم إنسانا إلا ملأ عينيه ترابا بتلك القبضة فولوا مدبرين فهزمهم الله عز وجل وقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائمهم بين المسلمين ‏.‏
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی جنگ لڑی ، جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو میں آگے بڑھا پھر میں ایک گھاٹی پر چڑھ جاتا ہوں ، میرے سامنے دشمن کا آدمی آیا تو میں اس پر تیر پھینکتا ہوں ، وہ مجھ سے چھپ گیا ، اس کے بعد مجھے معلوم نہیں اس نے کیا کیا ۔ میں نے ( اُن ) لوگوں کا جائزہ لیا تو دیکھا وہ ایک دوسری گھاٹی کی طرف ظاہر ہوئے ، ان کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا ٹکراؤ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پیچھے ہٹ گئے اور میں بھی شکست خودرہ لوٹتا ہوں ۔ مجھ ( میرے جسم ) پر دو چادریں تھیں ، ان میں سے ایک کا میں نے تہبند باندھا ہوا تھا اور دوسری کو اوڑھ رکھا تھا تو میرا تہبند کھل گیا ، میں نے ان دونوں کو اکٹھا کیا اور شکست خوردگی کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا ، آپ اپنے سفید خچر پر تھے ۔ ( مجھے دیکھ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اکوع کا بیٹا گھبرا کو لوٹ آیا ہے ۔ " جب وہ ہر طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے ، زمین سے مٹی کی ایک مٹھی لی ، پھر اسے سامنے کی طرف سے ان کے شہروں پر پھینکا اور فرمایا : " چہرے بگڑ گئے ۔ " اللہ نے ان میں سے کسی انسان کو پیدا نہیں کیا تھا مگر اس ایک مٹھی سے اس کی آنکھیں بھر دیں ، سو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ، اللہ نے اسی ( ایک مٹھی خاک ) سے انہیں شکست دی اور ( بعد ازاں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1777

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 101

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4620
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وابن، نمير جميعا عن سفيان، قال زهير حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن أبي العباس الشاعر الأعمى، عن عبد الله، بن عمرو قال حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الطائف فلم ينل منهم شيئا فقال ‏"‏ إنا قافلون إن شاء الله ‏"‏ ‏.‏ قال أصحابه نرجع ولم نفتتحه فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اغدوا على القتال ‏"‏ ‏.‏ فغدوا عليه فأصابهم جراح فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنا قافلون غدا ‏"‏ ‏.‏ قال فأعجبهم ذلك فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا اور ان میں سے کسی کی جان نہ لے سکے تو آپ نےفرمایا : " ان شاءاللہ ہم کل لوٹ جائیں گے ۔ " آپ کے صحابہ نے کہا : ہم لوٹ جائیں جبکہ ہم نے اسے فتح نہیں کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " صبح جنگ کے لیے نکلو ۔ " وہ صبح نکلے تو انہیں زخم لگے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : " ہم کل واپس لوٹ جائیں گے ۔ " کہا : تو انہیں یہ بات اچھی لگی ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1778

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 102

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4621
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شاور حين بلغه إقبال أبي سفيان قال فتكلم أبو بكر فأعرض عنه ثم تكلم عمر فأعرض عنه فقام سعد بن عبادة فقال إيانا تريد يا رسول الله والذي نفسي بيده لو أمرتنا أن نخيضها البحر لأخضناها ولو أمرتنا أن نضرب أكبادها إلى برك الغماد لفعلنا - قال - فندب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس فانطلقوا حتى نزلوا بدرا ووردت عليهم روايا قريش وفيهم غلام أسود لبني الحجاج فأخذوه فكان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسألونه عن أبي سفيان وأصحابه ‏.‏ فيقول ما لي علم بأبي سفيان ولكن هذا أبو جهل وعتبة وشيبة وأمية بن خلف ‏.‏ فإذا قال ذلك ضربوه فقال نعم أنا أخبركم هذا أبو سفيان ‏.‏ فإذا تركوه فسألوه فقال ما لي بأبي سفيان علم ولكن هذا أبو جهل وعتبة وأمية بن خلف في الناس ‏.‏ فإذا قال هذا أيضا ضربوه ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي فلما رأى ذلك انصرف قال ‏"‏ والذي نفسي بيده لتضربوه إذا صدقكم وتتركوه إذا كذبكم ‏"‏ ‏.‏ قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا مصرع فلان ‏"‏ ‏.‏ قال ويضع يده على الأرض ها هنا وها هنا قال فما ماط أحدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا ، کہا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے اعراض فرمایا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے اعراض فرمایا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے بھی اعراض فرمایا ۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! کیا آپ ہم سے ( مشورہ کرنا ) چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں ( اپنے گھوڑے ) سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے اور اگر آپ ہم کو انہیں ( معمورہ اراضی کے آخری کونے ) برک غماد تک دوڑانے کا حکم دیں تو ہم یہی کریں گے ۔ کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا ، اور وہ چل پڑے حتی کہ بدر میں پڑاؤ ڈالا ۔ ان کے پاس قریش کے پانی لانے والے اونٹ آئے ، ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے تو وہ کہنے لگا : مجھے ابوسفیان کا تو پتہ نہیں ہے ، البتہ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ ، اور امیہ بن خلف یہاں ( قریب موجود ) ہیں ۔ جب اس نے یہ کہا ، وہ اسے مارنے لگے ۔ تو اس نے کہا : ہاں ، تمہیں بتاتا ہوں ، ابوسفیان ادھر ہے ۔ جب انہوں نے اسے چھوڑا اور ( دوبارہ ) پوچھا ، تو اس نے کہا : ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے ، البتہ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ ، اور امیہ بن خلف یہاں لوگوں میں موجود ہیں ۔ جب اس نے یہ ( پہلے والی ) بات کی تو وہ اسے مارنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، آپ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو آپ ( سلام پھیر کر ) پلٹے اور فرمایا : "" اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ تم سے جھوٹ بولتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہو ۔ "" کہا : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے ۔ "" آپ زمین پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے ( اور فرماتے تھے ) یہاں اور یہاں ۔ کہا : ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے ( ذرہ برابر بھی ) اِدھر اُدھر نہیں ہوا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1779

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 103

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4622
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح، عن أبي هريرة، قال وفدت وفود إلى معاوية وذلك في رمضان فكان يصنع بعضنا لبعض الطعام فكان أبو هريرة مما يكثر أن يدعونا إلى رحله فقلت ألا أصنع طعاما فأدعوهم إلى رحلي فأمرت بطعام يصنع ثم لقيت أبا هريرة من العشي فقلت الدعوة عندي الليلة فقال سبقتني ‏.‏ قلت نعم ‏.‏ فدعوتهم فقال أبو هريرة ألا أعلمكم بحديث من حديثكم يا معشر الأنصار ثم ذكر فتح مكة فقال أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قدم مكة فبعث الزبير على إحدى المجنبتين وبعث خالدا على المجنبة الأخرى وبعث أبا عبيدة على الحسر فأخذوا بطن الوادي ورسول الله صلى الله عليه وسلم في كتيبة - قال - فنظر فرآني فقال ‏"‏ أبو هريرة ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك يا رسول الله ‏.‏ فقال ‏"‏ لا يأتيني إلا أنصاري ‏"‏ ‏.‏ زاد غير شيبان فقال ‏"‏ اهتف لي بالأنصار ‏"‏ ‏.‏ قال فأطافوا به ووبشت قريش أوباشا لها وأتباعا ‏.‏ فقالوا نقدم هؤلاء فإن كان لهم شىء كنا معهم ‏.‏ وإن أصيبوا أعطينا الذي سئلنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ترون إلى أوباش قريش وأتباعهم ‏"‏ ‏.‏ ثم قال بيديه إحداهما على الأخرى ثم قال ‏"‏ حتى توافوني بالصفا ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلقنا فما شاء أحد منا أن يقتل أحدا إلا قتله وما أحد منهم يوجه إلينا شيئا - قال - فجاء أبو سفيان فقال يا رسول الله أبيحت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم ‏.‏ ثم قال ‏"‏ من دخل دار أبي سفيان فهو آمن ‏"‏ ‏.‏ فقالت الأنصار بعضهم لبعض أما الرجل فأدركته رغبة في قريته ورأفة بعشيرته ‏.‏ قال أبو هريرة وجاء الوحى وكان إذا جاء الوحى لا يخفى علينا فإذا جاء فليس أحد يرفع طرفه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينقضي الوحى فلما انقضى الوحى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا معشر الأنصار ‏"‏ ‏.‏ قالوا لبيك يا رسول الله قال ‏"‏ قلتم أما الرجل فأدركته رغبة في قريته ‏"‏ ‏.‏ قالوا قد كان ذاك ‏.‏ قال ‏"‏ كلا إني عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله وإليكم والمحيا محياكم والممات مماتكم ‏"‏ ‏.‏ فأقبلوا إليه يبكون ويقولون والله ما قلنا الذي قلنا إلا الضن بالله وبرسوله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم ‏"‏ ‏.‏ قال فأقبل الناس إلى دار أبي سفيان وأغلق الناس أبوابهم - قال - وأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أقبل إلى الحجر فاستلمه ثم طاف بالبيت - قال - فأتى على صنم إلى جنب البيت كانوا يعبدونه - قال - وفي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم قوس وهو آخذ بسية القوس فلما أتى على الصنم جعل يطعنه في عينه ويقول ‏"‏ جاء الحق وزهق الباطل ‏"‏ ‏.‏ فلما فرغ من طوافه أتى الصفا فعلا عليه حتى نظر إلى البيت ورفع يديه فجعل يحمد الله ويدعو بما شاء أن يدعو ‏.‏
شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، یہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ( عبداللہ بن رباح نے کہا : ) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے ۔ ایک ( دن ) میں نے کہا : میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں ۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا ، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا : آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا ۔ ( یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا ) میں نے کہا : ہاں ، پھر میں نے ان سب کو بلایا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا ۔ اس کے بعد کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے ، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ، ابوعبیدہ ( بن جراح ) رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں ۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دستے میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : "" ابوہریرہ! "" میں نے کہا : حاضر ہوں ، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے ۔ "" شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا : آپ نے فرمایا : "" میرے لیے انصار کو آواز دو ۔ "" انصار آپ کے اردگرد آ گئے ۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا : ہم ان کو آگے کرتے ہیں ، اگر کوئی چیز ( کامیابی ) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے ۔ ( دیت ، جرمانہ وغیرہ ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں ( ہر کام میں پیروی کرنے والوں ) کو دیکھ رہے ہو؟ "" پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ( مارتے ہوئے ) اشارہ فرمایا : "" ( ان کا صفایا کر دو ، ان کا فتنہ دبا دو ) ، پھر فرمایا : "" یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو ۔ "" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر ہم چلے ، ہم میں سے جو کوئی ( کافروں میں سے ) جس کسی کو مارنا چاہتا ، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز ( ہتھیار ) کو آگے تک نہ کرتا ، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول! قریش کی جماعت ( کے خون ) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے ) فرمایا : "" جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے ۔ "" انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے : ان کو ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی ۔ جب وحی آتی تو وحی ( کا نزول ) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا ، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم نے یہ کہا : اس شخص ( کے دل میں ) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے ۔ "" انہوں نے کہا : یقینا ایسا تو ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمایا : "" ہرگز نہیں ، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف ( آیا ) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی ( کے ساتھ ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے ۔ "" یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے ، وہ کہہ رہے تھے : اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید چاہت ( اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف ) کی وجہ سے کہا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں ۔ "" پھر لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما ، پھر بیت اللہ کا طواف کیا ، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے ، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا ، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے : "" حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ۔ "" جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے ، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1780.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 104

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4623
وحدثنيه عبد الله بن هاشم، حدثنا بهز، حدثنا سليمان بن المغيرة، بهذا الإسناد وزاد في الحديث ثم قال بيديه إحداهما على الأخرى ‏"‏ احصدوهم حصدا ‏"‏ ‏.‏ وقال في الحديث قالوا قلنا ذاك يا رسول الله قال ‏"‏ فما اسمي إذا كلا إني عبد الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏
بہز نے کہا : سلیمان بن مغیرہ نے ہمیں اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ، انہوں نے حدیث میں ( یہ ) اضافہ کیا : آپ نے دونوں ہاتھوں سے ، ایک کو دوسرے کے ساتھ پھیرتے ہوئے اشارہ کیا : ان کو اسی طرح کاٹ ڈالو جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے انہوں نے حدیث میں ( یہ بھی ) کہا : ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم نے یہ کہ تھا ۔ آپ نے فرمایا : " تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ ہرگز نہیں ، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1780.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 105

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4624
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا حماد، بن سلمة أخبرنا ثابت، عن عبد الله بن رباح، قال وفدنا إلى معاوية بن أبي سفيان وفينا أبو هريرة فكان كل رجل منا يصنع طعاما يوما لأصحابه فكانت نوبتي فقلت يا أبا هريرة اليوم نوبتي ‏.‏ فجاءوا إلى المنزل ولم يدرك طعامنا فقلت يا أبا هريرة لو حدثتنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يدرك طعامنا فقال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح فجعل خالد بن الوليد على المجنبة اليمنى وجعل الزبير على المجنبة اليسرى وجعل أبا عبيدة على البياذقة وبطن الوادي فقال ‏"‏ يا أبا هريرة ادع لي الأنصار ‏"‏ ‏.‏ فدعوتهم فجاءوا يهرولون فقال ‏"‏ يا معشر الأنصار هل ترون أوباش قريش ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم ‏.‏ قال ‏"‏ انظروا إذا لقيتموهم غدا أن تحصدوهم حصدا ‏"‏ ‏.‏ وأخفى بيده ووضع يمينه على شماله وقال ‏"‏ موعدكم الصفا ‏"‏ ‏.‏ قال فما أشرف يومئذ لهم أحد إلا أناموه - قال - وصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم الصفا وجاءت الأنصار فأطافوا بالصفا فجاء أبو سفيان فقال يا رسول الله أبيدت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم ‏.‏ قال أبو سفيان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من دخل دار أبي سفيان فهو آمن ومن ألقى السلاح فهو آمن ومن أغلق بابه فهو آمن ‏"‏ ‏.‏ فقالت الأنصار أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ‏.‏ ونزل الوحى على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قلتم أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ‏.‏ ألا فما اسمي إذا - ثلاث مرات - أنا محمد عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله وإليكم فالمحيا محياكم والممات مماتكم ‏"‏ ‏.‏ قالوا والله ما قلنا إلا ضنا بالله ورسوله ‏.‏ قال ‏"‏ فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم ‏"‏ ‏.‏
ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی ، ( کہا : ) ہمیں ثابت نے عبداللہ بن رباح سے خبر دی ، انہوں نے کہا : ہم بطور وفد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، اور ہم لوگوں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، ہم میں سے ہر آدمی ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا بناتا ، ایک دن میری باری تھی ، میں نے کہا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! آج میری باری ہے ، وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا نہیں آیا تھا ۔ میں نے کہا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! کاش آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنائیں یہاں تک کہ کھانا آ جائے ۔ انہوں نے کہا : ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دائیں بازو ( میمنہ ) پر ( امیر ) مقرر کیا اور زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں بازو ( میسرہ ) پر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادوں پر اور وادی کے اندر ( کے راستے ) پر تعینات کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ابوہریرہ! انصار کو بلاؤ ۔ " میں نے ان کو بلایا ، وہ دوڑتے ہوئے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " انصار کے لوگو! کیا تم قریش کے اوباشوں کو دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دیکھو! کل جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان کو اس طرح کاٹ دینا جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے " اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ۔ اور فرمایا : " اب تم سے ملاقات کا وعدہ کوہِ صفا پر ہے ۔ " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تو اس روز جس کسی نے سر اٹھایا ، انہوں نے اس کو سلا دیا ، ( یعنی مار ڈالا ۔ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے ، انسار آئے ، انہوں نے صفا کو گھیر لیا ، اتنے میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگا : اللہ کے رسول! قریش کی جمعیت مٹا دی گئی ، آج سے قریش نہ رہے ۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کے لے اس کو بھی امن ہے ۔ " انصار نے کہا : آپ پر اپنے عزیزوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم لوگوں نے کہا : مجھ پر کنبے والوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے ، دیکھو! پھر ( اس صورت میں ) میرا نام کیا ہو گا؟ " آپ نے تین بار فرمایا : ۔ ۔ " میں محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ میں نے اللہ کے لیے تمہاری طرف ہجرت کی ، تو اب زندگی تمہاری زندگی ( کے ساتھ ) ہے اور موت تمہاری موت ( کے ساتھ ) ہے ۔ " انہوں نے کہا : اللہ کی قسم! ہم نے یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید چاہت ( اور آپ کی معیت سے محرومی کے خوف ) کے علاوہ کسی وجہ سے نہیں کہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تو اللہ اور اس کا رسول دونوں تم کو سچا جانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1780.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 106

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4625
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وابن أبي عمر، - واللفظ لابن أبي شيبة - قالوا حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن أبي معمر، عن عبد الله، قال دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة وحول الكعبة ثلاثمائة وستون نصبا فجعل يطعنها بعود كان بيده ويقول ‏"‏ ‏{‏ جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا‏}‏ ‏{‏ جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد‏}‏ زاد ابن أبي عمر يوم الفتح ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ ، عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے ۔ ۔ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں ۔ ۔ کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابن ابی نجیح سے حدیث بیان کی ، انہوں نے مجاہد سے ، انہوں نے ابومعمر سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی سے کچوکا دے کر گرانے لگے اور یہ فرمانے لگے : " حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ، بلاشبہ باطل مٹنے والا ہے ۔ حق آ گیا اور باطل نہ آغاز کرتا ہے اور نہ لوٹاتا ہے " ( بلکہ دونوں اللہ عزوجل جلالہ کے کام ہیں ۔ ) ابن ابی عمر نے اضافہ کیا : فتح مکہ کے دن

صحيح مسلم حدیث نمبر:1781.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 107

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4626
وحدثناه حسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، كلاهما عن عبد الرزاق، أخبرنا الثوري، عن ابن أبي نجيح، بهذا الإسناد إلى قوله زهوقا ‏.‏ ولم يذكر الآية الأخرى وقال بدل نصبا صنما ‏.‏
ثوری نے ابن ابی نجیح سے اسی سند کے ساتھ زهوقا ( پہلی آیت کے آخر ) تک روایت کی ، دوسری آیت بیان نہیں کی اور ۔ ۔ نصبا کے بجائے ‘ صنما کہا : ( دونوں کے معنی بت کے ہیں)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1781.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 108

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4627
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، ووكيع، عن زكرياء، عن الشعبي، قال أخبرني عبد الله بن مطيع، عن أبيه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول يوم فتح مكة ‏ "‏ لا يقتل قرشي صبرا بعد هذا اليوم إلى يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
علی بن مسہر اور وکیع نے زکریا سے ، انہوں نے شعبی سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھے عبداللہ بن مطیع نے اپنے باپ ( مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ ) سے خبر دی ، انہوں نے کہا : جس دن مکہ فتح ہوا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا : " آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی باندھ کر قتل نہ کیا جائے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1782.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 109

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4628
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا زكرياء، بهذا الإسناد ‏.‏ وزاد قال ولم يكن أسلم أحد من عصاة قريش غير مطيع كان اسمه العاصي فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم مطيعا ‏.‏
عبداللہ بن نمیر نے کہا : ہمیں زکریا نے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث سنائی اور یہ اضافہ کیا ، کہا : اس دن قریش کے عاص ( نافرمان ) نام کے لوگوں میں سے ، مطیع کے سوا ، کوئی مسلمان نہیں ہوا ۔ اس کا نام ( تخفیف کے ساتھ عاص اور تخفیف کے بغیر ) عاصی تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ( بدل کر ) مطیع رکھ دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1782.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 110

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4629
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء بن عازب، يقول كتب علي بن أبي طالب الصلح بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين المشركين يوم الحديبية فكتب ‏"‏ هذا ما كاتب عليه محمد رسول الله‏"‏ ‏.‏ فقالوا لا تكتب رسول الله فلو نعلم أنك رسول الله لم نقاتلك ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي ‏"‏ امحه ‏"‏ ‏.‏ فقال ما أنا بالذي أمحاه ‏.‏ فمحاه النبي صلى الله عليه وسلم بيده قال وكان فيما اشترطوا أن يدخلوا مكة فيقيموا بها ثلاثا ولا يدخلها بسلاح إلا جلبان السلاح ‏.‏ قلت لأبي إسحاق وما جلبان السلاح قال القراب وما فيه ‏.‏
معاذ عنبری نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابواسحاق سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس صلح کا معاہدہ لکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کے درمیان حدیبیہ کے دن ہوئی تھی ۔ انہوں نے لکھا : "" یہ ( معاہدہ ) ہے جس پر تحریری صلح کی اللہ کے رسول ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ "" ان لوگوں ( مشرکوں ) نے کہا : "" اللہ کے رسول "" مت لکھیے ، اس لیے کہ اگر ہم یقین جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ سے نہ لڑتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : "" اس لفظ کو مٹا دو ۔ "" انہوں نے عرض کی : جو اس ( لفظ ) کو مٹائے گا وہ میں نہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ، کہا : انہوں نے جو شرطیں رکھیں ان میں یہ بھی تھا کہ ( مسلمان ) مکہ میں آئیں اور تین دن تک مقیم رہیں اور ہتھیار لے کر مکہ میں داخل نہ ہوں ، الا یہ کہ چمڑے کے تھیلے میں ہوں ۔ ( شعبہ نے کہا ) میں نے ابواسحاق سے کہا : چمڑے کے تھیلے سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا : نیام اور جو اس کے اندر ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1783.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 111

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4630
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء بن عازب، يقول لما صالح رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الحديبية كتب علي كتابا بينهم قال فكتب ‏"‏ محمد رسول الله ‏"‏ ثم ذكر بنحو حديث معاذ غير أنه لم يذكر في الحديث ‏"‏ هذا ما كاتب عليه ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابواسحٰق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ ( میں آ کر صلح کی گفتگو کرنے ) والوں سے صلح کی تو ان کے مابین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تحریر لکھی ، کہا : انہوں نے " محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " لکھا ، پھر معاذ کی حدیث کی طرح بیان کیا ، مگر انہوں نے : " یہ ہے جس پر تحریر صلح کی " ( کا جملہ ) بیان نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1783.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 112

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4631
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، وأحمد بن جناب المصيصي، جميعا عن عيسى بن يونس، - واللفظ لإسحاق - أخبرنا عيسى بن يونس، أخبرنا زكرياء، عن أبي إسحاق، عن البراء، قال لما أحصر النبي صلى الله عليه وسلم عند البيت صالحه أهل مكة على أن يدخلها فيقيم بها ثلاثا ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح السيف وقرابه ‏.‏ ولا يخرج بأحد معه من أهلها ولا يمنع أحدا يمكث بها ممن كان معه ‏.‏ قال لعلي ‏"‏ اكتب الشرط بيننا بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله ‏"‏ ‏.‏ فقال له المشركون لو نعلم أنك رسول الله تابعناك ولكن اكتب محمد بن عبد الله ‏.‏ فأمر عليا أن يمحاها فقال علي لا والله لا أمحاها ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أرني مكانها ‏"‏ ‏.‏ فأراه مكانها فمحاها وكتب ‏"‏ ابن عبد الله ‏"‏ ‏.‏ فأقام بها ثلاثة أيام فلما أن كان يوم الثالث قالوا لعلي هذا آخر يوم من شرط صاحبك فأمره فليخرج ‏.‏ فأخبره بذلك فقال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ فخرج ‏.‏ وقال ابن جناب في روايته مكان تابعناك بايعناك ‏.‏
اسحاق بن ابراہیم حنظلی اور احمد بن جناب مصیصی دونوں نے عیسیٰ بن یونس سے ۔ ۔ لفظ اسحاق کے ہیں ۔ ۔ روایت کی ، کہا : ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ، ہمیں زکریا نے ابواسحاق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کے پاس روک لیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ والوں نے اس بات پر صلح کی کہ ( آئندہ سال ) مکہ میں داخل ہوں اور تین دن تک اس میں رہیں اور ہتھیار رکھنے کے تھیلوں : تلوار اور اس کے نیام کے علاوہ ( کوئی ہتھیار لے کر ) اس شہر میں داخل نہ ہوں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ آنے والوں میں سے جو وہاں رہ جائے ( مشرکوں کا ساتھ قبول کر لے ) تو اس کو منع نہ کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : "" اس شرط کو ہمارے درمیان لکھو بسم الله الرحمن الرحيم یہ ہے جس پر باہمی فیصلہ کیا اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ "" مشرک بولے : اگر ہم یہ یقین جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو آپ کی پیروی کرتے ، بلکہ یوں لکھیے : "" محمد بن عبداللہ نے ۔ "" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ان ( الفاظ ) کو مٹا دیں ۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم! میں ( اپنے ہاتھ سے ) نہ مٹاؤں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اچھا ، مجھے اس ( جملے ) کی جگہ دکھاؤ ۔ "" حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دکھا دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا ( جب حسبِ معاہدہ اگلے سال آ کر عمرہ ادا فرمایا ) تو تین روز ہی مکہ معظمہ میں رہے ۔ جب تیسرا دن ہوا تو مشرکوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے ، ان سے کہو : اب وہ چلے جائیں ، انہوں نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اچھا ۔ "" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ سے ) نکل آئے ۔ ابن جناب نے "" ہم آپ کی پیروی کرتے "" کے بجائے "" ہم آپ کی بیعت کرتے ۔ "" کہا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1783.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 113

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4632
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن قريشا، صالحوا النبي صلى الله عليه وسلم فيهم سهيل بن عمرو فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي ‏"‏ اكتب بسم الله الرحمن الرحيم ‏"‏ ‏.‏ قال سهيل أما باسم الله فما ندري ما بسم الله الرحمن الرحيم ولكن اكتب ما نعرف باسمك اللهم فقال ‏"‏ اكتب من محمد رسول الله ‏"‏ ‏.‏ قالوا لو علمنا أنك رسول الله لاتبعناك ولكن اكتب اسمك واسم أبيك ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اكتب من محمد بن عبد الله ‏"‏ ‏.‏ فاشترطوا على النبي صلى الله عليه وسلم أن من جاء منكم لم نرده عليكم ومن جاءكم منا رددتموه علينا فقالوا يا رسول الله أنكتب هذا قال ‏"‏ نعم إنه من ذهب منا إليهم فأبعده الله ومن جاءنا منهم سيجعل الله له فرجا ومخرجا ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کی ، ان میں سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : " لکھو : بسم الله الرحمن الرحيم سہیل کہنے لگے : جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے تو ہم بسم الله الرحمن الرحيم کو نہیں جانتے ، لیکن وہ لکھو جسے ہم جانتے ہیں : باسمك اللهم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لکھو : محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ۔ " وہ لوگ کہنے لگے : اگر ہم یقین جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے ، لیکن اپنا اور اپنے والد کا نام لکھو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لکھو : محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ۔ " ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شرط لگائی کہ آپ لوگوں میں سے ( ہمارے پاس ) آ جائے گا ہم اسے آپ لوگوں کو واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو آپ کے پاس آیا آپ اسے ہم کو واپس کر دیں گے ۔ ( صحابہ نے ) پوچھا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ لکھ دیں؟ فرمایا : " ہاں ، ہم میں سے جو شخص ان کے پاس چلا گیا تو اسے اللہ نے ہم سے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1784

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 114

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4633
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، ح وحدثنا ابن نمير، - وتقاربا في اللفظ - حدثنا أبي، حدثنا عبد العزيز بن سياه، حدثنا حبيب بن أبي ثابت، عن أبي وائل، قال قام سهل بن حنيف يوم صفين فقال أيها الناس اتهموا أنفسكم لقد كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية ولو نرى قتالا لقاتلنا وذلك في الصلح الذي كان بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين المشركين فجاء عمر بن الخطاب فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ألسنا على حق وهم على باطل قال ‏"‏ بلى ‏"‏ ‏.‏ قال أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال ‏"‏ بلى ‏"‏ ‏.‏ قال ففيم نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم فقال ‏"‏ يا ابن الخطاب إني رسول الله ولن يضيعني الله أبدا ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلق عمر فلم يصبر متغيظا فأتى أبا بكر فقال يا أبا بكر ألسنا على حق وهم على باطل قال بلى ‏.‏ قال أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال بلى ‏.‏ قال فعلام نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم فقال يا ابن الخطاب إنه رسول الله ولن يضيعه الله أبدا ‏.‏ قال فنزل القرآن على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالفتح فأرسل إلى عمر فأقرأه إياه فقال يا رسول الله أوفتح هو قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ فطابت نفسه ورجع ‏.‏
حبیب بن ابی ثابت نے ابووائل ( شقیق ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے روز کھڑے ہوئے اور ( لوگوں کو مخاطب کر کے ) کہا : لوگو! ( امیر المومنین پر الزام لگانے کے بجائے ) خود کو الزام دو ( صلح کو مسترد کر کے اللہ اور اس کے بتائے ہوئے راستے سے تم ہٹ رہے ہو ) ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور اگر ہم جنگ ( ہی کو ناگزیر ) دیکھتے تو جنگ کر گزرتے ۔ یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی ۔ ( اب تو مسلمانوں کے دو گروہوں کا معاملہ ہے ۔ ) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپ نے فرمایا : " کیوں نہیں! " عرض کی : کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہ جائیں گے؟ فرمایا : " کیوں نہیں! " عرض کی : تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر ( صلح ) کیوں کریں ( نیچے لگ کر کیوں صلح کریں؟ ) اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں ، ( اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں ) اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔ " کہا : عمر رضی اللہ عنہ غصے کے عالم میں چل پڑے اور صبر نہ کر سکے ۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ کہا : کیوں نہیں! کہا : کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر ( جیسی صلح وہ چاہتے ہیں انہیں ) کیوں دیں؟ اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا : ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں ، اللہ انہیں ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔ کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح ( کی خوشخبری ) کے ساتھ قرآن اترا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انہیں ( جو نازل ہوا تھا ) وہ پڑھوایا ۔ انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں ۔ " تو ( اس پر ) عمر رضی اللہ رنہ کا دل خوش ہو گیا اور وہ لوٹ آئے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1785.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 115

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4634
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء ومحمد بن عبد الله بن نمير قالا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش، عن شقيق، قال سمعت سهل بن حنيف، يقول بصفين أيها الناس اتهموا رأيكم والله لقد رأيتني يوم أبي جندل ولو أني أستطيع أن أرد أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم لرددته والله ما وضعنا سيوفنا على عواتقنا إلى أمر قط إلا أسهلن بنا إلى أمر نعرفه إلا أمركم هذا ‏.‏ لم يذكر ابن نمير إلى أمر قط ‏.‏
ابوکریب محمد بن علاء اور محمد بن عبداللہ بن نمیر دونوں نے کہا : ہمیں ابومعاویہ نے اعمش سے ، انہوں نے شقیق ( بن سلمہ ابو وائل ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے صفین میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : لوگو! اپنی رائے پر ( غلط ہونے کا ) الزام لگاؤ ۔ اللہ کی قسم! میں نے ابوجندل ( کے واقعے ) کے دن اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( صلح کے ) معاملے کو رد کر سکتا تو رد کر دیتا ۔ اللہ کی قسم! ہم نے کبھی کسی کام کے لیے اپنے کندھوں پر تلواریں نہیں رکھیں تھیں مگر ان تلواروں نے ہمارے لیے ایسے معاملے تک پہنچنے میں آسانی کر دی جس کو ہم جانتے تھے ، سوائے تمہارے موجودہ معاملے کے ۔ ابن نمیر نے " کبھی کسی معاملے کے لیے " کے الفاظ بیان نہیں کیے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1785.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 116

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4635
وحدثناه عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق، جميعا عن جرير، ح وحدثني أبو سعيد، الأشج حدثنا وكيع، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد ‏.‏ وفي حديثهما إلى أمر يفظعنا.‏
جریر اور وکیع دونوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، ان دونوں کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں : " ایسے کام کی طرف جو ہمیں مشکل میں مبتلا کر رہا تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1785.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 117

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4636
وحدثني إبراهيم بن سعيد الجوهري، حدثنا أبو أسامة، عن مالك بن مغول، عن أبي حصين، عن أبي وائل، قال سمعت سهل بن حنيف، بصفين يقول اتهموا رأيكم على دينكم فلقد رأيتني يوم أبي جندل ولو أستطيع أن أرد أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم - ما فتحنا منه في خصم إلا انفجر علينا منه خصم ‏.‏
ابوحصین نے ابووائل سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے صفین میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : اپنے دین کے مقابلے میں اپنی رائے پر الزام دھرو ۔ ابوجندل ( کے واقعے ) کے دن میں نے خود کو اس حالت میں دیکھا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو رد کر سکتا ( تو حاشا و کلا رد کر دیتا ۔ ) لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ ہم اس کے ایک کونے کو مضبوط نہیں کر پاتے کہ ہمارے سامنے اس کا دوسرا کونا کھل جاتا ہے ۔ ( کیونکہ یہ مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1785.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 118

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4637
وحدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا سعيد بن أبي، عروبة عن قتادة، أن أنس بن مالك، حدثهم قال لما نزلت ‏{‏ إنا فتحنا لك فتحا مبينا * ليغفر لك الله‏}‏ إلى قوله ‏{‏ فوزا عظيما‏}‏ مرجعه من الحديبية وهم يخالطهم الحزن والكآبة وقد نحر الهدى بالحديبية فقال ‏"‏ لقد أنزلت على آية هي أحب إلى من الدنيا جميعا ‏"‏ ‏.‏
سعید بن ابی عروبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث سنائی کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنائی ، کہا : جب آیت : ( إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّـهُ ۔ ۔ ۔ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿﴾ ) تک اتری ( تو یہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیبیہ سے واپسی کا موقع تھا اور لوگوں کے دلوں میں غم اور دکھ کی کیفیت طاری تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں قربانی کے اونٹ نحر کر دیے تھے تو ( اس موقع پر ) آپ نے فرمایا : " مجھ پر ایک ایسی آیت نازل کی گئی ہے جو مجھے پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1786.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 119

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4638
وحدثنا عاصم بن النضر التيمي، حدثنا معتمر، قال سمعت أبي، حدثنا قتادة، قال سمعت أنس بن مالك، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا همام، ح وحدثنا عبد بن حميد، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا شيبان، جميعا عن قتادة، عن أنس، نحو حديث ابن أبي عروبة ‏.‏
معتمر کے والد ( سلیمان ) ، ہمام اور شیبان سب نے قتادہ سے روایت کی ، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کی طرح روایت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1786.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 120

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4639
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، عن الوليد بن جميع، حدثنا أبو الطفيل حدثنا حذيفة بن اليمان، قال ما منعني أن أشهد، بدرا إلا أني خرجت أنا وأبي - حسيل - قال فأخذنا كفار قريش قالوا إنكم تريدون محمدا فقلنا ما نريده ما نريد إلا المدينة ‏.‏ فأخذوا منا عهد الله وميثاقه لننصرفن إلى المدينة ولا نقاتل معه فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه الخبر فقال ‏ "‏ انصرفا نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والس حسیل رضی اللہ عنہ ( جو یمان کے لقب سے معروف تھے ) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا : تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا : ان کے پاس جانا نہیں چاہتے ، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے ، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم دونوں لوٹ جاؤ ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1787

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 121

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4640
حدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن جرير، قال زهير حدثنا جرير، عن الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، قال كنا عند حذيفة فقال رجل لو أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتلت معه وأبليت فقال حذيفة أنت كنت تفعل ذلك لقد رأيتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الأحزاب وأخذتنا ريح شديدة وقر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ألا رجل يأتيني بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ‏"‏ ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ‏"‏ ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فسكتنا فلم يجبه منا أحد فقال ‏"‏ قم يا حذيفة فأتنا بخبر القوم ‏"‏ ‏.‏ فلم أجد بدا إذ دعاني باسمي أن أقوم قال ‏"‏ اذهب فأتني بخبر القوم ولا تذعرهم على ‏"‏ ‏.‏ فلما وليت من عنده جعلت كأنما أمشي في حمام حتى أتيتهم فرأيت أبا سفيان يصلي ظهره بالنار فوضعت سهما في كبد القوس فأردت أن أرميه فذكرت قول رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ولا تذعرهم على ‏"‏ ‏.‏ ولو رميته لأصبته فرجعت وأنا أمشي في مثل الحمام فلما أتيته فأخبرته بخبر القوم وفرغت قررت فألبسني رسول الله صلى الله عليه وسلم من فضل عباءة كانت عليه يصلي فيها فلم أزل نائما حتى أصبحت فلما أصبحت قال ‏"‏ قم يا نومان ‏"‏ ‏.‏
ابراہیم تیمی کے والد ( یزید بن شریک ) سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ، ایک آدمی نے کہا : اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کو پا لیتا تو آپ کی معیت میں جہاد کرتا اور خوب لڑتا ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تم ایسا کرتے؟ میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے ( اس ) قوم ( کے اندر ) کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے! " ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : " کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے! " ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : " ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے! " ہم خاموش رہے ، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا ، آپ نے فرمایا : " حذیفہ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان کی خبر لا کے دو ۔ " جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اُٹھنے کے سوا کئی چارہ نہ پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا ۔ " ( کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں ) جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں ، ( پسینے میں نہایا ہوا تھا ) یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا ، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے ، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا ، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ " انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا " ( کہ جنگ اور تیز ہو جائے ) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا ، میں لوٹا تو ( مجھے ایسے لگ رہا تھا ) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں ، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی ( ساری ) خبربتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( اپنی اس ) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ ( کے جسم اطہر ) پر تھی ، آپ اس میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں ( اس کو اوڈھ کر ) صبح تک سوتا رہا ، جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا : " اے خوب سونے والے! اُٹھ جاو

صحيح مسلم حدیث نمبر:1788

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 122

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4641
وحدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، وثابت، البناني عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أفرد يوم أحد في سبعة من الأنصار ورجلين من قريش فلما رهقوه قال ‏"‏ من يردهم عنا وله الجنة أو هو رفيقي في الجنة ‏"‏ ‏.‏ فتقدم رجل من الأنصار فقاتل حتى قتل ثم رهقوه أيضا فقال ‏"‏ من يردهم عنا وله الجنة أو هو رفيقي في الجنة ‏"‏ ‏.‏ فتقدم رجل من الأنصار فقاتل حتى قتل فلم يزل كذلك حتى قتل السبعة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لصاحبيه ‏"‏ ما أنصفنا أصحابنا ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، انصار کے سات اور قریش کے دو آدمیوں ( سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبیداللہ تیمی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ ( لشکر سے الگ کر کے ) تنہا کر دیے گئے ، جب انہوں نے آپ کو گھیر لیا تو آپ نے فرمایا : " ان کو ہم سے کون ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے ، یا ( فرمایا : ) وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا ۔ " تو انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس وقت تک لڑتا رہا ، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا ، انہوں نے پھر سے آپ کو گھیر لیا ، آپ نے فرمایا : " انہیں کون ہم سے دور ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے ، یا ( فرمایا : ) وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا ۔ " پھر انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا وہ لڑا حتی کہ شہید ہو گیا ، پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ وہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ( ان قریشی ) ساتھیوں سے فرمایا : " ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1789

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 123

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4642
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه، أنه سمع سهل بن سعد، يسأل عن جرح، رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد فقال جرح وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكسرت رباعيته وهشمت البيضة على رأسه فكانت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسل الدم وكان علي بن أبي طالب يسكب عليها بالمجن فلما رأت فاطمة أن الماء لا يزيد الدم إلا كثرة أخذت قطعة حصير فأحرقته حتى صار رمادا ثم ألصقته بالجرح فاستمسك الدم ‏.‏
ابوحازم کے بیٹے عبدالعزیز نے اپنے والد سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا ، ان سے جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے متعلق سوال کیا جا رہا تھا ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا تھا اور سامنے ( ثنایا کے ساتھ ) کا ایک دانت ( رباعی ) ٹوٹ گیا تھا اور خود سر مبارک پر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ( آپ کے چہرے سے ) خود دھو رہی تھیں اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ڈھال سے اس ( زخم ) پر پانی ڈال رہے تھے ، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون نکلنے میں اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا وہ راکھ ہو گیا ، پھر اس کو زخم پر لگا دیا تو خون رک گیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1790.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 124

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4643
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - يعني ابن عبد الرحمن القاري - عن أبي حازم، أنه سمع سهل بن سعد، وهو يسأل عن جرح، رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أم والله إني لأعرف من كان يغسل جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن كان يسكب الماء ‏.‏ وبماذا دووي جرحه ‏.‏ ثم ذكر نحو حديث عبد العزيز غير أنه زاد وجرح وجهه وقال مكان هشمت كسرت ‏.‏
یعقوب بن عبدالرحمان القاری نے ابوحازم سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا ، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کے متعلق سوال کیا جا رہا تھا ، انہوں نے کہا : سنو! اللہ کی قسم! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم کون دھو رہا تھا اور پانی کون ڈال رہا تھا اور آپ کے زخم پر کون سی دوائی لگائی گئی ، پھر عبدالعزیز کی حدیث کی طرح بیان کیا ، مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا : اور آپ کا چہرہ انور زخمی ہو گیا اور ۔ ۔ ( خود ) ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ ۔ کی جگہ " ٹوٹ گیا " کہا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1790.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 125

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4644
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، وابن، أبي عمر جميعا عن ابن عيينة، ح وحدثنا عمرو بن سواد العامري، أخبرنا عبد الله بن، وهب أخبرني عمرو بن الحارث، عن سعيد بن أبي هلال، ح وحدثني محمد بن سهل التميمي، حدثني ابن أبي مريم، حدثنا محمد، - يعني ابن مطرف - كلهم عن أبي حازم، عن سهل، بن سعد ‏.‏ بهذا الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ في حديث ابن أبي هلال أصيب وجهه ‏.‏ وفي حديث ابن مطرف جرح وجهه ‏.‏
ابن عیینہ ، سعید بن ابی ہلال اور محمد بن مطرف ، ان سب نے ابوحازم سے ، انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، ابن ابی ہلال کی حدیث میں ہے : " آپ کا چہرہ مبارک نشانہ بنایا گیا " اور ابن مطرف کی حدیث میں ہے : " آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1790.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 126

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4645
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كسرت رباعيته يوم أحد وشج في رأسه فجعل يسلت الدم عنه ويقول ‏"‏ كيف يفلح قوم شجوا نبيهم وكسروا رباعيته وهو يدعوهم إلى الله ‏"‏ ‏.‏ فأنزل الله عز وجل ‏{‏ ليس لك من الأمر شىء‏}‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ( ثنائیہ کے ساتھ والا ) رباعی دانت ٹوٹ گیا اور آپ کے سر اقدس میں زخم لگا ، آپ اپنے سر سے خون پونچھتے تھے اور فرماتے تھے : " وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے سر میں زخم لگایا اور اس کا رباعی کا دانت توڑ دیا ، اور وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا ۔ " اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : " اس معاملے میں آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ( کہ وہ اللہ ان کی طرف توجہ فرمائے یا ان کو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1791

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 127

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4646
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال كأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي نبيا من الأنبياء ضربه قومه وهو يمسح الدم عن وجهه ويقول ‏ "‏ رب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون ‏"‏ ‏.‏
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جیسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں ، آپ انبیاء میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا ، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور ( یہ ) فرما رہے تھے : " اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے ، وہ نہیں جانتے ( کہ وہ کیا کر رہے ہیں)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1792.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 128

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4647
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ومحمد بن بشر، عن الأعمش، بهذا الإسناد غير أنه قال فهو ينضح الدم عن جبينه ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں وکیع اور محمد بن بشر نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت بیان کی ، اس میں انہوں نے یہ کہا : تو وہ ( نبی علیہ السلام ) اپنی پیشانی سے خون پونچھتے جاتے تھے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1792.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 129

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4648
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اشتد غضب الله على قوم فعلوا هذا برسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ‏.‏ وهو حينئذ يشير إلى رباعيته وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اشتد غضب الله على رجل يقتله رسول الله في سبيل الله عز وجل ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے روایت ہے ، کہا : یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں ، انہوں نے کئی احادیث بیان کیں ، ان میں سے ایک یہ ہے : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس قوم پر اللہ کا غضب شدید ہو گیا جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا " آپ اس وقت اپنے رباعی دانت کی طرف اشارہ فرما رہے تھے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ اس شخص پر سخت غضب ناک ہوتا ہے جس کو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں ( جہاد کرتے ہوئے ) قتل کر دے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1793

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 130

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4649
وحدثنا عبد الله بن عمر بن محمد بن أبان الجعفي، حدثنا عبد الرحيم، - يعني ابن سليمان - عن زكرياء، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون الأودي، عن ابن مسعود، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي عند البيت وأبو جهل وأصحاب له جلوس وقد نحرت جزور بالأمس فقال أبو جهل أيكم يقوم إلى سلا جزور بني فلان فيأخذه فيضعه في كتفى محمد إذا سجد فانبعث أشقى القوم فأخذه فلما سجد النبي صلى الله عليه وسلم وضعه بين كتفيه قال فاستضحكوا وجعل بعضهم يميل على بعض وأنا قائم أنظر ‏.‏ لو كانت لي منعة طرحته عن ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم والنبي صلى الله عليه وسلم ساجد ما يرفع رأسه حتى انطلق إنسان فأخبر فاطمة فجاءت وهي جويرية فطرحته عنه ‏.‏ ثم أقبلت عليهم تشتمهم فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته رفع صوته ثم دعا عليهم وكان إذا دعا دعا ثلاثا ‏.‏ وإذا سأل سأل ثلاثا ثم قال ‏"‏ اللهم عليك بقريش ‏"‏ ‏.‏ ثلاث مرات فلما سمعوا صوته ذهب عنهم الضحك وخافوا دعوته ثم قال ‏"‏ اللهم عليك بأبي جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عقبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط ‏"‏ ‏.‏ وذكر السابع ولم أحفظه فوالذي بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق لقد رأيت الذين سمى صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ‏.‏ قال أبو إسحاق الوليد بن عقبة غلط في هذا الحديث ‏.‏
زکریا ( بن ابی زائدہ ) نے ابواسحاق سے ، انہوں نے عمرو بن میمون اودی سے ، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ، ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے ، اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح ہوئی تھی ۔ ابوجہل نے کہا : تم میں سے کون اٹھ کر بنی فلاں کے محلے سے اونٹنی کی بچے والی جھلی ( بچہ دانی ) لائے گا اور محمد سجدے میں جائیں تو اس کو ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ قوم کا سب سے بدبخت شخص ( عقبہ بن ابی معیط ) اٹھا اور اس کو لے آیا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے وہ جھلی آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا ، پھر وہ آپس میں خوب ہنسے اور ایک دورے پر گرنے لگے ۔ میں کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا ، کاش! مجھے کچھ بھی تحفظ حاصل ہوتا تو میں اس جھلی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اٹھا کر پھینک دیتا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے ۔ اپنا سر مبارک نہیں اٹھا رہے تھے ، حتی کہ ایک شخص نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی ، وہ آئیں ، حالانکہ وہ اس وقت کم سن بچی تھیں ، انہوں نے وہ جھلی اٹھا کر آپ سے دور پھینکی ۔ پھر وہ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور انہیں سخت سست کہا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کر لی تو آپ نے بآزاو بلند ان کے خلاف دعا کی ، آپ جب کوئی دعا کرتے تھے تو تین مرتبہ دہراتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے تھے ، پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا : "" اے اللہ! قریش پر گرفت فرما ۔ "" جب قریش نے آپ کی آواز سنی تو ان کی ہنسی جاتی رہی اور وہ آپ کی بددعا سے خوف زدہ ہو گئے ۔ آپ نے پھر بددعا فرمائی : اے اللہ! ابوجہل بن ہشام پر گرفت فرما اور عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عقبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن ابی معیط پر گرفت فرما ۔ "" ۔ ۔ ( ابواسحاق نے کہا : ) انہوں ( عمرو بن میمون ) نے ساتویں شخص کا نام بھی لیا تھا لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا ( بعد ازاں ابواسحاق کو ساتویں شخص عمارہ بن ولید کا نام یاد آ گیا تھا ، صحیح البخاری ، حدیث : 520 ) ۔ ۔ ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : ) اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! جن کا آپ نے نام لیا تھا میں نے بدر کے دن ان کو مقتول پڑے دیکھا ، پھر ان سب کو گھسیٹ کر کنویں ، بدر کے کنویں کی طرف لے جایا گیا اور انہیں اس میں ڈال دیا گیا ۔ ابواسحاق نے کہا : اس حدیث میں ولید بن عقبہ ( کا نام ) غلط ہے ۔ ( صحیح ولید بن عتبہ ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1794.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 131

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4650
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت أبا إسحاق، يحدث عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد وحوله ناس من قريش إذ جاء عقبة بن أبي معيط بسلا جزور فقذفه على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يرفع رأسه فجاءت فاطمة فأخذته عن ظهره ودعت على من صنع ذلك فقال ‏ "‏ اللهم عليك الملأ من قريش أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط وشيبة بن ربيعة وأمية بن خلف أو أبى بن خلف ‏"‏ ‏.‏ شعبة الشاك قال فلقد رأيتهم قتلوا يوم بدر فألقوا في بئر غير أن أمية أو أبيا تقطعت أوصاله فلم يلق في البئر ‏.‏
شعبہ نے کہا : میں نے ابو اسحاق سے سنا ، وہ عمرو بن میمون سے حدیث بیان کر رہے تھے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ( ایک بار ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور آپ کے گرد قریش کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح کی ہوئی اونٹنی کی بچے والی جھلی لے کر آیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پھینک دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( سجدے سے ) سر نہ اٹھایا ، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور اس جھلی کو آپ کی پشت سے اٹھایا اور جن لوگوں نے یہ حرکت کی تھی ان کو بددعا دی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کے بارے میں ) فرمایا : " اے اللہ! قریش کے اس گروہ پر گرفت فرما ، ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف یا اُبی بن خلف ۔ ۔ شعبہ کو شک ہے ۔ ۔ پر گرفت فرما! " ( حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ) کہا : میں نے ان کو دیکھا ، وہ جنگ بدر کے دن قتل کیے گئے اور ان کو کنویں میں ڈال دیا گیا ، البتہ امیہ بن خلف یا اُبی بن خلف کے جوڑ جوڑ کٹ چکے تھے ، اسے ( گھسیٹ کر ) کنویں میں نہیں ڈالا جا سکا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1794.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 132

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4651
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا جعفر بن عون، أخبرنا سفيان، عن أبي، إسحاق بهذا الإسناد نحوه وزاد وكان يستحب ثلاثا يقول ‏ "‏ اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش ‏"‏ ‏.‏ ثلاثا وذكر فيهم الوليد بن عتبة وأمية بن خلف ولم يشك ‏.‏ قال أبو إسحاق ونسيت السابع ‏.‏
سفیان نے ابواسحاق سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ تین بار ( دعا کرنا ) پسند فرماتے تھے ، اور آپ نے تین بار فرمایا : " اے اللہ! قریش پر گرفت فرما ، اے اللہ! قریش پر گرف فرما ، اے اللہ! قریش پر گرفت فرمااور اس میں ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف کا نام لیا ( ابی بن خلف اور امیہ بن خلف کے ناموں میں ) شک نہیں کیا ، ابواسحاق نے کہا : ساتواں شخص میں بھول گیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1794.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 133

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4652
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا زهير، حدثنا أبو إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال استقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت فدعا على ستة نفر من قريش ‏.‏ فيهم أبو جهل وأمية بن خلف وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط فأقسم بالله لقد رأيتهم صرعى على بدر ‏.‏ قد غيرتهم الشمس وكان يوما حارا ‏.‏
زہیر نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ابواسحاق نے عمرو بن میمون سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے قریش کے چھ آدمیوں کے خلاف بد دعا کی ، ان میں ابوجہل ، امیہ بھی خلف ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط تھے ۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں : میں نے ان کو بدر ( کے میدان ) میں اوندھے پڑے ہوئے دیکھا ، دھوپ نے ان ( کے لاشوں ) کو متغیر کر دیا تھا اور وہ ایک گرم دن تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1794.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 134

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4653
وحدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن سرح وحرملة بن يحيى وعمرو بن سواد العامري - وألفاظهم متقاربة - قالوا حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني عروة بن الزبير، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم حدثته أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد فقال ‏"‏ لقد لقيت من قومك وكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة إذ عرضت نفسي على ابن عبد ياليل بن عبد كلال فلم يجبني إلى ما أردت فانطلقت وأنا مهموم على وجهي فلم أستفق إلا بقرن الثعالب فرفعت رأسي فإذا أنا بسحابة قد أظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال إن الله عز وجل قد سمع قول قومك لك وما ردوا عليك وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم قال فناداني ملك الجبال وسلم على ‏.‏ ثم قال يا محمد إن الله قد سمع قول قومك لك وأنا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتأمرني بأمرك فما شئت إن شئت أن أطبق عليهم الأخشبين ‏"‏ ‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به شيئا ‏"‏ ‏
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اے اللہ کے رسول! کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی آیا جو اُھد کے دن سے زیادہ شدید ہو؟ آپ نے فرمایا : " مجھے تمہاری قوم سے بہت تکلیف پہنچی ، جب میں خود کو ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے لے گیا ( یعنی اس کو دعوتِ اسلام دی ) لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے میری بات نہ مانی ، میں غمزدہ ہو کر چل پڑا اور قرن ثعالب پر پہنچ کر ہی میری حالت بہتر ہوئی ، میں نے سر اٹھایا تو مجھے ایک بادل نظر آیا ، اس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا ، میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے ، انہوں نے مجھے آواز دے کر کہا : اللہ عزوجل نے جو کچھ آپ نے اپنی قوم سے کہا وہ اور انہوں نے جو آپ کو جواب دیا وہ سب سن لیا ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ان کفار کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا ، پھر کہا : اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا ، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں ، اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو ا ( ٹھا کر ) ان کے اوپر رکھ دوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1795

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 135

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4654
حدثنا يحيى بن يحيى، وقتيبة بن سعيد، كلاهما عن أبي عوانة، قال يحيى أخبرنا أبو عوانة، عن الأسود بن قيس، عن جندب بن سفيان، قال دميت إصبع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض تلك المشاهد فقال ‏ "‏ هل أنت إلا إصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت ‏"‏ ‏.‏
ابوعوانہ نے اسود بن قیس سے ، انہوں نے حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ان جنگوں میں سے ایک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی خون آلود ہو گئی تو آپ نے فرمایا : "" تو ایک انگلی ہی ہے جو زخمی ہوئی اور تو نے جو تکلیف اٹھائی وہ اللہ کی راہ میں ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1796.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 136

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4655
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن ابن عيينة، عن الأسود بن قيس، بهذا الإسناد وقال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار فنكبت إصبعه ‏.‏
ابن عیینہ نے اسود بن قیس سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر میں تھے اور ( وہاں ) آپ کی انگلی زخمی ہو گئی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1796.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 137

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4656
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سفيان، عن الأسود بن قيس، أنه سمع جندبا، يقول أبطأ جبريل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال المشركون قد ودع محمد فأنزل الله عز وجل ‏{‏ والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏}‏
سفیان بن اسود بن قیس سے روایت کی کہ انہوں نے جندب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر ہو گئی ، مشرکین کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہہ دیا گیا ۔ تو اللہ عزوجل نے یہ نازل فرمایا : " قسم ہے دھوپ چڑھتے وقت کی ، اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے! ( اے نبی! ) آپ نے رب نے نہ آپ کو رخصت کیا اور نہ بیزار ہوا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1797.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 138

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4657
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، - واللفظ لابن رافع - قال إسحاق أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا زهير، عن الأسود بن قيس، قال سمعت جندب بن سفيان، يقول اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يقم ليلتين أو ثلاثا فجاءته امرأة فقالت يا محمد إني لأرجو أن يكون شيطانك قد تركك لم أره قربك منذ ليلتين أو ثلاث قال فأنزل الله عز وجل ‏{‏ والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏}‏
زہیر نے اسود بن قیس سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور دو یا تین راتیں اٹھ نہ سکے تو ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : اے محمد! مجھے لگتا ہے کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا ہے ، میں نے دو یا تین راتوں سے اسے آپ کے قریب آتے نہیں دیکھا ۔ کہا : اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : " قسم ہے دھوپ چڑھتے وقت کی اور رات کی جب وہ چھا جائے! ( اے نبی! ) آپ کے رب نے نہ آپ کو رخصت کیا اور نہ وہ بیزار ہوا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1797.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 139

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4658
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار قالوا حدثنا محمد، بن جعفر عن شعبة، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا الملائي، حدثنا سفيان، كلاهما عن الأسود بن قيس، بهذا الإسناد نحو حديثهما ‏.‏
شعبہ اور سفیان ( ثوری ) نے اسود بن قیس سے اسی سند کے ساتھ ان دونوں کی حدیث کی طرح بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1797.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 140

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4659
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، ومحمد بن رافع، وعبد بن حميد، - واللفظ لابن رافع - قال ابن رافع حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، أن أسامة بن زيد، أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم ركب حمارا عليه إكاف تحته قطيفة فدكية وأردف وراءه أسامة وهو يعود سعد بن عبادة في بني الحارث بن الخزرج وذاك قبل وقعة بدر حتى مر بمجلس فيه أخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الأوثان واليهود فيهم عبد الله بن أبى وفي المجلس عبد الله بن رواحة فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة خمر عبد الله بن أبى أنفه بردائه ثم قال لا تغبروا علينا ‏.‏ فسلم عليهم النبي صلى الله عليه وسلم ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله وقرأ عليهم القرآن فقال عبد الله بن أبى أيها المرء لا أحسن من هذا إن كان ما تقول حقا فلا تؤذنا في مجالسنا وارجع إلى رحلك فمن جاءك منا فاقصص عليه ‏.‏ فقال عبد الله بن رواحة اغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك ‏.‏ قال فاستب المسلمون والمشركون واليهود حتى هموا أن يتواثبوا فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم ثم ركب دابته حتى دخل على سعد بن عبادة فقال ‏ "‏ أى سعد ألم تسمع إلى ما قال أبو حباب - يريد عبد الله بن أبى - قال كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ قال اعف عنه يا رسول الله واصفح فوالله لقد أعطاك الله الذي أعطاك ولقد اصطلح أهل هذه البحيرة أن يتوجوه فيعصبوه بالعصابة فلما رد الله ذلك بالحق الذي أعطاكه شرق بذلك فذلك فعل به ما رأيت ‏.‏ فعفا عنه النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
معمر نے زہری سے ، انہوں نے عروہ ( بن زبیر ) سے خبر دی کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ ( ایک بار ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھے پر سواری فرمائی ، اس پر پالان تھا اور اس کے نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک چادر تھی ، آپ نے اسامہ ( بن زید رضی اللہ عنہ ) کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا ، آپ قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنا چاہتے تھے ۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے ، آپ راستے میں ایک مجلس سے گزرے جہاں مسلمان ، بت پرست اور مشرک اور یہودی ملے جلے موجود تھے ، ان میں عبداللہ بن اُبی بھی تھا اور مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ جب سواری کی گرد مجلس کی طرف اٹھی تو عبداللہ بن اُبی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا : ہم پر گرد نہ اڑائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو سلام کیا ، رگ گئے ، پھر آپ سواری سے اترے ، ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور ان پر قرآن مجید کی تلاوت کی ۔ عبداللہ بن اُبی نے کہا : اے شخص! اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہو گی کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اگر وہ سچ ہے تو بھی ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں اور اپنے گھر لوٹ جائیں اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے اس کو سنائیں ۔ ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ہماری مجلس میں تشریف لائیں ۔ ہم اس کو پسند کرتے ہیں ، پھر مسلمان ، یہود اور بت پرست ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑنے پر تیار ہو گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلسل دھیما کرتے رہے ، پھر آپ اپنی سواری پر بیٹھے ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور فرمایا : " سعد! آپ نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے کیا کہا ہے؟ آپ کی مراد عبداللہ بن اُبی سے تھی ، اس نے اس ، اس طرح کہا ہے ۔ ( حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ) کہا : یا رسول اللہ! اس کو معاف کر دیجئے اور اس سے درگزر کیجیے ۔ بےشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو عطا کیا ہے سو کیا ہے ۔ اس نشیبی نخلستانی علاقے میں بسنے والوں نے مل جل کر یہ طے کر لیا تھا کہ اس کو ( بادشاہت کا ) تاج پہنائیں گے اور اس کے سر پر ( ریاست کا ) عمامہ باندھیں گے ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ، اس حق کے ذریعے جو آپ کو عطا فرمایا ہے ، اس ( فیصلے ) کو رد کر دیا تو اس بنا پر اس کو حلق میں پھندا لگ گیا اور آپ نے جو دیکھا ہے اس نے اسی بنا پر کیا ہے ۔ سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1798.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 141

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4660
حدثني محمد بن رافع، حدثنا حجين، - يعني ابن المثنى - حدثنا ليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، في هذا الإسناد بمثله وزاد وذلك قبل أن يسلم عبد الله ‏.‏
عقیل نے ابن شہاب ( زہری ) سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی اور یہ اضافہ کیا : یہ عبداللہ ( بن ابی ) کے ( ظاہری طور پر ) اسلام ( کا اعلان کرنے ) سے پہلے کا واقعہ ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1798.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 142

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4661
حدثنا محمد بن عبد الأعلى القيسي، حدثنا المعتمر، عن أبيه، عن أنس بن مالك، قال قيل للنبي صلى الله عليه وسلم لو أتيت عبد الله بن أبى قال فانطلق إليه وركب حمارا وانطلق المسلمون وهي أرض سبخة فلما أتاه النبي صلى الله عليه وسلم قال إليك عني فوالله لقد آذاني نتن حمارك ‏.‏ قال فقال رجل من الأنصار والله لحمار رسول الله صلى الله عليه وسلم أطيب ريحا منك - قال - فغضب لعبد الله رجل من قومه - قال - فغضب لكل واحد منهما أصحابه - قال - فكان بينهم ضرب بالجريد وبالأيدي وبالنعال - قال - فبلغنا أنها نزلت فيهم ‏{‏ وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏}‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی : ( کیا ہی اچھا ہو ) اگر آپ ( اسلام کی دعوت دینے کے لیے ) عبداللہ بن اُبی کے پاس بھی تشریف لے جائیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سواری فرما کر اس کی طرف گئے اور مسلمان بھی گئے ، وہ شوریلی زمین تھی ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا : مجھ سے دور رہیں ، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بو سے مجھے اذیت ہو رہی ہے ۔ انصار میں سے ایک شخص نے کہا : اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تم سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس پر عبداللہ بن اُبی کی قوم میں سے ایک شخص اس کی حمایت میں ، غصے میں آ گیا ۔ کہا : دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھی غصے میں آ گئے ۔ کہا : تو ان میں ہاتھوں ، چھیڑیوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی ہونے لگی ، پھر ہمیں یہ بات پہنچی کہ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : " اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ

صحيح مسلم حدیث نمبر:1799

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 143

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4662
حدثنا علي بن حجر السعدي، أخبرنا إسماعيل، - يعني ابن علية - حدثنا سليمان، التيمي حدثنا أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من ينظر لنا ما صنع أبو جهل ‏"‏ ‏.‏ فانطلق ابن مسعود فوجده قد ضربه ابنا عفراء حتى برك - قال - فأخذ بلحيته فقال آنت أبو جهل فقال وهل فوق رجل قتلتموه - أو قال - قتله قومه قال وقال أبو مجلز قال أبو جهل فلو غير أكار قتلني ‏.‏
اسماعیل ابن علیہ نے کہا : ہمیں سلیمان تیمی نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" ہماری خاطر کون جا کر دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا بنا؟ "" اس پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ چلے گئے ، انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دوبیٹے اس کو تلواروں کا نشانہ بنا چکے ہیں اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑ کر کہا : تو ابوجہل ہے؟ ابوجہل نے کہا : کیا اس سے بڑے کسی شخص کو بھی تم نے قتل کیا ہے؟ ۔ ۔ یا کہا ۔ ۔ اس کی قوم نے قتل کیا ہے؟ ( سلیمان تیمی نے ) کہا : ابومجلز نے کہا : ابوجہل نے یہ بھی کہا تھا : کاش! مجھے کسانوں کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1800.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 144

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4663
حدثنا حامد بن عمر البكراوي، حدثنا معتمر، قال سمعت أبي يقول، حدثنا أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من يعلم لي ما فعل أبو جهل ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث ابن علية وقول أبي مجلز كما ذكره إسماعيل ‏.‏
ہمیں معتمر نے کہا : میں نے اپنے والد ( سلیمان تیمی ) سے سنا ، وہ کہ رہے تھے : ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میرے لیے کون معلوم کرے گا کہ ابوجہل کا کیا ہوا؟ آگے ابن علیہ کی حدیث اور ابومجلز کے قول کے مانند ہے ، جس طرح اسماعیل نے بیان کیا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1800.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 145

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4664
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، وعبد الله بن محمد بن عبد الرحمن بن المسور، الزهري كلاهما عن ابن عيينة، - واللفظ للزهري - حدثنا سفيان، عن عمرو، سمعت جابرا، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ فقال محمد بن مسلمة يا رسول الله أتحب أن أقتله قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال ائذن لي فلأقل قال ‏"‏ قل ‏"‏ ‏.‏ فأتاه فقال له وذكر ما بينهما وقال إن هذا الرجل قد أراد صدقة وقد عنانا ‏.‏ فلما سمعه قال وأيضا والله لتملنه ‏.‏ قال إنا قد اتبعناه الآن ونكره أن ندعه حتى ننظر إلى أى شىء يصير أمره - قال - وقد أردت أن تسلفني سلفا قال فما ترهنني قال ما تريد ‏.‏ قال ترهنني نساءكم قال أنت أجمل العرب أنرهنك نساءنا قال له ترهنوني أولادكم ‏.‏ قال يسب ابن أحدنا فيقال رهن في وسقين من تمر ‏.‏ ولكن نرهنك اللأمة - يعني السلاح - قال فنعم ‏.‏ وواعده أن يأتيه بالحارث وأبي عبس بن جبر وعباد بن بشر قال فجاءوا فدعوه ليلا فنزل إليهم قال سفيان قال غير عمرو قالت له امرأته إني لأسمع صوتا كأنه صوت دم قال إنما هذا محمد بن مسلمة ورضيعه وأبو نائلة إن الكريم لو دعي إلى طعنة ليلا لأجاب ‏.‏ قال محمد إني إذا جاء فسوف أمد يدي إلى رأسه فإذا استمكنت منه فدونكم قال فلما نزل نزل وهو متوشح فقالوا نجد منك ريح الطيب قال نعم تحتي فلانة هي أعطر نساء العرب ‏.‏ قال فتأذن لي أن أشم منه قال نعم فشم ‏.‏ فتناول فشم ثم قال أتأذن لي أن أعود قال فاستمكن من رأسه ثم قال دونكم ‏.‏ قال فقتلوه ‏.‏
ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کعب بن اشرف کی ذمہ داری کون لے گا ، اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے ۔ " محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا : " ہاں ۔ " انہوں نے عرض کی : مجھے اجازت دیجئے کہ میں ( یہ کام کرتے ہوئے ) کوئی بات کہہ لوں ۔ آپ نے فرمایا : " کہہ لینا ۔ " چنانچہ وہ اس کے پاس آئے ، بات کی اور باہمی تعلقات کا تذکرہ کیا اور کہا : یہ آدمی صدقہ ( لینا ) چاہتا ہے اور ہمیں تکلیف میں ڈال دیا ہے ۔ جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگا : اللہ کی قسم! تم اور بھی اکتاؤ گے ۔ انہوں نے کہا : اب تو ہم اس کے پیروکار بن چکے ہیں اور ( ابھی ) اسے چھوڑنا نہیں چاہتے یہاں تک کہ دیکھ لیں کہ اس کے معاملے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ کہا : میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے کچھ ادھار دو ۔ اس نے کہا : تم میرے پاس گروی میں کیا رکھو گے؟ انہوں نے جواب دیا : تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا : اپنی عورتوں کو میرے پاس گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا : تم عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہو ، کیا ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس گروی رکھیں؟ اس نے ان سے کہا : تم اپنے بچے میرے ہاں گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا : ہم میں سے کسی کے بیٹے کو گالی دی جائے گی تو کہا جائے گا : وہ کھجور کے دو وسق کے عوض گردی رکھا گیا تھا ، البتہ ہم تمہارے پاس زرہ یعنی ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں ۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے ۔ انہوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ حارث ، ابوعبس بن جبر اور عباد بن بشر کو لے کر اس کے پاس آئیں گے ۔ کہا : وہ آئے اور رات کے وقت اسے آواز دی تو وہ اتر کر ان کے پاس آیا ۔ سفیان نے کہا : عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے کہا : اس کی بیوی اس سے کہنے لگی : میں ایسی آواز سن رہی ہوں جیسے وہ خون ( کے طلبگار ) کی آواز ہو ۔ اس نے کہا : یہ تو محمد بن مسلمہ اور اس کا دودھ شریک بھائی اور ابونائلہ ہیں اور کریم انسان کو رات کے وقت بھی کسی زخم ( کے مداوے ) کی خاطر بلایا جائے تو وہ آتا ہے ۔ محمد ( بن مسلمہ ) نے ( اپنے ساتھیوں سے ) کہا : میں ، جب وہ آئے گا ، اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھاؤں گا ، جب میں اسے خوب اچھی طرح جکڑ لوں تو وہ تمہارے بس میں ہو گا ( تم اپنا کام کر گزرنا ۔ ) کہا : جب وہ نیچے اترا تو اس طرح اترا کہ اس نے پیٹی ( چادر بائیں کندھے پر ڈال کر اس کا سر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر سینے پر دونوں سروں سے ) باندھی ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا : ہمیں آپ سے عطر کی خوشبو آ رہی ہے ۔ اس نے کہا : ہاں ، میرے نکاح میں فلاں عورت ہے ، وہ عرب کی سب عورتوں سے زیادہ معطر رہنے والی ہے ۔ انہوں نے کہا : کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اس ( خوشبو ) کو سونگھ لوں؟ اس نے کہا : ہاں ، سونگھ لو ۔ تو انہوں نے ( سر کو ) پکڑ کر سونگھا ۔ پھر کہا : کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اسے دوبارہ سونگھ لوں؟ کہا : کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اسے دوبارہ سونگھ لوں؟ کہا : تو انہوں نے اس کے سر کو قابو کر لیا ، پھر کہا : تمہارے بس میں ہے ۔ کہا : تو انہوں نے اسے قتل کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1801

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 146

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4665
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل، - يعني ابن علية - عن عبد العزيز، بن صهيب عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا خيبر قال فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله صلى الله عليه وسلم وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله صلى الله عليه وسلم في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم وإني لأرى بياض فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم فلما دخل القرية قال ‏ "‏ الله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين ‏"‏ ‏.‏ قالها ثلاث مرار قال وقد خرج القوم إلى أعمالهم فقالوا محمد - قال عبد العزيز وقال بعض أصحابنا - والخميس قال وأصبناها عنوة ‏.‏
عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی جنگ لڑی ، ہم نے وہاں صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی ، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے اور میں سواری پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے تنگ راستوں میں اپنی سواری کو دوڑایا ، میرا گھٹنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو چھور رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے کپڑا ہٹ گیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا ، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا : " اللہ اکبر! خیبر تباہ ہوا ، ہم جب کسی قوم کے گھروں کے سامنے اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں ( آنے سے پہلے ) ڈرایا گیا تھا ۔ " آپ نے تین بار یہی فرمایا ۔ کہا : لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل چکے تھے تو انہوں نے کہا : ( یہ ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، عبدالعزیز نے کہا : ہمارے بعض ساتھیوں نے کہا : اور لشکر ہے ۔ کہا : ہم نے اسے بزور شمشیر حاصل کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1365.07

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 147

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4666
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أنس، قال كنت ردف أبي طلحة يوم خيبر وقدمي تمس قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فأتيناهم حين بزغت الشمس وقد أخرجوا مواشيهم وخرجوا بفئوسهم ومكاتلهم ومرورهم فقالوا محمد والخميس ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين ‏"‏ ‏.‏ قال فهزمهم الله عز وجل ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : خیبر کے دن میں سواری پر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا اور میرا پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چھو رہا تھا ، کہا : ہم اس وقت ان کے پاس پہنچے جب سورج چمک رہا تھا ، وہ لوگ اپنے مویشی نکال چکے تھے اور کلہاڑیاں ، ٹوکریاں اور بیلچے لے کر ( خود بھی ) نکل چکے تھے ۔ تو انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور لشکر ہے ۔ کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خیبر اجڑ گیا ، جب ہم کسی قوم کے گھروں کے سامنے اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں ڈرایا جا چکا تھا ۔ " کہا : تو اللہ عزوجل نے انہیں شکست دی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1365.08

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 148

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4667
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وإسحاق بن منصور، قالا أخبرنا النضر بن شميل، أخبرنا شعبة، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال لما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر قال ‏ "‏ إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين ‏"‏ ‏.‏
قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر آئے تو آپ نے فرمایا : " جب ہم کسی قوم کے گھروں کے آگے اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1365.09

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 149

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4668
حدثنا قتيبة بن سعيد، ومحمد بن عباد، - واللفظ لابن عباد - قالا حدثنا حاتم، - وهو ابن إسماعيل - عن يزيد بن أبي عبيد، مولى سلمة بن الأكوع عن سلمة بن الأكوع، قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خيبر فتسيرنا ليلا فقال رجل من القوم لعامر بن الأكوع ألا تسمعنا من هنيهاتك وكان عامر رجلا شاعرا فنزل يحدو بالقوم يقول اللهم لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما اقتفينا وثبت الأقدام إن لاقينا وألقين سكينة علينا إنا إذا صيح بنا أتينا وبالصياح عولوا علينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من هذا السائق ‏"‏ ‏.‏ قالوا عامر ‏.‏ قال ‏"‏ يرحمه الله ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل من القوم وجبت يا رسول الله لولا أمتعتنا به ‏.‏ قال فأتينا خيبر فحصرناهم حتى أصابتنا مخمصة شديدة ثم قال ‏"‏ إن الله فتحها عليكم ‏"‏ ‏.‏ قال فلما أمسى الناس مساء اليوم الذي فتحت عليهم أوقدوا نيرانا كثيرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما هذه النيران على أى شىء توقدون ‏"‏ ‏.‏ فقالوا على لحم ‏.‏ قال ‏"‏ أى لحم ‏"‏ ‏.‏ قالوا لحم حمر الإنسية ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أهريقوها واكسروها ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل أو يهريقوها ويغسلوها فقال ‏"‏ أو ذاك ‏"‏ ‏.‏ قال فلما تصاف القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به ساق يهودي ليضربه ويرجع ذباب سيفه فأصاب ركبة عامر فمات منه قال فلما قفلوا قال سلمة وهو آخذ بيدي قال فلما رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم ساكتا قال ‏"‏ ما لك ‏"‏ ‏.‏ قلت له فداك أبي وأمي زعموا أن عامرا حبط عمله قال ‏"‏ من قاله ‏"‏ ‏.‏ قلت فلان وفلان وأسيد بن حضير الأنصاري فقال ‏"‏ كذب من قاله إن له لأجرين ‏"‏ ‏.‏ وجمع بين إصبعيه ‏"‏ إنه لجاهد مجاهد قل عربي مشى بها مثله ‏"‏ ‏.‏ وخالف قتيبة محمدا في الحديث في حرفين وفي رواية ابن عباد وألق سكينة علينا ‏.‏
قتیبہ بن سعید اور محمد بن عباد نے ۔ ۔ الفاظ ابن عباد کے ہیں ۔ ۔ ہمیں حدیث بیان کی ، ان دونوں نے کہا : ہمیں حاتم بن اسماعیل نے سلمہ بن اکوع کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے رات کے وقت سفر کیا ، لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا تم ہمیں اپنے نادر جنگی اشعار سے نہیں سناؤ گے؟ اور عامر رضی اللہ عنہ شاعر آدمی تھے ، وہ اتر کر لوگوں کے ( اونٹوں ) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے ، وہ کہہ رہے تھے : "" اے اللہ! اگر تو ( فضل و کرم کرنے والا ) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے ، ہم تیرے نام پر قربان ، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما ۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے ، ہمیں آواز دے کر ان ( آواز دینے والے ) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ( اور ہم اس پر پورے اترے ۔ ) "" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : "" یہ ( حدی خوانی کر کے ) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟ "" لوگوں نے کہا : عامر ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ سے اس کی محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے ) فرمایا : "" اللہ اس پر رحم کرے! "" لوگوں میں سے ایک آدمی ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) نے کہا : ( اس کے لیے شہادت ) واجب ہو گئی ، اے اللہ کے رسول! آپ نے ( اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر ) ہمیں اس ( کی صحبت ) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ ( سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ہم خیبر پہنچے تو ہم نے ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ ہمیں ( شدید بھوک کے ) مخمصے نے آ لیا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بلاشبہ اللہ نے اسے ان ( جہاد کرنے والے ) لوگوں کے لیے فتح کر دیا ہے ۔ "" جب لوگوں نے اس دن کی شام کی جب انہیں فتح عطا کی گئی تھی تو انہوں نے بہت سی ( جگہوں پر ) آگ جلائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : "" یہ آگ کیسی ہے اور یہ لوگ کس چیز ( کو پکانے ) کے لیے اسے جلا رہے ہیں؟ "" انہوں نے جواب دیا : گوشت ( کو پکانے ) کے لیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : "" کون سا گوشت؟ "" انہوں نے جواب دیا : پالتو گدھوں کا گوشت ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اسے ( پانی سمیت ) بہا دو اور ان ( برتنوں ) کو توڑ دو ۔ "" اس پر ایک آدمی نے کہا : یا اسے بہا دیں اور برتن دھو لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" یا ایسے کر لو ۔ "" کہا : جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ، انہوں نے مارنے کے لیے اس ( تلوار ) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے ۔ جب لوگ واپس ہوئے ، سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اور اس وقت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ، کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاموش دیکھا تو آپ نے پوچھا : "" تمہیں کیا ہوا ہے؟ "" میں نے آپ سے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہو گیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : "" کس نے کہا ہے؟ "" میں نے کہا : فلاں ، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے ۔ تو آپ نے فرمایا : "" جس نے بھی یہ کہا ، غلط کہا ہے ، اس کے لیے تو یقینا دو اجر ہیں ۔ "" آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کیا ۔ "" وہ تو خود جم کر جہاد کرنے والے مجاہد تھے ، کم ہی کوئی عربی ہو گا جو اس راستے پر ان کی طرح چلا ہو گا ۔ "" قتیبہ نے حدیث کے دو حرفوں ( القين کے آخری دو حرفوں ی اور ن ) میں محمد ( بن عباد ) کی مخالفت کی ہے اور ( محمد ) بن عباد کی روایت میں ( القين کے بجائے ) الق ( ضرور بالضرور کی تاکید کے بغیر محض ) "" نازل کر "" کے الفاظ ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1802.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 150

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4669
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني عبد الرحمن، - ونسبه غير ابن وهب فقال ابن عبد الله بن كعب بن مالك - أن سلمة، بن الأكوع قال لما كان يوم خيبر قاتل أخي قتالا شديدا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فارتد عليه سيفه فقتله فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك وشكوا فيه رجل مات في سلاحه ‏.‏ وشكوا في بعض أمره ‏.‏ قال سلمة فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر فقلت يا رسول الله ائذن لي أن أرجز لك ‏.‏ فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال عمر بن الخطاب أعلم ما تقول قال فقلت والله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صدقت ‏"‏ ‏.‏ وأنزلن سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا والمشركون قد بغوا علينا قال فلما قضيت رجزي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من قال هذا ‏"‏ ‏.‏ قلت قاله أخي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يرحمه الله ‏"‏ ‏.‏ قال فقلت يا رسول الله إن ناسا ليهابون الصلاة عليه يقولون رجل مات بسلاحه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مات جاهدا مجاهدا ‏"‏ ‏.‏ قال ابن شهاب ثم سألت ابنا لسلمة بن الأكوع فحدثني عن أبيه مثل ذلك غير أنه قال - حين قلت إن ناسا يهابون الصلاة عليه - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كذبوا مات جاهدا مجاهدا فله أجره مرتين ‏"‏ ‏.‏ وأشار بإصبعيه ‏.‏
ابوطاہر نے مجھے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ابن وہب نے خبر دی ، کہا : مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ، کہا : مجھے عبدالرحمان نے خبر دی ۔ ۔ ابن وہب کے علاوہ دوسرے راوی نے ان کا نسب بیان کیا تو ( عبدالرحمان ) بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہا ۔ ۔ کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا : جب خیبر کا دن تھا ، میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خوب جنگ لڑی ، ( اسی اثنا میں ) ان کی تلوار پلٹ کر انہی کو جا لگی اور انہیں شہید کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس حوالے سے کچھ باتیں کہیں اور اس معاملے میں شک ( کا اظہار کیا ) کہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے ۔ انہوں نے ان کے معاملے کے بعض پہلوؤں میں شک کیا ۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے آگے رجزیہ اشعار پڑھوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : میں جانتا ہوں جو تم کہنے جا رہے ہو ۔ کہا : تو میں نے ( یہ رجزیہ اشعار ) پڑھے : "" اللہ کی قسم! اگر اللہ ( کا کرم ) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے ۔ "" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم نے سچ کہا ۔ "" "" ہم پر بہت سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم مضبوط کر دے ، مشرکوں نے یقینا ہم پر سخت زیادتی کی ۔ "" کہا : جب میں نے اپنے رجزیہ اشعار ختم کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : "" یہ ( اشعار ) کس نے کہے؟ "" میں نے جواب دیا : میرے بھائی نے کہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اللہ ان پر رحم کرے! "" کہا : تو میں نے کہا : اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے ڈر رہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے : وہ آدمی اپنے ہی اسلحے سے فوت ہوا ہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوا ہے ۔ "" ابن شہاب نے کہا : پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے سوال کیا تو انہوں نے مجھے اپنے والد سے اسی کے مانند حدیث بیان کی ، مگر انہوں نے ( حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ دہراتے ہوئے ) کہا : جب میں نے کہا : کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرنے سے ڈرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" ان لوگوں نے غلط کہا ، وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوئے ، ان کے لیے دہرا اجر ہے ۔ "" اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1802.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 151

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4670
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الأحزاب ينقل معنا التراب ولقد وارى التراب بياض بطنه وهو يقول ‏"‏ والله لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فأنزلن سكينة علينا إن الألى قد أبوا علينا ‏"‏ ‏.‏ قال وربما قال ‏"‏ إن الملا قد أبوا علينا إذا أرادوا فتنة أبينا ‏"‏ ‏.‏ ويرفع بها صوته ‏.‏
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے ابواسحاق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : احزاب کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مٹی اٹھا کر پھینک رہے تھے ، ( اس ) مٹی نے بطن مبارک کی سفیدی کو چھپا لیا تھا اور آپ فرما رہے تھے : "" اللہ کی قسم! اگر تیرا کرم نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ صدقہ کرتے ، نہ نماز پڑھتے ۔ ہم پر ضرور بالضرور سکینت نازل فرما ۔ ان لوگوں نے ہم پر ظؒم کیا ہے ۔ "" کہا : بسا اوقات آپ فرماتے : "" ان سرداروں نے ہم پر ( اپنا ظلم روکنے سے ) انکار کر دیا ، جب وہ فتنے کا ارادہ کرتے ہیں ہم اس ( میں پڑنے ) سے انکار کر دیتے ہیں ۔ "" آپ ان ( الفاظ ) پر اپنی آواز کو بلند فرما لیتے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1803.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 152

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4671
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء، ‏.‏ فذكر مثله إلا أنه قال ‏ "‏ إن الألى قد بغوا علينا ‏"‏ ‏.‏
عبدالرحمان بن مہدی نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے ابواسحاق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ ۔ انہوں نے اسی کے مانند بیان کیا ، البتہ ( اس روایت کے مطابق ) انہوں نے کہا : " بلاشبہ ان لوگوں نے ہم پر زیادتی کی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1803.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 153

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4672
حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه، عن سهل بن سعد، قال جاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نحفر الخندق وننقل التراب على أكتافنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة فاغفر للمهاجرين والأنصار ‏"‏ ‏.‏
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا کر پھینک رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اے اللہ! زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے ، اس لیے مہاجرین اور انصار کی مغفرت فرما

صحيح مسلم حدیث نمبر:1804

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 154

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4673
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - حدثنا محمد بن، جعفر حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره ‏"‏ ‏.‏
معاویہ بن قرہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : "" اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں ، تو انصار اور مہاجرین کو معاف فرما دے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1805.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 155

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4674
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، أخبرنا شعبة، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول ‏"‏ اللهم إن العيش عيش الآخرة ‏"‏ ‏.‏ قال شعبة أو قال ‏"‏ اللهم لا عيش إلا‎عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : "" اے اللہ! بےشک زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ "" شعبہ نے کہا : یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : "" اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا کوئی زندگی ( حقیقی ) نہیں ، تو انصار اور مہاجرین کو عزت عطا فرما

صحيح مسلم حدیث نمبر:1805.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 156

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4675
وحدثنا يحيى بن يحيى، وشيبان بن فروخ، قال يحيى أخبرنا وقال، شيبان حدثنا عبد الوارث، عن أبي التياح، حدثنا أنس بن مالك، قال كانوا يرتجزون ورسول الله صلى الله عليه وسلم معهم وهم يقولون اللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره وفي حديث شيبان بدل فانصر فاغفر ‏.‏
یحییٰ بن یحییٰ اور شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث بیان کی ، یحییٰ نے کہا : ہمیں عدالوارث نے ابوتیاح سے حدیث بیان کی ، کہا : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : صحابہ رجزیہ اشعار پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ساتھ دیتے تھے ، وہ کہتے تھے : "" اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے ، تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما ۔ "" شیبان کی حدیث میں "" مدد فرما "" کی جگہ "" مغفرت فرما "" ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1805.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 157

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4676
حدثني محمد بن حاتم، حدثنا بهز، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أنس، أن أصحاب، محمد صلى الله عليه وسلم كانوا يقولون يوم الخندق نحن الذين بايعوا محمدا على الإسلام ما بقينا أبدا أو قال على الجهاد ‏.‏ شك حماد والنبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ اللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره ‏"‏ ‏.‏
حماد بن سلمہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ خندق کے دن محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صحابہ کہہ رہے تھے : "" ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام پر زندگی بھر کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۔ "" یا کہا : جہاد پر ۔ ۔ حماد کو شک ہوا ہے ۔ ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : "" اے اللہ! اصل بھلائی ، آخرت کی بھلائی ہے ، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما

صحيح مسلم حدیث نمبر:1805.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 158

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4677
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم، - يعني ابن إسماعيل - عن يزيد بن أبي، عبيد قال سمعت سلمة بن الأكوع، يقول خرجت قبل أن يؤذن، بالأولى وكانت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم ترعى بذي قرد - قال - فلقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف فقال أخذت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت من أخذها قال غطفان قال فصرخت ثلاث صرخات يا صباحاه ‏.‏ قال فأسمعت ما بين لابتى المدينة ثم اندفعت على وجهي حتى أدركتهم بذي قرد وقد أخذوا يسقون من الماء فجعلت أرميهم بنبلي وكنت راميا وأقول أنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع فأرتجز حتى استنقذت اللقاح منهم واستلبت منهم ثلاثين بردة - قال - وجاء النبي صلى الله عليه وسلم والناس فقلت يا نبي الله إني قد حميت القوم الماء وهم عطاش فابعث إليهم الساعة فقال ‏ "‏ يا ابن الأكوع ملكت فأسجح ‏"‏ ‏.‏ - قال - ثم رجعنا ويردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم على ناقته حتى دخلنا المدينة ‏.‏
سلمہ بن الاکوعؓ سے روایت ہے میں صبح کی اذان سے پہلے نکلا او رآپ کی دو ہیلی اونٹنیاں ذی قرد میں چرتی تھیں ( ذی قرد ایک پانی کا نام ہے مدینہ سے ایک دن کے فاصلہ پر ۔ بخاری نے کہا یہ لڑائی خیبر کی جنگ سے تین دن پہلے ہوئی اور بعضوں نے کہا ۶ھ میں حدیبیہ سے پہلے ) مجھے عبدالرحمن بن عوف کا غلام ملا اس نے کہا رسول اﷲ ﷺ کی دو ہیلی اونٹنیاں جاتی رہیں ۔ میں نے پوچھا کس نے لیں؟ اس نے کہا غطفان نے ( جو ایک شاخ ہے قیس قبیلہ کی ) ۔ یہ سن کر میں تین بار چلایا یا صباحاہ ( عرب کی عادت ہے کہ یہ کلمہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی بڑی آفت آتی ہے اور لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ) اور مدینہ کے دونوں جانب والوں کو سنادیا پھر میں سیدھا چلا یہاں تک کہ میں نے ان لٹیروں کو ذی قرد میں پایا انہوں نے پانی پینا شروع کیا تھا میں نے تیر مارنا شروع کیے اور میں تیرانداز تھا اور کہتا جاتا تھا انا ابن الاکوع والیوم یوم الرضع ۔ میں رجز پڑھتا رہا یہاں تک کہ اونٹنیاں ان سے چھڑالیں بلکہ اور تیس چادریں ان کی چھنیں اور رسول اﷲ ﷺ اورلوگ بھی آگئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲؐ ان لٹیروں کو میں نے پانی پینے نہیں دیا ، وہ پیاسے ہیں اب ان پر لشکر کو بھیجئے ۔ آپ نے فرمایا اے اکوع کے بیٹے! تو اپنی چیزیں لے چکا اب جانے دے ۔ سلمہؓ نے کہا پھر ہم لوٹے اور رسول اﷲؐ نے اونٹنی پر اپنے ساتھ مجھ کو بٹھلایا یہاں تک کہ ہم مدینہ میں پہنچے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1806

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 159

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4678
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا هاشم بن القاسم، ح وحدثنا إسحاق بن، إبراهيم أخبرنا أبو عامر العقدي، كلاهما عن عكرمة بن عمار، ح وحدثنا عبد الله بن، عبد الرحمن الدارمي - وهذا حديثه - أخبرنا أبو علي الحنفي، عبيد الله بن عبد المجيد حدثنا عكرمة، - وهو ابن عمار - حدثني إياس بن سلمة، حدثني أبي قال، قدمنا الحديبية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن أربع عشرة مائة وعليها خمسون شاة لا ترويها - قال - فقعد رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبا الركية فإما دعا وإما بسق فيها - قال - فجاشت فسقينا واستقينا ‏.‏ قال ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعانا للبيعة في أصل الشجرة ‏.‏ قال فبايعته أول الناس ثم بايع وبايع حتى إذا كان في وسط من الناس قال ‏"‏ بايع يا سلمة ‏"‏ ‏.‏ قال قلت قد بايعتك يا رسول الله في أول الناس قال ‏"‏ وأيضا ‏"‏ ‏.‏ قال ورآني رسول الله صلى الله عليه وسلم عزلا - يعني ليس معه سلاح - قال فأعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم حجفة أو درقة ثم بايع حتى إذا كان في آخر الناس قال ‏"‏ ألا تبايعني يا سلمة ‏"‏ ‏.‏ قال قلت قد بايعتك يا رسول الله في أول الناس وفي أوسط الناس قال ‏"‏ وأيضا ‏"‏ ‏.‏ قال فبايعته الثالثة ثم قال لي ‏"‏ يا سلمة أين حجفتك أو درقتك التي أعطيتك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله لقيني عمي عامر عزلا فأعطيته إياها - قال - فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال ‏"‏ إنك كالذي قال الأول اللهم أبغني حبيبا هو أحب إلى من نفسي ‏"‏ ‏.‏ ثم إن المشركين راسلونا الصلح حتى مشى بعضنا في بعض واصطلحنا ‏.‏ قال وكنت تبيعا لطلحة بن عبيد الله أسقي فرسه وأحسه وأخدمه وآكل من طعامه وتركت أهلي ومالي مهاجرا إلى الله ورسوله صلى الله عليه وسلم قال فلما اصطلحنا نحن وأهل مكة واختلط بعضنا ببعض أتيت شجرة فكسحت شوكها فاضطجعت في أصلها - قال - فأتاني أربعة من المشركين من أهل مكة فجعلوا يقعون في رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبغضتهم فتحولت إلى شجرة أخرى وعلقوا سلاحهم واضطجعوا فبينما هم كذلك إذ نادى مناد من أسفل الوادي يا للمهاجرين قتل ابن زنيم ‏.‏ قال فاخترطت سيفي ثم شددت على أولئك الأربعة وهم رقود فأخذت سلاحهم ‏.‏ فجعلته ضغثا في يدي قال ثم قلت والذي كرم وجه محمد لا يرفع أحد منكم رأسه إلا ضربت الذي فيه عيناه ‏.‏ قال ثم جئت بهم أسوقهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - وجاء عمي عامر برجل من العبلات يقال له مكرز ‏.‏ يقوده إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على فرس مجفف في سبعين من المشركين فنظر إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ دعوهم يكن لهم بدء الفجور وثناه ‏"‏ فعفا عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنزل الله ‏{‏ وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفركم عليهم‏}‏ الآية كلها ‏.‏ قال ثم خرجنا راجعين إلى المدينة فنزلنا منزلا بيننا وبين بني لحيان جبل وهم المشركون فاستغفر رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن رقي هذا الجبل الليلة كأنه طليعة للنبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه - قال سلمة - فرقيت تلك الليلة مرتين أو ثلاثا ثم قدمنا المدينة فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بظهره مع رباح غلام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا معه وخرجت معه بفرس طلحة أنديه مع الظهر فلما أصبحنا إذا عبد الرحمن الفزاري قد أغار على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستاقه أجمع وقتل راعيه قال فقلت يا رباح خذ هذا الفرس فأبلغه طلحة بن عبيد الله وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن المشركين قد أغاروا على سرحه - قال - ثم قمت على أكمة فاستقبلت المدينة فناديت ثلاثا يا صباحاه ‏.‏ ثم خرجت في آثار القوم أرميهم بالنبل وأرتجز أقول أنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع فألحق رجلا منهم فأصك سهما في رحله حتى خلص نصل السهم إلى كتفه - قال - قلت خذها وأنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع قال فوالله ما زلت أرميهم وأعقر بهم فإذا رجع إلى فارس أتيت شجرة فجلست في أصلها ثم رميته فعقرت به حتى إذا تضايق الجبل فدخلوا في تضايقه علوت الجبل فجعلت أرديهم بالحجارة - قال - فما زلت كذلك أتبعهم حتى ما خلق الله من بعير من ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا خلفته وراء ظهري وخلوا بيني وبينه ثم اتبعتهم أرميهم حتى ألقوا أكثر من ثلاثين بردة وثلاثين رمحا يستخفون ولا يطرحون شيئا إلا جعلت عليه آراما من الحجارة يعرفها رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه حتى أتوا متضايقا من ثنية فإذا هم قد أتاهم فلان بن بدر الفزاري فجلسوا يتضحون - يعني يتغدون - وجلست على رأس قرن قال الفزاري ما هذا الذي أرى قالوا لقينا من هذا البرح والله ما فارقنا منذ غلس يرمينا حتى انتزع كل شىء في أيدينا ‏.‏ قال فليقم إليه نفر منكم أربعة ‏.‏ قال فصعد إلى منهم أربعة في الجبل - قال - فلما أمكنوني من الكلام - قال - قلت هل تعرفوني قالوا لا ومن أنت قال قلت أنا سلمة بن الأكوع والذي كرم وجه محمد صلى الله عليه وسلم لا أطلب رجلا منكم إلا أدركته ولا يطلبني رجل منكم ‏.‏ فيدركني قال أحدهم أنا أظن ‏.‏ قال فرجعوا فما برحت مكاني حتى رأيت فوارس رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخللون الشجر - قال - فإذا أولهم الأخرم الأسدي على إثره أبو قتادة الأنصاري وعلى إثره المقداد بن الأسود الكندي - قال - فأخذت بعنان الأخرم - قال - فولوا مدبرين قلت يا أخرم احذرهم لا يقتطعوك حتى يلحق رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه ‏.‏ قال يا سلمة إن كنت تؤمن بالله واليوم الآخر وتعلم أن الجنة حق والنار حق فلا تحل بيني وبين الشهادة ‏.‏ قال فخليته فالتقى هو وعبد الرحمن - قال - فعقر بعبد الرحمن فرسه وطعنه عبد الرحمن فقتله وتحول على فرسه ولحق أبو قتادة فارس رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبد الرحمن فطعنه فقتله فوالذي كرم وجه محمد صلى الله عليه وسلم لتبعتهم أعدو على رجلى حتى ما أرى ورائي من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ولا غبارهم شيئا حتى يعدلوا قبل غروب الشمس إلى شعب فيه ماء يقال له ذو قرد ليشربوا منه وهم عطاش - قال - فنظروا إلى أعدو وراءهم فحليتهم عنه - يعني أجليتهم عنه - فما ذاقوا منه قطرة - قال - ويخرجون فيشتدون في ثنية - قال - فأعدو فألحق رجلا منهم فأصكه بسهم في نغض كتفه ‏.‏ قال قلت خذها وأنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع قال يا ثكلته أمه أكوعه بكرة قال قلت نعم يا عدو نفسه أكوعك بكرة - قال - وأردوا فرسين على ثنية قال فجئت بهما أسوقهما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - ولحقني عامر بسطيحة فيها مذقة من لبن وسطيحة فيها ماء فتوضأت وشربت ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على الماء الذي حليتهم عنه فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أخذ تلك الإبل وكل شىء استنقذته من المشركين وكل رمح وبردة وإذا بلال نحر ناقة من الإبل الذي استنقذت من القوم وإذا هو يشوي لرسول الله صلى الله عليه وسلم من كبدها وسنامها - قال - قلت يا رسول الله خلني فأنتخب من القوم مائة رجل فأتبع القوم فلا يبقى منهم مخبر إلا قتلته - قال - فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه في ضوء النار فقال ‏"‏ يا سلمة أتراك كنت فاعلا ‏"‏ ‏.‏ قلت نعم والذي أكرمك ‏.‏ فقال ‏"‏ إنهم الآن ليقرون في أرض غطفان ‏"‏ ‏.‏ قال فجاء رجل من غطفان فقال نحر لهم فلان جزورا فلما كشفوا جلدها رأوا غبارا فقالوا أتاكم القوم فخرجوا هاربين ‏.‏ فلما أصبحنا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كان خير فرساننا اليوم أبو قتادة وخير رجالتنا سلمة ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم سهمين سهم الفارس وسهم الراجل فجمعهما لي جميعا ثم أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم وراءه على العضباء راجعين إلى المدينة - قال - فبينما نحن نسير قال وكان رجل من الأنصار لا يسبق شدا - قال - فجعل يقول ألا مسابق إلى المدينة هل من مسابق فجعل يعيد ذلك - قال - فلما سمعت كلامه قلت أما تكرم كريما ولا تهاب شريفا قال لا إلا أن يكون رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قلت يا رسول الله بأبي وأمي ذرني فلأسابق الرجل قال ‏"‏ إن شئت ‏"‏ ‏.‏ قال قلت اذهب إليك وثنيت رجلى فطفرت فعدوت - قال - فربطت عليه شرفا أو شرفين أستبقي نفسي ثم عدوت في إثره فربطت عليه شرفا أو شرفين ثم إني رفعت حتى ألحقه - قال - فأصكه بين كتفيه - قال - قلت قد سبقت والله قال أنا أظن ‏.‏ قال فسبقته إلى المدينة قال فوالله ما لبثنا إلا ثلاث ليال حتى خرجنا إلى خيبر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فجعل عمي عامر يرتجز بالقوم تالله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا ونحن عن فضلك ما استغنينا فثبت الأقدام إن لاقينا وأنزلن سكينة علينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من هذا ‏"‏ ‏.‏ قال أنا عامر ‏.‏ قال ‏"‏ غفر لك ربك ‏"‏ ‏.‏ قال وما استغفر رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان يخصه إلا استشهد ‏.‏ قال فنادى عمر بن الخطاب وهو على جمل له يا نبي الله لولا ما متعتنا بعامر ‏.‏ قال فلما قدمنا خيبر قال خرج ملكهم مرحب يخطر بسيفه ويقول قد علمت خيبر أني مرحب شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب أقبلت تلهب قال وبرز له عمي عامر فقال قد علمت خيبر أني عامر شاكي السلاح بطل مغامر قال فاختلفا ضربتين فوقع سيف مرحب في ترس عامر وذهب عامر يسفل له فرجع سيفه على نفسه فقطع أكحله فكانت فيها نفسه ‏.‏ قال سلمة فخرجت فإذا نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يقولون بطل عمل عامر قتل نفسه قال فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقلت يا رسول الله بطل عمل عامر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من قال ذلك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت ناس من أصحابك ‏.‏ قال ‏"‏ كذب من قال ذلك بل له أجره مرتين ‏"‏ ‏.‏ ثم أرسلني إلى علي وهو أرمد فقال ‏"‏ لأعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال فأتيت عليا فجئت به أقوده وهو أرمد حتى أتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فبسق في عينيه فبرأ وأعطاه الراية وخرج مرحب فقال قد علمت خيبر أني مرحب شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب أقبلت تلهب فقال علي أنا الذي سمتني أمي حيدره كليث غابات كريه المنظره أوفيهم بالصاع كيل السندره قال فضرب رأس مرحب فقتله ثم كان الفتح على يديه ‏.‏

صحيح مسلم حدیث نمبر:1807.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 160

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4679
حدثني عمرو بن محمد الناقد، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس بن مالك، أن ثمانين، رجلا من أهل مكة هبطوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من جبل التنعيم متسلحين يريدون غرة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فأخذهم سلما فاستحياهم فأنزل الله عز وجل ‏{‏ وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفركم عليهم‏}‏
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے اسی آدمی مکہ والے رسول اﷲؐ کے اوپر اترے تنعیم کے پہاڑ سے ، وہ چاہتے تھے آپ کو دھوکا دیں او رغفلت میں حملہ کریں ۔ پھرآپ نے ان کو پکڑ لیا اور قید کیا ۔ بعد اس کے آپ نے چھوڑ دیا تب اﷲ تعایٰ نے اس آیت کو اتارا : وھو الذی کف ایدیھم عنکم یعنی خدا وہ ہے جس نے روکا ان کے ہاتھوں کو تم سے ( اور ان کا فریب کچھ نہ چلا ) اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے ( تم نے ان کو قتل نہ کیا ) مکہ کی سرحد میں تمہارے فتح ہوجانے کے بعد ان پر ۔ ترجمہ وہی جو اوپر گزرا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1808

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 162

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4680
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن أم سليم، اتخذت يوم حنين خنجرا فكان معها فرآها أبو طلحة فقال يا رسول الله هذه أم سليم معها خنجر فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما هذا الخنجر ‏"‏ ‏.‏ قالت اتخذته إن دنا مني أحد من المشركين بقرت به بطنه ‏.‏ فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك قالت يا رسول الله اقتل من بعدنا من الطلقاء انهزموا بك ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا أم سليم إن الله قد كفى وأحسن ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه محمد بن حاتم، حدثنا بهز، حدثنا حماد بن سلمة، أخبرنا إسحاق بن، عبد الله بن أبي طلحة عن أنس بن مالك، في قصة أم سليم عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل حديث ثابت ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حنین کے دن حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک خنجر ( اپنے پاس رکھ ) لیا ، وہ ان کے ساتھ تھا ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! یہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہیں ، ان کے پاس ایک خنجر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ خنجر کیسا ہے؟ " انہوں نے کہا : میں نے یہ اس لیے لیا ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی میرے قریب آیا تو میں اس سے اس کا پیٹ چاک کر دوں گی ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے ۔ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہمارے بعد دائرہ اسلام میں شامل ہونے والے ، جنہیں ( فتح مکہ کے دن ) معافی دی گئی تھی ( حنین کے دن ) آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ، انہیں قتل کروا دیجئے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ام سلیم! بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافی ہو گیا ( ان کا بھاگنا جنگ ہارنے کا باعث نہ بنا ) اور اس نے احسان فرمایا ( کہ ہمیں فتح عطا کر دی)

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 163

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4681
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ( اپنے چچا ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ( اپنی دادی ) ام سلیم رضی اللہ عنہا کے واقعے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کی حدیث کے مانند روایت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4682
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن أنس بن مالك، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بأم سليم ونسوة من الأنصار معه إذا غزا فيسقين الماء ويداوين الجرحى ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کرتے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا اور انصار کی کچھ دوسری عورتوں کو ساتھ لے جا کر جنگ کرتے ، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1810

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 164

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4683
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، حدثنا عبد الله بن عمرو، - وهو أبو معمر المنقري - حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز، - وهو ابن صهيب - عن أنس، بن مالك قال لما كان يوم أحد انهزم ناس من الناس عن النبي صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة بين يدى النبي صلى الله عليه وسلم مجوب عليه بحجفة - قال - وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع وكسر يومئذ قوسين أو ثلاثا - قال - فكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة ‏.‏ قال ويشرف نبي الله صلى الله عليه وسلم ينظر إلى القوم فيقول أبو طلحة يا نبي الله بأبي أنت وأمي لا تشرف لا يصبك سهم من سهام القوم نحري دون نحرك قال ولقد رأيت عائشة بنت أبي بكر وأم سليم وإنهما لمشمرتان أرى خدم سوقهما تنقلان القرب على متونهما ثم تفرغانه في أفواههم ثم ترجعان فتملآنها ثم تجيئان تفرغانه في أفواه القوم ولقد وقع السيف من يدى أبي طلحة إما مرتين وإما ثلاثا من النعاس ‏.‏
عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : جب اُحد کا دن تھا ، لوگوں میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر پسپا ہو گئے اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ڈھال کے ساتھ آڑ کیے ہوئے تھے ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انتہائی قوت سے تیر چلانے والے تیر انداز تھے ، انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں ۔ کہا : کوئی شخص اپنے ساتھ تیروں کا ترکش لیے ہوئے گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : " اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے آگے پھیلا دو ۔ " کہا : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا جائزہ لینے کے لیے جھانک کر دیکھتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے : اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان! جھانک کر نہ دیکھیں ، کہیں دشمن کے تیروں میں سے کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے ۔ میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ڈھال بنا ہوا ہے ۔ کہا : میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا ، ان دونوں نے اپنے کپڑے سمیٹے ہوئے تھے ، میں ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھ رہا تھا ، وہ اپنی کمر پر مشکیزے لے کر آتی تھیں ، ( زخمیوں کو پانی پلاتے پلاتے ) ان کے منہ میں ان ( مشکوں ) کو خالی کرتیں تھیں ، پھر واپس ہو کر انہیں بھرتی تھیں ، پھر آتیں اور انہیں لوگوں کے منہ میں فارغ کرتی تھیں ۔ اس دن اونگھ ( جانے ) کی بنا پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے دو یا تین مرتبہ تلوار گری ۔ ( شدید تکان اور بے خوابی کے عالم میں بھی وہ ڈھال بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے رہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1811

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 165

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4684
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان، - يعني ابن بلال - عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن يزيد بن هرمز، أن نجدة، كتب إلى ابن عباس يسأله عن خمس، خلال ‏.‏ فقال ابن عباس لولا أن أكتم، علما ما كتبت إليه ‏.‏ كتب إليه نجدة أما بعد فأخبرني هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء وهل كان يضرب لهن بسهم وهل كان يقتل الصبيان ومتى ينقضي يتم اليتيم وعن الخمس لمن هو فكتب إليه ابن عباس كتبت تسألني هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء وقد كان يغزو بهن فيداوين الجرحى ويحذين من الغنيمة وأما بسهم فلم يضرب لهن وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل الصبيان فلا تقتل الصبيان وكتبت تسألني متى ينقضي يتم اليتيم فلعمري إن الرجل لتنبت لحيته وإنه لضعيف الأخذ لنفسه ضعيف العطاء منها فإذا أخذ لنفسه من صالح ما يأخذ الناس فقد ذهب عنه اليتم وكتبت تسألني عن الخمس لمن هو وإنا كنا نقول هو لنا ‏.‏ فأبى علينا قومنا ذاك ‏.‏
سلیمان بن بلال نے ہمیں جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ ( معروف خارجی سردار ) نجدہ ( بن عامر حنفی ) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پانچ باتیں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں علم چھپا رہا ہوں تو میں اسے جواب نہ لکھتا ۔ نجدہ نے انہیں لکھا تھا : امابعد! مجھے بتائیے : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ کیا آپ غنیمت میں ان کا حصہ رکھتے تھے؟ کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یہ کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اس نے خمس کے بارے میں ( بھی پوچھا کہ ) وہ کس کا حق ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف ( جواب ) لکھا : تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ بلاشبہ آپ ان سے جنگ میں مدد لیتے تھے اور وہ زخمیوں کو مرہم لگایا کرتی تھیں اور انہیں غنیمت ( کے مال ) سے معمولی سا عطیہ دیا جاتا تھا ، رہا ( غنیمت کا باقاعدہ ) حصہ تو وہ آپ نے ان کے لیے نہیں نکالا ، اور یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے ، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کیا کرو ۔ اور تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا : یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ مجھے اپنی عمر ( کے مالک ) کی قسم! کسی آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے جبکہ ابھی وہ اپنے لیے حق لینے میں اور اپنی طرف سے حق دینے میں کمزور ہوتا ہے ، جب وہ اپنے لیے ٹھیک طرح سے حقوق لے سکے جس طرح لوگ لیتے ہیں تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی ۔ اور تم نے مجھ سے خمس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کس کا حق ہے؟ تو ہم کہتے تھے : وہ ہمارا حق ہے ، لیکن ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 166

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4685
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، كلاهما عن حاتم بن إسماعيل، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن يزيد بن هرمز، أن نجدة، كتب إلى ابن عباس يسأله عن خلال، ‏.‏ بمثل حديث سليمان بن بلال غير أن في، حديث حاتم وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل الصبيان فلا تقتل الصبيان إلا أن تكون تعلم ما علم الخضر من الصبي الذي قتل ‏.‏ وزاد إسحاق في حديثه عن حاتم وتميز المؤمن فتقتل الكافر وتدع المؤمن ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ہمیں حاتم بن اسماعیل سے حدیث بیان کی ، انہوں نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سے کچھ باتیں پوچھنے کے لیے خط لکھا ۔ ۔ ۔ ( آگے ) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ہے ، مگر حاتم کی حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے ، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کرو ، الا یہ کہ تمہیں بھی اسی طرح علم حاصل ہو جائے جس طرح خضر کو اس بچے کے بارے میں علم ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کیا تھا ۔ اسحاق نے حاتم سے روایت کردہ اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا : ( الا یہ کہ ) تم ( بچوں میں سے ) مومن کا امتیاز کر لو تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا ( یہ دونوں باتیں کسی انسان کے بس میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 167

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4686
وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن أمية، عن سعيد المقبري، عن يزيد بن هرمز، قال كتب نجدة بن عامر الحروري إلى ابن عباس يسأله عن العبد، والمرأة يحضران المغنم هل يقسم لهما وعن قتل الولدان وعن اليتيم متى ينقطع عنه اليتم وعن ذوي القربى من هم فقال ليزيد اكتب إليه فلولا أن يقع في أحموقة ما كتبت إليه اكتب إنك كتبت تسألني عن المرأة والعبد يحضران المغنم هل يقسم لهما شىء وإنه ليس لهما شىء إلا أن يحذيا وكتبت تسألني عن قتل الولدان وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتلهم وأنت فلا تقتلهم إلا أن تعلم منهم ما علم صاحب موسى من الغلام الذي قتله وكتبت تسألني عن اليتيم متى ينقطع عنه اسم اليتم وإنه لا ينقطع عنه اسم اليتم حتى يبلغ ويؤنس منه رشد وكتبت تسألني عن ذوي القربى من هم وإنا زعمنا أنا هم فأبى ذلك علينا قومنا ‏.‏
ہمیں ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے سعید مقبری سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا ، وہ ان سے اس غلام اور عورت کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں ، کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں ( بھی ) شریک ہوں گے؟ اور بچوں کے قتل کرنے کے بارے میں ( پوچھا ) اور یتیم کے بارے میں کہ اس سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربیٰ کے بارے میں کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے یزید سے کہا : اس کی طرف لکھو اور اگر ڈر نہ ہوتا کہ وہ کسی حماقت میں پڑ جائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا ، ( اسے ) لکھو : تم نے مجھے اس عورت اور غلام کے بارے دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں : کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں شریک ہوں گے؟ " حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں ہے ، الا یہ کہ انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے اور تم نے مجھ سے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا ، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل مت کرو ، الا یہ کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں وہ بات معلوم ہو جائے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ( خضر ) کو اس بچے کے بارے میں معلوم ہو گئی جسے انہوں نے قتل کیا تھا ۔ اور تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ اس سے یتیم کا لقب کب ختم ہو گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سے یتیم کا لقب ختم نہیں ہوتا حتی کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی بلوغت ( سمجھداری کی عمر کو پہنچنے ) کے بارے پتہ چلنے لگے ۔ اور تم نے مجھ سے ذوی القربیٰ کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کون ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم لوگ ہی ہیں ۔ تو ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 168

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4687
وحدثناه عبد الرحمن بن بشر العبدي، حدثنا سفيان، حدثنا إسماعيل بن أمية، عن سعيد بن أبي سعيد، عن يزيد بن هرمز، قال كتب نجدة إلى ابن عباس ‏.‏ وساق الحديث بمثله ‏.‏ قال أبو إسحاق حدثني عبد الرحمن بن بشر، حدثنا سفيان، بهذا الحديث بطوله
عبدالرحمان بن بشر عبدی نے ہمیں یہی حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اسماعیل بن امیہ نے سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی ، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند حدیث بیان کی ۔ ابواسحاق نے کہا : مجھے عبدالرحمان بن بشر نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سفیان نے پوری یہی حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.04

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 169

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4688
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا وهب بن جرير بن حازم، حدثني أبي قال، سمعت قيسا، يحدث عن يزيد بن هرمز، ح وحدثني محمد بن حاتم، - واللفظ له - قال حدثنا بهز، حدثنا جرير بن حازم، حدثني قيس بن سعد، عن يزيد بن هرمز، قال كتب نجدة بن عامر إلى ابن عباس قال فشهدت ابن عباس حين قرأ كتابه وحين كتب جوابه وقال ابن عباس والله لولا أن أرده عن نتن يقع فيه ما كتبت إليه ولا نعمة عين قال فكتب إليه إنك سألت عن سهم ذي القربى الذي ذكر الله من هم وإنا كنا نرى أن قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم هم نحن فأبى ذلك علينا قومنا وسألت عن اليتيم متى ينقضي يتمه وإنه إذا بلغ النكاح وأونس منه رشد ودفع إليه ماله فقد انقضى يتمه وسألت هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقتل من صبيان المشركين أحدا فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل منهم أحدا وأنت فلا تقتل منهم أحدا إلا أن تكون تعلم منهم ما علم الخضر من الغلام حين قتله وسألت عن المرأة والعبد هل كان لهما سهم معلوم إذا حضروا البأس فإنهم لم يكن لهم سهم معلوم إلا أن يحذيا من غنائم القوم
قیس بن سعد نے مجھے یزید بن ہرمز سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو میں اس وقت ، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا خط پڑھا اور اس کا جواب لکھا ، ان کے پاس حاضر تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! اگر یہ ( خیال ) نہ ہوتا کہ ( غالبا ) میں اسے کسی قبیح عمل میں پڑ جانے سے روک لوں گا تو اسے جواب نہ لکھتا ، یہ اس کی آنکھوں کی خوشی کے لیے نہیں ۔ کہا : تو انہوں نے اس کی طرف لکھا : تم نے ذوی القربیٰ کے حصے کے بارے میں پوچھا تھا ، جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کون ہین؟ تو ہمارا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہمی لوگ ہیں ( لیکن ) ہماری قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ۔ اور تم نے یتیم کے بارے میں پوچھا تھا ، اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ تو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے ، اس کے سمجھدار ہو جانے کا پتہ چلنے لگے اور اس کا مال اس کے حوالے کیا جا سکے تو اس سے یتیمی ختم ہو جائے گی ۔ اور تم نے پوچھا تھا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کرتے تھے اور تم بھی ان میں سے کسی کو قتل مت کرنا ، الا یہ کہ ان کے بارے میں تم کو بھی اسی بات کا علم ہو جائے جس کا اس بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کو علم ہوا جب انہوں نے اسے قتل کیا تھا ۔ اور تم نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کہ جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو کیا ان کو بھی مقررہ حصہ ملے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا کوئی مقررہ حصہ نہیں ، ہاں یہ کہ لوگوں کی غنیمتوں میں سے انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.05

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 170

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4689
وحدثني أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، حدثنا زائدة، حدثنا سليمان الأعمش، عن المختار بن صيفي، عن يزيد بن هرمز، قال كتب نجدة إلى ابن عباس ‏.‏ فذكر بعض الحديث ولم يتم القصة كإتمام من ذكرنا حديثهم ‏.‏
مختار بن صیفی نے یزید بن ہرمز سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا اور ان کی طرح پورا واقعہ بیان نہیں کیا جن کی احادیث ہم نے ( اوپر ) بیان کی ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.06

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 171

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4690
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن هشام، عن حفصة، بنت سيرين عن أم عطية الأنصارية، قالت غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات أخلفهم في رحالهم فأصنع لهم الطعام وأداوي الجرحى وأقوم على المرضى
عبدالرحیم بن سلیمان نے ہمیں ہشام ( بن حسان ) سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حفصہ بنت سیرین سے اور انہوں نے حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی ، میں پیچھے ان کے خیموں میں رہتی تھی ، ان کے لیے کھانا تیار کرتی ، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.07

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 172

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4691
وحدثنا عمرو الناقد، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام بن حسان، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
یزید بن ہارون نے ہشام بن حسان سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1812.08

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 173

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4692
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد، بن جعفر حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، أن عبد الله بن يزيد، خرج يستسقي بالناس فصلى ركعتين ثم استسقى قال فلقيت يومئذ زيد بن أرقم - وقال - ليس بيني وبينه غير رجل أو بيني وبينه رجل - قال - فقلت له كم غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال تسع عشرة فقلت كم غزوت أنت معه قال سبع عشرة غزوة - قال - فقلت فما أول غزوة غزاها قال ذات العسير أو العشير ‏.‏
شعبہ نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی کہ ( ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے امیر ) عبداللہ بن یزید ( بن حصین ) لوگوں کے ساتھ بارش کی دعا مانگنے کے لیے نکلے تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر بارش کی دعا کی ۔ کہا : اس دن میری ملاقات حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ کہا : میرے اور ان کے درمیان ایک آدمی کے سوا کوئی نہ تھا یا ( کہا : ) میرے اور ان کے درمیان ( بس ) ایک آدمی تھا تو میں نے ان سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی جنگیں کیں؟ انہوں نے کہا : انیس ( 19 ) ۔ تو میں نے پوچھا : آپ نے ان کے ساتھ کتنی جنگیں لڑیں؟ انہوں نے کہا : سترہ جنگیں ۔ میں نے پوچھا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا غزوہ کون سا تھا؟ انہوں نے کہا : ذات العسیر یا ذات العشیر

صحيح مسلم حدیث نمبر:1254.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 174

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4693
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا زهير، عن أبي إسحاق، عن زيد بن أرقم، سمعه منه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا تسع عشرة غزوة وحج بعد ما هاجر حجة لم يحج غيرها حجة الوداع ‏.‏
زہیر نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوے کیے اور ہجرت کے بعد آپ نے صرف ایک حج کلیا ، اس کے سوا کوئی حج نہیں کیا ، وہ حجۃ الوداع تھا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1254.03

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 175

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4694
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا زكرياء، أخبرنا أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم تسع عشرة غزوة - قال جابر - لم أشهد بدرا ولا أحدا منعني أبي فلما قتل عبد الله يوم أحد لم أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة قط ‏.‏
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انیس غزوات میں شرکت کی ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں بدر اور احد میں شریک نہیں ہوا ، مجھے میرے والد نے روک دیا تھا ، جب ( میرے والد ) عبداللہ رضی اللہ عنہ اُحد کے دن شہید ہو گئے تو ( اس کے بعد ) میں کسی بھی غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کرنے سے پیچھے نہیں رہا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1813

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 176

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4695
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا زيد بن الحباب، ح وحدثنا سعيد بن محمد، الجرمي حدثنا أبو تميلة، قالا جميعا حدثنا حسين بن واقد، عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، ‏.‏ قال غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تسع عشرة غزوة قاتل في ثمان منهن ‏.‏ ولم يقل أبو بكر منهن ‏.‏ وقال في حديثه حدثني عبد الله بن بريدة ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں زید بن حباب نے حدیث بیان کی ، نیز سعید بن محمد جرمی نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں ابوتمیلہ نے حدیث بیان کی ، ان دونوں ( زید اور ابوتمیلہ ) نے کہا : ہمیں حسین بن واقد نے عبداللہ بن بریدہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوے کیے ، آپ نے ان میں سے آٹھ میں لڑائی کی ۔ ابوبکر نے "" منهن "" ( ان میں سے ) روایت نہیں کیا اور انہوں نے اپنی حدیث میں کہا : مجھے عبداللہ بن بریدہ نے حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1814.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 177

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4696
وحدثني أحمد بن حنبل، حدثنا معتمر بن سليمان، عن كهمس، عن ابن بريدة، عن أبيه، أنه قال غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ست عشرة غزوة ‏.‏
کہمس نے ابن بریدہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شرکت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1814.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 178

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4697
حدثنا محمد بن عباد، حدثنا حاتم، - يعني ابن إسماعيل - عن يزيد، - وهو ابن أبي عبيد قال سمعت سلمة، يقول غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات وخرجت فيما يبعث من البعوث تسع غزوات مرة علينا أبو بكر ومرة علينا أسامة بن زيد ‏.‏
ہمیں محمد بن عباد نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں حاتم بن اسماعیل نے یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت سلمہ ( بن اکوع رضی اللہ عنہ ) سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں جنگ کی اور میں ان دستوں کے ساتھ ، جنہیں آپ روانہ فرماتے تھے ، نو غزوات میں نکلا ۔ ایک بار ہمارے امیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ایک بار حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ۔ ( سابقہ حدیث میں بیان کردہ تعداد صحیح تر ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1815.01

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 179

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4698
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم، بهذا الإسناد ‏.‏ غير أنه قال في كلتيهما سبع غزوات ‏.‏
قتیبہ بن سعید نے حاتم سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ، مگر انہوں نے دونوں جگہ سات غزوات کہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1815.02

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 180

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4699
حدثنا أبو عامر عبد الله بن براد الأشعري، ومحمد بن العلاء الهمداني، - واللفظ لأبي عامر - قالا حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن أبي بردة، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة ونحن ستة نفر بيننا بعير نعتقبه - قال - فنقبت أقدامنا فنقبت قدماى وسقطت أظفاري فكنا نلف على أرجلنا الخرق فسميت غزوة ذات الرقاع لما كنا نعصب على أرجلنا من الخرق ‏.‏ قال أبو بردة فحدث أبو موسى بهذا الحديث ثم كره ذلك ‏.‏ قال كأنه كره أن يكون شيئا من عمله أفشاه ‏.‏ قال أبو أسامة وزادني غير بريد والله يجزي به ‏.‏
ابواسامہ نے ہمیں بریدہ بن ابی بردہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابوبردہ سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے ، ہم چھ افراد تھے ، ہم سب کے لیے اونٹ ایک ( ہی ) تھا ، ہم اس پر باری باری سوار ہوتے تھے ۔ کہا : ہمارے پیروں میں سوراخ ہو گئے ، میرے دونوں پاؤں بھی زخمی ہو گئے اور میرے ناخن گر گئے ، ہم اپنے پاؤں پر پرانے کپڑوں کے ٹکڑے باندھا کرتے تھے ، اسی وجہ سے تو اس غزوے کا نام ذات الرقاع ( دھجیوں والا غزوہ ) پڑ گیا کیونکہ ہم اپنے پیروں پر پھٹے پرانے کپڑوں کی دھجیاں باندھا کرتے تھے ۔ ابوبردہ نے کہا : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ، پھر اسے ( بیان کرنے ) کو ناپسند کیا جیسے وہ یہ بات ناپسند کرتے ہوں کہ ان کے عمل کا کوئی ایسا پہلو ہو جس کی انہوں نے تشہیر کی ہو ۔ ابواسامہ نے کہا : بریدہ کے علاوہ کسی اور نے مجھے مزید یہ بات بتائی : اور اللہ اس کی جزا دے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1816

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 181

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4700
حدثني زهير بن حرب، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن مالك، ح وحدثنيه أبو الطاهر - واللفظ له - حدثني عبد الله بن وهب، عن مالك بن أنس، عن الفضيل بن أبي، عبد الله عن عبد الله بن نيار الأسلمي، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل بدر فلما كان بحرة الوبرة أدركه رجل قد كان يذكر منه جرأة ونجدة ففرح أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رأوه فلما أدركه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم جئت لأتبعك وأصيب معك قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تؤمن بالله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال لا قال ‏"‏ فارجع فلن أستعين بمشرك ‏"‏ ‏.‏ قالت ثم مضى حتى إذا كنا بالشجرة أدركه الرجل فقال له كما قال أول مرة فقال له النبي صلى الله عليه وسلم كما قال أول مرة قال ‏"‏ فارجع فلن أستعين بمشرك ‏"‏ ‏.‏ قال ثم رجع فأدركه بالبيداء فقال له كما قال أول مرة ‏"‏ تؤمن بالله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال نعم ‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فانطلق ‏"‏ ‏.‏
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب نکلے ، جب آپ وبرہ کے حرے پر پہنچے تو ایک آدمی آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ۔ اس کی جراءت و بہادری کا بڑا چرچا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے دیکھا تو خوش ہوئے ، جب وہ آپ کو ملا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ کا ساتھ دوں اور آپ کے ساتھ ( غنیمت میں سے ) حصہ وصول کروں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : "" کیا تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو؟ "" اس نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تو لوٹ جاؤ ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ۔ "" ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ) کہا : پھر وہ چلا گیا ، حتی کہ جب ہم درخت کے پاس پہنچے تو وہ آدمی ( دوسری بار ) آپ کو ملا اور آپ سے وہی بات کہی جو پہلی مرتبہ کہی تھی ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے وہی کچھ کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" واپس ہو جاؤ ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ۔ "" کہا : وہ واپس چلا گیا اور بیداء کے مقام پر آپ کو ملا تو آپ نے اس سے وہی بات پوچھی جو پہلی بار پوچھی تھی : "" تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ "" اس نے کہا : جی ہاں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : "" تو پھر ( ہمارے ساتھ ) چلو

صحيح مسلم حدیث نمبر:1817

صحيح مسلم باب:32 حدیث نمبر : 182

Share this: