احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
10: كتاب الكسوف
سورج اور چاند گرہن کے احکام
صحيح مسلم حدیث نمبر: 2089
وحدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك بن أنس، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، ح. وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، - واللفظ له - قال حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فأطال القيام جدا ثم ركع فأطال الركوع جدا ثم رفع رأسه فأطال القيام جدا وهو دون القيام الأول ثم ركع فأطال الركوع جدا وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول ثم ركع فأطال الركوع وهو دون الركوع الأول ثم رفع رأسه فقام فأطال القيام وهو دون القيام الأول ثم ركع فأطال الركوع وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس فخطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر من آيات الله وإنهما لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموهما فكبروا وادعوا الله وصلوا وتصدقوا يا أمة محمد إن من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته يا أمة محمد والله لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا ألا هل بلغت "‏ ‏.‏ وفي رواية مالك ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله ‏"‏ ‏.‏
امام مالک بن انس اور عبد اللہ بن نمیر نے کہا : ہمیں ہشام نے اپنے والد عروہ سے حدیث سنا ئی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روا یت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے لیے قیام فر ما یا اور بہت ہی لمبا قیام کیا ، پھر آپ نے رکو ع کیا تو انتہا ئی طویل رکوع کیا پھر آپ نے سر اٹھا یا تو انتہائی طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ( کچھ ) کم تھا پھر آپ نے ( دوبارہ ) رکو ع کیا تو بہت لمبا رکو ع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ نے سجدے کیے پھر آپ کھڑے ہو گئے اور قیام کو لمبا کیا وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے رکوع کیا اور رکوع کو لمبا کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا اور قیا م کیا تو بہت لمبا قیام کیا جبکہ وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے رکوع کیا تو انتہائی طویل رکوع کیا لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر سجدے کیے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز سے فارغ ہو کر ) پلٹے تو سورج روشن ہو چکا تھا اور آپ نے لو گو ں سے خطا ب فر ما یا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی ، پھر فر ما یا : "" بے شک سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ان کو کسی کی مو ت یا زند گی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا جب تم انھیں ( اس حالت میں ) دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگو نماز پڑھو اور صدقہ کرو اے اُمت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ئی نہیں جو ( اس بات پر ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت رکھنے والا ہو کہ اس کا بندہ یا اس کی باندی زنا کرے !اے اُمت محمد!اللہ کی قسم !اگر تم ان باتوں کو جان لو جن کو میں جا نتا ہوں ۔ تو تم بہت زیادہ روؤاور بہت کم ہنسو ۔ دیکھو !کیا میں نے ( پیغام ) اچھی طرح پہنچا دیا ؟ "" اور امام مالک کی روایت میں ہے : "" یقیناً سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2090
حدثناه يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو معاوية، عن هشام بن عروة، بهذا الإسناد وزاد ثم قال ‏"‏ أما بعد فإن الشمس والقمر من آيات الله ‏"‏ ‏.‏ وزاد أيضا ثم رفع يديه فقال ‏"‏ اللهم هل بلغت ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ ( سابقہ حدیث کے مانند ) روایت کی اور اس میں یہ اضافہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " امابعد ( حمد و صلاۃ کے بعد ) !بلا شبہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں ۔ " اور یہ بھی اضافہ کیا : پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھا اٹھا ئے اور فر ما یا : " اے اللہ !کیا میں نے ( پیغام ) اچھی طرح پہنچا دیا ؟

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2091
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرني ابن وهب، أخبرني يونس، ح وحدثني أبو الطاهر، ومحمد بن سلمة المرادي قالا حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد فقام وكبر وصف الناس وراءه فاقترأ رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة ثم كبر فركع ركوعا طويلا ثم رفع رأسه فقال ‏"‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ‏"‏ ‏.‏ ثم قام فاقترأ قراءة طويلة هي أدنى من القراءة الأولى ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو أدنى من الركوع الأول ثم قال ‏"‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ‏"‏ ‏.‏ ثم سجد - ولم يذكر أبو الطاهر ثم سجد - ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ذلك حتى استكمل أربع ركعات وأربع سجدات وانجلت الشمس قبل أن ينصرف ثم قام فخطب الناس فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموها فافزعوا للصلاة ‏"‏ ‏.‏ وقال أيضا ‏"‏ فصلوا حتى يفرج الله عنكم ‏"‏ ‏.‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ رأيت في مقامي هذا كل شىء وعدتم حتى لقد رأيتني أريد أن آخذ قطفا من الجنة حين رأيتموني جعلت أقدم - وقال المرادي أتقدم - ولقد رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رأيتموني تأخرت ورأيت فيها ابن لحى وهو الذي سيب السوائب ‏"‏ ‏.‏ وانتهى حديث أبي الطاهر عند قوله ‏"‏ فافزعوا للصلاة ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر ما بعده ‏.‏
حرملہ بن یحییٰ نے مجھے حدیث بیان کی ، ( کہا ) مجھے ابن وہب نے یونس سے خبر دی نیز ابو طاہر اور محمد بن سلمہ مرادی نے کہا : ابن وہب نے یو نس سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روا یت کی انھوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خبر دی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر مسجد میں تشریف لے گئے آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی اور لو گ آپ کے پیچھے صف بستہ ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قراءت فر ما ئی پھر آپ نےالله اكبرکہا اور ایک لمبا رکو ع کیا پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہا پھر آپ نے قیام کیا اور ایک طویل قراءت کی یہ پہلی ( قراءت ) سے کچھ کم تھی پھر الله اكبرکہا اور کہہ کر طویل رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہا پھر سجدہ کیا اور ابو طاہر نے ( ثم سجده ) ( پھر آپنے سجدہ کیا ) کے الفا ظ نہیں کہے ۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا حتیٰ کہ چار رکوع اور چار سجدے مکمل کیے اور آپ کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو گیا پھر آپ کھڑے ہو ئے اور لو گوں کو خطاب فر ما یا اور اللہ تعا لیٰ کی ( ایسی ) ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی پھر فر ما یا "" سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انھیں کسی کی مو ت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے جب تم انھیں ( گرہن میں ) دیکھو تو فوراًنماز کی طرف لپکو ۔ "" آپ نے یہ بھی فر ما یا : "" اور نماز پڑھتے رہو یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے کشادگی کر دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "" میں نے اپنی اس جگہ ( پر ہو تے ہو ئے ) ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت کا ایک گچھا لینا چاہتا ہوں اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں قدم آگے بڑھا رہا ہوں ۔ اور ( محمد بن سلمہ ) مرادی نے "" آگے بڑھ رہا ہوں "" کہا ۔ ۔ ۔ اور میں نے جہنم بھی دیکھی اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو ریزہ ریزہ کر رہا تھا یہ اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا ۔ اور میں نے جہنم میں عمرو بن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے بتوں کی نذر کی اونٹنیاں چھوڑیں ۔ "" ابو طا ہر کی روایت "" نماز کی طرف لپکو پر ختم ہو گئی انھوں نے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.03

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2092
وحدثنا محمد بن مهران الرازي، حدثنا الوليد بن مسلم، قال قال الأوزاعي أبو عمرو وغيره سمعت ابن شهاب الزهري، يخبر عن عروة، عن عائشة، أن الشمس، خسفت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعث مناديا ‏ "‏ الصلاة جامعة ‏"‏ ‏.‏ فاجتمعوا وتقدم فكبر ‏.‏ وصلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات ‏.‏
ابو عمرو اوزاعی اور ان کے علاوہ د وسرے ( راوی ، دونوں میں سے ہرایک ) نے کہا : میں نے ابن شہاب زہری سے سنا ، وہ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خبر دے رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ نے یہ اعلان کرنے والا ( ایک شخص ) بھیجاکہ " کہ نماز جمع کرنے والی ہے ۔ اس پر لوگ جمع ہوگئے ، آپ آگے بڑھے ، تکبیر تحریمہ کہی اور چار رکوعوں اور چار سجدوں کےساتھ دو رکعتیں پڑھیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.04

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2093
وحدثنا محمد بن مهران، حدثنا الوليد بن مسلم، أخبرنا عبد الرحمن بن نمر، أنه سمع ابن شهاب، يخبر عن عروة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم جهر في صلاة الخسوف بقراءته فصلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات ‏.‏ قال الزهري وأخبرني كثير بن عباس، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات ‏.‏
عبدالرحمان بن نمر نے خبر دی کہ انھوں نے ابن شہاب سے سنا ، وہ عروہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خبر دے رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ الخسوف ( چاند یاسورج گرہن کی نماز ) میں بلند آوازسے قراءت کی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کرکے نماز ادا کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2094
۔ ( عبدالرحمان بن نمر نے ہی کہا : ) زہری نے کہا : کثیر بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( اپنے بھائی حضرت عبداللہ ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:902.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2095
وحدثنا حاجب بن الوليد، حدثنا محمد بن حرب، حدثنا محمد بن الوليد الزبيدي، عن الزهري، قال كان كثير بن عباس يحدث أن ابن عباس، كان يحدث عن صلاة، رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم كسفت الشمس بمثل ما حدث عروة عن عائشة ‏.‏
محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے روایت کی ، انھوں نے کہا : کثیر بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث بیان کرتے تھےکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج گرہن والے دن کی نماز ( اسی طرح ) بیان کرتےتھے جس طرح عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:902.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2096
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا محمد بن بكر، أخبرنا ابن جريج، قال سمعت عطاء، يقول سمعت عبيد بن عمير، يقول حدثني من، أصدق - حسبته يريد عائشة - أن الشمس انكسفت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام قياما شديدا يقوم قائما ثم يركع ثم يقوم ثم يركع ثم يقوم ثم يركع ركعتين في ثلاث ركعات وأربع سجدات فانصرف وقد تجلت الشمس وكان إذا ركع قال ‏"‏ الله أكبر ‏"‏ ‏.‏ ثم يركع وإذا رفع رأسه قال ‏"‏ سمع الله لمن حمده ‏"‏ ‏.‏ فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر لا يكسفان لموت أحد ولا لحياته ولكنهما من آيات الله يخوف الله بهما عباده فإذا رأيتم كسوفا فاذكروا الله حتى ينجليا ‏"‏ ‏.‏
ابن جریج نے کہا : میں نے عطاء ( بن ابی رباح ) کو کہتے ہوئے سنا : میں نے عبید بن عمیر سے سنا ، کہہ رہے تھے : مجھ سے اس شخص نے حدیث بیان کی جنھیں میں سچا سمجھتاہوں ۔ ( عطاء نے کہا : ) میرا خیال ہے ان کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تھی ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ نے بڑا پُر مشقت قیام کیا ۔ سیدھے کھڑے ہوتے ، پھر رکوع میں چلے جاتے ، پھرکھڑے ہوتے ۔ پھر رکوع کرتے ، پھر کھڑے ہوتے پھر رکوع کرتے ، دو رکعتیں ( تین ) تین رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں ، پھر آپ نے سلام پھیر ا تو سورج روشن ہوچکا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو الله اكبرکہا کہتے اس کے بعد جب رکوع کرتے اور جب سر اٹھاتے تو " سمع الله لمن حمده " کہتے ۔ اسکے بعد آپ ( خطبہ کے لئے ) کھڑے ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی ، پھر فرمایا : " سورج اور چاند نہ کسی کی موت پر بےنور ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کی زندگی پر بلکہ وہ اللہ کی نشانیاں ہیں ، ان کے ذریعے سے وہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے ، جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو حتیٰ کہ وہ روشن ہوجائیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.06

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2097
وحدثني أبو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، قالا : حدثنا معاذ وهو ابن هشام ، حدثني أبي ، عن قتادة ، عن عطاء بن أبي رباح عن عبيد بن عمير ، عن عائشة ، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم " صلى ست ركعات وأربع سجدات
قتادہ نے عطاء بن ابی رباح سے ، انھوں نے عبید بن عمیر سے اور انھوں نے حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کسوف میں ) چھ رکوعوں اور چار سجدوں پر مشتمل نماز پڑھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:901.07

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2098
وحدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، حدثنا سليمان، - يعني ابن بلال - عن يحيى، عن عمرة، أن يهودية، أتت عائشة تسألها فقالت أعاذك الله من عذاب القبر ‏.‏ قالت عائشة فقلت يا رسول الله يعذب الناس في القبور قالت عمرة فقالت عائشة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا فخسفت الشمس ‏.‏ قالت عائشة فخرجت في نسوة بين ظهرى الحجر في المسجد فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم من مركبه حتى انتهى إلى مصلاه الذي كان يصلي فيه فقام وقام الناس وراءه - قالت عائشة - فقام قياما طويلا ثم ركع فركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع فركع ركوعا طويلا وهو دون ذلك الركوع ثم رفع وقد تجلت الشمس فقال ‏ "‏ إني قد رأيتكم تفتنون في القبور كفتنة الدجال ‏"‏ ‏.‏ قالت عمرة فسمعت عائشة تقول فكنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك يتعوذ من عذاب النار وعذاب القبر ‏.‏
سلیمان بن بلال نے یحییٰ ( بن سعید ) سے اور انھوں نے عمرہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس مانگنے کے لئے آئی ۔ اس نے آکر ( کہا : اللہ آپ کو عذاب قبر سے پناہ دے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں کو قبرمیں عذاب ہوگا؟عمرہ نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں "" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صبح کسی سواری پر سوار ہوکر نکلے تو سورج کوگرہن لگ گیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں بھی عورتوں کے سات حجروں کے درمیان سے نکل کر مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے ( اتر کر ) نماز پڑھنے کی اس جگہ پرآئے جہاں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے ، آپ کھڑے ہوگئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : پھر آپ نے لمبا قیام کیا ، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا ، پھر ( رکوع سے ) سر اٹھایا اور طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے چھوٹا تھا ۔ اور پھر ( رکوع سے ) سر اٹھایا تو سورج روشن ہوچکا تھا ، پھر ( نماز سے فراغت کے بعد ) آپ نے فرمایا : "" میں نے تمھیں دیکھا ہے کہ تم قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح آزمائش میں ڈالے جاؤگے ۔ "" عمرہ نے کہا : میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:903.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2099
وحدثناه محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، جميعا عن يحيى بن سعيد، في هذا الإسناد بمثل معنى حديث سليمان بن بلال‏
عبدالوہاب اور سفیان نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ سلیمان بن بلال کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:903.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2100
وحدثني يعقوب بن إبراهيم الدورقي، حدثنا إسماعيل ابن علية، عن هشام الدستوائي، قال حدثنا أبو الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم شديد الحر فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بأصحابه فأطال القيام حتى جعلوا يخرون ثم ركع فأطال ثم رفع فأطال ثم ركع فأطال ثم رفع فأطال ثم سجد سجدتين ثم قام فصنع نحوا من ذاك فكانت أربع ركعات وأربع سجدات ثم قال ‏"‏ إنه عرض على كل شىء تولجونه فعرضت على الجنة حتى لو تناولت منها قطفا أخذته - أو قال تناولت منها قطفا - فقصرت يدي عنه وعرضت على النار فرأيت فيها امرأة من بني إسرائيل تعذب في هرة لها ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض ورأيت أبا ثمامة عمرو بن مالك يجر قصبه في النار ‏.‏ وإنهم كانوا يقولون إن الشمس والقمر لا يخسفان إلا لموت عظيم وإنهما آيتان من آيات الله يريكموهما فإذا خسفا فصلوا حتى تنجلي ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه أبو غسان المسمعي، حدثنا عبد الملك بن الصباح، عن هشام، بهذا الإسناد مثله إلا أنه قال ‏"‏ ورأيت في النار امرأة حميرية سوداء طويلة ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل ‏"‏ من بني إسرائيل ‏"‏ ‏
اسماعیل ابن علیہ نے ہشام دستوائی سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ہمیں ابو زبیر نے جابر بن عبداللہ سے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن سورج کوگرہن لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کے ساتھ نمازپڑھی ، آپ نے ( اتنا ) لمبا قیام کیا کہ کچھ لوگ گرنے لگے ، پھر آپ نے رکوع کیا اوراے لمبا کیا ، پھر ( رکوع سے ) سر اٹھایا اور لمبا ( قیام ) کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر رکوع کیا اور لمبا کیا ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رکوع سے ) سر اٹھایا اور ( اس قیام کو لمبا ) کیا ، پھر دو سجدے کیے ، پھر آپ ( دوسری رکعت کے لئے ) اٹھے اور اسی طرح کیا ، اس طرح چار رکوع اورچار سجدے ہوگئے ، پھر آپ نے فرمایا : بلاشبہ مجھ پر ہر وہ چیز ( حشر نشر ، پل صراط ، جنت اور دوزخ ) جس میں سے تم گزروگے ، پیش کی گئی ، میرے سامنے جنت پیش کی گئی حتیٰ کہ اگر میں اس میں سے ایک گچھے کو لینا چاہتا تو اسے پکڑ لیتا ۔ یا آپ نے ( یوں ) فرمایا : میں نے ایک گچھہ لیناچاہا تو میرا ہاتھ اس تک نہ پہنچا ، اور میرے سامنے جہنم پیش کی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت دیکھی جسے اپنی بلی ( کے معاملے ) میں عذاب دیا جارہا تھا ۔ اس نے اسے باندھ دیا نہ اسے کچھ کھلایا ( پلایا ) نہ اسے چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے جاندار پرندے وغیرہ کھالیتی ۔ اور میں نے ابو ثمامہ عمرو ( بن عامر ) بن مالک ( جس کالقب لحی تھا اور خزاعہ اس کی اولاد میں سے تھا ) کو دیکھا کہ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہاتھا ، لوگ کہا کرتے تھےکہ سورج اور چاند کسی عظیم شخصیت کی موت پر ہی بے نور ہوتے ہیں ، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔ جو وہ تمھیں دیکھاتا ہے ، جب انھیں گرہن لگے تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہو کہ وہ ( گرہن ) چھٹ جائے ۔

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2101
عبدالملک بن صباح نے ہشام دستوائی سے اسی سند کےھ ساتھ اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند حدیث بیان کی ، مگر انھوں نے کہا : ( آپ نے فرمایا : ) " میں نے آگ میں بلاد حمیر کی ( رہنے والی ) ایک سیاہ لمبی عورت دیکھی ۔ " اور انھوں نےمن بني اسرائيل ( بنی اسرائیل کی ) کے الفاظ نہیں کہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2102
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، ح وحدثنا محمد بن عبد، الله بن نمير - وتقاربا في اللفظ - قال حدثنا أبي، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن جابر، قال انكسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال الناس إنما انكسفت لموت إبراهيم ‏.‏ فقام النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس ست ركعات بأربع سجدات بدأ فكبر ثم قرأ فأطال القراءة ثم ركع نحوا مما قام ثم رفع رأسه من الركوع فقرأ قراءة دون القراءة الأولى ثم ركع نحوا مما قام ثم رفع رأسه من الركوع فقرأ قراءة دون القراءة الثانية ثم ركع نحوا مما قام ثم رفع رأسه من الركوع ثم انحدر بالسجود فسجد سجدتين ثم قام فركع أيضا ثلاث ركعات ليس فيها ركعة إلا التي قبلها أطول من التي بعدها وركوعه نحوا من سجوده ثم تأخر وتأخرت الصفوف خلفه حتى انتهينا - وقال أبو بكر حتى انتهى إلى النساء - ثم تقدم وتقدم الناس معه حتى قام في مقامه فانصرف حين انصرف وقد آضت الشمس فقال ‏ "‏ يا أيها الناس إنما الشمس والقمر آيتان من آيات الله وإنهما لا ينكسفان لموت أحد من الناس - وقال أبو بكر لموت بشر - فإذا رأيتم شيئا من ذلك فصلوا حتى تنجلي ما من شىء توعدونه إلا قد رأيته في صلاتي هذه لقد جيء بالنار وذلكم حين رأيتموني تأخرت مخافة أن يصيبني من لفحها وحتى رأيت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار كان يسرق الحاج بمحجنه فإن فطن له قال إنما تعلق بمحجني ‏.‏ وإن غفل عنه ذهب به وحتى رأيت فيها صاحبة الهرة التي ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض حتى ماتت جوعا ثم جيء بالجنة وذلكم حين رأيتموني تقدمت حتى قمت في مقامي ولقد مددت يدي وأنا أريد أن أتناول من ثمرها لتنظروا إليه ثم بدا لي أن لا أفعل فما من شىء توعدونه إلا قد رأيته في صلاتي هذه ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہم سے عبداللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی ، نیز محمد بن عبداللہ نمیر نے حدیث بیان کی ۔ ۔ ۔ دونوں کے لفظ ملتے جلتے ہیں ۔ کہا : ہمیں میرے والد ( عبداللہ بن نمیر ) نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں عبدالملک نے عطاء سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیتے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے ، سورج گرہن ہوگیا ، ( بعض ) لوگوں نے کہا : سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگا ہے ۔ ( پھر ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں ، چار سجدوں کے ساتھ ( دو رکعت ) نماز پڑھائی ۔ آغاز کیاتو اللہ اکبر کہا ، پھرقراءت کی اور طویل قراءت کی ، پھر جتنا قیام کیا تھا تقریباً رکوع کیا ، پھر رکوع سے ا پنا سر اٹھایا اور پہلی قراءت سےکچھ کم قراءت کی ، پھر ( اس ) قیام جتنا رکوع کیا ، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور دوسری قراءت سے کچھ کم قراءت کی ، پھر ( اس ) قیام جتنا رکوع کیا ، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا ، پھر سجدے کے لئے جھکے اور دو سجدے فرمائے ، پھر کھڑے ہوئے اور ( اس دوسری ر کعت میں بھی ) تین رکوع کیے ، ان میں سے ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے زیادہ لمباتھا اور آپ کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا ، پھرآپ پیچھے ہٹے تو آپ کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں حتیٰ کہ ہم لوگ آخر ( آخری کنارے ) تک پہنچ گئے ۔ ابو بکر ( ابن ابی شیبہ ) نے کہا : حتیٰ کہ آپ عور توں کی صفوں کے قر یب پہنچ گئے ۔ پھر آپ آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی ( صفوں میں ) آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ ( واپس ) اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے پھر جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا ، اس وقت سورج اپنی اصلی حالت پر آچکا تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " لوگو!سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہی ہیں اور بلا شبہ ان دونوں کو ، لوگوں میں سے کسی کی موت پر گرہن نہیں لگتا ۔ ابو بکر ( بن ابی شیبہ ) نے " کسی بشر کی موت پر " کہا ۔ پس جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ یہ زائل ہوجائے ، کوئی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے مگر میں نے اسے اپنی اس نماز میں دیکھ لیاہے ۔ آگ ( میرے سامنے ) لائی گئی اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس ڈر سے پیچھے ہٹا ہوں کہ اس کی لپٹیں مجھ تک نہ پہنچیں ۔ یہاں تک کہ میں نے اس آگ میں مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے مالک کو دیکھ لیا ، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے ۔ وہ اپنی اس مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے زریعے سے حاجیوں کی ( چیزیں ) چوری کرتا تھا ۔ اگر اس ( کی چوری ) کا پتہ چل جاتا تو کہہ دیتا : یہ چیز میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گئی تھی ، اور اگر پتہ نہ چلتا تووہ اسے لے جاتا ۔ یہاں تک کہ میں نے اس ( آگ ) میں بلی والی اس عورت کو بھی دیکھا جس نے اس ( بلی ) کو باندھ رکھا ، نہ خود اسے کچھ کھلایااور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے اس چھوٹے موٹے جاندار اور پرندے کھا لیتی ، حتیٰ کہ وہ ( بلی ) بھوک سے مر گئی ، پھر جنت کو ( میرے سامنے ) لایاگیا اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا حتیٰ کہ میں واپس اپنی جگہ پر آکھڑا ہوا ، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ لے لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو ، پھر مجھ پر بات کھلی کہ میں ایسا نہ کروں ، کوئی ایسی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے مگر میں نے وہ اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:904.03

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2103
حدثنا محمد بن العلاء الهمداني، حدثنا ابن نمير، حدثنا هشام، عن فاطمة، عن أسماء، قالت خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلت على عائشة وهي تصلي فقلت ما شأن الناس يصلون فأشارت برأسها إلى السماء فقلت آية قالت نعم ‏.‏ فأطال رسول الله صلى الله عليه وسلم القيام جدا حتى تجلاني الغشى فأخذت قربة من ماء إلى جنبي فجعلت أصب على رأسي أو على وجهي من الماء - قالت - فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس فخطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏ "‏ أما بعد ما من شىء لم أكن رأيته إلا قد رأيته في مقامي هذا حتى الجنة والنار وإنه قد أوحي إلى أنكم تفتنون في القبور قريبا أو مثل فتنة المسيح الدجال - لا أدري أى ذلك قالت أسماء - فيؤتى أحدكم فيقال ما علمك بهذا الرجل فأما المؤمن أو الموقن - لا أدري أى ذلك قالت أسماء - فيقول هو محمد هو رسول الله جاءنا بالبينات والهدى فأجبنا وأطعنا ‏.‏ ثلاث مرار فيقال له نم قد كنا نعلم إنك لتؤمن به فنم صالحا وأما المنافق أو المرتاب - لا أدري أى ذلك قالت أسماء - فيقول لا أدري سمعت الناس يقولون شيئا فقلت ‏"‏ ‏.‏
ہمیں ( عبداللہ ) ابن نمیر نے حدیث بیان کی ، کہا : ہم سے ہشام نے ، انھوں نے ( اپنی بیوی ) فاطمہ ( بنت منذر بن زبیر بن عوام ) سے اور انھوں نے ( اپنی دادی ) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا ، چنانچہ میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں آئی اور وہ ( ساتھ مسجد میں ) نماز پڑھ رہی تھیں ، میں نے پوچھا : لوگوں کو کیا ہوا وہ ( اس وقت ) نماز پڑھ رہے ہیں؟انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا ۔ تو میں نے پوچھا : کوئی نشانی ( ظاہر ہوئی ) ہے؟انھوں نے ( اشارے سے ) بتایا : ہاں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کو بہت زیادہ لمبا کی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی ، میں نے اپنے پہلو میں پڑی مشک اٹھائی اور اپنے سریا اپنے چہرے پر پانی ڈالنےلگی ۔ کہا : رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے توسورج روشن ہوچکا تھا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور اس کی ثنا بیان کی ، پھر فرمایا : " اما بعد ( حمد وثنا کے بعد ) ! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا مگر اب میں نے اپنی اس جگہ سے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے حتی ٰ کہ جنت اور دوزخ بھی دیکھ لی ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ عنقریب ہے کہ عنقریب قبروں میں تمھاری مسیح دجال کی آزمائش کے قریب یا س جیسی آزمائش ہوگی ۔ ۔ ( فاطمہ نے کہا ) مجھے پتہ نہیں ، حضر ت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا ۔ اور تم میں سے ہر ایک کے پاس ( فرشتوں کی ) آمد ہو گی اور پوچھا جائے گا : تم اس آدمی کے بارے میں کیاجانتے ہو ؟ تومومن یا یقین رکھنے والا ۔ مجھے معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے کون سا لفظ کہا ۔ ۔ کہنے گا : وہ محمد ہیں ، وہ اللہ کے رسول ہیں ، ہمارےپاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے ، ہم نے ان ( کی بات ) کوقبول کیا اور اطاعت کی ، تین دفعہ ( سوال وجواب ) ہوگا ۔ پھراُس سے کہاجائے گا : سوجاؤ ، ہمیں معلوم تھا کہ تم ان پر ایمان رکھتےہو ۔ ایک نیک بخت کی طرح سوجاؤ ۔ اور رہامنافق یا وہ جوشک وشبہ میں مبتلا تھا ۔ معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کو ن سا لفظ کہا ۔ تو وہ کہے گا : میں نہیں جانتا ، میں نے لوگوں کو کچھ کہتےہوئے سناتھا تو وہی کہہ دیا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:905.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2104
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن فاطمة، عن أسماء، قالت أتيت عائشة فإذا الناس قيام وإذا هي تصلي فقلت ما شأن الناس واقتص الحديث بنحو حديث ابن نمير عن هشام ‏.‏ أخبرنا يحيى بن يحيى، أخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة، قال لا تقل كسفت الشمس ولكن قل خسفت الشمس ‏.‏
ابو اسامہ نے ہشام سے ، انھوں نے فاطمہ سے اور انھوں نے حضرت اسمارضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو اس وقت لوگ ( نماز میں ) کھڑے تھے اور وہ بھی نما ز پڑھ رہی تھیں ۔ میں نے پوچھا : لوگو ں کو کیا ہوا؟ اور ( آگے ) ہشام سے ابن نمیر کی ( سابقہ ) حدیث کی طرح حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2105
عروہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : سورج کے لیے کسف نہ کہو ، بلکہ خسف کا لفظ استعمال کرو ۔ ( اردو میں دونوں کا معنی " گرہن " ہی ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2106
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا ابن جريج، حدثني منصور بن عبد الرحمن، عن أمه، صفية بنت شيبة عن أسماء بنت أبي بكر، أنها قالت فزع النبي صلى الله عليه وسلم يوما - قالت تعني يوم كسفت الشمس - فأخذ درعا حتى أدرك بردائه فقام للناس قياما طويلا لو أن إنسانا أتى لم يشعر أن النبي صلى الله عليه وسلم ركع ما حدث أنه ركع من طول القيام ‏.‏
خالد بن حارث نے کہا : ہم سے ابن جریج نے حدیث بیان کی ، ( انھوں نے کہا : ) مجھ سے منصور بن عبدالرحٰمن نے اپنی والدہ صفیہ بنت شیبہ سے اور انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ایک دن نبی اکرم ﷺ تیزی سے ( لپک کر ) گئے ۔ کہا : ان کی مراد اس دن سے تھی جس دن سورج کو گرہن لگا تھا ۔ ۔ تو ( جلدی میں ) آپ نے ایک زنانہ قمیض اٹھالی حتیٰ کہ پیچھے سے آپ کو آپ کی چادر لا کر دی گئی ۔ آپ نے لوگوں کی امامت کرتے ہوئے انتہائی طویل قیام کیا ۔ اگرکوئی ایسا انسان آتا جس کو یہ پتہ نہ ہوتا کہ آ پ ( قیام کے بعد ) رکوع کرچکے ہیں تو اس قیام کی لمبائی کی بنا پر وہ کبھی نہ کہہ سکتا کہ آپ ( ایک دفعہ ) رکوع کرچکے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:906.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2107
وحدثني سعيد بن يحيى الأموي، حدثني أبي، حدثنا ابن جريج، بهذا الإسناد مثله وقال قياما طويلا يقوم ثم يركع وزاد فجعلت أنظر إلى المرأة أسن مني وإلى الأخرى هي أسقم مني ‏.‏
یحیٰ اموی نے کہا : ہم سے ا بن جریج نے اسی سند کے ساتھ اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند حدیث بیان کی ۔ ( اس میں ) انھوں نے کہا : ( آپ نے ) طویل قیام کیا ، آپ قیام کرتے ، پھر رکو ع میں چلے جاتے ۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا : میں ( بیٹھنے کا ارادہ کرتی تو ) ایسی عورت کو دیکھنے لگتی جو مجھ سے بڑھ کر عمر رسیدہ ہوتی اور کسی دوسری کو دیکھتی جو مجھ سے زیادہ بیمار ہوتی ( اور ان سے حوصلہ پا کر کھڑی رہتی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:906.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2108
وحدثني أحمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا وهيب، حدثنا منصور، عن أمه، عن أسماء بنت أبي بكر، قالت كسفت الشمس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم ففزع فأخطأ بدرع حتى أدرك بردائه بعد ذلك قالت فقضيت حاجتي ثم جئت ودخلت المسجد فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما فقمت معه فأطال القيام حتى رأيتني أريد أن أجلس ثم ألتفت إلى المرأة الضعيفة فأقول هذه أضعف مني ‏.‏ فأقوم فركع فأطال الركوع ثم رفع رأسه فأطال القيام حتى لو أن رجلا جاء خيل إليه أنه لم يركع ‏.‏
وہیب نے کہا : ہمیں منصور نے اپنی والدہ ( صفیہ ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ جلدی سے لپکے ( اور ) غلطی سے زنانہ قمیص اٹھا لی حتیٰ کہ اسکے بعد ( پیچھےسے ) آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی ۔ کہا : میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی اور ( حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے ) مسجد میں داخل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام کی حالت میں دیکھا ۔ میں بھی آپ کی اقتداء میں کھڑی ہوگئی ۔ آپ نے بہت لمبا قیام کیا حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں بیٹھنا چاہتی تھی ، پھر میں کسی کمزور عورت کی طرف متوجہ ہوتی اور ( دل میں ) کہتی : یہ تو مجھ سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ ( اور کھڑی رہتی ہے ) پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع کو انتہائی لمبا کردیا ، پھر آپ نے ( رکوع سے ) اپناسر اٹھایا تو قیام کو بہت طول دیا ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی ( اس حالت میں ) آتا تو اسے خیال ہوتا کہ ابھی تک آپ نے رکوع نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:906.03

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2109
حدثنا سويد بن سعيد، حدثنا حفص بن ميسرة، حدثني زيد بن أسلم، عن عطاء، بن يسار عن ابن عباس، قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه فقام قياما طويلا قدر نحو سورة البقرة ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم انصرف وقد انجلت الشمس فقال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتم ذلك فاذكروا الله ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا رسول الله رأيناك تناولت شيئا في مقامك هذا ثم رأيناك كففت ‏.‏ فقال ‏"‏ إني رأيت الجنة فتناولت منها عنقودا ولو أخذته لأكلتم منه ما بقيت الدنيا ورأيت النار فلم أر كاليوم منظرا قط ورأيت أكثر أهلها النساء ‏"‏ ‏.‏ قالوا بم يا رسول الله قال ‏"‏ بكفرهن ‏"‏ ‏.‏ قيل أيكفرن بالله قال ‏"‏ بكفر العشير وبكفر الإحسان لو أحسنت إلى إحداهن الدهر ثم رأت منك شيئا قالت ما رأيت منك خيرا قط ‏"‏ ‏.‏
حفص بن میسرہ نے کہا : زید بن اسلم نے مجھے عطاء بن یسار سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی ، انھوں نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگ گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کی معیت میں لوگوں نے نماز پڑھی ۔ آپ نے بہت طویل قیام کیا ، سورہ بقرہ کے بقدر ، پھر آپ نے بہت طویل رکوع کیا ، پھر آپ نے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا ، پھر آپ نے طویل رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر آپ نے سجدے کیے ، پھر آپ نے طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا ، پھر آپ نے طویل ر کوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر آپ نے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ اپنے سے پہلے والے قیام سے کم تھا ، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے کے رکوع سے کم تھا ، پھر آپ نے سجدے کیے ، پھر آپ نے سلام پھیرا تو سورج روشن ہوچکا تھا ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : " سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سےنشانیاں ہیں ، وہ کسی کی موت پر گرہن زدہ نہیں ہوتے اور نہ کسی کی زندگی کے سبب سے ( انھیں گرہن لگتاہے ) جب تم ( ان کو ) اس طرح دیکھ تو اللہ کا زکر کرو ( نماز پڑھو ۔ ) " لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ نے اپنے کھڑےہونے کی اس جگہ پر کوئی چیز لینے کی کوشش کی ، پھرہم نے دیکھاکہ آپ رک گئے ۔ آپ نے فرمایا : " میں نے جنت دیکھی اور میں نے اس میں سے ایک گچھہ لینا چاہا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو تم ر ہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے ( اور ) میں نے جہنم دیکھی ، میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اہل جہنم کی اکثریت عورتوں کی دیکھی ۔ " لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ( یہ ) کس وجہ سے؟آپ نے فرمایا : " ان کے کفر کی وجہ سے ۔ " کہا گیا : کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟آپ نے فرمایا : " رفیق زندگی کا کفران ( ناشکری ) کرتی ہیں ۔ اوراحسان کا کفران کر تی ہیں ۔ اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کرتے رہو پھر وہ تم سے کسی دن کوئی ( ناگوار ) بات دیکھے تو کہہ دے گی : تم سے میں نے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:907.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2110
وحدثناه محمد بن رافع، حدثنا إسحاق، - يعني ابن عيسى - أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، في هذا الإسناد بمثله غير أنه قال ثم رأيناك تكعكعت ‏.‏
امام مالک نے زید بن اسلم سے اسی سند کے ساتھ اس ( مذکورہ حدیث ) کے مانند روایت کی ، البتہ انھوں نے " ثم رايناك كففت کے بجائے ) ثم رايناك تكعكعت " ( پھر ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ آگے بڑھنے سے باز رہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:907.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2111
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل ابن علية، عن سفيان، عن حبيب، عن طاوس، عن ابن عباس، قال صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين كسفت الشمس ثمان ركعات في أربع سجدات ‏.‏ وعن علي مثل ذلك ‏.‏
اسماعیل ابن علیہ نے سفیان سے ، انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے ، انھوں نے طاوس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : جب سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سجدوں کے ساتھ آٹھ رکوع کیے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی کے مانند روایت کی گئی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:908

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2112
وحدثنا محمد بن المثنى، وأبو بكر بن خلاد كلاهما عن يحيى القطان، - قال ابن المثنى حدثنا يحيى، - عن سفيان، قال حدثنا حبيب، عن طاوس، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى في كسوف قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد ‏.‏ قال والأخرى مثلها ‏.‏
یحییٰ نے سفیان سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : ہمیں حبیب نے طاوس سے حدیث سنائی ، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے کسوف ( کے دوران ) میں نماز پڑھائی ، قراءت کی پھر رکوع کیا ، پھر قرءات کی ، پھر رکوع کیا ، پھر قراءت کی ۔ پھر رکوع کیا ۔ پھر قراءت کی ۔ پھر رکوع کیا ۔ پھر سجدے کئے ۔ کہا : دوسری ( رکعت ) بھی اسی طرح تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:909

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2113
حدثني محمد بن رافع، حدثنا أبو النضر، حدثنا أبو معاوية، - وهو شيبان النحوي - عن يحيى، عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، ح . وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا معاوية، بن سلام عن يحيى بن أبي كثير، قال أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، عن خبر عبد، الله بن عمرو بن العاص أنه قال لما انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نودي بـ ‏{‏ الصلاة جامعة ‏}‏ فركع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين في سجدة ثم قام فركع ركعتين في سجدة ثم جلي عن الشمس فقالت عائشة ما ركعت ركوعا قط ولا سجدت سجودا قط كان أطول منه ‏.‏
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گرہن ہواتو " الصلواة جامعة " ( کے الفاظ کے ساتھ ) اعلان کیاگیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے ، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے اور ایک رکعت میں دو رکوع کیے ، پھر سورج سے گرہن زائل کردیا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں نے نہ کبھی ایسا رکوع کیا اور نہ کبھی ایسا سجدہ کیا جو اس سے زیادہ لمبا ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:910

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2114
وحدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا هشيم، عن إسماعيل، عن قيس بن أبي حازم، عن أبي مسعود الأنصاري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله يخوف الله بهما عباده وإنهما لا ينكسفان لموت أحد من الناس فإذا رأيتم منها شيئا فصلوا وادعوا الله حتى يكشف ما بكم ‏"‏ ‏.‏
ہشیم نے اسماعیل سے ، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے ، اور انھوں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتاہے ۔ اور ان دونوں کو انسانوں میں سے کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا ، لہذا جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو پکارو یہاں تک کہ جو کچھ تمہارے ( ساتھ ہوا ) ہے وہ کھل جائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:911.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2115
وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، ويحيى بن حبيب، قالا حدثنا معتمر، عن إسماعيل، عن قيس، عن أبي مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الشمس والقمر ليس ينكسفان لموت أحد من الناس ولكنهما آيتان من آيات الله فإذا رأيتموه فقوموا فصلوا ‏"‏ ‏.‏
معتمر نے اسماعیل سے ، انھوں نے قیس سے اور انھوں نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سورج اور چاند کو لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےدو نشانیاں ہیں ۔ لہذا جب تم اس ( گرہن ) کو دیکھو تو قیام کرو اور نماز پڑھو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:911.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2116
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، وأبو أسامة وابن نمير ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، ووكيع، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، ومروان، كلهم عن إسماعيل، بهذا الإسناد ‏.‏ وفي حديث سفيان ووكيع انكسفت الشمس يوم مات إبراهيم فقال الناس انكسفت لموت إبراهيم ‏.‏
وکیع ، ابواسامہ ، ابن نمیر ، جریر ، سفیان ، اورمروان سب نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی ، سفیان اوروکیع ، کی روایت میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا تو لوگوں نے کہا : سورج کو ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی بناء پر گرہن لگا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:911.03

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2117
حدثنا أبو عامر الأشعري عبد الله بن براد، ومحمد بن العلاء، قالا حدثنا أبو أسامة عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال خسفت الشمس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فقام فزعا يخشى أن تكون الساعة حتى أتى المسجد فقام يصلي بأطول قيام وركوع وسجود ما رأيته يفعله في صلاة قط ثم قال ‏"‏ إن هذه الآيات التي يرسل الله لا تكون لموت أحد ولا لحياته ولكن الله يرسلها يخوف بها عباده فإذا رأيتم منها شيئا فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية ابن العلاء كسفت الشمس وقال ‏"‏ يخوف عباده ‏"‏ ‏.‏
ابو عامر اشعری عبداللہ بن براد اور محمد بن علاء نے کہا : ہمیں ابو اسامہ نے برید سے حدیث سنائی ، انھوں نے ابو بردہ سے اور انھوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو آپ تیزی سے اٹھے ، آپ کو خوف لاحق ہوا کہ مبادا قیامت ( آگئی ) ہو ، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور آپ کھڑے ہوئے بہت طویل قیام ، رکوع اورسجدے کے ساتھ نماز پڑھتے رہے ، میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا تھا کہ کسی نماز میں ( آپ نے ) ایسا کیا ہو ، پھر آپ نے فرمایا : " یہی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے ۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی بناء پر نہیں ہوتیں ، بلکہ اللہ ان کو بھیجتا ہے تاکہ ان کے زریعے سے اپنے بندوں کو ( قیامت سے ) خوف دلائے ، اس لئے جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو جلد از جلد اس کے ذکر ، دعا اور استغفار کی طرف لپکو ، " ابن علاء کی ر وایت میں " خسفت الشمس " کے بجائے ) كسفت الشمس ( سورج کو گرہن لگا ) کے الفاظ ہیں ( معنی ایک ہی ہے ) اور انھوں نے ( يخوف بها عباده ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کے بجائے ) يخوف عباده ( اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے ) کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:912

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2118
وحدثني عبيد الله بن عمر القواريري، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا الجريري، عن أبي العلاء، حيان بن عمير عن عبد الرحمن بن سمرة، قال بينما أنا أرمي، بأسهمي في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ انكسفت الشمس فنبذتهن وقلت لأنظرن إلى ما يحدث لرسول الله صلى الله عليه وسلم في انكساف الشمس اليوم فانتهيت إليه وهو رافع يديه يدعو ويكبر ويحمد ويهلل حتى جلي عن الشمس فقرأ سورتين وركع ركعتين ‏.‏
بشر بن مفضل نے کہا : جریری نے ہمیں ابو علاء حیان بن عمیر سے حدیث بیان کی ، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیروں کے زریعے سے تیر انداز کررہا تھا کے سورج کو گرہن لگ گیا ، تو نے ان کو پھینکا اور ( دل میں ) کہا کہ میں آج ہرصورت دیکھوں گا کہ سورج گرہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ میں آپ کے پاس پہنچا تو ( دیکھا کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ، ( اللہ کو ) پکار رہے تھے ، اس کی بڑائی بیان کررہے تھے ، اس کی حمد و ثنا بیان کررہے تھے اور لاالٰہ الا اللہ کا ورد فرما رہے تھے ، یہاں تک کہ سورج سے گرہن ہٹا دیاگیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہررکعت میں ) دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:913.01

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2119
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى، عن الجريري، عن حيان بن عمير، عن عبد الرحمن بن سمرة، - وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال كنت أرتمي بأسهم لي بالمدينة في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كسفت الشمس فنبذتها فقلت والله لأنظرن إلى ما حدث لرسول الله صلى الله عليه وسلم في كسوف الشمس قال فأتيته وهو قائم في الصلاة رافع يديه فجعل يسبح ويحمد ويهلل ويكبر ويدعو حتى حسر عنها ‏.‏ قال فلما حسر عنها قرأ سورتين وصلى ركعتين ‏.‏
عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے جریری سے ، انھوں نے حیان بن نمیر سے اور انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے تھے ، انھوں نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک د ن مدینہ میں ا پنے تیروں سے نشانے لگا رہا تھا کہ اچانک سورج کو گرہن لگ گیا ، اس پر میں نے انھیں ( تیروں کو ) پھینکا اور ( دل میں ) کہا : اللہ کی قسم!میں ضرور د یکھوں گا کہ سورج کے گرہن کے اس و قت میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوئی ہے ۔ کہا : میں آپ کے پاس آیا ، آپ نماز میں کھرے تھے ، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ، پھر آپ نے تسبیح ، حمد و ثنا لاالٰہ الا اللہ اور اللہ کی بڑائی کا ورد اور د عا مانگنی شروع کردی یہاں تک کہ سورج کا گرہن چھٹ گیا ، کہا : اور جب سورج کا گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:913.02

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2120
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا سالم بن نوح، أخبرنا الجريري، عن حيان بن، عمير عن عبد الرحمن بن سمرة، قال بينما أنا أترمى، بأسهم لي على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ خسفت الشمس ‏.‏ ثم ذكر نحو حديثهما ‏.‏
سالم بن نوح نے کہا : ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا ، پھر ( سالم بن نوح نے ) ان دونوں ( بشر اور عبدالاعلیٰ ) کی حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:913.03

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2121
وحدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، أن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق، عن عبد، الله بن عمر أنه كان يخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ إن الشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته ولكنهما آية من آيات الله فإذا رأيتموهما فصلوا ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں ، جب تم انھیں ( اس طرح ) دیکھو تو نماز پڑھو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:914

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2122
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، قالا حدثنا مصعب، - وهو ابن المقدام - حدثنا زائدة، حدثنا زياد بن علاقة، - وفي رواية أبي بكر قال قال زياد بن علاقة - سمعت المغيرة بن شعبة، يقول انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموهما فادعوا الله وصلوا حتى ينكشف ‏"‏ ‏.‏
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا ، اسی دن جب ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتاہے اور نہ کسی کی زندگی سے اس لئے جب تم ان کو ( گرہن لگا ) دیکھو تو اللہ کو پکارو اور نماز پڑھو یہاں تک کہ گرہن زائل ہوجائے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:915

صحيح مسلم باب:10 حدیث نمبر : 31

Share this: