احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
12: كتاب الزكاة
زکاۃ کے احکام و مسائل
صحيح مسلم حدیث نمبر: 2263
وحدثني عمرو بن محمد بن بكير الناقد، حدثنا سفيان بن عيينة، قال سألت عمرو بن يحيى بن عمارة فأخبرني عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس فيما دون خمسة أوسق صدقة ولا فيما دون خمس ذود صدقة ولا فيما دون خمس أواق صدقة ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عینیہ نے کہا : میں نے عمرو بن یحییٰ بن عمارہ سے پوچھا تو انھوں نے مجھے اپنے والد سے خبر دی ، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پانچ وسق سے کم ( غلے یا کھجور ) میں صدقہ ( زکاۃ ) نہیں اور نہ پانچ سے کم اونٹوں میں صدقہ ہے اور نہ ہی پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2264
وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر، أخبرنا الليث، ح وحدثني عمرو الناقد، حدثنا عبد الله بن إدريس، كلاهما عن يحيى بن سعيد، عن عمرو بن يحيى، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله‏.‏
یحییٰ بن سعید نے عمرو بن یحییٰ سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ اسی کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2265
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني عمرو، بن يحيى بن عمارة عن أبيه، يحيى بن عمارة قال سمعت أبا سعيد الخدري، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏.‏ وأشار النبي صلى الله عليه وسلم بكفه بخمس أصابعه ثم ذكر بمثل حديث ابن عيينة ‏.‏
ابن جریج نے کہا : مجھے عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے اپنے والد یحییٰ بن عمارہ سے خبر دی ، انھوں نے کہا : میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی سے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ پھر ( ابن جریج نے سفیان ) بن عینیہ کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2266
وحدثني أبو كامل، فضيل بن حسين الجحدري حدثنا بشر، - يعني ابن مفضل - حدثنا عمارة بن غزية، عن يحيى بن عمارة، قال سمعت أبا سعيد الخدري، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس فيما دون خمسة أوسق صدقة وليس فيما دون خمس ذود صدقة وليس فيما دون خمس أواق صدقة ‏"‏ ‏.‏
عمارہ بن غزیہ نے یحییٰ بن عمارہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پانچ وسق سے کم ( کھجور یا غلے ) میں صدقہ نہیں اور پانچ سے کم اونٹوں میں صدقہ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں صدقہ نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2267
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالوا حدثنا وكيع، عن سفيان، عن إسماعيل بن أمية، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن يحيى بن عمارة، عن أبي سعيد الخدري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس فيما دون خمسة أوساق من تمر ولا حب صدقة ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے سفیان سے ، انھوں نے اسماعیل بن امیہ سے ، انھوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے ، انھوں نے یحییٰ بن عمارہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نےکہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پانچ وسق سے کم کھجور اور غلے میں صدقہ نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2268
وحدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الرحمن، - يعني ابن مهدي - حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن أمية، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن يحيى بن عمارة، عن أبي سعيد الخدري، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس في حب ولا تمر صدقة حتى يبلغ خمسة أوسق ولا فيما دون خمس ذود صدقة ولا فيما دون خمس أواق صدقة‏"‏ ‏.‏
عبدالرحمان بن مہدی نے سفیان سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " نہ غلے میں صدقہ ہے نہ کھجور میں حتیٰ کہ وہ پانچ وسق تک پہنچ جائیں اور نہ پانچ سے کم اونٹوں میں صدقہ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.06

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2269
وحدثني عبد بن حميد، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان الثوري، عن إسماعيل، بن أمية بهذا الإسناد ‏.‏ مثل حديث ابن مهدي ‏.‏
یحییٰ بن آدم نے کہا : ہمیں سفیان ثوری نے اسماعیل بن امیہ سے اسی مذکورہ بالا سند کے ساتھ ابن مہدی کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.07

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2270
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا الثوري، ومعمر، عن إسماعيل، بن أمية بهذا الإسناد ‏.‏ مثل حديث ابن مهدي ويحيى بن آدم غير أنه قال - بدل التمر - ثمر ‏.‏
عبدالرزاق نے کہا : ہمیں ثوری اور معمر نے اسماعیل بن امیہ سے اسی سندکے ساتھ ، ابن مہدی اور یحییٰ بن آدم کی حدیث کی طرح بیان کیا ، البتہ انھوں نے تمر ( کھجور ) کے بجائے ثمر ( پھل ) کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:979.08

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2271
حدثنا هارون بن معروف، وهارون بن سعيد الأيلي، قالا حدثنا ابن وهب، أخبرني عياض بن عبد الله، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ ليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقة وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة وليس فيما دون خمسة أوسق من التمر صدقة ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبردی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے اور نہ ہی پانچ وسق سے کم کھجوروں میں صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:980

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2272
حدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح وهارون بن سعيد الأيلي وعمرو بن سواد والوليد بن شجاع كلهم عن ابن وهب، قال أبو الطاهر أخبرنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، أن أبا الزبير، حدثه أنه، سمع جابر بن، عبد الله يذكر أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ فيما سقت الأنهار والغيم العشور وفيما سقي بالسانية نصف العشر ‏"‏ ‏.‏
حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فر ما یا : " جس ( کھیتی ) کو دریا کا پانی یا بارش سیرا ب کرے ان میں عشر ( دسواں حصہ ) ہے اور جس کو اونٹ ( وغیرہ کسی جا نور کے ذریعے ) سے سیراب کیا جا ئے ان میں نصف عشر ( بیسواں حصہ ) ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:981

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2273
وحدثنا يحيى بن يحيى التميمي، قال قرأت على مالك عن عبد الله بن دينار، عن سليمان بن يسار، عن عراك بن مالك، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس على المسلم في عبده ولا فرسه صدقة ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن دینا ر نے سلیمان بن یسارسے انھوں نے عراک بن مالک سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " مسلمان کے ذمے نہ اس کے غلام میں صدقہ ( زکاۃ ) ہے اور نہ اس کے گھوڑے میں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:982.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2274
وحدثني عمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا أيوب، بن موسى عن مكحول، عن سليمان بن يسار، عن عراك بن مالك، عن أبي هريرة، - قال عمرو - عن النبي صلى الله عليه وسلم وقال زهير يبلغ به ‏ "‏ ليس على المسلم في عبده ولا فرسه صدقة ‏"‏ ‏.‏
عمرو الناقد اور زہیر بن حرب نے کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی انھوں نے کہا : ہمیں ایوب بن موسیٰ نے مکحول سے حدیث بیان کی ، انھوں نے سلیمان بن یسار سے انھوں نے عراک بن مالک سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ۔ ۔ ۔ عمرو نے کہا : ( ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور زہیر نے کہا : انھوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا یا یعنی آپ سے بیان کیا ۔ ۔ ۔ " مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں صدقہ نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:982.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2275
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا سليمان بن بلال، ح وحدثنا قتيبة، حدثنا حماد، بن زيد ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، كلهم عن خثيم بن، عراك بن مالك عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثله ‏.‏
خثیم بن عراک بن مالک نے اپنے والد ( عراک بن ما لک ) سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی ( مذکورہ بالا حدیث ) کے مانند بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:982.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2276
وحدثني أبو الطاهر، وهارون بن سعيد الأيلي، وأحمد بن عيسى، قالوا حدثنا ابن وهب، أخبرني مخرمة، عن أبيه، عن عراك بن مالك، قال سمعت أبا هريرة، يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس في العبد صدقة إلا صدقة الفطر ‏"‏ ‏.‏
مخرمہ نے اپنے والد ( بکیر بن عبد اللہ ) سے انھوں نے عراک بن مالک سے روایت کی انھوں نے کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا کہ آپ نے فر ما یا : " ( مالک پر ) غلام ( کے معاملے ) میں صدقہ فطر کے سوا کو ئی صدقہ نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:982.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2277
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا علي بن حفص، حدثنا ورقاء، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر على الصدقة فقيل منع ابن جميل وخالد بن الوليد والعباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله وأما العباس فهي على ومثلها معها ‏"‏ ‏.‏ ثم قال ‏"‏ يا عمر أما شعرت أن عم الرجل صنو أبيه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زکا ۃ کی وصولی کے لیے بھیجا تو ( بعد میں آپ سے ) کہا گیا کہ ابن جمیل خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زکاۃ روک لی ہے ( نہیں دی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ابن جمیل تو اس کے علاوہ کسی اور بات کا بدلہ نہیں لے رہا کہ وہ پہلے فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا رہے خالد تو تم ان پر زیادتی کر ہے ہو ۔ انھوں نے اپنی زر ہیں اور ہتھیا ر ( جنگی ساز و سامان ) اللہ کی را ہ میں وقف کر رکھے ہیں باقی رہے عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمے ہے اور اتنی اس کے ساتھ اور بھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اے عمر!کیا تمھیں معلوم نہیں ، انسان کا چچا اس کے باپ جیسا ہو تا ہے ؟ " ( ان کی زکاۃ تم مجھ سے طلب کر سکتے تھے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:983

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2278
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، وقتيبة بن سعيد، قالا حدثنا مالك، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - قال قرأت على مالك عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين ‏.‏
امام مالک نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لو گوں پر رمضان کا صدقہ فطر ( فطرانہ ) کھجور یا جو کا ایک صاع ( فی کس ) مقرر کیا ، وہ ( فرد ) مسلمانوں میں سے آزاد ہو یا غلا م مرد یا عورت ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:984.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2279
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبي ح، وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، - واللفظ له - قال حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو أسامة عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل
عبید اللہ نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام یا آزاد چھوٹے یا بڑے ہر کسی پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر ( فطرا نہ ) فرض قرار دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:984.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2280
وحدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا يزيد بن زريع، عن أيوب، عن نافع، عن ابن، عمر قال فرض النبي صلى الله عليه وسلم صدقة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير ‏.‏ قال فعدل الناس به نصف صاع من بر ‏.‏
ایوب نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت ہر کسی پررمضان کا صدقہ کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع مقرر فر ما یا ۔ کہا : لو گوں نے گندم کا نصف صاع اس ( جو ) کے ( ایک صاع کے ) مساوی قرار دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:984.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2281
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن نافع، أن عبد الله بن عمر، قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بزكاة الفطر صاع من تمر أو صاع من شعير ‏.‏ قال ابن عمر فجعل الناس عدله مدين من حنطة ‏.‏
لیث نے نا فع سے روایت کی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ( ادا ) کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : تو لو گو ں نے گندم کے دو ئد اس ( جو ) کے ایک صاع کے برابر قرار دے لیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:984.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2282
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا ابن أبي فديك، أخبرنا الضحاك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير ‏.‏
اضحاک نے نافع سے اور انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں مسلمانوں میں سے ہر انسان پر آزاد یا غلام ، مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا کھجوروں کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر مقرر فر ما یا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:984.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2283
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن زيد بن أسلم، عن عياض بن، عبد الله بن سعد بن أبي سرح أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط أو صاعا من زبيب ‏.‏
زید بن اسلم نے عیا ض بن عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا ہم زکا ۃ الفطر طعام ( گندم ) کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کھجوروں کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا منقے کا ایک صاع نکا لا کرتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:985.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2284
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا داود، - يعني ابن قيس - عن عياض، بن عبد الله عن أبي سعيد الخدري، قال كنا نخرج إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر أو مملوك صاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبي سفيان حاجا أو معتمرا فكلم الناس على المنبر فكان فيما كلم به الناس أن قال إني أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر فأخذ الناس بذلك ‏.‏ قال أبو سعيد فأما أنا فلا أزال أخرجه كما كنت أخرجه أبدا ما عشت ‏.‏
داود بن قیس نے عیا ض بن عبد اللہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں مو جو د تھے تو ہم ہر چھوٹے بڑے آزاد اور غلام کی طرف سے طعام ( گندم ) کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کھجوروں کا ایک صاع یا منقے کا ایک صاع زکا ۃ الفطر ( فطرانہ ) نکا لتے تھے اور ہم اسی کے مطابق نکا لتے رہے یہاں تک کہ ہمارے پاس ( امیر المومنین ) معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج یا عمر ہ ادا کرنے کے لیے تشریف لا ئے اور منبر پر لو گو ں کو خطا ب کیا اور لو گوں سے جو گفتگو کی اس میں یہ بھی کہا : میں یہ سمجھتا ہوں کہ شام سے آنے والی ( مہنگی ) گندم کے دو مد ( نصف صاع ) کھجوروں کے ایک صاع کے برا بر ہیں اس کے بعد لو گوں نے اس قول کو اپنا لیا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : لیکن میں جب تک میں ہو ں زندگی بھر ہمیشہ اسی طرح نکالتا رہوں گا جس طرح ( عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نکا لا کرتا تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:985.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2285
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن إسماعيل بن أمية، قال أخبرني عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح، أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول كنا نخرج زكاة الفطر ورسول الله صلى الله عليه وسلم فينا عن كل صغير وكبير حر ومملوك من ثلاثة أصناف صاعا من تمر صاعا من أقط صاعا من شعير فلم نزل نخرجه كذلك حتى كان معاوية فرأى أن مدين من بر تعدل صاعا من تمر ‏.‏ قال أبو سعيد فأما أنا فلا أزال أخرجه كذلك ‏.‏
اسماعیل بن امیہ نے کہا : مجھے عیاض بن عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے خبردی کہ انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں زکا ۃ الفطر ہر چھوٹے بڑے آزاد اور غلام کی طرف سے تین ( قسم کی ) اصناف سے نکا لتے تھے کھجوروں سے ایک صاع پنیر سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع ہم ہمیشہ اس کے مطا بق نکا لتے رہے یہاں تک کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آگیا تو انھوں نے یہ را ئے پیش کی کہ گندم کے دو مد کھجوروں کے ایک صاع کے برا بر ہیں ۔ حضرت ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : لیکن میں تو اسی ( پہلے طریقے سے ) نکا لتا رہوں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:985.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2286
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، عن الحارث بن، عبد الرحمن بن أبي ذباب عن عياض بن عبد الله بن أبي سرح، عن أبي سعيد الخدري، قال كنا نخرج زكاة الفطر من ثلاثة أصناف الأقط والتمر والشعير ‏.‏
حارث بن عبد الر حمان بن ابی ذباب نے عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : ہم فطرا نہ ان تین اجناس سے نکالا کرتے تھے پنیر ، کھجور اور جو ۔ ( یہی ان کی بنیا دی خوردنی اجنا س تھیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:985.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2287
وحدثني عمرو الناقد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن ابن عجلان، عن عياض، بن عبد الله بن أبي سرح عن أبي سعيد الخدري، أن معاوية، لما جعل نصف الصاع من الحنطة عدل صاع من تمر أنكر ذلك أبو سعيد وقال لا أخرج فيها إلا الذي كنت أخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط ‏.‏
ابن عجلا ن نے عیا ض بن عبد اللہ بن ابی سرح سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گندم کے آدھے صاع کو کھجوروں کے صاع کے برابر قرار دیا تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات ( کو ماننے ) سے انکا ر کیا اور کہا : میں فطرا نے میں اس کے سوا اور کچھ نہ نکا لو ں گا جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکا لا کرتا تھا ( اور وہ ہے ) کھجوروں کا ایک صاع یا منقے کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:985.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2288
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو خيثمة، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بزكاة الفطر أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة ‏.‏
موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کے بارے میں یہ حکم دیا کہ اسے نماز عید کی طرف لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:986.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2289
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا ابن أبي فديك، أخبرنا الضحاك، عن نافع، عن عبد، الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بإخراج زكاة الفطر أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة ‏.‏
ضحاک نے نافع سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نکالنے کے بارے میں یہ حکم دیا کہ اسے لوگوں کے عیدکے نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:986.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2290
وحدثني سويد بن سعيد، حدثنا حفص، - يعني ابن ميسرة الصنعاني - عن زيد بن أسلم، أن أبا صالح، ذكوان أخبره أنه، سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله فالإبل قال ‏"‏ ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها ومن حقها حلبها يوم وردها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر أوفر ما كانت لا يفقد منها فصيلا واحدا تطؤه بأخفافها وتعضه بأفواهها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله فالبقر والغنم قال ‏"‏ ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله فالخيل قال ‏"‏ الخيل ثلاثة هي لرجل وزر وهي لرجل ستر وهي لرجل أجر فأما التي هي له وزر فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على أهل الإسلام فهي له وزر وأما التي هي له ستر فرجل ربطها في سبيل الله ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها فهي له ستر وأما التي هي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله لأهل الإسلام في مرج وروضة فما أكلت من ذلك المرج أو الروضة من شىء إلا كتب له عدد ما أكلت حسنات وكتب له عدد أرواثها وأبوالها حسنات ولا تقطع طولها فاستنت شرفا أو شرفين إلا كتب الله له عدد آثارها وأرواثها حسنات ولا مر بها صاحبها على نهر فشربت منه ولا يريد أن يسقيها إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله فالحمر قال ‏"‏ ما أنزل على في الحمر شىء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة ‏{‏ فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره‏}‏ ‏"‏ ‏.‏
حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے ( یا ان کی قیمت میں سے ) ان کا حق ( زکاۃ ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا ( انھیں ) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا ، جب وہ ( تختیاں ) پھر سے ( آگ میں ) جائیں گی ، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا ، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ( یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا ) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا ۔ "" آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا کیا حکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن ( ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے ) ان کا دودھ نکالا جائے ، اور جب قیامت کا دن ہوگااس ( مالک ) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان ( اونٹوں ) کے سامنے بچھا ( لٹا ) دیاجائے گا ، وہ ( اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے ) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے ، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا ، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے ، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا ، یہ اس دن میں ( بار بار ) ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی ، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائےگا اور اسے اور اسے جنت کادوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایاجائے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی گئی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گائے اور بکریاں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اورنہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہوگا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا ، مگر جب قیامت کادن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا ( لِٹایا ) جائے گا ۔ وہ ان میں سے کسی ایک ( جانور ) کو بھی گم نہیں پائےگا ۔ ان میں کوئی ( گائے یا بکری ) نہ مڑے سینگوں والی ہوگی ، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی ( سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی ) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی ، ( یہ معاملہ ) اس دن میں ( ہوگا ) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا ، جب پہلا ( جانور ) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا ( جانور واپس ) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا ، اور سے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا ۔ "" عرض کی گئی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" گھوڑے تین طرح کے ہیں : وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں ، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر ( پردہ پوشی کا باعث ) ہیں ۔ تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں ۔ بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاکاری ، فخر وغرور ، اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ ( گناہ ) ہیں ۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ ( اس ) آدمی ( کے گھوڑے ہیں ) جس نے انھیں ( موقع ملنے پر ) اللہ کی راہ میں ( خود جہاد کرنے کے لئے ) باندھ رکھا ہے ، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں ( چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے ) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ ( اس ) آدمی ( کے گھوڑے ہیں ) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے ( اور وہ خود جہاد پر جاسکے یا نہ جاسکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے ) یہ گھوڑے اس چراگاہ یاباغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر ( بھی ) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑواکر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ ( مالک ) ان کو پانی پلانا ( بھی ) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا ۔ "" عرض کی گئی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور گدھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی : فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ ﴿﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ ﴿﴾ "" جو کوئی ایک زرے کی مقداار میں نیکی کرے گا ( قیامت کے دن ) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک زرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:987.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2291
وحدثني يونس بن عبد الأعلى الصدفي، أخبرنا عبد الله بن وهب، حدثني هشام، بن سعد عن زيد بن أسلم، في هذا الإسناد بمعنى حديث حفص بن ميسرة إلى آخره غير أنه قال ‏"‏ ما من صاحب إبل لا يؤدي حقها ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل ‏"‏ منها حقها ‏"‏ ‏.‏ وذكر فيه ‏"‏ لا يفقد منها فصيلا واحدا ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ يكوى بها جنباه وجبهته وظهره ‏"‏ ‏.‏
ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے اسی سند کے ساتھ حفص بن میسرہ کی حدیث کے آخر تک اس کے ہم معنی روایت بیان کی ، البتہ انھوں نے " جو اونٹوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا " کہا : اورمنهاحقها ( اور میں سے ان کا حق ) کے الفاظ نہیں کہے اور انھون نے ( بھی ) اپنی حدیث میں " وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ای بچے کوبھی گم نہ پائے گا " کے الفاظ روایت کئے ہیں اور اسی طرح ( ان سے اس کے پہلو ، پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا کے بجائے ) يكوي بها جنباه وجبهته وظهره ( اس کے دونوں پہلو ، اس کی پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا ) کے الفاظ کہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:987.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2292
وحدثني محمد بن عبد الملك الأموي، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا سهيل، بن أبي صالح عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته إلا أحمي عليه في نار جهنم فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت تستن عليه كلما مضى عليه أخراها ردت عليه أولاها حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب غنم لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت فتطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها ليس فيها عقصاء ولا جلحاء كلما مضى عليه أخراها ردت عليه أولاها حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة مما تعدون ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار ‏"‏ ‏.‏ قال سهيل فلا أدري أذكر البقر أم لا ‏.‏ قالوا فالخيل يا رسول الله قال ‏"‏ الخيل في نواصيها - أو قال - الخيل معقود في نواصيها - قال سهيل أنا أشك - الخير إلى يوم القيامة الخيل ثلاثة فهى لرجل أجر ولرجل ستر ولرجل وزر فأما التي هي له أجر فالرجل يتخذها في سبيل الله ويعدها له فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب الله له أجرا ولو رعاها في مرج ما أكلت من شىء إلا كتب الله له بها أجرا ولو سقاها من نهر كان له بكل قطرة تغيبها في بطونها أجر - حتى ذكر الأجر في أبوالها وأرواثها - ولو استنت شرفا أو شرفين كتب له بكل خطوة تخطوها أجر وأما الذي هي له ستر فالرجل يتخذها تكرما وتجملا ولا ينسى حق ظهورها وبطونها في عسرها ويسرها وأما الذي عليه وزر فالذي يتخذها أشرا وبطرا وبذخا ورياء الناس فذاك الذي هي عليه وزر ‏"‏ ‏.‏ قالوا فالحمر يا رسول الله قال ‏"‏ ما أنزل الله على فيها شيئا إلا هذه الآية الجامعة الفاذة ‏{‏ فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره‏}‏ ‏"‏ ‏.‏
عبدالعزیز بن مختار نے کہا : ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے حدیث سنائی ، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نےکہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" کوئی بھی خزانے کا مالک نہیں جو اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا ، مگر اس کے خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا ، پھر اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے گا ، ( یہ ) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ، پھر اسے جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دکھا دیاجائے گا ۔ اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان ( اونٹوں ) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا جبکہ وہ اونٹ ( تعداد اور جسامت میں ) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے ( وہ ) اس کے اوپر دوڑ لگائیں گے ۔ جب بھی ان میں آ خری اونٹ گزرے گا پہلا اونٹ ، اس پر دوبارہ لایا جائےگا ، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرماد ے گا ۔ ( یہ ) ایک ایسے دن میں ( ہوگا ) جو پچاس ہزار سال کے برابرہوگا ، پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھا دیا جائے گا ۔ اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے وہ وافر ترین حالت میں جس میں وہ تھیں ، ان کے سامنے ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں بچھا ( لٹا ) دیا جائے گا ، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی ۔ ان میں نہ کوئی مڑے سینگوں والی ہوگی اور نہ بغیر سینگوں کے ۔ جب بھی آخری بکری گزرے گی اسی و قت پہلی دوبارہ اس پر لائی جائے گی ۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے ، اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا ۔ پھر اسے جنت کا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دکھایا جائے گا ۔ "" سہیل نے کہا : میں نے نہیں جانتا کہ آپ نے گائے کا تذکرہ فرمایا یا نہیں ۔ صحابہ ( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے ( کا کیا حکم ہے؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" قیامت کے دن تک خیر ، گھوڑوں کی پیشانی میں ہے ۔ ۔ ۔ "" یا فرمایا : "" گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ "" سہیل نے کہا : مجھے شک ہے ۔ ۔ ۔ ( فرمایا ) "" گھوڑے تین قسم کے ہیں ۔ یہ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہیں ، ایک آدمی کے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں ۔ اور ایک کے لئے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں ۔ وہ گھوڑے جو اس ( مالک ) کے لئے اجر ( کا سبب ) ہیں تو ( ان کا مالک ) وہ آدمی ہے جو انھیں اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لئے ) پالتا ہے ۔ اور تیار کرتا ہے تو یہ گھوڑے کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتے مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتاہے ۔ اگر وہ انھیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ کوئی چیز بھی نہیں کھاتے ۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے ۔ اور اگر وہ انھیں کسی نہر سے پانی پلاتا ہے تو پانی کے ہر قطرے کے بدلے جسے وہ اپنے پیٹ میں اتارتے ہیں ۔ اس کے لئے اجر ہے ۔ حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید کرنے میں بھی اجر ملنے کا تذکرہ کیا ۔ ۔ ۔ اور اگر یہ گھوڑے ایک یا دو ٹیلوں ( کافاصلہ ) دوڑیں ۔ تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں ، اجر لکھ دیا جاتا ہے ۔ اور وہ انسان جس کے لئے یہ باعث پردہ ہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور زینت کے طور پر رکھتا ہے ۔ اور وہ تنگی اور آسانی ( ہرحالت ) میں ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں کا حق نہیں بھولتا ۔ رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں ناسپاس گزاری کے طور پر ، غرور اور تکبر کرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ر کھتا ہے تو وہی ہے جس کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کاباعث ہیں ۔ "" لوگوں نے کہا : اے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گدھے ( ان کا کیا حکم ہے؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا : "" تو جو کوئی زرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:987.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2293
وحدثناه قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني الدراوردي - عن سهيل، بهذا الإسناد ‏.‏ وساق الحديث ‏.‏ وحدثنيه محمد بن عبد الله بن بزيع، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا روح بن القاسم، حدثنا سهيل بن أبي صالح، بهذا الإسناد وقال بدل عقصاء عضباء وقال ‏ "‏ فيكوى بها جنبه وظهره ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر جبينه ‏.‏
عبدالعزیز دراوردی نے سہیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور ( پوری ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:987.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2294
وحدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، أن بكيرا، حدثه عن ذكوان، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ إذا لم يؤد المرء حق الله أو الصدقة في إبله ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بنحو حديث سهيل عن أبيه ‏.‏
روح بن قاسم نے کہا : ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورعقصاء ( مرے ہوئے سینگوں والی ) کے بجائےعضباء ( ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ) کہا : اور اس کے زریعے سے اس کا پہلو اور اس کی پشت داغی جائے گی " کہا اور پیشانی کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:987.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2295
بکیرنے ( ابو صالح ) ذکوان سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " جب انسان اپنے اونٹوں میں اللہ کا حق یا زکاۃ ادا نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ " آگے سہیل کی روایت کی طرح حدیث بیا ن کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 0

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2296
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد الرزاق، ح وحدثني محمد بن رافع، - واللفظ له - حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن، عبد الله الأنصاري يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها إلا جاءت يوم القيامة أكثر ما كانت قط وقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها وأخفافها ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها إلا جاءت يوم القيامة أكثر ما كانت وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها إلا جاءت يوم القيامة أكثر ما كانت وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها ليس فيها جماء ولا منكسر قرنها ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا أقرع يتبعه فاتحا فاه فإذا أتاه فر منه فيناديه خذ كنزك الذي خبأته فأنا عنه غني فإذا رأى أن لا بد منه سلك يده في فيه فيقضمها قضم الفحل ‏"‏ ‏.‏ قال أبو الزبير سمعت عبيد بن عمير يقول هذا القول ثم سألنا جابر بن عبد الله عن ذلك فقال مثل قول عبيد بن عمير ‏.‏ وقال أبو الزبير سمعت عبيد بن عمير يقول قال رجل يا رسول الله ما حق الإبل قال ‏"‏ حلبها على الماء وإعارة دلوها وإعارة فحلها ومنيحتها وحمل عليها في سبيل الله ‏"‏ ‏.‏
ابن جریج نے کہا : مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرمارہے تھے : "" کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کے معاملے میں اس طرح نہیں کرتا جس طرح ان کا حق ہے مگر وہ قیامت کے دن اپنی انتہائی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان ( اونٹوں ) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے اگلے قدموں اور اپنے پاؤں سے روندیں گے ۔ اسی طرح کوئی گائے کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر وہ قیامت کے دن اس سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی ۔ اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا ، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور اسی طرح بکریوں کا کوئی مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سموں سے اسے روندیں گی اور ان میں نہ کوئی سینگوں کے بغیر ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی اور کوئی ( سونے چاندی کے ) خزانے کا مالک نہیں جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کاتعاقب کرے گا ، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا ، پھر وہ ( سانپ ) اسے آواز دے گا : اپنا خزانہ لے لو جو تم نے ( دنیامیں ) چھپا کررکھا تھا ۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب ( خزانے والا ) دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس ( سانپ ) کے منہ میں داخل کرے گا ، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح سانڈھ چباتا ہے ۔ "" ابو زبیر نے کہا : میں نے عبید بن عمیر کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ، پھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس ( حدیث ) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسی طرح کہا جس طرح عبید بن عمیر نے کہا ۔ اور ابو زبیر نے کہا : میں نے عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" پانی ( پلانے کاموقع ) پر ان کا دودھ دوہنا ( اور لوگوں کو پلانا ) اور اس کا ڈول ادھار دینا اور اس کا سانڈ ادھار دینا اور اونٹنی کو دودھ پینے کے لئے دینا اور اللہ کی راہ میں سواری کی خاطر دینا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:988.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2297
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد الملك، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي حقها إلا أقعد لها يوم القيامة بقاع قرقر تطؤه ذات الظلف بظلفها وتنطحه ذات القرن بقرنها ليس فيها يومئذ جماء ولا مكسورة القرن ‏"‏ ‏.‏ قلنا يا رسول الله وما حقها قال ‏"‏ إطراق فحلها وإعارة دلوها ومنيحتها وحلبها على الماء وحمل عليها في سبيل الله ولا من صاحب مال لا يؤدي زكاته إلا تحول يوم القيامة شجاعا أقرع يتبع صاحبه حيثما ذهب وهو يفر منه ويقال هذا مالك الذي كنت تبخل به فإذا رأى أنه لا بد منه أدخل يده في فيه فجعل يقضمها كما يقضم الفحل ‏"‏ ‏.‏
عبدالملک نے ابو زبیر سے ، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اونٹوں ، گائے اور بکریوں کا جو بھی مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا تو اسے قیامت کے دن ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائےگا ۔ سموں والا جانور اسے اپنے سموں سے روندے گا اور سینگوں والا اسے اپنے سینگوں سے مارے گا ، ان میں سے اس دن نہ کوئی ( گائے یا بکری ) بغیر سینگ کے ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ہوگی ۔ " ہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کا حق کیا ہے؟آپ نے فرمایا : " ان میں سے نر کو جفتی کے لئے دینا ، ان کا ڈول ادھار دینا ، ان کو دودھ پینے کے لئے دینا ، ان کو پانی کے گھاٹ پر دوہنا ( اور لوگوں کو پلانا ) اور اللہ کی راہ میں سواری کے لئے د ینا ۔ اور جو بھی صاحب مال اسکی زکاۃ ادا نہیں کرتا ۔ تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا ، اس کا مالک جہاں جائے گا وہ اس کے پیچھے لگا رہے گا اور وہ اس سے بھاگے گا ، اسے کہا جائےگا : یہ تیرا وہی مال ہے جس میں تو بخل کیا کرتاتھا ۔ جب وہ د یکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکے منہ میں داخل کرے گا ، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ ( چارے کو ) چباتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:988.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2298
حدثنا أبو كامل، فضيل بن حسين الجحدري حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا محمد بن أبي إسماعيل، حدثنا عبد الرحمن بن هلال العبسي، عن جرير بن عبد الله، قال جاء ناس من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا إن ناسا من المصدقين يأتوننا فيظلموننا ‏.‏ قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ارضوا مصدقيكم ‏"‏ ‏.‏ قال جرير ما صدر عني مصدق منذ سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا وهو عني راض ‏.‏
عبدالواحد بن زیاد نے کہا : ہمیں محمد بن ابی اسماعیل نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : ہمیں عبدالرحمان ہلال بن عبسی نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : کچھ بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : کچھ زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر ظلم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کیاکرو ۔ "" حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو میرے پاس سے جو کوئی زکاۃ وصول کرنے والا گیا ، راضی گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:989.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2299
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، ح وحدثنا محمد، بن بشار حدثنا يحيى بن سعيد، ح وحدثنا إسحاق، أخبرنا أبو أسامة، كلهم عن محمد، بن أبي إسماعيل بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
عبدالرحیم بن سلیمان ، یحییٰ بن سعید اور ابو اسامہ سب نے محمد بن اسماعیل سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ اسی کی طرح حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:989.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2300
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن المعرور بن سويد، عن أبي ذر، قال انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة ‏.‏ فلما رآني قال ‏"‏ هم الأخسرون ورب الكعبة ‏"‏ ‏.‏ قال فجئت حتى جلست فلم أتقار أن قمت فقلت يا رسول الله فداك أبي وأمي من هم قال ‏"‏ هم الأكثرون أموالا إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا - من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله - وقليل ما هم ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي زكاتها إلا جاءت يوم القيامة أعظم ما كانت وأسمنه تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها كلما نفدت أخراها عادت عليه أولاها حتى يقضى بين الناس ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے کہا : اعمش نے ہمیں معرور بن سوید کے حوالے سے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبےکےسائے میں تشریف فرما تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : " رب کعب کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔ " کہا : میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ( ہی تھا ) اور اطمینان سے بیٹھا ہی نہ تھا کہ کھڑا ہوگیا اور میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان وہ کون لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ زیادہ مالدار لوگ ہیں ، سوائے اس کے جس نے ، اپنے آگے ، اپنے پیچھے ، اپنے دائیں ، اپنے بائیں ، ایسے ، ایسے اور ایسے کہا ( لے لو ، لے لو ) اور ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔ جو بھی اونٹوں ، گایوں یابکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اس طرح بڑی اور موٹی ہوکر آئیں گی جتنی زیادہ سےزیادہ تھیں ، اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی جب بھی ان میں سے آخری گزر کر جائے گی ، پہلی اس ( کے سر ) پر واپس آجائے گی حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:990.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2301
وحدثناه أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن المعرور، عن أبي ذر، قال انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة ‏.‏ فذكر نحو حديث وكيع غير أنه قال ‏ "‏ والذي نفسي بيده ما على الأرض رجل يموت فيدع إبلا أو بقرا أو غنما لم يؤد زكاتها ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ نے اعمش سے ، انھوں نے معرور سےاور انھوں نے حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ، آپ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ۔ ۔ ۔ آگے وکیع کی روایت کی طرح ہے ، البتہ ( اس میں ہے کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!زمین پر جو بھی آدمی فوت ہوتا ہے اور ایسے اونٹ ، گائےیا بکریاں پیچھے چھوڑ جاتا ہے جن کی اس نے زکاۃ ادا نہیں کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:990.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2302
حدثنا عبد الرحمن بن سلام الجمحي، حدثنا الربيع، - يعني ابن مسلم - عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ما يسرني أن لي أحدا ذهبا تأتي على ثالثة وعندي منه دينار إلا دينار أرصده لدين على ‏"‏ ‏.‏
ربیع بن مسلم نے محمد بن زیادسے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میرے لئے یہ بات خوشی کاباعث نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن مجھ پر اس طرح آئے کہ میرے پاس اس میں سے کوئی دینار بچا ہوا موجود ہوسوائے اس دینار کے جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لئے رکھ لوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:991.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2303
وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال سمعت أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
شعبہ نے محمد بن زیاد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے سنا ۔ ۔ ۔ اسی کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:991.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2304
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة وابن نمير وأبو كريب كلهم عن أبي معاوية، - قال يحيى أخبرنا أبو معاوية، - عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن أبي، ذر قال كنت أمشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرة المدينة عشاء ونحن ننظر إلى أحد فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا أبا ذر ‏"‏ ‏.‏ قال قلت لبيك يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ ما أحب أن أحدا ذاك عندي ذهب أمسى ثالثة عندي منه دينار إلا دينارا أرصده لدين إلا أن أقول به في عباد الله هكذا - حثا بين يديه - وهكذا - عن يمينه - وهكذا - عن شماله ‏"‏ ‏.‏ قال ثم مشينا فقال ‏"‏ يا أبا ذر ‏"‏ ‏.‏ قال قلت لبيك يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ إن الأكثرين هم الأقلون يوم القيامة إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا ‏"‏ ‏.‏ مثل ما صنع في المرة الأولى قال ثم مشينا قال ‏"‏ يا أبا ذر كما أنت حتى آتيك ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلق حتى توارى عني - قال - سمعت لغطا وسمعت صوتا - قال - فقلت لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض له - قال - فهممت أن أتبعه قال ثم ذكرت قوله ‏"‏ لا تبرح حتى آتيك ‏"‏ ‏.‏ قال فانتظرته فلما جاء ذكرت له الذي سمعت - قال - فقال ‏"‏ ذاك جبريل أتاني فقال من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏ قال قلت وإن زنى وإن سرق قال ‏"‏ وإن زنى وإن سرق ‏"‏ ‏.‏
اعمش نے زید بن وہب سے اور انھوں نے حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ( ایک رات ) عشاء کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کالی پتھریلی زمین پر چل ر ہا تھا اور ہم احد پہاڑ کو دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : " ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!فرمایا : " مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ یہ ( کوہ ) احد میرے پاس سونے کا ہو اور میں اس حالت میں تیسری شام کروں کہ میرے پاس اس میں سے ایک دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جو میں نے قرض ( کی ادائیگی ) کے لئے بچایا ہو ، اور میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح ( خرچ ) کروں ۔ آپ نے اپنے سامنے دونوں ہاتھوں سے بھر کر ڈالنے کا اشارہ کیا ۔ اس طرح ( خرچ ) کروں ۔ دائیں طرف سے ۔ ۔ ۔ اس طرح ۔ ۔ ۔ بائیں طرف سے ۔ ۔ ۔ " ( ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : پھر ہم چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ابو زر! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!آپ نے فرمایا : " یقیناً زیادہ مالدار ہی قیامت کے دن کم ( مایہ ) ہوں گے ، مگر وہ جس نے اس طرح ، اس طرح اور اس طرح ( خرچ ) کیا ۔ " جس طرح آپ نے پہلی بار کیاتھا ۔ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہم پھر چلے ۔ آپ نے فرمایا : " ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! میرے واپس آنے تک اسی حالت میں ٹھہرے رہنا ۔ " کہا : آپ چلے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ میں نے شور سا سنا آواز سنی تو میں نے دل میں کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز پیش آگئی ہے ، چنانچہ میں نے پیچھے جانے کا ارادہ کرلیا پھر مجھے آپ کا یہ فرمان یاد آگیا : " میرے آنے تک یہاں سے نہ ہٹنا " تو میں نے آپ کاانتظار کیا ، جب آپ و اپس تشریف لائے تو میں نے جو ( کچھ ) سنا تھا آپ کو بتایا ۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ جبرائیل علیہ السلام تھے ، میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کی امت کاجو فرد اس حال میں فوت ہوگا کہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتاتھا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ میں نے پوچھا : چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟انھوں نے کہا : چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:94.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2305
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن عبد العزيز، - وهو ابن رفيع - عن زيد بن وهب، عن أبي ذر، قال خرجت ليلة من الليالي فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي وحده ليس معه إنسان قال فظننت أنه يكره أن يمشي معه أحد - قال - فجعلت أمشي في ظل القمر فالتفت فرآني فقال ‏"‏ من هذا ‏"‏ ‏.‏ فقلت أبو ذر جعلني الله فداءك ‏.‏ قال ‏"‏ يا أبا ذر تعاله ‏"‏ ‏.‏ قال فمشيت معه ساعة فقال ‏"‏ إن المكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ‏"‏ ‏.‏ قال فمشيت معه ساعة فقال ‏"‏ اجلس ها هنا ‏"‏ ‏.‏ قال فأجلسني في قاع حوله حجارة فقال لي ‏"‏ اجلس ها هنا حتى أرجع إليك ‏"‏ ‏.‏ قال فانطلق في الحرة حتى لا أراه فلبث عني فأطال اللبث ثم إني سمعته وهو مقبل وهو يقول ‏"‏ وإن سرق وإن زنى ‏"‏ ‏.‏ قال فلما جاء لم أصبر فقلت يا نبي الله جعلني الله فداءك من تكلم في جانب الحرة ما سمعت أحدا يرجع إليك شيئا ‏.‏ قال ‏"‏ ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة فقال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ‏.‏ فقلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم ‏.‏ قال قلت وإن سرق وإن زنى قال نعم ‏.‏ قال قلت وإن سرق وإن زنى قال نعم وإن شرب الخمر ‏"‏ ‏.‏
عبدالعزیز بن رفیع نے زید بن وہب سے اور انھوں نے ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں ایک رات ( گھرسے ) باہر نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جارہے ہیں ، آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں تو میں نے خیال کیا کہ آپ اس بات کو ناپسند کررہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے ، چنانچہ میں چاند کے سائے میں چلنے لگا ، آپ مڑے تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا : " یہ کون ہے؟ " میں نے عرض کی : ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں ، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ابو زر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آجاؤ ۔ " کہا : میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپ نے فرمایا : " بے شک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم ( مایہ ) ہوں گے ، سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا : اور ا نھوں نے اسے دائیں ، بائیں اور آگے ، پیچھے اڑا ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کئے ۔ " میں ایک گھڑی آپ کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہاں بیٹھ جاؤ ۔ " آپ نے مجھے ایک ہموار زمین میں بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : " یہیں بیٹھے رہنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس لوٹ آؤں ۔ " آپ پتھریلے میدان ( حرے ) میں چل پڑے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے ، آپ مجھ سے دور رکے رہے اور زیادہ دیرکردی ، پھر میں نے آپ کی آواز سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرمارہے تھے : " خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو ۔ " جب آپ تشریف لئے آئے تو میں صبر نہ کرسکا میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پر نثار فرمائے!آپ سیاہ پتھروں کے میدان ( حرہ ) کے کنارے کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟میں نے تو کسی کو نہیں سناجو آپ کو جواب دے رہا ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا : اپنی امت کو بشارت دے دیجئے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ میں نے کہا : اے جبرئیل علیہ السلام! چاہے اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟انھوں نےکہا : ہاں!فرمایا : میں نے پھر کہا : خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا : ہاں ۔ میں نے پھر ( تیسری بار ) پوچھا : خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا : ہاں ، خواہ اس نے شراب ( بھی ) پی ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:94.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2306
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن الجريري، عن أبي، العلاء عن الأحنف بن قيس، قال قدمت المدينة فبينا أنا في، حلقة فيها ملأ من قريش إذ جاء رجل أخشن الثياب أخشن الجسد أخشن الوجه فقام عليهم فقال بشر الكانزين برضف يحمى عليه في نار جهنم فيوضع على حلمة ثدى أحدهم حتى يخرج من نغض كتفيه ويوضع على نغض كتفيه حتى يخرج من حلمة ثدييه يتزلزل قال فوضع القوم رءوسهم فما رأيت أحدا منهم رجع إليه شيئا - قال - فأدبر واتبعته حتى جلس إلى سارية فقلت ما رأيت هؤلاء إلا كرهوا ما قلت لهم ‏.‏ قال إن هؤلاء لا يعقلون شيئا إن خليلي أبا القاسم صلى الله عليه وسلم دعاني فأجبته فقال ‏"‏ أترى أحدا ‏"‏ ‏.‏ فنظرت ما على من الشمس وأنا أظن أنه يبعثني في حاجة له فقلت أراه ‏.‏ فقال ‏"‏ ما يسرني أن لي مثله ذهبا أنفقه كله إلا ثلاثة دنانير ‏"‏ ‏.‏ ثم هؤلاء يجمعون الدنيا لا يعقلون شيئا ‏.‏ قال قلت ما لك ولإخوتك من قريش لا تعتريهم وتصيب منهم ‏.‏ قال لا وربك لا أسألهم عن دنيا ولا أستفتيهم عن دين حتى ألحق بالله ورسوله ‏.‏
ابو علاء نے حضرت احنف بن قیس ؒسے روایت کی انھوں نے کہا : میں مدینہ آیا تو میں قریشی سر داروں کے ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کھردرے کپڑوں گٹھے ہو ئے جسم اور سخت چہرے والا ایک آدمی آیا اور ان کے سر پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ۔ مال و دولت جمع کرنے والوں کو اس تپتے ہو ئے پتھر کی بشارت سنا دو جس کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جا ئے گا اور اسے ان کے ایک فرد کی نو ک پستان پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کی باریک ہڈیوں سے لہراتا ہوا نکل جا ئے گا اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جا ئے گا حتیٰ کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکل جا ئے گا ۔ ( احنف نے ) کہا : اس پر لو گوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ اسے کو ئی جواب دیا ہو کہا پھر وہ لو ٹا اور میں نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ وہ ایک ستون کے ساتھ ( ٹیک لگا کر ) بیٹھ گیا میں نے کہا : آپ نے انھیں جو کچھ کہا ہے میں نے انھیں اس کو نا پسند کرتے ہو ئے ہی دیکھا ہے انھوں نے کہا : یہ لو گ کچھ سمجھتے نہیں میرے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا میں نے لبیک کہا تو آپ نے فر ما یا : " کیا تم احد ( پہاڑ ) کو دیکھتے ہو؟ میں نے دیکھا کہ مجھ پر کتنا سورج باقی ہے میں سمجھ رہا تھا کہ آپ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چا ہتے ہیں چنا نچہ میں نے عرض کی میں اسے دیکھ رہا ہوں تو آپ نے فر مایا : " میرے لیے یہ بات باعث مسرت نہ ہو گی کہ میرے پا س اس کے برا برا سونا ہو اور میں تین دیناروں کے سوا اس سارے ( سونے ) کو خرچ ( بھی ) کر ڈالوں ۔ پھر یہ لو گ ہیں دنیا جمع کرتے ہیں کچھ عقل نہیں کرتے ۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنے ( حکمران ) قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے آپ اپنی ضرورت کے لیے نہ ان کے پاس جا تے ہیں اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں تمھا رے پرودیگار کا قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کو ئی چیز مانگوں گا نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلے کے بارے میں پو چھوں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:992.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2307
وحدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا أبو الأشهب، حدثنا خليد العصري، عن الأحنف، بن قيس قال كنت في نفر من قريش فمر أبو ذر وهو يقول بشر الكانزين بكى في ظهورهم يخرج من جنوبهم وبكى من قبل أقفائهم يخرج من جباههم ‏.‏ - قال - ثم تنحى فقعد ‏.‏ - قال - قلت من هذا قالوا هذا أبو ذر ‏.‏ قال فقمت إليه فقلت ما شىء سمعتك تقول قبيل قال ما قلت إلا شيئا قد سمعته من نبيهم صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال قلت ما تقول في هذا العطاء قال خذه فإن فيه اليوم معونة فإذا كان ثمنا لدينك فدعه‏.‏
خلید العصری نے حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؒ سے روایت کی انھوں نے کہا میں قریش کی ایک جماعت میں مو جو د تھا کہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہو ئے گزرے : مال جمع کرنے والوں کو ( آگ کے ) ان داغوں کی بشارت سنا دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جا ئیں گے اور ان کے پہلوؤں سے نکلیں گے اور ان داغوں کی جو ان کی گدیوں کی طرف سے لگا ئے جا ئیں گے اور ان کی پیشا بیوں سے نکلیں گے کہا : پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پو چھا یہ صاحب کو ن ہیں ؟ لو گوں نے بتا یا یہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پا س چلا گیا اور پو چھا کیا با ت تھی تھوڑی دیر پہلے میں نے سنی آپ کہہ رہے تھے ؟انھوں نے جواب دیا میں نے اس بات کے سوا کچھ نہیں کہا جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ۔ کہا میں نے پو چھا ( حکومت سے ملنے والے ) عطیے ( وظیفے ) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا اسے لے لو کیونکہ آ ج یہ معونت ( مدد ) سے اور جب یہ تمھا رے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:992.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2308
حدثني زهير بن حرب، ومحمد بن عبد الله بن نمير، قالا حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قال الله تبارك وتعالى يا ابن آدم أنفق أنفق عليك ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ يمين الله ملأى - وقال ابن نمير ملآن - سحاء لا يغيضها شىء الليل والنهار ‏"‏ ‏.‏
زہیر بن حرب اور محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے کہا : سفیان بن عیینہ نے ہمیں ابو زنا د سے حدیث بیان کی انھوں نے اعراج سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی وہ اس ( سلسلہ سند ) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جا تے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "" اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا ہے اے آدم کے بیٹے !تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا ۔ اور آپ نے فر ما یا : "" اللہ کا دایاں ہاتھ ( اچھی طرح ) بھرا ہوا ہے ۔ ابن نمیر نے ملاي کے بجا ئے ملان ( کا لفظ ) کہا ۔ ۔ اس کا فیض جا ری رہتا ہے دن ہو یا را ت کو ئی چیز اس میں کمی نہیں کرتی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:993.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2309
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق بن همام، حدثنا معمر بن راشد، عن همام بن منبه، أخي وهب بن منبه قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها ‏.‏ وقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الله قال لي أنفق أنفق عليك ‏"‏ ‏.‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يمين الله ملأى لا يغيضها سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق مذ خلق السماء والأرض فإنه لم يغض ما في يمينه ‏"‏ ‏.‏ قال ‏"‏ وعرشه على الماء وبيده الأخرى القبض يرفع ويخفض ‏"‏ ‏.‏
(وہب بن منبہ کے بھا ئی ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہا : یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں پھر انھوں نے چند احادیث بیان کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اللہ تعا لیٰ نے مجھ سے کہا ہے خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اللہ کا دا یا ں ہاتھ بھرا ہوا دن رات عطا کی بارش برسانے والا ہے اس میں کو ئی چیز کمی نہیں کرتی ۔ کیا تم نے دیکھا آسمان و زمین کی تخلیق سے لے کر ( اب تک ) اس نے کتنا خرچ کیا ہے ؟جو کچھ اس کے دا ئیں ہا تھ میں ہے اس ( عطا ) نے اس میں کو ئی کمی نہیں کی ۔ آپ نے فر ما یا : اس کا عرش پا نی پر ہے اس کے دوسرے ہا تھ میں قبضہ ( یا واپسی کی قوت ) ) ہے وہ ( جسے چا ہتا ہے ) بلند کرتا ہے اور ( جسے چا ہتا ہے ) پست کرتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:993.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2310
حدثنا أبو الربيع الزهراني، وقتيبة بن سعيد، كلاهما عن حماد بن زيد، - قال أبو الربيع حدثنا حماد، - حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عن أبي أسماء، عن ثوبان، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أفضل دينار ينفقه الرجل دينار ينفقه على عياله ودينار ينفقه الرجل على دابته في سبيل الله ودينار ينفقه على أصحابه في سبيل الله ‏"‏ ‏.‏ قال أبو قلابة وبدأ بالعيال ثم قال أبو قلابة وأى رجل أعظم أجرا من رجل ينفق على عيال صغار يعفهم أو ينفعهم الله به ويغنيهم ‏.‏
ابو قلابہ نے ابو اسماء ( رحبی ) سے اور انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " بہترین دینار جسے انسان خرچ کرتا ہے وہ دینا ر ہے جسے وہ اپنے اہل و عیالپر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار ہے جسے انسان اللہ کی را ہ میں ( جہاد کرنے کے لیے ) اپنے جا نور ( سواری ) پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینا ر ہے جسے وہ اللہ کے را ستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے ۔ پھر ابو قلابہ نے کہا : آپ نے اہل و عیال سے ابتدا فر ما ئی پھر ابو قلا بہ نے کہا : اجر میں اس آدمی سے بڑھ کر کو ن ہو سکتا ہے جو چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ ان کو ( سوال کی ) ذلت سے بچاتا ہے یا اللہ اس کے ذریعے سے انھیں فائدہ پہنچاتا ہے اور غنی کرتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:994

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2311
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالوا حدثنا وكيع، عن سفيان، عن مزاحم بن زفر، عن مجاهد، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ دينار أنفقته في سبيل الله ودينار أنفقته في رقبة ودينار تصدقت به على مسكين ودينار أنفقته على أهلك أعظمها أجرا الذي أنفقته على أهلك ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا " ( جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے ) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دیناروہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن ( کی آزادی ) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:995

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2312
حدثنا سعيد بن محمد الجرمي، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الملك بن أبجر الكناني، عن أبيه، عن طلحة بن مصرف، عن خيثمة، قال كنا جلوسا مع عبد الله بن عمرو إذ جاءه قهرمان له فدخل فقال أعطيت الرقيق قوتهم قال لا ‏.‏ قال فانطلق فأعطهم ‏.‏ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كفى بالمرء إثما أن يحبس عمن يملك قوته ‏"‏ ‏.‏
خیثمہ سے روایت ہے کہا : ہم حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے کہ اچا نک ان کا کا رندہ ( مینیجر ) ان کے پاس آیا وہ اندر داخل ہوا تو انھوں نے پو چھا : ( کیا ) تم نے غلا موں کو ان کا روزینہ دے دیا ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں انھوں نے کہا : جا ؤ انھیں دو ۔ ( کیونکہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کا فی ہے کہ وہ جن کی خوراک کا مالک ہے انھیں نہ دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:996

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2313
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن أبي الزبير، عن جابر، قال أعتق رجل من بني عذرة عبدا له عن دبر، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقال ‏"‏ ألك مال غيره ‏"‏ ‏.‏ فقال لا ‏.‏ فقال ‏"‏ من يشتريه مني ‏"‏ ‏.‏ فاشتراه نعيم بن عبد الله العدوي بثمانمائة درهم فجاء بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فدفعها إليه ثم قال ‏"‏ ابدأ بنفسك فتصدق عليها فإن فضل شىء فلأهلك فإن فضل عن أهلك شىء فلذي قرابتك فإن فضل عن ذي قرابتك شىء فهكذا وهكذا ‏"‏ ‏.‏ يقول فبين يديك وعن يمينك وعن شمالك ‏.‏
لیث نے ہمیں ابو زبیر سے خبر دی اور انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ۔ انھوں نے کہا : بنو عذرہ کے ایک آدمی نے ایک غلام کو اپنے بعد آزادی دی ( کہ میرے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو گا ) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے پو چھا : کیا تمھا رے پاس اس کے علاوہ بھی کو ئی مال ہے ؟اس نے کہا : نہیں اس پر آپ نے فر ما یا : " اس ( غلام ) کو مجھ سے کو ن خریدے گا ؟ تو اسے نعیم بن عبد اللہ عدوی نے آٹھ سو ( 800 ) درہم میں خرید لیا اور درہم لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیے ۔ اس کے بعد آپ نے فر ما یا : " اپنے آپ سے ابتدا کرو خود پر صدقہ کرو اگر کچھ بچ جا ئے تو تمھا رے گھروالوں کے لیے ہے اگر تمھا رے گھروالوں سے کچھ بچ جا ئے تو تمھا رے قرابت داروں کے لیے ہے اور اگر تمھارے قرابت داروں سے کچھ بچ جا ئے تو اس طرف اور اس طرف خرچ کرو ۔ ( راوی نے کہا : ) آپ اشارے سے کہہ رہے تھے کہ اپنے سامنے اپنے دائیں اور اپنے بائیں ( خرچ کرو ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:997.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2314
وحدثني يعقوب بن إبراهيم الدورقي، حدثنا إسماعيل، - يعني ابن علية - عن أيوب، عن أبي الزبير، عن جابر، أن رجلا، من الأنصار - يقال له أبو مذكور - أعتق غلاما له عن دبر يقال له يعقوب وساق الحديث بمعنى حديث الليث ‏.‏
ایوب نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ انصار میں سے ابو مذکور نامی ایک آدمی نے اپنے غلام کو جسے یعقوب کہا جا تاتھا ، اپنے مرنے پر آزاد کے بعد آزاد قرار دیا ۔ ۔ ۔ آگے انھوں نے لیث کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:997.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2315
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن إسحاق بن عبد الله بن أبي، طلحة أنه سمع أنس بن مالك، يقول كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة مالا وكان أحب أمواله إليه بيرحى وكانت مستقبلة المسجد وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب ‏.‏ قال أنس فلما نزلت هذه الآية ‏{‏ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إن الله يقول في كتابه ‏{‏ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ وإن أحب أموالي إلى بيرحى وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله فضعها يا رسول الله حيث شئت ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بخ ذلك مال رابح ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها وإني أرى أن تجعلها في الأقربين ‏"‏ ‏.‏ فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه ‏.‏
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ فرما رہے تھے : ابو طلحہ مدینہ میں کسی بھی انصاری سے زیادہ مالدار تھے ، ان کے مال میں سے بیرحاء والا باغ انھیں سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا عمدہ پانی نوش فرماتے ۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی : "" تم نیکی حاصل نہیں کرسکوگے جب تک ا پنی محبوب چیز ( اللہ کی راہ میں ) خرچ نہ کرو گے ۔ "" ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی : اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ : تم نیکی حاصل نہیں کرسکو گے حتیٰ کہ ا پنی پسندیدہ چیز ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو ۔ "" مجھے اپنے اموال میں سے سب سے زیادہ بیرحاء پسند ہے اور وہ اللہ کے لئے صدقہ ہے ، مجھے اس کے اچھے بدلے اور اللہ کے ہاں ذخیرہ ( کے طور پر محفوظ ) ہوجانے کی امید ہے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اسے جہاں چاہیں رکھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بہت خوب ، یہ سود مند مال ہے ، یہ نفع بخش مال ہے ، جو تم نے اس کے بارے میں کہا میں نے سن لیا ہے اور میری رائے یہ ہےکہ تم اسے ( اپنے ) قرابت داروں کو دے دو ۔ "" توابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:998.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2316
حدثني محمد بن حاتم، حدثنا بهز، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أنس، قال لما نزلت هذه الآية ‏{‏ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ قال أبو طلحة أرى ربنا يسألنا من أموالنا فأشهدك يا رسول الله أني قد جعلت أرضي بريحا لله ‏.‏ قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اجعلها في قرابتك ‏"‏ ‏.‏ قال فجعلها في حسان بن ثابت وأبى بن كعب ‏.‏
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی؛ " تم نیکی ( کی حقیقی لذت ) حاصل نہیں کرسکو گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز ( اللہ کی راہ میں ) صرف کردو ۔ " ( تو ) ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں اپنے پروردیگار کو دیکھتا ہوں کہ وہ ہم سے مال کا مطالبہ کررہا ہے ، لہذا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین بیرحاء اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کردی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اسے ا پنے رشتہ داروں کو دے دو ۔ " تو انھوں نے وہ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دے دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:998.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2317
حدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو، عن بكير، عن كريب، عن ميمونة بنت الحارث، أنها أعتقت وليدة في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ لو أعطيتها أخوالك كان أعظم لأجرك ‏"‏ ‏.‏
(ام المومنین ) حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی ایک لونڈی کو آزاد کیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر تم اسے اپنے ماموؤں کو دے دیتیں تو یہ ( کام ) تمھارے اجر کو بڑا کردیتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:999

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2318
حدثنا حسن بن الربيع، حدثنا أبو الأحوص، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن الحارث، عن زينب، امرأة عبد الله قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تصدقن يا معشر النساء ولو من حليكن ‏"‏ ‏.‏ قالت فرجعت إلى عبد الله فقلت إنك رجل خفيف ذات اليد وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمرنا بالصدقة فأته فاسأله فإن كان ذلك يجزي عني وإلا صرفتها إلى غيركم ‏.‏ قالت فقال لي عبد الله بل ائتيه أنت ‏.‏ قالت فانطلقت فإذا امرأة من الأنصار بباب رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجتي حاجتها - قالت - وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ألقيت عليه المهابة - قالت - فخرج علينا بلال فقلنا له ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره أن امرأتين بالباب تسألانك أتجزي الصدقة عنهما على أزواجهما وعلى أيتام في حجورهما ولا تخبره من نحن - قالت - فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من هما ‏"‏ ‏.‏ فقال امرأة من الأنصار وزينب ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أى الزيانب ‏"‏ ‏.‏ قال امرأة عبد الله ‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لهما أجران أجر القرابة وأجر الصدقة ‏"‏ ‏.‏
ابواحوص نے اعمش سے حدیث بیان کی ، انھوں نے ابو وائل سے ، انھوں نے عمرو بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( بن مسعود ) کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( بنت عبداللہ بن ابی معاویہ ) سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، اگرچہ اپنے زیورات سے ہی کیوں نہ ہو ۔ " کہا : تو میں ( اپنے خاوند ) عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئی اور کہا : تم کم مایا آدمی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے ، لہذا تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ سے پوچھ لو اگراس ( کو تمھیں دینے ) سے میری طرف سے ادا ہوجائےگا ( تو ٹھیک ) ورنہ میں اے تمھارے علاوہ دوسروں کی طرف بھیج دو گی ، کہا : تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا : بلکہ تم خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی جاؤ ۔ انھوں نے کہا : میں گئی تو اس وقت ایک اور انصاری عورت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی تھی اور ( مسئلہ دریافت کرنے کے حوالے سے ) اسکی ضرورت بھی وہی تھی جو میری تھی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت عطا کی گئی تھی ۔ کہا : بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکل کر ہماری طرف آئے تو ہم نے ان سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کے درواز ے پر دو عور تیں ہیں آپ سے پوچھ رہی ہیں کہ ان کی طرف سے ان کے خاوندوں اور ان یتیم بچوں پر جوا ن کی کفالت میں ہیں ، صدقہ جائز ہے؟اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نہ بتاناکہ ہم کون ہیں ۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : وہ دونوں کون ہیں؟ " انھوں نے کہا : ایک انصاری عورت ہے اور ایک زینب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : " زینبوں میں سے کون سی؟ " انھوں نے کہا : عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا : " ان کے لئے دو اجر ہیں : ( ایک ) قرابت نبھانے کا اجر اور ( دوسرا ) صدقہ کرنے کا اجر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1000.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2319
حدثني أحمد بن يوسف الأزدي، حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثني شقيق، عن عمرو بن الحارث، عن زينب، امرأة عبد الله ‏.‏ قال فذكرت لإبراهيم فحدثني عن أبي عبيدة عن عمرو بن الحارث عن زينب امرأة عبد الله ‏.‏ بمثله سواء قال قالت كنت في المسجد فرآني النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ تصدقن ولو من حليكن ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بنحو حديث أبي الأحوص ‏.‏
عمر بن حفص بن غیاث نے اپنے والد سے ، انھوں نے اعمش سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی ۔ ( اعمش نے ) کہا : میں نے ( یہ حدیث ) ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انھوں نے مجھے ابو عبیدہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عمرو بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، بالکل اسی ( مذکوہ بالا روایت ) کے مانند ، اور کہا : انھوں ( زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نےکہا : میں مسجد میں تھی ( اس دروازے پر جو مسجد میں تھا ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بتانے پر ) مجھے دیکھا تو فرمایا : " صدقہ کرو ، چاہے اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ ہو ۔ " اعمش نے باقی حدیث ابواحوص کی ( مذکورہ بالا ) روایت کے ہم معنی بیان کی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1000.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2320
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، حدثنا هشام، عن أبيه، عن زينب بنت أبي سلمة، عن أم سلمة، قالت قلت يا رسول الله هل لي أجر في بني أبي سلمة أنفق عليهم ولست بتاركتهم هكذا وهكذا إنما هم بني ‏.‏ فقال ‏ "‏ نعم لك فيهم أجر ما أنفقت عليهم ‏"‏ ‏.‏
ابواسامہ نے کہا : ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے و الد سے حدیث بیان کی ، انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پر خرچ کرنے میں میرے لئے اجر ہے؟میں ان پر خرچ کر تی ہوں ، میں انھیں ایسے ، ایسے چھوڑنے والی نہیں ہوں ، وہ میرے بچے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں ، تمھارے لئے ان میں ، جو تم ان پر خرچ کروگی ، اجر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1001.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2321
وحدثني سويد بن سعيد، حدثنا علي بن مسهر، ح وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد قالا أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، جميعا عن هشام بن عروة، في هذا الإسناد بمثله ‏.‏
علی بن مسہر اور معمر ( راشد ) دونوں نے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے اسی کے مانند ر وایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1001.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2322
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عدي، - وهو ابن ثابت - عن عبد الله بن يزيد، عن أبي مسعود البدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن المسلم إذا أنفق على أهله نفقة وهو يحتسبها كانت له صدقة ‏"‏ ‏.‏
عبیداللہ بن معاذ عنبری کے والد نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عبداللہ بن یزید سے ، انھوں نے حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مسلمان جب اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے اور اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1002.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2323
وحدثناه محمد بن بشار، وأبو بكر بن نافع كلاهما عن محمد بن جعفر، ح وحدثناه أبو كريب، حدثنا وكيع، جميعا عن شعبة، في هذا الإسناد ‏.‏
محمد بن جعفر اور وکیع دونوں نے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ شعبہ سے یہی حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1002.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2324
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن أسماء، قالت قلت يا رسول الله إن أمي قدمت على وهى راغبة - أو راهبة - أفأصلها قال ‏ "‏ نعم ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن ادریس نے ہشام بن عروہ سے ، انھوں نے اپنے والد سے ، اور انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدہ میرے پاس آئی ہیں اور ( صلہ رحمی کی ) خواہش مند ہیں ۔ یا ( خالی ہاتھ واپسی سے ) خائف ہیں ۔ کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1003.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2325
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن أسماء بنت أبي بكر، قالت قدمت على أمي وهي مشركة في عهد قريش إذ عاهدهم فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله قدمت على أمي وهى راغبة أفأصل أمي قال ‏ "‏ نعم صلي أمك ‏"‏ ‏.‏
ہشام کے ایک اور شاگرد ابو اسامہ نے اسی سند کے ساتھ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا قریش کے ساتھ معاہدے کے زمانے میں ، جب آپ نے ان سے معاہدہ صلح کیا تھا ، میری والدہ آئیں ، وہ مشرک تھیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور ( مجھ سے صلہ رحمی کی ) اُمید رکھتی ہیں تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں ، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1003.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2326
وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن رجلا، أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن أمي افتلتت نفسها ولم توص وأظنها لو تكلمت تصدقت أفلها أجر إن تصدقت عنها قال ‏ "‏ نعم ‏"‏.‏
محمد بن بشر نے کہا : ہم سے ہشام نے اپنے والد کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث بیان کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ اچانک وفات پاگئی ہیں اور انھوں نے کوئی وصیت نہیں کی ، میرا ان کے بارے میں گمان ہے کہ اگر بولتیں تو وہ ضرور صدقہ کرتیں ، اگر ( اب ) میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انھیں اجر ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1004.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2327
وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا يحيى بن سعيد، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، ح وحدثني علي بن حجر، أخبرنا علي بن مسهر، ح حدثنا الحكم بن موسى، حدثنا شعيب بن إسحاق، كلهم عن هشام، بهذا الإسناد ‏.‏ وفي حديث أبي أسامة ولم توص ‏.‏ كما قال ابن بشر ولم يقل ذلك الباقون ‏.‏
یحییٰ بن سعید ، ابو اسامہ علی بن مسہر اور شعیب بن اسحاق سب نے ہشام سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ ( اسی کی طرح ) روایت بیان کی ۔ ابو اسامہ کی حدیث میں ولم توص ( اس نے وصیت نہیں کی ) کے الفاظ ہیں ، جس طرح ابن بشر نے کہا ہے ۔ ( جبکہ ) باقی راویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1004.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2328
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عباد بن العوام، كلاهما عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي بن حراش، عن حذيفة، في حديث قتيبة قال قال نبيكم صلى الله عليه وسلم وقال ابن أبي شيبة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ كل معروف صدقة ‏"‏ ‏.‏
قتیبہ بن سعید اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی اپنی سند کے ساتھ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی ۔ قتیبہ کی حدیث میں ہے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ابن ابی شیبہ نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے ۔ ۔ ۔ " ہر نیکی صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1005

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2329
حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا واصل، مولى أبي عيينة عن يحيى بن عقيل، عن يحيى بن يعمر، عن أبي الأسود الديلي، عن أبي، ذر أن ناسا، من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم يا رسول الله ذهب أهل الدثور بالأجور يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم ويتصدقون بفضول أموالهم ‏.‏ قال ‏"‏ أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون إن بكل تسبيحة صدقة وكل تكبيرة صدقة وكل تحميدة صدقة وكل تهليلة صدقة وأمر بالمعروف صدقة ونهى عن منكر صدقة وفي بضع أحدكم صدقة ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا رسول الله أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر قال ‏"‏ أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !زیادہ مال رکھنے والے اجر وثواب لے گئے وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے ضرورت سے زائد مالوں سے صدقہ کرتے ہیں ( جو ہم نہیں کرسکتے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے ایسی چیز نہیں بنائی جس سے تم صدقہ کرسکو؟بے شک ہر دفعہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ، ہر دفعہ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے ۔ ہر دفعہ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے ، ہردفعہ لا الٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے ، نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور بُرائی سے ر وکنا صدقہ ہے اور ( بیوی سے مباشرت کرتے ہوئے ) تمھارے عضو میں صدقہ ہے ۔ " صحابہ کرام نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا ااس میں بھی اجر ملتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بتاؤ اگر وہ یہ ( خواہش ) حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس گناہ ہوتا؟اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اجر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1006

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 66

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2330
حدثنا حسن بن علي الحلواني، حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع، حدثنا معاوية، - يعني ابن سلام - عن زيد، أنه سمع أبا سلام، يقول حدثني عبد الله بن فروخ، أنه سمع عائشة، تقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إنه خلق كل إنسان من بني آدم على ستين وثلاثمائة مفصل فمن كبر الله وحمد الله وهلل الله وسبح الله واستغفر الله وعزل حجرا عن طريق الناس أو شوكة أو عظما عن طريق الناس وأمر بمعروف أو نهى عن منكر عدد تلك الستين والثلاثمائة السلامى فإنه يمشي يومئذ وقد زحزح نفسه عن النار ‏"‏ ‏.‏ قال أبو توبة وربما قال ‏"‏ يمسي ‏"‏ ‏.‏
ابوتوبہ ر بیع بن نافع نے بیان کیا ، کہا : ہمیں معاویہ بن سلام نے زید سے حدیث بیان کی کہ انھوں نے ابو سلام کو بیان کرتے ہوئے سنا ، وہ کہہ رہے تھے مجھے عبداللہ بن فروخ نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ مفاصل ( جوڑوں ) پر پیدا کیاگیا ہے تو جس نے تکبیر کہی ، اللہ کی حمد کہی ، اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا ، اللہ کی تسبیح کہی ، اللہ سے مغفرت مانگی ، لوگوں کے راستے سے کوئی پتھر ہٹایا لوگوں کے راستے سے کانٹا یا ہڈی ( ہٹائی ) ، نیکی کا حکم دیا یا برائی سے روکا ، ان تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد ے برابر تو وہ اس دن اس طرح چلے گا کہ وہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے دور کرچکا ہوگا ۔ "" ابو توبہ نے کہا : بسا اوقات انھوں ( معاویہ ) نے ( يمشي "" چلے گا "" کے بجائے ) يمسي ( شام یا دن کا اختتام کرے گا ) کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1007.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2331
وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا يحيى بن حسان، حدثني معاوية، أخبرني أخي، زيد بهذا الإسناد ‏.‏ مثله غير أنه قال ‏"‏ أو أمر بمعروف ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ فإنه يمسي يومئذ ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن حسان نے کہا : ہمیں معاویہ ( بن سلام ) نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : مجھے زید کے بھائی نے اسی سندکے ساتھ اسی ( سابقہ حدیث ) کی مانند خبر دی مگر انھوں نے کہا : " اوامربالمعروف ( اور کی بجائے ) یا نیکی کاحکم دیا " اور کہا : فانه يمسي يومئذ " وہ اس دن اس حالت میں شام کرے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1007.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 68

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2332
وحدثني أبو بكر بن نافع العبدي، حدثنا يحيى بن كثير، حدثنا علي، - يعني ابن المبارك - حدثنا يحيى، عن زيد بن سلام، عن جده أبي سلام، قال حدثني عبد الله، بن فروخ أنه سمع عائشة، تقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خلق كل إنسان ‏"‏ ‏.‏ بنحو حديث معاوية عن زيد ‏.‏ وقال ‏"‏ فإنه يمشي يومئذ ‏"‏ ‏.‏
حییٰ نے زید بن سلام سے اور انھوں نے اپنے دادا ابو سلام سے روایت کی ، انھوں نے کہا : مجھے عبداللہ بن فروخ نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہر انسان کو پیدا کیا گیا ہے ۔ ۔ " آگے زید سے معاویہ کی روایت کے مانند بیان کیا اور کہا : " فانه يمشي يومئيذ تو وہ اس دن چلے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1007.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 69

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2333
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، عن شعبة، عن سعيد بن أبي، بردة عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ على كل مسلم صدقة ‏"‏ ‏.‏ قيل أرأيت إن لم يجد قال ‏"‏ يعتمل بيديه فينفع نفسه ويتصدق ‏"‏ ‏.‏ قال قيل أرأيت إن لم يستطع قال ‏"‏ يعين ذا الحاجة الملهوف ‏"‏ ‏.‏ قال قيل له أرأيت إن لم يستطع قال ‏"‏ يأمر بالمعروف أو الخير ‏"‏ ‏.‏ قال أرأيت إن لم يفعل قال ‏"‏ يمسك عن الشر فإنها صدقة ‏"‏ ‏.‏
ابو اسامہ نے شعبہ سے ، انھوں نے سعید بن ابی بردہ سے ، انھوں نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا ( ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے " کہا گیا : آپ کا کیا خیال ہے اگراسے ( صدقہ کرنے کے لئے کوئی چیز ) نہ ملے؟فرمایا : " اپنے ہاتھوں سے کام کرکے ا پنے آپ کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ ( بھی ) کرے ۔ " اس نے کہا : عرض کی گئی ، آپ کیا فرماتے ہیں اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے؟فرمایا : " بے بس ضرورت مند کی مدد کرے ۔ " کہا ، آپ سے کہا گیا : دیکھئے!اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھے؟فرمایا : " نیکی یا بھلائی کاحکم دے ۔ " کہا : دیکھئے اگر وہ ایسا بھی نہ کرسکے؟فرمایا : " وہ ( اپنے آپ کو ) شر سے روک لے ، یہ بھی صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1008.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 70

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2334
وحدثناه محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، بهذا الإسناد.‏
عبدالرحمان بن مہدی نے کہا : ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ ( یہی ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1008.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 71

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2335
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق بن همام، حدثنا معمر، عن همام بن، منبه قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن محمد، رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كل سلامى من الناس عليه صدقة كل يوم تطلع فيه الشمس - قال - تعدل بين الاثنين صدقة وتعين الرجل في دابته فتحمله عليها أو ترفع له عليها متاعه صدقة - قال - والكلمة الطيبة صدقة وكل خطوة تمشيها إلى الصلاة صدقة وتميط الأذى عن الطريق صدقة ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے روایت کی ، کہا : یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیں ۔ انھوں نے کچھ احادیث بیا ن کیں ان میں سے یہ بھی ہے : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "" لوگوں کے ہر جوڑ پر ہر روز ، جس میں سورج طلوع ہوتاہے ، صدقہ ہے ۔ "" فرمایا : تم دو ( آدمیوں ) کے درمیان عدل کرو ( یہ ) صدقہ ہے ۔ اور تمھارا کسی آدمی کی ، اس کے جانور کے متعلق مدد کرناکہ اسے اس پر سوار کرادو یا اس کی خاطر سواری پر اس کا سامان اٹھا کر رکھو ، ( یہ بھی ) صدقہ ہے ۔ "" فرمایا : "" اچھی بات صدقہ ہے اور ہر قدم جس سے تم مسجد کی طرف چلتے ہو ، صدقہ ہے اور تم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو ( یہ بھی ) صدقہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1009

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 72

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2336
وحدثني القاسم بن زكريا، حدثنا خالد بن مخلد، حدثني سليمان، - وهو ابن بلال - حدثني معاوية بن أبي مزرد، عن سعيد بن يسار، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان فيقول أحدهما اللهم أعط منفقا خلفا ‏.‏ ويقول الآخر اللهم أعط ممسكا تلفا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، انھو ں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کوئی دن نہیں جس میں بندے صبح کرتے ہیں مگر ( اس میں آسمان سے ) دو فرشتے اترتے ہیں ، ان میں سے ایک کہتاہے : اے اللہ!خرچ کرنے والے کو ( بہترین ) بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ! روکنے والے کا ( مال ) تلف کردے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1010

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 73

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2337
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن، نمير قالا حدثنا وكيع، حدثنا شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، - واللفظ له - حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن معبد بن خالد، قال سمعت حارثة بن وهب، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ تصدقوا فيوشك الرجل يمشي بصدقته فيقول الذي أعطيها لو جئتنا بها بالأمس قبلتها فأما الآن فلا حاجة لي بها ‏.‏ فلا يجد من يقبلها ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، انھو ں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کوئی دن نہیں جس میں بندے صبح کرتے ہیں مگر ( اس میں آسمان سے ) دو فرشتے اترتے ہیں ، ان میں سے ایک کہتاہے : اے اللہ!خرچ کرنے والے کو ( بہترین ) بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ! روکنے والے کا ( مال ) تلف کردے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1011

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 74

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2338
وحدثنا عبد الله بن براد الأشعري، وأبو كريب محمد بن العلاء قالا حدثنا أبو أسامة عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليأتين على الناس زمان يطوف الرجل فيه بالصدقة من الذهب ثم لا يجد أحدا يأخذها منه ويرى الرجل الواحد يتبعه أربعون امرأة يلذن به من قلة الرجال وكثرة النساء ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية ابن براد ‏"‏ وترى الرجل ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن براداشعری اور ابو کریب محمد بن علاء دو نوں نے کہا : ہمیں ابو اسامہ نے برید سے حدیث بیا ن کی ، انھوں نے ابو بردہ سے انھوں نے حضرت موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ نے فر ما یا : " لو گوں پر یقیناً ایسا وقت آئے گا جس میں آدمی سونے کا صدقہ لے کر گھومے گا پھر اسے کو ئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے اس سے لے لے اور مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ایسا اکیلا آدمی دیکھا جا ئے گا جس کے پیچھے چا لیس عورتیں ہو ں گی جو اس کی پناہ لے رہی ہو ں گی ۔ ابن براد کی روا یت میں ( ایسا اکیلا آدمی دیکھا جا ئے گا ۔ کی جگہ وتري رجل ( اور تم ایسےآدمی کو دیکھو گے ) ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1012

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 75

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2339
سہیل کے والد ( ابو صالح ) نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا " قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ مال بڑھ جا ئے گا اور ( پانی کی طرح ) بہنے لگے گا اور آدمی اپنے مال کی زکاۃ لے کر نکلے گا تو اسے ایک شخص بھی نہیں ملے گا جو اسے اس کی طرف سے قبو ل کر لے اور یہاں تک کہ عربکی سر زمین دو بارہ چرا گا ہوں اور نہروں میں بدل جا ئے گی ۔

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 76

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2340
وحدثنا أبو الطاهر، حدثنا ابن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن أبي يونس، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تقوم الساعة حتى يكثر فيكم المال فيفيض حتى يهم رب المال من يقبله منه صدقة ويدعى إليه الرجل فيقول لا أرب لي فيه ‏"‏ ‏.‏
ابو یونس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ نے فر ما یا : " قیامت قائم نہیں ہو گی یہا ں تک کہ تمھا رے ہاں مال کی فراوانی ہو گئی وہ مال ( پانی کی طرح ) بہے گا یہاں تک کہ ما ل کے مالک کو یہ فکر لا حق ہو گی کہ اس سے اس ( مال ) کو بطور صدقہ کو ن قبول کرےگا ؟ ایک آدمی کو اسے لینے کے لیے بلا یا جا ئے گا تو وہ کہے گا : مجھے اس کی کو ئی ضرورت نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:157.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 77

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2341
وحدثنا واصل بن عبد الأعلى، وأبو كريب ومحمد بن يزيد الرفاعي - واللفظ لواصل - قالوا حدثنا محمد بن فضيل، عن أبيه، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ تقيء الأرض أفلاذ كبدها أمثال الأسطوان من الذهب والفضة فيجيء القاتل فيقول في هذا قتلت ‏.‏ ويجيء القاطع فيقول في هذا قطعت رحمي ‏.‏ ويجيء السارق فيقول في هذا قطعت يدي ثم يدعونه فلا يأخذون منه شيئا ‏"‏ ‏.‏
ابو حازم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " زمین اپنے جگر کے ٹکڑے سونے اور چا ندی کے ستونوں کی صورت میں اگل دے گی تو قاتل آئے گا اور کہے گا کیا اس کی خا طر میں قتل کیا تھا ؟رشتہ داری تو ڑنے والا آکر کہے گا : کیا اس کے سبب میں نے قطع رحمی کی تھی ؟ چور آکر کہے گا : کیا اس کے سبب میرا ہا تھ کا ٹا گیا تھا ؟پھر وہ اس مال کو چھوڑ دیں گے ۔ اور اس میں سے کچھ نہیں لیں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1013

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 78

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2342
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن سعيد بن يسار، أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ما تصدق أحد بصدقة من طيب - ولا يقبل الله إلا الطيب - إلا أخذها الرحمن بيمينه وإن كانت تمرة فتربو في كف الرحمن حتى تكون أعظم من الجبل كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله ‏"‏ ‏.‏
سعید بن یسار سے روا یت ہے کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " کو ئی شخص پا کیزہ مال سے کو ئی صدقہ نہیں کرتا اور اللہ تعا لیٰ پا کیزہ مال ہی قبول فر ما تا ہے مگر وہ رحمٰن اسے اپنے دا ئیں ہا تھ میں لیتا ہے چا ہے وہ کھجور کا ایک دا نہ ہو تو وہ اس رحمٰن کی ہتھیلی میں پھلتا پھولتا ہے حتیٰ کہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جا تا ہے بالکل اسی طرح جس طرح تم میں سے کو ئی اپنے بچھیرے یا اونٹ کے بچے کو پا لتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1014.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 79

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2343
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - يعني ابن عبد الرحمن القاري - عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يتصدق أحد بتمرة من كسب طيب إلا أخذها الله بيمينه فيربيها كما يربي أحدكم فلوه أو قلوصه حتى تكون مثل الجبل أو أعظم ‏"‏ ‏.‏
یعقوب بن عبد الرحمٰن القاری نے سہیل سے انھوں نے اپنے والد ( ابو صالح ) سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا " کو ئی شخص اپنی پا کیزہ کما ئی سے ایک کھجور بھی خرچ نہیں کرتا مگر اللہ اسے اپنے دا ہنے ہا تھ سے قبول کرتا ہے اور اسے اس طرح پالتا ہے جس طرح تم میں سے کو ئی اپنے بچھیرے یا اونٹ کے بچے کو پا لتا ہے حتیٰ کہ وہ ( کھجور ) پہا ڑ کی طرح یا اس سے بھی بڑی ہو جا تی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1014.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 80

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2344
وحدثني أمية بن بسطام، حدثنا يزيد، - يعني ابن زريع - حدثنا روح بن القاسم، ح وحدثنيه أحمد بن عثمان الأودي، حدثنا خالد بن مخلد، حدثني سليمان، - يعني ابن بلال - كلاهما عن سهيل، بهذا الإسناد ‏.‏ في حديث روح ‏"‏ من الكسب الطيب فيضعها في حقها ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث سليمان ‏"‏ فيضعها في موضعها ‏"‏ ‏.‏
روح بن قاسم اور سلیما ن بن بلال دو نوں نے سہیل سے اسی سند کے ساتھ ( مذکور ہ با لا ) حدیث بیان کی ، روح کی حدیث میں ہے ۔ من الكسب الطيب فيضعها في حقها ( حلال کمائی سے صدقہ کرتا ہے پھر اس کو وہاں لگا تا ہے جہاں اس کا حق ہے ) اور سلیمان کی حدیث میں ہے فيضعها في موضعها ( اور اسے اس کی جگہ پر خرچ کرتا ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1014.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 81

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2345
وحدثنيه أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث يعقوب عن سهيل ‏.‏
ہشا م بن سعد نے زید بن اسلم سے انھوں نے ابو صالح سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روا یت کی جس طرح سہیل سے یعقوب کی حدیث ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1014.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 82

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2346
وحدثني أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، حدثنا فضيل بن مرزوق، حدثني عدي بن ثابت، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين فقال ‏{‏ يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم‏}‏ وقال ‏{‏ يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم‏}‏ ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک ( مال ) کے سوا ( کو ئی ما ل ) قبو ل نہیں کرتا اللہ نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا : " اے پیغمبران کرام! پا ک چیز یں کھا ؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فر ما یا اے مومنو!جو پا ک رزق ہم نے تمھیں عنا یت فر ما یا ہے اس میں سے کھا ؤ ۔ پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا : " جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔ ( دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلا تا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے اس کا پینا خرا م کا ہے اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1015

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 83

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2347
حدثنا عون بن سلام الكوفي، حدثنا زهير بن معاوية الجعفي، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن معقل، عن عدي بن حاتم، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من استطاع منكم أن يستتر من النار ولو بشق تمرة فليفعل ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن معقل نے حضرت عدیبن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہو ئے سنا : " تم میں سے جو شخص آگ سے محفوظ رہنے کی استطا عت رکھے چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے کیوں نہ ہو وہ ضرور ( ایسا ) کرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1016.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 84

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2348
حدثنا علي بن حجر السعدي، وإسحاق بن إبراهيم، وعلي بن خشرم، قال ابن حجر حدثنا وقال الآخران، أخبرنا عيسى بن يونس، حدثنا الأعمش، عن خيثمة، عن عدي، بن حاتم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما منكم من أحد إلا سيكلمه الله ليس بينه وبينه ترجمان فينظر أيمن منه فلا يرى إلا ما قدم وينظر أشأم منه فلا يرى إلا ما قدم وينظر بين يديه فلا يرى إلا النار تلقاء وجهه فاتقوا النار ولو بشق تمرة ‏"‏ ‏.‏ زاد ابن حجر قال الأعمش وحدثني عمرو بن مرة عن خيثمة مثله وزاد فيه ‏"‏ ولو بكلمة طيبة ‏"‏ ‏.‏ وقال إسحاق قال الأعمش عن عمرو بن مرة عن خيثمة ‏.‏
علی بن حجر سعدی اسحاق بن ابرا ہیم اور علی بن خشرم میں سے علی بن حجر نے کہا : ہمیں عیسیٰ بن یو نس نے حدیث بیا ن کی اور باقی دو نوں نے کہا : ہمیں خبر دی انھوں نے کہا : ہمیں اعمش نے خثیمہ کے واسطے سے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : تم میں سے کو ئی نہیں مگر عنقریب اللہ اس طرح اس سے بات کرے گا کہ اس کے اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان کوئی تر جمان نہیں ہو گا ۔ اور اپنی دا ئیں جا نب دیکھے گا تو اسے وہی کچھ نظر آئے گا جو اس نے آگے بھیجا اور اپنی بائیں جا نب دیکھے گا تو وہی کچھ دکھا ئی دے گا جو اس نے آگے بھیجا اور اپنے آگے دیکھے گا تو اسے اپنے منہ کے سامنے آگ دکھا ئی دے گی اس لیے آگ سے بچو اگر چہ آدھی کھجور کے ذریعے ہی سے کیوں نہ ہو ۔ "" ( علی ) بن حجر نے اضافہ کیا : اعمش نے کہا : مجھے عمرو بن مرہ نے خیثمہ سے اسی جیسی حدیث بیان کی اور اس میں اضافہ کیا : چا ہے پا کیزہ بو ل کے ساتھ ( بچو ۔ ) اسحاق نے کہا : اعمش نے کہا : عمرو بن مرہ سے روایت ہے ( کہا ) خیثمہ سے روا یت ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1016.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 85

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2349
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن عمرو بن مرة، عن خيثمة، عن عدي بن حاتم، قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم النار فأعرض وأشاح ثم قال ‏"‏ اتقوا النار ‏"‏ ‏.‏ ثم أعرض وأشاح حتى ظننا أنه كأنما ينظر إليها ثم قال ‏"‏ اتقوا النار ولو بشق تمرة فمن لم يجد فبكلمة طيبة ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر أبو كريب كأنما وقال حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب دو نوں نے کہا : ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی انھوں نے عمرو بن مرہ سے انھوں نے خیثمہ سے انھوں نے حضرت عدی بن حا تم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گ کا تذکرہ فر ما یا تو چہرہ مبا رک ایک طرف موڑ ا اور اس میں مبا لغہ کیا پھر فر ما یا : "" آگ سے بچو ۔ پھر رخ مبا رک پھیرا اور دور ہو نے کا اشارہ کیا حتیٰ کہ ہمیں غمان ہوا جیسے آپ اس ( آگ ) کی طرف دیکھ رہے ہیں پھر فر ما یا : "" آگ سے بچو چا ہے آدھی کھجور کے ساتھ جسے ( یہ بھی ) نہ ملے تو اچھی بات کے ساتھ ۔ ابو کریب نےكانما ( جیسے ) کا ( لفظ ) ذکر نہیں کیا اور کہا : ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا : ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1016.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 86

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2350
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن خيثمة، عن عدي بن حاتم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه ذكر النار فتعوذ منها وأشاح بوجهه ثلاث مرار ثم قال ‏ "‏ اتقوا النار ولو بشق تمرة فإن لم تجدوا فبكلمة طيبة ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے عمرو بن مرہ سے با قی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ کا ذکر کیا تو اس سے پناہ مانگی اور تین بار اپنے چہرہ مبا رک کے ساتھ دور ہو نے کا اشارہ کیا ، پھر فر ما یا : " آگ سے بچو چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ( بچو ) اگر تم ( یہ بھی ) نہ پاؤ تو اچھی بات کے ساتھ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1016.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 87

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2351
حدثني محمد بن المثنى العنزي، أخبرنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عون، بن أبي جحيفة عن المنذر بن جرير، عن أبيه، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدر النهار قال فجاءه قوم حفاة عراة مجتابي النمار أو العباء متقلدي السيوف عامتهم من مضر بل كلهم من مضر فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رأى بهم من الفاقة فدخل ثم خرج فأمر بلالا فأذن وأقام فصلى ثم خطب فقال ‏"‏ ‏{‏ يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة‏}‏ إلى آخر الآية ‏{‏ إن الله كان عليكم رقيبا‏}‏ والآية التي في الحشر ‏{‏ اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله‏}‏ تصدق رجل من ديناره من درهمه من ثوبه من صاع بره من صاع تمره - حتى قال - ولو بشق تمرة ‏"‏ ‏.‏ قال فجاء رجل من الأنصار بصرة كادت كفه تعجز عنها بل قد عجزت - قال - ثم تتابع الناس حتى رأيت كومين من طعام وثياب حتى رأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كأنه مذهبة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شىء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شىء ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں شعبہ نے عون بن ابی جحیفہ سے حدیث بیان کی ، ا نھوں نے منذر بن جریر سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انھوں نے کہا ؛ ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ظر تھے کہ آپ کے پا س کچھ لو گ ننگے پاؤں ننگے بدن سوراخ کر کے دن کی دھا ری دار چادریں یا غبائیں گلے میں ڈا لے اور تلواریں لٹکا ئے ہو ئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلے سے تھے ان کی فاقہ زدگی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ نور غمزدہ ہو گیا آپ اندر تشریف لے گئے پھر با ہر نکلے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا انھوں نے اذان دی اور اقامت کہی آپ نے نماز ادا کی ، پھر خطبہ دیا اور فرما یا : " اے لو گو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جا ن سے پیدا کیا ۔ ۔ ۔ آیت کے آخر تک " بے شک اللہ تم پر نگرا ن ہے اور وہ آیت جو سورہ حشر میں ہے اللہ سے ڈرو اور ہر جا ن دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے ( پھر فر ما یا ) آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دینا ر سےاپنے درہم سے اپنے کپڑے سے اپنی گندم کے ایک صاع سے اپنی کھجور کے ایک صاع سے ۔ حتیٰ کہ آپ نے فر ما یا : ۔ ۔ ۔ چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے صدقہ کرے ( جریرنے ) کہا : تو انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لا یا اس کی ہتھیلی اس ( کو اٹھا نے ) سے عاجز آنے لگی تھی بلکہ عا جز آگئی تھی کہا : پھر لو گ ایک دوسرے کے پیچھے آنے لگے یہاں تک کہ میں نے کھا نے اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا وہ اس طرح دمک رہا تھا جیسے اس پر سونا چڑاھا ہوا ہو ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا " جس نے اسلا م میں کو ئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا ( اپنا بھی ) اجر ہےے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس ( طریقے ) پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کو ئی کمی ہو اور جس نے اسلا م میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اس کا بو جھ اسی پر ہے اور ان کا بو جھ بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے بو جھ میں کو ئی کمی ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1017.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 88

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2352
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، العنبري حدثنا أبي قالا، جميعا حدثنا شعبة، حدثني عون بن أبي جحيفة، قال سمعت المنذر بن جرير، عن أبيه، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم صدر النهار ‏.‏ بمثل حديث ابن جعفر وفي حديث ابن معاذ من الزيادة قال ثم صلى الظهر ثم خطب ‏.‏
ابو اسامہ اور معاذ عنبری دو نوں نے کہا : ہمیں شعبہ نے حدیث بیا ن کی ، ا نھوں نے کہا مجھے عون بن ابی جحیفہ نے حدیث بیا ن کی انھوں نے کہا : میں منذر بن جریر سے سنا انھوں نے اپنے والد سے روایت کی انھوں نے کہا : ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( حا ضر ) تھے ۔ ۔ ۔ ( آگے ابن جعفر کی حدیث کی طرح ہے ۔ اور ابن معاذ کی حدیث میں اضافہ ہے ، کہا : پھر آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی ، پھر خطبہ دیا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1017.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 89

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2353
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري، وأبو كامل ومحمد بن عبد الملك الأموي قالوا حدثنا أبو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن المنذر بن جرير، عن أبيه، قال كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتاه قوم مجتابي النمار وساقوا الحديث بقصته وفيه فصلى الظهر ثم صعد منبرا صغيرا فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ أما بعد فإن الله أنزل في كتابه ‏{‏ يا أيها الناس اتقوا ربكم‏}‏ الآية ‏"‏ ‏.‏
عبدالملک بن عمیر نے منذر بن جریر سے اور انھوں نےاپنے والد سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ آپ کی خدمت میں ایک قوم درمیا ن میں سوراخ کرکے اون کی دھاری دار چیتھڑے گلے میں ڈالے آئی ۔ ۔ ۔ اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں ہے : آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی ، پھر ایک چھوٹے سے منبر پر تشریف لےگئے ، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی ، پھر فرمایا : " بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے : " اےلوگو!اپنے رب سے ڈرو ۔ " آیت کے آخر تک ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1017.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 90

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2354
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن موسى بن عبد الله بن، يزيد وأبي الضحى عن عبد الرحمن بن هلال العبسي، عن جرير بن عبد الله، قال جاء ناس من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف فرأى سوء حالهم ‏.‏ قد أصابتهم حاجة ‏.‏ فذكر بمعنى حديثهم ‏.‏
عبدالرحمان بن ہلال عبسی نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : بدوؤں میں سے کچھ لوگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے جسم پراونی کپڑے تھے ، آپ نے ان کی بدحالی دیکھی ، وہ فاقہ زدہ تھے ۔ ۔ ۔ پھر ان ( سابقہ راویان حدیث ) کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1017.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 91

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2355
حدثني يحيى بن معين، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، ح وحدثنيه بشر بن خالد، - واللفظ له - أخبرنا محمد، - يعني ابن جعفر - عن شعبة، عن سليمان، عن أبي وائل، عن أبي مسعود، قال أمرنا بالصدقة ‏.‏ قال كنا نحامل - قال - فتصدق أبو عقيل بنصف صاع - قال - وجاء إنسان بشىء أكثر منه فقال المنافقون إن الله لغني عن صدقة هذا وما فعل هذا الآخر إلا رياء فنزلت ‏{‏ الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم‏}‏ ولم يلفظ بشر بالمطوعين ‏.‏
یحییٰ بن معین اور بشر بن خالد نے ۔ لفظ بشر کے ہیں ۔ حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں محمد بن جعفر ( غندر ) نےخبر دی ، انھوں نے شعبہ سے ، انھوں نے سلیمان سے ، انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ہمیں صدقہ کرنے کاحکم دیا گیا ہے ، کہا : ہم بوجھ اٹھایا کرتے تھے ۔ کہا : ابوعقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدھا صاع صدقہ کیا ۔ ایک دوسرا انسان اس سے زیادہ کوئی چیز لایا تو منافقوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے غنی ہے اور اس دوسرے نے محض دکھلاوا کیا ہے ، اس پر یہ آیت مبارک اتری : " وہ لوگ جو صدقات کے معاملے میں دل کھول کر دینے والے مسلمانوں پرطعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت ( کی اجرت ) کے سواکچھ نہیں پاتے ۔ " بشر نے المطوعين ( اوربعد کے ) الفاظ نہیں کہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1018.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 92

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2356
وحدثنا محمد بن بشار، حدثني سعيد بن الربيع، ح وحدثنيه إسحاق بن منصور، أخبرنا أبو داود، كلاهما عن شعبة، بهذا الإسناد ‏.‏ وفي حديث سعيد بن الربيع قال كنا نحامل على ظهورنا ‏.‏
سعید بن ربیع اورابو داود دونوں نے شبعہ سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ حدیث بیا ن کی اور سعید بن ربیع کی حدیث میں ہے ، کہا : ہم اپنی پشتوں پر بوجھ اٹھاتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1018.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 93

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2357
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، يبلغ به ‏ "‏ ألا رجل يمنح أهل بيت ناقة تغدو بعس وتروح بعس إن أجرها لعظيم ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، وہ اسے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ) پہنچاتے تھے : " سن لو ، کوئی آدمی کسی خاندان کو ( ایسی دودھ دینے والی ) اونٹنی دے جو صبح کو بڑا پیالہ بھر دودھ دے اور شام کو بھی بڑا پیالہ بھر دودھ دے تو یقیناً اس ( اونٹنی ) کا اجر بہت بڑا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1019

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 94

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2358
حدثني محمد بن أحمد بن أبي خلف، حدثنا زكرياء بن عدي، أخبرنا عبيد الله، بن عمرو عن زيد، عن عدي بن ثابت، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى فذكر خصالا وقال ‏ "‏ من منح منيحة غدت بصدقة وراحت بصدقة صبوحها وغبوقها ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے ( کچھ اشیاء سے ) منع کیا ، پھر چند خصلتوں کا ذکر کیا اورفرمایا : " جس نے دودھ پینے کے لئے جانور دیا تو اس ( اونٹنی ، گائے وغیرہ ) نے صدقے سے صبح کی اور صدقے سے شام کی ، یعنی اپنے صبح کے دودھ سے اور اپنے شام کے دودھ سے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1020

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 95

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2359
حدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال عمرو وحدثنا سفيان بن عيينة قال وقال ابن جريج عن الحسن بن مسلم عن طاوس عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ مثل المنفق والمتصدق كمثل رجل عليه جبتان أو جنتان من لدن ثديهما إلى تراقيهما فإذا أراد المنفق - وقال الآخر فإذا أراد المتصدق - أن يتصدق سبغت عليه أو مرت وإذا أراد البخيل أن ينفق قلصت عليه وأخذت كل حلقة موضعها حتى تجن بنانه وتعفو أثره ‏"‏ ‏.‏ قال فقال أبو هريرة فقال يوسعها فلا تتسع ‏.‏
ابو زناد نے اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، نیز ابن جریج نے کہا : حسن بن مسلم سے ، انھوں نے طاوس سے ، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ " خرچ کرنے والے اور صدقہ دینے والے کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے جسم پر چھاتی سے لے کر ہنسلی کی ہڈیوں تک دو جبے یا دو زرہیں ہوں ۔ جب خرچ کرنے والا اور دوسرے ( راوی ) نے کہا : جب صدقہ کرنے والا ۔ خرچ کرنے کا ارادہ کرتاہے تو وہ زرہ اس ( کے جسم ) پر کھل جاتی ہے یا رواں ہوجاتی ہے اور جب بخیل خرچ کرنے کاارادہ کرتا ہےتو وہ اس ( کے جسم ) پر سکڑ جاتی ہے اورہر حلقہ اپنی جگہ ( کومضبوطی سے ) پکڑ لیتا ہے حتیٰ کہ اس ( کی انگلیوں ) کے پوروں کو ڈھانپ دیتا ہے اور اس کے نقش پا کو مٹا دیتا ہے ۔ " کہا : تو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : آپ نے فرمایا : " وہ ( بخیل ) اس کو کھولنا چاہتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1021.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 96

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2360
حدثني سليمان بن عبيد الله أبو أيوب الغيلاني، حدثنا أبو عامر، - يعني العقدي - حدثنا إبراهيم بن نافع، عن الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن أبي هريرة، قال ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه حتى تغشي أنامله وتعفو أثره وجعل البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة مكانها ‏"‏ ‏.‏ قال فأنا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بإصبعه في جيبه فلو رأيته يوسعها ولا توسع ‏.‏
ابراہیم بن نافع نے حسن بن مسلم سے ، انھوں نے طاوس سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی : " بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ایسے دو آدمیوں کی مانند ہے جن ( کے جسموں ) پر لوہے کی دو زرہیں ہیں ، ان کے دونوں ہاتھ انکی چھاتیوں اورہنسلی کی ہڈیوں سے جکڑے ہوئے ہیں ، پس صدقہ دینے والا جب صدقہ دینے لگتا ہےتووہ ( اس کی زرہ ) پھیل جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور ( زمین پر گھسیٹنے کی وجہ سے ) اس کے نقش قدم کو مٹانے لگتی ہے ۔ اور بخیل جب صدقہ دینے کا ارادہ کرنے لگتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ کو پکڑ لیتا ہے ۔ " ( ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی گریبان میں ڈال رہے تھے ، کاش تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ( ایسے لگتا تھا کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کشادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1021.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 97

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2361
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أحمد بن إسحاق الحضرمي، عن وهيب، حدثنا عبد الله بن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مثل البخيل والمتصدق مثل رجلين عليهما جنتان من حديد إذا هم المتصدق بصدقة اتسعت عليه حتى تعفي أثره وإذا هم البخيل بصدقة تقلصت عليه وانضمت يداه إلى تراقيه وانقبضت كل حلقة إلى صاحبتها ‏"‏ ‏.‏ قال فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ فيجهد أن يوسعها فلا يستطيع ‏"‏ ‏.‏
عبداللہ بن طاوس نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جن پر لوہے کی دو زرہیں ہیں ، صدقہ دینے والا جب صدقہ دینے کاارادہ کرتا ہے تو وہ ( اس کی زرہ ) اس پر کشادہ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کے نقش پا کو مٹانے لگتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کاارادہ کرتاہے تو وہ ( زرہ ) اس پر سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ اس کی ہنسلی کے ساتھ جکڑ جاتے ہیں اور ہر حلقہ ساتھ و الے حلقے کے ساتھ پیوست ہوجاتاہے ۔ " ( ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے کشادہ کرے لیکن نہیں کرسکتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1021.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 98

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2362
حدثني سويد بن سعيد، حدثني حفص بن ميسرة، عن موسى بن عقبة، عن أبي، الزناد عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قال رجل لأتصدقن الليلة بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يد زانية فأصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية ‏.‏ قال اللهم لك الحمد على زانية لأتصدقن بصدقة ‏.‏ فخرج بصدقته فوضعها في يد غني فأصبحوا يتحدثون تصدق على غني ‏.‏ قال اللهم لك الحمد على غني لأتصدقن بصدقة ‏.‏ فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق فأصبحوا يتحدثون تصدق على سارق ‏.‏ فقال اللهم لك الحمد على زانية وعلى غني وعلى سارق ‏.‏ فأتي فقيل له أما صدقتك فقد قبلت أما الزانية فلعلها تستعف بها عن زناها ولعل الغني يعتبر فينفق مما أعطاه الله ولعل السارق يستعف بها عن سرقته ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ایک آدمی نے کہا : میں آج رات ضرور کچھ صدقہ کروں گا تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسےایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا ، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ پر صدقہ کیا گیا ، اس آدمی نے کہا : اے اللہ تیری حمد!زانیہ پر ( صدقہ ہوا ) میں ضرور صدقہ کروں گا ، پھر وہ صدقہ لے کر نکلا تو اسے ایک مالدار کے ہاتھ میں دے دیا ۔ صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے : ایک مال دار پر صدقہ کیا گیا ۔ اس نے کہا : اے اللہ تیری حمد! مالدار پر ( صدقہ ہوا ) میں ضرور کچھ صدقہ کروں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلاتو اسے ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔ لوگ صبح کو باتیں کرنے لگے : چور پر صدقہ کیا گیا ۔ تو اس نے کہا : اے اللہ ! سب حمد تیرے ہی لئے ہے ، زانیہ پر ، مالدار پر ، اور چور پر ( صدقہ ہوا ) ۔ اس کو ( خواب میں ) کہا گیا تمہارا صدقہ قبول ہوچکا ، جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس ( صدقے ) کی وجہ سے زانیہ اپنے زنا سے پاک دامنی اختیار کرلے اور شاید مال دارعبرت پکڑے اور اللہ نے جو اسے دیا ہے ( خود ) اس میں صدقہ کرے اور شاید اس کی وجہ سے چور اپنی چوری سے باز آجائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1022

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 99

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2363
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو عامر الأشعري وابن نمير وأبو كريب كلهم عن أبي أسامة، - قال أبو عامر حدثنا أبو أسامة، - حدثنا بريد، عن جده أبي بردة، عن أبي موسى�� عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الخازن المسلم الأمين الذي ينفذ - وربما قال يعطي - ما أمر به فيعطيه كاملا موفرا طيبة به نفسه فيدفعه إلى الذي أمر له به - أحد المتصدقين ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بے شک ایک مسلمان امانت دار خازن ( خزانچی ) جو دیئے گئے حکم پر عمل کرتا ہے ۔ ( یا فرمایا : ادا کرتا ہے ) اسے خوش دلی کے ساتھ پورے کا پورا ( بلکہ ) وافر ، اس شخص کو ادا کردیتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ ( خازن بھی ) ۔ ۔ ۔ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1023

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 100

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2364
حدثنا يحيى بن يحيى، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن جرير، - قال يحيى - أخبرنا جرير، عن منصور، عن شقيق، عن مسروق، عن عائشة، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها أجره بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا ‏"‏ ‏.‏
جریر نے منصور سے ، انھوں نے شقیق سے ، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب عورت اجاڑے بغیر اپنے گھر کے کھانے سے خرچ کرتی ہے تو اسے خرچ کرنے کی وجہ سے اجر ملے گا اور اس کے خاوند کو اس کے کمانے کی وجہ سے اپنا اجر ملے گا اور خزانچی کے لئے بھی اسی طرح ( اجر ) ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1024.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 101

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2365
وحدثناه ابن أبي عمر، حدثنا فضيل بن عياض، عن منصور، بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ من طعام زوجها ‏"‏ ‏.‏
فضیل بن عیاض نے منصور سے اسی سند کے ساتھ ( سابقہ حدیث کے مانند ) روایت کی اور انھوں نے ( " اپنے گھر کے کھانے میں سے " کے بجائے ) من طعام زوجها ( اپنے خاوند کے کھانے میں سے ) کے الفاظ کہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1024.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 102

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2366
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن شقيق، عن مسروق، عن عائشة، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينتقص من أجورهم شيئا ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی ، انھوں نے شقیق سے ، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب عورت اجاڑے بغیر اپنے خاوند کے گھر سے ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اس کے لئے اس کااجر ہے اور اس ( خاوند ) کے لئے بھی اس کے کمانے کی وجہ سے ویسا ہی اجر ہے اور اس عورت کے لئے اس کے خرچ کرنے کی وجہ سے اور خزانچی کے لئے بھی اس جیسا ( اجر ) ہے ، ان ( سب لوگوں ) کے اجر میں کچھ کمی کئے بغیر ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1024.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 103

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2367
وحدثناه ابن نمير، حدثنا أبي وأبو معاوية عن الأعمش، بهذا الإسناد نحوه
ابن نمیر نے کہا : ہمیں میرے والد اور با معاویہ نے اعمش سے اسی ( مذکورہ بالا ) سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیا ن کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1024.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 104

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2368
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن، نمير وزهير بن حرب جميعا عن حفص، بن غياث - قال ابن نمير حدثنا حفص، - عن محمد بن زيد، عن عمير، مولى آبي اللحم قال كنت مملوكا فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أأتصدق من مال موالي بشىء قال ‏ "‏ نعم والأجر بينكما نصفان ‏"‏ ‏.‏
محمد بن زید نے آبی اللحم ( غفاری ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں غلام تھا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا میں اپنے آقاؤں کے مال میں سے کچھ صدقہ کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا : " ہاں ، اوراجر تم دونوں کےدرمیان آدھاآدھا ( برابر برابر ) ہوگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1025.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 105

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2369
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم، - يعني ابن إسماعيل - عن يزيد، - يعني ابن أبي عبيد - قال سمعت عميرا، مولى آبي اللحم قال أمرني مولاى أن أقدد، لحما فجاءني مسكين فأطعمته منه فعلم بذلك مولاى فضربني فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فدعاه ‏.‏ فقال ‏"‏ لم ضربته ‏"‏ ‏.‏ فقال يعطي طعامي بغير أن آمره ‏.‏ فقال ‏"‏ الأجر بينكما ‏"‏ ‏.‏
یزید بن ابی عبید نے کہا : میں نے آبی اللحم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : مجھے میرے آقا نے گوشت کے ٹکڑے کرکے خشک کرنے کا حکم دیا ، میرے پاس ایک مسکین آگیا تو میں نے اس میں سے کچھ کھلا دیا ۔ میرے آقا کو اس کا پتہ چل گیا ۔ تو انھوں نے مجھے مارا ۔ اس پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی ۔ آپ نے اسے بلا کر پوچھا : " تم نے اسے کیوں مارا؟ " اس نے کہا : میرے حکم کے بغیر میراکھانا ( دوسروں کو ) دیتا ہے ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " اجر تم دونوں کے درمیان ہوگا ۔ " ( تم دونوں کو ملے گا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1025.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 106

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2370
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن محمد، رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تصم المرأة وبعلها شاهد إلا بإذنه ولا تأذن في بيته وهو شاهد إلا بإذنه وما أنفقت من كسبه من غير أمره فإن نصف أجره له ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے ر وایت ہے ، کہا : یہ وہ احادیث ہیں جو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ، پھر انھوں نے کچھ احادیث ذکر کیں ، ان میں سے یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ نہ رکھے مگر جب اس کی اجازت ہو اور اس کے گھر میں اس ک موجودگی میں ( اپنے کسی محرم کو بھی ) اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دےاور اس ( عورت ) نے اس کے حکم کے بغیر اس کی کمائی سے جو کچھ خرچ کیا تو یقیناً اس کا آدھا اجر اس ( خاوند ) کے لئے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1026

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 107

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2371
حدثني أبو الطاهر، وحرملة بن يحيى التجيبي، - واللفظ لأبي الطاهر - قالا حدثنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة يا عبد الله هذا خير ‏.‏ فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان " ، قال أبو بكر الصديق : يا رسول الله ما على أحد يدعى من تلك الأبواب من ضرورة ، فهل يدعى أحد من تلك الأبواب كلها ؟ ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " نعم وأرجو أن تكون منهم " ، حدثني عمرو الناقد ، والحسن الحلواني ، وعبد بن حميد ، قالوا : حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا أبي ، عن صالح . وحدثنا عبد بن حميد ، حدثنا عبد الرزاق ، أخبرنا معمر كلاهما ، عن الزهري بإسناد يونس ومعنى حديثه
یونس نے ابن شہاب سے ، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جس نے اللہ کی راہ میں دو دو چیزیں خرچ کیں اسے جنت میں آواز دی جائے گی کے اے اللہ کے بندے!یہ ( دروازہ ) بہت اچھا ہے ۔ ( کیونکہ وہ دوسرے میں سے جانے کا حقدار بھی ہوگا ) جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہوگا ، اسے نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا ، جو جہاد کرنے والوں میں سے ہوگا ، اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا ، جو صدقہ دینے والوں میں سے ہوگا ، اسے صدقے والے دروازے سے پکارا جائے گا ، اور جو روزہ داروں میں سے ہوگا ، اسے باب ریان ( سیرابی کے دروازے ) سے پکارا جائے گا ۔ " ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کسی انسان کو ان تمام دروازوں سے پکارے جان کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی ( خوش نصیب ) ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلا یا جائے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہاں ، اور مجھے امید ہے تم انھی میں سے ہوگے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1027.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 108

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2372
حدثني عمرو الناقد، والحسن الحلواني، وعبد بن حميد، قالوا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، ح وحدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد، الرزاق أخبرنا معمر، كلاهما عن الزهري، بإسناد يونس ومعنى حديثه ‏.‏
صالح اور معمر دونوں نے زہری سے یونس کی مذکورہ بالا سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیا ن کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1027.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 109

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2373
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير، حدثنا شيبان، ح وحدثني محمد بن حاتم، - واللفظ له - حدثنا شبابة، حدثني شيبان بن عبد الرحمن، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أنفق زوجين في سبيل الله دعاه خزنة الجنة كل خزنة باب أى فل هلم ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو بكر يا رسول الله ذلك الذي لا توى عليه ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني لأرجو أن تكون منهم ‏"‏ ‏.‏
ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہےکہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جس نے اللہ کی راہ میں جوڑا جوڑا خرچ کیا ، اسے جنت کے پہرے دار بلائیں گے ، دروازے کے تمام پہر ے دار ( کہیں گے : ) اے فلاں!آجاؤ ۔ " اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ایسے فرد کو کسی قسم ( کے نقصان ) کا اندیشہ نہیں ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہو گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1027.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 110

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2374
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا مروان، - يعني الفزاري - عن يزيد، - وهو ابن كيسان - عن أبي حازم الأشجعي، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أصبح منكم اليوم صائما ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر رضى الله عنه أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن تبع منكم اليوم جنازة ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر رضى الله عنه أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن أطعم منكم اليوم مسكينا ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر رضى الله عنه أنا ‏.‏ قال ‏"‏ فمن عاد منكم اليوم مريضا ‏"‏ ‏.‏ قال أبو بكر رضى الله عنه أنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما اجتمعن في امرئ إلا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟ " ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟ " ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں ، آپ نے پوچھا : " آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ " ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : میں نے ، آپ نے پوچھا : " تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟ " ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1028

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 111

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2375
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص، - يعني ابن غياث - عن هشام، عن فاطمة بنت المنذر، عن أسماء بنت أبي بكر، - رضى الله عنها - قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أنفقي - أو انضحي أو انفحي - ولا تحصي فيحصي الله عليك ‏"‏ ‏.‏
حفص بن غیا ث نے ہشام سے انھوں نے فا طمہ بنت منذر سے اور انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی انھوں کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فر ما یا : " ( مال کو ) خرچ ۔ ۔ ۔ یا ہر طرف پھیلاؤ یا ( پانی کی طرح ) بہاؤ ۔ ۔ ۔ اور گنو نہیں ورنہ اللہ بھی تمھیں گن گن کر دے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1029.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 112

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2376
وحدثنا عمرو الناقد، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن أبي، معاوية - قال زهير حدثنا محمد بن خازم، - حدثنا هشام بن عروة، عن عباد بن حمزة، وعن فاطمة بنت المنذر، عن أسماء، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ انفحي - أو انضحي أو أنفقي - ولا تحصي فيحصي الله عليك ولا توعي فيوعي الله عليك ‏"‏ ‏.‏
محمد بن خازم نے حدیث بیان کی کہا : ہمیں ہشام بن عروہ نے عبادبن حمزہ اور فا طمہ بنت منذر حدیث بیان کی اور انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ( مال کو ) ہر طرف خرچ کرو ۔ ۔ یا ( پانی کی طرح بہاؤ یا خرچ کرو ۔ ۔ ۔ اور شمار نہ کرو ورنہ اللہ بھی تمھیں شمار کر کر کے دے گا اور سنبھا ل کر نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تم سے سنبھا ل کر رکھے گا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1029.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 113

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2377
وحدثنا ابن نمير، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا هشام، عن عباد بن حمزة، عن أسماء، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها نحو حديثهم ‏.‏
محمد بن بشر نے کہا : ہمیں ہشا م نے عبا د بن حمزہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ۔ ۔ ۔ ان ( مذکورہ با لا راویوں ) کی حدیث کے ما نند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1029.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 114

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2378
وحدثني محمد بن حاتم، وهارون بن عبد الله، قالا حدثنا حجاج بن محمد، قال قال ابن جريج أخبرني ابن أبي مليكة، أن عباد بن عبد الله بن الزبير، أخبره عن أسماء، بنت أبي بكر أنها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا نبي الله ليس لي شىء إلا ما أدخل على الزبير فهل على جناح أن أرضخ مما يدخل على فقال ‏ "‏ ارضخي ما استطعت ولا توعي فيوعي الله عليك ‏"‏ ‏.‏
عباد بن عبد اللہ بن زبیر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو ئیں اور عرض کی ، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جو کچھ زبیر مجھے دے اس کے سوا میرے پا س کو ئی چیز نہیں ہو تی تو کیا مجھ پر کو ئی گنا ہ تو نہیں کہ جو وہ مجھے دے اس میں سے تھوڑا سا صدقہ کر دوں ؟آپ نے فر ما یا : اپنی طا قت کے مطا بق تھوڑا بھی خرچ کرو اور برتن میں سنبھا ل کر نہ رکھو ورنہ اللہ تعا لیٰ بھی تم سے سنبھا ل کر رکھے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1029.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 115

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2379
حدثني زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، جميعا عن يحيى القطان، - قال زهير حدثنا يحيى بن سعيد، - عن عبيد الله، أخبرني خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله الإمام العادل وشاب نشأ بعبادة الله ورجل قلبه معلق في المساجد ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال إني أخاف الله ‏.‏ ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم يمينه ما تنفق شماله ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ما یا کرتے تھے : " اے مسلما ن عورتو! کو ئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے ( تحفےکو ) حقیر نہ سمجھے چا ہے وہ بکری کا ایک کھر ہو ۔ ( جو میسر ہے بھیج دو)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1031.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 117

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2380
وحدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي سعيد الخدري، - أو عن أبي هريرة، - أنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثل حديث عبيد الله ‏.‏ وقال ‏ "‏ ورجل معلق بالمسجد إذا خرج منه حتى يعود إليه ‏"‏ ‏.‏
عبید اللہ سے روایت ہے کہا : مجھے خبیب بن عبد الرحمٰن نے حفص بن عاصم سے خبردی انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " سات قسم کے لو گو ں کو اللہ تعا لیٰ اس دن اپنے سائے میں سایہ مہیا کرے گا جس دن کے سائے کے سوا کو ئی سایہ نہیں ہو گا عدل کرنے والا حکمران اور وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت کے ساتھ پروان چڑھا اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہواہے اور ایسے دو آدمی جنھوں نے اللہ کی خا طر ایک دوسرے سے محبت کی اسی پر اکٹھے ہو ئے اور اسی پر جدا ہو ئے اور ایسا آدمی جسے مرتبے اور حسن والی عورت نے ( گناہ کی ) دعوت دی تو اس ( آدمی ) نے کہا : میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ آدمی جس نے چھپا کر صدقہ کیا حتیٰ کہ اس کا با یا ں ہا تھ جو کچھ خرچ کر رہا ہے اسے دایاں نہیں جا نتا اور وہ آدمی جس نے تنہا ئی میں اللہ کو یا د کیا تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1031.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 118

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2381
امام ما لک نے خبیب بن عبد الرحمٰن سے انھوں نے حفص بن عاصم سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔ ۔ یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔ ۔ سے روایت ک ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ۔ ۔ ۔ ( آگے ) جس طرح عبید اللہ کی حدیث ہے اور انھوں نے ( ایسا آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے کے بجا ئے ) کہا : رجل معلق بالمسجد اذا خرج منه حتي يعود اليه " وہ آدمی جب مسجد سے نکلتا ہے تو اسی کے ساتھ معلق رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں لوٹ آئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2382
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل فقال يا رسول الله أى الصدقة أعظم فقال ‏ "‏ أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل الغنى ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت لفلان كذا ولفلان كذا ألا وقد كان لفلان ‏"‏ ‏.‏
جریر نے عمارہ بن قعقاع سے انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، ا نھوں نے کہا : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اور کہا : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کو ن سا صدقہ ( اجر میں ) بڑا ہے؟آپ نے فر ما یا : " تم ( اس وقت ) صدقہ کرو جب تم تند رست ہو اور مال کی خواہش رکھتے ہو فقر سے ڈرتے ہو اور تونگری کی امید رکھتے ہو اور اس قدر تا خیر نہ کرو کہ جب ( تمھا ری جا ن ) حلق تک پہنچ جائے ( پھر ) تم کہو : اتنا فلا ں کا ہے اور اتنا فلا ں کا ۔ اب تو وہ فلا ں ( وارث ) کا ہو ہی چکا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1032.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 119

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2383
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن، نمير قالا حدثنا ابن فضيل، عن عمارة، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أى الصدقة أعظم أجرا فقال ‏ "‏ أما وأبيك لتنبأنه أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل البقاء ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت لفلان كذا ولفلان كذا وقد كان لفلان ‏"‏ ‏.‏
ابن فضیل نے عمارہ سے انھوں نے ابو زرعہ سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آیا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا صدقہ اجر میں برا ہے ؟ آپ نے فر ما یا : " ہاں تمھا رے باپ کا بھلا ہو تمھیں اس بات سے آگا ہ کیا جا ئے گا وہ یہ کہ تم اس وقت صدقہ کرو جب تم تندرست ہو اور مال کی خواہش رکھتے ہو فقر سے ڈرتے ہو اور لمبی زندگی کی امید رکھتے ہو اور ( خود کو ) اس قدر مہلت نہ دو کہ جب تمھا ری جان حلق تک پہنچ جا ئے تو پھر ( وصیت کرتے ہوئے ) کہو فلا ں کا اتنا ہے اور فلا ں کا اتنا ہے وہ تو فلا ں کا ہو ہی چکا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1032.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 120

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2384
حدثنا أبو كامل الجحدري، حدثنا عبد الواحد، حدثنا عمارة بن القعقاع، بهذا الإسناد نحو حديث جرير غير أنه قال أى الصدقة أفضل ‏.‏
عبد الو حد نے کہا : ہم سے عمارہ بن قعقاع نے ( باقی ماند ہ ) اسی سند کے ساتھ جریر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی البتہ کہا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:1032.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 121

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2385
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك بن أنس، فيما قرئ عليه عن نافع، عن عبد، الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسألة ‏ "‏ اليد العليا خير من اليد السفلى واليد العليا المنفقة والسفلى السائلة ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا جبکہ آپ منبر پر تھے اور صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے : " اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے اور اوپر والا ہا تھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1033

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 122

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2386
حدثنا محمد بن بشار، ومحمد بن حاتم، وأحمد بن عبدة، جميعا عن يحيى القطان، - قال ابن بشار حدثنا يحيى، - حدثنا عمرو بن عثمان، قال سمعت موسى بن طلحة، يحدث أن حكيم بن حزام، حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أفضل الصدقة - أو خير الصدقة - عن ظهر غنى واليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول ‏"‏‏.‏
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " سب سے افضل صدقہ ۔ ۔ ۔ یا سب سے اچھا صدقہ ۔ ۔ وہ ہے جس کے پیچھے ( دل کی ) تو نگری ہو اور اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے اور ( دینے کی ) ابتدا اس سے کرو جس کی تم کفا لت کرتے ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1034

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 123

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2387
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، قالا حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، وسعيد، عن حكيم بن حزام، قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم فأعطاني ثم سألته فأعطاني ثم سألته فأعطاني ثم قال ‏ "‏ إن هذا المال خضرة حلوة فمن أخذه بطيب نفس بورك له فيه ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع واليد العليا خير من اليد السفلى ‏"‏ ‏.‏
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ما نگا تو آپ نے مجھے عطا فر ما یا میں نے ( دوبارہ ) مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا میں نے پھر آپ سے سوال کیا تو آپ نے مجھے دیا پھر فر ما یا : " یہ ما ل شاداب ( آنکھوں کو لبھا نے والا ) اور شیریں ہے جو تو اسے حرص و طمع کے بغیر لے گا اس کے لیے اس میں برکت عطا کی جا ئے گی اور جو دل کے حرص سے لے گا ، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جا ئے گی ، وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا اور اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1035

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 124

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2388
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، وزهير بن حرب، وعبد بن حميد، قالوا حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا شداد، قال سمعت أبا أمامة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يا ابن آدم إنك أن تبذل الفضل خير لك وأن تمسكه شر لك ولا تلام على كفاف وابدأ بمن تعول واليد العليا خير من اليد السفلى ‏"‏
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " آدم کے بیٹے!بے شک تو ( ضرورت سے ) زائد مال خرچ کر دے یہ تیرے لیے بہتر ہے اور تو اسے رو ک رکھے تو یہ تیرے لیے برا ہے اور گزر بسر جتنا رکھنے پر تمھیں کو ئی ملا مت نہیں کی جا ئے گی اور خرچ کا آغاز ان سے کرو جن کے ( کےخرچ ) تم ذمہ دار ہو اور اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1036

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 125

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2389
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا زيد بن الحباب، أخبرني معاوية بن صالح، حدثني ربيعة بن يزيد الدمشقي، عن عبد الله بن عامر اليحصبي، قال سمعت معاوية، يقول إياكم وأحاديث إلا حديثا كان في عهد عمر فإن عمر كان يخيف الناس في الله عز وجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏"‏ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ‏"‏ ‏.‏ وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إنما أنا خازن فمن أعطيته عن طيب نفس فيبارك له فيه ومن أعطيته عن مسألة وشره كان كالذي يأكل ولا يشبع ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن عامر یحصبی نے کہا میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا : تم اس حدیث کے سوا جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ( بیان کی جا تی ) تھی دوسری احادیث بیان کرنے سے بچو کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لو گوں کو ( روایا ت کے سلسلے میں بھی ) اللہ کا خوف دلا یا کرتےتھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فر ما رہے تھے " اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلا ئی کرنا چا ہتا ہے اسے دین میں گہرا فہم عطا فر ما دیتا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ما تے ہو ئے بھی سنا : " میں تو بس خزانچی ہوں جس کو میں خوش دلی سے دوں اس کے لیے اس میں برکت ڈا ل دی جا ئے گی اور جس کو میں مانگنے پر اور ( اس کے ) حرص کے سبب سے دو ں اس کی حا لت اس نسان جیسی ہو گی جو کھا تا ہے اور سیر نہیں ہو تا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1037.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 126

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2390
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن وهب بن منبه، عن أخيه، همام عن معاوية، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تلحفوا في المسألة فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا فتخرج له مسألته مني شيئا وأنا له كاره فيبارك له فيما أعطيته ‏"‏ ‏.‏
محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے کہا : ہمیں سفیان نے عمرو ( بن دینار ) سے حدیث بیا ن کی انھوں نے وہب بن منبہ سے انھوں نے اپنے بھا ئی ہمام سے اور انھوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " مانگنے میں اصرار نہ کرو اللہ کی قسم !ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم میں سے کو ئی شخص مجھ سے کچھ مانگے میں اسے ناپسند کرتا ہوں پھر بھی اس کا سوال مجھ سے کچھ نکلوالے تو جو میں اس کو دوں اس میں بر کت ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1038.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 127

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2391
حدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، حدثني وهب بن، منبه - ودخلت عليه في داره بصنعاء فأطعمني من جوزة في داره - عن أخيه قال سمعت معاوية بن أبي سفيان يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏.‏ فذكر مثله ‏.‏
ابن ابی عمر مکی نے کہا : ہمیں سفیان نے عمرو بن دینار سے حدیث سنا ئی کہا : مجھے وہب بن منبہ نے ۔ ۔ ۔ جب میں صنعاء میں ان کے پا س ان کے گھر گیا اور انھوں نے مجھے اپنے گھر کے درخت سے اخروٹ کھلا ئے ۔ ۔ ۔ اپنے بھا ئی سے حدیث بیان کی ۔ انھوں نے کہا : میں نے معاویہ بن ابی سفیان کو یہ کہتے ہو ئے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فر ما رہے تھے ۔ ۔ ۔ ( آگے ) اسی ( پچھلی ) حدیث کے مطا بق بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1038.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 128

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2392
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، قال سمعت معاوية بن أبي سفيان، وهو يخطب يقول إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين وإنما أنا قاسم ويعطي الله ‏"‏ ‏.‏
حمید بن عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا : میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ خطبہ دیتے ہو ئے کہہ رہے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فر ما رہے تھے اللہ جس کے ساتھ بھلا ئی کا ارادہ فر ما تا ہے اسے دین کا گہرا فہم عطا فر ما دیتا ہے اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1037.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 129

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2393
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا المغيرة، - يعني الحزامي - عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس المسكين بهذا الطواف الذي يطوف على الناس فترده اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان ‏"‏ ‏.‏ قالوا فما المسكين يا رسول الله قال ‏"‏ الذي لا يجد غنى يغنيه ولا يفطن له فيتصدق عليه ولا يسأل الناس شيئا ‏"‏ ‏.‏
اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " ( اصل ) مسکین یہ گھومنے والا نہیں جو لو گوں کے پاس چکر لگا تا ہے پھر ایک دو لقمے یا ایک دوکھجور یں اسے واپس لوٹا دیتی ہیں ۔ " ( صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو مسکین کون ہے؟آپ نے فرمایا : " جو اتنی تونگری نہیں پاتا جو اسے ( سوال سے ) مستغنی کردے ، نہ ہی اس ( کے ضرورت مند ہونے ) کا پتہ چلتا ہے کہ اس کو صدقہ دیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کوئی چیز مانگتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1039.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 130

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2394
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، - وهو ابن جعفر - أخبرني شريك، عن عطاء بن يسار، مولى ميمونة عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس المسكين بالذي ترده التمرة والتمرتان ولا اللقمة واللقمتان إنما المسكين المتعفف اقرءوا إن شئتم ‏{‏ لا يسألون الناس إلحافا‏}‏ ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل نے جو ابن جعفر ( بن ابی کثیر ) ہیں ، کہا : مجھے شریک نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام عطاء بن یسار سے خبردی ، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ( اصل ) مسکین وہ نہیں جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے لوٹا دیتے ہیں ، اصل مسکین سوال سے بچنے والا ہے ، چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : " وہ لوگوں سے چمٹ کر ( اصرار سے ) نہیں مانگتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1039.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 131

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2395
وحدثنيه أبو بكر بن إسحاق، حدثنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، أخبرني شريك، أخبرني عطاء بن يسار، وعبد الرحمن بن أبي عمرة، أنهما سمعا أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بمثل حديث إسماعيل ‏.‏
محمد بن جعفر ( بن ابی کثیر ) نے کہا : مجھے شریک نے خبر دی ، کہا : مجھے عطاء بن یسار اور عبدالرحمان بن ابی عمرہ نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ( آگےمحمد کے بھائی ) اسماعیل کی روایت کے مانند ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1039.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 132

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2396
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى، عن معمر، عن عبد الله بن مسلم، أخي الزهري عن حمزة بن عبد الله، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تزال المسألة بأحدكم حتى يلقى الله وليس في وجهه مزعة لحم ‏"‏ ‏.‏
عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے معمر سے ، انھوں نے ( امام زہری کے بھائی ) عبداللہ بن مسلم سے ، انھوں نے حمزہ بن عبداللہ ( بن عمر ) سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم میں سے کسی شخص کے ساتھ سوال چمٹا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملے گا تو اس کے چہرے پرگوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1040.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 133

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2397
وحدثني عمرو الناقد، حدثني إسماعيل بن إبراهيم، أخبرنا معمر، عن أخي الزهري، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله ولم يذكر ‏ "‏ مزعة ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن ابراہیم نے معمر سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی اور اس میں ( گوشت کے ) ٹکڑے کے الفاظ نہیں ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1040.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 134

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2398
حدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني الليث، عن عبيد الله بن، أبي جعفر عن حمزة بن عبد الله بن عمر، أنه سمع أباه، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة وليس في وجهه مزعة لحم ‏"‏ ‏.‏
عبیداللہ بن ابی جعفر نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے روایت کی کہ انھوں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے ( مانگنا اس کی عادت بن جاتا ہے ) یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1040.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 135

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2399
حدثنا أبو كريب، وواصل بن عبد الأعلى، قالا حدثنا ابن فضيل، عن عمارة بن، القعقاع عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من سأل الناس أموالهم تكثرا فإنما يسأل جمرا فليستقل أو ليستكثر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو شخص مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے ، کم ( اکھٹے ) کرلے یا زیادہ کرلے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1041

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 136

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2400
حدثني هناد بن السري، حدثنا أبو الأحوص، عن بيان أبي بشر، عن قيس بن، أبي حازم عن أبي هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لأن يغدو أحدكم فيحطب على ظهره فيتصدق به ويستغني به من الناس خير له من أن يسأل رجلا أعطاه أو منعه ذلك فإن اليد العليا أفضل من اليد السفلى وابدأ بمن تعول ‏"‏ ‏.‏
بیان بن ابی بشر نے قیس بن ابی حازم سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا : " تم میں سے کوئی شخص صبح کو نکلے اپنی پشت پر لکڑیاں اکھٹی کر لائےاور اس سے صدقہ کرے اور لوگوں ( کے عطیوں ) سے بے نیاز ہوجائے ، وہ اس سے بہترہے کہ کسی آدمی سے مانگے ، وہ ( چاہے تو ) اسےدے یا ( چاہے تو ) محروم رکھے ، بلاشبہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے اور ( خرچ کرے کی ) ابتدا ان سے کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1042.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 137

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2401
وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل، حدثني قيس بن، أبي حازم قال أتينا أبا هريرة فقال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والله لأن يغدو أحدكم فيحطب على ظهره فيبيعه ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر بمثل حديث بيان ‏.‏
اسماعیل نے کہا : مجھے قیس بن ابی حازم نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : ہم حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ کی قسم!تم میں سے ایک صبح کو نکلے ، اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لائے اور انھیں بیچے ۔ ۔ ۔ پھر بیان کی حدیث کے مانند حدیث سنائی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1042.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 138

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2402
حدثني أبو الطاهر، ويونس بن عبد الأعلى، قالا حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو، بن الحارث عن ابن شهاب، عن أبي عبيد، مولى عبد الرحمن بن عوف أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لأن يحتزم أحدكم حزمة من حطب فيحملها على ظهره فيبيعها خير له من أن يسأل رجلا يعطيه أو يمنعه ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزادکردہ غلام ابو عبید سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم میں سے کوئی ایندھن کا گٹھا باندھے اور اپنی پیٹھ پرلادے ، اور بیچ دے ، اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ کسی آدمی سے سوال کرے ، ( چاہے ) وہ اسے دے یا نہ دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1042.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 139

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2403
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، وسلمة بن شبيب، - قال سلمة حدثنا وقال الدارمي، أخبرنا مروان، وهو ابن محمد الدمشقي - حدثنا سعيد، - وهو ابن عبد العزيز - عن ربيعة بن يزيد، عن أبي إدريس الخولاني، عن أبي مسلم الخولاني، قال حدثني الحبيب الأمين، أما هو فحبيب إلى وأما هو عندي فأمين عوف بن مالك الأشجعي قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسعة أو ثمانية أو سبعة فقال ‏"‏ ألا تبايعون رسول الله ‏"‏ وكنا حديث عهد ببيعة فقلنا قد بايعناك يا رسول الله ‏.‏ ثم قال ‏"‏ ألا تبايعون رسول الله ‏"‏ ‏.‏ فقلنا قد بايعناك يا رسول الله ‏.‏ ثم قال ‏"‏ ألا تبايعون رسول الله ‏"‏ ‏.‏ قال فبسطنا أيدينا وقلنا قد بايعناك يا رسول الله فعلام نبايعك قال ‏"‏ على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا والصلوات الخمس وتطيعوا - وأسر كلمة خفية - ولا تسألوا الناس شيئا ‏"‏ ‏.‏ فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوط أحدهم فما يسأل أحدا يناوله إياه ‏.‏
ابو مسلم خولانی سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : مجھ سے ایک پیارے امانت دار ( شخص ) نے حدیث بیان کی وہ ایساہے کہ مجھے پیارا بھی ہے اور وہ ایسا ہے کہ میرے نزدیک امانت دار بھی ہے ۔ یعنی حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔ ۔ انھوں نے کہا : ہم نو ، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( حاضر ) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کروگے؟ " اور ہم نے ابھی نئی نئی بیعت کی تھی ۔ تو ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ " ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ " تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ( ایک بار ) آپ سے بیعت کرچکے ہیں ، اب کس بات پر آپ سے بیعت کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگےاور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں پر ، اور اس بات پر کہ اطاعت کرو گے ۔ اور ایک جملہ آہستہ سے فرمایا ۔ اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے ۔ " اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا کوڑا کرجاتا تو کسی سے نہ کہتا کہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1043

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 140

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2404
حدثنا يحيى بن يحيى، وقتيبة بن سعيد، كلاهما عن حماد بن زيد، قال يحيى أخبرنا حماد بن زيد، عن هارون بن رياب، حدثني كنانة بن نعيم العدوي، عن قبيصة بن، مخارق الهلالي قال تحملت حمالة فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها فقال ‏"‏ أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها ‏"‏ ‏.‏ قال ثم قال ‏"‏ يا قبيصة إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش - أو قال سدادا من عيش - ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش - أو قال سدادا من عيش - فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتا يأكلها صاحبها سحتا ‏"‏ ‏.‏
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : میں نے ( لوگوں کے معاملات میں اصلاح کے لئے ) ادائیگی کی ایک ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپ سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آجائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں ۔ " پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اے قبیصہ!تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لئے سوال کرناجائز نہیں : ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرلی ، اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کرلے ، اس کے بعد ( سوال سے ) رک جائے ، دوسرا وہ آدمی جس پر کوئی آفت آپڑی ہو جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو ، اس کے لئے سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی گزران درست کرلے ۔ یا فرمایا : زندگی کی بقا کاسامان کرلے ۔ اور تیسرا وہ آدمی جو فاقے کا شکار ہوگیا ، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد کھڑے ہوجائیں ( اور کہہ دیں ) کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہوگیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا حلال ہوگیا یہاں تک کہ وہ درست گزران حاصل کرلے ۔ ۔ ۔ یا فرمایا : زندگی باقی رکھنے جتنا حاصل کرلے ۔ ۔ ۔ اے قبیصہ!ان صورتوں کے سوا سوال کرناحرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1044

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 141

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2405
وحدثنا هارون بن معروف، حدثنا عبد الله بن وهب، ح وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، قال سمعت عمر بن الخطاب، - رضى الله عنه - يقول قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء فأقول أعطه أفقر إليه مني ‏.‏ حتى أعطاني مرة مالا فقلت أعطه أفقر إليه مني ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خذه وما جاءك من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے ، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے اپنے والد ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ، کہا : میں نے حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے عنایت فرماتے تھے تو میں عرض کرتا : کسی ایسے آدمی کو عنایت فرمادیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے بہت سارا مال عطا کردیا تو میں نے عرض کی : کسی ایسے فرد کو عطا کردیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہو ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اسے لے لو اور ایسا جو مال تمھارے پاس اس طرح آئے کہ نہ تو تم اس کے خواہش مند ہو اور نہ ہی مانگنے والے ہو تو اس کو لے لو اور جو مال اس طرح نہ ملے اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1045.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 142

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2406
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعطي عمر بن الخطاب - رضى الله عنه - العطاء فيقول له عمر أعطه يا رسول الله أفقر إليه مني ‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خذه فتموله أو تصدق به وما جاءك من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك ‏"‏ ‏.‏ قال سالم فمن أجل ذلك كان ابن عمر لا يسأل أحدا شيئا ولا يرد شيئا أعطيه ‏.‏
عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے ، انھوں نے سالم سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیتے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دے دیجئے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اس کو لے لو اور اپنا مال بنالو یا اسے صدقہ کردو اور اس مال میں سے جو تمہار ےپاس اس طرح آئے کہ تم نہ اس کے خواہش مند ہو نہ مانگنے والے تو اس کو لے لو اور جو ( مال ) اس طرح نہ ملے تو اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ ۔ "" سالم نے کہا : اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے اور جو چیز انھیں پیش کی جاتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1045.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 143

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2407
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، قال عمرو وحدثني ابن شهاب، بمثل ذلك عن السائب بن يزيد، عن عبد الله بن السعدي، عن عمر بن الخطاب، - رضى الله عنه - عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
سائب بن یزید نے عبداللہ بن سعدی سے ، انھوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( اسی کے مانند ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1045.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 144

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2408
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن بكير، عن بسر بن سعيد، عن ابن الساعدي، المالكي أنه قال استعملني عمر بن الخطاب - رضى الله عنه - على الصدقة فلما فرغت منها وأديتها إليه أمر لي بعمالة فقلت إنما عملت لله وأجري على الله ‏.‏ فقال خذ ما أعطيت فإني عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعملني فقلت مثل قولك فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا أعطيت شيئا من غير أن تسأل فكل وتصدق ‏"‏ ‏.‏
لیث نے بکیر سے ، انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے ابن ساعدی مالکی سے روایت کی کہ انھوں نے کہا : مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقے ( کی وصولی ) کےلئے عامل مقرر کیا ، جب میں اس کام سے فارغ ہوا اور انھیں ( وصول کردہ ) مال لا کر ادا کردیا ، تو انھوں نے مجھے کام کی اجرت دینے کا حکم دیا ۔ میں نے عرض کی : میں نے تو یہ کام محض اللہ کی ( رضا کی ) خاطر کیا ہے اور میرا اجر اللہ نے دینا ہے ۔ تو انھوں نے کہا : جو تمھیں دیا جائے اسے لے لو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کام کیا تھا ، آپ نے مجھے میرے کام کی مزدوری دی تو میں نے بھی تمہاری جیسی بات کہی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب تمھیں تمہارے مانگے بغیر کوئی چیز دی جائے تو کھاؤ اور صدقہ کرو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1045.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 145

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2409
وحدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، عن بكير بن الأشج، عن بسر بن سعيد، عن ابن السعدي، أنه قال استعملني عمر بن الخطاب - رضى الله عنه - على الصدقة ‏.‏ بمثل حديث الليث ‏.‏
عمرو بن حارث نے بکیر بن اشج سے ، انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے ابن سعدی سے روایت کی کہ انھوں نےکہا : مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقہ وصول کرنے کے لئے عامل بنایا ۔ ۔ ۔ ( آگے ) لیث کی حدیث کی طرح ( روایت بیان کی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1045.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 146

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2410
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قلب الشيخ شاب على حب اثنتين حب العيش والمال ‏"‏ ‏.‏
اعرج نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کیا ، آپ نے فرمایا : " بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہوتاہے : زندگی کی محبت اور مال کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1046.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 147

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2411
وحدثني أبو الطاهر، وحرملة، قالا أخبرنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قلب الشيخ شاب على حب اثنتين طول الحياة وحب المال ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسیب نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل بھی جوان رہتا ہے : زندگی لمبی ہونے اور مال کی محبت میں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1046.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 148

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2412
وحدثني يحيى بن يحيى، وسعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، كلهم عن أبي عوانة، - قال يحيى أخبرنا أبو عوانة، - عن قتادة، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يهرم ابن آدم وتشب منه اثنتان الحرص على المال والحرص على العمر ‏"‏ ‏.‏
ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آدم کابیٹا بوڑھا ہوجاتاہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں : دولت کی حرص اور عمر کی حرص ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1047.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 149

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2413
وحدثني أبو غسان المسمعي، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن أنس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال بمثله ‏.‏
معاذ بن ہشام کے والد ہشام نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ( آگے ) اسی طرح ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1047.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 150

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2414
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه ‏.‏
شعبہ نے کہا : میں نے قتادہ سے سنا ، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ۔ ۔ ۔ ( آگے ) اسی طرح ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1047.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 151

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2415
حدثنا يحيى بن يحيى، وسعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، قال يحيى أخبرنا وقال الآخران، حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لو كان لابن آدم واديان من مال لابتغى واديا ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب ‏"‏ ‏.‏
ابو عوانہ نے قتادہ سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی ( بھری ہو ئی ) دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری حاصل کرنا چا ہے گا آدمی کا پیٹ مٹی کے سوا کو ئی اور چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اسی کی طرف تو جہ فر ما تا ہے جو ( اس کی طرف ) تو جہ کرتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1048.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 152

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2416
وحدثنا ابن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، أخبرنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول - فلا أدري أشىء أنزل أم شىء كان يقوله - بمثل حديث أبي عوانة ‏.‏
شعبہ نے کہا : قتادہ سے سنا وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کر رہے تھے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فر ما رہے تھے مجھے پتہ نہیں ہے کہ یہ الفا ظ آپ پر نازل ہو ئے تھے یا آپ ( خودہی ) فر ما رہے تھے ۔ ( آگے ) ابو عوانہ کی حدیث کے مانند ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1048.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 153

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2417
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرني ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ لو كان لابن آدم واد من ذهب أحب أن له واديا آخر ولن يملأ فاه إلا التراب والله يتوب على من تاب ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فر ما یا : " اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ( بھری ہو ئی ) ایک وادی ہو تو وہ چا ہے گا کہ اس کے پاس ایک ا ور وای بھی ہو ، اس کا منہ مٹی کے سوا کو ئی اور چیز نہیں بھرتی اللہ اس کی طرف تو جہ فر ما تا ہے جو اللہ کی طرف تو جہ کرتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1048.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 154

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2418
وحدثني زهير بن حرب، وهارون بن عبد الله، قالا حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج، قال سمعت عطاء، يقول سمعت ابن عباس، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لو أن لابن آدم ملء واد مالا لأحب أن يكون إليه مثله ولا يملأ نفس ابن آدم إلا التراب والله يتوب على من تاب ‏"‏ ‏.‏ قال ابن عباس فلا أدري أمن القرآن هو أم لا ‏.‏ وفي رواية زهير قال فلا أدري أمن القرآن ‏.‏ لم يذكر ابن عباس ‏.‏
مجھے زہیر بن حرب اور ہا رون بن عبد اللہ نے حدیث سنا ئی دو نوں نے کہا : ہمیں حجا ج بن محمد نے ابن جریج سے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے عطا ء سے سنا کہہ رہے تھے میں نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ما تے ہو ئے سنا : "" اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال سے بھر ی ہو ئی ایک وادی ہو تو وہ چا ہے گا کہ اس کے پاس اس جیسی اور وادی بھی ہو آدمی کے دل کو مٹی کے سوا کچھ اور نہیں بھر سکتا اور اللہ اس پر تو جہ فر ما تا ہے جو اس کی طرف متوجہ ہو ، حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے معلوم نہیں یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں اور زہیر کی روایت میں ہے انھوں نے کہا : مجھے معلوم نہیں یہ با ت قرآن میں سے ہے ( یا نہیں ) انھوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1049

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 155

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2419
حدثني سويد بن سعيد، حدثنا علي بن مسهر، عن داود، عن أبي حرب بن أبي، الأسود عن أبيه، قال بعث أبو موسى الأشعري إلى قراء أهل البصرة فدخل عليه ثلاثمائة رجل قد قرءوا القرآن فقال أنتم خيار أهل البصرة وقراؤهم فاتلوه ولا يطولن عليكم الأمد فتقسو قلوبكم كما قست قلوب من كان قبلكم وإنا كنا نقرأ سورة كنا نشبهها في الطول والشدة ببراءة فأنسيتها غير أني قد حفظت منها لو كان لابن آدم واديان من مال لابتغى واديا ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ‏.‏ وكنا نقرأ سورة كنا نشبهها بإحدى المسبحات فأنسيتها غير أني حفظت منها ‏{‏ يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون‏}‏ فتكتب شهادة في أعناقكم فتسألون عنها يوم القيامة ‏.‏
ابو حرب بن ابی اسود کے والد سے روایت ہے انھوں نے کہا : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بصرہ کے قاریوں کی طرف ( انھیں بلا نے کے لیے قاصد ) بھیجا تو ان کے ہاں تین سو آدی آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے تو انھوں ( ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : تم اہل بصرہ کے بہترین لو گ اور ان کے قاری ہو اس کی تلا وت کرتے رہا کرو تم پر لمبی مدت ( کا وقفہ ) نہ گزرے کہ تمھا رے دل سخت ہو جا ئیں جس طرح ان کے دل سخت ہو گئے تھے جو تم سے پہلے تھے ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم لمبا ئی اور ( ڈرا نے کی ) شدت میں ( سورہ ) براۃ تشبیہ دیا کرتے تو وہ مجھے بھلا دی گئی اس کے سوا کہ اس کا یہ ٹکڑا مجھے یا د رہ گیا آگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیا ہوں تو وہ تیسری وادی کا متلا شی ہو گا اور ابن آدم کا پیٹ تو مٹی کے سوا کو ئی شے نہیں بھرتی ۔ ہم ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے جس کو ہم تسبیح والی سورتوں میں سے ایک سورت سے تشبیہ دیا کرتے تھے وہ بھی مجھے بھلا دی گئی ہاں اس میں سے مجھے یہ یا د ہے " اے ایمان والو! وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں وہ بطور شہادت تمھا ری گردنوں میں لکھ دی جا ئے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جا ئے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1050

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 156

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2420
حدثنا زهير بن حرب، وابن، نمير قالا حدثنا سفيان بن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " غنا مال و اسباب کی کثرت سے نہیں بلکہ حقیقی غنا دل کی بے نیا زی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1051

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 157

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2421
وحدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا الليث بن سعد، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، - وتقاربا في اللفظ - قال حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن عياض بن، عبد الله بن سعد أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطب الناس فقال ‏"‏ لا والله ما أخشى عليكم أيها الناس إلا ما يخرج الله لكم من زهرة الدنيا ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل يا رسول الله أيأتي الخير بالشر فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة ثم قال ‏"‏ كيف قلت ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله أيأتي الخير بالشر فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الخير لا يأتي إلا بخير أو خير هو إن كل ما ينبت الربيع يقتل حبطا أو يلم إلا آكلة الخضر أكلت حتى إذا امتلأت خاصرتاها استقبلت الشمس ثلطت أو بالت ثم اجترت فعادت فأكلت فمن يأخذ مالا بحقه يبارك له فيه ومن يأخذ مالا بغير حقه فمثله كمثل الذي يأكل ولا يشبع ‏"‏ ‏.‏
عیاض بن عبد اللہ بن سعد سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لو گوں کو خطبہ دیا اور فر ما یا : " نہیں اللہ کی قسم !لو گو!مجھے تمھا رے بارے کسی چیز کا ڈر نہیں سوائے دنیا کی اس زینت کے جو اللہ تعالیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کرے گا ۔ ایک آدمی کہنے لگا ۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا خیر شر کو لے آئے گی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھڑی بھر خا مو ش رہے پھر فر ما یا : " تم نے کس طرح کہا ؟ اس نے کہا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے عرض کی تھی کیا خیر شر کو لا ئے گی ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا : " خیر خیر ہی کو لا تی ہے لیکن کیا وہ ( دنیا کی زیب و زینت فی ذاتہ ) خیر ہے ؟ وہ سب کچھ جو بہا ر لگا تی ہے ( جا نور کو ) اُپھا رے سے ما رڈا لتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے ایسے سبزہ کھا نے والے جا نور کے سوا جس نے کھا یا اور جب اس کی کو کھیں بھر گئیں ( وہ سیر ہو گیا ) تو مزید کھا نے کے بجا ئے ) اس نے سورج کا رخ کر لیا اور بیٹھ کر گو بر یا پیشاب کیا پھر جگا لی کی اور دوبارہ کھا یا تو ( اسی طرح ) جو انسا ن اس ( مال ) کے حق کے مطا بق مال لیتا ہے اس کے لیے اس میں بر کت دا ل دیا جا تی ہے اور جو انسان اس کے حق کے بغیر مال لیتا ہے وہ اس کی طرح ہے جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1052.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 158

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2422
حدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني مالك بن أنس، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أخوف ما أخاف عليكم ما يخرج الله لكم من زهرة الدنيا ‏"‏ ‏.‏ قالوا وما زهرة الدنيا يا رسول الله قال ‏"‏ بركات الأرض ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا رسول الله وهل يأتي الخير بالشر قال ‏"‏ لا يأتي الخير إلا بالخير لا يأتي الخير إلا بالخير لا يأتي الخير إلا بالخير إن كل ما أنبت الربيع يقتل أو يلم إلا آكلة الخضر فإنها تأكل حتى إذا امتدت خاصرتاها استقبلت الشمس ثم اجترت وبالت وثلطت ثم عادت فأكلت إن هذا المال خضرة حلوة فمن أخذه بحقه ووضعه في حقه فنعم المعونة هو ومن أخذه بغير حقه كان كالذي يأكل ولا يشبع ‏"‏ ‏.‏
زید بن اسلم نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر دنیا کی اس شادابی اور زینت سے ہے جو اللہ تعا لیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کر ے گا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی دنیا کی شادا بی اور زینت کیا ہے ؟ آپ نے فر ما یا : " زمین کی بر کا ت ۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کو لے آتی ہے ؟ آپ نے فر ما یا : " خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی وہ سب کچھ جو بہا ر اگا تی ہے وہ ( زیادہ کھا نے کی وجہ سے ہو نے والی بد ہضمی کا سبب بن کر ) مار دیتا ہے یا موت کے قریب کر دیتا ہے سوائے اس چارہ کھا نے والے جا نور کے جو کھا تا ہے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کو کھیں پھول جا تی ہیں ( وہ سیر ہو جا تا ہے ) تو وہ ( مزید کھا نا چھوڑ کر ) سورج کی طرف منہ کر لیتا ہے پھر جگا لی کرتا ہے پیشاب کرتا ہے گو بر کرتا ہے پھر لو ٹتا ہے اور کھاتا ہے بلا شبہ یہ ما ل شادا ب اور شیریں ہے جس نے اسے اس کے حق کے مطا بق لیا اور حق ( کے مصرف ) ہی میں خرچ کیا تو وہ ( مال ) بہت ہی معاون و مددد گا ر ہو گا اور جس نے اسے حق کے بغیر لیا وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1052.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 159

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2423
حدثني علي بن حجر، أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن هشام، صاحب الدستوائي عن يحيى بن أبي كثير، عن هلال بن أبي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، قال جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وجلسنا حوله فقال ‏"‏ إن مما أخاف عليكم بعدي ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل أويأتي الخير بالشر يا رسول الله قال فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل له ما شأنك تكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يكلمك قال ورئينا أنه ينزل عليه فأفاق يمسح عنه الرحضاء وقال ‏"‏ إن هذا السائل - وكأنه حمده فقال - إنه لا يأتي الخير بالشر وإن مما ينبت الربيع يقتل أو يلم إلا آكلة الخضر فإنها أكلت حتى إذا امتلأت خاصرتاها استقبلت عين الشمس فثلطت وبالت ثم رتعت وإن هذا المال خضر حلو ونعم صاحب المسلم هو لمن أعطى منه المسكين واليتيم وابن السبيل أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه من يأخذه بغير حقه كان كالذي يأكل ولا يشبع ويكون عليه شهيدا يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
ہلال بن ابی میمونہ نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور ہم آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا : " مجھے اپنے بعد تمھا رے بارے میں جس چیز کا خوف ہے وہ دنیا کی شادابی اور زینت ہے جس کے دروازے تم پر کھول دیے جا ئیں گے ۔ تو ایک آدمی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کو لے آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں ( کچھ دیر ) خا مو ش رہے اس سے کہا گیا : تیرا کیا معاملہ ہے ؟ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے ہو ( جبکہ ) وہ تم سے بات نہیں کر رہے ؟ کہا : اور ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی ہے پھر آپ پسینہ پو نچھتے ہو ئے اپنے معمول کی حا لت میں آگئے اور فرمایا : " یہ سا ئل کہاں سے آیا ؟ گو یا آپ نے اس کی تحسین فر ما ئی ۔ ۔ ۔ پھر فر ما یا : " واقعہ یہ ہے کہ خیر شر کو نہیں لا تی اور بلا شبہ مو سم بہار جو اگا تا ہے وہ ( اپنی دفرت شادابی اور مرغوبیت کی بنا پر ) مار دیتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے سوائے سبز دکھا نے والے اس حیوان کے جس نے کھا یا یہاں تک کہ جب اس کی کو کھیں بھرگئیں تو اس نے سورج کی آنکھ کی طرف منہ کر لیا ( اور آرام سے بیٹھ کر کھا یا ہوا ہضم کیا ) پھر لید کی ، پیشاب کیا اس کے بعد ( پھر سے ) گھا س کھا ئی ۔ یقیناً یہ ما ل شاداب اور شریں ہے اور یہ اس مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جس نے اس میں سے مسکین یتیم اور مسافر کو دیا ۔ ۔ ۔ یا الفا ظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما ئے ۔ ۔ ۔ اور حقیقت یہ ہے جو اسے اس کے حق کے بغیر لیتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہے جو کھا تا ہے اور سیر نہیں ہو تا اور قیامت کے دن وہ ( مال ) اس کے خلاف گواہ ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1052.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 160

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2424
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك بن أنس، فيما قرئ عليه عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي سعيد الخدري، أن ناسا، من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم حتى إذا نفد ما عنده قال ‏ "‏ ما يكن عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يصبر يصبره الله وما أعطي أحد من عطاء خير وأوسع من الصبر ‏"‏ ‏.‏
امام مالک بن انس نے ابن شہاب زہری سے انھوں نے عطا ء بن یزید لیثی سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انصار کے کچھ لوگو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا سوال کیا آپ نے ان کو دے دیا انھوں نے پھر مانگا آپ نے دے دیا حتیٰ کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا تو آپ نے فر ما یا : " میرے پاس جو بھی مال ہو گا میں اسے ہر گز تم سے ( بچا کر ذخیرہ نہ کروں گا ( تمھی میں بانٹ دو ں گا ) جو شخص سوال سے بچنے کی کو شش کرے گا اللہ اسے بچا ئے گا اور جو استغنا ( بے نیازی ) اختیار کرے گا اللہ اس کو بے نیاز کر دے گا اورجو صبر کرے گا ( سوال سے باز رہے گا ) اللہ تعا لیٰ اس کو صبر ( کی قوت ) قناعت فر ما ئے گا اور کسی کو ایسا کو ئی عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے بہتر اور وسیع تر ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1053.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 161

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2425
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد ‏.‏ نحوه ‏.‏
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1053.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 162

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2426
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ، عن سعيد بن أبي، أيوب حدثني شرحبيل، - وهو ابن شريك - عن أبي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله، بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قد أفلح من أسلم ورزق كفافا وقنعه الله بما آتاه ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1054

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 163

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2427
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وأبو سعيد الأشج قالوا حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، ح وحدثني زهير بن حرب، حدثنا محمد بن فضيل، عن أبيه، كلاهما عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ( دعا فر ما ئی ) : " اے اللہ ! آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روزی کم سے کم کھانے جتنی کر دے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1055

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 164

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2428
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن سلمان، بن ربيعة قال قال عمر بن الخطاب رضى الله عنه قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما فقلت والله يا رسول الله لغير هؤلاء كان أحق به منهم ‏.‏ قال ‏ "‏ إنهم خيروني أن يسألوني بالفحش أو يبخلوني فلست بباخل ‏"‏ ‏.‏
حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم کیا تو میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !ان کے علاوہ ( جنھیں آپ نے عطا فر ما یا ) دوسرے لو گ اس کے زیادہ حقدار تھے ۔ آپ نے فر ما یا : " انھوں نے مجھے ایک چیز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا کہ یا تو یہ مذموم طریقے ( بے جا اصرار ) سے سوال کریں یا مجھے بخیل بنا دیں تو میں بخیل بننے والا نہیں ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1056

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 165

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2429
حدثني عمرو الناقد، حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، قال سمعت مالكا، ح وحدثني يونس بن عبد الأعلى، - واللفظ له - أخبرنا عبد الله بن وهب، حدثني مالك، بن أنس عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه رداء نجراني غليظ الحاشية فأدركه أعرابي فجبذه بردائه جبذة شديدة نظرت إلى صفحة عنق رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أثرت بها حاشية الرداء من شدة جبذته ثم قال يا محمد مر لي من مال الله الذي عندك ‏.‏ فالتفت إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فضحك ثم أمر له بعطاء ‏.‏
امام مالک بن انس نے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا آپ ( کے کندھوں ) پر خاصے موٹے کنا رے کی ایک نجرانی چادرتھی اتنے میں ایک بدوی آپ کے پا س آگیا اور آپ کی چا در سے ( پکڑ کر ) آپ کو زور سے کھنچا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کی ایک جا نب کی طرف نظر کی جس پر اس کے زور سے کھنچنے کے با عث چا در کے کنا رے نے گہرا نشان ڈا ل دیا تھا پھر اس نے کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے بھی دینے کا حکم دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہو ئے ہنس پڑے اور اسے کچھ دینے کا حکم دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1057.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 166

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2430
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا همام، ح وحدثني زهير بن حرب، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، ح وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا أبو المغيرة، حدثنا الأوزاعي، كلهم عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس، بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث ‏.‏ وفي حديث عكرمة بن عمار من الزيادة قال ثم جبذه إليه جبذة رجع نبي الله صلى الله عليه وسلم في نحر الأعرابي ‏.‏ وفي حديث همام فجاذبه حتى انشق البرد وحتى بقيت حاشيته في عنق رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ہمام عکرمہ بن عماراور اوزاعی سب نے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روا یت کی ۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث میں یہ اضافہ ہے پھر اس نے آپ کو زور سے اپنی طرف کھنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدوی کے سینے سے جا ٹکرا ئے ۔ اور ہمام کی حدیث میں ہے اس نے آپ کے ساتھ کھنچا تا نی شروع کردی یہاں تک کہ چا در پھٹ گئی اور یہاں تک کہ اس کا کنارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں رہ گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1057.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 167

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2431
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن أبي مليكة، عن المسور بن مخرمة، أنه قال قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم أقبية ولم يعط مخرمة شيئا فقال مخرمة يا بنى انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فانطلقت معه قال ادخل فادعه لي ‏.‏ قال فدعوته له فخرج إليه وعليه قباء منها فقال ‏"‏ خبأت هذا لك ‏"‏ ‏.‏ قال فنظر إليه فقال ‏"‏ رضي مخرمة ‏"‏ ‏.‏
لیث نے ( عبد اللہ ) بن ابی ملیکہ سے اور انھوں نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا ئیں تقسیم کیں اور مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کو چیز نہ دی تو مخرمہ نے کہا : میرے بیٹے !مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا ؤ تو میں ان کے ساتھ گیا انھوں نے کہا : اندر جا ؤ اور میری خاطر آپ کو بلالا ؤ میں نے ان کی خا طر آپ کو بلا یا تو آپ اس طرح اس کی طرف آئے کہ آپ ( کے کندھے ) پر ان ( قباؤں ) میں سے ایک قباء تھی آپ نے فر ما یا : " یہ میں نے تمھا رے لیے چھپا کر رکھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر اٹھا کر فر ما یا : " مخرمہ راضی ہو گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1058.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 168

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2432
حدثنا أبو الخطاب، زياد بن يحيى الحساني حدثنا حاتم بن وردان أبو صالح، حدثنا أيوب السختياني، عن عبد الله بن أبي مليكة، عن المسور بن مخرمة، قال قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم أقبية فقال لي أبي مخرمة انطلق بنا إليه عسى أن يعطينا منها شيئا ‏.‏ قال فقام أبي على الباب فتكلم فعرف النبي صلى الله عليه وسلم صوته فخرج ومعه قباء وهو يريه محاسنه وهو يقول ‏ "‏ خبأت هذا لك خبأت هذا لك ‏"‏ ‏.‏
ایو ب سختیا نی نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے اور انھوں نے حضڑت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبائیں آئیں تو مجھے میرے والد مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے آپ کے پاس لے چلو امید ہے آپ ہمیں بھی ان میں سے ( کو ئی قباء ) عنا یت فر ما ئیں گے ۔ میرے والد نے دروازے پر کھڑے ہو کر گفتگو کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز پہچا ن لی ۔ آپ باہر نکلے تو قباء آپ کے ساتھ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اس کی خوبیاں دکھا رہے تھے اور فر ما رہے تھے : " میں نے یہ تمھا رے لیے چھپا کر رکھی تھی میں نے تمھا رے لیے چھپا کر رکھی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1058.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 169

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2433
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، أخبرني عامر بن سعد، عن أبيه، سعد أنه أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وأنا جالس فيهم قال فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه وهو أعجبهم إلى فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساررته فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان والله إني لأراه مؤمنا ‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ ‏.‏ فسكت قليلا ثم غلبني ما أعلم منه فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا ‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ ‏.‏ فسكت قليلا ثم غلبني ما أعلم منه فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا ‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ ‏.‏ قال ‏"‏ إني لأعطي الرجل ‏.‏ وغيره أحب إلى منه خشية أن يكب في النار على وجهه ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث الحلواني تكرار القول مرتين ‏.‏
حسن بن علی حلوانی اور عبدبن حمید نے کہا : ہمیں یعقوب بن ابرا ہیم بن سعد نے حدیث سنا ئی کہا میرے والد نے ہمیں صالح سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی انھوں نے کہا : مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا جبکہ میں بھی ان میں بٹھا ہوا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا اس کو نہ دیا ۔ وہ میرے لیے ان سب کی نسبت زیادہ پسندیدہ تھا میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور ازداری کے ساتھ آپ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے آپ فلا ں سے اعراض فر ما رہے ہیں ؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فر ما یا : " یا مسلمان ۔ میں کچھ دیر کے لیے چپ رہا پھر جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا وہ بات مجھ پر گالب آگئی اور میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے کہ فلا ں کو نہیں دے رہے ؟اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ نے فر ما یا مسلمان ۔ " اس کے بعد میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر جو میں اسکے بارے میں جا نتا تھا وہ بات مجھ پر غالب آگئی میں نے پھر عرض کی : فلاں سے آپ کے اعراض کا سبب کیا ہے اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فر ما یا : " مسلما ۔ " ( پھر ) آپ نے فر ما یا : " میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوبہو تا ہے اس ڈر سے ( دیتا ہوں ) کہ وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جا ئے اور حلوانی کی حدیث میں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن " یا مسلمان کا ) تکرا ر دوبارہے ( تین بار نہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 170

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2434
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، ح وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا يعقوب، بن إبراهيم بن سعد حدثنا ابن أخي ابن شهاب، ح وحدثناه إسحاق بن إبراهيم، وعبد، بن حميد قالا أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، كلهم عن الزهري، بهذا الإسناد على معنى حديث صالح عن الزهري ‏.‏
سفیان ثوری ابن شہاب ( زہری ) کے بھتیجے ( محمد بن عبد اللہ بن شہاب ) اور معمر سب نے ( زہری ) سے اسی سند کے ساتھ اسی ( سابقہ حدیث ) کے ہم معنی حدیث روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.06

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 171

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2435
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، عن إسماعيل بن محمد بن سعد، قال سمعت محمد بن سعد، يحدث بهذا الحديث - يعني حديث الزهري الذي ذكرنا - فقال في حديثه فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده بين عنقي وكتفي ثم قال ‏ "‏ أقتالا أى سعد إني لأعطي الرجل ‏"‏ ‏.‏
محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں یعنی زہری مذکورہ با لا حدیث انھوں نے اپنی حدیث میں کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے در میان اپنا ہا تھ مارا اور فر ما یا : " جنگ کر رہے ہو؟ اے سعد !میں ایک شخص کو دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ( آگے اسی طرح ہے جس طرح پہلی روایت میں ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.07

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 172

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2436
حدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني أنس بن مالك، أن أناسا، من الأنصار قالوا يوم حنين حين أفاء الله على رسوله من أموال هوازن ما أفاء فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي رجالا من قريش المائة من الإبل فقالوا يغفر الله لرسول الله يعطي قريشا ويتركنا وسيوفنا تقطر من دمائهم ‏.‏ قال أنس بن مالك فحدث ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من قولهم فأرسل إلى الأنصار فجمعهم في قبة من أدم فلما اجتمعوا جاءهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ما حديث بلغني عنكم ‏"‏ ‏.‏ فقال له فقهاء الأنصار أما ذوو رأينا يا رسول الله فلم يقولوا شيئا وأما أناس منا حديثة أسنانهم قالوا يغفر الله لرسوله يعطي قريشا ويتركنا وسيوفنا تقطر من دمائهم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإني أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به ‏"‏ ‏.‏ فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ‏.‏ قال ‏"‏ فإنكم ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله فإني على الحوض ‏"‏ ‏.‏ قالوا سنصبر ‏.‏
یونس نے ابن شہاب ( زہری ) سے خبر دی ، کہا : مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے ( قبیلہ ) ہوازن کے وہ اموال عطا کیے جو عطا کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو سوسو اونٹ دینے شروع کیے تو انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے!آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں ، حالانکہ ہماری تلواریں ( ابھی تک ) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ان کی باتوں میں سے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئیں تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے ایک ( بڑے ) سائبان ( کے سائے ) میں جمع کیا ، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : "" یہ کیا بات ہے جو مجھے تم لوگوں کی طرف سے پہنچی ہے؟ "" انصار کے سمجھدار لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے اہل رائے تو کچھ نہیں کہا ، البتہ ہم میں سے ان لوگوں نے ، جو نو عمر ہیں ، یہ بات کہی ہے کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے ، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے ہیں ، حالانکہ ہماری تلواریں ( ابھی تک ) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" میں ان کو دے رہاہوں جو کچھ عرصہ قبل تک کفر پر تھے ، ایسے لوگوں کی تالیف قلب کرناچاہتا ہوں ، کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھروں کی طرف لوٹو؟اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر واپس جارہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جسے وہ لوگ لے کر لوٹ رہے ہیں ۔ "" تو ( انصار ) کہنے لگے : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ( بالکل ) راضی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بے شک تم ( اپنی نسبت دوسروں کو ) بہت زیادہ ترجیح ملتی دیکھو گے تو تم ( اس پر ) صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آملو ۔ میں حوض پرہوں گا ( وہیں ملاقات ہوگی ۔ ) "" انصار نے کہا : ہم ( ہر صورت میں صبر ) صبر کریں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 173

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2437
حدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدثني أنس بن مالك، أنه قال لما أفاء الله على رسوله ما أفاء من أموال هوازن ‏.‏ واقتص الحديث بمثله غير أنه قال قال أنس فلم نصبر ‏.‏ وقال فأما أناس حديثة أسنانهم ‏.‏
صالح نے ابن شہاب ( زہری ) سے روایت کی ، کہا : مجھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیا ن کی کہ انھوں نے کہا : جب اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ( قبیلہ ) ہوازن کے اموال میں سے بطور فے عطا فرمایا جو عطا فرمایا ۔ ۔ ۔ اور اس ( پچھلی حدیث کے ) مانند حدیث بیا ن کی ، اس کے سوا کہ انھوں ( صالح ) نے کہا ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہم نے صبر نہ کیا ۔ اور انہوں نے ( اور ہم میں سے ان لوگوں نے جو نوعمر ہیں ، کے بجائے " نوعمر لوگوں نے " کہا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 174

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2438
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني أنس بن مالك، ‏.‏ وساق الحديث بمثله ‏.‏ إلا أنه قال قال أنس قالوا نصبر ‏.‏ كرواية يونس عن الزهري ‏.‏
ابن شہاب کے بھتیجے ( محمد بن عبداللہ ) نے اپنے چچا سے خبر دی ، کہا : مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی ۔ اور اسی طرح حدیث بیان کی ، سوائے اس بات کےکہ انھوں نے کہا : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ان لوگوں ( انصار ) نے کہا : ہم صبر کریں گے ۔ جس طرح یونس نے زہری سے روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 175

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2439
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، أخبرنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، قال جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم الأنصار فقال ‏"‏ أفيكم أحد من غيركم ‏"‏ ‏.‏ فقالوا لا إلا ابن أخت لنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن ابن أخت القوم منهم ‏"‏ ‏.‏ فقال ‏"‏ إن قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا وسلك الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار ‏"‏ ‏.‏
قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع فرمایااور پوچھا : " کیا تم میں تمھارے سواکوئی اور بھی ہے؟ " انھوں نے جواب دیا : نہیں ، ہمارے بھانجے کے سوا کوئی اور نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " قوم کا بھانجا ان میں سے ہے ۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " قریش تھوڑے دن قبل جاہلیت اور ( گمراہی ) کی مصیبت میں تھے اور میں نے چاہا کہ ان کو ( اسلام پر ) پکا کروں اور ان کی دلجوئی کروں ، کیا توم اس پر خوش نہیں ہوگے کہ لوگ دنیاواپس لے کرجائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو؟اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 176

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2440
حدثنا محمد بن الوليد، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي التياح، قال سمعت أنس بن مالك، قال لما فتحت مكة قسم الغنائم في قريش فقالت الأنصار إن هذا لهو العجب إن سيوفنا تقطر من دمائهم وإن غنائمنا ترد عليهم ‏.‏ فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمعهم فقال ‏"‏ ما الذي بلغني عنكم ‏"‏ ‏.‏ قالوا هو الذي بلغك ‏.‏ وكانوا لا يكذبون ‏.‏ قال ‏"‏ أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار ‏"‏ ‏.‏
ابوتیاح سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، انھوں نے کہا : جب مکہ فتح ہوگیااور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی ) غنیمتیں قریش میں تقسیم کیں تو انصار نے کہا : یہ بڑے تعجب کی بات ہے ، ہماری تلواروں سے ان لوگوں کے خون ٹپک رہے ہیں اور ہمارے اموال غنیمت انھی کو دیے جارہے ہیں!یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جمع کیا اور فرمایا : " وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ " انھوں نے کہا : بات وہی ہے جو آ پ تک پہنچ چکی ہےوہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا تم ( اس پر ) خوش نہ ہوگے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کراپنے گھروں کو لوٹو ۔ اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار د وسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا انصار کی گھاٹی میں چلوں گا ۔ " ( انصار سے بھی یہی توقع ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 177

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2441
حدثنا محمد بن المثنى، وإبراهيم بن محمد بن عرعرة، - يزيد أحدهما على الآخر الحرف بعد الحرف - قالا حدثنا معاذ بن معاذ حدثنا ابن عون عن هشام بن زيد بن أنس عن أنس بن مالك قال لما كان يوم حنين أقبلت هوازن وغطفان وغيرهم بذراريهم ونعمهم ومع النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ عشرة آلاف ومعه الطلقاء فأدبروا عنه حتى بقي وحده - قال - فنادى يومئذ نداءين لم يخلط بينهما شيئا - قال - فالتفت عن يمينه فقال ‏"‏ يا معشر الأنصار ‏"‏ ‏.‏ فقالوا لبيك يا رسول الله أبشر نحن معك - قال - ثم التفت عن يساره فقال ‏"‏ يا معشر الأنصار ‏"‏ ‏.‏ قالوا لبيك يا رسول الله أبشر نحن معك - قال - وهو على بغلة بيضاء فنزل فقال أنا عبد الله ورسوله ‏.‏ فانهزم المشركون وأصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائم كثيرة فقسم في المهاجرين والطلقاء ولم يعط الأنصار شيئا فقالت الأنصار إذا كانت الشدة فنحن ندعى وتعطى الغنائم غيرنا ‏.‏ فبلغه ذلك فجمعهم في قبة فقال ‏"‏ يا معشر الأنصار ما حديث بلغني عنكم ‏"‏ ‏.‏ فسكتوا فقال ‏"‏ يا معشر الأنصار أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم ‏"‏ ‏.‏ قالوا بلى يا رسول الله رضينا ‏.‏ قال فقال ‏"‏ لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار ‏"‏ ‏.‏ قال هشام فقلت يا أبا حمزة أنت شاهد ذاك قال وأين أغيب عنه
ہشام بن زید بن انس نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب حنین کی جنگ ہوئی تو حوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روز دس ہزار ( اپنے ساتھی ) تھے اور وہ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جنھیں ( فتح مکہ کے موقع پر غلام بنانے کی بجائے ) آزاد کیاگیا تھا ۔ یہ آپ کو چھوڑ کر پیچھے بھاگ گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے ، کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن ( مہاجرین کے بعد انصار کو ) دودفعہ پکارا ، ان دونوں کو آپس میں زرہ برابر گڈ مڈ نہ کیا ، آپ دائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی : "" اے جماعت انصار! "" انھوں نے کہا : لبیک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف متوجہ ہوئےاور فرمایا : "" اے جماعت انصار! "" انھوں نے کہا : لبیک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیے ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ آپ ( اس وقت ) سفید خچر پر سوار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور فرمایا : "" میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ "" چنانچہ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے بہت سے اموال حاصل کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ( فتح مکہ سے زرا قبل ) ہجرت کرنے والوں اور ( فتح مکہ کے موقع پر ) آزاد رکھے جانے والوں میں تقسیم کردیا اور انصارکو کچھ نہ دیا ، اس پر انصار نے کہا : جب سختی اورشدت کا موقع ہوتوہمیں بلایا جاتا ہے ۔ اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں!یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی ، اس پر آپ نے انھیں سائبان میں جمع کیا اور فرمایا : "" اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟ "" وہ خاموش رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اے انصار کی جماعت!کیا تم اس بات پر راضی نہ ہوگے کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جمعیت میں شامل کرکے اپنے ساتھ گھروں کو لے جاؤ ۔ "" وہ کہہ اٹھے : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ( اس پر ) راضی ہیں ۔ کہا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "" اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں ، تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا ۔ "" ہشام نے کہا میں نے پوچھا : ابوحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! ( حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ) آپ اس کے ( عینی ) شاہد تھے؟انھوں نے کہا : میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں غائب ہوسکتاتھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.06

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 178

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2442
حدثنا عبيد الله بن معاذ، وحامد بن عمر، ومحمد بن عبد الأعلى، قال ابن معاذ حدثنا المعتمر بن سليمان، عن أبيه، قال حدثني السميط، عن أنس بن مالك، قال افتتحنا مكة ثم إنا غزونا حنينا فجاء المشركون بأحسن صفوف رأيت - قال - فصفت الخيل ثم صفت المقاتلة ثم صفت النساء من وراء ذلك ثم صفت الغنم ثم صفت النعم - قال - ونحن بشر كثير قد بلغنا ستة آلاف وعلى مجنبة خيلنا خالد بن الوليد - قال - فجعلت خيلنا تلوي خلف ظهورنا فلم نلبث أن انكشفت خيلنا وفرت الأعراب ومن نعلم من الناس - قال - فنادى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا للمهاجرين يا للمهاجرين ‏"‏ ‏.‏ ثم قال ‏"‏ يا للأنصار يا للأنصار ‏"‏ ‏.‏ قال قال أنس هذا حديث عمية ‏.‏ قال قلنا لبيك يا رسول الله - قال - فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - فايم الله ما أتيناهم حتى هزمهم الله - قال - فقبضنا ذلك المال ثم انطلقنا إلى الطائف فحاصرناهم أربعين ليلة ثم رجعنا إلى مكة فنزلنا - قال - فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي الرجل المائة من الإبل ‏.‏ ثم ذكر باقي الحديث كنحو حديث قتادة وأبي التياح وهشام بن زيد ‏.‏
سمیط نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہم نے مکہ فتح کرلیا ، پھر ہم نے حنین میں جنگ کی ، میرے مشاہدے کے مطابق مشرک بہترین صف بندی کرکے ( مقابلہ میں ) آئے ۔ پہلے گھڑ سواروں کی صف بنائی گئی ، پھر جنگجوؤں ( لڑنے والوں ) کی ، پھر اس کے پیچھے عورتوں کی صف بنائی گئی ، پھر بکریوں کی قطاریں کھڑی کی گئیں ، پھر اونٹوں کی قطاریں ۔ کہا : اور ہم ( انصار ) بہت لوگ تھے ، ہماری تعداد چھ ہزار کو پہنچ گئی تھی اور ہمارے پہلو کے سواروں پر خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ ہمارے گھڑ سوار ہماری پشتوں کی طرف مڑنے لگے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے سوار بکھر گئے اور بدو بھی بھاگ گئے اور وہ لوگ بھی جن کو ہم جانتے ہیں ( مکہ کے نو مسلم ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی : " اے مہاجرین!اے مہاجرین! " پھر فرمایا : " اے انصار! اے انصار!کہا : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یہ ( میرے اپنے مشاہدے کے علاوہ جنگ میں شریک لوگوں کی ) جماعت کی روایت ہے ۔ کہا : ہم نے کہا : لبیک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے ، اور ہم اللہ کی قسم!ان تک پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کردیا ، اس پر ہم نے اس سارے مال پر قبضہ کرلیا ، پھر ہم طائف کی طرف روانہ ہوئے اور چالیس دن تک ان کا محاصرہ کیا ، پھر ہم مکہ واپس آئے اوروہاں پڑاؤکیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سواونٹ ( کے حساب سے ) دینے کا آغاز فرمایا ۔ ۔ ۔ پھرحدیث کا باقی حصہ اسی طرح بیان کیا جس طرح ( اوپر کی روایات میں ) قتادہ ، ابو تیاح اور ہشام بن زیدکی روایت ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1059.07

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 179

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2443
حدثنا محمد بن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عمر بن سعيد بن مسروق، عن أبيه، عن عباية بن رفاعة، عن رافع بن خديج، قال أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا سفيان بن حرب وصفوان بن أمية وعيينة بن حصن والأقرع بن حابس كل إنسان منهم مائة من الإبل وأعطى عباس بن مرداس دون ذلك ‏.‏ فقال عباس بن مرداس أتجعل نهبي ونهب العبيد بين عيينة والأقرع فما كان بدر ولا حابس يفوقان مرداس في المجمع وما كنت دون امرئ منهما ومن تخفض اليوم لا يرفع قال فأتم له رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة ‏.‏
محمد بن ابی عمر مکی نے کہا : سفیان ( بن عینیہ ) نے ہمیں عمر بن سعید بن مسروق سےحدیث بیان کی ، انہوں نےاپنے والد ( سعید بن مسروق ) سے ، انھوں نے عبایہ بن رفاعہ سے اور انھوں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان بن حرب ، صفوان بن امیہ ، عینیہ بن حصین اور اقرع بن جابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے ہر ایک کو سو سو اونٹ دیئے اور عباس بن مرداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سے کم دیے تو عباس بن مرد اس نے ( اشعار میں ) کہا : کیا آپ میری اور میرے گھوڑے عبید کی غنیمت عینیہ ( بن حصین بن حذیفہ بن بدر سید بن غطفان ) اور اقرع ( بن حابس رئیس تمیم ) کے درمیان قرار دیتے ہیں ، حالانکہ ( عینیہ کے پردادا ) بدر اور ( اقرع کے والد ) حابس کسی ( بڑوں کے ) مجمع میں ( میرے والد ) سے فوقیت نہیں رکھتے تھے اور میں ان دونوں میں سے کسی سے کم نہیں ہوں اور جس کو پست قراردیا جائے گا اس کو بلند نہیں کیا جاسکے گا ۔ کہا : اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی سو پورے کردیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1060.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 180

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2444
وحدثنا أحمد بن عبدة الضبي، أخبرنا ابن عيينة، عن عمر بن سعيد بن مسروق، بهذا الإسناد أن النبي صلى الله عليه وسلم قسم غنائم حنين فأعطى أبا سفيان بن حرب مائة من الإبل ‏.‏ وساق الحديث بنحوه وزاد وأعطى علقمة بن علاثة مائة ‏.‏
(احمد بن عبدہ ضبی نے کہا : ہمیں ) سفیان ( بن عینیہ نے عمر بن سعید بن مسروق سے اسی سند کے ساتھ خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے غنائم تقیسم کیے تو ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سواونٹ دیے ۔ ۔ ۔ اورپچھلی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا : اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ بن علاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی سو اونٹ دیئے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1060.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 181

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2445
وحدثنا مخلد بن خالد الشعيري، حدثنا سفيان، حدثني عمر بن سعيد، بهذا الإسناد ولم يذكر في الحديث علقمة بن علاثة ولا صفوان بن أمية ولم يذكر الشعر في حديثه‏.‏
مخلد بن خالد شعیری نے کہا : ہمیں سفیان ( بن عینیہ ) نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے عمر بن سعید نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور اس میں نہ علقمہ بن علاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا نہ صفوان بن امیہ کا اور نہ اپنی حدیث میں اشعار ہی ذکر کیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1060.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 182

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2446
حدثنا سريج بن يونس، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عمرو بن يحيى بن عمارة، عن عباد بن تميم، عن عبد الله بن زيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما فتح حنينا قسم الغنائم فأعطى المؤلفة قلوبهم فبلغه أن الأنصار يحبون أن يصيبوا ما أصاب الناس فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطبهم فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ يا معشر الأنصار ألم أجدكم ضلالا فهداكم الله بي وعالة فأغناكم الله بي ومتفرقين فجمعكم الله بي ‏"‏ ‏.‏ ويقولون الله ورسوله أمن ‏.‏ فقال ‏"‏ ألا تجيبوني ‏"‏ ‏.‏ فقالوا الله ورسوله أمن ‏.‏ فقال ‏"‏ أما إنكم لو شئتم أن تقولوا كذا وكذا وكان من الأمر كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ لأشياء عددها ‏.‏ زعم عمرو أن لا يحفظها فقال ‏"‏ ألا ترضون أن يذهب الناس بالشاء والإبل وتذهبون برسول الله إلى رحالكم الأنصار شعار والناس دثار ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار ولو سلك الناس واديا وشعبا لسلكت وادي الأنصار وشعبهم إنكم ستلقون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض ‏"‏ ‏.‏
عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے عباد بن تمیم سے ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین فتح کیا ، غنائم تقسیم کیے تو جن کی تالیف قلب مقصودتھی ان کو ( بہت زیادہ ) عطافرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی اتنا لیناچاہتے ہیں جتنا دوسرے لوگوں کو ملا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ان کو خطاب فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی ، پھر فرمایا : " ا ے گروہ انصار!کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں ہدایت نصیب فرمائی!اور تمھیں محتاج وضرورت مند نہ پایا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے زریعے سےتمھیں غنی کردیا!کیا تمھیں منتشر نہ پایا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمھیں متحد کردیا! " ان سب نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر احسان فرمانے والے ہیں ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم مجھے جواب نہیں دو گے؟ " انھوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم بھی ، اگرچاہو توکہہ سکتے ہو ایساتھا ایساتھا اور معاملہ ایسے ہوا ، ایسےہوا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتیں گنوائیں ، ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارےپاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلاچھوڑ دیاگیاتھا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیاگیاتھا ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھکانہ مہیاکیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذمہ داریوں کابوجھ تھا ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مواسات کی ) عمرو ( بن یحییٰ ) کا خیال ہے وہ انھیں یاد نہیں رکھ سکے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " کیا تم اس پر راضی نہیں ہوتے کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا پنے ساتھ لے کر گھروں کو جاؤ؟انصار قریب تر ہیں اور لوگ ان کے بعد ہیں ( شعار وہ کپڑے جو سب سے پہلے جسم پر پہنے جاتے ہیں ، دثار وہ کپڑے جو بعد میں اوڑھے جاتے ہیں ) اور اگر ہجرت ( کا فرق ) نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا ، بلاشبہ تم میرے بعد ( خود پر دوسروں کو ) ترجیح ملتی پاؤگے تو صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض پر آملو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1061

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 183

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2447
حدثنا زهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال لما كان يوم حنين آثر رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا في القسمة فأعطى الأقرع بن حابس مائة من الإبل وأعطى عيينة مثل ذلك وأعطى أناسا من أشراف العرب وآثرهم يومئذ في القسمة فقال رجل والله إن هذه لقسمة ما عدل فيها وما أريد فيها وجه الله ‏.‏ قال فقلت والله لأخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - فأتيته فأخبرته بما قال - قال - فتغير وجهه حتى كان كالصرف ثم قال ‏"‏ فمن يعدل إن لم يعدل الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ قال ثم قال ‏"‏ يرحم الله موسى قد أوذي بأكثر من هذا فصبر ‏"‏ ‏.‏ قال قلت لا جرم لا أرفع إليه بعدها حديثا ‏.‏
منصور نے ابو وائل ( شقیق ) سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : جب حنین کی جنگ ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ( مال غنیمت کی ) تقسیم میں ترجیح دی ۔ آپ نے اقرع بن حابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو اونٹ دیے ، عینیہ کو بھی اتنے ہی ( اونٹ ) دیے اور عرب کے دوسرے اشراف کو بھی عطا کیا اور اس دن ( مال غنیمت کی ) تقسیم میں نہ عدل کیا گیا اور نہ اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھاگیا ہے ۔ کہا : میں نے ( دل میں ) کہا : اللہ کی قسم!میں ( اس بات سے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور آگاہ کروں گا ، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کی اطلاع دی جو اس نے کہی تھی ۔ ( غصے سے ) آپ کا چہرہ مبارک متغیر ہوا یہاں تک کہ وہ سرخ رنگ کی طرح ہوگیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "" اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو پھر کون عدل کرے گا! "" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے!انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی تو انھوں نے صبر کیا ۔ "" ( ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : میں نےدل میں سوچا آئندہ کبھی ( اس قسم کی ) کوئی بات آپ کے سامنے پیش نہیں کروں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1062.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 184

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2448
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما فقال رجل إنها لقسمة ما أريد بها وجه الله - قال - فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فساررته فغضب من ذلك غضبا شديدا واحمر وجهه حتى تمنيت أني لم أذكره له - قال - ثم قال ‏ "‏ قد أوذي موسى بأكثر من هذا فصبر ‏"‏ ‏.‏
اعمش نے ( ابو وائل ) شقیق سے اور ا نھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ( مال ) تقسیم کیا توع ایک آدمی نے کہا : اس تقسیم میں اللہ کی رضا کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ۔ کہا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور چپکے چپکے سے آپ کو بتادیا ، اس سے آپ انتہائی غصے میں آگئے ، آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا حتیٰ کہ میں نے خواہش کی ، کاش!یہ بات میں آپ کو نہ بتاتا ، کہا : پھر آپ نے فرمایا : " موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی تو انھوں نے صبر کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1062.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 185

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2449
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر، أخبرنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن أبي، الزبير عن جابر بن عبد الله، قال أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجعرانة منصرفه من حنين وفي ثوب بلال فضة ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقبض منها يعطي الناس فقال يا محمد اعدل ‏.‏ قال ‏"‏ ويلك ومن يعدل إذا لم أكن أعدل لقد خبت وخسرت إن لم أكن أعدل ‏"‏ ‏.‏ فقال عمر بن الخطاب رضى الله عنه دعني يا رسول الله فأقتل هذا المنافق ‏.‏ فقال ‏"‏ معاذ الله أن يتحدث الناس أني أقتل أصحابي إن هذا وأصحابه يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون منه كما يمرق السهم من الرمية ‏"‏ ‏.‏
لیث نے یحییٰ بن سعید سے حدیث بیا ن کی ، انھوں نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں چاندی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کے لوگوں کو دے رہے تھے ۔ تو اس نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عدل کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تیرے لئے ویل ( ہلاکت یاجہنم ) ہو!اگر میں عدل نہیں کررہا تو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا ۔ " اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ( میں اس بات سے ) اللہ کی پناہ ( مانگتا ہوں ) !کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں ۔ یہ شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے ، وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا ، ( یہ لوگ ) اس طرح اس ( دین اسلام ) سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے ( آگے ) نکل جاتا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1063.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 186

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2450
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، قال سمعت يحيى بن سعيد، يقول أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، ح. وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا زيد بن الحباب، حدثني قرة بن خالد، حدثني أبو الزبير، عن جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم مغانم ‏.‏ وساق الحديث ‏.‏
عبدالوہاب ثقفی نے کہا : میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا ، کہہ رہے تھے : مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، نیز قرہ بن خالد نے بھی ابو زبیر کے واسطے سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غنیمتیں تقسیم فرمارہے تھے ۔ ۔ ۔ اور ( مذکورہ بالا حدیث کے مانند ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1063.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 187

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2451
حدثنا هناد بن السري، حدثنا أبو الأحوص، عن سعيد بن مسروق، عن عبد الرحمن، بن أبي نعم عن أبي سعيد الخدري، قال بعث علي - رضى الله عنه - وهو باليمن بذهبة في تربتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أربعة نفر الأقرع بن حابس الحنظلي وعيينة بن بدر الفزاري وعلقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني كلاب وزيد الخير الطائي ثم أحد بني نبهان - قال - فغضبت قريش فقالوا أتعطي صناديد نجد وتدعنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني إنما فعلت ذلك لأتألفهم ‏"‏ فجاء رجل كث اللحية مشرف الوجنتين غائر العينين ناتئ الجبين محلوق الرأس فقال اتق الله يا محمد ‏.‏ - قال - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فمن يطع الله إن عصيته أيأمنني على أهل الأرض ولا تأمنوني ‏"‏ قال ثم أدبر الرجل فاستأذن رجل من القوم في قتله - يرون أنه خالد بن الوليد - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسروق نے عبدالرحمان بن ابی نعم سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یمن میں تھے تو انھوں نےکچھ سونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا جو اپنی مٹی کے اندر ہی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد : اقرع بن حابس حنظلی ، عینیہ ( بن حصین بن حذیفہ ) بن بدر فزاری ، علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس کے بعد ( آگے بڑے قبیلے ) بنو کلاب ( بن ربیعہ بن عامر ) کا ایک فرد تھا اور زید الخیر طائی جو اس کے بعد ( آگے بنوطے کی ذیلی شاخ ) بن نہہمان کا ایک فرد تھا ، میں تقسیم فرمادیا ، کہا : اس پر قریش ناراض ہوگئے اور کہنےلگے : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجدی سرداروں کو عطا کریں گے اور ہمیں چھوڑدیں گے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ کام میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر کیا ہے ۔ " اتنے میں گھنی داڑھی ، ابھرے ہوئے رخساروں ، دھنسی ہوئی آنکھوں ، نکلی ہوئی پیشانی ، منڈھے ہوئے سر والا ایک شخص آیا اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ سے ڈریں!تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں اس کی نافرمانی کروں گاتو اس کی فرمانبرداری کون کرے گا!وہ تو مجھے تمام روئے زمین کے لوگوں پر امین سمجھتا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ " پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ، لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی ۔ ۔ ۔ بیان کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اس کی اصل ( جس قبیلے سے اس کا اپنا تعلق ہے ) سے ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر ےگا ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے ۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکل جاتا ہے ، اگر میں نے ان کو پالیاتو میں ہر صورت انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ( عذاب بھیج کر ) قوم عاد کو قتل کیا گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 188

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2452
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد الواحد، عن عمارة بن القعقاع، حدثنا عبد، الرحمن بن أبي نعم قال سمعت أبا سعيد الخدري، يقول بعث علي بن أبي طالب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن بذهبة في أديم مقروظ لم تحصل من ترابها - قال - فقسمها بين أربعة نفر بين عيينة بن حصن والأقرع بن حابس وزيد الخيل والرابع إما علقمة بن علاثة وإما عامر بن الطفيل فقال رجل من أصحابه كنا نحن أحق بهذا من هؤلاء - قال - فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقال ‏"‏ ألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء يأتيني خبر السماء صباحا ومساء ‏"‏ ‏.‏ قال فقام رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناشز الجبهة كث اللحية محلوق الرأس مشمر الإزار فقال يا رسول الله اتق الله ‏.‏ فقال ‏"‏ ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله ‏"‏ ‏.‏ قال ثم ولى الرجل فقال خالد بن الوليد يا رسول الله ألا أضرب عنقه فقال ‏"‏ لا لعله أن يكون يصلي ‏"‏ ‏.‏ قال خالد وكم من مصل يقول بلسانه ما ليس في قلبه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني لم أومر أن أنقب عن قلوب الناس ولا أشق بطونهم ‏"‏ ‏.‏ قال ثم نظر إليه وهو مقف فقال ‏"‏ إنه يخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله رطبا لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية - قال أظنه قال - لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل ثمود ‏"‏ ‏.‏
عبدالواحد نے عمارہ بن قعقاع سے ر وایت کی ، انھوں نے کہا : ہمیں عبدالرحمان بن نعیم نے حدیث بیان کی ، کہا : میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رنگے ہوئے ( دباغت شدہ ) چمڑے میں ( خام ) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجاجسے مٹی سے الگ نہیں کیاگیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد : عینیہ بن حصن ، اقرع بن حابس ، زید الخیل اور چوتھے فرد علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا : ہم اس ( عطیے ) کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے ۔ کہا : یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟حالانکہ میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے ، میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبر آتی ہے ۔ " ( ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : گھنی داڑھی ، ابھرے ہوئے رخساروں ، دھنسی ہوئی آنکھوں ، نکلی ہوئی پیشانی ، منڈھے ہوئے سر والا اور پنڈلی تک اٹھے تہبند والا ایک شخص کھڑا ہوا ، اس نے کہا : اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈریئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " تجھ پر افسوس ، کیا میں تمام اہل زمین سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں! " پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔ توخالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " نہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو ۔ " خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ( وہ بات ) کہتے ہیں ( کلمہ پڑھتے ہیں ) جو ان کے دلوں میں نہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں سوراخ کروں اور نہ یہ کہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔ " پھر جب وہ پشت پھیر کر جارہاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا : " یہ حقیقت ہے کہ اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ کی کتاب کو بڑی تراوٹ سے پڑھیں گے ( لیکن ) لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکلتا ہے ۔ " ( ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : میر اخیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں نے ان کو پالیا تو انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 189

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2453
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، بهذا الإسناد قال وعلقمة بن علاثة ولم يذكر عامر بن الطفيل وقال ناتئ الجبهة ولم يقل ناشز ‏.‏ وزاد فقام إليه عمر بن الخطاب - رضى الله عنه - فقال يا رسول الله ألا أضرب عنقه قال ‏"‏ لا ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أدبر فقام إليه خالد سيف الله فقال يا رسول الله ألا أضرب عنقه قال ‏"‏ لا ‏"‏ ‏.‏ فقال ‏"‏ إنه سيخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله لينا رطبا - وقال قال عمارة حسبته قال ‏"‏ لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل ثمود ‏"‏ ‏.‏
جریر نے عمارہ بن قعقاع سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ، انھوں نے علقمہ بن علاثہ کاذکر کیا اور عامر بن طفیل کا ذکر نہیں کیا ۔ نیز ناتي الجبهة ( نکلی ہوئی پیشانی والا ) کہا اور ( عبدالواحد کی طرح ناشز ( ابھری ہوئی پیشانی والا ) نہیں کہا اور ان الفاظ کا اضافہ کیاکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " نہیں ۔ " کہا : پھر وہ پیٹھ پھیر کر چل پڑا تو خالد سیف اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : " نہیں ۔ " پھر فرمایا : " حقیقت یہ ہے کہ عنقریب اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب نرمی اور تراوٹ سے پڑھیں گے ۔ " ( جریر نے ) کہا : عمارہ نے کہا : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں نے ان کو پالیا تو ان کو اسی طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 190

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2454
وحدثنا ابن نمير، حدثنا ابن فضيل، عن عمارة بن القعقاع، بهذا الإسناد وقال بين أربعة نفر زيد الخير والأقرع بن حابس وعيينة بن حصن وعلقمة بن علاثة أو عامر بن الطفيل ‏.‏ وقال ناشز الجبهة ‏.‏ كرواية عبد الواحد ‏.‏ وقال إنه سيخرج من ضئضئ هذا قوم ولم يذكر ‏ "‏ لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل ثمود ‏"‏ ‏.‏
عمارہ بن قعقاع کے ایک دوسرے شاگرد ابن فضیل نے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی اور کہا : ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خام سونا ) چار افراد : زید الخیل ، اقرع بن حابس ، عینیہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں ( تقسیم کیا ۔ ) اور عبدالواحدکی روایت کی طرح " ابھری ہوئی پیشانی والا " کہا اور انھوں نے " اس کی اصل سے ( جس سے اس کا تعلق ہے ) ایک قوم نکلے گی " کے الفاظ بیان کیے اورلئن ادركت لاقتلنهم قتل ثمود ( اگر میں نے ان کو پالیاتو ان کو اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے ) کے الفاظ ذکر نہیں کیے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 191

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2455
وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، قال سمعت يحيى بن سعيد، يقول أخبرني محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، وعطاء بن يسار، أنهما أتيا أبا سعيد الخدري فسألاه عن الحرورية، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرها قال لا أدري من الحرورية ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ يخرج في هذه الأمة - ولم يقل منها - قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم فيقرءون القرآن ‏.‏ لا يجاوز حلوقهم - أو حناجرهم - يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شىء ‏"‏ ‏.‏
محمد بن ابراہیم نے ابو سلمہ اورعطاء بن یسار سے روایت کی کہ وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے حروریہ کے بارے میں دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سناتھا؟انھوں نے کہا : حروریہ کوتو میں نہیں جانتا ، البتہ میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا ہے؛ " اس امت میں ایک قوم نکلے گی ۔ آپ نے " اس امت میں سے " نہیں کہا ۔ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں سے ہیچ سمجھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق ۔ ۔ ۔ یا ان کے گلے ۔ ۔ ۔ سے نیچے نہیں اترے گا ۔ وہ اس طرح دین سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کیے ہوئے جانور سے نکل جاتا ہے اور تیر انداز اپنے تیر کی لکڑی کو ، اس کے پھل کو ، اسکی تانت کو دیکھتا ہے اور اس کے پچھلے حصے ( سوفار یا چٹکی ) کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتا ہے کے کہا اس کے ساتھ ( شکار کے ) خون میں کچھ لگا ہے ۔ " ( تیر تیزی سے نکل جائے تو اس پر خون وغیرہ زیادہ نہیں لگتا ۔ اسی طرح تیزی کے ساتھ دین سے نکلنے والے پردین کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 192

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2456
حدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي سعيد الخدري، ح . وحدثني حرملة بن يحيى، وأحمد بن عبد الرحمن الفهري، قالا أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، والضحاك الهمداني، أن أبا سعيد الخدري، قال بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقسم قسما أتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم فقال يا رسول الله اعدل ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ويلك ومن يعدل إن لم أعدل قد خبت وخسرت إن لم أعدل ‏"‏ ‏.‏ فقال عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا رسول الله ائذن لي فيه أضرب عنقه ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شىء ثم ينظر إلى رصافه فلا يوجد فيه شىء ثم ينظر إلى نضيه فلا يوجد فيه شىء - وهو القدح - ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شىء سبق الفرث والدم ‏.‏ آيتهم رجل أسود إحدى عضديه مثل ثدى المرأة أو مثل البضعة تدردر يخرجون على حين فرقة من الناس ‏"‏ ‏.‏ قال أبو سعيد فأشهد أني سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم وأشهد أن علي بن أبي طالب - رضى الله عنه - قاتلهم وأنا معه فأمر بذلك الرجل فالتمس فوجد فأتي به حتى نظرت إليه على نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي نعت ‏.‏
ابن شہاب سے روایت ہے ، کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان اورضحاک ہمدانی نے خبر دی کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو بنو تمیم کا ایک فرد تھا ، آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عدل کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تیری ہلاکت ( کا سامان ہو ) !اگر میں عدل نہیں کرو گاتو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا ۔ "" ( یا اگر میں نے عدل نہ کیا تو تم ن اکام رہو گے اور خسارے میں ہوں گے ) اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اے چھوڑ دو ، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے ۔ تمھارا کوئی فرد اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے سامنے ہیچ سمجھے گا ، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کی ہنسلیوں سے نیچے نہیں اترے گا ۔ اسلام سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے گئے شکار سے نکلتاہے ۔ اس کے پھل ( یا پیکان ) کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا ، پھر اس کے سو فار کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں پایا جاتا ، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا ، وہ ( تیر ) گوبر اور خون سے آگے نکل گیا ( لیکن اس پر لگا کچھ بھی نہیں ) ، ان کی نشانی ایک سیاہ فام مرد ہے ، اس کے دونوں مونڈھوں میں سے ایک مونڈھا عورت کے پستان کی طرح یا گوشت کے ہلتے ہوئے ٹکڑے کی طرح ہوگا ۔ وہ لوگوں ( مسلمانوں ) کے باہمی اختلاف کے وقت ( نمودار ) ہوں گے ۔ "" ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کےخلاف جنگ کی ، میں ان کے ساتھ تھا ۔ انھوں نے اس آدمی ( کو تلاش کرنے ) کے بارے میں حکم دیا ، اسے تلاش کیا گیا تو وہ مل گیا ، اس ( کی لاش ) کو لایا گیا تو میں نے اس کو اسی طرح دیکھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تعارف کرایاتھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1064.06

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 193

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2457
وحدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن سليمان، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر قوما يكونون في أمته يخرجون في فرقة من الناس سيماهم التحالق قال ‏"‏ هم شر الخلق - أو من أشر الخلق - يقتلهم أدنى الطائفتين إلى الحق ‏"‏ ‏.‏ قال فضرب النبي صلى الله عليه وسلم لهم مثلا أو قال قولا ‏"‏ الرجل يرمي الرمية - أو قال الغرض - فينظر في النصل فلا يرى بصيرة وينظر في النضي فلا يرى بصيرة وينظر في الفوق فلا يرى بصيرة ‏"‏ ‏.‏ قال قال أبو سعيد وأنتم قتلتموهم يا أهل العراق ‏.‏
سلیمان بن ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کا تذکرہ فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہوں گے ، وہ لوگوں میں افتراق کے وقت سے نکلیں گے ، ان کی نشانی سر منڈانا ہوگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ مخلوق کے بدترین لوگ ۔ یا مخلوق کے بدترین لوگوں میں سے ہوں گے ، ان کو دو گروہوں میں سے وہ ( گروہ ) قتل کرے گا جو حق کے قریب تر ہوگا ۔ " آپ نے ان کی مثال بیان کی یا بات ارشاد فرمائی : " انسان شکار کو ۔ ۔ ۔ یا فرمایا : نشانے کو ۔ تیر مارتا ہے وہ پھل کو دیکھتا ہے تو اسے ( خون کا ) نشان نظر نہیں آتا ( جس سے بصیرت حاصل ہوجائے کہ شکار کو لگا ہے ) ، پیکان اور پر کے درمیانی حصے کو دیکھتا ہے تو کوئی نشان نظر نہیں آتا ، وہ سوفار ( پچھلے حصے ) کو دیکھتا ہے تو کوئی نشان نہیں دیکھتا ۔ " حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اے اہل عراق!تم ہی نے ان کو ( حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں ) قتل کیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1065.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 194

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2458
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا القاسم، - وهو ابن الفضل الحداني - حدثنا أبو نضرة، عن أبي سعيد الخدري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ تمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق ‏"‏ ‏.‏
قاسم بن فضل حدانی نے حدیث بیان کی ، کہا : ہم سے ابو نضرہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مسلمانوں میں افتراق کے وقت تیزی سے ( اپنے ہدف کے اندر سے ) نکل جانےو الا ایک گروہ نکلے گا دو جماعتوں میں سے جو جماعت حق سے زیادہ تعلق رکھنے والی ہوگی ، ( وہی ) اسے قتل کرے گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1065.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 195

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2459
حدثنا أبو الربيع الزهراني، وقتيبة بن سعيد، قال قتيبة حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد الخدري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ تكون في أمتي فرقتان فتخرج من بينهما مارقة يلي قتلهم أولاهم بالحق ‏"‏ ‏.‏
قتادہ نے ابو نضر ہ سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میری امت کے دو گروہ ہوں گے ان دونوں کےدرمیان سے ، دین میں سے تیزی سے باہر ہوجانے والے نکلیں گے ، انھیں وہ گروہ قتل کرے گا جو دونوں گروہوں میں سے زیادہ حق کے لائق ہوگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1065.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 196

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2460
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا داود، عن أبي نضرة، عن أبي، سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ تمرق مارقة في فرقة من الناس فيلي قتلهم أولى الطائفتين بالحق ‏"‏ ‏.‏
داود نے ابونضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لوگوں میں گروہ بندی کےوقت دین میں سے تیزی سے نکل جانے والا ایک فرقہ تیزی سے نکلے گا ۔ ان کے قتل کی ذمہ داری دونوں جماعتوں میں سے حق سے زیادہ تعلق رکھنےوالی جماعت پوری کرے گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1065.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 197

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2461
حدثني عبيد الله القواريري، حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير، حدثنا سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن الضحاك المشرقي، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديث ذكر فيه قوما يخرجون على فرقة مختلفة يقتلهم أقرب الطائفتين من الحق ‏.‏
ضحاک مشرقی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ایک حدیث میں روایت کی جس میں آپ نے اس قوم کا تذکرہ فرمایا جو ( امت کے ) مختلف گروہوں میں بٹنے کے وقت نکلے گی ، ان کو دونوں گروہوں میں سے حق سے قریب تر گروہ قتل کرے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1065.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 198

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2462
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، وعبد الله بن سعيد الأشج، جميعا عن وكيع، - قال الأشج حدثنا وكيع، - حدثنا الأعمش، عن خيثمة، عن سويد بن غفلة، قال قال علي إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فلأن أخر من السماء أحب إلى من أن أقول عليه ما لم يقل وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم فإن الحرب خدعة ‏.‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ سيخرج في آخر الزمان قوم أحداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول البرية يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم أجرا لمن قتلهم عند الله يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے حدیث بیان کی کہا اعمش نے ہمیں خیثمہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے سوید بن غفلہ سے روا یت کی انھوں نے کہا : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنا ؤں تو یہ با ت کہ میں آسمان سے گرپڑوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں آپ کی طرف کو ئی ایسی با ت منسوب کروں جو آپ نے نہیں فر ما ئی ۔ اورجب میں تم سے اس معاملے میں با ت کروں جو میرے اور تمھا رے درمیان ہے ( تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے استشہاد کر سکتا ہوں کہ ) جنگ ایک چال ہے ( لیکن ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( بصراحت یہ ) فر ما تے ہو ئے سنا : " عنقریب ( خلا فت راشدہ کے ) آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی وہ لو گ کم عمر اور کم عقل ہو ں گے ( بظاہر ) مخلوق کی سب سے بہترین با ت کہیں گے قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا دین کے اندر سے اس طرح تیزی سے نکل جا ئیں گے جس طرح تیرتیزی سے شکار کے اندر سے نکل جا تا ہے جب تمھا را ان سے سامنا ہو تو ان کو قتل کر دینا جس نے ان کو قتل کیا اس کے لیے یقیناً قیامت کے دن اللہ کے ہاں اجر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 199

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2463
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عيسى بن يونس، ح وحدثنا محمد بن أبي، بكر المقدمي وأبو بكر بن نافع قالا حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد ‏.‏ مثله ‏.‏
عیسیٰ بن یو نس اور سفیان دو نوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 200

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2464
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب وزهير بن حرب قالوا حدثنا أبو معاوية، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد ‏.‏ وليس في حديثهما ‏ "‏ يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ‏"‏ ‏.‏
اعمش سے جریر اور ابو معاویہ نے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور ان دو نوں کی حدیث میں " دین میں سے تیز رفتاری کے ساتھ یوں نکلیں گے جس طرح تیر نشانہ لگے شکار سے تیزی سے نکل جاتا ہے کے الفا ظ نہیں ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 201

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2465
وحدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، حدثنا ابن علية، وحماد بن زيد، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد بن زيد، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، - واللفظ لهما - قالا حدثنا إسماعيل ابن علية، عن أيوب، عن محمد، عن عبيدة، عن علي، قال ذكر الخوارج فقال فيهم رجل مخدج اليد - أو مودن اليد أو مثدون اليد - لولا أن تبطروا لحدثتكم بما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان محمد صلى الله عليه وسلم - قال - قلت آنت سمعته من محمد صلى الله عليه وسلم قال إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة ‏.‏
ایو ب نے محمد سے انھوں نے عبیدہ سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے خوارج کا ذکر کیا اور کہا : ان میں ایک آدمی ناقص چھوٹے یا زیادہ اور ہلتے ہو ئے گو شت کے ( جیسے ) ہاتھ والا ہو گا اگر تمھا رے اترا نے کا ڈر نہ ہو تا تو جو کچھ اللہ تعا لیٰ نے انھیں قتل کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وعدہ فر ما یا ہے وہ میں تمھیں بتا تا ۔ ( عبیدہ نے ) کہا میں نے عرض کی : کیا آپ نے یہ ( وعدہ برا راست ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ انھوں نے کہا : رب کعبہ کی قسم! ہاں رب کعبہ قسم !ہاں رب کعبہ کی قسم !ہاں

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 202

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2466
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن محمد، عن عبيدة، قال لا أحدثكم إلا ما سمعت منه، ‏.‏ فذكر عن علي، نحو حديث أيوب مرفوعا ‏.‏
ابن عون نے محمد سے اور انھوں نے عبیدہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا میں تمھیں صرف وہی بیان کروں گا جو میں نے ان ( علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے سنا ہے پھر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایو ب کی حدیث کی طرح مرفو ع حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.05

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 203

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2467
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق بن همام، حدثنا عبد الملك بن أبي سليمان، حدثنا سلمة بن كهيل، حدثني زيد بن وهب الجهني، أنه كان في الجيش الذين كانوا مع علي - رضى الله عنه - الذين ساروا إلى الخوارج فقال علي رضى الله عنه أيها الناس إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ يخرج قوم من أمتي يقرءون القرآن ليس قراءتكم إلى قراءتهم بشىء ولا صلاتكم إلى صلاتهم بشىء ولا صيامكم إلى صيامهم بشىء يقرءون القرآن يحسبون أنه لهم وهو عليهم لا تجاوز صلاتهم تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية ‏"‏ ‏.‏ لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قضي لهم على لسان نبيهم صلى الله عليه وسلم لاتكلوا عن العمل وآية ذلك أن فيهم رجلا له عضد وليس له ذراع على رأس عضده مثل حلمة الثدى عليه شعرات بيض فتذهبون إلى معاوية وأهل الشام وتتركون هؤلاء يخلفونكم في ذراريكم وأموالكم والله إني لأرجو أن يكونوا هؤلاء القوم فإنهم قد سفكوا الدم الحرام وأغاروا في سرح الناس فسيروا على اسم الله ‏.‏ قال سلمة بن كهيل فنزلني زيد بن وهب منزلا حتى قال مررنا على قنطرة فلما التقينا وعلى الخوارج يومئذ عبد الله بن وهب الراسبي فقال لهم ألقوا الرماح وسلوا سيوفكم من جفونها فإني أخاف أن يناشدوكم كما ناشدوكم يوم حروراء ‏.‏ فرجعوا فوحشوا برماحهم وسلوا السيوف وشجرهم الناس برماحهم - قال - وقتل بعضهم على بعض وما أصيب من الناس يومئذ إلا رجلان فقال علي رضى الله عنه التمسوا فيهم المخدج ‏.‏ فالتمسوه فلم يجدوه فقام علي - رضى الله عنه - بنفسه حتى أتى ناسا قد قتل بعضهم على بعض قال أخروهم ‏.‏ فوجدوه مما يلي الأرض فكبر ثم قال صدق الله وبلغ رسوله - قال - فقام إليه عبيدة السلماني فقال يا أمير المؤمنين الله الذي لا إله إلا هو لسمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إي والله الذي لا إله إلا هو ‏.‏ حتى استحلفه ثلاثا وهو يحلف له ‏.‏
سلمہ بن کہیل نے کہا : مجھے زید بن وہب جہنی ؒ نے حدیث سنا ئی کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا ( اور ) خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : لو گو !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہو ئے سنا : "" میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ ( اس طرح ) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھا ری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمھا رے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی ۔ وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حا لا نکہ وہ ان کے خلا ف ہو گا ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی وہ اس طرح تیزرفتا ری کے ساتھ اسلام سے نکل جا ئیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکا ر کے اندر سے نکل جا تا ہے ۔ : "" اگر وہ لشکر جو ان کو جا لے گا جا ن لے کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے ( بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر ) بھروسا کر لیں ۔ اس ( گروہ ) کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد ( بازو ، کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ ) ہو گا کلا ئی نہیں ہو گی اس کے بازو کے سر ے پر پستان کی نو ک کی طرح ( کا نشان ) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے تو لو گ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل شام کی طرف جا رہے ہو اور ان ( لوگوں ) کو چھوڑرہے ہو جو تمھا رے بعد تمھا رے بچوں اور اموال پر آپڑیں گے اللہ کی قسم!مجھے امید ہے کہ وہی قوم ہے کیونکہ انھوں نے ( مسلمانوں کا ) حرمت والا خون بہا یا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گر ی کی ہے اللہ کا نا م لے کر ( ان کی طرف ) چلو ۔ سلمہ بن کہیل نے کہا : مجھے زید بن وہب نے ( ایک ایک ) منزل میں اتارا ( ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے ) بتا یا حتیٰ کے بتا یا : ہم ایک پل پر سے گزرے پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسی تھا اس نے ان سے کہا : اپنے نیزے پھنیک دو اور اپنی تلواریں نیا موں سے نکا ل لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھا رے سامنے ( صلح کے لیے اللہ کا نا م ) پکا ریں گے جس طرح انھوں نے خروراء کے دن تمھا رے سامنے پکا را تھا تو انھوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دو ر پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لو گ انھی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہو ئے ( ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلو ں پر گرتا ) اور اس روز ( علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دینے والے ) لو گوں میں سے دو کے سوا کو ئی اور قتل نہ ہوا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلا ش کرو لو گوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اٹھے اور ان لو گوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہو ئے تھے آپ نے فر ما یا : ان کو ہٹاؤ تو انھوں نے اسے ( لا شوں کے نیچے ) زمین سے لگا ہوا پا یا ۔ آپ نے اللہ اکبر کہا پھر کہا : اللہ نے سچ فر ما یا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی طرح ہم تک ) پہنچا دیا ۔ ( زید بن وہب نے ) کہا عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہو ئے اور کہا اے امیر المومنین ! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں !آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ تو انھوں نے کہا : ہاں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں !حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.06

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 204

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2468
حدثني أبو الطاهر، ويونس بن عبد الأعلى، قالا أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، عن بكير بن الأشج، عن بسر بن سعيد، عن عبيد الله بن أبي رافع، مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الحرورية لما خرجت وهو مع علي بن أبي طالب - رضى الله عنه - قالوا لا حكم إلا لله ‏.‏ قال علي كلمة حق أريد بها باطل إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وصف ناسا إني لأعرف صفتهم في هؤلاء ‏ "‏ يقولون الحق بألسنتهم لا يجوز هذا منهم - وأشار إلى حلقه - من أبغض خلق الله إليه منهم أسود إحدى يديه طبى شاة أو حلمة ثدى ‏"‏ ‏.‏ فلما قتلهم علي بن أبي طالب - رضى الله عنه - قال انظروا ‏.‏ فنظروا فلم يجدوا شيئا فقال ارجعوا فوالله ما كذبت ولا كذبت ‏.‏ مرتين أو ثلاثا ثم وجدوه في خربة فأتوا به حتى وضعوه بين يديه ‏.‏ قال عبيد الله وأنا حاضر ذلك من أمرهم ‏.‏ وقول علي فيهم زاد يونس في روايته قال بكير وحدثني رجل عن ابن حنين أنه قال رأيت ذلك الأسود ‏.‏
ابو طا ہر اور یو نس بن عبد الاعلی دو نوں نے کہا ہمیں عبد اللہ بن وہب نے خبر دی انھوں نے کہا مجھے عمرو بن حارث نے بکیر اشج سے خبردی انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلا م حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبید اللہ سے روایت کی کہ جب حروریہ نے خروج کیا اور وہ ( عبیدہ اللہ ) حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا حکومت اللہ کے سوا کسی کی نہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یہ کلمہ حق ہے جس سے با طل مراد لیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لو گوں کی صفات بیان کیں میں ان لو گو ں میں ان صفات کو خوب پہچا نتا ہوں ( آپ نے فر ما یا ) : "" وہ اپنی زبانوں سے حق بات کہیں گے اور وہ ( حق ) ان کی اس جگہ ۔ ۔ ۔ آپ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ سے آگے نہیں بڑھے گا یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے ہا ں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہیں ان میں ایک سیاہ رنگ کا آدمی ہو گا اس کا ایک ہا تھ بکرکے تھن یا نوک پستان کی طرح ہو گا جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو قتل کیا ڈھونڈو ۔ لو گوں نے ڈھونڈا تو انھیں کچھ نہ ملا فر ما یا دوبارہ تلاش کرو اللہ کی قسم! میں نے جھوٹ نہیں بو لا اور نہ مجھے جھوٹ بتا یا گیا دو یا تین دفعہ ( یہی فقرہ ) کہا پھر انھوں نے اسے ایک کھنڈر میں پالیا تو وہ اسے لے آئے یہاں تک کہ اسے آپ کے سامنے رکھ دیا ۔ عبید اللہ نے کہا : میں بے ان کے اس معاملے میں اور ان کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کے وقت حاضر تھا ۔ یو نس نے اپنی روا یت میں اضافہ کیا : بکیر نے کہا مجھے ( عبد اللہ ) بن حنین ( ہاشمی ) سے ایک آدمی نے حدیث بیان کی اس نے کہا میں نے بھی اس کا لے کو دیکھا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1066.07

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 205

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2469
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، عن أبي ذر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن بعدي من أمتي - أو سيكون بعدي من أمتي - قوم يقرءون القرآن لا يجاوز حلاقيمهم يخرجون من الدين كما يخرج السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه هم شر الخلق والخليقة ‏"‏ ‏.‏ فقال ابن الصامت فلقيت رافع بن عمرو الغفاري أخا الحكم الغفاري قلت ما حديث سمعته من أبي ذر كذا وكذا فذكرت له هذا الحديث فقال وأنا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
عبد اللہ بن صامت نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا بلا شبہ میرے بعد میری امت سے ۔ ۔ ۔ یا عنقریب میرے بعد میری امت سے ۔ ۔ ۔ ایک قوم ہو گی جو قرآن پڑھیں گے وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جا تا ہے پھر اس میں واپس نہیں آئیں گے ۔ وہ انسانوں اور مخلو قات میں بد ترین ہوں گے ۔ ابن صامت نے کہا : میں حکم غفا ری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا ، میں نے کہا : ( یہ ) کیا حدیث ہے جو میں نے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح سنی ہے؟ اس کے بعد میں نے یہ حدیث بیان کی تو انھوں نے کہا میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1067

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 206

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2470
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، عن الشيباني، عن يسير بن، عمرو قال سألت سهل بن حنيف هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الخوارج فقال سمعته - وأشار بيده نحو المشرق ‏ "‏ قوم يقرءون القرآن بألسنتهم لا يعدو تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ‏"‏ ‏.‏
علی بن مسہر نے ( ابو اسحاق شیبانی سے اور انھوں نے یسر بن عمرو سے روایت کی انھوں نے کہا میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پو چھا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کا تذکرہکرتے ہو ئے سنا؟ انھوں نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تھا ۔ ۔ ۔ اور آپ نے اپنے ہا تھ سے مشرق کی جا نب اشارہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ ایک قوم ہو گی جو اپنی زبانوں سے قرآن مجید کی تلا وت کریں گے لیکن وہ ان کی ہنسلی کی ہڈیوں سے آگے نہیں جا ئے گا وہ دین سے اس طرح تیزی سے نکل جا ئیں گے جس طرح تیر شکا ر میں سے نکل جا تا ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1068.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 207

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2471
وحدثناه أبو كامل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا سليمان الشيباني، بهذا الإسناد وقال يخرج منه أقوام ‏.‏
عبد الو حد نے کہا : ہمیں ( ابو اسحاق ) سلیما ن شیبانی نے اسی سند کے ساتھ ( مذکورہ ) حدیث بیان کی اور کہا " اس ( جا نب ) سے کچھ قومیں نکلیں گی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1068.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 208

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2472
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق، جميعا عن يزيد، - قال أبو بكر حدثنا يزيد بن هارون، - عن العوام بن حوشب، حدثنا أبو إسحاق الشيباني، عن أسير بن عمرو، عن سهل بن حنيف، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يتيه قوم قبل المشرق محلقة رءوسهم ‏"‏ ‏.‏
اعوام بن حو شب سے روایت ہے کہا ابو اسحاق شیبا نی نے سہیل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کی فر ما یا : " ایک قوم مشرق کی طرف سر گرداں پھر ے گی ان کے سر منڈھے ہو ئے ہوں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1068.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 209

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2473
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن محمد، - وهو ابن زياد - سمع أبا هريرة، يقول أخذ الحسن بن علي تمرة من تمر الصدقة فجعلها في فيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كخ كخ ارم بها أما علمت أنا لا نأكل الصدقة ‏"‏ ‏.‏
عبید اللہ بن معاذ عنبری نے کہا : ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا ہمیں شعبہ نے محمد بن زیاد سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہو ئے سنا کہ حجرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے لی اور اسے اپنے منہ میں ڈا ل لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " چھوڑو ، چھوڑو ، پھینک دو اسے کیا تم نہیں جا نتے کہ ہم صدقہ نہیں کھا تے ؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:1069.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 210

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2474
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب جميعا عن وكيع، عن شعبة، بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ أنا لا، تحل لنا الصدقة ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے شعبہ سے اسی ( ؐذکورہ با لا ) سند کے ساتھ روایت کی اور ( " ہم صدقہ نہیں کھا تے " کے بجا ئے ) " ہمارے لیے صدقہ حلا ل نہیں " کہا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:1069.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 211

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2475
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا ابن، أبي عدي كلاهما عن شعبة، في هذا الإسناد كما قال ابن معاذ ‏ "‏ أنا لا، نأكل الصدقة ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر اور ابن ابی عدی دونوں نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ ( اسی طرح ) حدیث بیان کی جس طرح ابن معاذ نے کہا : " کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1069.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 212

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2476
حدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو، أن أبا يونس، مولى أبي هريرة حدثه عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي ثم أرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها ‏"‏ ‏.‏
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلا م ابو یو نس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فر ما یا : " میں اپنے گھر لوٹتا ہوں اور اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہو ئی پا تا ہوں میں اسے کھا نے کے لیے اٹھا تا ہوں پھر ڈرتا ہوں کہ یہ صدقہ نہ ہو تو اسے پھینک دیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1070.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 213

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2477
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق بن همام، حدثنا معمر، عن همام بن، منبه قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن محمد، رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والله إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي - أو في بيتي - فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة - أو من الصدقة - فألقيها ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ نے کہا : یہ ( احادیث ) ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں انھوں نے کچھ احادیث بیان کیں ان میں سے ( ایک حدیث یہ ) ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " اللہ کی قسم! میں اپنے گھروالوں کے پاس لو ٹتا ہوں اور اپنے بستر پر ۔ ۔ ۔ یا اپنے گھر میں ۔ ۔ ایک کھجور گری ہوئی پا تا ہوں میں اسے کھا نے کے لیے اٹھا تا ہوں پھر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ صدقہ ( نہ ) ہو ( یا صدقے میں سے نہ ہو ) تو میں اسے پھینک دیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1070.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 214

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2478
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا وكيع، عن سفيان، عن منصور، عن طلحة بن مصرف، عن أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم وجد تمرة فقال ‏ "‏ لولا أن تكون من الصدقة لأكلتها ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے منصور سے انھوں نے طلحہ بن مصرف سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کھجور ملی تو آپ نے فر ما یا : " اگر یہ ( امکا ن ) نہ ہو تا کہ یہ صدقے میں سے ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1071.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 215

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2479
وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، عن زائدة، عن منصور، عن طلحة بن مصرف، حدثنا أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بتمرة بالطريق فقال ‏ "‏ لولا أن تكون من الصدقة لأكلتها ‏"‏ ‏.‏
زائد ہ نے منصور اور انھوں نے طلحہ بن مصرف سے روایت کی انھوں نے کہا حضرت انس بن ما لک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں ( پڑی ہو ئی ) ایک کھجور کے قریب سے گزرے تو فر ما یا : " اگر یہ ( امکا ن ) نہ ہو تا کہ یہ صدقے سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1071.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 216

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2480
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم وجد تمرة فقال ‏ "‏ لولا أن تكون صدقة لأكلتها ‏"‏ ‏.‏
قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کھجور ملی تو آپ نے فر ما یا : " اگر یہ ( امکا ن ) نہ ہو تا کہ یہ صدقہ ہو گا تو میں اسے کھا لیتا

صحيح مسلم حدیث نمبر:1071.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 217

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2481
حدثني عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، أن عبد الله بن عبد الله بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب، حدثه أن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث حدثه قال اجتمع ربيعة بن الحارث والعباس بن عبد المطلب فقالا والله لو بعثنا هذين الغلامين - قالا لي وللفضل بن عباس - إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلماه فأمرهما على هذه الصدقات فأديا ما يؤدي الناس وأصابا مما يصيب الناس - قال - فبينما هما في ذلك جاء علي بن أبي طالب فوقف عليهما فذكرا له ذلك فقال علي بن أبي طالب لا تفعلا فوالله ما هو بفاعل ‏.‏ فانتحاه ربيعة بن الحارث فقال والله ما تصنع هذا إلا نفاسة منك علينا فوالله لقد نلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فما نفسناه عليك ‏.‏ قال علي أرسلوهما ‏.‏ فانطلقا واضطجع علي - قال - فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر سبقناه إلى الحجرة فقمنا عندها حتى جاء فأخذ بآذاننا ‏.‏ ثم قال ‏"‏ أخرجا ما تصرران ‏"‏ ثم دخل ودخلنا عليه وهو يومئذ عند زينب بنت جحش - قال - فتواكلنا الكلام ثم تكلم أحدنا فقال يا رسول الله أنت أبر الناس وأوصل الناس وقد بلغنا النكاح فجئنا لتؤمرنا على بعض هذه الصدقات فنؤدي إليك كما يؤدي الناس ونصيب كما يصيبون - قال - فسكت طويلا حتى أردنا أن نكلمه - قال - وجعلت زينب تلمع علينا من وراء الحجاب أن لا تكلماه - قال - ثم قال ‏"‏ إن الصدقة لا تنبغي لآل محمد ‏.‏ إنما هي أوساخ الناس ادعوا لي محمية - وكان على الخمس - ونوفل بن الحارث بن عبد المطلب ‏"‏ ‏.‏ قال فجاءاه فقال لمحمية ‏"‏ أنكح هذا الغلام ابنتك ‏"‏ ‏.‏ للفضل بن عباس فأنكحه وقال لنوفل بن الحارث ‏"‏ أنكح هذا الغلام ابنتك ‏"‏ ‏.‏ لي فأنكحني وقال لمحمية ‏"‏ أصدق عنهما من الخمس كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ قال الزهري ولم يسمه لي ‏.‏
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ عبد اللہ بن نو فل بن حارث بن عبد المطلب نے انھیں حدیث بیان کی کہ عبد المطلب بن ربیعہ بن حا رث ( بن عبد المطلب ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں حدیث بیان کی ، امھوں نے کہا ربیعہ بن حا رث اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکٹھے ہو ئے اور دونوں نے کہا : اللہ کی قسم! اگر ہم ان دو نوں لڑکوں کو ، ، انھوں نے ( یہ بات ) میرے اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہی ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجیں اور یہ دو نوں آپ سے بات کریں اور آپ ان دونوں کو ان صدقات کی وصولی پر مقرر کر دیں جو کچھ ( دو سرے ) لو گ ( لا کر ) اداکرتے ہیں یہ دو نوں ادا کریں اور ان دو نوں کو بھی وہی کچھ ملے جو ( دوسرے ) لوگوں کو ملتا ہے ( رو کتنا اچھا ہو! ) وہ دو نوں اسی ( مشورے ) میں ( مشغول ) تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور ان کے پاس کھڑے ہو گئے ان دو نوں نے اس با ت کا ان کے سامنے ذکر کیا تو حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : آپ دونوں ایسا نہ کریں اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کا م کرنے والے نہیں اس پر ربیعہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے درپے ہو گئے اور کہا اللہ کی قسم !تم محض اس لیے ہمارے ساتھ ایسا کر رہے ہو تا کہ تم ہم پر اپنی بر تری جتاؤ اللہ کی قسم !تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہو نے کا شرف حاصل ہوا تو ( اس موقع پر ) ہم نے تو تم پر بر تری نہیں جتا ئی تھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم ان دونوں کو بھیج دو ۔ وہ دو نو چلے گئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( وہیں ) لیٹ گئے ( ابن ربیعہ نے ) کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھا لی تو وہ دونوں آپ سے پہلے حجرے کے قریب پہنچ گئے اور کہا : ہم وہاں کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ جب آپ تشریف لا ئے تو ( اظہار اپنائیت کے طور پر ) ہمارے کا ن پکڑ لیے پھر فر ما یا : "" تم دو نوں کے دل میں جو کچھ ہے اسے نکا لو ( اس کا اظہار کرو ۔ ) پھر آپ اندر دا خل ہو ئے ہم بھی ساتھ ہی دا خل ہو گئے اس دن آپ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تھے ہم نے گفتگو ایک دوسرے پر ڈالی ( ہر ایک نے چا ہا دوسرا بات کرے ) پھر ہم میں سے ایک نے گفتگو شروع کی کہا : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سب لوگوں سے بڑھ کر احسان کرنے والے اور سب لوگوں سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں ہم دو نوں نکاح کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ہم اس لیے حاضر ہو ئے ہیں کہ آپ ہمیں بھی ان صدقات میں سے کچھ ( صدقات ) کی وصولی کے لیے مقرر فر ما دیں جس طرح لو گ لا کر ادا کرتے ہیں ہم بھی لا کر دیں گے اور جس طرح انھیں ملتا ہے ہمیں بھی ملے گا آپ خاصی دیرتک خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے دوبارہ ) گفتگو کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ کہا تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردے کے پیچھے سے اشارا کرنے لگیں کہ تم دونوں ان ( ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات نہ کرو کہا : پھر ( کچھ دیر بعد ) آپ نے فر ما یا : "" آل محمد کے لیے صدقہ روانہیں ۔ یہ تو لوگوں ( کے مال ) کا میل کچل ہے محمية وہ خمس ( غنیمت کے پانچویں حصے ) پر مامور تھے ۔ ۔ ۔ اور نوفل بن حارث بن عبد المطلب کو میرے پاس بلا ؤ ۔ کہا وہ دونوں آپ کی خدمت میں حا ضر ہو ئے تو آپ نے محمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : "" اس لڑکے ( فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے اپنی بیٹی کا نکا ح کر دو ۔ تو اس نے ان کا نکا ح کر دیا اور آپ نے نوفل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تم اس لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی کر دو ۔ میرے بارے میں ۔ تو اس نے میرا نکا ح کر دیا اور آپ نے محمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر ما یا : "" خمس ( جو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا ) میں سے ان دونوں کا تنا اتنا حق مہر ادا کر دو ۔ زہری نے کہا اس ( عبد اللہ بن عبد اللہ ) نے حق مہر مجھے نہیں بتا یا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1072.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 218

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2482
حدثنا هارون بن معروف، حدثنا ابن وهب، أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن، شهاب عن عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي، أن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث، بن عبد المطلب أخبره أن أباه ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب والعباس بن عبد المطلب قالا لعبد المطلب بن ربيعة وللفضل بن عباس ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث مالك وقال فيه فألقى علي رداءه ثم اضطجع عليه وقال أنا أبو حسن القرم والله لا أريم مكاني حتى يرجع إليكما ابناكما بحور ما بعثتما به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وقال في الحديث ثم قال لنا ‏"‏ إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد ‏"‏ ‏.‏ وقال أيضا ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ادعوا لي محمية بن جزء ‏"‏ ‏.‏ وهو رجل من بني أسد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمله على الأخماس ‏.‏
یو نس بن یزید نے ابن شہاب سے اور انھوں نے عبد اللہ بن حارث بن نو فل ہا شمی سے روایت کی کہ حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب نے انھیں بتا یا کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تم دو نوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جاؤ ۔ ۔ ۔ اور امام مالک ؒ کی ( مذکورہ بالا ) حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی چا در بچھا ئی اور اس پر لیٹ گئے اور کہا میں بات پر ڈٹ جا نے والا ابو حسن ہوں اللہ کی قسم !میں اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ تم دونوں کے بیٹے جس مقصدکے لیے انھیں بھیج رہے ہو اس کا جواب لے کر تمھا رے پاس واپس ( نہ آجا ئیں ۔ اور اس حدیث میں کہا : پھر آپ نے ہمیں فر ما یا : "" یہ صدقات لوگوں کا میل کچل ہیں اور یقیناً یہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلا ل نہیں اور یہ بھی کہا : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا میرے پاس محمية بن جزکو بلاؤ ۔ وہ بنو اسد کا ایک فرد تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال خمس کے انتظامات کے لیے مقرر کیا تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1072.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 219

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2483
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن ابن شهاب، أن عبيد بن السباق، قال إن جويرية زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها فقال ‏"‏ هل من طعام ‏"‏ ‏.‏ قالت لا والله يا رسول الله ما عندنا طعام إلا عظم من شاة أعطيته مولاتي من الصدقة ‏.‏ فقال ‏"‏ قربيه فقد بلغت محلها ‏"‏ ‏.‏
لیث نے ابن شہاب سے روایت کی کہ عبید بن سباق نے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت جویریہ ( بنت حارث ) رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتا یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لا ئے اور پوچھا : "" کیا کھانے کی کو ئی چیز ہے؟ "" انھوں نے عرض کی نہیں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم ! ہمارے پاس اس بکری کی ہزی ( والے گو شت ) کے سوا کھا نے کی اور کو ئی چیز نہیں جو میری آزاد کردہ لو نڈی کو بطور صدقہ دی گئی تھی آپ نے فر ما یا : "" اسے ہی لے آؤ وہ اپنے مقام پر پہنچ چکی ہے ( جس کو صدقہ کے طور پر دی گئی تھی اسے مل گئی ہے اور اس کی ملکیت میں آچکی ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:1073.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 220

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2484
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن ابن عيينة، عن الزهري، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
ابن عیینہ نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی ( مذکورہ حدیث ) کی طرح روایت بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:1073.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 221

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2485
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا وكيع، ح وحدثنا محمد بن، المثنى وابن بشار قال حدثنا محمد بن جعفر، كلاهما عن شعبة، عن قتادة، عن أنس، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن قتادة، سمع أنس بن مالك، قال أهدت بريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم لحما تصدق به عليها فقال ‏ "‏ هو لها صدقة ولنا هدية ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن ما لک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا ( حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آزاد کردہ کنیز ) حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کچھ گو شت جو اس پر صدقہ کیا گیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تو آپ نے فر ما یا : " وہ اس کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہد یہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1074.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 222

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2486
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، وأتي النبي، صلى الله عليه وسلم بلحم بقر فقيل هذا ما تصدق به على بريرة ‏.‏ فقال ‏ "‏ هو لها صدقة ولنا هدية ‏"‏ ‏.‏
اسود نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گائے کا گو شت پیش کیا گیا اور بتا یا گیا کہ یہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بطور صدقہ دیا گیا تھا تو آپ نے فر ما یا : " وہ اس کے لیے صدقہ اورہما رے لیے ہدیہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1075.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 223

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2487
حدثنا زهير بن حرب، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، حدثنا هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، - رضى الله عنها - قالت كانت في بريرة ثلاث قضيات كان الناس يتصدقون عليها وتهدي لنا فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ هو عليها صدقة ولكم هدية فكلوه ‏"‏ ‏.‏
۔ ہشام بن عروہ نے عبد الرحمٰن بن قاسم انھوں نے اپنے والد ( قاسم بن محمد بن ابی بکر ) سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے تین ( شرعی ) فیصلے ہو ئے تھے لو گ اس کو صدقہ دیتے تھے اور وہ ہمیں تحفہ دے دیتی تھیں میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فر ما یا : وہ اس پر صدقہ ہے اور تمھا رے لیے ہدیہ ہے پس تم اسے ( بلا ہچکچاہٹ ) کھا ؤ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1075.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 224

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2488
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن سماك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، ح . وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت عبد، الرحمن بن القاسم قال سمعت القاسم، يحدث عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك ‏.‏
سماک اور شعبہ نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے روایت کی کہا میں نے قاسم سے سنا ، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ( سابقہ حدیث ) کے مانند بیان کر رہے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1075.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 225

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2489
وحدثني أبو الطاهر، حدثنا ابن وهب، أخبرني مالك بن أنس، عن ربيعة، عن القاسم، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك غير أنه قال ‏ "‏ وهو لنا منها هدية ‏"‏ ‏.‏
ربیعہ نے قاسم سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی البتہ انھوں نے ( اس حدیث میں ) کہا : " وہ اس کی طرف سے ہمارے لیے ہدیہ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1075.04

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 226

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2490
حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن خالد، عن حفصة، عن أم عطية، قالت بعث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة من الصدقة فبعثت إلى عائشة منها بشىء فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عائشة قال ‏"‏ هل عندكم شىء ‏"‏ ‏.‏ قالت لا ‏.‏ إلا أن نسيبة بعثت إلينا من الشاة التي بعثتم بها إليها قال ‏"‏ إنها قد بلغت محلها ‏"‏ ‏.‏
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقے کی ایک بکری بھیجی میں نے اس میں سے کچھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف بھیج دیا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لا ئے تو آپ نے پو چھا : " کیا آپ کے پاس ( کھا نے کے لیے ) کچھ ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں البتہ نسيبة ( ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس ( صدقے کی ) بکری میں سے کچھ حصہ بھیجا ہے جو آپ نے ان کے ہاں بھیجی تھی آپ نے فر ما یا : " وہ اپنی جگہ پہنچ چکی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1076

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 227

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2491
حدثنا عبد الرحمن بن سلام الجمحي، حدثنا الربيع، - يعني ابن مسلم - عن محمد، - وهو ابن زياد - عن أبي هريرة، ‏.‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أتي بطعام سأل عنه فإن قيل هدية أكل منها وإن قيل صدقة لم يأكل منها ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھا نا پیش کیا جا تا آپ اس کے بارے میں پو چھتے اگر یہ کہا جا تا کہ تحفہ ہے تو اسے کھا لیتے اور اگر کہا جا تا کہ صدقہ ہے تو اسے نہ کھاتے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1077

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 228

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2492
حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة وعمرو الناقد وإسحاق بن إبراهيم قال يحيى أخبرنا وكيع، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، قال سمعت عبد الله بن أبي أوفى، ح . وحدثنا عبيد الله بن معاذ، - واللفظ له - حدثنا أبي، عن شعبة، عن عمرو، - وهو ابن مرة - حدثنا عبد الله بن أبي أوفى، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتاه قوم بصدقتهم قال ‏"‏ اللهم صل عليهم ‏"‏ ‏.‏ فأتاه أبي أبو أوفى بصدقته فقال ‏"‏ اللهم صل على آل أبي أوفى ‏"‏ ‏.‏
وکیع اور معاذ عنبری نے شعبہ سے اور انھوں نے عمرو بن مرہ سے روایت کی انھوں نے کہا حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب لو گ ( بیت المال میں ادائیگی کے لیے ) اپنا صدقہ لا تے آپ فر ما تے اے اللہ !ال پر صلا ۃ بھیج ( رحمت فر ما ! ) میرے والد ابو اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے پا س اپنا صدقہ لائے تو آپ نے فر ما یا : " اے اللہ !ابو اوفیٰ کی آل پر رحمت نا زل فر ما ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1078.01

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 229

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2493
وحدثناه ابن نمير، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن شعبة، بهذا الإسناد غير أنه قال ‏ "‏ صل عليهم ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن ادریس نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی البتہ انھوں نے أل ابي اوفي کے بجا ئے ان سب پر رحمت بھیج " کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:1078.02

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 230

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2494
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا هشيم، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، وأبو خالد الأحمر ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، وابن، أبي عدي وعبد الأعلى كلهم عن داود، ح وحدثني زهير بن حرب، - واللفظ له - قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، أخبرنا داود، عن الشعبي، عن جرير بن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا أتاكم المصدق فليصدر عنكم وهو عنكم راض ‏"‏ ‏.‏
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " جب تمھا رے پاس صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ تمھارے ہاں سے اس حال میں لو ٹے کہ وہ تم سے خوش ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:989.03

صحيح مسلم باب:12 حدیث نمبر : 231

Share this: