احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
01: كتاب الإيمان
ایمان کے احکام و مسائل
صحيح مسلم حدیث نمبر: 93
حدثني أبو خيثمة، زهير بن حرب حدثنا وكيع، عن كهمس، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، - وهذا حديثه - حدثنا أبي، حدثنا كهمس، عن ابن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال كان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين أو معتمرين فقلنا لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه عما يقول هؤلاء في القدر فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد فاكتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه والآخر عن شماله فظننت أن صاحبي سيكل الكلام إلى فقلت أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن ويتقفرون العلم - وذكر من شأنهم - وأنهم يزعمون أن لا قدر وأن الأمر أنف ‏.‏ قال فإذا لقيت أولئك فأخبرهم أني بريء منهم وأنهم برآء مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا فأنفقه ما قبل الله منه حتى يؤمن بالقدر ثم قال حدثني أبي عمر بن الخطاب قال بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذيه وقال يا محمد أخبرني عن الإسلام ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا ‏.‏ قال صدقت ‏.‏ قال فعجبنا له يسأله ويصدقه ‏.‏ قال فأخبرني عن الإيمان ‏.‏ قال ‏"‏ أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره ‏"‏ ‏.‏ قال صدقت ‏.‏ قال فأخبرني عن الإحسان ‏.‏ قال ‏"‏ أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك ‏"‏ ‏.‏ قال فأخبرني عن الساعة ‏.‏ قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل ‏"‏ ‏.‏ قال فأخبرني عن أمارتها ‏.‏ قال ‏"‏ أن تلد الأمة ربتها وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان ‏"‏ ‏.‏ قال ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي ‏"‏ يا عمر أتدري من السائل ‏"‏ ‏.‏ قلت الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم ‏"‏ ‏.‏
کہمس سے ا بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کو پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، پھر کہا : مجھے میرے والد عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے بتایا : ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی را نوں پر رکھ دیے ، اور کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ ( طے کرنے ) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور ( خود ہی ) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخری دن ( یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) اس نے کہا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’جس سے اس ( قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ‘ ‘ حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ جبرئیل تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:8.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 94
حدثني محمد بن عبيد الغبري، وأبو كامل الجحدري وأحمد بن عبدة قالوا حدثنا حماد بن زيد، عن مطر الوراق، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال لما تكلم معبد بما تكلم به في شأن القدر أنكرنا ذلك ‏.‏ قال فحججت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حجة ‏.‏ وساقوا الحديث بمعنى حديث كهمس وإسناده ‏.‏ وفيه بعض زيادة ونقصان أحرف ‏.‏
کہمس کے بجائے مطر وراق نےعبد اللہ بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سے نقل کیا کہ جب معبد ( جہنی ) نے تقدیر کے بارے میں وہ ( سب ) کہا جو کہا ، تو ہم نے اسے سخت ناپسند کیا ( یحییٰ نے کہا ) میں اور حمید بن عبد الرحمٰن حمیری نے حج کیا .... اس کے بعد انہوں نے کہمس کے واسطے سے بیان کردہ حدیث کے مطابق حدیث بیان کی ، البتہ الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:8.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 95
وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا عثمان بن غياث، حدثنا عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، وحميد بن عبد الرحمن، قالا لقينا عبد الله بن عمر فذكرنا القدر وما يقولون فيه ‏.‏ فاقتص الحديث كنحو حديثهم عن عمر - رضى الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم وفيه شىء من زيادة وقد نقص منه شيئا ‏.‏
(عبد اللہ بن بریدہ کے ایک تیسرے شاگرد ) عثمان بن غیاث نے یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبد الرحمٰن دونوں سے روایت کی ، دونوں نےکہا : ہم عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ملے اور ہم سے تقدیر کی بات کی اور وہ لوگ ( منکرین تقدیر ) جو کچھ کہتے ہیں ، اس کا ذکر کیا ۔ اس کے بعد ( عثمان بن غیاث نے ) سابقہ راویوں کے مطابق حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے مرفوعاً روایت کی ۔ اس روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں اور کچھ انہوں نے کم کیے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:8.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 96
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا المعتمر، عن أبيه، عن يحيى بن يعمر، عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديثهم ‏.‏
معتمر کے والد ( سلیمان بن طرخان ) نے یحییٰ بن یعمر سے ، انہوں نے عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی جس طرح مذکورہ اساتذہ نے روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:8.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 97
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، جميعا عن ابن علية، قال زهير حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن أبي حيان، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، عن أبي هريرة، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس فأتاه رجل فقال يا رسول الله ما الإيمان قال ‏"‏ أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث الآخر ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله ما الإسلام قال ‏"‏ الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله ما الإحسان قال ‏"‏ أن تعبد الله كأنك تراه فإنك إن لا تراه فإنه يراك ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله متى الساعة قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن سأحدثك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها فذاك من أشراطها وإذا كانت العراة الحفاة رءوس الناس فذاك من أشراطها وإذا تطاول رعاء البهم في البنيان فذاك من أشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله ‏"‏ ‏.‏ ثم تلا صلى الله عليه وسلم ‏{‏ إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأى أرض تموت إن الله عليم خبير‏}‏ ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أدبر الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ردوا على الرجل ‏"‏ ‏.‏ فأخذوا ليردوه فلم يروا شيئا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا جبريل جاء ليعلم الناس دينهم ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن ابراہیم ( ابن علیہ ) نے ابو حیان سے ، انہوں نے ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے ( تشریف فرما ) تھے ، ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتاب ، ( قیامت کے روز ) اس سے ملاقات ( اس کے سامنے حاضری ) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری ( بار زندہ ہو کر ) اٹھنے پر ( بھی ) ایمان لے آؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ، لکھی ( فرض کی ) گئی نمازوں کی ‎پابندی کرو ، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو ۔ اور رمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! قیامت کب ( قائم ) ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ ا س کے بارے میں پوچھنے والے سےزیادہ آگاہ نہیں ۔ لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں : جب لونڈی اپنا مالک جنے گی تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے ، اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے ۔ ( قیامت کے وقت کا علم ) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ‘ ‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام ( ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہے ، کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا ، نہ کسی متنفس کویہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم والا خبردار ہے ۔ ‘ ‘ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس آ دمی کو میرے پاس واپس لاؤ ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اسے واپس لانے کے لیے بھاک دوڑ کرنےلگے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا ، رسول اللہ نے فرمایا : ’’یہ جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:8.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 98
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا أبو حيان التيمي، بهذا الإسناد مثله غير أن في روايته ‏ "‏ إذا ولدت الأمة بعلها ‏"‏ يعني السراري ‏.‏
(ابن علیہ کے بجائے ) محمد بن بشر نےکہا : ہمیں ابو حیان نے سابقہ سند سے وہی حدیث بیان کی ، البتہ ان کی روایت میں : إذا ولدت الأمة بعلها ’’ جب لونڈی اپنا مالک جنے گی ‘ ‘ ( رب کی جگہ بعل ، یعنی مالک ) کے الفاظ ہیں ۔ ( أمة سے مملوکہ ) لونڈیاں مراد ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:9

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 99
حدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة، - وهو ابن القعقاع - عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سلوني ‏"‏ فهابوه أن يسألوه ‏.‏ فجاء رجل فجلس عند ركبتيه ‏.‏ فقال يا رسول الله ما الإسلام قال ‏"‏ لا تشرك بالله شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان ‏"‏ ‏.‏ قال صدقت ‏.‏ قال يا رسول الله ما الإيمان قال ‏"‏ أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر كله ‏"‏ ‏.‏ قال صدقت ‏.‏ قال يا رسول الله ما الإحسان قال ‏"‏ أن تخشى الله كأنك تراه فإنك إن لا تكن تراه فإنه يراك ‏"‏ ‏.‏ قال صدقت ‏.‏ قال يا رسول الله متى تقوم الساعة قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل وسأحدثك عن أشراطها إذا رأيت المرأة تلد ربها فذاك من أشراطها وإذا رأيت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الأرض فذاك من أشراطها وإذا رأيت رعاء البهم يتطاولون في البنيان فذاك من أشراطها في خمس من الغيب لا يعلمهن إلا الله ‏"‏ ‏.‏ ثم قرأ ‏{‏ إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأى أرض تموت إن الله عليم خبير‏}‏ قال ثم قام الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ردوه على ‏"‏ فالتمس فلم يجدوه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا جبريل أراد أن تعلموا إذ لم تسألوا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھ سے ( دین کے بارے میں ) پوچھ لو ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ آپ ﷺ سے اتنے مرعوب ہوئے کہ سوال نہ کر سکے ، تب ایک آدمی آیا اور آپ ﷺ کے دونوں گھٹنوں کے قریب بیٹھ گیا ، پھر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( پھر ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’یہ کہ تم اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتاب ، ( قیات کے روز ) اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ ، مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ اور ہر ( امر کی ) تقدیر پر ایمان لاؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ سےاس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، پھر اگر تم اسے نہیں رہے تو وہ یقینا ً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے صحیح فرمایا : ( پھر ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! قیامت کب قائم ہو گی ؟ آپ نے جواب دیا : ’’جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ میں تمہیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں : جب دیکھو کہ عورت اپنے آقا کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے ، گونگے اور بہرے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب دیکھو کہ بھیڑ بکریوں کے چروا ہے اونچی سے اونچی عمارات بنانے میں باہم مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔ یہ ( قیامت کا وقوع ) غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے ۔ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام ( ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہےاور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ ( کہاں ) کس زمین میں فوت ہو گا ...... ‘ ‘ سورت کے آخر تک ۔ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : پھر وہ آدمی کھڑا ہو گیا ( اور چلا گیا ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسے میرے پاس واپس لاؤ ۔ ‘ ‘ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انہیں ( صحابہ کرام کو ) نہ ملا ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ جبریل تھے ، انہوں نے چاہا کہ تم نہیں پوچھ رہے تو تم ( دین ) سیکھ لو ( انہوں نے آکر تمہاری طرف سے سوال کیا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:10

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 100
حدثنا قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف بن عبد الله الثقفي، عن مالك بن أنس، - فيما قرئ عليه - عن أبي سهيل، عن أبيه، أنه سمع طلحة بن عبيد الله، يقول جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد ثائر الرأس نسمع دوي صوته ولا نفقه ما يقول حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خمس صلوات في اليوم والليلة ‏"‏ ‏.‏ فقال هل على غيرهن قال ‏"‏ لا ‏.‏ إلا أن تطوع وصيام شهر رمضان ‏"‏ ‏.‏ فقال هل على غيره فقال ‏"‏ لا ‏.‏ إلا أن تطوع ‏"‏ ‏.‏ وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة فقال هل على غيرها قال ‏"‏ لا ‏.‏ إلا أن تطوع ‏"‏ قال فأدبر الرجل وهو يقول والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أفلح إن صدق ‏"‏ ‏.‏
مالک بن انس نے ابو سہیل سے ، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےسنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اہل نجد میں سے ایک آدمی آیا ، اس کے بال پراگندہ تھے ، ہم اس کی ہلکی سی آواز سن رہے تھے لیکن جوکچھ وہ کہہ رہا تھا ہم اس کو سمجھ نہیں رہے تھے حتی کہ وہ رسو ل اللہ ﷺ کے قریب آ گیا ، وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دن اور رات میں پانچ نمازیں ( فرض ) ہیں ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : کیا ان کے علاوہ ( اور نمازیں ) بھی میرے ذمے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’نہیں : الا یہ کہ تم نفلی نماز پڑھو اور ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی ( روزے ) ہیں ؟ فرمایا : ’’نہیں ، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔ ‘ ‘ پھر رسول اللہ ﷺ اسے زکاۃ کے بارے میں بتایا تو اس نے سوال کیا : کیا میرے ذمے اس کےسوا بھی کچھ ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’نہیں ، سوائے اس کے کہ تم اپنی مرضی سے ( نفلی صدقہ ) دو ۔ ‘ ‘ ( حضرت طلحہ نے ) کہا : پھر وہ آدمی واپس ہوا تو کہہ رہا تھا : اللہ کی قسم ! میں نے اس پر کوئی اضافہ کروں گا نہ اس میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ فلاح پا گیا اگر اس نے سچ کر دکھایا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:11.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 101
حدثني يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، جميعا عن إسماعيل بن جعفر، عن أبي سهيل، عن أبيه، عن طلحة بن عبيد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث نحو حديث مالك غير أنه قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أفلح وأبيه إن صدق ‏"‏ ‏.‏ أو ‏"‏ دخل الجنة وأبيه إن صدق ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن جعفر نے ابو سہیل سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نےحضرت طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے ، مالک سے حدیث کی طرح روایت کی ، سوائے اس کے کہ کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کامیاب ہوا ، اس کے باپ کی قسم ! اگر اس نے سچ کر دکھایا ِ ‘ ‘ یا ( فرمایا : ) ’’جنت میں داخل ہو گا ، اس کے باپ کی قسم ! اگر اس نے سچ کر دکھایا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:11.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 102
حدثني عمرو بن محمد بن بكير الناقد، حدثنا هاشم بن القاسم أبو النضر، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس بن مالك، قال نهينا أن نسأل، رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شىء فكان يعجبنا أن يجيء الرجل من أهل البادية العاقل فيسأله ونحن نسمع فجاء رجل من أهل البادية فقال يا محمد أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك قال ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ قال فمن خلق السماء قال ‏"‏ الله ‏"‏ ‏.‏ قال فمن خلق الأرض قال ‏"‏ الله ‏"‏ ‏.‏ قال فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل ‏.‏ قال ‏"‏ الله ‏"‏ ‏.‏ قال فبالذي خلق السماء وخلق الأرض ونصب هذه الجبال آلله أرسلك قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال وزعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا ‏.‏ قال ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ قال فبالذي أرسلك آلله أمرك بهذا قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال وزعم رسولك أن علينا زكاة في أموالنا ‏.‏ قال ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ قال فبالذي أرسلك آلله أمرك بهذا قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال وزعم رسولك أن علينا صوم شهر رمضان في سنتنا ‏.‏ قال ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ قال فبالذي أرسلك آلله أمرك بهذا قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال وزعم رسولك أن علينا حج البيت من استطاع إليه سبيلا ‏.‏ قال ‏"‏ صدق ‏"‏ ‏.‏ قال ثم ولى ‏.‏ قال والذي بعثك بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص منهن ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لئن صدق ليدخلن الجنة ‏"‏ ‏.‏
ہاشم بن قاسم ابونضر نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت کے حوالے سے یہ حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ( غیر ضروری طور پر ) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کرے اور ہم ( بھی جواب ) سنیں ، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا ، اے محمد ( ﷺ ) ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا ، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : آسمان کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ اللہ نے ۔ ‘ ‘ اس نےکہا : زمین کس نےبنائی ؟ آپ نے فرمایا : ’’اللہ نے ۔ ‘ ‘ اس نے سوال کیا : یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ نے ۔ ‘ ‘ بدوی نے کہا : اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا ، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو ( رسول بنا کر ) بھیجا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ ہاں! ‘ ‘ اس نے کہا : آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن او رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس نے درست کہا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ہاں ! ‘ ‘ اس نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ بدوی نے کہا : ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا یا ! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ہاں ! ‘ ‘ اعرابی نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے صحیح کہا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا للہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں ! ‘ ‘ وہ کہنے لگا : آپ کے بھیجے ہوئے ( قاصد ) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ، اس شخص پر جو اس کے راستے ( کو طے کرنے ) کی استطاعت رکھتا ہو ۔ آپ نے فرمایا ، ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) پھر وہ واپس چل پڑا اور ( چلتے چلتے ) کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:12.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 103
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي، حدثنا بهز، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، قال قال أنس كنا نهينا في القرآن أن نسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شىء ‏.‏ وساق الحديث بمثله ‏.‏
بہزنے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہون نےکہا : ہمیں قرآن مجید میں اس بات سے منع کر دیا گیا کہ ( بلاضرورت ) کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کریں .... اس کے بعد ( بہزنے ) اسی کی مانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:12.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 104
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا موسى بن طلحة، قال حدثني أبو أيوب، أن أعرابيا، عرض لرسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في سفر ‏.‏ فأخذ بخطام ناقته أو بزمامها ثم قال يا رسول الله - أو يا محمد - أخبرني بما يقربني من الجنة وما يباعدني من النار ‏.‏ قال فكف النبي صلى الله عليه وسلم ثم نظر في أصحابه ثم قال ‏"‏ لقد وفق - أو لقد هدي - قال كيف قلت ‏"‏ ‏.‏ قال فأعاد ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تعبد الله لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصل الرحم دع الناقة ‏"‏ ‏.‏
عمر و بن عثمان نے کہا : ہمیں موسیٰ بن طلحہ نےحدیث سنائی ، انہوں نےکہا : مجھےحضرت ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ رسول ا للہ ﷺ ایک سفر میں تھے جب ایک اعرابی ( دیہاتی ) آپ کے سامنے آ کھڑا ہوا ، اس نے آپ کی اونٹنی کی مہار یانکیل پکڑ لی ، پھر کہا : اے اللہ کے رسول ! ( یا اے محمد! ) مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کر دے ۔ ابو ایوب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رک گئے ، پھر اپنے ساتھیوں پر نظر دوڑائی ، پھر فرمایا ، ’’اس کو توفیق ملی ) ( یا ہدایت ملی ) ‘ ‘ پھر بدوی نے پوچھا : ’’تم نے کیا بات کی ؟ ‘ ‘ اس نے اپنی بات دہرائی تو نبی ا کرمﷺ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو ، زکاۃ ادا کرو اورصلہ رحمی کرو ۔ ( اب ) اونٹنی کو چھوڑ دو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:13.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 105
وحدثني محمد بن حاتم، وعبد الرحمن بن بشر، قالا حدثنا بهز، حدثنا شعبة، حدثنا محمد بن عثمان بن عبد الله بن موهب، وأبوه، عثمان أنهما سمعا موسى بن طلحة، يحدث عن أبي أيوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل هذا الحديث ‏.‏
محمد بن عثمان بن عبد اللہ بن موہب اور ان کے والد عثمان دونوں موسیٰ بن طلحہ سے سنا وہ حضرت ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے سابقہ حدیث کی مانند بیان کرتے تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:13.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 106
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، أخبرنا أبو الأحوص، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن موسى بن طلحة، عن أبي أيوب، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال دلني على عمل أعمله يدنيني من الجنة ويباعدني من النار ‏.‏ قال ‏"‏ تعبد الله لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصل ذا رحمك ‏"‏ فلما أدبر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن تمسك بما أمر به دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية ابن أبي شيبة ‏"‏ إن تمسك به ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی او رابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں ابو احوص نے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے او رانہوں حضرت ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی نبی ﷺ کےپاس آیا اور پوچھا : مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جس پر میں عمل کروں تو وہ مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کر دے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ تو اللہ کی بندگی کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، نماز کی پابندی کرے ، زکاۃ ادا کرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے ۔ ‘ ‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر اس نے ان چیزوں کی پابندی کی جن کا اسے حکم دیا گیا ہے تو جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، ’’اگر اس نے اس کی پابندی کی ( تو جنت میں داخل ہو گا ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:14.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 107
وحدثني أبو بكر بن إسحاق، حدثنا عفان، حدثنا وهيب، حدثنا يحيى بن سعيد، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، أن أعرابيا، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله دلني على عمل إذا عملته دخلت الجنة ‏.‏ قال ‏"‏ تعبد الله لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان ‏"‏ ‏.‏ قال والذي نفسي بيده لا أزيد على هذا شيئا أبدا ولا أنقص منه ‏.‏ فلما ولى قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے ، فرض زکاۃ ادا کرو او ررمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ وہ کہنے لکا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس میں گمی کروں گا ۔ جب وہ واپس جانے لگا تو نبی اکریم ﷺ نے فرمایا : ’’جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:14.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 108
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر، قال أتى النبي صلى الله عليه وسلم النعمان بن قوقل فقال يا رسول الله أرأيت إذا صليت المكتوبة وحرمت الحرام وأحللت الحلال أأدخل الجنة فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ نعم ‏"‏ ‏.‏
ابومعاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو سفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس نعمان بن قوقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ جب میں فرض نماز ادا کروں ، حرام کو حرام اور حلال کو حلال سمجھوں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں! ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:15.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 109
وحدثني حجاج بن الشاعر، والقاسم بن زكرياء، قالا حدثنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن الأعمش، عن أبي صالح، وأبي، سفيان عن جابر، قال قال النعمان بن قوقل يا رسول الله ‏.‏ بمثله ‏.‏ وزاد فيه ولم أزد على ذلك شيئا ‏.‏
شیبان نے اعمش سے ، انہوں نے ابو صالح اور ابو سفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نعمان بن قوقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے عرض کی : اے اللہ کےرسول !..... پھر اس سابقہ روایت کی طرح ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا : اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کروں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:15.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 110
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا معقل، - وهو ابن عبيد الله - عن أبي الزبير، عن جابر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أرأيت إذا صليت الصلوات المكتوبات وصمت رمضان وأحللت الحلال وحرمت الحرام ولم أزد على ذلك شيئا أأدخل الجنة قال ‏ "‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال والله لا أزيد على ذلك شيئا ‏.‏
سلمہ بن شبیب ‘ حسن بن اعین ‘ معقل یعنی عبد اللہ ‘ ابوالزبیر ‘ جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور ‌رمضان ‌كے ‌روزے ‌ركھوں ‌اور حلال کو حلال سمجھوں ‌اور ‌حرام ‌كو ‌حرام ‌، ‌اس ‌سے ‌زیادہ ‌كچھ ‌نہ ‌كروں تو آپﷺ کی کیا رائے ہے کہ کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤ نگا؟تو آپﷺ نے فرمایا ہاں!اس شخص نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرونگا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:15.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 111
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني، حدثنا أبو خالد، - يعني سليمان بن حيان الأحمر - عن أبي مالك الأشجعي، عن سعد بن عبيدة، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ بني الإسلام على خمسة على أن يوحد الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان والحج ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل الحج وصيام رمضان قال لا ‏.‏ صيام رمضان والحج ‏.‏ هكذا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابو خالد سلیمان بن حیان احمر نے ابومالک اشجعی سے ، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : اللہ کو یکتا قرار دینے ، نمازقائم کرنے ، زکاۃ ادا کرنے ، رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر ۔ ‘ ‘ ایک شخص نے کہ : حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر ؟ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : نہیں ! رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات اسی طرح ( اسی ترتیب سے ) سنی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:16.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 112
وحدثنا سهل بن عثمان العسكري، حدثنا يحيى بن زكرياء، حدثنا سعد بن طارق، قال حدثني سعد بن عبيدة السلمي، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ بني الإسلام على خمس على أن يعبد الله ويكفر بما دونه وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن زکریا نے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : مجھے سعد بن طارق ( ابو مالک اشجعی ) نے حدیث بیان کی ۔ وہ حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس پر کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا ہر کسی کی عبادت سے انکار کیا جائے ، نماز قائم کرنے ، زکاۃ دینے ، بیت اللہ کاحج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر

صحيح مسلم حدیث نمبر:16.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 113
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا عاصم، - وهو ابن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر - عن أبيه، قال قال عبد الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان ‏"‏ ‏.‏
عاصم بن محمد بن زید عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، کہا : حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام کی بنیاد پانچ ( رکنوں ) پر رکھی گئی ہے : اس حقیقت کی ( دل ، زبان اور بعد میں ذکر کیے گئے بنیادی اعمال کے ذریعے سے ) گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا ، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:16.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 114
وحدثني ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا حنظلة، قال سمعت عكرمة بن خالد، يحدث طاوسا أن رجلا، قال لعبد الله بن عمر ألا تغزو فقال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن الإسلام بني على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وحج البيت ‏"‏ ‏.‏
عکرمہ بن خالد ، طاؤس کو حدیث سنا رہے تھے کہ ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا : کیا آپ جہاد میں حصہ نہیں لیتے ؟ انہوں نےجواب دیا : بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے ، ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ( اس حقیقت کی ) گواہی دینے پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، نماز قائم کرنے ، زکاۃ ادا کرنے ، رمضان کے روزے رکھنے اور بیت اللہ کاحج کرنے پر ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:16.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 115
حدثنا خلف بن هشام، حدثنا حماد بن زيد، عن أبي جمرة، قال سمعت ابن عباس، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - أخبرنا عباد بن عباد، عن أبي جمرة، عن ابن عباس، قال قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله إنا هذا الحى من ربيعة وقد حالت بيننا وبينك كفار مضر فلا نخلص إليك إلا في شهر الحرام فمرنا بأمر نعمل به وندعو إليه من وراءنا ‏.‏ قال ‏"‏ آمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله - ثم فسرها لهم فقال - شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وأن تؤدوا خمس ما غنمتم وأنهاكم عن الدباء والحنتم والنقير والمقير ‏"‏ ‏.‏ زاد خلف في روايته ‏"‏ شهادة أن لا إله إلا الله ‏"‏ ‏.‏ وعقد واحدة ‏.‏
خلف بن ہشام نے بیان کیا ( کہا ) ہمیں حماد بن زید نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، نیز یحییٰ بن یحییٰ نے کہا : ( الفاظ انہی کے ہیں ) ہمیں عباد بن عباد نے ابو جمرہ سے خبر دی کہ حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہﷺ کی خدمت میں عبدالقیس کا وفد آیا ۔ وہ ( لوگ ) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! ہم لوگ ( یعنی ) بنو ربیعہ کا یہ قبیلہ ہے ۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ( قبیلہ ) مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا بحفاظت آپ تک نہیں پہنچ سکتے ، لہٰذا آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جس پر خود بھی عمل کریں اور جو پیچھے ہیں ان کو بھی اس کی دعوت دیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں : ( جن کا حکم دیتا ہوں وہ ہیں : ) ’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ‘ ‘ پھر آپ نے ان کے سامنے ایمان باللہ کی وضاحت کی ، فرمایا : ’’ اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ بالیقین اللہ کے رسول ہیں ۔ نماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا اور جومال غنیمت تمہیں حاصل ہو ، اس میں سے خمس ( پانچواں حصہ ) ادا کرنا ۔ اور میں تمہیں روکتا ہوں کدو کے برتن ، سبز گھڑے ، لکڑی کے اندر سے کھود کر ( بنائے ہوئے ) برتن اور ا یسے برتنوں کے استعمال سے جن پر تارکول ملا گیا ہو ۔ ‘ ‘ خلف نےاپنی روایت میں یہ اضافہ کیا : ’’ اس ( سچائی ) کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ ‘ ‘ اسے انہوں نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:17.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 116
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، وألفاظهم، متقاربة - قال أبو بكر حدثنا غندر، عن شعبة، وقال الآخران، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، - عن أبي جمرة، قال كنت أترجم بين يدى ابن عباس وبين الناس فأتته امرأة تسأله عن نبيذ الجر، فقال إن وفد عبد القيس أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من الوفد أو من القوم ‏"‏ ‏.‏ قالوا ربيعة ‏.‏ قال ‏"‏ مرحبا بالقوم أو بالوفد غير خزايا ولا الندامى ‏"‏ ‏.‏ قال فقالوا يا رسول الله إنا نأتيك من شقة بعيدة وإن بيننا وبينك هذا الحى من كفار مضر وإنا لا نستطيع أن نأتيك إلا في شهر الحرام فمرنا بأمر فصل نخبر به من وراءنا ندخل به الجنة ‏.‏ قال فأمرهم بأربع ونهاهم عن أربع ‏.‏ قال أمرهم بالإيمان بالله وحده ‏.‏ وقال ‏"‏ هل تدرون ما الإيمان بالله ‏"‏ ‏.‏ قالوا الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وأن تؤدوا خمسا من المغنم ‏"‏ ‏.‏ ونهاهم عن الدباء والحنتم والمزفت ‏.‏ قال شعبة وربما قال النقير ‏.‏ قال شعبة وربما قال المقير ‏.‏ وقال ‏"‏ احفظوه وأخبروا به من ورائكم ‏"‏ ‏.‏ وقال أبو بكر في روايته ‏"‏ من وراءكم ‏"‏ وليس في روايته المقير ‏.‏
شعبہ نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں حضرت عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اور ( دوسرے ) لوگوں کے درمیان ترجمان تھا ، ان کے پاس ایک عورت آئی ، وہ ان سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں سوال کر رہی تھی توحضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ’’یہ کون سا وفد ہے ؟ ( یا فرمایا : یہ کو ن لوگ ہیں ؟ ) ‘ ‘ انہوں نے کہا : ربیعہ ( قبیلہ سے ہیں ۔ ) فرمایا : ’’ اس قوم ( یا وفد ) کو خوش آمدید جو رسوا ہوئے نہ نادم ۔ ‘ ‘ ( ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا ، ان لوگوں نے عرض کی : اے اللہ کےرسول ! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آتے ہیں ، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا یہ قبیلہ ( حائل ) ہے ، ہم ( کسی ) حرمت والے مہینے کے سوا آپ کے پاس نہیں آ سکتے ، آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتائیے جو ہم اپنے ( گھروں میں ) پیچھے لوگوں کو ( بھی ) بتائیں اور اس کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں ۔ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے بتایا : آپ نے ان چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزیں سے روکا ۔ آپ نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کا حکم دیا اور پوچھا : ’’جانتے ہو ، صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے اس کا پانچواں حصہ ادا کرو ۔ ‘ ‘ اور انہیں خشک کدو سے بنائے ہوئے برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن ( استعمال کرنے ) سے منع کیا ( شعبہ نے کہا : ) ابو جمرہ نے شاید نقیر ( لکڑی میں کھدائی کر کے بنایا ہوا برتن کہا یا شاید مقیر ( تارکول ملا ہوا برتن ) کہا ۔ اور آپ نے فرمایا : ’’ان کو خوب یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( والوں کو ) بتا دو ۔ ‘ ‘ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں ( من ورائکم کے بجائے ) من وراءکم ( ان کو ( بتاؤ ) جو تمہارے پیچھے ہیں ) کے الفاظ ہیں اور ان کی روایت میں مقیر کا ذکر نہیں ( بلکہ نقیر کا ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:17.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 117
وحدثني عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي ح، وحدثنا نصر بن علي الجهضمي، قال أخبرني أبي قالا، جميعا حدثنا قرة بن خالد، عن أبي جمرة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث نحو حديث شعبة ‏.‏ وقال ‏"‏ أنهاكم عما ينبذ في الدباء والنقير والحنتم والمزفت ‏"‏ ‏.‏ وزاد ابن معاذ في حديثه عن أبيه قال وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأشج أشج عبد القيس ‏"‏ إن فيك خصلتين يحبهما الله الحلم والأناة ‏"‏ ‏.‏
قرہ بن خالد نے ابوجمرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے شعبہ کی ( سابقہ روایت کی ) طرح حدیث بیان کی ( اس کے الفاظ ہیں : ) رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں تمہیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو خشک کدو کے برتن ، لکڑی سے تراشیدہ برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے برتن میں تیار کی جائے ( اس میں زیادہ خمیر اٹھنے کا خدشہ ہے جس سے نبیذ شراب میں بدل جاتی ہے ۔ ) ‘ ‘ ابن معاذ نے اپنے والد کی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد القیس کے پیشانی پر زخم والے شخص ( اشج ) سے کہا : ’’تم میں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے : عقل اور تحمل ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:17.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 118
حدثنا يحيى بن أيوب، حدثنا ابن علية، حدثنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، قال حدثنا من، لقي الوفد الذين قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من عبد القيس ‏.‏ قال سعيد وذكر قتادة أبا نضرة عن أبي سعيد الخدري في حديثه هذا ‏.‏ أن أناسا من عبد القيس قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا نبي الله إنا حى من ربيعة وبيننا وبينك كفار مضر ولا نقدر عليك إلا في أشهر الحرم فمرنا بأمر نأمر به من وراءنا وندخل به الجنة إذا نحن أخذنا به ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ آمركم بأربع وأنهاكم عن أربع اعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة وصوموا رمضان وأعطوا الخمس من الغنائم وأنهاكم عن أربع عن الدباء والحنتم والمزفت والنقير ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا نبي الله ما علمك بالنقير قال ‏"‏ بلى جذع تنقرونه فتقذفون فيه من القطيعاء - قال سعيد أو قال من التمر - ثم تصبون فيه من الماء حتى إذا سكن غليانه شربتموه حتى إن أحدكم - أو إن أحدهم - ليضرب ابن عمه بالسيف ‏"‏ ‏.‏ قال وفي القوم رجل أصابته جراحة كذلك ‏.‏ قال وكنت أخبأها حياء من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت ففيم نشرب يا رسول الله قال ‏"‏ في أسقية الأدم التي يلاث على أفواهها ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا رسول الله إن أرضنا كثيرة الجرذان ولا تبقى بها أسقية الأدم ‏.‏ فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وإن أكلتها الجرذان وإن أكلتها الجرذان وإن أكلتها الجرذان ‏"‏ ‏.‏ قال وقال نبي الله صلى الله عليه وسلم لأشج عبد القيس ‏"‏ إن فيك لخصلتين يحبهما الله الحلم والأناة ‏"‏ ‏.‏
(اسماعیل ) ابن علیہ نے کہا : ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نےکہا : مجھے اس شخص نے بتایا جو رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والے عبد القیس کے وفد سے ملے تھا ( سعید نےکہا : قتادہ نے ابو نضرہ کا نام لیا تھا یہ وفد سے ملے تھے ، اور تفصیل حضرت ابو سعید سے سن کر بیان کی ) انہوں نےحضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت کی کہ عبد القیس کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! ہم ربیعہ کے لوگ ہیں ، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتے ، اس لیے آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جو ہم اپنے پچھلوں کو بتائیں اور اگر اس پر عمل کر لیں تو ہم ( سب ) جنت میں داخل ہو جائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہ و : ( حکم دیتا ہوں کہ ) اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز کی پابندی کرو ، زکاۃ دیتے رہو ، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرو ۔ اور چار چیزیں سے میں تمہیں روکتا ہوں : خشک کدو کے برتن سے ، سبز مٹکے سے ، ایسے برتن سے جس کو روغن زفت ( تارکول ) لگایا گیا ہو اور نقیر ( لکڑی کے تراشے ہوئے برتن ) سے ۔ ‘ ‘ ان لوگوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! آپ کو نقیر کے بارے میں کیا علم ہے ؟ فرمایا : ’’کیوں نہیں ! ( یہ ) تنا ہے ، تم اسے اندر سے کھوکھلا کرتے ہو ، اس میں ملی جلی چھوٹی کھجوریں ڈالتے ہو ) پھر اس میں پانی ڈالتے ہو ، پھر جب اس کا جوش ( خمیر اٹھنے کے بعد کا جھاگ ) ختم ہو جاتا ہے تواسے پی لیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک ( یا ان میں ایک ) اپنے چچازاد کو تلوار کا نشانہ بناتا ہے ۔ ‘ ‘ ابو سعید نے کہا : لوگوں میں ایک آدمی تھا جس کو اسی طرح ایک زخم لگا تھا ۔ اس نے کہا : میں شرم و حیا کی بنا پر اسے رسول اللہ ﷺ سے چھپا رہا تھا ، پھر میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! تو ہم کس پیا کریں ؟ آپ نے فرمایا : ’’چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منہ ( دھاگے وغیرہ سے ) باندھ دیے جاتے ہیں ۔ ‘ ‘ اہل وفد بولے : اے اللہ کے رسول ! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں ، وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ پاتے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’چاہے انہیں چوہے کھا جائیں ، چاہے انہیں چوہے کھا جائیں ، چاہے انہیں کھا جائیں ۔ ‘ ‘ کہا : ( پھر ) رسول اللہ ﷺ نے عبد القیس کے اس شخص سے جس کے چہرے پر زخم تھا ، فرمایا : ’’تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے : عقل اور تحمل ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:18.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 119
حدثني محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، قال حدثني غير، واحد، لقي ذاك الوفد ‏.‏ وذكر أبا نضرة عن أبي سعيد الخدري، أن وفد عبد القيس، لما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث ابن علية غير أن فيه ‏ "‏ وتذيفون فيه من القطيعاء أو التمر والماء ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل قال سعيد أو قال من التمر ‏.‏
ابن ابی عدی نے سعید کےحوالے سے قتادہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد القیس کے وفد سے ملاقات کرنےوالے ایک سے زائد افراد نے بتایا اور ان میں سے ابو نضرہ کانام لیا ( ابو نضرہ نے ) حضرت ابو سعیدخدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب عبدالقیس کا وفد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا .... ، پھر ابن علیہ کی حدیث کے مانند روایت بیان کی ، البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں : ’’تم اس میں ملی جلی کھجوریں ، ( عام ) کھجوریں اور پانی ڈالتے ہو ۔ ‘ ‘ ( اور ابن ابی عدی نے اپنی روایت میں ) یہ الفاظ ذکر نہیں کیے کہ سعید نے کہا ، یا آپﷺ نے فرمایا : ’’کچھ کھجوریں ڈالتے ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:18.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 120
حدثني محمد بن بكار البصري، حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، ح وحدثني محمد بن رافع، - واللفظ له - حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني أبو قزعة، أن أبا نضرة، أخبره وحسنا، أخبرهما أن أبا سعيد الخدري أخبره أن وفد عبد القيس لما أتوا نبي الله صلى الله عليه وسلم قالوا يا نبي الله جعلنا الله فداءك ماذا يصلح لنا من الأشربة فقال ‏"‏ لا تشربوا في النقير ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا نبي الله جعلنا الله فداءك أوتدري ما النقير قال ‏"‏ نعم الجذع ينقر وسطه ولا في الدباء ولا في الحنتمة وعليكم بالموكى ‏"‏ ‏.‏
محمد بن بکار بصری ‘ عاصم بن جریج ‘ محمد بن رافع ‘ عبد الرزاق ‘ ابن جریج ‘ ابو قرعہ ‘ ابو نضرہ ‘ ابو سعید حدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبد قیس کا وفدرسول اللہﷺ کی خمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے بنیﷺہم آپﷺپر قربان کون سے برتن میں پینا حلال ہے؟آپﷺنے فرمایا لکڑی کے برتن میں نہ پیا کرولوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺلکڑی کا کھٹلا کیا ہوتا ہے؟آپﷺ نے فر مایا لکڑی کو اندر سے کھود کر برتن بنانے کو کھٹلا کہتے ہیں اور لکڑی کے تونبے میں بھی نہ پیا کرواور سبز کھڑی میں بھی نہ پیا کرومگر چمڑے کے برتن میں پی لیا کرو جس کا منہ ڈوری سے باندھ دیا ۃ جاتا ہو

صحيح مسلم حدیث نمبر:18.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 121
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب وإسحاق بن إبراهيم جميعا عن وكيع، - قال أبو بكر حدثنا وكيع، - عن زكرياء بن إسحاق، قال حدثني يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، عن ابن عباس، عن معاذ بن جبل، - قال أبو بكر ربما قال وكيع عن ابن عباس، أن معاذا، - قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إنك تأتي قوما من أهل الكتاب ‏.‏ فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد في فقرائهم فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب ‏"‏ ‏.‏
بن ابی شیبہ ، ابو کریب اور اسحاق بن ابراہیم سب نے وکیع سے حدیث سنائی ۔ ابو بکر نے کہا : وکیع نے ہمیں زکریا بن اسحاق حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ابو معبد سے حدیث سنائی ، انہوں نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ابو بکر اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( ابوبکرنے کہا : بعض اوقات وکیع کہا ) ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے مروی ہے کہ حضرت معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا اور فرمایا : ’’تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو ، انہیں اس کی گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ اس میں ( تمہاری ) اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ ( زکاۃ ) فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان کے مجتاجوں کوواپس کیا جائے گا ، پھر اگر وہ اس بات کو قبول کر لیں تو ان کے بہترین مالوں سے احتراز کرنا ( زکاۃ میں سب سے اچھا مال وصول نہ کرنا ۔ ) اور مظلوم کی بددعا س ےبچنا کیونکہ اس ( بددعا ) کے اور اللہ کے درمیان کو ئی حجاب نہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:19.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 122
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا بشر بن السري، حدثنا زكرياء بن إسحاق، ح وحدثنا عبد بن حميد، حدثنا أبو عاصم، عن زكرياء بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن فقال ‏ "‏ إنك ستأتي قوما ‏"‏ بمثل حديث وكيع ‏.‏
بشر بن سری اور ابو عاصم نے زکریا بن اسحاق سے خبر دی کہ یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ابو معبد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے جنا ب معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا : ’’تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو گے ..... ‘ ‘ آگے وکیع کی حدیث کی طرح ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:19.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 123
حدثنا أمية بن بسطام العيشي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا روح، - وهو ابن القاسم - عن إسماعيل بن أمية، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذا إلى اليمن قال ‏ "‏ إنك تقدم على قوم أهل كتاب فليكن أول ما تدعوهم إليه عبادة الله عز وجل فإذا عرفوا الله فأخبرهم أن الله فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم فإذا فعلوا فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم زكاة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم فإذا أطاعوا بها فخذ منهم وتوق كرائم أموالهم ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن امیہ نے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی سے ، انہوں نے ابو معبد سے ا ور انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب رسول اللہ ﷺ نے معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یمن بھیجا تو فرمایا : ’’تم ایک قوم کے پاس جاؤ گے ( جو ) اہل کتاب ہیں ۔ تو سب سے پہلی بات جس کی طرف تمہیں ان کو دعوت دینی ہے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے ۔ جب وہ وہ اللہ کو پہچان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ جب وہ اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے ( مالداروں کے ) اموال سے لے کر ان کے فقراء کودی جائے گی ۔ جب وہ اس کو مان لیں تو ان سے ( زکاۃ ) لینا اور ان کے زیادہ قیمتی اموال سے احتراز کرنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:19.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 124
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث بن سعد، عن عقيل، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن أبي هريرة، قال لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر بعده وكفر من كفر من العرب قال عمر بن الخطاب لأبي بكر كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو بكر والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة فإن الزكاة حق المال والله لو منعوني عقالا كانوا يؤدونه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعه ‏.‏ فقال عمر بن الخطاب فوالله ما هو إلا أن رأيت الله عز وجل قد شرح صدر أبي بكر للقتال فعرفت أنه الحق ‏.‏
جناب عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب رسول ا للہﷺ نے وفات پائی اور آپ کے بعد حضرت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ خلیفہ بنائے گئے تو عربوں میں سے کافر ہونے والے کافر ہو گئے ( اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےمانعین زکاۃ سے جنگ کا ارادہ کیا ) تو حضرت عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حضرت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جبکہ رسول ا للہ ﷺ فرما چکے ہیں : ’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ لا اله الاالله کا اقرار کر لیں ، پس جو کوئی لا اله الا الله کا قائل ہو گیا ، اس نے میری طرف سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیا ، الا یہ کہ اس ( لا اله الا الله ) کا حق ہو ، اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ؟ ‘ ‘ اس پر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےجواب دیا : اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے جنگ کروں گا جو نماز او رزکاۃ میں فرق کریں گے ، کیونکہ زکاۃ مال ( میں اللہ ) کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ ( اونٹ کا ) پاؤں باندھنے کی ایک رسی بھی روکیں گے ، جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے جنگ کروں گا ۔ اس پر حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا تھا : اللہ کی قسم ! اصل بات اس کےسوا اور کچھ نہیں کہ میں نے دیکھا اللہ تعالیٰ نےحضرت ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ، تو میں جان گیا کہ حق یہی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:20

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 125
وحدثنا أبو الطاهر، وحرملة بن يحيى، وأحمد بن عيسى، قال أحمد حدثنا وقال الآخران، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے انہیں خبر کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لااله الااللهکے قائل ہو جائیں ، چنانچہ جو لااله الا اللهکا قائل ہو گیا ، اس نے میری طرف سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کر لی ، الا یہ کہ اس ( اقرار ) کا حق ہو ، اور اس شخص کا حساب اللہ کے سپرد ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:21.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 126
حدثنا أحمد بن عبدة الضبي، أخبرنا عبد العزيز، - يعني الدراوردي - عن العلاء، ح وحدثنا أمية بن بسطام، - واللفظ له - حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا روح، عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ويؤمنوا بي وبما جئت به فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ‏"‏ ‏.‏
عبدالرحمٰن بن یعقوب نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا اله الا الله کی شہادت دیں اور مجھ پر اور جو ( دین ) میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لے آئیں ، چنانچہ جب وہ ایسا کر لیں تو انہوں نےمیری طرف سے اپنی جان و مال کو محفوظ کر لیا ، الا یہ کہ اس ( شہادت ) کاحق ہو اور ان کاحساب اللہ کے سپرد ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:21.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 127
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر، وعن أبي صالح، عن أبي هريرة، قالا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أمرت أن أقاتل الناس ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث ابن المسيب عن أبي هريرة ح وحدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثني محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن، - يعني ابن مهدي - قالا جميعا حدثنا سفيان، عن أبي الزبير، عن جابر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ‏"‏ ‏.‏ ثم قرأ ‏{‏ إنما أنت مذكر * لست عليهم بمسيطر‏}‏
اعمش نے ابو سفیان سے ، انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، نیز اعمش ہی نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، ( جابر اور ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) دونوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم ملا ہے ..... ‘ ‘ سعید بن مسیب کی حدیث کی طرح جو انہوں نےحضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:21.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 128
ابو زبیر نے حضر ت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لااله الا الله کے قائل ہو جائیں ، جب وہ لا اله الا الله کےقائل ہو جائیں گے تو انہوں نے میری طرف سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لیے ، الا یہ کہ اس ( کلمے کے ) حق کا ( تقاضا ) ہو ، اور ان کاحساب اللہ کے سپرد ہے ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے ( یہ آیت ) تلاوت فرمائی : ’’ آپ تو بس نصیحت کرنے والے ہیں ، آپ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر: 129
حدثنا أبو غسان المسمعي، مالك بن عبد الواحد حدثنا عبد الملك بن الصباح، عن شعبة، عن واقد بن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، عن عبد الله بن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ‏"‏ ‏.‏
ابو غسان مسمعی ‘ مالک بن عبد الواحد ‘ عبد الملک بن الصباح ‘ شعبہ ‘ واقد بن محمدزید بن عبد اللہ ‘ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ ( ﷺ ) کی گواہی نہ دینے لگ جائیں اور نماز قائم نہ کر لیں اور زکوٰۃ ادر نہ کرنے شروع کر لیں اگر وہ ایسا کر یں گے تو انہوں نے مجھ سےاپنا جان وما ل بچا لیا مگر حق پر ان کا جان اور مال تعرض نہیں کیا جائے گا ان کے دل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:22

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 130
وحدثنا سويد بن سعيد، وابن أبي عمر، قالا حدثنا مروان، - يعنيان الفزاري - عن أبي مالك، عن أبيه، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من قال لا إله إلا الله وكفر بما يعبد من دون الله حرم ماله ودمه وحسابه على الله ‏"‏ ‏.‏
مروان فزاری نے ابو مالک ( سعد بن طارق اشجعی ) سے حدیث سنائی ، انہوں نے اپنے والد ( طارق بن اشیم ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ جس نے لا اله الا الله کہا اور اللہ کے سوا جن کی بندگی کی جاتی ہے ، ان ( سب ) کا انکار کیا تو اس کا مال و جان محفوظ ہو گیا اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:23.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 131
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو خالد الأحمر، ح وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا يزيد بن هارون، كلاهما عن أبي مالك، عن أبيه، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من وحد الله ‏"‏ ثم ذكر بمثله ‏.‏
ابو خالد احمر اور یزید بن ہارون نے ابومالک سے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس نےاللہ کویکتا قرار دیا ...... ‘ ‘ پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:23.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 132
وحدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني سعيد بن المسيب، عن أبيه، قال لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده أبا جهل وعبد الله بن أبي أمية بن المغيرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا عم قل لا إله إلا الله ‏.‏ كلمة أشهد لك بها عند الله ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو جهل وعبد الله بن أبي أمية يا أبا طالب أترغب عن ملة عبد المطلب ‏.‏ فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه ويعيد له تلك المقالة حتى قال أبو طالب آخر ما كلمهم هو على ملة عبد المطلب ‏.‏ وأبى أن يقول لا إله إلا الله ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما والله لأستغفرن لك ما لم أنه عنك ‏"‏ ‏.‏ فأنزل الله عز وجل ‏{‏ ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏}‏ ‏.‏ وأنزل الله تعالى في أبي طالب فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ‏{‏ إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو أعلم بالمهتدين‏}‏‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے ، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے والد سے ورایت کی کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لا ئے ۔ آپ نے ان کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو موجود پایا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ چچا ! ایک کلمہ لا اله ا لله الله کہہ دیں ، میں اللہ کے ہاں آب کے حق میں اس کا گواہ بن جاؤں گا ۔ ‘ ‘ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا : ابو طالب! آپ عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ مسلسل ان کویہی پیش کش کرتے رہے اور یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے ان لوگوں سے آخری بات کرتے ہوئے کہا : ’’وہ عبدالمطلب کی ملت پر ( قائم ) ہیں ‘ ‘ اور لا ا له الا الله کہنے سے انکار کر دیا ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے آپ ( کے حوالے ) سے روک نہ دیا جائے ۔ ‘ ‘ اس پر ا للہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’نبی اور ایمان لانے والوں کے لیے جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کے سامنے واضح ہو چکا کہ وہ ( مشرکین ) جہنمی ہیں ۔ ‘ ‘ اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’ ( اے نبی ! ) بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جس کو چاہے ہدایت دے دیتا ہے او روہ سیدھی راہ پانے والوں کے بارے میں زیادہ آگاہ ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:24.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 133
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد، قالا أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، ح وحدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - قال حدثني أبي، عن صالح، كلاهما عن الزهري، بهذا الإسناد مثله غير أن حديث صالح انتهى عند قوله فأنزل الله عز وجل فيه ‏.‏ ولم يذكر الآيتين ‏.‏ وقال في حديثه ويعودان في تلك المقالة ‏.‏ وفي حديث معمر مكان هذه الكلمة فلم يزالا به ‏.‏
معمر اور صالح ، دونوں نے زہری سے ان کی سابقہ سند کےساتھ یہی روایت بیان کی ، فرق یہ ہے کہ صالح کی روایت : فأنزل الله فيه ’’اس کےبارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری ‘ ‘ پر ختم ہو گئی ، انہوں نے دو آیتیں بیان نہیں کیں ۔ انہوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا کہ وہ دونوں ( ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ ) یہی بات دہراتے رہے ۔ معمر کی روایت میں المقالة ( بات ) کے بجائے الكلمة ( کلمہ ) ہے ، وہ دونوں ان کے ساتھ لگے رہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:24.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 134
حدثنا محمد بن عباد، وابن أبي عمر، قالا حدثنا مروان، عن يزيد، - وهو ابن كيسان - عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه عند الموت ‏"‏ قل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فأبى فأنزل الله ‏{‏ إنك لا تهدي من أحببت‏}‏ الآية ‏.‏
مروان بن یزید سے ، جو کیسان کے بیٹے ہیں ، حدیث سنائی ، انہوں نے ابو حازم سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنےچچا کی موت کے وقت ان سے کہا : ’’لا اله الا الله کہہ دیں ، میں قیامت کے دن آپ کے لیے اس کے بارے میں گواہی دوں گا ۔ ‘ ‘ لیکن انہوں نے ا نکار کر دیا ۔ کہا : اس پر ا للہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ، ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ ’’بے شک آپ جسے چاہیں راہ راست پر نہیں لا سکتے ... ‘ ‘ آیت کے آخر تک ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:25.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 135
حدثنا محمد بن حاتم بن ميمون، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا يزيد بن كيسان، عن أبي حازم الأشجعي، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه ‏"‏ قل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ قال لولا أن تعيرني قريش يقولون إنما حمله على ذلك الجزع لأقررت بها عينك فأنزل الله ‏{‏ إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء‏}‏
یحییٰ بن سعید نے کہا : ہمیں یزید بن کیسان نے حدیث سنائی.... ( اس کے بعد مذکورہ سند کے ساتھ ) حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا سے فرمایا : ’’لا اله الا الله کہہ دیجیے ، میں قیامت کے دن آپ کے لیے اس کےبارے میں گواہ بن جاؤں گا ۔ ‘ ‘ انہوں نے ( جواب میں ) کہا : اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے ( کہیں گے کہ اسے ( موت کی ) گھبراہٹ نےاس بات پر آمادہ کیا ہے ) تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’آپ جسے چاہتے ہوں اسے براہ راست پر نہیں لاسکتے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ راست پر لے آتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:25.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 136
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، كلاهما عن إسماعيل بن إبراهيم، - قال أبو بكر حدثنا ابن علية، - عن خالد، قال حدثني الوليد بن مسلم، عن حمران، عن عثمان، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من مات وهو يعلم أنه لا إله إلا الله دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن ابراہیم ( ابن علیہ ) نے خالد ( حذاء ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھے ولید بن مسلم نے حمران سے ، انہوں نے حضرت عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص مر گیا اور وہ ( یقین کے ساتھ ) جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:26.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 137
حدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا خالد الحذاء، عن الوليد أبي بشر، قال سمعت حمران، يقول سمعت عثمان، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول مثله سواء ‏.‏
ابن علیہ کے بجائے بشر بن مفضل نے بھی خالد حذاء سے یہی روایت بیان کی ، انہوں نے ولید ابو بشر سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حمران سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےسنا ، وہ کہتے تھے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ..... اس کے بعد بالکل سابقہ روایت کی طرح بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:26.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 138
حدثنا أبو بكر بن النضر بن أبي النضر، قال حدثني أبو النضر، هاشم بن القاسم حدثنا عبيد الله الأشجعي، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير - قال - فنفدت أزواد القوم قال حتى هم بنحر بعض حمائلهم - قال - فقال عمر يا رسول الله لو جمعت ما بقي من أزواد القوم فدعوت الله عليها ‏.‏ قال ففعل - قال - فجاء ذو البر ببره وذو التمر بتمره - قال وقال مجاهد وذو النواة بنواه - قلت وما كانوا يصنعون بالنوى قال كانوا يمصونه ويشربون عليه الماء ‏.‏ قال فدعا عليها - قال - حتى ملأ القوم أزودتهم - قال - فقال عند ذلك ‏ "‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما إلا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏
طلحہ بن مصرف نے ابو صالح سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ورایت کی ، کہا : ہم ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ، لوگوں کے زاد راہ ختم ہو گئے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے لوگوں کی کچھ سواریاں ( اونٹوں ) کو ذبح کرنے کا ارادہ فرما لیا اس پرعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! لوگوں کا جو زاد راہ بچ گیا ہے اگر آپ اسے جمع فرما لیں اور اللہ تعالیٰ سے اس پر برکت کی دعا فرمائیں ( تو بہتر ہو گا ) ، کہا : آپﷺ نے ایسا ہی کیا ۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا اپنی کھجور لایا ۔ طلحہ بن مصرف نے کہا : مجاہد نے کہا : جس کے پاس گٹھلیاں تھیں ، وہ گٹھلیاں ہی لے آیا ۔ میں نے ( مجاہدسے ) پوچھا : گٹھلیاں کا لوگ کیا کرتے تھے؟ کہا : ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے ۔ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس ( تھوڑے سے زاد راہ ) پر آپ ﷺ نے دعا فرمائی تو پھر یہاں تک ہوا کہ لوگوں نے زاد راہ کے اپنے لیے برتن بھر لیے ( ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا ) اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ جو بندہ بھی ان دونوں ( شہادتوں ) کے ساتھ ، ان میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا ، وہ ( ضرور ) جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:27.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 139
حدثنا سهل بن عثمان، وأبو كريب محمد بن العلاء جميعا عن أبي معاوية، - قال أبو كريب حدثنا أبو معاوية، - عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، أو عن أبي سعيد، - شك الأعمش - قال لما كان غزوة تبوك أصاب الناس مجاعة ‏.‏ قالوا يا رسول الله لو أذنت لنا فنحرنا نواضحنا فأكلنا وادهنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ افعلوا ‏"‏ ‏.‏ قال فجاء عمر فقال يا رسول الله إن فعلت قل الظهر ولكن ادعهم بفضل أزوادهم ثم ادع الله لهم عليها بالبركة لعل الله أن يجعل في ذلك ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال فدعا بنطع فبسطه ثم دعا بفضل أزوادهم - قال - فجعل الرجل يجيء بكف ذرة - قال - ويجيء الآخر بكف تمر - قال - ويجيء الآخر بكسرة حتى اجتمع على النطع من ذلك شىء يسير - قال - فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه بالبركة ثم قال ‏"‏ خذوا في أوعيتكم ‏"‏ ‏.‏ قال فأخذوا في أوعيتهم حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا ملأوه - قال - فأكلوا حتى شبعوا وفضلت فضلة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيحجب عن الجنة ‏"‏ ‏.‏
اعمش نےابو صالح سے ، انہوں نے ( اعمش کو شک ہے ) حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ یا حضرت ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ غزوہ تبوک کے دن ( سفرمیں ) لوگ کو ( زاد راہ ختم ہو جانے کی بنا پر ) فاقے لاحق ہو گئے ۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم پانی ڈھونے والے اونٹ ذبح کر لیں ، ( ان کا گوشت ) کھائیں اور ( ان کی چربی ) تیل بنائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایسا کر لو ۔ ‘ ‘ ( کہا : ) اتنےمیں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ آ گئے اور عرض کی : اللہ کے رسول !اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی ، اس کے بجائے آپ سب لوگوں کو ان کے بچے ہوئے زاد راہ سمیت بلوا لیجیے ، پھر اس پر ان کے لیے اللہ سے برکت کی دعا کیجیے ، امید ہے ا للہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ٹھیک ہے ۔ ‘ ‘ ( حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ یا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) آپ نے چمڑے کاایک دسترخوان منگوا کر بچھا دیا ، پھر لوگوں کا بچا ہوا زاد راہ منگوایا ( حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ یا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) کوئی مٹھی بھر مکئی ، کوئی مٹھی بھر کھجور اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لانے لگا یہاں تک کہ ان چیزوں سے دستر خواں پر تھوڑی سی مقدار جمع ہو گئی ( حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ یا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) رسول اللہ ﷺ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی ، پھر لوگوں سے فرمایا : ’’اپنے اپنے برتنوں میں ( ڈال کر ) لے جاؤ ۔ ‘ ‘ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ انہوں نے لشکر کے برتنوں میں کوئی برتن بھرے بغیر نہ چھوڑا ( حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اور ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) اس کے بعد سب نےمل کر ( اس دسترخوان سے ) سیر ہو کر کھایا لیکن کھانا پھر بھی بچا دیا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ( لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا : ’’میں گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ ان دونوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت ( میں داخل ہونے ) سے نہیں روکا جائے گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:27.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 140
حدثنا داود بن رشيد، حدثنا الوليد، - يعني ابن مسلم - عن ابن جابر، قال حدثني عمير بن هانئ، قال حدثني جنادة بن أبي أمية، حدثنا عبادة بن الصامت، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من قال أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله وأن عيسى عبد الله وابن أمته وكلمته ألقاها إلى مريم وروح منه وأن الجنة حق وأن النار حق أدخله الله من أى أبواب الجنة الثمانية شاء ‏"‏ ‏.‏
(عبد الرحمٰن بن یزید ) ابن جابر نے کہا : مجھے عمیر بن ہانی نےحدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے جنادہ بن ابی امیہ نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے ( اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ) اور یقینا ً محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اور عیسیٰ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) اللہ کے بندے ، اس کی بندی کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا ، اور اس کی طرف سے ( عطا کی گئی ) روح ہیں ، اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے ، اس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا ، جنت میں داخل کر دے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:28.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 141
وحدثني أحمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا مبشر بن إسماعيل، عن الأوزاعي، عن عمير بن هانئ، في هذا الإسناد بمثله غير أنه قال ‏"‏ أدخله الله الجنة على ما كان من عمل ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر ‏"‏ من أى أبواب الجنة الثمانية شاء ‏"‏ ‏.‏
عمیر بن ہانی سے ( عبد الرحمٰن بن یزید ) ابن جابر کے بجائے اوزاعی کے واسطے سے یہی حدیث بیان کی گئی ہے ، البتہ انہوں نے اس طرح کہا : ’’ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ، اس کے عمل جیسے بھی ہوں ۔ ‘ ‘ اور ’’ اسے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سےچاہے گا ( داخل کر دے گا ) ‘ ‘ کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:28.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 142
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن عجلان، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن ابن محيريز، عن الصنابحي، عن عبادة بن الصامت، أنه قال دخلت عليه وهو في الموت فبكيت فقال مهلا لم تبكي فوالله لئن استشهدت لأشهدن لك ولئن شفعت لأشفعن لك ولئن استطعت لأنفعنك ثم قال والله ما من حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لكم فيه خير إلا حدثتكموه إلا حديثا واحدا وسوف أحدثكموه اليوم وقد أحيط بنفسي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله حرم الله عليه النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت عباد بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے جنادہ بن ابی امیہ کے بجائے ( ابو عبداللہ عبدالرحمٰن بن عسیلہ ) صنابحی نے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں حضرت عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر ہوا ۔ میں رونے لگا تو انہوں نے فرمایا : ٹھہرو! روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم ! اگر مجھ سے گواہی مانگی گئی تو میں ضرور تمہارے حق میں گواہی دوں گا او راگر مجھے سفارش کا موقع دیا گیا تو میں ضرور تمہاری سفارش کروں گا اوراگر میرے بس میں ہوا تو میں ضرور تمہیں نفع پہنچاؤں گا ، پھر کہا : اللہ کی قسم ! کوئی ایسی حدیث نہیں جو میں نے رسول اکرمﷺ سے سنی ، اور اس میں تمہاری بھلائی کی کوئی بات تھی اور وہ میں نے تمہیں نہ سنا دی ہو ، سوائےایک حدیث کے ۔ آج جب میری جان قبض کی جانے لگی ہے تو وہ حدیث بھی تمہیں سنائے دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’جس شخص نے اس حقیقت کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس پر جہنم کی آگ حرام کر دی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:29

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 143
حدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا أنس بن مالك، عن معاذ بن جبل، قال كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه إلا مؤخرة الرحل فقال ‏"‏ يا معاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ ثم سار ساعة ثم قال ‏"‏ يا معاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ ثم سار ساعة ثم قال ‏"‏ يا معاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ قال ‏"‏ هل تدري ما حق الله على العباد ‏"‏ ‏.‏ قال قلت الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ فإن حق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا ‏"‏ ‏.‏ ثم سار ساعة ثم قال ‏"‏ يا معاذ بن جبل ‏"‏ ‏.‏ قلت لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ قال ‏"‏ هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ أن لا يعذبهم ‏"‏ ‏.‏
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حضرت معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ حدیث روایت کی ، کہا : میں ( سواری کے ایک جانور پر ) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا ، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی ( جتنی جگہ ) کے سوا کچھ نہ تھا ، چنانچہ ( اس موقع پر ) آپﷺ نے فرمایا : ’’اے معاذ بن جبل! ‘ ‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول !ز ہے نصیب ۔ ( اس کے بعد ) آپ پھر گھڑی بھرچلتے رہے ، اس کے بعد فرمایا : ’’ اے معاذ بن جبل ! ‘ ‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں ، اللہ کے رسول ! زہے نصیب ۔ آپ نے فرمایا : ’’ کیاجانتے ہو کہ بندوں پر ا للہ عز وجل کا کیا حق ہے ؟ ‘ ‘ کہا : میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ ارشاد فرمایا : ’’ بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرین ۔ ‘ ‘ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا : ’’ اے معاذ بن جبل ! ‘ ‘ میں عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! ز ہے نصیب ۔ آپ نے فرمایا : ’’کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کاحق ادا کریں تو پھر ا للہ پر ان کا حق کیا ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:30.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 144
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو الأحوص، سلام بن سليم عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن معاذ بن جبل، قال كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار يقال له عفير قال فقال ‏"‏ يا معاذ تدري ما حق الله على العباد وما حق العباد على الله ‏"‏ ‏.‏ قال قلت الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ فإن حق الله على العباد أن يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا وحق العباد على الله عز وجل أن لا يعذب من لا يشرك به شيئا ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله أفلا أبشر الناس قال ‏"‏ لا تبشرهم فيتكلوا ‏"‏ ‏.‏
عمرو بن میمون نے حضرت معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گدھے پر سوار تھا جسے عفیر کہا جاتا تھا ۔ آپ نے فرمایا : ’’اے معاذ ! جانتے ہو ، بندوں پر اللہ کاکیا حق ہے اور اللہ پربندوں کا کیا حق ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں ، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ ( کسی چیزکو ) شریک نہ ٹھہرائے ، اللہ اس کو عذاب نہ دے ۔ ‘ ‘ کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں ؟ آپ نے فرمایا : ’’ ان کو خوش خبری نہ سناؤ وورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:30.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 145
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي حصين، والأشعث بن سليم، أنهما سمعا الأسود بن هلال، يحدث عن معاذ بن جبل، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا معاذ أتدري ما حق الله على العباد ‏"‏ ‏.‏ قال الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ أن يعبد الله ولا يشرك به شىء - قال - أتدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك ‏"‏ ‏.‏ فقال الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ أن لا يعذبهم ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ابوحصین اور اشعث بن سلیم سے حدیث سنائی ، ان دونوں نے اسود بن ہلال سے سنا ، وہ حضرت معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اے معاذ! کیا تم جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیاحق ہے ؟ ‘ ‘ معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے جواب دیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ۔ ‘ ‘ آپ نے پوچھا : ’’ کیا جانتے ہو اگر وہ ( بندے ) ایسا کریں تو اللہ پر ان کیا حق ہے ؟ ‘ ‘ میں نے جواب دیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:30.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 146
حدثنا القاسم بن زكرياء، حدثنا حسين، عن زائدة، عن أبي حصين، عن الأسود بن هلال، قال سمعت معاذا، يقول دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فأجبته فقال ‏ "‏ هل تدري ما حق الله على الناس ‏"‏ ‏.‏ نحو حديثهم ‏.‏
زائدہ ( بن قدامہ ) نے ابو حصین سے ، انہوں نے اسود بن ہلال سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بلایا ، میں نے آپ کو جواب دیا تو آپ نے پوچھا : ’’کیا جانتے ہو لوگوں پر اللہ کا حق کیا ہے ؟ ..... ‘ ‘ پھر ان ( سابقہ راویوں ) کی حدیث کی طرح ( حدیث سنائی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:30.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 147
حدثني زهير بن حرب، حدثنا عمر بن يونس الحنفي، حدثنا عكرمة بن عمار، قال حدثني أبو كثير، قال حدثني أبو هريرة، قال كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم معنا أبو بكر وعمر في نفر فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين أظهرنا فأبطأ علينا وخشينا أن يقتطع دوننا وفزعنا فقمنا فكنت أول من فزع فخرجت أبتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتيت حائطا للأنصار لبني النجار فدرت به هل أجد له بابا فلم أجد فإذا ربيع يدخل في جوف حائط من بئر خارجة - والربيع الجدول - فاحتفزت كما يحتفز الثعلب فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أبو هريرة ‏"‏ ‏.‏ فقلت نعم يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ ما شأنك ‏"‏ ‏.‏ قلت كنت بين أظهرنا فقمت فأبطأت علينا فخشينا أن تقتطع دوننا ففزعنا فكنت أول من فزع فأتيت هذا الحائط فاحتفزت كما يحتفز الثعلب وهؤلاء الناس ورائي فقال ‏"‏ يا أبا هريرة ‏"‏ ‏.‏ وأعطاني نعليه قال ‏"‏ اذهب بنعلى هاتين فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه فبشره بالجنة ‏"‏ فكان أول من لقيت عمر فقال ما هاتان النعلان يا أبا هريرة ‏.‏ فقلت هاتان نعلا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني بهما من لقيت يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه بشرته بالجنة ‏.‏ فضرب عمر بيده بين ثديى فخررت لاستي فقال ارجع يا أبا هريرة فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأجهشت بكاء وركبني عمر فإذا هو على أثري فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما لك يا أبا هريرة ‏"‏ ‏.‏ قلت لقيت عمر فأخبرته بالذي بعثتني به فضرب بين ثديى ضربة خررت لاستي قال ارجع ‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا عمر ما حملك على ما فعلت ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله بأبي أنت وأمي أبعثت أبا هريرة بنعليك من لقي يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه بشره بالجنة ‏.‏ قال ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال فلا تفعل فإني أخشى أن يتكل الناس عليها فخلهم يعملون ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فخلهم ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے چاروں طرف ایک جماعت ( کی صورت ) میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بھی موجود تھے ۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے ( اور کسی طرف چلے گئے ) ، پھر آپ نے ہماری طرف ( واپسی میں ) بہت تاخیر کر دی تو ہم ڈر گئے کہ کہیں ہمارے بغیر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے ۔ اس پر ہم بہت گھبرائے اور ( آپ کی تلاش میں نکل ) کھڑے ہوئے ۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرایا اور رسول اللہ ﷺ کو ڈھونڈ نے نکلا یہاں تک کہ میں انصار کے خاندان بنو نجاز کے چار دیواری ( فصیل ) سے گھرے ہوئے ایک باغ تک پہنچا اور میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا کہ کہیں پر دروازہ مل جائے لیکن مجھے نہ ملا ۔ اچانک پانی کی ایک گزر گاہ دکھائی دی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی ( ربیع آب پاشی کی چھوٹی سی نہر کو کہتے ہیں ) میں لومڑی کی طرح سمٹ کر داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا ۔ آپ نے پوچھا : ’’ ابو ہریرہ ہو ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : آپ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے ، پھر وہاں سے اٹھ گئے ، پھر آپ نے ہماری طرف ( واپس ) آنے میں دیر کر دی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ہم سے کاٹ نہ دیے جائیں ۔ اس پر ہم گھبرا گئے ، سب سے پہلے میں گھبرا کر نکلا تو اس باغ تک پہنچا اور اس طرح سمٹ کر ( اندر گھس ) آیا ہوں جس طرح لومڑی سمٹ کر گھستی ہے اور یہ دوسرے لوگ میرے پیچھے ( آرہے ) ہیں ۔ تب آپﷺ نے فرمایا : ’’اے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ! ‘ ‘ او رمجھے اپنے نعلین ( جوتے ) عطا کیے اور ارشاد فرمایا : ’’میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمہیں جو بھی ایسا آدمی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا اله الاالله کی شہادت دیتا ہو ، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو ۔ ‘ ‘ سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ہوئی ، انہوں نے نے کہا : ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ! ( تمہاری ہاتھ میں ) یہ جوتے کیسے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کے نعلین ( مبارک ) ہیں ۔ آپ نے مجھے یہ نعلین ( جوتے ) دے کر بھیجا ہے کہ جس کسی کو ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ لا اله الاالله کی شہادت دیتا ہو ، اسے جنت کی بشارت دے دوں ۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےمیرے سینے پر اپنے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا اور انہوں نے کہا : اے ابو ہریرہ! پیچھے لوٹو ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اس عالم میں واپس آیا کہ مجھے رونا آرہا تھا اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ میرے پیچھے لگ کر چلتے آئے تو اچانک میرے عقب سے نمودار ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ( مجھ سے ) کہا : ’’ اے ابوہریرہ !تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے عرض کی : میں نے عرض : میں عمر سے ملا اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا ، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب لگائی ہے جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ، اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ عمر! تم نے جو کیا اس کا سبب کیا ہے ؟ ‘ ‘ انہوں نے عرض کی : اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اس لیے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ دل کے یقین کے ساتھ لا اله الااللهکی شہادت دینے والے جس کسی کو ملے ، اسے جنت کی بشارت دے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ہاں ۔ ‘ ‘ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے عرض کی : تو ایسا نہ کیجیے ، مجھے ڈر ہے کہ لوگ بس اسی ( شہادت ) پر بھروسا کر بیٹھیں گے ، انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اچھا تو ان کو چھوڑ دو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:31

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 148
حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، قال حدثنا أنس بن مالك، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم ومعاذ بن جبل رديفه على الرحل قال ‏"‏ يا معاذ ‏"‏ ‏.‏ قال لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ قال ‏"‏ يا معاذ ‏"‏ ‏.‏ قال لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ قال ‏"‏ يا معاذ ‏"‏ ‏.‏ قال لبيك رسول الله وسعديك ‏.‏ قال ‏"‏ ما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله إلا حرمه الله على النار ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله أفلا أخبر بها الناس فيستبشروا قال ‏"‏ إذا يتكلوا ‏"‏ فأخبر بها معاذ عند موته تأثما ‏.‏
قتادہ نے کہا : ہمیں حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، جب وہ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے ، فرمایا : ’’اے معاذ ! ‘ ‘ انہوں نےعرض کی : ’’میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول ! میرے نصیب روشن ہو گئے ۔ ‘ ‘ نبی ﷺپھر فرمایا : ’’اے معاذ! ‘ ‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول ! زہے نصیب ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’ اے معاذ! ‘ ‘ انہوں نے عرض کی ، ’’ میں ہر بار حاضر ہوں اللہ کے رسول ! میری خوش بختی ۔ ‘ ‘ ( اس پر ) آپ نے فرمایا : ’’کوئی بندہ ایسا نہیں جو ( سچے دل سے ) شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں مگر اللہ ایسے شخص کو دوزخ پر حرام کر دیتا ہے ۔ ‘ ‘ حضرت معاذ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے ۔ ‘ ‘ چنانچہ حضرت معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ( کتمان علم کے ) گناہ کے خوف سے اپنی موت کے وقت یہ بات بتائی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:32

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 55

صحيح مسلم حدیث نمبر: 149
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان، - يعني ابن المغيرة - قال حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، قال حدثني محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك، قال قدمت المدينة فلقيت عتبان فقلت حديث بلغني عنك قال أصابني في بصري بعض الشىء فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أحب أن تأتيني فتصلي في منزلي فأتخذه مصلى - قال - فأتى النبي صلى الله عليه وسلم ومن شاء الله من أصحابه فدخل وهو يصلي في منزلي وأصحابه يتحدثون بينهم ثم أسندوا عظم ذلك وكبره إلى مالك بن دخشم قالوا ودوا أنه دعا عليه فهلك وودوا أنه أصابه شر ‏.‏ فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة وقال ‏"‏ أليس يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ‏"‏ ‏.‏ قالوا إنه يقول ذلك وما هو في قلبه ‏.‏ قال ‏"‏ لا يشهد أحد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فيدخل النار أو تطعمه ‏"‏ ‏.‏ قال أنس فأعجبني هذا الحديث فقلت لابني اكتبه فكتبه ‏.‏
سلیمان بن مغیرہ نے کہا : ہمیں ثابت نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے محمود بن ریبع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حضرت عتبان بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ۔ ( محمود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا کہ میں مدینہ آیا تو عتبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو ملا اور میں نےکہا : ایک حدیث مجھے آپ کے حوالے سے پہنچی ہے ۔ حضرت عتبان نے کہا : میری آنکھوں کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ اے اللہ کے رسول ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسی ( جگہ ) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں ۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں میں سے جن کو اللہ نے چاہا ، تشریف لائے ، آپ ﷺ میرے گھر میں داخل ہوئے ، آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ انہوں نے زیادہ اور بڑی بڑی باتیں مالک بن دخشم کے ساتھ جوڑ دیں ، وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے حق میں بد دعا فرمائیں اور وہ ہلاک ہو جائے اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر کوئی آفت آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا : ’’ کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ‘ ‘ صحابہ کرام نے جواب دیا : وہ ( زبان سے ) یہ کہتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی ایسا شخص نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو پھر وہ آگ میں داخل ہو یا آگ اسے اپنی خوراک بنا لے ۔ ‘ ‘ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی ( پسند آئی ) تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا : اسے لکھ لو ، اس نے یہ حدیث لکھ لی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:33.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 56

صحيح مسلم حدیث نمبر: 150
حدثني أبو بكر بن نافع العبدي، حدثنا بهز، حدثنا حماد، حدثنا ثابت، عن أنس، قال حدثني عتبان بن مالك، أنه عمي فأرسل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال تعال فخط لي مسجدا ‏.‏ فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وجاء قومه ونعت رجل منهم يقال له مالك بن الدخشم ‏.‏ ثم ذكر نحو حديث سليمان بن المغيرة ‏.‏
حماد نے کہا : ہمیں ثابت نےحضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے عتبان بن مالک نے بتایا کہ وہ نابینا ہو گئے تھے ، اس وجہ سے انہوں نےرسول اللہ ﷺ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لائیں اور میرے لیے مسجد کی اکی جگہ متعین کر دیں ( تاکہ میں اس میں نماز پڑھ سکوں ) تو رسو ل اللہ ﷺ تشریف لائے اور ان ( عتبان ) کی قوم کےلوگ بھی آگئے ، ان میں سے ایک آدمی ، جسے مالک بن دخیشم کہا جاتا تھا ، غائب رہا.... اس کے بعد حماد نے بھی ( ثابت کے دوسرے شاگرد ) سلیمان بن مغیرہ کی طرح روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:33.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 57

صحيح مسلم حدیث نمبر: 151
حدثنا محمد بن يحيى بن أبي عمر المكي، وبشر بن الحكم، قالا حدثنا عبد العزيز، - وهو ابن محمد - الدراوردي عن يزيد بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن عامر بن سعد، عن العباس بن عبد المطلب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا ‏"‏ ‏‏
حضرت عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ، اسلام کو دین اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر ( دل سے ) راضی ہو گیا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:34

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 58

صحيح مسلم حدیث نمبر: 152
حدثنا عبيد الله بن سعيد، وعبد بن حميد، قالا حدثنا أبو عامر العقدي، حدثنا سليمان بن بلال، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ الإيمان بضع وسبعون شعبة والحياء شعبة من الإيمان ‏"‏ ‏.‏
سلیمان بن بلال نے عبد اللہ بن دینار سے ، انہوں ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:35.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 59

صحيح مسلم حدیث نمبر: 153
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن سهيل، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الإيمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبة فأفضلها قول لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق والحياء شعبة من الإيمان ‏"‏ ‏.‏
سہیل نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایمان کے ستر سے اوپر ( یا ساٹھ سے اوپر ) شعبے ( اجزاء ) ہیں ۔ سب سے افضل جز لااله الا الله کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت ( دینے والی چیز ) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیابھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:35.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 60

صحيح مسلم حدیث نمبر: 154
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالوا حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحياء فقال ‏ "‏ الحياء من الإيمان ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے زہری سے حدیث سنائی ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا : ’’ ( حیا سے مت روکو ) حیا ایمان میں سے ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:36.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 61

صحيح مسلم حدیث نمبر: 155
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد وقال مر برجل من الأنصار يعظ أخاه ‏.‏
سفیان بن عیینہ کے بجائے معمر نے زہری سے مذکورہ بالاسند کےساتھ خبر دی اور کہا کہ آپ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو نصیحت کر رہا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:36.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 62

صحيح مسلم حدیث نمبر: 156
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا حماد بن زيد، عن إسحاق، - وهو ابن سويد - أن أبا قتادة، حدث قال كنا عند عمران بن حصين في رهط منا وفينا بشير بن كعب فحدثنا عمران، يومئذ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الحياء خير كله ‏"‏ ‏.‏ قال أو قال ‏"‏ الحياء كله خير ‏"‏ ‏.‏ فقال بشير بن كعب إنا لنجد في بعض الكتب أو الحكمة أن منه سكينة ووقارا لله ومنه ضعف ‏.‏ قال فغضب عمران حتى احمرتا عيناه وقال ألا أراني أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتعارض فيه ‏.‏ قال فأعاد عمران الحديث قال فأعاد بشير فغضب عمران قال فما زلنا نقول فيه إنه منا يا أبا نجيد إنه لا بأس به ‏.‏
ابو سوار بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو سنا ، وہ نبی ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ حیا سے خیر اور بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے ۔ ‘ ‘ اس پر بشیر بن کعب نے کہا : حکمت اور ( دانائی کی کتابوں ) میں لکھا ہوا کہ اس ( حیا ) سے وقا ر ملتا ہے او رسکون حاصل ہوتا ہے ۔ اس پر عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : ’’میں تمہیں رسول ا للہ ﷺ سے حدیث سنا رہا ہوں اور تو مجھے اپنے صحیفوں کی باتیں سنا تا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:37.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 64

صحيح مسلم حدیث نمبر: 157
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا النضر، حدثنا أبو نعامة العدوي، قال سمعت حجير بن الربيع العدوي، يقول عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث حماد بن زيد ‏.‏
حماد بن زید نے اسحاق بن سوید سے روایت کی کہ ابو قتادہ ( تمیم بن نذیر ) نے حدیث بیان کی ، کہا کہ ہم انپے ساتھیوں سمیت حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس حاضر تھے ، ہم میں بشیر بن کعب بھی موجود تھے ، اس روز حضرت عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ہمیں ایک حدیث سنائی ، کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ حیا بھلائی ہے پوری کی پوری ۔ ‘ ‘ ( انہوں نے کہا : یہ الفاظ فرمائے ) : ’’حیا پوری کی پوری بھلائی ہے ۔ ‘ ‘ تو بشیر بن کعب نے کہا : ہمیں کتابون یا حکمت ( کے مجموعوں ) میں یہ بات ملتی ہے کہ حیا سے اطمینان اور اللہ کے لیے وقار ( کا اظہار ) ہوتا ہے اور اس کی ایک قسم ضعیفی ( کمزور ) ہے ۔ حضرت عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سخت غصے میں آ گئے حتی کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور فرمانے لگے : کیا میں دیکھ نہیں رہا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ سے حدیث سنا رہا ہوں اور تم اس میں مقابلہ کر رہے ہو ؟ ابوقتادہ نے کہا : عمران نےدوبارہ حدیث سنائی اور بشیر نے پھر وہی کہا : اس پر عمران ( سخت ) غصے میں آ گئے ۔ ( ابو قتادہ نے ) کہا : تو ہم نے بار بار یہ کہنا شروع کر دیا : اے ابو نجید! ( حضرت عمران کی کنیت ) یہ ہم میں سے ( مسلمان اور حدیث کا طالب علم ) ہے ۔ اس ( کے عقیدے ) میں کوئی عیب یا نقص نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:37.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 65

صحيح مسلم حدیث نمبر: 158
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال سمعت أبا السوار، يحدث أنه سمع عمران بن حصين، يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ الحياء لا يأتي إلا بخير ‏"‏ ‏.‏ فقال بشير بن كعب إنه مكتوب في الحكمة أن منه وقارا ومنه سكينة ‏.‏ فقال عمران أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتحدثني عن صحفك ‏.‏
نضر ( بن شمیل ) نے کہا : ہمیں ابو نعامہ عدوی نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نےحجیر بن ریبع عدوی سےسنا ، وہ کہتے تھے : عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ۔ ( جس طرح ) حماد بن زید کی حدیث ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:37.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 63

صحيح مسلم حدیث نمبر: 159
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا ابن نمير، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن جرير، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو أسامة، كلهم عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن سفيان بن عبد الله الثقفي، قال قلت يا رسول الله قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا بعدك - وفي حديث أبي أسامة غيرك - قال ‏ "‏ قل آمنت بالله فاستقم ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن نمیر ، جریر اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے اپنے والد ( عروہ ) سے اور انہوں نے حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی پکی بات بتائیے کہ آپ کے بعد کسی سے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے ( ابو اسامہ کی روایت میں ’’ آپ کےبعد ‘ ‘ کے بجائے ’’ آپ کے سوا ‘ ‘ کے الفاظ ہیں ) آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ کہو : آمنت باللہ ( میں اللہ پر ایمان لایا ) ، پھر اس پر پکے ہو جاؤ ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:38

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 66

صحيح مسلم حدیث نمبر: 160
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر، أخبرنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الإسلام خير قال ‏ "‏ تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف ‏"‏ ‏.‏
لیث نے یزید بن ابی حبیب سے ، انہوں نے ابو خیر سے اور انہوں حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا اسلام بہتر ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر کسی کو ، خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے ، سلام کہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:39

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 67

صحيح مسلم حدیث نمبر: 161
وحدثنا أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح المصري أخبرنا ابن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، أنه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص، يقول إن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى المسلمين خير قال ‏ "‏ من سلم المسلمون من لسانه ويده ‏"‏ ‏.‏
عمرو بن حارث نے یزید بن ابی حبیب سے ، انہوں نے ابوخیر سے روایت کی اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ فرما رہے تھے : ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا : مسلمانوں میں سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان امن میں ہوں

صحيح مسلم حدیث نمبر:40

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 68

صحيح مسلم حدیث نمبر: 162
حدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد، جميعا عن أبي عاصم، - قال عبد أنبأنا أبو عاصم، - عن ابن جريج، أنه سمع أبا الزبير، يقول سمعت جابرا، يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:41

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 69

صحيح مسلم حدیث نمبر: 163
وحدثني سعيد بن يحيى بن سعيد الأموي، قال حدثني أبي، حدثنا أبو بردة بن عبد الله بن أبي بردة بن أبي موسى، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال قلت يا رسول الله أى الإسلام أفضل قال ‏ "‏ من سلم المسلمون من لسانه ويده ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن سعید اموی نے کہا : ہمیں ابو بردہ ( برید ) بن عبداللہ بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری نے ابو بردہ سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے عرض کی : کون سا اسلام افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ ( اس کا اسلام ) جس کی زبان سے اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:42.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 70

صحيح مسلم حدیث نمبر: 164
وحدثنيه إبراهيم بن سعيد الجوهري، حدثنا أبو أسامة، قال حدثني بريد بن عبد الله، بهذا الإسناد قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى المسلمين أفضل فذكر مثله ‏.‏
ابراہیم بن سعید جوہری ‘ ابو اسامہ ‘ برید بن عبد اللہ اس روایت میں دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا مسلمان افضل ہے؟تو آپﷺ نے اس طرح ذکر فرمایا

صحيح مسلم حدیث نمبر:42.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 71

صحيح مسلم حدیث نمبر: 165
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن يحيى بن أبي عمر، ومحمد بن بشار، جميعا عن الثقفي، - قال ابن أبي عمر حدثنا عبد الوهاب، - عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله وأن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار ‏"‏ ‏.‏
ابو قلابہ نےحضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، وہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’ جس شخص میں تین باتیں پائیں جائیں گی وہ ان کے ذریعے سے ایمان کی حلاوت پا لے گا : جسے اللہ اور اس کا رسول باقی ہر کسی سے بڑھ کر محبوب ہوں ، ( دوسری ) یہ کہ جس کسی سے بھی محبت کرے ، اللہ ہی کے لیے کرے اور ( تیسری ) یہ کہ اللہ نے جب اسے کفر سے بچا لیا ہے تو وہ دوبارہ کفر کی طرف پلٹنے سے وہ اس طرح نفرت کرے جیسی اس بات سے نفرت کرتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:43.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 72

صحيح مسلم حدیث نمبر: 166
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ثلاث من كن فيه وجد طعم الإيمان من كان يحب المرء لا يحبه إلا لله ومن كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما ومن كان أن يلقى في النار أحب إليه من أن يرجع في الكفر بعد أن أنقذه الله منه ‏"‏ ‏.‏
قتادہ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تین باتیں جس میں بھی ہوں گی و ہ ایمان کا ذائقہ پا لے گا ( 1 ) جوشخص کسی انسان سے محبت کرتا ہے او راللہ کے سوا کسی اور کی خاطر اس سے محبت نہیں کرتا ۔ ( 2 ) جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی ہر کسی سے زیادہ پیارے ہیں ( 3 ) اور جب اللہ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے تو آ گ میں ڈالا جانا ، اسے کفر میں دوبارہ لوٹنے سے زیادہ پسند ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:43.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 73

صحيح مسلم حدیث نمبر: 167
حدثنا إسحاق بن منصور، أنبأنا النضر بن شميل، أنبأنا حماد، عن ثابت، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بنحو حديثهم غير أنه قال ‏ "‏ من أن يرجع يهوديا أو نصرانيا ‏"‏ ‏.‏
ثابت نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا...... ( پھر اسی طرح بیان کیا ) جیسے سابقہ راویوں نے بیان کیا ہے ، البتہ انہوں نے یہ ( الفاظ ) کہے : ’’اس کو پھر سے یہودی یا عیسائی ہو جانے سے ( آگ میں ڈالا جانا زیادہ پسند ہو ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:43.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 74

صحيح مسلم حدیث نمبر: 168
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل ابن علية، ح وحدثنا شيبان بن أبي شيبة، حدثنا عبد الوارث، كلاهما عن عبد العزيز، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يؤمن عبد - وفي حديث عبد الوارث الرجل - حتى أكون أحب إليه من أهله وماله والناس أجمعين ‏"‏ ‏.‏
اسماعیل بن علیہ اور عبد الوارث دونوں نے عبد العزیز سے اور انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی بندہ ( اور عبد الوارث کی حدیث میں ہے کوئی آدمی ) اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے اہل و عیال ، مال اورسب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:44.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 75

صحيح مسلم حدیث نمبر: 169
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين ‏"‏ ‏.‏
قتادہ نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص ( اس وقت تک ) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد ، اس کے والد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:44.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 76

صحيح مسلم حدیث نمبر: 170
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، يحدث عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه - أو قال لجاره - ما يحب لنفسه ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے کہا : میں نے قتادہ کو حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے ( یا فرمایا : اپنے پڑوسی کے لیے بھی ) وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:45.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 77

صحيح مسلم حدیث نمبر: 171
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا يحيى بن سعيد، عن حسين المعلم، عن قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ والذي نفسي بيده لا يؤمن عبد حتى يحب لجاره - أو قال لأخيه - ما يحب لنفسه ‏"‏ ‏.‏
حسن معلم نے قتادہ سے اور انہوں ن حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے پڑوسی کے لیے ( یا فرمایا : اپنے بھائی کے لیے ) وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:45.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 78

صحيح مسلم حدیث نمبر: 172
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر، جميعا عن إسماعيل بن جعفر، - قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، - قال أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يدخل الجنة من لا يأمن جاره بوائقه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں ، وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:46

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 79

صحيح مسلم حدیث نمبر: 173
حدثني حرملة بن يحيى، أنبأنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ‏"‏ ‏.‏
ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے ۔ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے ۔ اور جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:47.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 80

صحيح مسلم حدیث نمبر: 174
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو الأحوص، عن أبي حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذي جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت ‏"‏ ‏.‏
ابوحصین نے ابوصالح سے اور انہو ں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے ، اور جوشخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے ، او رجوشخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے ، وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:47.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 81

صحيح مسلم حدیث نمبر: 175
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عيسى بن يونس، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث أبي حصين غير أنه قال ‏ "‏ فليحسن إلى جاره ‏"‏ ‏.‏
اعمش نے ابو صالح سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ...... آگے ابو حصین کی روایت کے مانند ہے ، البتہ اعمش نے ( وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے کے بجائے ) یہ الفاظ کہے ہیں : ’’ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:47.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 82

صحيح مسلم حدیث نمبر: 176
حدثنا زهير بن حرب، ومحمد بن عبد الله بن نمير، جميعا عن ابن عيينة، - قال ابن نمير حدثنا سفيان، - عن عمرو، أنه سمع نافع بن جبير، يخبر عن أبي شريح الخزاعي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت ‏"‏ ‏.‏
ابو شریح ( خویلد بن عمرو ) خزاعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے ، اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے ، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے ، اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اچھی بات کہے یا خاموشی اختیار کرے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:48

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 83

صحيح مسلم حدیث نمبر: 177
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، كلاهما عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، - وهذا حديث أبي بكر - قال أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان فقام إليه رجل فقال الصلاة قبل الخطبة ‏.‏ فقال قد ترك ما هنالك ‏.‏ فقال أبو سعيد أما هذا فقد قضى ما عليه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان ‏"‏ ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث سنائی ، نیز محمد بن مثنیٰ نے کہا : ہمیں محمد بن جعفر نے اورانہیں شعبہ نے حدیث سنائی ، ان دونوں ( سفیان اور شعبہ ) نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی ، الفاظ ابو بکر بن ابی شیبہ کے ہیں ۔ طارق بن شہاب نے کہا کہ پہلا شخص جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبے کا آغاز کیا ، مروان تھا ۔ ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا : ’’نما ز خطبے سے پہلے ہے ؟ ‘ ‘ مروان نے جواب دیا : جو طریقہ ( یہاں پہلے ) تھا ، وہ ترک کر دیا گیا ہے ۔ اس پر ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس انسان نے ( جس سے صحیح بات کہی تھی ) اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’ تم میں سے جوشخص منکر ( ناقابل قبول کام ) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ ( قوت ) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے ( اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے ) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:49.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 84

صحيح مسلم حدیث نمبر: 178
حدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو معاوية، حدثنا الأعمش، عن إسماعيل بن رجاء، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، وعن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي سعيد الخدري، في قصة مروان وحديث أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث شعبة وسفيان ‏.‏
اعمش نے اسماعیل بن رجاء سے ، انہوں نے اپنے والد ( رجاء بن ربیعہ ) سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، نیز اعمش نے قیس بن مسلم سے ، انہوں نے طارق بن شہاب سے اور انہوں نے ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے مروان کا مذکورہ بالا واقعہ اور ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی حدیث جو انہوں نے نبی ﷺ سے سنی ، اسی طرح بیان کی جس طرح شعبہ اور سفیان نے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:49.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 85

صحيح مسلم حدیث نمبر: 179
حدثني عمرو الناقد، وأبو بكر بن النضر وعبد بن حميد - واللفظ لعبد - قالوا حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال حدثني أبي، عن صالح بن كيسان، عن الحارث، عن جعفر بن عبد الله بن الحكم، عن عبد الرحمن بن المسور، عن أبي رافع، عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كان له من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره ثم إنها تخلف من بعدهم خلوف يقولون ما لا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون فمن جاهدهم بيده فهو مؤمن ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن وليس وراء ذلك من الإيمان حبة خردل ‏"‏ ‏.‏ قال أبو رافع فحدثته عبد الله بن عمر فأنكره على فقدم ابن مسعود فنزل بقناة فاستتبعني إليه عبد الله بن عمر يعوده فانطلقت معه فلما جلسنا سألت ابن مسعود عن هذا الحديث فحدثنيه كما حدثته ابن عمر ‏.‏ قال صالح وقد تحدث بنحو ذلك عن أبي رافع ‏.‏
صالح بن کیسان نے حارث ( بن فضیل ) سے ، انہوں نے جعفر بن عبد اللہ بن حکم سے ، انہوں نے عبد الرحمٰن بن مسور سے ، انہوں نے ( رسول اللہ ﷺکے آزاد کردہ غلام ) ابو رافع سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ نے مجھ پر پہلے کسی امت میں جتنے بھی نبی بھیجے ، ان کی امت میں سے ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے جوان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی اتباع کرتے تھے ، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشیں بن جاتے تھے ۔ وہ ( زبان سے ) ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کا م کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہ دیا گیا تھا ، چنانچہ جس نے ان ( جیسے لوگوں ) کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا ، وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا ، وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے ( لیکن ) اس سے پیچھے رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ۔ ‘ ‘ ابو رافع نے کہا : میں نے یہ حدیث عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو سنائی تو وہ اس کو نہ مانے ۔ اتفاق سے عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بھی ( مدینہ ) آ گئے اور وادی قتاۃ ( مدینہ کی وادی ہے ) میں ٹھہرے ۔ عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے مجھے بھی ان کی عیادت کے لیے اپنے ساتھ چلنے کو کہا ۔ میں ان کے ساتھ چلا گیا ہم جب جاکر بیٹھ گیا تو میں نےعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی جس طرح میں عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کوسنائی تھی ۔ صالح بن کیسان نےکہا : یہ حدیث ابو رافع سے ( براہ راست بھی ) اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:50.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 86

صحيح مسلم حدیث نمبر: 180
وحدثنيه أبو بكر بن إسحاق بن محمد، أخبرنا ابن أبي مريم، حدثنا عبد العزيز بن محمد، قال أخبرني الحارث بن الفضيل الخطمي، عن جعفر بن عبد الله بن الحكم، عن عبد الرحمن بن المسور بن مخرمة، عن أبي رافع، مولى النبي صلى الله عليه وسلم عن عبد الله بن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ما كان من نبي إلا وقد كان له حواريون يهتدون بهديه ويستنون بسنته ‏"‏ ‏.‏ مثل حديث صالح ولم يذكر قدوم ابن مسعود واجتماع ابن عمر معه ‏.‏
حارث بن فضیل خطمی سے ( صالح بن کیسان کے بجائے ) عبدالعزیز بن محمد کی سند کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے مولیٰ ابو رافع سے روایت ہے ۔ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو بھی نبی گزرا ہے اس کے ساتھ کچھ حواری تھے جو اس ( نبی ) کے نمونہ زندگی کو اپناتے اور اس کی سنت کی پیروی کرتے تھے .... ‘ ‘ صالح کی روایت کی طرح ۔ لیکن ( عبد العزیز نے ) عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی آمد اور عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ان کی ملاقات کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:50.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 87

صحيح مسلم حدیث نمبر: 181
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي ح، وحدثنا أبو كريب، حدثنا ابن إدريس، كلهم عن إسماعيل بن أبي خالد، ح وحدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، - واللفظ له - حدثنا معتمر، عن إسماعيل، قال سمعت قيسا، يروي عن أبي مسعود، قال أشار النبي صلى الله عليه وسلم بيده نحو اليمن فقال ‏ "‏ ألا إن الإيمان ها هنا وإن القسوة وغلظ القلوب في الفدادين عند أصول أذناب الإبل حيث يطلع قرنا الشيطان في ربيعة ومضر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : ’’ دیکھو ! ایمان ادھر ہے ۔ اور شقاوت اور سنگ لی اونٹوں کی دموں کی جڑوں کے پاس چیخنے والوں ربیعہ اور مضر میں ہے ، جس کی طرف سے شیطان کے دو سینگ نمودار ہوتے ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:51

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 88

صحيح مسلم حدیث نمبر: 182
حدثنا أبو الربيع الزهراني، أنبأنا حماد، حدثنا أيوب، حدثنا محمد، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ جاء أهل اليمن هم أرق أفئدة الإيمان يمان والفقه يمان والحكمة يمانية ‏"‏ ‏.‏
ایوب نے کہا : ہمیں محمد ( ابن سیرین ) نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اہل یمن آئے ہیں ۔ یہ لوگ بہت زیادہ نرم دل ہیں ۔ ایمان یمنی ہے ، فقہ یمنی ہے اور دانائی ( بھی ) یمنی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 89

صحيح مسلم حدیث نمبر: 183
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، ح وحدثني عمرو الناقد، حدثنا إسحاق بن يوسف الأزرق، كلاهما عن ابن عون، عن محمد، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
(عبد اللہ ) ابن عون نے محمد ( ابن سیرین ) سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےر وایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ... اسی پچھلی ( حدیث ) کے مانند ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 90

صحيح مسلم حدیث نمبر: 184
حدثني عمرو الناقد، وحسن الحلواني، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن الأعرج، قال قال أبو هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أتاكم أهل اليمن هم أضعف قلوبا وأرق أفئدة الفقه يمان والحكمة يمانية ‏"‏ ‏.‏
صالح نے اعرج سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسو ل ا للہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارے پاس یمنی لوگ آئے ہیں ، وہ زیادہ کمزور دل اور سینوں میں زیادہ رقت رکھنے والے ہیں ۔ فقہ یمنی ہے اور حکمت ( بھی ) یمنی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 91

صحيح مسلم حدیث نمبر: 185
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ رأس الكفر نحو المشرق والفخر والخيلاء في أهل الخيل والإبل الفدادين أهل الوبر والسكينة في أهل الغنم ‏"‏ ‏.‏
و زناد نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کفر کی ریاست مشرق کی طرف ہے ۔ فخر و تکبر گھوڑوں اور اونٹوں والوں میں ہے ( جو اونچی آواز میں چلانے والے اوراون کے خیموں میں رہنے والے ہیں ) اور اطمینان و سکون بکریاں پالنے والوں میں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 92

صحيح مسلم حدیث نمبر: 186
وحدثني يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر عن إسماعيل بن جعفر، - قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، - قال أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ الإيمان يمان والكفر قبل المشرق والسكينة في أهل الغنم والفخر والرياء في الفدادين أهل الخيل والوبر ‏"‏ ‏.‏
علاء ( بن عبدالرحمان الجہنی ) نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایمان یمن سے ہے ، کفر مشرق کی طرف سے ، سکون و اطمینان بھیڑ بکریاں پالنے والوں میں اور فخرو ریا شور شرابے کے عادی گھوڑے پالنے والوں اور اونی خیموں کے باسی ، چلانے والوں میں ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 93

صحيح مسلم حدیث نمبر: 187
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ الفخر والخيلاء في الفدادين أهل الوبر والسكينة في أهل الغنم ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’فخر و تکبر چلا کر بولنے والے ، خیموں کے باسیوں میں ہے اور اطمینان و سکون بھیڑ بکریاں والوں میں ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.06

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 94

صحيح مسلم حدیث نمبر: 188
وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، بهذا الإسناد مثله وزاد ‏ "‏ الإيمان يمان والحكمة يمانية ‏"‏ ‏.‏
شعیب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت کی اور ( آخرمیں یہ ) اضافہ کیا : ’’ ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.07

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 95

صحيح مسلم حدیث نمبر: 189
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، أخبرنا أبو اليمان، عن شعيب، عن الزهري، حدثني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ جاء أهل اليمن هم أرق أفئدة وأضعف قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية السكينة في أهل الغنم والفخر والخيلاء في الفدادين أهل الوبر قبل مطلع الشمس ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسیت نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ اہل یمن آئے ہیں ، ان کے دل ( دوسروں سے ) زیادہ نرم ہیں اور مزاجوں میں زیادہ رقت ہے ۔ ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۔ سکون ، بھیڑ بکریاں پالنے والوں میں ہے اور فخر و تکبر اونی خیموں کے باسی ، چیخنے چلانے والے لوگوں میں ، جو سورج طلوع ہونے تک کی سمت میں ( رہتے ہیں ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.08

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 96

صحيح مسلم حدیث نمبر: 190
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أتاكم أهل اليمن هم ألين قلوبا وأرق أفئدة الإيمان يمان والحكمة يمانية رأس الكفر قبل المشرق ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں ۔ وہ دلوں کے زیادہ نرم اور مزاجوں میں زیادہ رقت رکھنے والے ہیں ۔ ایمان یمنی ہے ، حکمت بھی یمن سے ہے اور کفر کا مرکز مشرق کی طرف کی طرف ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.09

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 97

صحيح مسلم حدیث نمبر: 191
وحدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا جرير، عن الأعمش، بهذا الإسناد ولم يذكر ‏ "‏ رأس الكفر قبل المشرق ‏"‏ ‏.‏
جریر نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ، لیکن اس نے ’’ کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے ‘ ‘ کے الفاظ ذکر نہیں کیے

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.1

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 98

صحيح مسلم حدیث نمبر: 192
وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، ح وحدثني بشر بن خالد، حدثنا محمد، - يعني ابن جعفر - قالا حدثنا شعبة، عن الأعمش، بهذا الإسناد ‏.‏ مثل حديث جرير وزاد ‏ "‏ والفخر والخيلاء في أصحاب الإبل والسكينة والوقار في أصحاب الشاء ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے اعمش سے سابقہ سند کے ساتھ جریر کی طرح حدیث سنائی اور یہ ا لفاظ زائد بیان کیے کہ ’’غرور اور گھمنڈ اونٹ والوں میں اور سکون ووقار بھیڑ بکری ( پالنے ) والوں میں ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:52.11

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 99

صحيح مسلم حدیث نمبر: 193
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد الله بن الحارث المخزومي، عن ابن جريج، قال أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ غلظ القلوب والجفاء في المشرق والإيمان في أهل الحجاز ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ دلوں کی سختی اور جفا ( اکھڑپن ) مشرق میں ہے اور ایمان اہل حجاز میں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:53

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 100

صحيح مسلم حدیث نمبر: 194
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا ‏.‏ أولا أدلكم على شىء إذا فعلتموه تحاببتم أفشوا السلام بينكم ‏"‏ ‏.‏
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:54.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 101

صحيح مسلم حدیث نمبر: 195
وحدثني زهير بن حرب، أنبأنا جرير، عن الأعمش، بهذا الإسناد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والذي نفسي بيده لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث أبي معاوية ووكيع ‏.‏
(ابو معاویہ اور وکیع کے بجائے ) جریر نے اعمش سے ان کی اسی سند سے حدیث سنائی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم جب تک ایمان نہیں لاؤ گے ، جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے ... ‘ ‘ جس طرح ابو معاویہ اور و کیع کی حدیث ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:54.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 102

صحيح مسلم حدیث نمبر: 196
حدثنا محمد بن عباد المكي، حدثنا سفيان، قال قلت لسهيل إن عمرا حدثنا عن القعقاع، عن أبيك، قال ورجوت أن يسقط، عني رجلا قال فقال سمعته من الذي سمعه منه أبي كان صديقا له بالشام ثم حدثنا سفيان عن سهيل عن عطاء بن يزيد عن تميم الداري أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الدين النصيحة ‏"‏ قلنا لمن قال ‏"‏ لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے کہا : میں نے سہیل سے کہا کہ عمرو نے ہمیں قعقاع کے واسطے سے آپ کے والد سے حدیث سنائی ( سفیان نے کہا : ) مجھے امید تھی کہ وہ ( مجھے خود روایت سنا کر ) ایک راوی کم کر دے گا ( چنانچہ سہیل نےکہا ) میں نے اسی سے یہ روایت سنی جس سے میرے والد سے سنی ، وہ شام میں ان کا دوست تھا ۔ ( محمد بن عباد نے کہا ) پھر سفیان نے ہمیں سہیل کے واسطے سے عطاء بن یزید کی حضرت تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت سنائی کہ بنی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ ‘ ‘ ہم ( صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) نے پوچھا : کس کی ( خیر خواہی؟ ) آپ نے فرمایا : ’’ اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی ( خیرخواہی ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:55.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 103

صحيح مسلم حدیث نمبر: 197
حدثني محمد بن حاتم، حدثنا ابن مهدي، حدثنا سفيان، عن سهيل بن أبي صالح، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن تميم الداري، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
سفیان ثوری نے سہیل بن ابی صالح سے ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے ، انہوں نے حضرت تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے رسو ل اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سابقہ حدیث کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:55.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 104

صحيح مسلم حدیث نمبر: 198
وحدثني أمية بن بسطام، حدثنا يزيد، - يعني ابن زريع - حدثنا روح، - وهو ابن القاسم - حدثنا سهيل، عن عطاء بن يزيد، سمعه وهو، يحدث أبا صالح عن تميم الداري، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
ہمیں روح بن قاسم نے حدیث سنائی ، ( کہا : ) ہمیں سہیل نے عطاء سے اس وقت سن کر روایت کی جب وہ ابو صالح کو حدیث بیان کر رہے تھے ، ( کہا : ) تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، ( کہا : ) رسو ل اللہ ﷺ سے روایت ہے ، اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند

صحيح مسلم حدیث نمبر:55.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 105

صحيح مسلم حدیث نمبر: 199
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو أسامة عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس، عن جرير، قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم ‏.‏
قیس ( بن ابی حازم ) نے حضرت جریر ( بن عبد اللہ ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے ، زکاۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:56.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 106

صحيح مسلم حدیث نمبر: 200
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وابن، نمير قالوا حدثنا سفيان، عن زياد بن علاقة، سمع جرير بن عبد الله، يقول بايعت النبي صلى الله عليه وسلم على النصح لكل مسلم ‏.‏
زیاد بن علاقہ ( کوفی ) سے روایت ہے ، انہوں نے حضرت جریر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : میں نے نبی ﷺ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:56.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 107

صحيح مسلم حدیث نمبر: 201
حدثنا سريج بن يونس، ويعقوب الدورقي، قالا حدثنا هشيم، عن سيار، عن الشعبي، عن جرير، قال بايعت النبي صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة فلقنني ‏ "‏ فيما استطعت ‏"‏ ‏.‏ والنصح لكل مسلم ‏.‏ قال يعقوب في روايته قال حدثنا سيار ‏.‏
سریج بن یونس اور یعقوب دورقی نے کہا : ہشیم نےہمیں سیار کے واسطے سے شعبی سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : میں نے نبی اکرمﷺ سے ( اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام ) سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے ساتھ یہ کہلوایا : ’’ جہاں تک تمہارے بس میں ہو گا ۔ ‘ ‘ اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر ۔ یعقوب نے اپنی روایت میں کہا : ہمیں سیار نے حدیث سنائی ۔ ( یعقوب نے براہ راست سیار سے بھی یہ روایت سنی اور ہشیم کے واسطے سے بھی ، لفظ وہی تھے ۔ ) سریج بن یونس اور یعقوب دورقی نے کہا : ہشیم نےہمیں سیار کے واسطے سے شعبی سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : میں نے نبی اکرمﷺ سے ( اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام ) سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے ساتھ یہ کہلوایا : ’’ جہاں تک تمہارے بس میں ہو گا ۔ ‘ ‘ اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر ۔ یعقوب نے اپنی روایت میں کہا : ہمیں سیار نے حدیث سنائی ۔ ( یعقوب نے براہ راست سیار سے بھی یہ روایت سنی اور ہشیم کے واسطے سے بھی ، لفظ وہی تھے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:56.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 108

صحيح مسلم حدیث نمبر: 202
حدثني حرملة بن يحيى بن عبد الله بن عمران التجيبي، أنبأنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال سمعت أبا سلمة بن عبد الرحمن، وسعيد بن المسيب، يقولان قال أبو هريرة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ‏"‏ ‏.‏ قال ابن شهاب فأخبرني عبد الملك بن أبي بكر بن عبد الرحمن أن أبا بكر كان يحدثهم هؤلاء عن أبي هريرة ثم يقول وكان أبو هريرة يلحق معهن ‏"‏ ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن ‏"‏ ‏.‏
یونس بن ابن شہاب سے خبر دی ، انہوں نے کہا : میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب سے سنا ، دونوں کہتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’زانی زنا نہیں کرتا کہ جب زنا کر رہا ہو تو وہ مومن ہو ، چور چوری نہیں کرتا کہ جب چوری کرر ہا ہو تو وہ مومن ہو ، شرابی شراب نہیں پیتا کہ جب شراب پی رہا ہو تو وہ مومن ہو ۔ ‘ ‘ ابن شہاب نے بیان کیا کہ عبد الملک بن ابی بکر بن عبد الرحمٰن نے مجھےخبر دی کہ ( اس کے والد ) ابوبکر ان کے سامنے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ سب باتیں روایت کرتے ، پھرکہتے : اور ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ان میں یہ بات بھی شامل کرتے تھے کہ ’’کسی بڑی قدر و قیمت والی چیز کو ، جس کی وجہ سے لوگ لوٹنے والے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہوں ، وہ نہیں لوٹتا کہ جب لوٹ رہا ہو تو وہ مومن ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 109

صحيح مسلم حدیث نمبر: 203
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث بن سعد، قال حدثني أبي، عن جدي، قال حدثني عقيل بن خالد، قال قال ابن شهاب أخبرني أبو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن أبي هريرة، أنه قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يزني الزاني ‏"‏ ‏.‏ واقتص الحديث بمثله يذكر مع ذكر النهبة ولم يذكر ذات شرف ‏.‏ قال ابن شهاب حدثني سعيد بن المسيب وأبو سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث أبي بكر هذا إلا النهبة ‏.‏
عقیل بن خالد نے حدیث سنائی کہ ابن شہاب ( زہری ) نےکہا : مجھے ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے خبر دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ زانی زنا نہیں کرتا ..... ‘ ‘ پھر گزشتہ حدیث کی طرح بیان کیا جس میں لوٹ کا ذکر تو ہے ، لیکن ’’قدر و منزلت والی چیز ‘ ‘ کے الفاظ نہیں ۔ ابن شہاب ( زہری ) نے کہا : مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح حدیث سنائی جس طرح ابوبکر کی روایت ہے لیکن اس میں ’’لوٹ ‘ ‘ کا ذکر نہیں ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 110

صحيح مسلم حدیث نمبر: 204
وحدثني محمد بن مهران الرازي، قال أخبرني عيسى بن يونس، حدثنا الأوزاعي، عن الزهري، عن ابن المسيب، وأبي، سلمة وأبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث عقيل عن الزهري عن أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي هريرة وذكر النهبة ولم يقل ذات شرف ‏.‏
اوزاعی نے زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابن مسیب ، ابو سلمہ اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے اور انہوں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح روایت بیان کی جس طرح عقیل نےزہری سے حدیث بیان کی اور اس میں ’’لوٹ ‘ ‘ کا تذکرہ کیا لیکن ’’قدر وقیمت والی چیز ‘ ‘ کے الفاظ نہیں کہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 111

صحيح مسلم حدیث نمبر: 205
وحدثني حسن بن علي الحلواني، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا عبد العزيز بن المطلب، عن صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، مولى ميمونة وحميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
صفوان بن سلیم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عطاء بن یسار سے اور حمید بن عبدالرحمٰن سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہون نے نبی ﷺ سے یہ روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 112

صحيح مسلم حدیث نمبر: 206
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني الدراوردي - عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم كل هؤلاء بمثل حديث الزهري غير أن العلاء وصفوان بن سليم ليس في حديثهما ‏"‏ يرفع الناس إليه فيها أبصارهم ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث همام ‏"‏ يرفع إليه المؤمنون أعينهم فيها وهو حين ينتهبها مؤمن ‏"‏ ‏.‏ وزاد ‏"‏ ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم ‏"‏ ‏.‏
قتیبہ بن سعید ‘ عبد العزیز دراوردی ‘ علاء بن عبدالرحمٰن نے ابو ھریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ، انہوں نے نبی ﷺ سے ( یہی ) حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 113

صحيح مسلم حدیث نمبر: 207
حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن سليمان، عن ذكوان، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد ‏"‏ ‏.‏
معمر نے ہمام بن منبہ سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ، ان سب ( صفوان ، علاء اور معمر ) کی روایات ( 205 ۔ 207 ) امام زہری کی روایت ( 204 ) کے مانند ہیں ، البتہ علاء اور صفوان کی بیان کردہ حدیث روایت ( 205 ، 206 ) میں ’’ جس کی طرف سے لوگ نظر اٹھاتے ہیں ‘ ‘ کے ا لفاظ موجود نہیں ۔ اور ہمام کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : ’’مومن لوگ ( اس چیز کی قدر و قیمت کی بنا پر ) اس کی طرف سے اپنی نظریں اٹھاتے ہیں اور وہ ( لوٹتے وقت ) مومن نہیں ہوتا ۔ ‘ ‘ اور معمر نے یہ اضافہ بھی کیا ہے : اور تم میں سے کوئی خیانت نہیں کرتا کہ جب خیانت کررہا ہو تو وہ مومن ہو ، لہٰذا تم ( ان تمام کاموں سے ) بچو ، تم بچو

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.06

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 114

صحيح مسلم حدیث نمبر: 208
حدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن ذكوان، عن أبي هريرة، رفعه قال ‏ "‏ لا يزني الزاني ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر بمثل حديث شعبة ‏.‏
شعبہ نے سلیمان سے ، انہوں نے ذکوان سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ زانی زنا نہیں کرتا کہ جب زنا کر رہا ہو تا ہے تو مومن ہو ، چور چوری نہیں کرتا کہ جب چوری کر رہا ہو تو وہ مومن ہو ، شرابی شراب نہیں پیتا کہ جب وہ پی رہا ہو تو مومن ہو ۔ اور ( ان کو ) بعد میں توبہ کا موقع دیا جاتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:57.07

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 115

صحيح مسلم حدیث نمبر: 209
سفیان نے ( سلیمان ) اعمش کے حوالے سے خبر دی کہ ذکوان نےحضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ، فرمایا : ’’زانی زنا نہیں کرتا کہ جب وہ زنا کر رہا ہو ..... ‘ ‘ آگے ( سفیان نے ) شعبہ کی حدیث کے مانند بیان کیا

صحيح مسلم حدیث نمبر:

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 0

صحيح مسلم حدیث نمبر: 210
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، ح وحدثني زهير بن حرب، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خلة منهن كانت فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا وعد أخلف وإذا خاصم فجر ‏"‏ ‏.‏ غير أن في حديث سفيان ‏"‏ وإن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن نمیر اور سفیان نے اعمش سے ، انہوں نے نے عبد اللہ بن مرہ سے ، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ چار عادتیں ہیں جس میں وہ ( چاروں ) ہوں گی ، وہ خالص منافق ہو گا اور جس کسی میں ان میں سے ایک عادت ہو گی تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اس سے باز آ جائے ۔ ( وہ چار یہ ہیں : ) جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ ‘ ‘ البتہ سفیان کی روایت میں خلقة کے بجائے خصلةکا لفظ ہے ( معنی وہی ہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:58

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 116

صحيح مسلم حدیث نمبر: 211
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، - واللفظ ليحيى - قالا حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال أخبرني أبو سهيل، نافع بن مالك بن أبي عامر عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان ‏"‏ ‏.‏
نافع بن مالک بن ابی عامر نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ منافق کی تین علامتیں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو ( اس کی ) خلاف ورزی کرے اور جب اسے ( کسی چیز کا ) امین بنایا جائے تو ( اس میں ) خیانت کرے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:59.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 117

صحيح مسلم حدیث نمبر: 212
حدثنا أبو بكر بن إسحاق، أخبرنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، مولى الحرقة عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من علامات المنافق ثلاثة إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہمیں حرقہ کے آزاد کردہ غلام علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب نے اپنے والد سے خبر دی اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ منافق کی تین علامتیں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور امین بنایا جائے تو خیانت کرے

صحيح مسلم حدیث نمبر:59.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 118

صحيح مسلم حدیث نمبر: 213
حدثنا عقبة بن مكرم العمي، حدثنا يحيى بن محمد بن قيس أبو زكير، قال سمعت العلاء بن عبد الرحمن، يحدث بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن محمد بن قیس ابو زکیر نے کہا : میں نے علاء بن عبدالرحمٰن کو اسی ( مذکورہ بالا ) سند کے ساتھ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا : ’’ منافق کے علامات تین ہیں ، چاہے وہ روزہ رکھے ، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:59.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 119

صحيح مسلم حدیث نمبر: 214
وحدثني أبو نصر التمار، وعبد الأعلى بن حماد، قالا حدثنا حماد بن سلمة، عن داود بن أبي هند، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث يحيى بن محمد عن العلاء ذكر فيه ‏ "‏ وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم ‏"‏ ‏.‏
حماد بن سلمہ نے داؤد بن ابی ہندہ سے ، انہوں نے سعید بن مسیب کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی جو یحییٰ بن محمد کی علاء سے بیان کردہ روایت کے مطابق ہے اور اس میں بھی یہ الفاظ ہیں : ’’خواہ روزہ رکھے ، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:59.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 120

صحيح مسلم حدیث نمبر: 215
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن بشر، وعبد الله بن نمير، قالا حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا كفر الرجل أخاه فقد باء بها أحدهما ‏"‏ ‏.‏
نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اپنے بھائی کو کافر قرار دے تو دونوں میں سے ایک ( ضرور ) کفر کے ساتھ واپس لوٹے گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:60.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 121

صحيح مسلم حدیث نمبر: 216
وحدثنا يحيى بن يحيى التميمي، ويحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر، جميعا عن إسماعيل بن جعفر، قال يحيى بن يحيى أخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، أنه سمع ابن عمر، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أيما امرئ قال لأخيه يا كافر ‏.‏ فقد باء بها أحدهما إن كان كما قال وإلا رجعت عليه ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے ، انہوں نے حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ کہتے سنا کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے اپنے بھائی سے کہا : اے کافر ! تو دونوں میں سے ایک ( کفرکی ) اس ( نسبت ) کے ساتھ لوٹے گا ۔ اگر وہ ایسا ہی ہے جس طرح اس نےکہا ( تو ٹھیک ) ورنہ یہ بات اسی ( کہنے والے ) پر لوٹ آئے گی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:60.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 122

صحيح مسلم حدیث نمبر: 217
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا أبي، حدثنا حسين المعلم، عن ابن بريدة، عن يحيى بن يعمر، أن أبا الأسود، حدثه عن أبي ذر، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ومن ادعى ما ليس له فليس منا وليتبوأ مقعده من النار ومن دعا رجلا بالكفر أو قال عدو الله ‏.‏ وليس كذلك إلا حار عليه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنا : ’’ جس شخص نے دانستہ اپنے والد کے بجائے کسی اور ( کابیٹا ہونے ) کا دعویٰ کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جواس کی نہیں ہے ، وہ ہم میں سے نہیں ، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ اور جس شخص نے کسی کو کافر کہہ کر پکارا یا اللہ کا دشمن کہا ، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ ( الزام ) اسی ( کہنے والے ) کی طرف لوٹ جائے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:61

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 123

صحيح مسلم حدیث نمبر: 218
حدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن جعفر بن ربيعة، عن عراك بن مالك، أنه سمع أبا هريرة، يقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن أبيه فهو كفر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اپنے آباء سے بے رغبتی نہ کرو ، چنانچہ جس شخص نے اپنے والد سے انحراف کیا تویہ ( عمل ) کفر ہے ۔ ‘ ‘ <ہیڈنگ 2>

صحيح مسلم حدیث نمبر:62

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 124

صحيح مسلم حدیث نمبر: 219
حدثني عمرو الناقد، حدثنا هشيم بن بشير، أخبرنا خالد، عن أبي عثمان، قال لما ادعي زياد لقيت أبا بكرة فقلت له ما هذا الذي صنعتم إني سمعت سعد بن أبي وقاص يقول سمع أذناى من رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏ "‏ من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام ‏"‏ ‏.‏ فقال أبو بكرة وأنا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
خالد نے ابو عثمان سےنقل کیا کہ جب زیاد کی نسبت ( ابوسفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی طرف ہونے ) کا دعویٰ کیا گیا تھا تو میں جناب ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےملا اور پوچھا : یہ تم لوگوں نے کیا کیا ؟ میں نے سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’ جس نے اسلام کی حالت میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کو باپ بنانے کادعویٰ کیا اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے ۔ ‘ ‘ اس پر حضرت ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : خود میں نے بھی رسول اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےیہی سنا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:63.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 125

صحيح مسلم حدیث نمبر: 220
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن زكرياء بن أبي زائدة، وأبو معاوية عن عاصم، عن أبي عثمان، عن سعد، وأبي، بكرة كلاهما يقول سمعته أذناى، ووعاه، قلبي محمدا صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام ‏"‏ ‏.‏
عاصم نے ابو عثمان سے اور انہوں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ دونوں کہتے تھے : یہ بات میرے دونوں کانوں نے محمدﷺ سے سنی ( اورمیرے دل نے یاد رکھی ) کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے : ’’جس نے اپنے والد کے سوا کسی اور کو والد بنانے کا دعویٰ کیا ، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے ، تو اس پر جنت حرام ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:63.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 126

صحيح مسلم حدیث نمبر: 221
حدثنا محمد بن بكار بن الريان، وعون بن سلام، قالا حدثنا محمد بن طلحة، ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، كلهم عن زبيد، عن أبي وائل، عن عبد الله بن مسعود، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ سباب المسلم فسوق وقتاله كفر ‏"‏ ‏.‏ قال زبيد فقلت لأبي وائل أنت سمعته من عبد الله يرويه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم ‏.‏ وليس في حديث شعبة قول زبيد لأبي وائل ‏.‏
محمد بن طلحہ ، سفیان اور شعبہ تینوں نے زبید سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔ ‘ ‘ زبید نے کہا : میں نے ابو وائل سے پوچھا : کیا آپ نے عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے خود سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ شعبہ کی روایت میں زبید کے ابو وائل سے پوچھنے کا ذکر نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:64.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 127

صحيح مسلم حدیث نمبر: 222
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن المثنى، عن محمد بن جعفر، عن شعبة، عن منصور، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا عفان، حدثنا شعبة، عن الأعمش، كلاهما عن أبي وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
منصور اور اعمش دونوں نے ابووائل سے ، انہون نے حضرت عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہون نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث بیان کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:64.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 128

صحيح مسلم حدیث نمبر: 223
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن محمد بن جعفر، عن شعبة، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن علي بن مدرك، سمع أبا زرعة، يحدث عن جده، جرير قال قال لي النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع ‏"‏ استنصت الناس ‏"‏ ‏.‏ ثم قال ‏"‏ لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض ‏"‏ ‏.‏
ابو زرعہ ( ہرم بن عمرو بن جریر بن عبد ا للہ البجلی ) نے اپنے دادا حضرت جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مجھ سے فرمایا : ’’ لوگوں کو چپ کراؤ ۔ ‘ ‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا : ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:65

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 129

صحيح مسلم حدیث نمبر: 224
وحدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن واقد بن محمد، عن أبيه، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
معاذ بن معاذ نے شعبہ سے ، انہوں نے واقد بن محمد سے ، انہوں نے اپنےوالد سے ، ا نہوں نے حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سابقہ حدیث کے مطابق روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:66.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 130

صحيح مسلم حدیث نمبر: 225
وحدثني أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو بكر بن خلاد الباهلي قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن واقد بن محمد بن زيد، أنه سمع أباه، يحدث عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في حجة الوداع ‏ "‏ ويحكم - أو قال ويلكم - لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض ‏"‏ ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہم سے شعبہ نے واقد بن محمد بن زید سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا ، وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کرتے تھے ، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : ’’ تم پر افسوس ہوتا ہے ( یا فرمایا : تمہارے لیے تباہی ہو گی ) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:66.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 131

صحيح مسلم حدیث نمبر: 226
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا عبد الله بن وهب، قال حدثني عمر بن محمد، أن أباه، حدثه عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث شعبة عن واقد ‏.‏
عبد اللہ بن وہب نے کہا : ہمیں عمر بن محمد نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے انہیں حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے حوالے سے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح شعبہ نے واقد سے بیان کی ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:66.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 132

صحيح مسلم حدیث نمبر: 227
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ح وحدثنا ابن نمير، - واللفظ له - حدثنا أبي ومحمد بن عبيد، كلهم عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اثنتان في الناس هما بهم كفر الطعن في النسب والنياحة على الميت ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگوں میں دو باتیں ہیں ، وہ دونوں ان میں کفر ( کی بقیہ عادتیں ) ہیں : ( کسی کے ) نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:67

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 133

صحيح مسلم حدیث نمبر: 228
حدثنا علي بن حجر السعدي، حدثنا إسماعيل، - يعني ابن علية - عن منصور بن عبد الرحمن، عن الشعبي، عن جرير، أنه سمعه يقول ‏ "‏ أيما عبد أبق من مواليه فقد كفر حتى يرجع إليهم ‏"‏ ‏.‏ قال منصور قد والله روي عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكني أكره أن يروى عني ها هنا بالبصرة ‏.‏
منصور بن عبدالرحمٰن نے شعبی سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ میں جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو کہتے ہوئے سنا : ’’ جو غلام اپنے مالکوں سے بھاگ گیا ، اس نےکفر کا ارتکاب کیا یہاں تک کہ ان کی طرف لوٹ آئے ۔ ‘ ‘ ( نہ یہ کہ دوبارہ مسلمان ہو ۔ ) منصور نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے روایت کی گئی ہے لیکن میں ناپسند کرتا ہوں کہ یہاں ( بصرہ میں ) مجھ سےیہ ( اس طرح مرفوعاً ) روایت کی جائے ۔ ( کیونکہ بصرہ کےخارجی اس سے مطلق کفر کا استدلال کریں گے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:68

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 134

صحيح مسلم حدیث نمبر: 229
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن داود، عن الشعبي، عن جرير، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أيما عبد أبق فقد برئت منه الذمة ‏"‏ ‏.‏
داؤد نے شعبی سے ، انہوں نے حضرت جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو غلام بھگوڑا ہو گیا تو اس ( کے تحفظ ) سے ( اسلامی معاشرے اور حکومت کی ) ذمہ داری ختم ہو گئی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:69

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 135

صحيح مسلم حدیث نمبر: 230
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، قال كان جرير بن عبد الله يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا أبق العبد لم تقبل له صلاة ‏"‏ ‏.‏
مغیرہ نے شعبی سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حضرت جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نبی ﷺ سے بیان کیا کرتے تھے : ’’ جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ ‘ ‘ ( جس طرح حرام کھانے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:70

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 136

صحيح مسلم حدیث نمبر: 231
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن زيد بن خالد الجهني، قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية في إثر السماء كانت من الليل فلما انصرف أقبل على الناس فقال ‏"‏ هل تدرون ماذا قال ربكم ‏"‏ ‏.‏ قالوا الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ قال أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته ‏.‏ فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا ‏.‏ فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب ‏"‏ ‏.‏
حضرت زید بن جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر رات کو ہونے والی بارش کے بعد ، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ’’کیا تم جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ ‘ ‘ انہوں نےجواب دیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( آج ) میرے بندوں میں سے کوئی مجھ پر ایمان لانےو الا اور ( کوئی میرےساتھ ) کفر کرنے والا ہو گیا ۔ جس نے یہ کہا ہے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کےفضل اور رحمت سےبارش ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستارے کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے ( کےغروب و طلوع ہونے ) کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو وہ میرے ساتھ کفر کرنے والا اور ستارے پر ایمان رکھنے والا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:71

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 137

صحيح مسلم حدیث نمبر: 232
حدثني حرملة بن يحيى، وعمرو بن سواد العامري، ومحمد بن سلمة المرادي، قال المرادي حدثنا عبد الله بن وهب، عن يونس، وقال الآخران، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ألم تروا إلى ما قال ربكم قال ما أنعمت على عبادي من نعمة إلا أصبح فريق منهم بها كافرين ‏.‏ يقولون الكواكب وبالكواكب ‏"‏ ‏.‏
عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نےحدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے رب عز وجل نے کیا فرمایا ؟ اس نے فرمایا : جو نعمت بھی میں بندوں کو دیتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ ( سے تعلق رکھنے والے لوگ ) اس ( نعمت ) کے سبب سے کفرکرنے والےہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں : فلاں ستارے ( نے یہ نعمت دی ہے ) یا فلاں فلاں ستاروں کے سبب سے ( ملی ہے ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:72.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 138

صحيح مسلم حدیث نمبر: 233
وحدثني محمد بن سلمة المرادي، حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، ح وحدثني عمرو بن سواد، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرنا عمرو بن الحارث، أن أبا يونس، مولى أبي هريرة حدثه عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ما أنزل الله من السماء من بركة إلا أصبح فريق من الناس بها كافرين ينزل الله الغيث فيقولون الكوكب كذا وكذا ‏"‏ وفي حديث المرادي ‏"‏ بكوكب كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏
محمد بن سلمہ مرادی نے اپنی سند سے اور عمرو بن سواد نے اپنی سند سے عمرو بن حارث سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہمیں حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ آسمان سے برکت ( بارش ) نازل نہیں کرتا مگر لوگوں کا ایک گروہ ، اس کے سبب سے کافر ہو جاتا ہے ، بارش اللہ تعالیٰ اتارتا ہے ( لیکن ) یہ لوگ کہتے ہیں : فلاں فلاں ستارے کے باعث ( اتری ہے ۔ ) ‘ ‘ اور مرادی کی روایت کے یہ ا لفاظ ہیں : ’’فلاں فلاں ستارے کے باعث ( اتری ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:72.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 139

صحيح مسلم حدیث نمبر: 234
وحدثني عباس بن عبد العظيم العنبري، حدثنا النضر بن محمد، حدثنا عكرمة، - وهو ابن عمار - حدثنا أبو زميل، قال حدثني ابن عباس، قال مطر الناس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أصبح من الناس شاكر ومنهم كافر قالوا هذه رحمة الله ‏.‏ وقال بعضهم لقد صدق نوء كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ قال فنزلت هذه الآية ‏{‏ فلا أقسم بمواقع النجوم‏}‏ حتى بلغ ‏{‏ وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون‏{‏}
حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دور میں لوگوں کو بارش سے نوازا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگوں میں سے کچھ شکر گزار ہو گئے ہیں اور کچھ کافر ( ناشکرے ) ، ( بعض ) لوگوں نے کہا : یہ اللہ کی رحمت ہے اور بعض نے کہا : فلاں فلاں نوء ( ایک ستارے کا غروب اور اس کے سبب سے دوسرے کی بلندی ) سچی نکلی ۔ ‘ ‘ ( ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) فرماتے ہیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’میں ستاروں کے گرنے کی جگہوں کی قسم کھاتا ہوں ۔ ‘ ‘ ( سے لے کر ) اس آیت تک : ’’ اور تم اپنا حصہ یہ رکھتے ہو کہ تم اس کی تکذیب کرتے ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:73

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 140

صحيح مسلم حدیث نمبر: 235
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن شعبة، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر، قال سمعت أنسا، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ آية المنافق بغض الأنصار وآية المؤمن حب الأنصار ‏"‏ ‏.‏
انس ‌سے ‌روایت ‌ہے ‌رسول ‌اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌نے ‌فرمایا ‌منافق ‌كی ‌نشانی ‌یہ ‌ہے ‌كہ ‌انصار ‌سے ‌دشمنی ‌ركھے ‌اور ‌مومن ‌كی ‌نشانی ‌یہ ‌ہے ‌كہ ‌انصار ‌سے ‌محبت ‌ركھے ‌. ‌

صحيح مسلم حدیث نمبر:74.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 141

صحيح مسلم حدیث نمبر: 236
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا خالد، - يعني ابن الحارث - حدثنا شعبة، عن عبد الله بن عبد الله، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ حب الأنصار آية الإيمان وبغضهم آية النفاق ‏"‏ ‏.‏
خالد بن حارث نے کا : ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی ، انہوں نے عبد اللہ بن عبد اللہ سے ، انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے او ران سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:74.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 142

صحيح مسلم حدیث نمبر: 237
وحدثني زهير بن حرب، قال حدثني معاذ بن معاذ، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، - واللفظ له - حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، قال سمعت البراء، يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في الأنصار ‏ "‏ لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا منافق من أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله ‏"‏ ‏.‏ قال شعبة قلت لعدي سمعته من البراء قال إياى حدث ‏.‏
شعبہ نے عدی بن ثابت سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو نبی اکرم ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ نے انصار کے بارے میں فرمایا : ’’ ان سے محبت نہیں کرتا مگر وہی جو مومن ہےاور ان سے بغض نہیں رکھتا مگر وہی جو منافق ہے ۔ جس سے ان سے محبت کی ، اللہ اس سے محبت کرتا ہے او رجس نے ان سے بغض رکھا اللہ اس سے بغض رکھتا ہے ۔ ‘ ‘ شعبہ نے کہا : میں عدی سے پوچھا : کیا تم نے یہ روایت براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنی ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا : انہوں نے یہ حدیث مجھی کو سنائی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:75

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 143

صحيح مسلم حدیث نمبر: 238
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - يعني ابن عبد الرحمن القاري - عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يبغض الأنصار رجل يؤمن بالله واليوم الآخر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی ایسا آدمی انصار سے بغض نہیں رکھے گا جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:76

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 144

صحيح مسلم حدیث نمبر: 239
وحدثنا عثمان بن محمد بن أبي شيبة، حدثنا جرير، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، كلاهما عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يبغض الأنصار رجل يؤمن بالله واليوم الآخر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی شخص انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا جو اللہ تعالیٰ اورآخرت کےدن پر ایمان رکھتا ہو

صحيح مسلم حدیث نمبر:77

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 145

صحيح مسلم حدیث نمبر: 240
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، وأبو معاوية عن الأعمش، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - أخبرنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن عدي بن ثابت، عن زر، قال قال علي والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي صلى الله عليه وسلم إلى أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏.‏
حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑ اور روح کو تخلیق کیا ! نبی امی ﷺنے مجھے بتا دیا تھا کہ ’’ میرے ساتھ مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:78

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 146

صحيح مسلم حدیث نمبر: 241
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري، أخبرنا الليث، عن ابن الهاد، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ يا معشر النساء تصدقن وأكثرن الاستغفار فإني رأيتكن أكثر أهل النار ‏"‏ ‏.‏ فقالت امرأة منهن جزلة وما لنا يا رسول الله أكثر أهل النار ‏.‏ قال ‏"‏ تكثرن اللعن وتكفرن العشير وما رأيت من ناقصات عقل ودين أغلب لذي لب منكن ‏"‏ ‏.‏ قالت يا رسول الله وما نقصان العقل والدين قال ‏"‏ أما نقصان العقل فشهادة امرأتين تعدل شهادة رجل فهذا نقصان العقل وتمكث الليالي ما تصلي وتفطر في رمضان فهذا نقصان الدين ‏"‏ ‏.‏
لیث نے ابن ہادلیثی سے خبر دی کہ عبد اللہ بن دینار نےحضرت عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ کیا کرو ، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو ، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے ۔ ‘ ‘ ان میں سے ایک دلیر اورسمجھ دار عورت نے کہا : اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے ، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری ( کیوں ) ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کا کفران ( نعمت ) کرتی ہو ، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود ، عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول ! عقل و دین میں کمی کیا ہے ؟ آپ نےفرمایا : ’’ عقل میں کمی یہ ہے کہ دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے ، یہ توہوئی عقل کی کمی اور وہ ( حیض کے دوران میں ) کئی راتیں ( اور دن ) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تویہ دین میں کمی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:79.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 147

صحيح مسلم حدیث نمبر: 242
وحدثنيه أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، عن بكر بن مضر، عن ابن الهاد، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
(لیث کے بجائے ) بکر بن مضر نے ابن ہاد سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی

صحيح مسلم حدیث نمبر:79.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 148

صحيح مسلم حدیث نمبر: 243
وحدثني الحسن بن علي الحلواني، وأبو بكر بن إسحاق قالا حدثنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح
عیاض بن عبد اللہ نےحضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے اور ( سعید ) مقبری نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی جس طرح حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی روایت ہے ۔ باب : 35 ۔ نماز چھوڑنے والے پر لفظ کفر کا اطلاق کرنا نمازاسلام کا رکن ہے ۔ اس کا ترک پچھلی احادیث میں ذکر کیے گئے متعدد گناہوں سے زیادہ سنگین ہے ۔ اس پر جس کفر کا اطلاق کیا گیا وہ ان کے کفر سے بڑا کفر ہے ، پھر بھی اس سے توبہ اور آیندہ نماز کی پابندی سے انسان اچھا مسلمان بن جاتا ہے ، اسے دوبارہ اسلام لانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جو نماز کا منکر ہے اسے ازسرنو اسلام لانے کی ضرورت ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:80.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 149

صحيح مسلم حدیث نمبر: 244
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إذا قرأ ابن آدم السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي يقول يا ويله - وفي رواية أبي كريب يا ويلي - أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فأبيت فلي النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا : ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہو ں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے ، وہ کہتا ہے : ہائے اس کی ہلاکت ! ( اور ابوکریب کی روایت میں ہے ، ہائے میری ہلاکت! ) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا ، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا ، سو میرے لیے آگ ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:81.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 151

صحيح مسلم حدیث نمبر: 245
حدثني زهير بن حرب، حدثنا وكيع، حدثنا الأعمش، بهذا الإسناد مثله غير أنه قال ‏ "‏ فعصيت فلي النار ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی ۔ فرق یہ ہے کہ وکیع نے ( فأبيت..... ’’ میں نے انکار کیا ‘ ‘ کے بجائے ) فعصيت فعلي النار ’’ میں نے نافرمانی کی تو میرے لیے جہنم ( مقدر ) ہوئی ‘ ‘ کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:81.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 152

صحيح مسلم حدیث نمبر: 246
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، وعثمان بن أبي شيبة، كلاهما عن جرير، قال يحيى أخبرنا جرير، عن الأعمش، عن أبي سفيان، قال سمعت جابرا، يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة ‏"‏ ‏.‏
ابو سفیان سےروایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ بے شک آدمی اورشرک و کفر کے درمیان ( فاصلہ مٹانے والا عمل ) نماز کا ترک ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:82.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 153

صحيح مسلم حدیث نمبر: 247
حدثنا أبو غسان المسمعي، حدثنا الضحاك بن مخلد، عن ابن جريج، قال أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة ‏"‏ ‏.‏
ابو زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان ( فاصلہ مٹانے والا عمل ) نماز چھوڑنا ہے ۔ ‘ ‘ ( اس روایت میں إن’’بےشک ‘ ‘ کا لفظ نہیں ، باقی وہی ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:82.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 154

صحيح مسلم حدیث نمبر: 248
منصور بن ابی مزاحم اور محمد بن جعفر بن زیاد نے کہا : ہمیں ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے حدیث سنائی ، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون ساعمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ عز وجل پر ایمان لانا ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : پھر اس کے بعد کون سا ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : پھر کو ن سا ؟ فرمایا : ’’حج مبرور ( ایسا حج جو سراسرنیکی اور تقوے پر مبنی اور مکمل ہو ۔ ) ‘ ‘ محمد بن جعفر کی روایت میں ’’ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ‘ ‘ کے الفاظ ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 0

صحيح مسلم حدیث نمبر: 249
وحدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثنا إبراهيم بن سعد، ح وحدثني محمد بن جعفر بن زياد، أخبرنا إبراهيم، - يعني ابن سعد - عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الأعمال أفضل قال ‏"‏ إيمان بالله ‏"‏ ‏.‏ قال ثم ماذا قال ‏"‏ الجهاد في سبيل الله ‏"‏ ‏.‏ قال ثم ماذا قال ‏"‏ حج مبرور ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية محمد بن جعفر قال ‏"‏ إيمان بالله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ وحدثنيه محمد بن رافع، وعبد بن حميد، عن عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
ابراہیم بن سعد کے بجائے معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:83

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 155

صحيح مسلم حدیث نمبر: 250
حدثني أبو الربيع الزهراني، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا هشام بن عروة، ح وحدثنا خلف بن هشام، - واللفظ له - حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن أبي مراوح الليثي، عن أبي ذر، قال قلت يا رسول الله أى الأعمال أفضل قال ‏"‏ الإيمان بالله والجهاد في سبيله ‏"‏ ‏.‏ قال قلت أى الرقاب أفضل قال ‏"‏ أنفسها عند أهلها وأكثرها ثمنا ‏"‏ ‏.‏ قال قلت فإن لم أفعل قال ‏"‏ تعين صانعا أو تصنع لأخرق ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله أرأيت إن ضعفت عن بعض العمل قال ‏"‏ تكف شرك عن الناس فإنها صدقة منك على نفسك ‏"‏ ‏.‏
ہشام بن عروہ نے اپنے والد ( عروہ ) سے ، انہوں نے ابو مراوح لیثی سے اور انہون نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا ، میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کو ن سا عمل افضل ہے ؟ آپﷺ : ’’ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘ کہا : میں ( پھر ) پوچھا : کون سی گردن ( آزادکرنا ) افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ جو اس کے مالکوں کی نظر میں زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو ۔ ‘ ‘ کہا : میں نے پوچھا : اگر میں یہ کام نہ کر سکوں تو ؟ آپ نے فرمایا : ’’ کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی اناڑی کا کام ( خود ) کر دو ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! آپ غور فرمائیں اگر میں ایسے کسی کام کی طاقت نہ رکھتا ہوں تو؟ آپ نے فرمایا : ’’ لوگوں سے اپنا شر روک لو ( انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ ) یہ تمہاری طرف سے خود تمہارے لیے صدقہ ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:84.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 156

صحيح مسلم حدیث نمبر: 251
حدثنا محمد بن رافع، وعبد بن حميد، قال عبد أخبرنا وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حبيب، مولى عروة بن الزبير عن عروة بن الزبير، عن أبي مراوح، عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه غير أنه قال ‏ "‏ فتعين الصانع أو تصنع لأخرق ‏"‏ ‏.‏
(ہشام کے بجائے ) عروہ بن زبیر کے آزاد کردہ غلام حبیب نے سابقہ سند سے یہی روایت بیان کی ، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ( تعین صانعاکسی کاریگر کے بجائے ( فتعین الصانع ( الف لام کےساتھ ) کہا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:84.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 157

صحيح مسلم حدیث نمبر: 252
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، عن الشيباني، عن الوليد بن العيزار، عن سعد بن إياس أبي عمرو الشيباني، عن عبد الله بن مسعود، قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أى العمل أفضل قال ‏"‏ الصلاة لوقتها ‏"‏ ‏.‏ قال قلت ثم أى قال ‏"‏ بر الوالدين ‏"‏ ‏.‏ قال قلت ثم أى قال ‏"‏ الجهاد في سبيل الله ‏"‏ ‏.‏ فما تركت أستزيده إلا إرعاء عليه ‏.‏
(ابو اسحاق سلیمان بن فیروز کوفی ) شیبانی نے ولید بن عیزار سے ، انہوں نے سعد بن ایاس ابو عمرو شیبانی سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ۔ ‘ ‘ میں پوچھا : اس کے بعد کون ؟ فرمایا : ’’ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘ میں نے مزید پوچھنا صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ پر گراں نہ گزرے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:85.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 158

صحيح مسلم حدیث نمبر: 253
حدثنا محمد بن أبي عمر المكي، حدثنا مروان الفزاري، حدثنا أبو يعفور، عن الوليد بن العيزار، عن أبي عمرو الشيباني، عن عبد الله بن مسعود، قال قلت يا نبي الله أى الأعمال أقرب إلى الجنة قال ‏"‏ الصلاة على مواقيتها ‏"‏ ‏.‏ قلت وماذا يا نبي الله قال ‏"‏ بر الوالدين ‏"‏ ‏.‏ قلت وماذا يا نبي الله قال ‏"‏ الجهاد في سبيل الله ‏"‏ ‏.‏
ابو یعفور ( عبد الرحمان بن عبید بن نسطانس ) نے ولید بن عیزار کے حوالے سے ابو عمرو شیبانی سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی !کون سا عمل جنت سے زیادہ قریب ( کردیتا ) ہے ؟ فرمایا : ’’نمازیں اپنے اپنے اوقات پر پڑھنا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! اور کیا ؟ فرمایا : ’’ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! اور کیا ؟ فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:85.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 159

صحيح مسلم حدیث نمبر: 254
وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن الوليد بن العيزار، أنه سمع أبا عمرو الشيباني، قال حدثني صاحب، هذه الدار - وأشار إلى دار عبد الله - قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الأعمال أحب إلى الله قال ‏"‏ الصلاة على وقتها ‏"‏ ‏.‏ قلت ثم أى قال ‏"‏ ثم بر الوالدين ‏"‏ ‏.‏ قلت ثم أى قال ‏"‏ ثم الجهاد في سبيل الله ‏"‏ قال حدثني بهن ولو استزدته لزادني ‏.‏
عبید اللہ کے والد معاذ بن معاذ عنبری نے کہا : ہمیں شعبہ نے ولید بن عیزار سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابو عمرو شیبانی کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھے اس گھر کے مالک نے حدیث سنائی ( اور عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے گھر کی طرف اشارہ کیا ) انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا : ’’ پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : پھر کون سا؟فرمایا : ’’ پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘ ( ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : آپ نے مجھے یہ باتیں بتائیں اور اگر میں مزید سوال کرتا تو آ پ مجھے مزید بتاتے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:85.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 160

صحيح مسلم حدیث نمبر: 255
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، بهذا الإسناد مثله ‏.‏ وزاد وأشار إلى دار عبد الله وما سماه لنا ‏.‏
شعبہ سے ان کے ایک شاگر د محمد بن جعفر نے اسی سند سے یہی روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا : ابو عمرو شیبانی نے عبد اللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے گھر کی طرف اشارہ کیا لیکن ہمارے سامنے ان کانام نہ لیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:85.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 161

صحيح مسلم حدیث نمبر: 256
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن الحسن بن عبيد الله، عن أبي عمرو الشيباني، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أفضل الأعمال - أو العمل - الصلاة لوقتها وبر الوالدين ‏"‏ ‏.‏
ابو عمرو شیبانی سے ان کے ایک شاگرد حسن بن عبید اللہ نے یہی روایت بیان کی کہ حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’سب سے افضل اعمال ( یاعمل ) وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:85.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 162

صحيح مسلم حدیث نمبر: 257
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا جرير، وقال، عثمان حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، عن عبد الله، قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الذنب أعظم عند الله قال ‏"‏ أن تجعل لله ندا وهو خلقك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت له إن ذلك لعظيم ‏.‏ قال قلت ثم أى قال ‏"‏ ثم أن تقتل ولدك مخافة أن يطعم معك ‏"‏ ‏.‏ قال قلت ثم أى قال ‏"‏ ثم أن تزاني حليلة جارك ‏"‏ ‏.‏
منصور نے ابو وائل سے ، انہوں نے عمروبن شرحبیل سےاور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : ’’اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ جبکہ تمہیں اسی ( اللہ ) نے پیدا کیا ہے ۔ ‘ ‘ میں نے عرض کی : واقعی یہ بہت بڑا ( گناہ ) ہے ، کہا : میں نے پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا : ’’یہ کہ تم اس ڈر سے اپنے بچے کو قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا ۔ ‘ ‘ کہا : میں نے پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا : ’’ پھر یہ کہ اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:86.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 163

صحيح مسلم حدیث نمبر: 258
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن جرير، قال عثمان حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، قال قال عبد الله قال رجل يا رسول الله أى الذنب أكبر عند الله قال ‏"‏ أن تدعو لله ندا وهو خلقك ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أى قال ‏"‏ أن تقتل ولدك مخافة أن يطعم معك ‏"‏ ‏.‏ قال ثم أى قال ‏"‏ أن تزاني حليلة جارك ‏"‏ فأنزل الله عز وجل تصديقها ‏{‏ والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما‏}‏
(منصور کے بجائے ) اعمش نے ابو وائل سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ م اللہ کے ساتھ کوئی شریک ( بنا کر ) پکارو ، حالانکہ اسی ( اللہ ) نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : پھر کون سا؟فرمایا : ’’ یہ کہ تم اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ تم اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو ۔ ‘ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس ( بات ) کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی : ’’ جو لوگ اللہ کےساتھ کسی اور کو معبود ( بنا کر ) نہیں پکارتے اور کسی جان کو جسے ( قتل کرنا ) اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے ، حق کے بغیر قتل نیہں کرتے اور جو زنا نہیں کرتے ( وہی رحمٰن کے مومن بندےہیں ۔ ) اور جو ان ( کاموں ) کا ارتکاب کرے گا ، وہ سخت گنا ہ ( کی سزا ) سے دو چار ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:86.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 164

صحيح مسلم حدیث نمبر: 259
حدثني عمرو بن محمد بن بكير بن محمد الناقد، حدثنا إسماعيل ابن علية، عن سعيد الجريري، حدثنا عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ ألا أنبئكم بأكبر الكبائر - ثلاثا - الإشراك بالله وعقوق الوالدين وشهادة الزور أو قول الزور ‏"‏ ‏.‏ وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم متكئا فجلس فمازال يكررها حتى قلنا ليته سكت ‏.‏
حضرت ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ نے فرمایا : ’’ کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ ( آپ نے یہ تین بار کہا ) پھر فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ( یافرمایا : جھوٹ بولنا ) ‘ ‘ رسول اللہﷺ ( پہلے ) ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ، پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اس بات کو دہراتے رہے حتی کہ ہم نے ( دل میں ) کہا : کاش! آپ مزید نہ دہرائیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:87

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 165

صحيح مسلم حدیث نمبر: 260
وحدثني يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا خالد، - وهو ابن الحارث - حدثنا شعبة، أخبرنا عبيد الله بن أبي بكر، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الكبائر قال ‏ "‏ الشرك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس وقول الزور ‏"‏ ‏.‏
خالد بن حارث نے کہا : ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نےکہا : ہمیں عبید اللہ بن ابی بکر نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نےنبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں خبر دی ، آپ نے فرمایا : ’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کو ( ناحق ) قتل کرنا اور جھوٹ بولنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:88.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 166

صحيح مسلم حدیث نمبر: 261
وحدثنا محمد بن الوليد بن عبد الحميد، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال حدثني عبيد الله بن أبي بكر، قال سمعت أنس بن مالك، قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الكبائر - أو سئل عن الكبائر - فقال ‏"‏ الشرك بالله وقتل النفس وعقوق الوالدين ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ‏"‏ ‏.‏ قال ‏"‏ قول الزور ‏"‏ ‏.‏ أو قال ‏"‏ شهادة الزور ‏"‏ ‏.‏ قال شعبة وأكبر ظني أنه شهادة الزور ‏.‏
محمد بن جعفر نے کہا : ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مجھ سے عبید اللہ بن ابی بکر نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا ( یاآپ سے بڑے گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا ) تو آپ نے فرمایا : ’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، کسی کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔ ‘ ‘ ( پھر ) آپ نے فرمایا : ’’ کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ‘ ‘ فرمایا : ’’جھوٹ بولنا ( یا فرمایا : جھوٹی گواہی دینا ) ‘ ‘ شعبہ کاقول ہے : میرا ظن غالب یہ ہے کہ وہ ’’ جھوٹی گواہی ‘ ‘ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:88.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 167

صحيح مسلم حدیث نمبر: 262
حدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، قال حدثني سليمان بن بلال، عن ثور بن زيد، عن أبي الغيث، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اجتنبوا السبع الموبقات ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله وما هن قال ‏"‏ الشرك بالله والسحر وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق وأكل مال اليتيم وأكل الربا والتولي يوم الزحف وقذف المحصنات الغافلات المؤمنات ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ سات تباہ کن گناہوں سے بچو ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! وہ کون سے ہیں ؟ فرمایا : ’’ اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، جس جان کا قتل اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، سود کھانا ، لڑائی کے دن دشمن کو پشت دکھانا ( بھاگ جانا ) اور پاک دامن ، بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:89

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 168

صحيح مسلم حدیث نمبر: 263
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن الهاد، عن سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من الكبائر شتم الرجل والديه ‏"‏ ‏.‏ قالوا يا رسول الله هل يشتم الرجل والديه قال ‏"‏ نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه ‏"‏ ‏.‏
(یزید بن عبد اللہ ) ابن ہاد نے سعد بن ابراہیم سے ، انہوں نے حمید بن عبد الرحمان سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی کا اپنےوالدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ ‘ ‘ ( صحابہ ) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ فرمایا : ’’ہاں! انسان کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تو وہ ا س کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:90.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 169

صحيح مسلم حدیث نمبر: 264
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار جميعا عن محمد بن جعفر، عن شعبة، ح وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، كلاهما عن سعد بن إبراهيم، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
شعبہ اور سفیان نے بھی سعد بن ابراہیم سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:90.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 170

صحيح مسلم حدیث نمبر: 265
وحدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، وإبراهيم بن دينار، جميعا عن يحيى بن حماد، - قال ابن المثنى حدثني يحيى بن حماد، - أخبرنا شعبة، عن أبان بن تغلب، عن فضيل الفقيمي، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر ‏"‏ ‏.‏ قال رجل إن الرجل يحب أن يكون ثوبه حسنا ونعله حسنة ‏.‏ قال ‏"‏ إن الله جميل يحب الجمال الكبر بطر الحق وغمط الناس ‏"‏ ‏.‏
یحییٰ بن حماد نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابان بن تغلب سے حدیث سنائی ، انہوں نے فضیل بن عمرو فقیمی سے ، انہوں نے ابراہیم نخعی سے ، انہوں نے علقمہ سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’ جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا ، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘ ایک آدمی نے کہا : انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ خود جمیل ہے ، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے ۔ تکبر ، حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:91.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 171

صحيح مسلم حدیث نمبر: 266
حدثنا منجاب بن الحارث التميمي، وسويد بن سعيد، كلاهما عن علي بن مسهر، - قال منجاب أخبرنا ابن مسهر، - عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان ولا يدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء ‏"‏ ‏.‏
اعمش نے ابراہیم نخعی سے سابقہ سند کے ساتھ روایت کی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر میں ایمان ہے ، آگ میں داخل نہ ہو گا اور کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہے ، جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:91.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 172

صحيح مسلم حدیث نمبر: 267
وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، عن أبان بن تغلب، عن فضيل، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر ‏"‏ ‏.‏
(یحییٰ کے بجائے ) شعبہ کے ایک اور شاگرد ابو داؤد نے سابقہ سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایسا شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:91.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 173

صحيح مسلم حدیث نمبر: 268
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي ووكيع، عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال وكيع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال ابن نمير سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من مات يشرك بالله شيئا دخل النار ‏"‏ ‏.‏ وقلت أنا ومن مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ‏.‏
عبد اللہ بن نمیر اور وکیع نے اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( وکیع نے کہا : عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اور عبد اللہ بن نمیر نے کہا : عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ) آپ فرما رہے تھے : ’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتا تھا ، وہ آگ میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ اور میں ( عبد اللہ ) نے کہا : جو اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے شرک نہ کرتا تھا ، وہ جنت میں داخل ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:92

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 174

صحيح مسلم حدیث نمبر: 269
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر، قال أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال يا رسول الله ما الموجبتان فقال ‏ "‏ من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار ‏"‏ ‏.‏
ابو سفیان نےحضرت جاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ! واجب کرنے والی دو باتیں کون سی ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ جو کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہوا مرا ، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو ٹھہراتے ہوئے مرا ، و ہ دوزخ میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ یعنی توحید جنت کو واجب کر دیتی ہے اور شرک دوزخ کو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:93.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 175

صحيح مسلم حدیث نمبر: 270
وحدثني أبو أيوب الغيلاني، سليمان بن عبيد الله وحجاج بن الشاعر قالا حدثنا عبد الملك بن عمرو، حدثنا قرة، عن أبي الزبير، حدثنا جابر بن عبد الله، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة ومن لقيه يشرك به دخل النار ‏"‏ ‏.‏ قال أبو أيوب قال أبو الزبير عن جابر ‏.‏
ابو ایوب غیلانی سلیمان بن عبید اللہ او رحجاج بن شاعر نے کہا : ہمیں عبد الملک بن عمرو نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں قرہ نے ابو زبیر کے واسطے سے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ جو کوئی اس حالت میں اللہ سے ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو اللہ سے اس حالت میں ملا کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتا تھا ، وہ آگ میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ ابو ایوب کی حدیث کے الفاظ میں : ابوزبیر نے ( حدثنا جابر’’ جابر نے ہمیں حدیث سنائی ‘ ‘ کے بجائے ) عن جابر ’’جابرسے روایت ہے ‘ ‘ کے الفاظ سے حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:93.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 176

صحيح مسلم حدیث نمبر: 271
وحدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا معاذ، - وهو ابن هشام - قال حدثني أبي، عن أبي الزبير، عن جابر، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال بمثله ‏.‏
(قرہ کے بجائے ) ہشام نے ابوزبیر کے واسطے سے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی حدیث سنائی : بے شک اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ...... ( آگے ) سابقہ روایت کے مانند ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:93.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 177

صحيح مسلم حدیث نمبر: 272
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن واصل الأحدب، عن المعرور بن سويد، قال سمعت أبا ذر، يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ أتاني جبريل - عليه السلام - فبشرني أنه من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏ قلت وإن زنى وإن سرق ‏.‏ قال ‏"‏ وإن زنى وإن سرق ‏"‏ ‏.‏
معرور بن سوید نےکہا : میں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو نبی ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے پاس جبرئیل آئے اور مجھے خوش خبری دی کہ آپ کی امت کا جو فرد اس حالت میں مرے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ ‘ ‘ میں ( ابو ذر ) نے کہا : چاہے اس نے زنا کیاہو اور چوری کی ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:94.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 178

صحيح مسلم حدیث نمبر: 273
حدثني زهير بن حرب، وأحمد بن خراش، قالا حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا أبي قال، حدثني حسين المعلم، عن ابن بريدة، أن يحيى بن يعمر، حدثه أن أبا الأسود الديلي حدثه أن أبا ذر حدثه قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم عليه ثوب أبيض ثم أتيته فإذا هو نائم ثم أتيته وقد استيقظ فجلست إليه فقال ‏"‏ ما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة ‏"‏ ‏.‏ قلت وإن زنى وإن سرق قال ‏"‏ وإن زنى وإن سرق ‏"‏ ‏.‏ قلت وإن زنى وإن سرق قال ‏"‏ وإن زنى وإن سرق ‏"‏ ‏.‏ ثلاثا ثم قال في الرابعة ‏"‏ على رغم أنف أبي ذر ‏"‏ قال فخرج أبو ذر وهو يقول وإن رغم أنف أبي ذر ‏.‏
ابو اسود دیلی نے بیان کیا کہ حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سے حدیث بیان کی کہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ایک سفید کپڑا اوڑھے ہوئے سو رہے تھے ۔ میں پھر حاضر خدمت ہوا تو ( ابھی ) آپ سو رہے تھے ، میں پھر ( تیسری دفعہ ) آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے ۔ میں آپ کے پاس بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا : ’’ کوئی بندہ نہیں جس نے لا إله إلا الله کہا اور پھر اسی پر مرا مگر وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو ۔ ‘ ‘ آپ نے جواب دیا : ’’اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔ ‘ ‘ میں نے پھر کہا : اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا : ’’اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کا ارتکاب کیا ہو ۔ ‘ ‘ آپ نے تین دفعہ یہی جواب دیا ، پھر چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا : ’’چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو ۔ ‘ ‘ ابو اسود نے کہا : ابو ذر ( آپ کی مجلس سے ) نکلے تو کہتے جاتے تھے : چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:94.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 179

صحيح مسلم حدیث نمبر: 274
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، - واللفظ متقارب - أخبرنا الليث، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار، عن المقداد بن الأسود، أنه أخبره أنه، قال يا رسول الله أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فقاتلني فضرب إحدى يدى بالسيف فقطعها ‏.‏ ثم لاذ مني بشجرة فقال أسلمت لله ‏.‏ أفأقتله يا رسول الله بعد أن قالها قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقتله ‏"‏ ‏.‏ قال فقلت يا رسول الله إنه قد قطع يدي ثم قال ذلك بعد أن قطعها أفأقتله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقتله فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل أن تقتله وإنك بمنزلته قبل أن يقول كلمته التي قال ‏"‏ ‏.‏
ليث نے ابن شہاب ( زہری ) سے ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے عبید اللہ بن عدی بن خیار کو خبر دی کہ انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے کہ اگرکافروں میں سے کسی شخص سے میرا سامنا ہو ، وہ مجھے سے جنگ کرے اور میرے ایک ہاتھ تلوار کی ضرب لگائے اور اسے کاٹ ڈالے ، پھر مجھ سے بچاؤ کے لیے کسی درخت کی آڑ لے اور کہے : میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا تو اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کلمہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کردوں ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’اسے قتل نہ کرو ۔ ‘ ‘ انہوں نے کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ ک ےرسول ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا اور اسے کاٹ ڈالنے کے بعد یہ کلمہ کہے تو کیا میں اسے قتل کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسے قتل نہ کرو ۔ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اس مقام پر ہو گا جس پر تم اسے قتل کرنے سےپہلے تھے اور تم اس جگہ ہو گے جہاں وہ کلمہ کہنے سے پہلے تھا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:95.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 180

صحيح مسلم حدیث نمبر: 275
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد، قالا أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، ح وحدثنا إسحاق بن موسى الأنصاري، حدثنا الوليد بن مسلم، عن الأوزاعي، ح وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، جميعا عن الزهري، بهذا الإسناد أما الأوزاعي وابن جريج ففي حديثهما قال أسلمت لله ‏.‏ كما قال الليث في حديثه ‏.‏ وأما معمر ففي حديثه فلما أهويت لأقتله قال لا إله إلا الله ‏.‏
امام مسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے معمر ، اوزاعی اور ابن جریج کی الگ الگ سندوں کےساتھ زہری سے سابقہ سند کے ساتھ روایت کی ، اوزاعی اور ابن جریج کی روایت میں ( لیث کی ) سابقہ حدیث کی طرح أسلمت لله ’’میں اللہ کے لیے اسلام لے آیا ‘ ‘ کے الفاظ ہیں جبکہ معمر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’جب میں نے چاہا کہ اسے قتل کر دوں تو اس نے لا إله إلا الله کہہ دیا ۔ ‘ ‘ ( دونوں کا حاصل ایک ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:95.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 181

صحيح مسلم حدیث نمبر: 276
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني عطاء بن يزيد الليثي، ثم الجندعي أن عبيد، الله بن عدي بن الخيار أخبره أن المقداد بن عمرو بن الأسود الكندي - وكان حليفا لبني زهرة وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم - أنه قال يا رسول الله أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار ثم ذكر بمثل حديث الليث ‏.‏
یونس نے ابن شہاب نے خبر دی ، انہوں نےکہا : مجھے عطاء بن یزید لیثی جندعی نے بیان کیا کہ عبید اللہ بن عدی بن خیار نے اسے خبر دی کہ حضرت مقداد بن عمرو ( ابن اسود ) کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ، جو بنو زہریہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( غزوہ ) بدر میں شرکت کی تھی ، عرض کی : اے اللہ کے رسول! بتائیے اگر کافروں میں سے ایک آدمی سے میرا سامنا ہو جائے ..... آگے ایسے ہی ہے جیسے لیث کی ( روایت کردہ ) سابقہ حدیث ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:95.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 182

صحيح مسلم حدیث نمبر: 277
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو خالد الأحمر، ح وحدثنا أبو كريب، وإسحاق بن إبراهيم، عن أبي معاوية، كلاهما عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن أسامة بن زيد، وهذا، حديث ابن أبي شيبة قال بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فصبحنا الحرقات من جهينة فأدركت رجلا فقال لا إله إلا الله ‏.‏ فطعنته فوقع في نفسي من ذلك فذكرته للنبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أقال لا إله إلا الله وقتلته ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله إنما قالها خوفا من السلاح ‏.‏ قال ‏"‏ أفلا شققت عن قلبه حتى تعلم أقالها أم لا ‏"‏ ‏.‏ فمازال يكررها على حتى تمنيت أني أسلمت يومئذ ‏.‏ قال فقال سعد وأنا والله لا أقتل مسلما حتى يقتله ذو البطين ‏.‏ يعني أسامة قال قال رجل ألم يقل الله ‏{‏ وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله‏}‏ فقال سعد قد قاتلنا حتى لا تكون فتنة وأنت وأصحابك تريدون أن تقاتلوا حتى تكون فتنة ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں ابو خالد احمر نے حدیث سنائی اور ابو کریب اور اسحاق بن ابراہیم نے ابو معاویہ سے اور ان دونوں ( ابو معاویہ اور ابو خالد ) نے اعمش سے ، انہوں نے ابو ظبیان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( حدیث کے الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں ) کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک چھوٹے لشکر میں ( جنگ کے لیے ) بھیجا ، ہم نے صبح صبح قبیلہ جہینہ کی شاخ حرقات پر حملہ کیا ، میں ایک آدمی پر قابو پا لیا تو اس نے لا إله إلا الله کہہ دیا لیکن میں نے اسے نیزہ مار دیا ، اس بات سے میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا اس نے لا إله إلا الله کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اس نے اسلحے کے ڈر سے کلمہ پڑھا ، آپ نے فرمایا : ’’ تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے ( دل سے ) کہا ہے یا نہیں ۔ ‘ ‘ پھر آپ میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نےتمنا کی کہ ( کاش ) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا ( اور اسلام لانے کی وجہ سے اس کلمہ گو کے قتل کے عظیم گناہ سے بری ہو جاتا ۔ ) ابو ظبیان نے کہا : ( اس پر ) حضرت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کہنے لگے : اور میں اللہ کی قسم ! کسی اسلام لانے والے کو قتل نہیں کروں گا جب تک ذوالبطین ، یعنی اسامہ اسے قتل کرنے پر تیار نہ ہوں ۔ ابو ظبیان نے کہا : اس پر ایک آدمی کہنے لگا : کیااللہ کا یہ فرمان نہیں : ’’ اور ان سے جنگ لڑو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کا ہو جائے ۔ ‘ ‘ تو حضرت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے جواب دیا : ہم فتنہ ختم کرنے کی خاطر جنگ لڑتے تھے جبکہ تم اور تمہارے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہو ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:96.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 183

صحيح مسلم حدیث نمبر: 278
حدثنا يعقوب الدورقي، حدثنا هشيم، أخبرنا حصين، حدثنا أبو ظبيان، قال سمعت أسامة بن زيد بن حارثة، يحدث قال بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحرقة من جهينة فصبحنا القوم فهزمناهم ولحقت أنا ورجل من الأنصار رجلا منهم فلما غشيناه قال لا إله إلا الله ‏.‏ فكف عنه الأنصاري وطعنته برمحي حتى قتلته ‏.‏ قال فلما قدمنا بلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي ‏"‏ يا أسامة أقتلته بعد ما قال لا إله إلا الله ‏"‏ ‏.‏ قال قلت يا رسول الله إنما كان متعوذا ‏.‏ قال فقال ‏"‏ أقتلته بعد ما قال لا إله إلا الله ‏"‏ ‏.‏ قال فمازال يكررها على حتى تمنيت أني لم أكن أسلمت قبل ذلك اليوم ‏.‏
حصین نے کہا : ہمیں ابو ظبیان نے حدیث سنائی ، انہوں نےکہا : میں نے اسامہ بن زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جہینہ کی شاخ ( یا آبادی ) حرقہ کی طرف بھیجا ، ہم نے ان لوگوں پر صبح کے وقت حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی ، جنگ دوران میں ایک انصاری اور میں ان میں سے ایک آدمی تک پہنچ گئے جب ہم نے اسے گھیر لیا ( اور وہ حملے کی زد میں آ گیا ) تو اس نے لا إله إلا الله کہہ دیا ۔ انہوں نے کہا : انصاری اس پر حملہ کرنے سے رک گیا اور میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا ۔ اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کابیان ہے کہ جب ہم واپس آئے تویہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئی ، اس پر آپ نے مجھ سے فرمایا : ’’ اے اسامہ ! کیا تو نے اس کے لا إله إلاالله کہنے کے بعد اسے قتل کر دیا؟ ‘ ‘ کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! وہ تو ( اس کلمے کے ذریعے سے ) محض پناہ حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ کہا : تو آپ نے فرمایا : ’’ کیا تو نے اسے لا إله إلا الله کہنے کے بعد قتل کر دیا ؟ ‘ ‘ حضرت اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : آپ بار بار یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی ( کاش ) میں آج کے دن سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:96.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 184

صحيح مسلم حدیث نمبر: 279
حدثنا أحمد بن الحسن بن خراش، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا معتمر، قال سمعت أبي يحدث، أن خالدا الأثبج ابن أخي، صفوان بن محرز حدث عن صفوان بن محرز، أنه حدث أن جندب بن عبد الله البجلي بعث إلى عسعس بن سلامة زمن فتنة ابن الزبير فقال اجمع لي نفرا من إخوانك حتى أحدثهم ‏.‏ فبعث رسولا إليهم فلما اجتمعوا جاء جندب وعليه برنس أصفر فقال تحدثوا بما كنتم تحدثون به ‏.‏ حتى دار الحديث فلما دار الحديث إليه حسر البرنس عن رأسه فقال إني أتيتكم ولا أريد أن أخبركم عن نبيكم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا من المسلمين إلى قوم من المشركين وإنهم التقوا فكان رجل من المشركين إذا شاء أن يقصد إلى رجل من المسلمين قصد له فقتله وإن رجلا من المسلمين قصد غفلته قال وكنا نحدث أنه أسامة بن زيد فلما رفع عليه السيف قال لا إله إلا الله ‏.‏ فقتله فجاء البشير إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله فأخبره حتى أخبره خبر الرجل كيف صنع فدعاه فسأله فقال ‏"‏ لم قتلته ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله أوجع في المسلمين وقتل فلانا وفلانا - وسمى له نفرا - وإني حملت عليه فلما رأى السيف قال لا إله إلا الله ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أقتلته ‏"‏ ‏.‏ قال نعم ‏.‏ قال ‏"‏ فكيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله استغفر لي ‏.‏ قال ‏"‏ وكيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ قال فجعل لا يزيده على أن يقول ‏"‏ كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
صفوان بن محرز نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فتنے کے زمانے میں جندب بن عبد اللہ بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے عسعس بن سلامہ کو پیغام بھیجا اور کہا : میرے لیے اپنے ساتھیوں میں ایک نفری ( نفرتیں سے دس تک کی جماعت ) جمع کرو تاکہ میں ان سے بات کروں : چنانچہ عسعس نے اپنے ان ساتھیوں کی جانب ایک قاصد بھیجا جب و ہ جمع ہو گئے تو جندب ایک زرد رنگ کی لمبی ٹوپی پہنے ہوئےآئے اور کہا : جو باتیں تم کر رہے تھے ، وہ کرتے رہو ۔ یہاں تک کہ بات چیت کا دور چل پڑا ۔ جب بات ان تک پہنچی ( ان کے بولنے کی باری آئی ) تو انہوں نے اپنے سر سےلمبی ٹو‎پی اتار دی اور کہا : میں تمہارے پاس آیاتھا اور میرا ارادہ یہ نہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی سے کوئی حدیث سناؤں ( لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے ) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کی ایک قوم کی طرف بھیجا اور ان کے آمنا سامنا ہوا ۔ مشرکوں کا ایک آدمی تھا ، وہ جب مسلمانوں کے کسی آدمی پر حملہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا اور اسے قتل کر دیتا ۔ اور مسلمانوں کا ایک آدمی تھا جو اس ( مشرک ) کی بے دھیانی کا متلاشی تھا ، ( جندب بن عبد اللہ نے ) کہا : ہم ایک دوسرےسے کہتے تھے کہ وہ اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ہیں ۔ جب ان کی تلوار مارنے کی باری آئی تو اس نے لا إله إلا الله کہہ دیا ۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ فتح کی خوش خبری دینے والا نبی ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس سے ( حالات کے متعلق ) پوچھا ، اس نے آپ کو حالات بتائے حتی کہ اس آدمی ( حضرت اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) کی خبر بھی دے دی کہ انہوں کیا کیا ۔ آپ نے انہیں بلا کر پوچھا اور فرمایا : ’’ تم نے اسے کیوں قتل کیا ؟ ‘ ‘ ا نہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس نے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچائی تھی اور فلاں فلاں کو قتل کیا تھا ، انہوں نے کچھ لوگوں کے نام گنوائے ، ( پھر کہا : ) میں اس پر حملہ کیا ، اس نے جب تلوار دیکھی تو لا إله إلا الله کہہ دیا ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟ ‘ ‘ ( اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) کہا ، جی ہاں ! فرمایا : ’’قیامت کے دن جب لا إله إلا الله ( تمہارے سامنے ) آئے گا تو اس کا کیا کرو گے ؟ ‘ ‘ ( اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) عرض کی : اے اللہ کے رسول ! میرے لیے بخشش طلب کیجیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’قیامت کےدن ( تمہارے سامنے کلمہ ) لا إله إلاالله آئے گا تو اس کا کیا کرو گے ؟ ‘ ‘ ( جندب بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : رسول اللہ ﷺ ان سے مزید کوئی بات نہیں کر رہے تھے ، یہی کہہ رہے تھے : ’’قیامت کے دن لا إله إلا الله ( تمہارے سامنے ) آئے گا تو اس کیا کرو گے ؟ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:97

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 185

صحيح مسلم حدیث نمبر: 280
حدثني زهير بن حرب، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا يحيى، - وهو القطان - ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، وابن، نمير كلهم عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - قال قرأت على مالك عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من حمل علينا السلاح فليس منا ‏"‏ ‏.‏
عبید ا للہ اور امام مالک نےنافع سے اور انہو ں نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے ہمارے خلاف اسلحہ اٹھایا ، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ‘ ‘ <ہیڈنگ 1>

صحيح مسلم حدیث نمبر:98

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 186

صحيح مسلم حدیث نمبر: 281
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن، نمير قالا حدثنا مصعب، - وهو ابن المقدام - حدثنا عكرمة بن عمار، عن إياس بن سلمة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من سل علينا السيف فليس منا ‏"‏ ‏.‏
ایاس بن سلمہ نے اپنے والد سے ، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نےہم پر تلوار سونتی ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:99

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 187

صحيح مسلم حدیث نمبر: 282
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وعبد الله بن براد الأشعري، وأبو كريب قالوا حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من حمل علينا السلاح فليس منا ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’ جس نے ہمارے خلاف اسلحہ اٹھایا ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:100

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 188

صحيح مسلم حدیث نمبر: 283
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - وهو ابن عبد الرحمن القاري ح وحدثنا أبو الأحوص، محمد بن حيان حدثنا ابن أبي حازم، كلاهما عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا ‏"‏ ‏.‏
سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا ، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:101

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 189

صحيح مسلم حدیث نمبر: 284
وحدثني يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر جميعا عن إسماعيل بن جعفر، - قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، - قال أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، ‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال ‏"‏ ما هذا يا صاحب الطعام ‏"‏ ‏.‏ قال أصابته السماء يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ أفلا جعلته فوق الطعام كى يراه الناس من غش فليس مني ‏"‏ ‏.‏
علاء نےاپنے والد عبدالرحمن بن یعقوب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا ، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا : ’’ غلے کے مالک! یہ کیا ہے ؟ ‘ ‘ اس نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اس پر بارش پڑ گئی تھی ۔ آپ نے فرمایا : ’’ توتم نے اسے ( بھیگے ہوئے غلے ) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے ؟ جس نے دھوکا کیا ، وہ مجھ سے نہیں ۔ ‘ ‘ ( ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:102

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 190

صحيح مسلم حدیث نمبر: 285
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو معاوية، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي جميعا، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس منا من ضرب الخدود أو شق الجيوب أو دعا بدعوى الجاهلية ‏"‏ ‏.‏ هذا حديث يحيى وأما ابن نمير وأبو بكر فقالا ‏"‏ وشق ودعا ‏"‏ بغير ألف ‏.‏
یحییٰ بن یحییٰ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں ابو معاویہ اور وکیع نے حدیث بیان کی ، نیز ( محمد بن عبد اللہ ) ابن نمیر نے کہا : ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی ، ان سب ( ابو معاویہ ، وکیع اور ابن نمیر ) نے اعمش سے ، انہوں نے عبد اللہ بن مرہ سے ، انہو ں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کیا یا اہل جاہلیت کی طرح پکارا ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘ ‘ یہ یحییٰ کی حدیث ہے ( جو انہوں نے ابو معاویہ کے واسطے سے بیان کی ۔ ) البتہ ( محمد ) ابن نمیر اور ابو بکر بن ابی شیبہ ( جنہوں نے ابو معاویہ او روکیع دونوں سے روایت کی ) نے ’’او ‘ ‘ کے بجائے الف کے بغیر ’و ‘ ( ’’یا ‘ ‘ کےبجاےئ’’اور ‘ ‘ ) کہا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:103.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 191

صحيح مسلم حدیث نمبر: 286
وحدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعلي بن خشرم، قالا حدثنا عيسى بن يونس، جميعا عن الأعمش، بهذا الإسناد وقالا ‏ "‏ وشق ودعا ‏"‏ ‏.‏
جریر او رعیسیٰ نے اعمش سے اسی ( سابقہ ) سند کے ساتھ روایت کی اور دونوں نے کہا : ’’ اور گریبان چاک کیا اور پکارا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:103.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 192

صحيح مسلم حدیث نمبر: 287
حدثنا الحكم بن موسى القنطري، حدثنا يحيى بن حمزة، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، أن القاسم بن مخيمرة، حدثه قال حدثني أبو بردة بن أبي موسى، قال وجع أبو موسى وجعا فغشي عليه ورأسه في حجر امرأة من أهله فصاحت امرأة من أهله فلم يستطع أن يرد عليها شيئا فلما أفاق قال أنا بريء مما برئ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم برئ من الصالقة والحالقة والشاقة ‏.‏
قاسم بن مخیمرہ نے بیان کیا کہ مجھے ابو بردہ بن ابی موسیٰ ( اشعری ) نے بیان کیا ، انہوں نے فرمایا : ’’ حضرت ابو موسیٰ ( اشعری ) نے بیان کیا ، انہوں نے فرمایا : حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ایسے شدید بیمار ہوئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی ، ا ن کا سر ان کے اہل خانہ میں سے ایک عورت کی گود میں تھا ، ( اس موقع پر ) ان کے اہل میں سے ایک عورت چیخنے لگی ، حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ( شدید کمزوری کی وجہ سے ) اسے کوی جواب نہ دے سکے ۔ جب افاقہ ہوا تو کہنے لکے : میں اس بات سے بری ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ نے براءت کا اظہار فرمایا ۔ رسول اللہ ﷺ نے چلا کر ماتم کرنےوالی ، سر منڈانے و الی اور گریبان چاک کرنے والی ( عورتون ) سے لا تعلقی کا اظہار فرمایا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:104.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 193

صحيح مسلم حدیث نمبر: 288
حدثنا عبد بن حميد، وإسحاق بن منصور، قالا أخبرنا جعفر بن عون، أخبرنا أبو عميس، قال سمعت أبا صخرة، يذكر عن عبد الرحمن بن يزيد، وأبي، بردة بن أبي موسى قالا أغمي على أبي موسى وأقبلت امرأته أم عبد الله تصيح برنة ‏.‏ قالا ثم أفاق قال ألم تعلمي - وكان يحدثها - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أنا بريء ممن حلق وسلق وخرق ‏"‏ ‏.‏
ابو صخرہ نے عبد الرحمن بن یزید اور ابوبردہ بن ابی موسیٰ سے ( حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے بارے میں ) ذکر کیا ، ان دونوں نے کہا : حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ پرغشی طاری ہو ئی اور ان کی بیوی ام عبد اللہ چیختے ہوئے رونے کی آواز نکالتی آئیں ، کہا : پھر انہیں افاقہ ہوا تو اسے حدیث سناتے ہوئے بولے : کیا تو نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ میں اس سے بری ہوں جو ( غم کے اظہار کے لیے ) سرمونڈتے ، چیخے چلائے اور کپڑے پھاڑے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:104.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 194

صحيح مسلم حدیث نمبر: 289
حدثنا عبد الله بن مطيع، حدثنا هشيم، عن حصين، عن عياض الأشعري، عن امرأة أبي موسى، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنيه حجاج بن الشاعر، حدثنا عبد الصمد، قال حدثني أبي، حدثنا داود، - يعني ابن أبي هند - حدثنا عاصم، عن صفوان بن محرز، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثني الحسن بن علي الحلواني، حدثنا عبد الصمد، أخبرنا شعبة، عن عبد الملك بن عمير، عن ربعي بن حراش، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث ‏.‏ غير أن في حديث عياض الأشعري قال ‏"‏ ليس منا ‏"‏ ‏.‏ ولم يقل ‏"‏ بريء ‏"‏ ‏.‏
امام مسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے تین دیگر سندوں سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی مذکورہ بالا روایت بیان کی جن میں عیاض اشعری نے ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کی زوجہ سے ، انہوں نے ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے واسطے سے رسول ا للہ ﷺ سے روایت کی او رباقی دو سندوں میں حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کرنے والے صفوان بن محرز اور ربعی بن حراش ہیں جبکہ عیاض اشعری کی حدیث میں : ’’بری ہوں ‘ ‘ کے بجائے : ’’ ہم میں سے نہیں ‘ ‘ کےالفاظ ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:104.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 195

صحيح مسلم حدیث نمبر: 290
وحدثني شيبان بن فروخ، وعبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، قالا حدثنا مهدي، - وهو ابن ميمون - حدثنا واصل الأحدب، عن أبي وائل، عن حذيفة، أنه بلغه أن رجلا، ينم الحديث فقال حذيفة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لا يدخل الجنة نمام ‏"‏ ‏.‏
ابووائل نےحضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث روایت کی کہ ان کو پتہ چلا کہ ایک آدمی ( لوگوں کی باہمی ) بات چیت کی چغلی کھاتا ہے توحذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے : ’’ چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:105.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 196

صحيح مسلم حدیث نمبر: 291
حدثنا علي بن حجر السعدي، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال كان رجل ينقل الحديث إلى الأمير فكنا جلوسا في المسجد فقال القوم هذا ممن ينقل الحديث إلى الأمير ‏.‏ قال فجاء حتى جلس إلينا ‏.‏ فقال حذيفة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لا يدخل الجنة قتات ‏"‏ ‏.‏
منصور نے ابراہیم سے اور انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی ( لوگوں کی ) باتیں حاکم تک پہنچاتا تھا ، ہم مسجد میں بیٹھے ہوئےتھے تو لوگوں نے کہا : یہ ان میں سے ہے جو باتیں حاکم تک پہنچاتے ہیں ۔ ( ہمام نے ) نےکہا : وہ شخص آیا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا ۔ حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:105.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 197

صحيح مسلم حدیث نمبر: 292
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، عن الأعمش، ح وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي، - واللفظ له - أخبرنا ابن مسهر، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال كنا جلوسا مع حذيفة في المسجد فجاء رجل حتى جلس إلينا فقيل لحذيفة إن هذا يرفع إلى السلطان أشياء ‏.‏ فقال حذيفة - إرادة أن يسمعه - سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لا يدخل الجنة قتات ‏"‏ ‏.‏
اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہم حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا ۔ حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو بتایا گیاکہ یہ شخص ( لوگوں کی ) باتیں حکمران تک پہنچاتا ہے تو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اسے سنانے کی غرض سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے : ’’ چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:105.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 198

صحيح مسلم حدیث نمبر: 293
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار قالوا حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن علي بن مدرك، عن أبي زرعة، عن خرشة بن الحر، عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم ‏"‏ قال فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرار ‏.‏ قال أبو ذر خابوا وخسروا من هم يا رسول الله قال ‏"‏ المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ‏"‏ ‏.‏
ابو زرعہ سے خرشہ بن حر سے انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’ تین ( قسم کے لوگ ) ہیں اللہ ان سے گفتگو نہیں کرے گا ، نہ قیامت کے روز ان کی طرف سے دیکھے گا اور نہ انہیں ( گناہوں سے ) پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ۔ ‘ ‘ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : آپ نے اسے تین دفعہ پڑھا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : ناکام ہو گئے اور نقصان سے دو چار ہوئے ، اے اللہ کے رسول ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : ’’ اپنا کپڑا ( ٹخنوں سے ) نیچے لٹکانےوالا ، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:106.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 199

صحيح مسلم حدیث نمبر: 294
وحدثني أبو بكر بن خلاد الباهلي، حدثنا يحيى، - وهو القطان - حدثنا سفيان، حدثنا سليمان الأعمش، عن سليمان بن مسهر، عن خرشة بن الحر، عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة المنان الذي لا يعطي شيئا إلا منه والمنفق سلعته بالحلف الفاجر والمسبل إزاره ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے کہا : ہمیں سلیمان اعمش نے سلیمان بن مسہر سے حدیث سنائی ، انہوں نے خرشہ بن حر سے روایت کی ، انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’تین ( قسم کے لوگ ) ہیں ، قیامت کے دن اللہ ان سےبات نہیں کرے گا : منان ، یعنی جو احسان جتلانے کے لیے کسی کو کوئی چیز دیتا ہے ۔ وہ جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنے سامان کی مانگ بڑھاتا ہے اور جو اپنا تہبند ( ٹخنوں سے نیچے ) لٹکاتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:106.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 200

صحيح مسلم حدیث نمبر: 295
وحدثنيه بشر بن خالد، حدثنا محمد، - يعني ابن جعفر - عن شعبة، قال سمعت سليمان، بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم ‏"‏ ‏.‏
(سفیان کے بجائے ) شعبہ نے سلیمان بن اعمش سے یہی روایت انہی کی سند سے بیان کی کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تین ( لوگوں ) سے اللہ گفتگو نہیں کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:106.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 201

صحيح مسلم حدیث نمبر: 296
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، وأبو معاوية عن الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم - قال أبو معاوية ولا ينظر إليهم - ولهم عذاب أليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر ‏"‏ ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے ، انہون نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : ’’تین ( قسم کے لوگ ) ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک فرمائے گا ( ابو معاویہ ) نے کہا : نہ ان کی طرف دیکھے گا ) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے : بوڑھا زانی ، جھوٹا حکمران اور تکبر کرنے والا عیال دار محتاج ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:107

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 202

صحيح مسلم حدیث نمبر: 297
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، - وهذا حديث أبي بكر - قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف له بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف ‏"‏ ‏.‏
ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب دونوں نے کہا کہ ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( اور یہ الفاظ ابوبکر کی حدیث کے ہیں ) انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تین ( قسم کے لوگ ) ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک صاف کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔ ( ایک ) وہ آدمی جو بیابان میں ضرورت سے زائد پانی رکھتا ہے لیکن وہ مسافر کو اس سے روکتا ہے ، ( دوسرا ) وہ جس نے کسی آدمی کے ساتھ عصر کےبعد ( عین انسانوں کےاعمال اللہ کے حضور پیش کیے جانے کے وقت ) سامان کا سودا کیا اور اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے یہ سامان اتنی رقم میں لیا ہے جبکہ اس نے اتنے کا نہیں لیا ۔ اور خریدار اس کی بات مان لیتا ہے ۔ اور ( تیسرا ) وہ آدمی جس نے حکمران کی بیعت کی اور صرف دنیا کے لیے کی ( دین کی سربلندی مقصود نہ تھی ۔ ) اگر اس نے اسے اس ( دنیا ) میں سے کچھ دے دیا تو ( اس نے ) وفا کی اور اگر نہیں دیا تو وفادار نہ رہا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:108.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 203

صحيح مسلم حدیث نمبر: 298
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، ح وحدثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، أخبرنا عبثر، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد مثله غير أن في حديث جرير ‏ "‏ ورجل ساوم رجلا بسلعة ‏"‏ ‏.‏
جریر اور عبثر دونوں نے اپنی اپنی سند سے اعمش سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ، البتہ جریر کی روایت میں ( ’’سوداکیا ‘ ‘ کے بجائے ) یہ الفاظ ہیں : ’’ ایک آدمی جس نے دوسرے آدمی کے ساتھ سامان کا بھاؤ کیا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:108.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 204

صحيح مسلم حدیث نمبر: 299
وحدثني عمرو الناقد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، - قال أراه مرفوعا - قال ‏ "‏ ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولهم عذاب أليم رجل حلف على يمين بعد صلاة العصر على مال مسلم فاقتطعه ‏"‏ ‏.‏ وباقي حديثه نحو حديث الأعمش ‏.‏
عمرو نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( انہوں ( ابو صالح ) نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں ( ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ) آپ نے فرمایا : ’’تین ( قسم کے لوگ ) ہیں جن سے اللہ بات کرےگا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ، ایک آدمی جس نے عصر کے بعد مسلمان کے مال کے لیے قسم اٹھائی اور اس کا حق مار لیا ۔ ‘ ‘ حدیث کاباقی حصہ اعمش کی حدیث جیسا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:108.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 205

صحيح مسلم حدیث نمبر: 300
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو سعيد الأشج قالا حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے اعمش سے ، انہوں نے ابو صالح سےاور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے اپنے آپ کو لوہے ( کے ہتھیار ) سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جہنم کی آگ میں رہے گا ، اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا ۔ جس نے زہر پی کر خودکشی کی ، وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جہنم کی آگ میں اسے گھونٹ گھونٹ پیتا رہے گا اورجس نے اپنے آپ کو کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کی ، وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جہنم کی آگ میں پہاڑ سے گرتا رہے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:109.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 206

صحيح مسلم حدیث نمبر: 301
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، ح وحدثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، حدثنا عبثر، ح وحدثني يحيى بن حبيب الحارثي، حدثنا خالد، - يعني ابن الحارث - حدثنا شعبة، كلهم بهذا الإسناد مثله ‏.‏ وفي رواية شعبة عن سليمان قال سمعت ذكوان ‏.‏
جریر ، عبثر بن قاسم اور شعبہ سےبھی ، سابقہ سند کے ساتھ ، مذکورہ بالا روایت بیان کی گئی ہے ۔ شعبہ کی روایت میں ہے : سلیمان ( اعمش ) سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے ذکوان سے سنا ، ( انہوں نے ابو صالح ذکوان سے اپنے سماع کی وضاحت کی ہے)

صحيح مسلم حدیث نمبر:109.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 207

صحيح مسلم حدیث نمبر: 302
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا معاوية بن سلام بن أبي سلام الدمشقي، عن يحيى بن أبي كثير، أن أبا قلابة، أخبره أن ثابت بن الضحاك أخبره أنه، بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من حلف على يمين بملة غير الإسلام كاذبا فهو كما قال ومن قتل نفسه بشىء عذب به يوم القيامة وليس على رجل نذر في شىء لا يملكه ‏"‏ ‏.‏
معاویہ بن سلام دمشقی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی کہ ابو قلابہ نے انہیں خبر دی کہ حضرت ثابت بن ضحاک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے ( حدیبیہ کے مقام پر ) درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی اور یہ کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ہونے کی پختہ قسم کھائی اور ( جس بات پر اس نے قسم کھائی اس میں ) وہ جھوٹا تھا تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا ( اس کاعمل ویسا ہی ہے ۔ ) او رجس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا قیامت کے دن اس کو اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا ۔ اور کسی شخص پر اس چیز کی نذر پوری کرنا لازم نہیں جس کا وہ مالک نہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:110.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 208

صحيح مسلم حدیث نمبر: 303
حدثني أبو غسان المسمعي، حدثنا معاذ، - وهو ابن هشام - قال حدثني أبي، عن يحيى بن أبي كثير، قال حدثني أبو قلابة، عن ثابت بن الضحاك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليس على رجل نذر فيما لا يملك ولعن المؤمن كقتله ومن قتل نفسه بشىء في الدنيا عذب به يوم القيامة ومن ادعى دعوى كاذبة ليتكثر بها لم يزده الله إلا قلة ومن حلف على يمين صبر فاجرة ‏"‏ ‏.‏
ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے سابقہ سند کے ساتھ حدیث سنائی کہ حضرت ثابت بن ضحاک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’ جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے ، اس کےبارے میں ( مانی ہوئی ) نذر اس کے ذمے نہیں ہے ۔ مومن پر لعنت بھیجنا ( گناہ کے اعتبار سے ) اس کے قتل کے مترادف ہے اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا ، قیامت کے دن اسی چیز سے اس کو عذاب دیا جائے گا ، اور جس نے ( مال میں ) اضافے کے لیے جھوٹا دعویٰ کیا ، اللہ تعالیٰ اس ( کے مال ) کی قلت ہی میں اضافہ کرے گا اور جس نے ایسی قسم جو فیصلے کے لیے ناگزیر ہو ، جھوٹی کھائی ( اس کا بھی یہی حال ہو گا ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:110.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 209

صحيح مسلم حدیث نمبر: 304
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وإسحاق بن منصور، وعبد الوارث بن عبد الصمد، كلهم عن عبد الصمد بن عبد الوارث، عن شعبة، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن ثابت بن الضحاك الأنصاري، ح
شعبہ نے ایوب سے ، انہوں نے ابو قلابہ سے اور انہوں نے حضرت ثابت بن ضحاک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، نیز سفیان ثوری نے بھی خالدحذاء سے ، انہوں نے ابو قلابہ سے ارو انہوں نے حضرت ثابت بن ضحاک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے جان بوجھ کر اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنے قول کے مطابق ( اسی مذہب سے ) ہو گا اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا ، اللہ اس کو جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دے گا ۔ ‘ ‘ یہ سفیان کی بیان کردہ حدیث ہے ۔ اور شعبہ کی روایت یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائی ( اس روایت میں ’’جان بوجھ کر ‘ ‘ کے الفاظ نہیں ) تو وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے کہا ہے اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کر ڈالا ، اسے قیامت کے دن اسی چیز سے ذبح کیا جائے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:110.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 210

صحيح مسلم حدیث نمبر: 305
وحدثنا محمد بن رافع، وعبد بن حميد، جميعا عن عبد الرزاق، - قال ابن رافع حدثنا عبد الرزاق، - أخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة، قال شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا فقال لرجل ممن يدعى بالإسلام ‏"‏ هذا من أهل النار ‏"‏ فلما حضرنا القتال قاتل الرجل قتالا شديدا فأصابته جراحة فقيل يا رسول الله الرجل الذي قلت له آنفا ‏"‏ إنه من أهل النار ‏"‏ فإنه قاتل اليوم قتالا شديدا وقد مات ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إلى النار ‏"‏ فكاد بعض المسلمين أن يرتاب فبينما هم على ذلك إذ قيل إنه لم يمت ولكن به جراحا شديدا فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح فقتل نفسه فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك فقال ‏"‏ الله أكبر أشهد أني عبد الله ورسوله ‏"‏ ‏.‏ ثم أمر بلالا فنادى في الناس ‏"‏ إنه لا يدخل الجنة إلا ن��فس مسلمة وإن الله يؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جنگ حنین میں شریک ہوئے تو آپﷺ نے ایک آدمی کے بارے میں ، جسے مسلمان کہا جاتا تھا ، فرمایا : ’’ یہ جہنمیوں میں سے ہے ۔ ‘ ‘ جب ہم لڑائی میں گئے تو اس آدمی نے بڑی زور دار جنگ لڑی جس کی وجہ سے اسے زخم لگ گئے اس پر آپ کی خدمت میں عرض کی گئی : اے اللہ کے رسول ! و ہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی فرمایا تھا : ’’ وہ جہنمیوں میں سے ہے ‘ ‘ اس نے تو آج بڑی شدید جنگ لڑی ہے اور وہ مرچکا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ آگ کی طرف ( جائے گا ۔ ) ‘ ‘ بعض مسلمان آپ کے اس فرمان کو بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہونے لگے ، ( کہ ایسا جانثار کیسے دوزخی ہو سکتا ہے ۔ ) لوگ اسی حالت میں تھے کہ بتایا گیا : وہ مرانہیں ہے لیکن اسے شدید زخم لگےہیں ۔ جب رات پڑی تو وہ ( اپنے ) زخموں پر صبر نہ کر سکا ، اس نے خود کشی کر لی ۔ آپ اس کی اطلا دی گئی تو آپ نے فرمایا : ’’ اللہ سب سے بڑا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں - ‘ ‘ پھر آپ نے بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو حکم دیاتو انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا : ’’ یقیناً اس جان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا جو اسلام پر ہے اور بلاشبہ اللہ برے لوگوں سے بھی اس دین کی تائید کراتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:111

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 212

صحيح مسلم حدیث نمبر: 306
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب، - وهو ابن عبد الرحمن القاري - حى من العرب - عن أبي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم التقى هو والمشركون فاقتتلوا ‏.‏ فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره ومال الآخرون إلى عسكرهم وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه فقالوا ما أجزأ منا اليوم أحد كما أجزأ فلان ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما إنه من أهل النار ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل من القوم أنا صاحبه أبدا ‏.‏ قال فخرج معه كلما وقف وقف معه وإذا أسرع أسرع معه - قال - فجرح الرجل جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه بالأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل على سيفه فقتل نفسه فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أشهد أنك رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ وما ذاك ‏"‏ ‏.‏ قال الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار فأعظم الناس ذلك فقلت أنا لكم به فخرجت في طلبه حتى جرح جرحا شديدا فاستعجل الموت فوضع نصل سيفه بالأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك ‏"‏ إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏
حضرت سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی ، پھر رسول اللہ ﷺ اپنی لشکر گاہ کی طرف پلٹے او ر فریق ثانی اپنی لشکر گاہ کی طرف مڑا ۔ رسو ل اللہ ﷺ کا ساتھ دینے والوں میں سےایک آدمی تھا جودشمنوں ( کی صفوں ) سے الگ رہ جانے والوں کو نہ چھوڑتا ، ان کا تعاقب کرتا اور انہیں اپنی تلوار کا نشانہ بنا دیتا ، لوگوں نے کہا : آج ہم نے میں سے فلاں نے جو کردکھایا کسی اور نے نہیں کیا ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص اہل جہنم میں سے ہے ۔ ‘ ‘ لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا : میں مستقل طور پر اس کے ساتھ رہوں گا ۔ سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : وہ آدمی اس کے ہمراہ نکلا ۔ جہاں وہ ٹھہرتا وہیں یہ ٹھہر جاتا اور جب وہ اپنی رفتار تیز کرتا تو اس کے ساتھ یہ بھی تیز چل پڑتا ۔ ( آخر کار ) وہ آدمی شدید زخمی ہو گیا ، اس نے جلد مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ ( تلوار کا دستہ ) زمیں پر رکھا اور اس کی دھار اپنی چھاتی کے درمیان رکھی ، پھر اپنی تلوار سے اپنا پورا وزن ڈال کر خودکشی کر لی ۔ وہ ( پیچھا کرنے والا ) آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ نے پوچھا : ’’ کیا ہوا ؟ ‘ ‘ تو اس نے کہا ، وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی بتایا تھا کہ و ہ دوزخی ہے اور لوگوں سے اسے غیر معمولی بات سمجھا تھا ۔ اس پر میں نے ( لوگوں سے ) کہا : میں تمہارے لیے اس کا پتہ لگاؤں لگا ۔ میں اس کے پیچھے نکلا یہاں تک کہ وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس نے جلدی مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ ( دستہ ) زمین پر اور اس کی دھار چھاتی کے درمیان رکھی ، پھر اس پر اپنا پورا بوجھ ڈال دیا اور خود کو مار ڈالا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی جنتیون کے سے کام کرتا ہے ، حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ ( انجام کار ) وہ جنتی ہوتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:112

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 213

صحيح مسلم حدیث نمبر: 307
حدثني محمد بن رافع، حدثنا الزبيري، - وهو محمد بن عبد الله بن الزبير - حدثنا شيبان، قال سمعت الحسن، يقول ‏ "‏ إن رجلا ممن كان قبلكم خرجت به قرحة فلما آذته انتزع سهما من كنانته فنكأها فلم يرقإ الدم حتى مات ‏.‏ قال ربكم قد حرمت عليه الجنة ‏"‏ ‏.‏ ثم مد يده إلى المسجد فقال إي والله لقد حدثني بهذا الحديث جندب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المسجد ‏.‏
شیبان نے بیان کیا کہ میں نےحسن ( بصری ) کو کہتے ہوئے سنا : ’’ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی تھا ، اسے پھوڑا نکلا ، جب اس نے اسے اذیت دی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا او راس پھوڑے کو چیر دیا ، خون بند نہ ہو ا ، حتی کہ وہ مر گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ۔ ‘ ‘ ( کیونکہ اس نے خودکشی کےلیے ایسا کیا تھا ۔ ) پھر حسن نے مسجد کی طرف سے اپناہاتھ اونچا کیا او رکہا : ہاں ، اللہ کی قسم ! یہ حدیث مجھے جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے رسو ل اللہ ﷺ سے ( روایت کرتے ہوئے ) اسی مسجد میں سنائی تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:113.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 214

صحيح مسلم حدیث نمبر: 308
وحدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا أبي قال، سمعت الحسن، يقول حدثنا جندب بن عبد الله البجلي، في هذا المسجد فما نسينا وما نخشى أن يكون جندب كذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ خرج برجل فيمن كان قبلكم خراج ‏"‏ ‏.‏ فذكر نحوه ‏.‏
(شیبان کے بجائے ) جریر نے بیان کیا کہ میں نے حسن کو کہتے ہوئے سنا : ’’ ہمیں جندب بن عبد اللہ بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اسی مسجد میں یہ حدیث سنائی ، نہ ہم بھولے ہیں اور نہ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ جندب نے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے ۔ جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہ ﷺ : ’’تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو پھوڑا نکلا .... ‘ ‘ پھر اسی ( سابقہ حدیث ) جیسی حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:113.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 215

صحيح مسلم حدیث نمبر: 309
حدثني زهير بن حرب، حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا عكرمة بن عمار، قال حدثني سماك الحنفي أبو زميل، قال حدثني عبد الله بن عباس، قال حدثني عمر بن الخطاب، قال لما كان يوم خيبر أقبل نفر من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا فلان شهيد فلان شهيد حتى مروا على رجل فقالوا فلان شهيد ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كلا إني رأيته في النار في بردة غلها أو عباءة ‏"‏ ‏.‏ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ‏"‏ ‏.‏ قال فخرجت فناديت ‏"‏ ألا إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے حضرت عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حدیث سنائی ، کہا : خیبر ( کی جنگ ) کا دن تھا ، نبی ﷺ کے کچھ صحابہ آئے اور کہنے لگے : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے : وہ شہید ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہرگز نہیں ، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا ( چوری کرنے ) کی نبا پر آگ میں دیکھا ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اے خطاب کے بیتے ! جاکر لوگوں میں ا علان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘ انہوں نے کہا : میں باہر نکلا اور ( لوگوں میں ) اعلان کیا : متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:114

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 216

صحيح مسلم حدیث نمبر: 310
حدثني أبو الطاهر، قال أخبرني ابن وهب، عن مالك بن أنس، عن ثور بن زيد الدؤلي، عن سالم أبي الغيث، مولى ابن مطيع عن أبي هريرة، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد، - وهذا حديثه - حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - عن ثور، عن أبي الغيث، عن أبي هريرة، قال خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر ففتح الله علينا فلم نغنم ذهبا ولا ورقا غنمنا المتاع والطعام والثياب ثم انطلقنا إلى الوادي ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد له وهبه له رجل من جذام يدعى رفاعة بن زيد من بني الضبيب فلما نزلنا الوادي قام عبد رسول الله صلى الله عليه وسلم يحل رحله فرمي بسهم فكان فيه حتفه فقلنا هنيئا له الشهادة يا رسول الله ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كلا والذي نفس محمد بيده إن الشملة لتلتهب عليه نارا أخذها من الغنائم يوم خيبر لم تصبها المقاسم ‏"‏ ‏.‏ قال ففزع الناس ‏.‏ فجاء رجل بشراك أو شراكين ‏.‏ فقال يا رسول الله أصبت يوم خيبر ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ شراك من نار أو شراكان من نار ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم نبی ﷺ کی معیت میں خیبر کی طرف نکلے ، اللہ نے ہمیں فتح عنایت فرمائی ، غنیمت میں ہمیں سنا یا چاندی نہ ملا ، غنیمت میں سامان ، غلہ اور کپڑے ملے ، پھر ہم وادی ( القری ) کی طر ف چل پڑے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلے کے ایک آدمی نے ، جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا اور ( جذام کی شاخ ) بنو صبیب سے اس کا تعلق تھا ، آپ کو ہبہ کیا تھا ۔ جب ہم نے اس وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ کہ ( یہ ) غلام آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا ، اسے ( دور سے ) تیر کا نشانہ بنایا گیا اور اسی اس کی موت واقع ہو گئی ۔ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اسے شہادت مبارک ہو ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ہرگز نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے ! اوڑھنے کی وہ چادر اس پر آگ کے شعلے برسا رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن اس کے تقسیم ہونے سے پہلے اٹھائی تھی ۔ ‘ ‘ یہ سن کر لوگ خوف زدہ ہو گئے ، ایک آدمی ایک یا دوتسمے لے آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! خیبر کے دن میں نے لیے تھے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:115

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 217

صحيح مسلم حدیث نمبر: 311
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن سليمان، - قال أبو بكر حدثنا سليمان بن حرب، - حدثنا حماد بن زيد، عن حجاج الصواف، عن أبي الزبير، عن جابر، أن الطفيل بن عمرو الدوسي، أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله هل لك في حصن حصين ومنعة - قال حصن كان لدوس في الجاهلية - فأبى ذلك النبي صلى الله عليه وسلم للذي ذخر الله للأنصار فلما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة هاجر إليه الطفيل بن عمرو وهاجر معه رجل من قومه فاجتووا المدينة فمرض فجزع فأخذ مشاقص له فقطع بها براجمه فشخبت يداه حتى مات فرآه الطفيل بن عمرو في منامه فرآه وهيئته حسنة ورآه مغطيا يديه فقال له ما صنع بك ربك فقال غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم فقال ما لي أراك مغطيا يديك قال قيل لي لن نصلح منك ما أفسدت ‏.‏ فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللهم وليديه فاغفر ‏"‏
حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کو ایک مضبوط قلعے اور تحفظ کی ضرورت ہے ؟ ( روایت کرنےوالے نے کہا : یہ ایک قلعہ تھا جو جاہلیت کے دور مین بنو دوس کی ملکیت تھا ) آپ نے اس ( کو قبول کرنے ) سے انکار کر دیا ۔ کیونکہ یہ سعادت اللہ نے انصار کے حصے میں رکھی تھی ، پھر جب نبی ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو طفیل بن عمرو بھی ہجرت کر کے آپ کے پاس آ گئے ، ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی ، انہوں نے مدینہ کی آب و ہوا ناموافق پائی تو وہ آدمی بیمار ہوا اور گھبرا گیا ، اس نے اپنے چوڑے پھل والے تیر لیے اور ان سے اپنی انگلیوں کے اندرونی طرف کے جوڑ کاٹ ڈالے ، اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہا حتی کہ وہ مر گیا ۔ طفیل بن عمرو نے اسے خواب میں دیکھا ، انہوں نے دیکھا کہ اس کی حالت اچھی تھی اور ( یہ بھی ) دیکھا کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپنے ہوئے تھے ۔ طفیل نے ( عالم خواب میں ) اس سے کہا : تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ اس نے کہا : اس نے اپنے نبی کی طرف میری ہجرت کے سبب مجھے بخش دیا ۔ انہوں نے پوچھا : میں تمہیں دونوں ہاتھ ڈھانپے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے کہا : مجھ سے کہا گیا : ( اپنا ) جو کچھ تم نے خود ہی خراب کیا ہے ، ہم اسے درست نہیں کریں گے ۔ طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ ! اس کے دونوں ہاتھ کو بھی بخش دے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:116

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 218

صحيح مسلم حدیث نمبر: 312
حدثنا أحمد بن عبدة الضبي، حدثنا عبد العزيز بن محمد، وأبو علقمة الفروي قالا حدثنا صفوان بن سليم، عن عبد الله بن سلمان، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله يبعث ريحا من اليمن ألين من الحرير فلا تدع أحدا في قلبه - قال أبو علقمة مثقال حبة وقال عبد العزيز مثقال ذرة - من إيمان إلا قبضته ‏"‏ ‏.‏
عبدالعزیز بن محمد اور ابو علقمہ فروی نے کہا : ہمیں صفوان بن سلیم نے عبد اللہ بن سلمان کے واسطے سے ان کےوالد ( سلمان ) سے حدیث سنائی ، انہو ں نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بے شک اللہ تعالیٰ یمن سے ایک ہوا بھیجے گا جو ریشم سےزیادہ نرم ہو گی اور کسی ایسے شخص کو نہ چھوڑے گی جس کے دل میں ( ابو علقمہ نے کہا : ایک دانے کے برابر اور عبد العزیز نے کہا : ایک ذرے کے برابر بھی ) ایمان ہو گا مگر اس کی روح قبض کر لے گی ۔ ‘ ‘ ( ایک ذرہ بھی ہو لیکن ایمان ہوتو نفع بخش ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:117

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 219

صحيح مسلم حدیث نمبر: 313
حدثني يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر جميعا عن إسماعيل بن جعفر، - قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل، - قال أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا ‏"‏ ‏.‏
ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے ، ( نیک ) اعمال کرنے میں جلدی کرو ۔ ( ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مو من ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر ، اپنا دین ( ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتاہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:118

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 220

صحيح مسلم حدیث نمبر: 314
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن أنس بن مالك، أنه قال لما نزلت هذه الآية ‏{‏ يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي‏}‏ إلى آخر الآية جلس ثابت بن قيس في بيته وقال أنا من أهل النار ‏.‏ واحتبس عن النبي صلى الله عليه وسلم فسأل النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن معاذ فقال ‏"‏ يا أبا عمرو ما شأن ثابت أشتكى ‏"‏ ‏.‏ قال سعد إنه لجاري وما علمت له بشكوى ‏.‏ قال فأتاه سعد فذكر له قول رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ثابت أنزلت هذه الآية ولقد علمتم أني من أرفعكم صوتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنا من أهل النار ‏.‏ فذكر ذلك سعد للنبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بل هو من أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏
حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : جب یہ آیت اتری : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾’’ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے اونچی مت کرو ۔ ‘ ‘ آیت کے آخر تک ۔ تو ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اپنےگھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے : میں تو جہنمی ہوں ۔ انہوں نے ( خودکو ) نبی ﷺ ( کی خدمت میں حاضر ہونے ) سے بھی روک لیا ، رسول ا للہ ﷺنے سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : ’’ ابو عمرو! ثابت کو کیا ہوا ؟ کیا و ہ بیمار ہیں ؟ ‘ ‘ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : وہ میرے پڑوسی ہیں اورمجھے ان کی کسی بیماری کا پتہ نہیں چلا ۔ حضرت انس نے کہا : اس کے بعد سعد ، ثابت رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کی بات بتائی تو ثابت کہنے لگے : یہ آیت اتر چکی ہے اور تم جانتے ہو کہ تم سب میں میری آواز رسول اللہ ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند ہے ، اس بنا پر میں جہنمی ہوں ۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس ( جواب ) کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بلکہ وہ تو اہل جنت میں سے ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:119.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 221

صحيح مسلم حدیث نمبر: 315
وحدثنا قطن بن نسير، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، قال كان ثابت بن قيس بن شماس خطيب الأنصار فلما نزلت هذه الآية ‏.‏ بنحو حديث حماد ‏.‏ وليس في حديثه ذكر سعد بن معاذ ‏.‏
جعفر بن سلیمان نے کہا : ہمیں ثابت ( بنانی ) نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ ثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ انصار کے خطیب تھے ۔ جب یہ آیت اتری ..... آگے حماد کی ( سابقہ ) حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کاذکر نہیں ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:119.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 222

صحيح مسلم حدیث نمبر: 316
وحدثنيه أحمد بن سعيد بن صخر الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس، قال لما نزلت ‏{‏ لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي‏}‏ ولم يذكر سعد بن معاذ في الحديث ‏.‏
(جعفر بن سلیمان کے بجائے ) سلیمان بن مغیرہ نے ثابت ( بنانی ) سے نقل کرتے ہوئے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث روایت کی کہ جب یہ آیت اتری : ﴿ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ﴾..... انہوں نے بھی سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:119.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 223

صحيح مسلم حدیث نمبر: 317
وحدثنا هريم بن عبد الأعلى الأسدي، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال سمعت أبي يذكر، عن ثابت، عن أنس، قال لما نزلت هذه الآية ‏.‏ واقتص الحديث ‏.‏ ولم يذكر سعد بن معاذ وزاد فكنا نراه يمشي بين أظهرنا رجل من أهل الجنة ‏.‏
معتمر کے والد سلیمان بن طرخان نے ثابت کے واسطے سے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی روایت بیان کی کہ جب یہ آیت اتری ( آگے گزشتہ حدیث بیان کی ) لیکن سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کا ذکر نہیں کیا اور یہ اضافہ کیا : ہم انہیں ( اس طرح ) دیکھتے کہ ہمارے درمیان اہل جنت میں سے ایک فرد چل پھر رہا ہے

صحيح مسلم حدیث نمبر:119.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 224

صحيح مسلم حدیث نمبر: 318
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال قال أناس لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله أنؤاخذ بما عملنا في الجاهلية قال ‏ "‏ أما من أحسن منكم في الإسلام فلا يؤاخذ بها ومن أساء أخذ بعمله في الجاهلية والإسلام ‏"‏ ‏.‏
منصور نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضر ت عبد اللہ ( بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) سے روایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا جاہلیت کےاعمال پر ہمارا مواخذہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے عمل کیے ، اس کا جاہلیت کے اعمال پر مواخذہ نہیں ہو گا اور جس نے برے اعمال کیے ، اس کا جاہلیت اور اسلام دونوں کے اعمال پر مؤاخذہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:120.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 225

صحيح مسلم حدیث نمبر: 319
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي ووكيع، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، - واللفظ له - حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال قلنا يا رسول الله أنؤاخذ بما عملنا في الجاهلية قال ‏ "‏ من أحسن في الإسلام لم يؤاخذ بما عمل في الجاهلية ‏.‏ ومن أساء في الإسلام أخذ بالأول والآخر ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے اعمش کے واسطے سے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے جاہلیت میں جو عمل کیے ، کیا ان کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : ’’جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے عمل کیے ، اس کا ان اعمال پر مؤاخذہ نہیں ہو گا جو اس نے جاہلیت میں کیے اور جس نے اسلام میں برے کام کیے ، وہ اگلے اور پچھلے دونوں طرح کے عملوں پر پکڑا جائے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:120.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 226

صحيح مسلم حدیث نمبر: 320
حدثنا منجاب بن الحارث التميمي، أخبرنا علي بن مسهر، عن الأعمش، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
اعمش کے ایک اور شاگرد علی بن مسہر نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:120.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 227

صحيح مسلم حدیث نمبر: 321
حدثنا محمد بن المثنى العنزي، وأبو معن الرقاشي وإسحاق بن منصور كلهم عن أبي عاصم، - واللفظ لابن المثنى - حدثنا الضحاك، - يعني أبا عاصم - قال أخبرنا حيوة بن شريح، قال حدثني يزيد بن أبي حبيب، عن ابن شماسة المهري، قال حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياقة الموت ‏.‏ فبكى طويلا وحول وجهه إلى الجدار فجعل ابنه يقول يا أبتاه أما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا أما بشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا قال فأقبل بوجهه ‏.‏ فقال إن أفضل ما نعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إني قد كنت على أطباق ثلاث لقد رأيتني وما أحد أشد بغضا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مني ولا أحب إلى أن أكون قد استمكنت منه فقتلته فلو مت على تلك الحال لكنت من أهل النار فلما جعل الله الإسلام في قلبي أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت ابسط يمينك فلأبايعك ‏.‏ فبسط يمينه - قال - فقبضت يدي ‏.‏ قال ‏"‏ ما لك يا عمرو ‏"‏ ‏.‏ قال قلت أردت أن أشترط ‏.‏ قال ‏"‏ تشترط بماذا ‏"‏ ‏.‏ قلت أن يغفر لي ‏.‏ قال ‏"‏ أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها وأن الحج يهدم ما كان قبله ‏"‏ ‏.‏ وما كان أحد أحب إلى من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أجل في عيني منه وما كنت أطيق أن أملأ عينى منه إجلالا له ولو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أكن أملأ عينى منه ولو مت على تلك الحال لرجوت أن أكون من أهل الجنة ثم ولينا أشياء ما أدري ما حالي فيها فإذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا على التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ‏.‏
ابن شماسہ مہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس حاضر ہوئے ، وہ موت کےسفر پر روانہ تھے ، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا ۔ ان کا بیٹا کہنے لگا : ابا جان ! کیا رسو ل اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی ؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی ؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا : جو کچھ ہم ( آیندہ کے لیے ) تیار کرتے ہیں ، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ور محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسو ل ہیں ۔ میں تین درجوں ( مرحلوں ) میں رہا ۔ ( پہلا یہ کہ ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں ۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا ۔ ( دوسرا مرحلے میں ) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں ، آپ نے دایاں ہاتھ پڑھایا ، کہا : تو میں نے اپنا ہاتھ ( پیچھے ) کھینچ لیا ۔ آپ نے فرمایا : ’’عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا : ’’ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : یہ ( شرط ) کہ مجھے معافی مل جائے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے ؟ او رہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس ( ہجرت ) سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تہآ ۔ ‘ ‘ اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی ، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا ، پھر ( تیسرا مرحلہ یہ آیا ) ہم نےکچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی ، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا ؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنےوالی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر ( دعا کرتے ہوئے ) ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے ( اپنی نئی منزل کے ساتھ ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:121

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 228

صحيح مسلم حدیث نمبر: 322
حدثني محمد بن حاتم بن ميمون، وإبراهيم بن دينار، - واللفظ لإبراهيم - قالا حدثنا حجاج، - وهو ابن محمد - عن ابن جريج، قال أخبرني يعلى بن مسلم، أنه سمع سعيد بن جبير، يحدث عن ابن عباس، أن ناسا، من أهل الشرك قتلوا فأكثروا وزنوا فأكثروا ثم أتوا محمدا صلى الله عليه وسلم فقالوا إن الذي تقول وتدعو لحسن ولو تخبرنا أن لما عملنا كفارة فنزل ‏{‏ والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما‏}‏ ونزل ‏{‏ يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏{‏ ‏.‏}
حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ ( جاہلی دور میں ) مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے تھے تو بہت کیے تھے اور زنا کیا تھا تو بہت کیا تھا ، پھر وہ حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگے : آپ جو کچھ فرماتے ہیں اور جس ( راستے ) کی دعوت دیتے ہیں ، یقیناً وہ بہت اچھا ہے ۔ اگر آپ ہمیں بتا دیں کہ جو کام ہم کر چکے ہیں ، ان کا کفارہ ہو سکتا ہے ( تو ہم ایمان لے آئیں گے ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے ، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ‘ ‘ ( ہر مسلمان پر ان ابدی احکام کی پابندی ضروری ہے ) اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اے میرے بندو! جو اپنے اوپر زیادتی کر چکے ہو ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ ( جو اسلام سے پہلے یہ کام کر چکے ان کے بارے میں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ‘ ‘)

صحيح مسلم حدیث نمبر:122

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 229

صحيح مسلم حدیث نمبر: 323
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن حكيم بن حزام، أخبره أنه، قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت أمورا كنت أتحنث بها في الجاهلية هل لي فيها من شىء فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أسلمت على ما أسلفت من خير ‏"‏ ‏.‏ والتحنث التعبد ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ، انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نےخبر دی کہ انہیں حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سےعرض کی : ان کاموں کے بارے میں آپ کیافرماتے ہیں جو میں جاہلیت کے دور میں اللہ کی عبادت کی خاطر کرتا تھا؟ مجھے ان کا کچھ اجر ملے گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو نیک کام پہلے کر چکے ہو تم نے ان سمیت اسلام قبول کیا ہے ۔ ‘ ‘ تخث کا مطلب ہے عبادت گزاری ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:123.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 230

صحيح مسلم حدیث نمبر: 324
وحدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد، - قال الحلواني حدثنا وقال عبد، حدثني - يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن حكيم بن حزام، أخبره أنه، قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم أى رسول الله أرأيت أمورا كنت أتحنث بها في الجاهلية من صدقة أو عتاقة أو صلة رحم أفيها أجر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أسلمت على ما أسلفت من خير ‏"‏ ‏.‏
(یونس کے بجائے ) صالح نے ابن شہاب سے روایت کی ، کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : اللہ کے رسول ! آپ ان اعمال کے بارے کیا فرماتے ہیں جو میں جاہلیت کے دور میں اللہ کی عبادت کے طور کیا کرتا تھا یعنی صدقہ و خیرات ، غلاموں کو آزاد کرنا اور صلہ رحمی ، کیا ان کا اجر ہو گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو بھلائی کےکام تم پہلے کر چکے ہو تم ان سمیت اسلام میں داخل ہوئے ہو ۔ ‘ ‘ ( تمہارے اسلام کے ساتھ وہ بھی شرف قبولیت حاصل کر چکے ہیں کیونکہ وہ بھی شہادتین کی تصدیق کرتے ہیں ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:123.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 231

صحيح مسلم حدیث نمبر: 325
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد، قالا أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، بهذا الإسناد ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا أبو معاوية، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن حكيم بن حزام، قال قلت يا رسول الله أشياء كنت أفعلها في الجاهلية - قال هشام يعني أتبرر بها - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أسلمت على ما أسلفت لك من الخير ‏"‏ ‏.‏ قلت فوالله لا أدع شيئا صنعته في الجاهلية إلا فعلت في الإسلام مثله ‏.‏
ابن شہاب زہری کے ایک اور شاگرد معمر نے اسی ( سابقہ ( سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی ، نیز ( ایک دوسری سند کے ساتھ ) ابو معاویہ نے ہمیں خبر : ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی ، انہون نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : وہ ( بھلائی کی ) چیزیں ( کام ) جو میں جاہلیت کے دور میں کیا کرتا تھا؟ ( ہشام نے کہا : ان کی مراد تھی کہ میں نیکی کےلیے کرتا تھا ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم اس بھلائی سمیت اسلام میں داخل ہوئے جو تم نے پہلے کی ۔ ‘ ‘ میں نےکہا : اللہ کی قسم ! میں نے جو ( نیک ) کام جاہلیت میں کیے تھے ، ان میں سے کوئی عمل نہیں چھوڑوں گا مگر اس جیسے کام اسلام میں بھی کروں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:123.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 232

صحيح مسلم حدیث نمبر: 326
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن حكيم بن حزام، أعتق في الجاهلية مائة رقبة وحمل على مائة بعير ثم أعتق في الإسلام مائة رقبة وحمل على مائة بعير ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر نحو حديثهم ‏.‏
عبد اللہ بن نمیر نے ہشام سے سابقہ سند سے روایت کی کہ حکیم بن حزام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے دور جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ سواری کے لیے ( مستحقین کو ) دیے تھے ، پھر اسلام لانے کے بعد ( دوبارہ ) سو غلام آزاد کیے اور سواونٹ سواری کے لیے دیے ، پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ..... آگے مذکورہ بالا حدیث کے مطابق بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:123.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 233

صحيح مسلم حدیث نمبر: 327
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس، وأبو معاوية ووكيع عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال لما نزلت ‏{‏ الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏}‏ شق ذلك على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالوا أينا لا يظلم نفسه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه ‏{‏ يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏{‏}
عبد اللہ بن ادریس ، ابو معاویہ اور وکیع اعمش نے حدیث سنائی ، انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے علقمہ سے اورانہوں نے حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری : ’’ جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی ۔ ‘ ‘ تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر یہ آیت گراں گزری اور انہوں نے گزارش کی : ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہ کرتا ہو ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو ۔ ظلم وہ ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا : ’’ اے بیٹے! اللہ کےساتھ شرک نہ کرنا ، شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:124.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 234

صحيح مسلم حدیث نمبر: 328
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعلي بن خشرم، قالا أخبرنا عيسى، - وهو ابن يونس ح وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي، أخبرنا ابن مسهر، ح وحدثنا أبو كريب، أخبرنا ابن إدريس، كلهم عن الأعمش، بهذا الإسناد قال أبو كريب قال ابن إدريس حدثنيه أولا أبي، عن أبان بن تغلب، عن الأعمش، ثم سمعته منه، ‏.‏
اسحٰق بن ابراہیم اور علی بن خشرم نے کہا : ہمیں عیسٰی بن یونس نے خبر دی ، نیز منجاب بن حارث تمیمی نے کہا : ہمیں ابن مسہر نے خبر دی ، نیز ابو کریب نے کہا : ہمیں ابن ادریس نے خبر دی ، پھر ان تینوں ( عیسیٰ ، ابن مسہر اور ابن ادریس ) نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی ۔ ابوکریب نے کہا : ابن ادریس نے کہا : پہلے مجھے میرے والد نے ابان بن تغلب سے اور انہوں نے اعمش سے روایت کی ، پھر میں نے یہ روایت خود انہی ( اعمش ) سے سنی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:124.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 235

صحيح مسلم حدیث نمبر: 329
حدثني محمد بن منهال الضرير، وأمية بن بسطام العيشي، - واللفظ لأمية - قالا حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا روح، - وهو ابن القاسم - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال لما نزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏{‏ لله ما في السموات وما في الأرض وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء والله على كل شىء قدير‏}‏ قال فاشتد ذلك على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم بركوا على الركب فقالوا أى رسول الله كلفنا من الأعمال ما نطيق الصلاة والصيام والجهاد والصدقة وقد أنزلت عليك هذه الآية ولا نطيقها ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أتريدون أن تقولوا كما قال أهل الكتابين من قبلكم سمعنا وعصينا بل قولوا سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير ‏"‏ ‏.‏ قالوا سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير ‏.‏ فلما اقترأها القوم ذلت بها ألسنتهم فأنزل الله في إثرها ‏{‏ آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون كل آمن بالله وملائكته وكتبه ورسله لا نفرق بين أحد من رسله وقالوا سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير‏}‏ فلما فعلوا ذلك نسخها الله تعالى فأنزل الله عز وجل ‏{‏ لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا‏}‏ قال نعم ‏{‏ ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا‏}‏ قال نعم ‏{‏ ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به‏}‏ قال نعم ‏{‏ واعف عنا واغفر لنا وارحمنا أنت مولانا فانصرنا على القوم الكافرين‏}‏ قال نعم ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت اتری : ’’ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، اللہ ہی کا ہے اور تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ تعالیٰ اس پر تمہارا محاسبہ کرے گا ، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور ا للہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘ ‘ تو رسول اللہ ﷺ سے ساتھیوں پر یہ بات انتہائی گراں گزری ۔ کہا : وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! ( پہلے ) ہمیں ایسے اعمال کا پابند کیا گیا جو ہماری طاقت میں ہیں : نماز ، روزہ ، جہاد اور صدقہ او راب آپ پر یہ آیت اتری ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تم وہی بات کہنا چاہتے ہو جو تم سے پہلے دونوں اہل کتاب نے کہی : ہم نے سنا اور نافرمانی کی ! بلکہ تم کہو : ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔ اے ہمارے رب ! تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ ‘ ‘ جب صحابہ نے یہ الفاظ دہرانے لگے اور ان کی زبانیں ان الفاظ پر رواں ہو گئیں ، تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ’’رسو ل اللہ ﷺ اس ( ہدایت ) پر ایمان لائے جوان کے رب کی طرف ان پر نازل کی گئی اور سارے مومن بھی ۔ سب ایمان لائے اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ، ( اورکہا : ) ہم ( ایمان لانے میں ) اس کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا : ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی ، اے ہمارے رب !تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ ‘ ‘ چنانچہ جب انہوں نے یہ ( مان کر اس پر عمل ) کیا تو اللہ عزوجل نےاس آیت ( کے ابتدائی معنی ) منسوخ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ اللہ کسی شخص پر اس کی طاق سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اس نے جو ( نیکی ) کمائی اورجو ( برائی ) کمائی ( اس کا وبال ) اسی پر ہے ، اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا ہم خطا کریں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا ۔ ‘ ‘ ( اللہ نے ) فرمایا : ہاں ۔ ( انہوں نے کہا : ) ’’ اے ہمارے پروردگار ! اور ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جوہم سے پہلے ( گزر چکے ) ہیں ۔ ‘ ‘ ( اللہ نے ) فرمایا : ہاں! ( پھر کہا : ) ’’اے ہمارے رب ! ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ۔ ‘ ‘ ( اللہ نے ) فرمایا : ہاں ! ( پھر کہا : ) ’’ او رہم سےدرگزر فرما اور ہمیں بخشش دے اور ہم پر مہربانی فرما ۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے ، پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ۔ ‘ ‘ ( اللہ نے ) فرمایا : ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:125

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 236

صحيح مسلم حدیث نمبر: 330
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب وإسحاق بن إبراهيم - واللفظ لأبي بكر قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا - وكيع، عن سفيان، عن آدم بن سليمان، مولى خالد قال سمعت سعيد بن جبير، يحدث عن ابن عباس، قال لما نزلت هذه الآية ‏{‏ وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله‏}‏ قال دخل قلوبهم منها شىء لم يدخل قلوبهم من شىء فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قولوا سمعنا وأطعنا وسلمنا ‏"‏ ‏.‏ قال فألقى الله الإيمان في قلوبهم فأنزل الله تعالى ‏{‏ لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا‏}‏ قال قد فعلت ‏{‏ ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا‏}‏ - قال قد فعلت ‏{‏ واغفر لنا وارحمنا أنت مولانا‏}‏ قال قد فعلت ‏.‏
حضرت ابن عبا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی : ’’ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے ، اس کو ظاہر کر دیا چھپاؤ ، اللہ اس پر تمہارا مؤاخذہ کرے گا ۔ ‘ ‘ ( ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : اس سے صحابہ کے دلوں میں ایک چیز ( شدید خوف کی کیفیت کہ احکام الہٰی کے اس تقاضے پر عمل نہ ہو سکے گا ) در آئی جو کسی اور بات سے نہیں آئی تھی ۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ کہو : ہم نے سنا او رہم نے اطاعت کی او رہم نے تسلیم کیا ۔ ‘ ‘ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس پر اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اسی کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر ( وبال ) پڑتا ہے ( اسی پر برائی کا ) جس کا اس نے ارتکاب کیا ۔ اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہماری مؤاخذہ نہ کرنا ۔ ‘ ‘ اللہ نے فرمایا : میں نے ایسا کر دیا ۔ ’’ اے ہمارے رب ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے ۔ ‘ ‘ فرمایا : میں ایسا کر دیا ۔ ’’ہمیں بخش دے او رہم پر رحم فرما ، تو ہی ہمارا مولیٰ ہے ۔ ‘ ‘ اللہ نے فرمایا : میں نے ایسا کر دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:126

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 237

صحيح مسلم حدیث نمبر: 331
حدثنا سعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، ومحمد بن عبيد الغبري، - واللفظ لسعيد - قالوا حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله تجاوز لأمتي ما حدثت به أنفسها ما لم يتكلموا أو يعملوا به ‏"‏ ‏.‏
ابو عوانہ نے قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے زرارہ بن اوفیٰ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : رسول ا للہﷺ نے فرمایا : ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ ( دل میں ) اپنے آپ سے کریں : جب تک وہ ان کو زبان پر نہ لائیں یا ان پر عمل نہ کریں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:127.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 238

صحيح مسلم حدیث نمبر: 332
حدثنا عمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، وعبدة بن سليمان، ح وحدثنا ابن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا ابن أبي عدي، كلهم عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن زرارة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله عز وجل تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تكلم به ‏"‏ ‏.‏
سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے ، انہوں نے زرارہ بن اوفیٰ سے اور انہوں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ دل میں اپنے آپ سے کریں ، جب تک اس پر عمل یا کلام نہ کریں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:127.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 239

صحيح مسلم حدیث نمبر: 333
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا وكيع، حدثنا مسعر، وهشام، ح وحدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا الحسين بن علي، عن زائدة، عن شيبان، جميعا عن قتادة، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
مسعر ، ہشام اور شیبان سب نے قتادہ سے سابقہ سند کے ساتھ اسی حدیث کی طرح روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:127.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 240

صحيح مسلم حدیث نمبر: 334
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، - واللفظ لأبي بكر قال إسحاق أخبرنا سفيان، وقال الآخران، حدثنا - ابن عيينة، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ قال الله عز وجل إذا هم عبدي بسيئة فلا تكتبوها عليه فإن عملها فاكتبوها سيئة وإذا هم بحسنة فلم يعملها فاكتبوها حسنة فإن عملها فاكتبوها عشرا ‏"‏ ‏.‏
اعرج نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ عز وجل نے فرمایا : جب میرا بندہ کسی برائی کا قصد کرے تو اس کو ( اس کے نامہ اعمال میں ) نہ لکھو ۔ اگر وہ اس کو کر گزرے تو اسے ایک برائی لکھو ۔ اور جب کسی نیکی کا قصد کرے تو اس کو ایک نیکی لکھ لو ، پھر اگر اس پر عمل کرے تو دس نیکیاں لکھو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:128.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 241

صحيح مسلم حدیث نمبر: 335
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن، حجر قالوا حدثنا إسماعيل، - وهو ابن جعفر - عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قال الله عز وجل إذا هم عبدي بحسنة ولم يعملها كتبتها له حسنة فإن عملها كتبتها عشر حسنات إلى سبعمائة ضعف وإذا هم بسيئة ولم يعملها لم أكتبها عليه فإن عملها كتبتها سيئة واحدة ‏"‏ ‏.‏
علاء کے والد عبد الرحمن بن یعقوب نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے کہا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ کسی نیکی کا قصد کرے اور اس کو عمل میں نہ لائے تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھوں گا ، پھر اگر وہ اسے کر لے تو میں اس کو دس سے سات سو گنا برس تک لکھوں گا اور جب میرا بندہ کسی برائی کا قصدکرے اور اس کو عمل میں نہ لائے تو اس میں اس بندے کے خلاف نہیں لکھوں گا ، پھر اگر وہ اس پر عمل کرے تو میں ایک برائی لکھوں گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:128.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 242

صحيح مسلم حدیث نمبر: 336
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن محمد، رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر أحاديث منها قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قال الله عز وجل إذا تحدث عبدي بأن يعمل حسنة فأنا أكتبها له حسنة ما لم يعمل فإذا عملها فأنا أكتبها بعشر أمثالها وإذا تحدث بأن يعمل سيئة فأنا أغفرها له ما لم يعملها فإذا عملها فأنا أكتبها له بمثلها ‏"‏ ‏.‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قالت الملائكة رب ذاك عبدك يريد أن يعمل سيئة - وهو أبصر به - فقال ارقبوه فإن عملها فاكتبوها له بمثلها ‏.‏ وإن تركها فاكتبوها له حسنة - إنما تركها من جراى ‏"‏ ‏.‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أحسن أحدكم إسلامه فكل حسنة يعملها تكتب بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف وكل سيئة يعملها تكتب بمثلها حتى يلقى الله ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ نے روایت کرتے ہوئے کہا : یہ وہ حدیثیں ہیں جو ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ سے سنائیں ، پھر انہوں نے کچھ احادیث ذکر کیں ، ان میں سے ایک یہ ہے ، کہا : رسو ل اللہ ﷺنے بتایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ ( دل میں ) یہ بات کرتا ہے کہ وہ نیکی کرے گا تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں ، جب تک عمل نہ کرے ، پھر اگر اس کوعمل میں لے آئے تو میں اسے دس گناہ لکھ لیتا ہوں اور جب ( دل میں ) برائی کرنے کی بات کرتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں جب تک اس پر عمل نہ کرے ۔ جب وہ اس کو عمل میں لے آئے تو میں اسے اس کے برابر ( ایک ہی برائی ) لکھتا ہوں ۔ ‘ ‘ اور رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ فرشتوں نے کہا : اے رب ! یہ تیرا بندہ ہے ، برائی کرنا چاہتا ہے او راللہ اس کو خوب دیکھ رہا ہوتا ہے ، اللہ فرماتا ہے : اس پر نظر رکھو ، پس اگر وہ برائی کرے تو اس کے برابر ( ایک برائی ) لکھ لو اور اگر اس کو چھوڑ دے تو اس کے لیے اسے ایک نیکی لکھو ( کیونکہ ) اس نے میری خاطر اسے چھوڑا ہے ۔ ‘ ‘ اوررسو ل اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے ایک انسان اپنے اسلام کو خالص کر لیتا ہے تو ہر نیکی جو وہ کرتا ہے ، دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے اور ہر برائی جو وہ کرتا ہے ، اسے اس کے لیے ایک ہی لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:129

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 243

صحيح مسلم حدیث نمبر: 337
وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو خالد الأحمر، عن هشام، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة ومن هم بحسنة فعملها كتبت له عشرا إلى سبعمائة ضعف ومن هم بسيئة فلم يعملها لم تكتب وإن عملها كتبت ‏"‏ ‏.‏
ابن سیرین نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا ، پھر اس پر عمل نہیں کیا ، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے او رجس نے کسی نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل بھی کیا ، اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں او رجس نے کسی برائی کا ارادہ کیا لیکن اس کا ارتکاب نہیں کیا تو وہ نہیں لکھی جاتی اور اگر اس کا ارتکاب کیا تو وہ لکھی جاتی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:130

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 244

صحيح مسلم حدیث نمبر: 338
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا عبد الوارث، عن الجعد أبي عثمان، حدثنا أبو رجاء العطاردي، عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه تبارك وتعالى قال ‏ "‏ إن الله كتب الحسنات والسيئات ثم بين ذلك فمن هم بحسنة فلم يعملها كتبها الله عنده حسنة كاملة وإن هم بها فعملها كتبها الله عز وجل عنده عشر حسنات إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة وإن هم بسيئة فلم يعملها كتبها الله عنده حسنة كاملة وإن هم بها فعملها كتبها الله سيئة واحدة ‏"‏ ‏.‏
عبدالوارث نے جعد ابو عثمان سے حدیث سنائی ، انہوں نےکہا : ہمیں ابو رجاء عطاردی نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی ، انہوں نے رسو ل اللہ ﷺ سے روایت کی ( ان احادیث میں سے جنہیں وہ رسو ل اللہ ﷺ اپنے رب عزو جل سے روایت کرتے ہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نیکیاں اوربرائیاں لکھی ہیں ، پھر ان کی تفصیل بتائی ہے کہ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا ، پھر وہ نیکی نہیں کی تو اللہ نے اسے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ دی ۔ اور اگر نیکی کا ارادہ کیا ، پھر وہ نیکی کر ڈالی تو اللہ عزوجل نے اسے اپنے ہاں دس سے سات سو گنا ( یا ) اس سے زیادہ گنا تک لکھ لیا ۔ اور اگر اس نے برائی کا ارادہ کیا ، پھر اس کا ارتکاب نہ کیا تو اللہ نے اسے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھی ۔ اور اگر اس نے ( برائی کا ) ارادہ کیا اور اس کو کر ڈالا تو اللہ نے ایک برائی لکھی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:131.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 245

صحيح مسلم حدیث نمبر: 339
وحدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا جعفر بن سليمان، عن الجعد أبي عثمان، في هذا الإسناد بمعنى حديث عبد الوارث ‏.‏ وزاد ‏ "‏ ومحاها الله ولا يهلك على الله إلا هالك ‏"‏ ‏.‏
جعفر بن سلیمان نے جعد ابوعثمان سے عبد الوارث کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور یہ اضافہ کیا : ’’یا اللہ نے اسے مٹا دیا او راللہ کے ہاں صرف وہی ہلاک ہوتا ہے جو ( خود ) ہلاک ہونے والا ہے ( کہ اللہ کے اس قدر فضل و کرم کے باوجود تباہی سے بچ سکا ۔ ‘ ‘)

صحيح مسلم حدیث نمبر:131.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 246

صحيح مسلم حدیث نمبر: 340
حدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به ‏.‏ قال ‏"‏ وقد وجدتموه ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم ‏.‏ قال ‏"‏ ذاك صريح الإيمان ‏"‏ ‏.‏
سہیل نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا : ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو زبان پر لانا بہت سنگین سمجھتا ہے ، آپ نے پوچھا : ’’ کیا تم نے واقعی اپنے دلوں میں ایسا محسوس کیا ہے ؟ ‘ ‘ انہوں نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہی صریح ایمان ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:132.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 247

صحيح مسلم حدیث نمبر: 341
وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، ح وحدثني محمد بن عمرو بن جبلة بن أبي رواد، وأبو بكر بن إسحاق قالا حدثنا أبو الجواب، عن عمار بن رزيق، كلاهما عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث ‏.‏
اعمش نے ابو صالح سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے بنی ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:132.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 248

صحيح مسلم حدیث نمبر: 342
حدثنا يوسف بن يعقوب الصفار، حدثني علي بن عثام، عن سعير بن الخمس، عن مغيرة، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الوسوسة قال ‏ "‏ تلك محض الإيمان ‏"‏ ‏.‏
حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے وسوسے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ’’یہی تو خالص ایمان ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:133

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 249

صحيح مسلم حدیث نمبر: 343
حدثنا هارون بن معروف، ومحمد بن عباد، - واللفظ لهارون - قالا حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے ہشام سے حدیث سنائی ، انہوں نے اپنےوالد ( عروہ ) سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے ( فضول ) سوالات کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ سوال بھی ہو گا کہ اللہ نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ جو شخص ایسی کوئی چیز دل میں پائے تو کہے : میں اللہ پر ایمان لایا ہوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:134.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 250

صحيح مسلم حدیث نمبر: 344
وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا أبو النضر، حدثنا أبو سعيد المؤدب، عن هشام بن عروة، بهذا الإسناد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق السماء من خلق الأرض فيقول الله ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر بمثله وزاد ‏"‏ ورسله ‏"‏ ‏.‏
ابو سعید مؤدب نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ روایت کی کہ رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے او رکہتا ہے : آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ( جواب میں ) کہتا ہے اللہ نے ..... ‘ ‘ پھر اوپر والی روایت کی طرح بیان کی ’’اور اس کے رسولوں پر ( ایمان لایا ) ‘ ‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:134.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 251

صحيح مسلم حدیث نمبر: 345
حدثني زهير بن حرب، وعبد بن حميد، جميعا عن يعقوب، قال زهير حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا وكذا حتى يقول له من خلق ربك فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب کے بھتیجے ( محمد بن عبد اللہ بن مسلم ) نے اپنے چچا ( محمد بن مسلم زہری ) سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ اس سے کہتا ہے : تمہارےرب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب بات یہاں تک پہنچے تو وہ اللہ سے پناہ مانگے او ر ( مزید سوچنے سے ) رک جائے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:134.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 252

صحيح مسلم حدیث نمبر: 346
حدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث، قال حدثني أبي، عن جدي، قال حدثني عقيل بن خالد، قال قال ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير، أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يأتي العبد الشيطان فيقول من خلق كذا وكذا ‏"‏ مثل حديث ابن أخي ابن شهاب ‏.‏
عقیل بن خالد نے کہاکہ ابن شہاب نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بندے کے پاس شیطان آتا ہے او رکہتا ہے : فلاں فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ حتی کہ اس سے کہتا ہے : تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ سوجب بات یہاں تک پہنچے تو اللہ کی پناہ مانگے اور رک جائے ۔ ‘ ‘ ( یہ حدیث ) ابن شہاب کے بھتیجے کی بیان کردہ حدیث کے مانند ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:134.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 253

صحيح مسلم حدیث نمبر: 347
حدثني عبد الوارث بن عبد الصمد، قال حدثني أبي، عن جدي، عن أيوب، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يزال الناس يسألونكم عن العلم حتى يقولوا هذا الله خلقنا فمن خلق الله ‏"‏ ‏.‏ قال وهو آخذ بيد رجل فقال صدق الله ورسوله قد سألني اثنان وهذا الثالث ‏.‏ أو قال سألني واحد وهذا الثاني ‏.‏
عبد الوارث بن عبد ا لصمد کے دادا عبد الوارث بن سعید نے ایوب سے ، انہوں نے محمد بن سیرین سے ، انہوں نےحضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نبی ﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’لوگ تم سے ہمیشہ علم کے بارے میں سوال کریں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے : اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ ‘ ‘ ابن سیرین نے کہا : اس وقت حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھے تو کہنے لگے : اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا ۔ مجھ سے دو ( آدمیوں ) نے ( یہی ) سوال کیا تھا اور یہ تیسرا ہے ( یا کہا : ) مجھ سے ایک ( آدمی ) نے ( پہلے یہ ) سوال کیا تھا او ریہ دوسرا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:135.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 254

صحيح مسلم حدیث نمبر: 348
وحدثنيه زهير بن حرب، ويعقوب الدورقي، قالا حدثنا إسماعيل، وهو ابن علية عن أيوب، عن محمد، قال قال أبو هريرة ‏ "‏ لا يزال الناس ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث عبد الوارث غير أنه لم يذكر النبي صلى الله عليه وسلم في الإسناد ولكن قد قال في آخر الحديث صدق الله ورسوله ‏.‏
اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے ، انہوں نے محمد سے روایت کی کہ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ’’ لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے .... ‘ ‘ باقی حدیث عبد الوارث کی حدیث کی مانند ہے ۔ تاہم انہوں نے سند میں نبی کریمﷺ کا ذکر نہیں کیا ، لیکن آخر میں یہ کہا ہے : ’’ اللہ اور اس کے رسول سے سچ فرمایا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:135.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 255

صحيح مسلم حدیث نمبر: 349
وحدثني عبد الله بن الرومي، حدثنا النضر بن محمد، حدثنا عكرمة، - وهو ابن عمار - حدثنا يحيى، حدثنا أبو سلمة، عن أبي هريرة، قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا يزالون يسألونك يا أبا هريرة حتى يقولوا هذا الله فمن خلق الله ‏"‏ قال فبينا أنا في المسجد إذ جاءني ناس من الأعراب فقالوا يا أبا هريرة هذا الله فمن خلق الله قال فأخذ حصى بكفه فرماهم ثم قال قوموا قوموا صدق خليلي ‏.‏
ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ابو ہریرہ ! لوگ ہمیشہ تم سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ کہیں گے : یہ ( ہر چیز کا خالق ) اللہ ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ ‘ ‘ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : پھر ( ایک دفعہ ) جب میں مسجد میں تھا تو میرے پاس کچھ بدو آئے اور کہنے لگے : اےابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ! یہ اللہ ہے ، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ ( ابو سلمہ نے ) کہا : تب انہوں نے مٹھی میں کنکر پکڑے اور ان پر پھینکے اور کہا : اٹھو اٹھو ! ( یہاں سے جاؤ ) میرے خلیل ( نبی اکرم ﷺ ) نے بالکل سچ فرمایا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:135.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 256

صحيح مسلم حدیث نمبر: 350
حدثني محمد بن حاتم، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، حدثنا يزيد بن الأصم، قال سمعت أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ليسألنكم الناس عن كل شىء حتى يقولوا الله خلق كل شىء فمن خلقه ‏"‏ ‏.‏
یزید بن اصم نے کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ یقیناً لوگ تم سے ہر چیز کے بارے میں سوال کریں گے یہاں تک کہ کہیں گے : اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا ، پھر اس کو کس نے پیدا کیا؟ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:135.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 257

صحيح مسلم حدیث نمبر: 351
حدثنا عبد الله بن عامر بن زرارة الحضرمي، حدثنا محمد بن فضيل، عن مختار بن فلفل، عن أنس بن مالك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ قال الله عز وجل إن أمتك لا يزالون يقولون ما كذا ما كذا حتى يقولوا هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله ‏"‏ ‏.‏
محمد بن فضیل نے مختار بن فلفل سے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے رسو ل اللہ ﷺ سے روایت کی ، آپ نے کہا : ’’ اللہ عز وجل نے فرمایا : ’’ آپ کی امت کے لوگ کہتے رہیں گے : یہ کیسے ہے ؟ وہ کیسے ہے؟ یہاں تک کہ کہیں گے : یہ اللہ ہے ، اس نے مخلوق کو پیدا کیا ، پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:136.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 258

صحيح مسلم حدیث نمبر: 352
حدثناه إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، كلاهما عن المختار، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث غير أن إسحاق لم يذكر قال ‏ "‏ قال الله إن أمتك ‏"‏ ‏.‏
اسحق بن ابراہیم نے کہا : ہمیں جریر نے خبر دی ، نیز ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا : ہمیں حسن بن علی نے زائدہ سے حدیث سنائی اور ان دونوں ( جریر اور زائدہ ) نے مختار سے ، انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ، تاہم اسحاق کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں : ’’ اللہ عزوجل نے فرمایا : بے شک آپ کی امت ....... ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:136.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 259

صحيح مسلم حدیث نمبر: 353
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر، جميعا عن إسماعيل بن جعفر، - قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل بن جعفر، - قال أخبرنا العلاء، - وهو ابن عبد الرحمن مولى الحرقة - عن معبد بن كعب السلمي، عن أخيه عبد الله بن كعب، عن أبي أمامة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد أوجب الله له النار وحرم عليه الجنة ‏"‏ ‏.‏ فقال له رجل وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله قال ‏"‏ وإن قضيبا من أراك ‏"‏ ‏.‏
معبد بن کعب سلمی نے اپنے بھائی عبد اللہ بن کعب سے ، انہوں نے حضرت ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے اپنی قسم کے ذریعے سے کسی مسلمان کا حق مارا ، اللہ نے اس کے لیے آگ واجب کر دی اور اس پر جنت حرام ٹھہرائی ۔ ‘ ‘ ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کی : اگرچہ وہ معمولی سی چیز ہو ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’ چاہے وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:137.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 260

صحيح مسلم حدیث نمبر: 354
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، وهارون بن عبد الله، جميعا عن أبي أسامة، عن الوليد بن كثير، عن محمد بن كعب، أنه سمع أخاه عبد الله بن كعب، يحدث أن أبا أمامة الحارثي، حدثه أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثله ‏.‏
محمد بن کعب سے روایت ہے ، انہوں نےاپنے بھائی عبد اللہ بن کعب سےسنا ، وہ بیان کر تے تھے کہ ابو امامہ حارثی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ان کو بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی کی مانند حدیث سنی

صحيح مسلم حدیث نمبر:137.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 261

صحيح مسلم حدیث نمبر: 355
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، - واللفظ له - أخبرنا وكيع، حدثنا الأعمش، عن أبي وائل، عن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من حلف على يمين صبر يقتطع بها مال امرئ مسلم هو فيها فاجر لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏ ‏.‏ قال فدخل الأشعث بن قيس فقال ما يحدثكم أبو عبد الرحمن قالوا كذا وكذا ‏.‏ قال صدق أبو عبد الرحمن في نزلت كان بيني وبين رجل أرض باليمن فخاصمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ هل لك بينة ‏"‏ ‏.‏ فقلت لا ‏.‏ قال ‏"‏ فيمينه ‏"‏ ‏.‏ قلت إذا يحلف ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك ‏"‏ من حلف على يمين صبر يقتطع بها مال امرئ مسلم هو فيها فاجر لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏ ‏.‏ فنزلت ‏{‏ إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏}‏ إلى آخر الآية ‏.‏
اعمش نے ابو وائل سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’ جس نے مسلمان کا مال دبانے کے لیے ایسی قسم کھائی جس کے لیے عدالت نے اسے پابند کیا اور وہ اس میں جھوٹا ہے ، وہ اللہ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اللہ اس پر ناراض ہو گا ۔ ‘ ‘ انہوں ( وائل ) نے کہا : اس موقع پر حضرت اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ( مجلس میں ) داخل ہوئے اور کہا : ابو عبد ا لرحمن ( عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) تمہیں کیا حدیث بیان کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اس اس طرح ( بیان کر رہے ہیں ۔ ) انہوں نےکہا : ابو عبد الرحمن نے سچ کہا ، یہ آیت میرے ہی معاملے میں نازل ہوئی ۔ میرے اور ایک آدمی کے درمیان یمن کی ایک زمین کا معاملہ تھا ۔ میں اس کے ساتھ جھگڑا نبی ﷺ کےہاں لے گیا تو آپ نے پوچھا : ’’کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ( یا ثبوت ) ہے ؟ میں نے عرض کی : نہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ تو پھر اس کی قسم ( پر فیصلہ ہو گا ۔ ) ‘ ‘ میں نے کہا : تب وہ قسم کھا لے گا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے کسی مسلمان کا مال دبانے کے لیے ایسی قسم کھائی جس کا فیصلہ کرنے والے نے اس سےمطالبہ کیا تھا اور وہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ کےسامنے اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اللہ اس پر ناراض ہو گا ۔ ‘ ‘ اس پر یہ آیت اتری : ’’بلاشبہ جو لوگ اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے اور اپنی قسموں کا سودا تھوڑی قیمت پر کرتے ہیں ..... ‘ ‘ آیت کے آخر تک ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:138.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 262

صحيح مسلم حدیث نمبر: 356
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال من حلف على يمين يستحق بها مالا هو فيها فاجر لقي الله وهو عليه غضبان ‏.‏ ثم ذكر نحو حديث الأعمش غير أنه قال كانت بيني وبين رجل خصومة في بئر فاختصمنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏ "‏ شاهداك أو يمينه ‏"‏ ‏.‏
(اعمش کے بجائے ) منصور نے ابووائل سے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ۔ حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : جو شخص ایسی قسم اٹھاتا ہے جس کی بنا پر وہ مال کا حق دار ٹھہرتا ہے او روہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ کو اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا ، پھر اعمش کی طرح روایت بیان کی البتہ ( اس میں ) انہوں نے کہا : میرے اور ایک آدمی کے درمیان کنویں کے بارے میں جھگڑا تھا ۔ ہم ہی جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارے دو گواہ ہوں یا اس کی قسم ( کے ساتھ فیصلہ ہو گا ) ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:138.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 263

صحيح مسلم حدیث نمبر: 357
وحدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن جامع بن أبي راشد، وعبد الملك بن أعين، سمعا شقيق بن سلمة، يقول سمعت ابن مسعود، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من حلف على مال امرئ مسلم بغير حقه لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏ قال عبد الله ثم قرأ علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مصداقه من كتاب الله ‏{‏ إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏}‏ إلى آخر الآية ‏.‏
جامع بن ابی راشد اور عبد المالک بن اعین نے ( ابو وائل ) شقیق بن سلمہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہتے تھے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ جس ن کسی مسلمان شخص کے مال پر ، حق نہ ہوتے ہوئے ، قسم کھائی ، وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا ۔ ‘ ‘ عبد اللہ نے کہا : پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے کتاب اللہ سے اس کا مصداق ( جس سے بات کی تصدیق ہو جائے ) پڑھا : ’’ بلاشبہ جو لوگ اللہ کےساتھ کیے گئے عہد ( میثاق ) اور اپنی قسموں کا سودا تھوڑی سی قیمت پر کرتے ہیں ...... ‘ آخر آیت تک ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:138.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 264

صحيح مسلم حدیث نمبر: 358
حدثنا قتيبة بن سعيد، وأبو بكر بن أبي شيبة وهناد بن السري وأبو عاصم الحنفي - واللفظ لقتيبة - قالوا حدثنا أبو الأحوص، عن سماك، عن علقمة بن وائل، عن أبيه، قال جاء رجل من حضرموت ورجل من كندة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال الحضرمي يا رسول الله إن هذا قد غلبني على أرض لي كانت لأبي ‏.‏ فقال الكندي هي أرضي في يدي أزرعها ليس له فيها حق ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للحضرمي ‏"‏ ألك بينة ‏"‏ ‏.‏ قال لا ‏.‏ قال ‏"‏ فلك يمينه ‏"‏ ‏.‏ قال يا رسول الله إن الرجل فاجر لا يبالي على ما حلف عليه وليس يتورع من شىء ‏.‏ فقال ‏"‏ ليس لك منه إلا ذلك ‏"‏ فانطلق ليحلف فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أدبر ‏"‏ أما لئن حلف على ماله ليأكله ظلما ليلقين الله وهو عنه معرض ‏"‏ ‏.‏
سماک نے علقمہ بن وائل سے ، انہوں نے اپنے والد ( حضرت وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی ﷺ کے پاس آیا ۔ حضرمی ( حضر موت کے باشندے ) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میری زمین پر قبضہ کیے بیٹھا ہے جومیرے باپ کی تھی ۔ اور کندی نے کہا : یہ میری زمین ہے ، میرے قبضے میں ہے ، میں اسے کاشت کرتا ہوں ، اس کا اس ( زمین ) میں کوئی حق نہیں ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے حضرمی سے کہا : ’’کیا تمہاری کوئی دلیل ( گواہی وغیرہ ) ہے ؟ ‘ ‘ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ پھر تمہارے لیے اس کی قسم ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ یہ آدمی بدکردار ہے ، اسے کوئی پرواہ نہیں کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے او ریہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا : ’’تمہیں اس سے اس ( قسم ) کے سوا کچھ نہیں مل سکتا ۔ ‘ ‘ وہ قسم کھانے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بات یہ ہے کہ اگر اس نے ظلم اور زیادتی سے اس شخص کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو بلاشبہ یہ شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:139.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 265

صحيح مسلم حدیث نمبر: 359
وحدثني زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن أبي الوليد، قال زهير حدثنا هشام بن عبد الملك، حدثنا أبو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن علقمة بن وائل، عن وائل بن حجر، قال كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتاه رجلان يختصمان في أرض فقال أحدهما إن هذا انتزى على أرضي يا رسول الله في الجاهلية - وهو امرؤ القيس بن عابس الكندي وخصمه ربيعة بن عبدان - قال ‏"‏ بينتك ‏"‏ ‏.‏ قال ليس لي بينة ‏.‏ قال ‏"‏ يمينه ‏"‏ ‏.‏ قال إذا يذهب بها ‏.‏ قال ‏"‏ ليس لك إلا ذاك ‏"‏ ‏.‏ قال فلما قام ليحلف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من اقتطع أرضا ظالما لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏ ‏.‏ قال إسحاق في روايته ربيعة بن عيدان ‏.‏
زہیر بن حرب اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ابو ولید سے حدیث سنائی ( زہیر نے عن أبى الولید کے بجائے حدثنا هشام بن عبد الملك ہمیں ہشام بن عبدالملک نے حدیث سنائی ، کہا ) ہشام بن عبد الملک نے کہا : ہمیں ابو عوانہ نے عبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی ، انہوں نے علقمہ بن وائل سے اور انہوں نے ( اپنے والد ) حضرت وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا ، آپ کے پاس دو آدمی ( ایک قطعہ ) زمین پرجھگڑتے آئے ، دونوں میں ایک نے کہا : اے اللہ کےرسول ! اس نے دور جاہلیت میں میر ی زمین پر قبضہ کیا تھا ، وہ امرؤ القیس بن عابس کندی تھا اور اس کا حریف ربیعہ بن عبدان تھا ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ( سب سے پہلے ) تمہارا ثبوت ( شہادت ۔ ) ‘ ‘ اس نے کہا : میرے پاس ثبوت نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ( تب فیصلہ ) اس کی قسم ( پر ہو گا ) ‘ ‘ اس نے کہا : تب تو وہ زمین لے جائے گا ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ‘ ‘ حضرت وائل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : جب وہ قسم کھانے کے لیے اٹھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے ظلم کرتے ہوئے کوئی زمین چھینی ، وہ اس حالت میں اللہ سے ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہو گا ۔ ‘ ‘ اسحاق نے اپنی روایت میں ( دوسرے فریق کا نام ) ربیعہ بن عیدان ( باء کے بجائے یاءکے ساتھ ) بتایا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:139.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 266

صحيح مسلم حدیث نمبر: 360
حدثني أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا خالد، - يعني ابن مخلد - حدثنا محمد بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أرأيت إن جاء رجل يريد أخذ مالي قال ‏"‏ فلا تعطه مالك ‏"‏ ‏.‏ قال أرأيت إن قاتلني قال ‏"‏ قاتله ‏"‏ ‏.‏ قال أرأيت إن قتلني قال ‏"‏ فأنت شهيد ‏"‏ ‏.‏ قال أرأيت إن قتلته قال ‏"‏ هو في النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی آ کر میرا مال چھیننا چاہے ( تو میں کیا کروں؟ ) آپ نے فرمایا : ’’ اسے اپنا مال نہ دو ۔ ‘ ‘ اس ن کہا : آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ میرے ساتھ لڑائی کرے تو ؟ فرمایا : ’’ تم اس سے لڑائی کرو ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم شہید ہو گے ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : آپ کی کیا رائے ہے اگر میں اسے قتل کر دوں ؟ فرمایا : ’’ وہ دوزخی ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:140

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 267

صحيح مسلم حدیث نمبر: 361
حدثني الحسن بن علي الحلواني، وإسحاق بن منصور، ومحمد بن رافع، - وألفاظهم متقاربة - قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني سليمان الأحول، أن ثابتا، مولى عمر بن عبد الرحمن أخبره أنه، لما كان بين عبد الله بن عمرو وبين عنبسة بن أبي سفيان ما كان تيسروا للقتال فركب خالد بن العاص إلى عبد الله بن عمرو فوعظه خالد فقال عبد الله بن عمرو أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من قتل دون ماله فهو شهيد ‏"‏ ‏.‏
عبد الرزاق نے کہا : ہمیں ابن جریج نے خبر دی ، انہوں نے کہا : مجھے سلیمان احول نے خبر دی کہ عمر بن عبدالرحمن کے آزاد کردہ غلام ثابت نے انہیں بتایا کہ عبد اللہ بن عمرو ( ابن عاص ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اور عنبسہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے درمیان وہ ( جھگڑا ) ہوا جو ہوا تو وہ لڑائی کے لیے تیار ہو گئے ، اس وقت ( ان کے چچا ) خالد بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سوار ہو کر عبد اللہ بن عمرو ( بن عاص ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس گئے اور انہیں نصیحت کی ۔ عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے جواب دیا : کیا آب کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل کر دیا گیا ، وہ شہید ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:141.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 268

صحيح مسلم حدیث نمبر: 362
وحدثنيه محمد بن حاتم، حدثنا محمد بن بكر، ح وحدثنا أحمد بن عثمان النوفلي، حدثنا أبو عاصم، كلاهما عن ابن جريج، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
(ابن جریج کے دوسرے شاگردوں ) محمد بن بکر اور ابو عاصم نےاسی مذکورہ سند کے ساتھ ( سابقہ حدیث ) کےمانند حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:141.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 269

صحيح مسلم حدیث نمبر: 363
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا أبو الأشهب، عن الحسن، قال عاد عبيد الله بن زياد معقل بن يسار المزني في مرضه الذي مات فيه ‏.‏ قال معقل إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لو علمت أن لي حياة ما حدثتك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏"‏ ‏.‏
ابو اشہب نے حسن ( بصری ) سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : عبید اللہ بن زیاد نےحضرت معقل بن یسار مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے مرض ا لموت میں ان کی عیادت کی تو معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سے کہا : میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگاہوں جو میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنی ۔ اگر میں جانتا کہ میں ا بھی اور زندہ رہوں گا تو تمہیں یہ حدیث نہ سناتا ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ کوئی ایسا بندہ جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:142.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 270

صحيح مسلم حدیث نمبر: 364
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا يزيد بن زريع، عن يونس، عن الحسن، قال دخل عبيد الله بن زياد على معقل بن يسار وهو وجع فسأله فقال إني محدثك حديثا لم أكن حدثتكه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا يسترعي الله عبدا رعية يموت حين يموت وهو غاش لها إلا حرم الله عليه الجنة ‏"‏ ‏.‏ قال ألا كنت حدثتني هذا قبل اليوم قال ما حدثتك أو لم أكن لأحدثك ‏.‏
(ابو اشہب کے بجائے ) یونس نے حسن سے روایت کی ، انہوں نےکہا : عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آیا ، وہ اس وقت بیمارتھے او ران کا حال پوچھا ، تو وہ کہنے لگے : میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے پہلے تمہیں نہیں سنائی تھی ، بلا شبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے او رموت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں دھوکے بازی کرنے والا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے ۔ ‘ ‘ عبیداللہ نےکہا : کیا آپ نے پہلے مجھے یہ حدیث نہیں سنائی ؟ معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے تمہیں نہیں سنائی یا میں تمہیں نہیں سنا سکتا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:142.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 271

صحيح مسلم حدیث نمبر: 365
وحدثني القاسم بن زكرياء، حدثنا حسين، - يعني الجعفي - عن زائدة، عن هشام، قال قال الحسن كنا عند معقل بن يسار نعوده فجاء عبيد الله بن زياد فقال له معقل إني سأحدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم ذكر بمعنى حديثهما ‏.‏
(ایک اور سند سے ) ہشام سے روایت ہے ، انہوں نےکہا : حسن نے کہا : ہم معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےہاں ان کی عیادت کررہے تھے کہ عبید اللہ بن زیاد آ گیا ۔ معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سے کہا : میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی ...... پھر ہشام نے باقی حدیث ان دونوں ( ابو الاشہب اور یونس ) کی حدیث کے مفہوم کے مطابق بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:142.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 272

صحيح مسلم حدیث نمبر: 366
وحدثنا أبو غسان المسمعي، ومحمد بن المثنى، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق أخبرنا وقال الآخران، حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، عن أبي المليح، أن عبيد الله بن زياد، عاد معقل بن يسار في مرضه فقال له معقل إني محدثك بحديث لولا أني في الموت لم أحدثك به سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ ما من أمير يلي أمر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة ‏"‏ ‏.‏
ابو ملیح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نےمعقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی بیماری میں ان کی عیادت کی تو معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سے کہا : میں موت ( کی راہ ) میں نہ ہوتا تو تمہیں یہ حدیث نہ سناتا ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ کوئی امیر جو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے ، پھر وہ ان ( کی بہبود ) کے لیے کوشش اور خیر خواہی نہیں کرتا ، وہ ان کے ہمراہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:142.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 273

صحيح مسلم حدیث نمبر: 367
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن حذيفة، قال حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين قد رأيت أحدهما وأنا أنتظر الآخر حدثنا ‏"‏ أن الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ‏"‏ ‏.‏ ثم حدثنا عن رفع الأمانة قال ‏"‏ ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شىء - ثم أخذ حصى فدحرجه على رجله - فيصبح الناس يتبايعون لا يكاد أحد يؤدي الأمانة حتى يقال إن في بني فلان رجلا أمينا ‏.‏ حتى يقال للرجل ما أجلده ما أظرفه ما أعقله وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان ‏"‏ ‏.‏ ولقد أتى على زمان وما أبالي أيكم بايعت لئن كان مسلما ليردنه على دينه ولئن كان نصرانيا أو يهوديا ليردنه على ساعيه وأما اليوم فما كنت لأبايع منكم إلا فلانا وفلانا ‏.‏
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے ہمیں دو باتیں بتائیں ، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں ، آپ نے ہمیں بتایا : ’’امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری ، پھر قرآن اترا ، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا ۔ ‘ ‘ پھر آپﷺ نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا ، آپ نے فرمایا : ’’ آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا ، پھر وہ ایک نیند لے گا تو ( بقیہ ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو ( وہ حصہ ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو ، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا ۔ ’’پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا : ’’فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا ، وہ کس قدر مضبوط ہے ، کتنا لائق ہے ، کیسا عقل مند ہے ! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر ( بھی ) ایمان نہ ہو گا ۔ ‘ ‘ ( پھر حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ) مجھ پر ایک دو گزرا ، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں ، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:143.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 274

صحيح مسلم حدیث نمبر: 368
وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي ووكيع، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا عيسى بن يونس، جميعا عن الأعمش، بهذا الإسناد مثله ‏.‏
(اعمش کےدوسرے شاگردوں ) عبد اللہ بن نمیر ، وکیع اور عیسیٰ بن یونس نے بھی اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:143.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 275

صحيح مسلم حدیث نمبر: 369
وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبو خالد، - يعني سليمان بن حيان - عن سعد بن طارق، عن ربعي، عن حذيفة، قال كنا عند عمر فقال أيكم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن فقال قوم نحن سمعناه ‏.‏ فقال لعلكم تعنون فتنة الرجل في أهله وجاره قالوا أجل ‏.‏ قال تلك تكفرها الصلاة والصيام والصدقة ولكن أيكم سمع النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن التي تموج موج البحر قال حذيفة فأسكت القوم فقلت أنا ‏.‏ قال أنت لله أبوك ‏.‏ قال حذيفة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ تعرض الفتن على القلوب كالحصير عودا عودا فأى قلب أشربها نكت فيه نكتة سوداء وأى قلب أنكرها نكت فيه نكتة بيضاء حتى تصير على قلبين على أبيض مثل الصفا فلا تضره فتنة ما دامت السموات والأرض والآخر أسود مربادا كالكوز مجخيا لا يعرف معروفا ولا ينكر منكرا إلا ما أشرب من هواه ‏"‏ ‏.‏ قال حذيفة وحدثته أن بينك وبينها بابا مغلقا يوشك أن يكسر ‏.‏ قال عمر أكسرا لا أبا لك فلو أنه فتح لعله كان يعاد ‏.‏ قلت لا بل يكسر ‏.‏ وحدثته أن ذلك الباب رجل يقتل أو يموت ‏.‏ حديثا ليس بالأغاليط ‏.‏ قال أبو خالد فقلت لسعد يا أبا مالك ما أسود مربادا قال شدة البياض في سواد ‏.‏ قال قلت فما الكوز مجخيا قال منكوسا ‏.‏
ابو خالد سلیمان بن حیان نے سعد بن طارق سے حدیث سنائی ، انہوں نے ربعی سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : ہم حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےپاس تھے ، انہوں نے پوچھا : تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ کچھ لوگوں نے جواب دیا : ہم نے یہ ذکر سنا ۔ حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : شاید تم و ہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اس کے اہل ، مال اور پڑوسی ( کے بارے ) میں پیش آتی ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس فتنے ( اہل ، مال اور پڑوسی کے متعلق امور میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں ) کا کفارہ نماز ، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں ۔ لیکن تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ سے اس فتنے کا ذکر سنا ے جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا : میں نے ( سنا ہے ۔ ) حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : تو نے ، تیرا باپ اللہ ہی کا ( بندہ ) ہے ( کہ اسے تم سا بیٹا عطا ہوا ۔ ) حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سےسنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’فتنے دلوں پر ڈالیں جائیں گے ، چٹائی ( کی بنتی ) کی طرح تنکا تنکا ( ایک ایک ) کر کے اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا ( اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا ) ، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا اور جس دل میں ان کو رد کر دیا اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے : ( ایک دل ) سفید ، چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا ، جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے ، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ دوسرا کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند ( جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی ) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے کا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا ، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ ( دل ) لبریز ہو گا ۔ ‘ ‘ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نےعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے بیان کیا کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازے ہے ، قریب ہے کہ اسے توڑ دیا جائے گا؟ اگر اسے کھول دیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے دوبارہ بند کیا جاسکے ۔ میں نے کہا : نہیں ! بلکہ توڑ دیا جائے گا ۔ اور میں نے انہیں بتا دیا : وہ دروازہ آدمی ہے جسے قتل کر دیا جائے گا یا فوت ہو جائے گا ۔ ( حذیفہ نے کہا : میں نے انہیں ) حدیث ( سنائی کوئی ) ، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں ۔ ابو خالدنے کہا : میں نے سعد سے پوچھا : ابو مالک !أسودمرباداً سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : کالے رنگ میں شدید سفیدی ( مٹیالے رنگ ۔ ) کہا : میں نے پوچھا : الکوز مجخیاسے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : الٹا کیا ہوا کوزہ ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:144.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 276

صحيح مسلم حدیث نمبر: 370
وحدثني ابن أبي عمر، حدثنا مروان الفزاري، حدثنا أبو مالك الأشجعي، عن ربعي، قال لما قدم حذيفة من عند عمر جلس فحدثنا فقال إن أمير المؤمنين أمس لما جلست إليه سأل أصحابه أيكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتن وساق الحديث بمثل حديث أبي خالد ولم يذكر تفسير أبي مالك لقوله ‏ "‏ مربادا مجخيا ‏"‏ ‏.‏
مروان فزاری نے کہا : ہمیں ابو مالک اشجعی نے حضرت ربعی سے حدیث سنائی ، انہوں نےکہا : جب حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی مجلس سے آئے تو بیٹھ کر ہمیں باتیں سنانے لگے اور کہا : کل جب میں امیر المومنین کی مجلس میں بیٹھا تو انہوں نے اپنے رفقاء سے پوچھا : تم میں سے کس نے فتنوں کے بارے میں رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان یاد رکھا ہواہے ؟....... پھر ( مروان فزاری نے ) ابو خالد کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی لیکن مرباداً مجخیاً سے متعلق ابو مالک کی تفسیر ذکر نہیں کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:144.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 277

صحيح مسلم حدیث نمبر: 371
وحدثني محمد بن المثنى، وعمرو بن علي، وعقبة بن مكرم العمي، قالوا حدثنا محمد بن أبي عدي، عن سليمان التيمي، عن نعيم بن أبي هند، عن ربعي بن حراش، عن حذيفة، أن عمر، قال من يحدثنا أو قال أيكم يحدثنا - وفيهم حذيفة - ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة قال حذيفة أنا ‏.‏ وساق الحديث كنحو حديث أبي مالك عن ربعي وقال في الحديث قال حذيفة حدثته حديثا ليس بالأغاليط وقال يعني أنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
نعیم بن ابی ہند نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نےحضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : تم میں کون ہمیں بتائے گا ( اور ان میں حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ موجود تھے ) جو رسول اللہ ﷺ نے فتنے کے بارے میں فرمایا تھا ؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں ۔ آگے ابو مالک کی وہی روایت بیان کی ہے جو انہوں نے ربعی سے بیان کی اور اس میں حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کا یہ قول بھی بیان کیا کہ میں نے انہیں حدیث سنائی تھی ، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں ، یعنی وہ حدیث رسو ل اللہ ﷺ کی جانب سے تھی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:144.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 278

صحيح مسلم حدیث نمبر: 372
حدثنا محمد بن عباد، وابن أبي عمر، جميعا عن مروان الفزاري، قال ابن عباد حدثنا مروان، عن يزيد، - يعني ابن كيسان - عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ بدأ الإسلام غريبا وسيعود كما بدأ غريبا فطوبى للغرباء ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام کے آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا ، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:145

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 279

صحيح مسلم حدیث نمبر: 373
وحدثني محمد بن رافع، والفضل بن سهل الأعرج، قالا حدثنا شبابة بن سوار، حدثنا عاصم، - وهو ابن محمد العمري - عن أبيه، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا كما بدأ وهو يأرز بين المسجدين كما تأرز الحية في جحرها ‏"‏ ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اسلام شروع ہوا غربت میں اور پھر غریب ہو جائے جیسے شروع ہوا تھا اور وہ سمٹ کر دونوں مسجدوں (مکے مدینے) کے بیچ میں آ جائے گا ، جیسے سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ (بل) میں چلا جاتا ہے ۔ “

صحيح مسلم حدیث نمبر:146

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 280

صحيح مسلم حدیث نمبر: 374
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو أسامة عن عبيد الله بن عمر، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبيد الله، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن الإيمان ليأرز إلى المدينة كما تأرز الحية إلى جحرها ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بلاشبہ ایمان مدینہ کی جانب یوں سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل کی جانب سمٹ آتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:147

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 281

صحيح مسلم حدیث نمبر: 375
حدثني زهير بن حرب، حدثنا عفان، حدثنا حماد، أخبرنا ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الأرض الله الله ‏"‏ ‏.‏
حماد نے کہا : ہمیں ثابت نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ ( وہ وقت آ جائے گا جب ) زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جارہا ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:148.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 282

صحيح مسلم حدیث نمبر: 376
حدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ثابت، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لا تقوم الساعة على أحد يقول الله الله ‏"‏ ‏.‏
معمر نے ثابت سے خبر دی ، انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کسی ایسے شخص پر قیامت قائم نہ ہو گی جو اللہ اللہ کہتا ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:148.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 283

صحيح مسلم حدیث نمبر: 377
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالوا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن شقيق، عن حذيفة، قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أحصوا لي كم يلفظ الإسلام ‏"‏ ‏.‏ قال فقلنا يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أتخاف علينا ونحن ما بين الستمائة إلى السبعمائة قال ‏"‏ إنكم لا تدرون لعلكم أن تبتلوا ‏"‏ ‏.‏ قال فابتلينا حتى جعل الرجل منا لا يصلي إلا سرا ‏.‏
حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ نے فرمایا : ’’ میرے لیے شمار کرو کہ کتنے ( لوگ ) اسلام کے الفاظ بولتے ہیں ( اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ؟ ) ‘ ‘ حذیفہ نے کہا : تب ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کو ہم پر ( کوئی مصیبت نازل ہو جانے کا ) خوف ہے جبکہ ہم چھ سات سال سو کے درمیان ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم نہیں جانتے ، ہو سکتا ہے تم کسی آزمائش میں ڈال دیے جاؤ ۔ ‘ ‘ پھر ہم آزمائش میں ڈال دیے گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی شخص پوشیدہ رہے بغیر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:149

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 284

صحيح مسلم حدیث نمبر: 378
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عامر بن سعد، عن أبيه، قال قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما فقلت يا رسول الله أعط فلانا فإنه مؤمن ‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أو مسلم ‏"‏ أقولها ثلاثا ‏.‏ ويرددها على ثلاثا ‏"‏ أو مسلم ‏"‏ ثم قال ‏"‏ إني لأعطي الرجل وغيره أحب إلى منه مخافة أن يكبه الله في النار ‏"‏ ‏.‏
سفیان نے زہری سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عامر بن سعد ( بن ابی وقاص ) سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کا کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کی ، اللہ کے رسول ! فلاں کو بھی دیجیے کیونکہ وہ مومن ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا : ’’یامسلمان ہے ۔ ‘ ‘ میں تین بار یہ بات کہتا ہوں اور آپ ﷺ تین بار میرے سامنے یہی الفاظ دہراتے ہیں ’’یامسلمان ہے ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ، اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اس کو اندھے منہ آگ میں ( نہ ) ڈال دے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 285

صحيح مسلم حدیث نمبر: 379
حدثني زهير بن حرب، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى رهطا وسعد جالس فيهم قال سعد فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم من لم يعطه وهو أعجبهم إلى فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ ‏.‏ قال فسكت قليلا ثم غلبني ما أعلم منه فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ ‏.‏ قال فسكت قليلا ثم غلبني ما علمت منه فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أو مسلما ‏.‏ إني لأعطي الرجل وغيره أحب إلى منه خشية أن يكب في النار على وجهه ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب ( زہری ) کے بھتیجے نے اپنے چچا سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نےاپنے والد سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو کچھ عطا فرمایا ، سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بھی ان میں بیٹھے تھے ، سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : پھر رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا ، اسے کچھ عطانہ فرمایا ، حالانکہ ان سب سے وہی مجھ زیادہ اچھا لگتا تھا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں سے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ یا مسلمان ۔ ‘ ‘ سعد نے کہا : پھر میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا ، پھر مجھ پر اس بات کا غلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا تو میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم !میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ یامسلمان ۔ ‘ ‘ تو میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا ، پھر مجھ پر اس بات کاغلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ کیونکہ اللہ کی قسم ! میں نے اسے مومن سمجھتا ہوں ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’یا مسلمان ۔ بلا شبہ میں ایک آدمی کو ( عطیہ ) دیتا ہوں ۔ حالانکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ، اس بات سے ڈرتےہوئے کہ اسے منہ کے بل آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 286

صحيح مسلم حدیث نمبر: 380
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، قالا حدثنا يعقوب، - وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال حدثني عامر بن سعد، عن أبيه، سعد أنه قال أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وأنا جالس فيهم ‏.‏ بمثل حديث ابن أخي ابن شهاب عن عمه ‏.‏ وزاد فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساررته فقلت ما لك عن فلان ‏.‏
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی ، انہوں نے کہا : مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد ( حضرت ) سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو ( عطیہ ) دیا اورمیں ان میں بیٹھا تھا ..... آگے ابن شہاب کے بھتیجے کی اپنے چچا سے روایت کی طرح ہے اور اتنا اضافہ ہے : ’’میں اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ سے عرض کی : فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 287

صحيح مسلم حدیث نمبر: 381
وحدثنا الحسن الحلواني، حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن صالح، عن إسماعيل بن محمد، قال سمعت محمد بن سعد، يحدث هذا فقال في حديثه فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده بين عنقي وكتفي ثم قال ‏ "‏ أقتالا أى سعد إني لأعطي الرجل ‏"‏ ‏.‏
(عامر بن سعد کے بھائی ) محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں ، انہوں نے اپنی حدیث میں کہا : رسول اللہ ﷺ نے میری ( سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی ) گردن اور کندھے کے درمیان اپناہاتھ مار ، پھر فرمایا : ’’ کیا لڑائی کر رہے ہو سعد؟ کہ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں ..... ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:150.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 288

صحيح مسلم حدیث نمبر: 382
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وسعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ نحن أحق بالشك من إبراهيم صلى الله عليه وسلم إذ قال ‏{‏ رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي‏}‏ قال ‏"‏ ويرحم الله لوطا لقد كان يأوي إلى ركن شديد ولو لبثت في السجن طول لبث يوسف لأجبت الداعي ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب زہری سے خبر دی ، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور سعید بن مسیب سے روایت کی ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہم ابراہیم سے زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں ، جب انہوں نے کہا تھا : ’’ اے میرے رب ! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا تمہیں یقین نہیں ؟ کہا : کیوں نہیں ! لیکن ( میں اس لیے جاننا چاہتا ہوں ) تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے ۔ ‘ ‘ آپ نے فرمایا : ’’ اور اللہ لوط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ پر رحم فرمائے ، ( وہ کسی سہارے کی تمنا کر رہے تھے ) حالانکہ انہوں نے ایک مضبوط سہارے کی پناہ لی ہوئی تھی ۔ اور اگر میں قید خانے میں یوسف علیہ السلام جتنا طویل عرصہ ٹھہرتا تو ( ہوسکتا ہے ) بلانے والے کی بات مان لیتا ۔ ‘ ‘ ( عملاً آپ نے دوسرے انبیاء سے بڑھ کر ہی صبر و تحمل سے کام لیا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:151.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 289

صحيح مسلم حدیث نمبر: 383
وحدثني به، إن شاء الله عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي حدثنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، أن سعيد بن المسيب، وأبا، عبيد أخبراه عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث يونس عن الزهري وفي حديث مالك ‏ "‏ ولكن ليطمئن قلبي ‏"‏ ‏.‏ قال ثم قرأ هذه الآية حتى جازها ‏.‏ حدثناه عبد بن حميد، قال حدثني يعقوب، - يعني ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبو أويس، عن الزهري، كرواية مالك بإسناده وقال ثم قرأ هذه الآية حتى أنجزها ‏.‏
مالک نے زہری سے روایت کی کہ سعید بن مسیب اور ابوعبیدہ نے انہیں حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے خبر دی ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی جو زہری سے یونس کی ( روایت کردہ ) حدیث کے مانند ہے او رمالک کی حدیث میں ( یوں ) ہے : ’’تاکہ میرا دل مطمئن ہو جاےئ ۔ ‘ ‘ کہا : پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی حتی کہ اس سے آگے نکل گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:151.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 290

صحيح مسلم حدیث نمبر: 384
ابو اویس نے بھی زہری سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح مالک نے کی ہے البتہ اس نے ( حتی جازھا ) حتی کہ اس سے آگے نکل گئے کے بجائےئ ) حتی أنجزها ( حتی کہ اس کو مکمل کیا ) کہا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:151.03

صحيح مسلم باب:43 حدیث نمبر : 200

صحيح مسلم حدیث نمبر: 385
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ما من الأنبياء من نبي إلا قد أعطي من الآيات ما مثله آمن عليه البشر وإنما كان الذي أوتيت وحيا أوحى الله إلى فأرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ انبیاء میں سے ہر ایک نبی کوایسی نشانیاں ( معجزے ) دی گئیں جن ( کو دیکھ کر ) لوگ ایمان لائے ، اور وحی مجھی کو دی گئی ، جو اللہ نے مجھ پر نازل فرمائی ، ( وہ معجزہ بھی ہے ، اور نور بھی ’’ولكن جعلنه نورا ‘ ‘ ) اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن ان سب سے زیادہ پیروکار میرے ہو ں گے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:152

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 291

صحيح مسلم حدیث نمبر: 386
حدثني يونس بن عبد الأعلى، أخبرنا ابن وهب، قال وأخبرني عمرو، أن أبا يونس، حدثه عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أصحاب النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت ‌ابو ‌ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے ‌روایت ‌ہے ‌رسول ‌اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌نے ‌فرمایا ‌. ‌قسم ‌ہے ‌اس ‌كی ‌جس ‌كے ‌ہاتھ ‌میں ‌محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌كی ‌جان ‌ہے ‌. ‌اس ‌زمانے ‌كا ( ‌یعنی ‌میرے ‌وقت ‌اور ‌میرے ‌بعد ‌قیامت ‌تك ) ‌كو‏ئی ‌یہودی ‌یا ‌نصرانی ( ‌یا ‌اور ‌كوئی ‌دین ‌والا ) ‌میرا ‌حال ‌سنے ‌پھر ‌ایمان نہ ‌لائے ‌اس ‌پر ‌جس ‌كو ‌میں ‌دے ‌كر ‌بھیجا ‌گیا ‌ہوں ( ‌یعنی ‌قرآن ) ‌تو ‌جہنم ‌میں ‌جائے ‌گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:153

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 292

صحيح مسلم حدیث نمبر: 387
حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا هشيم، عن صالح بن صالح الهمداني، عن الشعبي، قال رأيت رجلا من أهل خراسان سأل الشعبي فقال يا أبا عمرو إن من قبلنا من أهل خراسان يقولون في الرجل إذا أعتق أمته ثم تزوجها فهو كالراكب بدنته ‏.‏ فقال الشعبي حدثني أبو بردة بن أبي موسى عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ثلاثة يؤتون أجرهم مرتين رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه وأدرك النبي صلى الله عليه وسلم فآمن به واتبعه وصدقه فله أجران وعبد مملوك أدى حق الله تعالى وحق سيده فله أجران ورجل كانت له أمة فغذاها فأحسن غذاءها ثم أدبها فأحسن أدبها ثم أعتقها وتزوجها فله أجران ‏"‏ ‏.‏ ثم قال الشعبي للخراساني خذ هذا الحديث بغير شىء ‏.‏ فقد كان الرجل يرحل فيما دون هذا إلى المدينة ‏.‏ وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبدة بن سليمان، ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، كلهم عن صالح بن صالح، بهذا الإسناد نحوه ‏.‏
ہشیم نے صالح بن صالح ہمدانی سے خبر دی ، انہوں نے شعبی سےروایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے اہل خراسان میں سے ایک آدمی کو دیکھا ، اس نے شعبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سوال کیا اور کہا : اے ابو عمرو! ہماری طرف اہل خراسان اس آدمی کے متعلق جو اپنی لونڈی کو آزاد کرے ، پھر اس سے شادی کر لے ( یہ ) کہتے ہیں کہ وہ اپنے قربانی کر کے جانور پر سوار ہونے والے کے مانند ہے ۔ شعبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اپنے والد سے حدیث سنایئ کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : ’’تین آدمی ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا : اہل کتاب کاآدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور نبیﷺ ( کے دور ) کو پایا تو آپ پر بھی ایمان لایا ، آپ کی پیروی کی اور آپ کی تصدیق کی تو اس کےلیے دو اجر ہیں ۔ اور وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے ، اس نے اللہ کا جو حق اس پر ہے ، ادا کیا اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کیا تو اس کےلیے دو اجر ہیں ۔ اور ایک آدمی جس کی کوئی لونڈی تھی ، اس نے اسے خوراک دی تو بہترین خوراک مہیا کی ، پھر اسے تربیت دی تو بہت اچھی تربیت دی ، پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لی تو اس کے لیے بھی دو اجر ہیں ۔ پھر شعبی نے خراسانی سے کہا : یہ حدیث بلا مشقت لے لو ۔ پہلے ایک آدمی اس سے بھی چھوٹی حدیث کے لیے مدینہ کا سفر کرتا تھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:154.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 293

صحيح مسلم حدیث نمبر: 388
عبدہ بن سلیمان ، سفیان اور شعبہ نے صالح بن صالح کے واسطے سے سابقہ سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:154.02

صحيح مسلم باب:16 حدیث نمبر : 101

صحيح مسلم حدیث نمبر: 389
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم صلى الله عليه وسلم حكما مقسطا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد ‏"‏ ‏.‏
لیث نے ابن شہاب سے حدیث سنائی انہوں نے ابن مسیب سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ تم میں اتریں گے ، انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے ، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ ختم کر دیں گے اور مال کی فراوانی ہو جائے گی حتی کہ کوئی اس کو قبول نہ کرے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 294

صحيح مسلم حدیث نمبر: 390
وحدثناه عبد الأعلى بن حماد، وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب قالوا حدثنا سفيان بن عيينة، ح وحدثنيه حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال حدثني يونس، ح وحدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد، عن يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، كلهم عن الزهري، بهذا الإسناد وفي رواية ابن عيينة ‏"‏ إماما مقسطا وحكما عدلا ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية يونس ‏"‏ حكما عادلا ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر ‏"‏ إماما مقسطا ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث صالح ‏"‏ حكما مقسطا ‏"‏ كما قال الليث ‏.‏ وفي حديثه من الزيادة ‏"‏ وحتى تكون السجدة الواحدة خيرا من الدنيا وما فيها ‏"‏ ‏.‏ ثم يقول أبو هريرة اقرءوا إن شئتم ‏{‏ وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته‏}‏ الآية ‏.‏
سفیان بن عیینہ ، یونس اور صالح نے ( ابن شہاب ) زہری سے ( ان کی ) اسی سند سے روایت نقل کی ۔ ابن عیینہ کی روایت میں ہے : ’’ انصاف کرنے والے پیشوا ، عادل حاکم ‘ ‘ اور یونس کی روایت میں : ’’عادل حاکم ‘ ‘ ہے ، انہوں نے ’’انصاف کرنے والے پیشوا ‘ ‘ کا تذکرہ نہیں کیا ۔ اور صالح کی روایت میں لیث کی طرح ہے : ’’انصاف کرنےوالے حاکم ‘ ‘ اور یہ اضافہ بھی ہے : ’’حتی کہ ایک سجدہ دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہو گا ۔ ‘ ‘ ( کیونکہ باقی انبیاء کےساتھ محمدرسول اللہ ﷺ پرمکمل ایمان ہو گا ، او راولو العزم نبی جو صاحب کتاب و شریعت تھا ۔ آپ کی امت میں شامل ہو گا اور اسی کے مطابق فیصلے فرما رہا ہو گا ۔ ) پھر ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ( آخر میں ) کہتے ہیں : چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’ اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہو گا مگر عیسیٰ کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائے گا ( اور انہی کے ساتھ امت محمدیہ میں شامل ہو گا ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 295

صحيح مسلم حدیث نمبر: 391
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن عطاء بن ميناء، عن أبي هريرة، أنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ والله لينزلن ابن مريم حكما عادلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد ‏"‏ ‏.‏
عطاء بن میناء نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! یقیناً عیسیٰ بن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ عادل حاکم ( فیصلہ کرنےوالے ) بن کر اتریں گے ، ہر صورت میں صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے او رجزیہ موقوف کر دیں گے ، جو ان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی ( دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی ) لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا ، لوگ مال ( لے جانے ) کے لیے بلائے جائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہ کرے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 296

صحيح مسلم حدیث نمبر: 392
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني نافع، مولى أبي قتادة الأنصاري أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وإمامكم منكم ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ابوقتادہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے آزاد کردہ غلام نافع نےمجھے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اس وقت تم کیسے ( عمدہ حال میں ) ہو گےجب مریم کےبیٹے ( عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا؟ ‘ ‘ ( اترنے کےبعد پہلی نماز مقتدی کی حیثیت سے پڑھ کر امت محمدیہ میں شامل ہو جائیں گے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 297

صحيح مسلم حدیث نمبر: 393
وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني نافع، مولى أبي قتادة الأنصاري أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وأمكم ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ( ابن شہاب ) کے سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم کیسے ہو گے جب مریم کے بیٹے تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہاری پیشوائی کریں گے ؟ ‘ ‘ ( جب امامت کرائیں گے تو بھی امت کے ایک فرد کی حیثیت سے کرائیں گے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 298

صحيح مسلم حدیث نمبر: 394
وحدثنا زهير بن حرب، حدثني الوليد بن مسلم، حدثنا ابن أبي ذئب، عن ابن شهاب، عن نافع، مولى أبي قتادة عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ كيف أنتم إذا نزل فيكم ابن مريم فأمكم منكم ‏"‏ ‏.‏ فقلت لابن أبي ذئب إن الأوزاعي حدثنا عن الزهري عن نافع عن أبي هريرة ‏"‏ وإمامكم منكم ‏"‏ ‏.‏ قال ابن أبي ذئب تدري ما أمكم منكم قلت تخبرني ‏.‏ قال فأمكم بكتاب ربكم تبارك وتعالى وسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابن ابی ذئب نے ابن شہاب سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسو ل ا للہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : ’’ تم کیسے ہو گا جب ابن مریم تم میں اتریں گے اور تم میں سے ( ہوکر ) تمہاری امامت کرائیں گے ! ‘ ‘ میں ( ولید بن مسلم ) نے ابن ابی ذئب سے پوچھا : اوزاعی نے ہمیں زہری سے حدیث سنائی ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اس طرح بیان کیا : ’’اور تمہار ا امام تمہیں میں سے ہو گا ‘ ‘ ( اور آپ کہہ رہے ہیں ، ابن مریم امامت کرائیں گے ) ابن ابی ذئب نے ( جواب میں ) کہا : جانتے ہو ’’ تم میں تمہاری امامت کرائیں گے ‘ ‘ کا مطلب کیا ہے ؟ میں نے کہا : آپ مجھے بتا دیجیے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب عزوجل کی کتاب اور تمہارے نبی ﷺ کی سنت کےساتھ ( تم میں ایک فرد کی حیثیت سے یا تمہاری امت کا فرد بن کر ) تمہاری قیادت یا امامت کریں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:155.06

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 299

صحيح مسلم حدیث نمبر: 395
حدثنا الوليد بن شجاع، وهارون بن عبد الله، وحجاج بن الشاعر، قالوا حدثنا حجاج، - وهو ابن محمد - عن ابن جريج، قال أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ لا تزال طائفة من أمتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة - قال - فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم فيقول أميرهم تعال صل لنا ‏.‏ فيقول لا ‏.‏ إن بعضكم على بعض أمراء ‏.‏ تكرمة الله هذه الأمة ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر ( قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک ( جس بھی معرکے میں ہو ں گے ) غالب رہیں گے ، کہا : پھر عیسیٰ ابن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اتریں گے تو اس طائفہ ( گروہ ) کا امیر کہے گا : آئیں ہمیں نماز پڑھائیں ، اس پر عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ جواب دیں گے : نہیں ، اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:156

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 300

صحيح مسلم حدیث نمبر: 396
حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد، وعلي بن حجر، قالوا حدثنا إسماعيل، - يعنون ابن جعفر - عن العلاء، - وهو ابن عبد الرحمن - عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها فإذا طلعت من مغربها آمن الناس كلهم أجمعون فيومئذ لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا ‏"‏ ‏.‏
علاء بن عبد الرحمن نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا ، اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی ۔ جب وہ مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے ، اس دن ’’کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا تھا یا اپنے ایمان ( کی حالت ) میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی ۔ ‘ ‘ ( عمل سے تصدیق نہ کی تھی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:157.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 301

صحيح مسلم حدیث نمبر: 397
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وابن، نمير وأبو كريب قالوا حدثنا ابن فضيل، ح وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، كلاهما عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن عبد الله بن ذكوان، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث العلاء عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابو زرعہ ، عبدالرحمن اعرج اور ہمام بن منبہ سے بھی حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اسی جیسی روایت مذکور ہے جو علاء نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:157.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 302

صحيح مسلم حدیث نمبر: 398
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، قالا حدثنا وكيع، ح وحدثنيه زهير بن حرب، حدثنا إسحاق بن يوسف الأزرق، جميعا عن فضيل بن غزوان، ح وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء - واللفظ له - حدثنا ابن فضيل، عن أبيه، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ ثلاث إذا خرجن لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا طلوع الشمس من مغربها والدجال ودابة الأرض ‏"‏ ‏.‏
ابو حازم نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی شخص کو ، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دوران میں کوئی نیکی نہ کی تھی ، اس کا ایمان لانافائدہ نہ دے گا : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دجال اور دابۃ الارض ( زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:158

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 303

صحيح مسلم حدیث نمبر: 399
حدثنا يحيى بن أيوب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن ابن علية، - قال ابن أيوب حدثنا ابن علية، - حدثنا يونس، عن إبراهيم بن يزيد التيمي، - سمعه فيما، أعلم - عن أبيه، عن أبي ذر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يوما ‏"‏ أتدرون أين تذهب هذه الشمس ‏"‏ ‏.‏ قالوا الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ إن هذه تجري حتى تنتهي إلى مستقرها تحت العرش فتخر ساجدة ولا تزال كذلك حتى يقال لها ارتفعي ارجعي من حيث جئت فترجع فتصبح طالعة من مطلعها ثم تجري حتى تنتهي إلى مستقرها تحت العرش فتخر ساجدة ولا تزال كذلك حتى يقال لها ارتفعي ارجعي من حيث جئت فترجع فتصبح طالعة من مطلعها ثم تجري لا يستنكر الناس منها شيئا حتى تنتهي إلى مستقرها ذاك تحت العرش فيقال لها ارتفعي أصبحي طالعة من مغربك فتصبح طالعة من مغربها ‏"‏ ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أتدرون متى ذاكم ذاك حين لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا ‏"‏ ‏.‏
(اسماعیل ) ابن علیہ نے کہا : ہمیں یونس نے ابراہیم بن یزید تیمی کے حوالے سے حدیث سنائی ، میرے علم کے مطابق ، انہوں نے یہ حدیث اپنے والد ( یزید ) سے سنی اور انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن پوچھا : ’’جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے جواب دیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ جاتا ہے ، پھر سجدے میں چلا جاتا ہے ، وہ مسلسل اسی حالت میں رہتا ہے حتی کہ اسے کہا جاتا ہے : اٹھو! جہاں سے آئے تھے ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے ، پھر چلتا ہوا عرش کے نیچے اپنی جائے قرار پر پہنچ جاتا ہے ، پھر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے : بلند ہو جاؤ اور جہاں سے آئے تھے ، ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے ، پھر ( ایک دن سورج ) چلےگا ، لوگ اس میں معمول سے ہٹی ہوئی کوئی چیز نہیں پائیں گے حتی کہ ( جی ) یہ عرش کے نیچے اپنے اسی مستقر پر پہنچے گا تو اسے کہا جائے گا : بلندہو اور اپنےمغرب ( جس طرف غروب ہوتا تھا ، اسی سمت ) سے طلوع ہو تو وہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’کیا جانتے ہو یہ کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب ’’کسی شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کےدوران میں نیکی نہیں کمائی تھی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:159.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 304

صحيح مسلم حدیث نمبر: 400
وحدثني عبد الحميد بن بيان الواسطي، أخبرنا خالد، - يعني ابن عبد الله - عن يونس، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يوما ‏ "‏ أتدرون أين تذهب هذه الشمس ‏"‏ بمثل معنى حديث ابن علية ‏.‏
خالد بن عبد اللہ نے یونس سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ایک دن نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تم جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ ‘ ‘ ؟.. .....اس کے بعد ابن علیہ والی حدیث کے ہم معنی ( روایت ) ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:159.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 305

صحيح مسلم حدیث نمبر: 401
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالا حدثنا أبو معاوية، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر، قال دخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس فلما غابت الشمس قال ‏"‏ يا أبا ذر هل تدري أين تذهب هذه ‏"‏ ‏.‏ قال قلت الله ورسوله أعلم ‏.‏ قال ‏"‏ فإنها تذهب فتستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها ‏"‏ ‏.‏ قال ثم قرأ في قراءة عبد الله وذلك مستقر لها ‏.‏
ابو معاویہ نے کہا : ہمیں اعمش نے ابراہیم تیمی سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتھے ، جب سورج غائب ہو گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اے ابو ذر!کیا تم جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ کہا : میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جاننے والے ہیں ۔ فرمایا : ’’ یہ جاتا ہے ، پھر سجدے کی اجازت مانگتا ہے تو اسے سجدے کی اجازت دی جاتی ہے ، ( پھر یوں ہو گا کہ ) جیسے اس سے کہہ دیا گیاہو ( اس میں اشارہ ہے کہ ہم حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ، ہمیں تمثیلا اس کی خبر دی جا رہی ہے ) کہ جس طرف سے آئے تھے ، ادھر لوٹ جاؤ تویہ اپنی غروب ہونےوالے سمت سے طلوع ہو جائے گا ‘ ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : پھر آپ نے ﴿تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا﴾کے بجائے ) عبد اللہ بن مسعود کی روایت کردہ قراءت کے مطابق پڑھا : وذلك مستقرلها’’یہ اس کا مستقر ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:159.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 306

صحيح مسلم حدیث نمبر: 402
حدثنا أبو سعيد الأشج، وإسحاق بن إبراهيم، - قال إسحاق أخبرنا وقال الأشج، حدثنا - وكيع، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر، قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قول الله تعالى ‏{‏ والشمس تجري لمستقر لها‏}‏ قال ‏"‏ مستقرها تحت العرش ‏"‏ ‏.‏
وکیع نے اعمش سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا : ’’سورج اپنے مستقر کی طرف چل رہا ہے ۔ ‘ ‘ آپ نے جواب دیا : ’’اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:159.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 307

صحيح مسلم حدیث نمبر: 403
حدثني أبو الطاهر، أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني عروة بن الزبير، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أنها قالت كان أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء فكان يخلو بغار حراء يتحنث فيه - وهو التعبد - الليالي أولات العدد قبل أن يرجع إلى أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال اقرأ ‏.‏ قال ‏"‏ ما أنا بقارئ - قال - فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ ‏.‏ قال قلت م�� أنا بقارئ - قال - فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ ‏.‏ فقلت ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني ‏.‏ فقال ‏{‏ اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم * علم الإنسان ما لم يعلم‏}‏ ‏"‏ ‏.‏ فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال ‏"‏ زملوني زملوني ‏"‏ ‏.‏ فزملوه حتى ذهب عنه الروع ثم قال لخديجة ‏"‏ أى خديجة ما لي ‏"‏ ‏.‏ وأخبرها الخبر قال ‏"‏ لقد خشيت على نفسي ‏"‏ ‏.‏ قالت له خديجة كلا أبشر فوالله لا يخزيك الله أبدا والله إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق ‏.‏ فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى وهو ابن عم خديجة أخي أبيها وكان امرأ تنصر في الجاهلية وكان يكتب الكتاب العربي ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله أن يكتب وكان شيخا كبيرا قد عمي ‏.‏ فقالت له خديجة أى عم اسمع من ابن أخيك ‏.‏ قال ورقة بن نوفل يا ابن أخي ماذا ترى فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رآه فقال له ورقة هذا الناموس الذي أنزل على موسى صلى الله عليه وسلم يا ليتني فيها جذعا يا ليتني أكون حيا حين يخرجك قومك ‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أومخرجي هم ‏"‏ ‏.‏ قال ورقة نعم لم يأت رجل قط بما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا ‏"‏ ‏.‏
یونس نے ابن شہاب ( زہری ) سے خبر دی ، انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث سنائی کہ حضرت عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچےخواب آنے سے ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے روشن ہونے کی طرح سامنے آ جاتی ، پھر خلوت نشینی آپ کو محبوب ہو گئی ، آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور گھر واپس جا کر ( دوبارہ ) اسی غرض کے لیے زاد راہ لانے سے پہلے ( مقررہ ) تعداد مں راتیں تحنث میں مصروف رہتے ، تحنث عبادت گزاری کو کہتے ہیں ، ( اس کے بعد ) آپ پھر خدیجہ ؓ کے پاس واپس آ کر ، اتنی ہی راتوں کے لیے زاد ( سامان خور و نوش ) لے جاتے ، ( یہ سلسلہ چلتا رہا ) یہاں تک کہ اچانک آپ کے پاس حق ( کا پیغام ) آ گیا ، اس وقت آ پ غار حراء ہی میں تھے ، چنانچہ آپ کے فرشتہ آیا اور کہا : پڑھیے! آپ نے جواب دیا : میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں ، آپ نے فرمایا : تو اس ( فرشتے ) نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا یہاں تک کہ ( اس کا دباؤ ) میری برداشت کی آخری حد کو پہنچ گیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے ! میں میں نے کہا : میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں ، پھر اس نے مجھے پکڑا اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے! میں نے کہا : میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں ، پھر اس نے تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر پوری قوت سے بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی ، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا : ’’اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا ، اس نے انسان کو گوشت کے جونک جیسے لوتھڑے سے پیدا کیا ، پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی اور انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا ۔ ‘ ‘ رسول اللہ ﷺ ان آیات کے ساتھ واپس لوٹے ، ( اس وقت ) آپ کے کندھوں اور گردن کے درمیان کے گوشت کے حصے لرز رہے تھے یہاں تک کہ آپ خدیجہ ؓ کے پاس پہنچے اور فرمایا : ’’مجھے کپڑے اوڑھا ؤ ، مجھے کپڑا اوڑھا ؤ ۔ ‘ ‘ انہوں ( گھر والوں ) نے کپڑا اوڑھا دیا دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہو گیا تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا : ’’ خدیجہ ! یہ مجھے کیا ہوا ہے ؟ ‘ ‘ خدیجہ نے جواب دیا : ہر گز نہیں ! ( بلکہ ) آپ کو خوش خبری ہو اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا ، اللہ کی قسم ! آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچی بات کہتے ہیں ، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، اسے کما کر دیتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو ، مہمان نوازی کرتے ہیں ، حق کے لیے پیش آنےوالی مشکلات میں اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہؓ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس پہنچیں ، وہ حضرت خدیجہ ؓ کے چچازاد ، ان کووالد کے بھائی کے بیٹے تھے ، وہ ایسے آدمی تھے جو جاہلیت کے دور میں عیسائی ہو گئے تھے ، عربی خط میں لکھتے تھے ، اور جس قدر الہ کو منظور تھا ، انجیل کوعربی زبان میں لکھتے تھے ، بہت بوڑھے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی ۔ خدیجہ ؓ نے ان سےکہا : چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیے ، ورقہ بن نوفل نے پوچھا : برادرز دے! آپ کیا دیکھتے ہیں ؟ رسول ا للہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا ، ا س کا حال بتایا تو ورقہ نے آپ سے کہا : یہ وہی ناموس ( رازوں کا محافظ ) ہے جسے موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کی طرف بھیجا گیا تھا ، کاش ! اس وقت میں جوان ہوتا ، کا ش! میں اس وقت زندہ ( موجود ) ہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دیں گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا؟ ’’ تو کیا یہی لوگ مجھے نکالنے والے ہوں گے؟ ‘ ‘ ورقہ نے کہا : ہاں ، کبھی کوئی آدمی آپ جیسا پیغام لے کر نہیں آیا مگر اس سے دشمنی کی گئی اور اگر آپ کا ( وہ ) دن میری زندگی میں آ گیا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:160.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 308

صحيح مسلم حدیث نمبر: 404
وحدثني محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، قال قال الزهري وأخبرني عروة، عن عائشة، أنها قالت أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى ‏.‏ وساق الحديث بمثل حديث يونس ‏.‏ غير أنه قال فوالله لا يحزنك الله أبدا ‏.‏ وقال قالت خديجة أى ابن عم اسمع من ابن أخيك ‏.‏
ہمیں معمر نے خبر دی کہ انہوں نے کہا : مجھے عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے خبر دی کہ انہوں نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ کی طرف وحی کی ابتدا...... آگے یونس کی حدیث کی طرح بیا کیا ، سوائے اس کے کہ معمر نے لايحزنك الله أبداً’’ آپ کو اللہ کبھی غمگین نہ کرے گا ‎ ‘ ‘ کہا ۔ انہوں نے ( یہ بھی ) کہا کہ حضرت خدیجہ ؓ نے یہ الفاظ کہا : ’’چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے کی بات سنیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:160.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 309

صحيح مسلم حدیث نمبر: 405
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث، قال حدثني أبي، عن جدي، قال حدثني عقيل بن خالد، قال ابن شهاب سمعت عروة بن الزبير، يقول قالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فرجع إلى خديجة يرجف فؤاده واقتص الحديث بمثل حديث يونس ومعمر ولم يذكر أول حديثهما من قوله أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى الرؤيا الصادقة ‏.‏ وتابع يونس على قوله فوالله لا يخزيك الله أبدا ‏.‏ وذكر قول خديجة أى ابن عم اسمع من ابن أخيك ‏.‏
عقیل بن خالد نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا : میں نے عروہ بن زبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا : نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے ، آپ کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا..... پھر ( عقیل نے ) یونس اور معمر کی طرح حدیث بیان کی ۔ اور ان دونوں کی روایت کا ابتدائی حصہ ، یعنی ان کا یہ قول کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کا آغاز سچے خوابوں کی صورت میں ہوا ، بیان ہیں کیا ۔ نیز عقیل بن خالد نے یونس کے ان الفاظ فوالله !لا يخزيك الله أبداً ’’ اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا ‘ ‘ میں متابعت کرنے کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے : ’’ چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے کی بات سنیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:160.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 310

صحيح مسلم حدیث نمبر: 406
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، قال حدثني يونس، قال قال ابن شهاب أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن جابر بن عبد الله الأنصاري، - وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحدث قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحى - قال في حديثه ‏"‏ فبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالسا على كرسي بين السماء والأرض ‏"‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فجئثت منه فرقا فرجعت فقلت زملوني زملوني ‏.‏ فدثروني فأنزل الله تبارك وتعالى ‏{‏ يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر * وثيابك فطهر * والرجز فاهجر‏}‏ وهي الأوثان قال ثم تتابع الوحى ‏.‏
یونس نے ( اپنی سند کے ساتھ ) ابن شہاب سے بیان کیا ، انہوں نے کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ جو اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے تھے ، یہ حدیث سنایا کرتے تھے ، کہا : وقفہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اس دوران میں جب میں چل رہا تھا ، میں نے آسمان سے ایک آواز سنی ، اس پر میں اپنا سر اٹھایا تو اچانک ( دیکھا ) وہی فرشتہ تھا جومیرے پاس غار حراء میں آیاتھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا تھا ۔ ‘ ‘ آپ نے فرمایا : ’’ اس کے خوف کی وجہ سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میں گھر واپس آگیا اور کہا : مجھے کپڑا اوڑھاؤ ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ تو انہوں ( گھر والوں ) نے مجھے کمبل اوڑھا دیا ۔ ‘ ‘ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیات اتاریں : ’’ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبردار کرواور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو ۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو ۔ اور گندگی سے دور رہیے ۔ ‘ ‘ اور اس ( الرجزیعنی گندگی ) سے مراد بت ہیں ۔ فرمایا : پھر وحی مسلسل نازل ہونے لگی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:161.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 311

صحيح مسلم حدیث نمبر: 407
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث، قال حدثني أبي، عن جدي، قال حدثني عقيل بن خالد، عن ابن شهاب، قال سمعت أبا سلمة بن عبد الرحمن، يقول أخبرني جابر بن عبد الله، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ ثم فتر الوحى عني فترة فبينا أنا أمشي ‏"‏ ثم ذكر مثل حديث يونس غير أنه قال ‏"‏ فجثثت منه فرقا حتى هويت إلى الأرض ‏"‏ ‏.‏ قال وقال أبو سلمة والرجز الأوثان قال ثم حمي الوحى بعد وتتابع
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے بیان کیا ، انہوں نے کہا : میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے خبر دی کہ انہوں نے رسو ل اللہﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’پھر وحی ایک وقفے کے لیے مجھ سے منقطع ہو گئی ، اسی دوران میں جب میں چل رہا تھا..... ‘ ‘ پھر ( عقیل نے ) یونس کی طرح روایت بیان کی ، البتہ انہوں نے ( مزید یہ ) کہا : ’’ تو خوف سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی حتی کہ میں زمین پر گر پڑا ‘ ‘ ( ابن شہاب نےکہا : ابوسلمہ نےبتایا : الرجز سے بت مراد ہیں ) کہا : پھر نزول وحی ( کی رفتار ) میں گرمی آ گئی اور مسلسل نازل ہونے لگی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:161.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 312

صحيح مسلم حدیث نمبر: 408
وحدثني محمد بن رافع حدثنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري بهذا الإسناد نحو حديث يونس وقال فأنزل الله تبارك وتعالى ‏{‏ يا أيها المدثر‏}‏ إلى قوله ‏{‏ والرجز فاهجر‏}‏ قبل أن تفرض الصلاة - وهي الأوثان - وقال ‏ "‏ فجثثت منه ‏"‏ ‏.‏ كما قال عقيل
معمر نے زہری سے اسی سند کےساتھ یونس کی طرح حدیث بیان کی ( اس میں یہ ) کہا : تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے : ﴿﴾ سے لے کر﴿﴾ تک ( کی آیتیں ) نازل فرمائیں ( نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ) اور اس ( الرجز ‎ ) سے بت مراد ہیں ، نیز معمر نے عقیل کی طرح ’’ مجھ پر خوف طاری ہو گیا ‘ ‘ کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:161.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 313

صحيح مسلم حدیث نمبر: 409
وحدثنا زهير بن حرب، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الأوزاعي، قال سمعت يحيى، يقول سألت أبا سلمة أى القرآن أنزل قبل قال يا أيها المدثر ‏.‏ فقلت أو اقرأ ‏.‏ فقال سألت جابر بن عبد الله أى القرآن أنزل قبل قال يا أيها المدثر ‏.‏ فقلت أو اقرأ قال جابر أحدثكم ما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ جاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري نزلت فاستبطنت بطن الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فلم أر أحدا ثم نوديت فنظرت فلم أر أحدا ثم نوديت فرفعت رأسي فإذا هو على العرش في الهواء - يعني جبريل عليه السلام - فأخذتني رجفة شديدة فأتيت خديجة فقلت دثروني ‏.‏ فدثروني فصبوا على ماء فأنزل الله عز وجل ‏{‏ يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر * وثيابك فطهر‏}‏ ‏"‏ ‏.‏
اوزاعی نے کہا : میں نے یحییٰ سے سنا ، کہتے تھے : میں نے ابوسلمہ سے سوال کیا : ’’ قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا ؟ کہا : ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ ۔ میں نے کہا : یا ﴿اِقْرَاْ﴾ ؟ ابو سلمہ نے کہا : میں جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : قرآن کا کون سا حصہ پہلے اتارا گیا ؟ انہوں نے جواب دیا : ﴿ يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴾ ۔ میں نےکہا : یا ﴿ اِقْرَاْ ﴾؟ جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : میں تمہیں وہی بات بتاتا ہوں جوہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتائی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے حراء میں ایک ماہ اعتکاف کیا ۔ جب میں نے اپنا اعتکاف ختم کیا تو میں اترا ، پھر میں وادی کے درمیان پہنچا تو مجھے آواز دی گئی ، اس پر میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا ، مجھے پھر آواز دی گئی میں میں نے دیکھا ، مجھے کوئی نظر نہ آیا ، پھر ( تیسری بار ) مجھے آواز دی گئی تو میں نے سر اوپر اٹھایا تو وہی ( فرشت ( فضا میں تخت ( کرسی ) پر بیٹھا ہوا تھا ( یعنی جبرییل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) اس کی وجہ سے مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا ۔ میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا اور کہا : مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا اور مجھ پرپانی ڈالا ۔ تو اس ( موقع ) پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں : ’’ اے کمبل اوڑھنے والے ! اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک رکھ ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:161.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 314

صحيح مسلم حدیث نمبر: 410
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، أخبرنا علي بن المبارك، عن يحيى بن أبي كثير، بهذا الإسناد وقال ‏ "‏ فإذا هو جالس على عرش بين السماء والأرض ‏"‏ ‏.‏
علی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا : ’’ تو وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:161.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 315

صحيح مسلم حدیث نمبر: 411
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت البناني، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أتيت بالبراق - وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه - قال فركبته حتى أتيت بيت المقدس - قال - فربطته بالحلقة التي يربط به الأنبياء - قال - ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين ثم خرجت فجاءني جبريل - عليه السلام - بإناء من خمر وإناء من لبن فاخترت اللبن فقال جبريل صلى الله عليه وسلم اخترت الفطرة ‏.‏ ثم عرج بنا إلى السماء فاستفتح جبريل فقيل من أنت قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بآدم فرحب بي ودعا لي بخير ‏.‏ ثم عرج بنا إلى السماء الثانية فاستفتح جبريل عليه السلام ‏.‏ فقيل من أنت قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بابنى الخالة عيسى ابن مريم ويحيى بن زكرياء صلوات الله عليهما فرحبا ودعوا لي بخير ‏.‏ ثم عرج بي إلى السماء الثالثة فاستفتح جبريل ‏.‏ فقيل من أنت قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بيوسف صلى الله عليه وسلم إذا هو قد أعطي شطر الحسن فرحب ودعا لي بخير ‏.‏ ثم عرج بنا إلى السماء الرابعة فاستفتح جبريل - عليه السلام - قيل من هذا قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد ‏.‏ قال وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بإدريس فرحب ودعا لي بخير قال الله عز وجل ‏{‏ ورفعناه مكانا عليا‏}‏ ثم عرج بنا إلى السماء الخامسة فاستفتح جبريل ‏.‏ قيل من هذا قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بهارون صلى الله عليه وسلم فرحب ودعا لي بخير ‏.‏ ثم عرج بنا إلى السماء السادسة فاستفتح جبريل عليه السلام ‏.‏ قيل من هذا قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بموسى صلى الله عليه وسلم فرحب ودعا لي بخير ‏.‏ ثم عرج بنا إلى السماء السابعة فاستفتح جبريل فقيل من هذا قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال قد بعث إليه ‏.‏ ففتح لنا فإذا أنا بإبراهيم صلى الله عليه وسلم مسندا ظهره إلى البيت المعمور وإذا هو يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه ثم ذهب بي إلى السدرة المنتهى وإذا ورقها كآذان الفيلة وإذا ثمرها كالقلال - قال - فلما غشيها من أمر الله ما غشي تغيرت فما أحد من خلق الله يستطيع أن ينعتها من حسنها ‏.‏ فأوحى الله إلى ما أوحى ففرض على خمسين صلاة في كل يوم وليلة فنزلت إلى موسى صلى الله عليه وسلم فقال ما فرض ربك على أمتك قلت خمسين صلاة ‏.‏ قال ارجع إلى ربك فاسأله التخفيف فإن أمتك لا يطيقون ذلك فإني قد بلوت بني إسرائيل وخبرتهم ‏.‏ قال فرجعت إلى ربي فقلت يا رب خفف على أمتي ‏.‏ فحط عني خمسا فرجعت إلى موسى فقلت حط عني خمسا ‏.‏ قال إن أمتك لا يطيقون ذلك فارجع إلى ربك فاسأله التخفيف ‏.‏ - قال - فلم أزل أرجع بين ربي تبارك وتعالى وبين موسى - عليه السلام - حتى قال يا محمد إنهن خمس صلوات كل يوم وليلة لكل صلاة عشر فذلك خمسون صلاة ‏.‏ ومن هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة فإن عملها كتبت له عشرا ومن هم بسيئة فلم يعملها لم تكتب شيئا فإن عملها كتبت سيئة واحدة - قال - فنزلت حتى انتهيت إلى موسى صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال ارجع إلى ربك فاسأله التخفيف ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت قد رجعت إلى ربي حتى استحييت منه ‏"‏ ‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے براق لایا گیا۔ اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا اپنے سم وہاں رکھتا ہے، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے) میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ وہاں اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا۔ جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعتیں نماز کی پڑھیں بعد اس کے باہر نکلا تو جبرئیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ میں نے دودھ پسند کیا۔ جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ آسمان پر چڑھے (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے کہا: دروازہ کھولنے کیلئے، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل ہے۔ انہوں نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا بلائے گئے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بلائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھولا گیا ہمارے لئے اور ہم نے آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی بہتری کی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا، فرشتوں نے پوچھا: کون ہے۔ انہوں نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا ان کو حکم ہوا تھا بلانے کا۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے کہا: کون ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: جبرئیل۔ فرشتوں نے کہا: دوسرا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا ان کو پیغام کیا گیا تھا بلانے کے لئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں ان کو پیغام کیا گیا تھا پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مرحبا کہا مجھ کو اور نیک دعا کی پھر جبرئیل علیہ السلام ہم کو لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتوں نے کہا: کیا بلوائے گے ہیں؟ جبرئیل نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور اچھی دعا دی مجھ کو، اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ہم نے اٹھا لیا ادریس کو اونچی جگہ پر (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے) پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا: کون؟ کہا جبرئیل۔ پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا بلائے گئے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں بلوائے گئے ہیں، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ کہا: جبرئیل۔ پوچھا اور کون ہے تمہارے ساتھ؟ انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ نے ان کو پیغام بھیجا آ ملنے کیلئے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ہاں بھیجا، پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے کہا: مرحبا اور اچھی دعا دی مجھ کو، پھر جبرئیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا فرشتوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے اپنی پیٹھ کا بیت المعمور کی طرف (اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا درست ہے) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں جو پھر کبھی نہیں آتے پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر جیسے قلہ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی پھر اللہ جل جلالہ نے ڈالا میرے دل میں جو کچھ ڈالا اور پچاس نمازیں ہر رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں جب میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا: تمہارے پروردگار نے کیا فرض کیا تمہاری امت پر۔ میں نے کہا: پچاس نمازیں فرض کیں۔ انہوں نے کہا: پھر لوٹ جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں لوٹ گیا اپنے پروردگار کے پاس اور عرض کیا: اے پروردگار! تخفیف کر میری امت پر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسٰی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی تم پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس طرح برابر اپنے پروردگار اور موسٰی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: اے محمد! وہ پانچ نمازیں ہیں، ہر دن اور ہر رات میں اور ہر ایک نماز میں دس نماز کا ثواب ہے، تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی کیسی عنایت اپنے غلاموں پر ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب ملے پچاس کا) اور جو کوئی شخص نیت کرے کام کرنے کی نیک، پھر اس کو نہ کرے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو دس نیکیوں کا اور جو شخص نیت کرے برائی کی پھر اس کو نہ کرے تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر بیٹھے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا: پھر جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں شرما گیا اس سے۔“

صحيح مسلم حدیث نمبر:162.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 316

صحيح مسلم حدیث نمبر: 412
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي، حدثنا بهز بن أسد، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أتيت فانطلقوا بي إلى زمزم فشرح عن صدري ثم غسل بماء زمزم ثم أنزلت ‏"‏ ‏.‏
سلیمان بن مغیرہ نے کہا : ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میرے پاس ( فرشتے ) آئے اور مجھے زمزم کے پاس لے گئے ، میرا سینہ چاک کیا گیا ، پھر زمزم کے پانی سے دھویا گیا ، پھر مجھے ( واپس اپنی جگہ ) اتارا دیا گیا ۔ ‘ ‘ ( یہ معراج سے فوراً پہلے کا واقعہ ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:162.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 317

صحيح مسلم حدیث نمبر: 413
حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت البناني، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتاه جبريل صلى الله عليه وسلم وهو يلعب مع الغلمان فأخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج القلب فاستخرج منه علقة فقال هذا حظ الشيطان منك ‏.‏ ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم ثم لأمه ثم أعاده في مكانه وجاء الغلمان يسعون إلى أمه - يعني ظئره - فقالوا إن محمدا قد قتل ‏.‏ فاستقبلوه وهو منتقع اللون ‏.‏ قال أنس وقد كنت أرى أثر ذلك المخيط في صدره ‏.‏
(سلیمان بن مغیرہ کے بجائے ) حماد بن سلمہ نے ثابت کے واسطے سے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہﷺ کے پاس جبرئیل آئے جبکہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، انہوں نے آپ کو پکڑا ، نیچے لٹایا ، آپ کا سینہ چاک کیا اور دل نکال لیا ، پھر اس سےایک لوتھڑا نکالا اور کہا : یہ آپ ( کے دل میں ) سے شیطان کا حصہ تھا ، پھر اس ( دل ) کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا ، پھر اس کو جوڑا اور اس کی جگہ پر لوٹا دیا ، بچے دوڑتے ہوئے آپ کی والدہ ، یعنی آپ کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا : محمد ( ﷺ ) کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ ( یہ سن کر لوگ دوڑے ) تو آپ کے سامنے سےآتے ہوئے پایا ، آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا ، حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں اس سلائی کا نشان آپ کے سینے پر دیکھا کرتا تھا ۔ ( یہ بچپن کا شق صدر ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:162.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 318

صحيح مسلم حدیث نمبر: 414
حدثنا هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني سليمان، - وهو ابن بلال - قال حدثني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، قال سمعت أنس بن مالك، يحدثنا عن ليلة، أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم من مسجد الكعبة أنه جاءه ثلاثة نفر قبل أن يوحى إليه وهو نائم في المسجد الحرام وساق الحديث بقصته نحو حديث ثابت البناني وقدم فيه شيئا وأخر وزاد ونقص ‏.‏
شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے حدیث سنائی ( کہا ) : میں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ ہمیں اس رات کے بارے میں حدیث سنا رہے تھے جس میں رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے رات کے سفر پر لے جایا گیا کہ آپ کی طرف وحی کیے جانے سے پہلے آپ کے پاس تین نفر ( فرشتے ) آئے ، اس وقت آپ مسجد حرام میں سوئے تھے ۔ شریک نے ’’واقعہ اسراء ‘ ‘ ثابت بنانی کی حدیث کی طرح سنایا اور اس میں کچھ چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا اور ( کچھ میں ) کمی بیشی کی ۔ ( امام مسلم نے یہ تفصیل بتا کر پوری ورایت نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:162

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 319

صحيح مسلم حدیث نمبر: 415
وحدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فرج سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل صلى الله عليه وسلم ففرج صدري ثم غسله من ماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغها في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جئنا السماء الدنيا قال جبريل - عليه السلام - لخازن السماء الدنيا افتح ‏.‏ قال من هذا قال هذا جبريل ‏.‏ قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال فأرسل إليه قال نعم ففتح - قال - فلما علونا السماء الدنيا فإذا رجل عن يمينه أسودة وعن يساره أسودة - قال - فإذا نظر قبل يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى - قال - فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح - قال - قلت يا جبريل من هذا قال هذا آدم صلى الله عليه وسلم وهذه الأسودة عن يمينه وعن شماله نسم بنيه فأهل اليمين أهل الجنة والأسودة التي عن شماله أهل النار فإذا نظر قبل يمينه ضحك وإذا نظر قبل شماله بكى - قال - ثم عرج بي جبريل حتى أتى السماء الثانية ‏.‏ فقال لخازنها افتح - قال - فقال له خازنها مثل ما قال خازن السماء الدنيا ففتح ‏"‏ ‏.‏ فقال أنس بن مالك فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وعيسى وموسى وإبراهيم - صلوات الله عليهم أجمعين - ولم يثبت كيف منازلهم غير أنه ذكر أنه قد وجد آدم - عليه السلام - في السماء الدنيا وإبراهيم في السماء السادسة ‏.‏ قال ‏"‏ فلما مر جبريل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بإدريس - صلوات الله عليه - قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح - قال - ثم مر فقلت من هذا فقال هذا إدريس - قال - ثم مررت بموسى - عليه السلام - فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح - قال - قلت من هذا قال هذا موسى - قال - ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح ‏.‏ قلت من هذا قال عيسى ابن مريم - قال - ثم مررت بإبراهيم - عليه السلام - فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح - قال - قلت من هذا قال هذا إبراهيم ‏"‏ ‏.‏ قال ابن شهاب وأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام ‏"‏ ‏.‏ قال ابن حزم و أنس بن مالك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ففرض الله على أمتي خمسين صلاة - قال - فرجعت بذلك حتى أمر بموسى فقال موسى عليه السلام ماذا فرض ربك على أمتك - قال - قلت فرض عليهم خمسين صلاة ‏.‏ قال لي موسى عليه السلام فراجع ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك - قال - فراجعت ربي فوضع شطرها - قال - فرجعت إلى موسى - عليه السلام - فأخبرته قال راجع ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك - قال - فراجعت ربي فقال هي خمس وهى خمسون لا يبدل القول لدى - قال - فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك ‏.‏ فقلت قد استحييت من ربي - قال - ثم انطلق بي جبريل حتى نأتي سدرة المنتهى فغشيها ألوان لا أدري ما هي - قال - ثم أدخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حضرت ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے بتایا : ’’ میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی ، جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ اترے ، میرا سینہ چاک کیا ، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا ، پھر سونے کاطشت لائے جو حکمت او رایمان سے لبریز تھا ، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا ، پھر اس کو جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑ ا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے ، جب ہم سب سے نچلے ( پہلے ) آسمان پر پہنچے تو جبرئیل نے ( اس ) نچلے آسمان کے دربان سے کہا : دروازہ کھولو ۔ اس نے کہا : یہ کون ہیں ؟ کہا : یہ جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ ہے ۔ پوچھا : کیا تیرے ساتھ کوئی ہے؟ کہا ہاں ، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ، پھر اس نے دروازہ کھولا آپ ﷺ نے فرمایا : کہ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس کے دائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے اور اس کے بائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے جب وہ آدمی اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور اپنے بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے ۔ اس نے کہا : خوش آمدید !اے نیک نبی اور اے نیک بیٹےکو ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا : کہ یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں طرف جنتی اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں اس لئے جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو روتے ہیں ۔ پھر حضرت جبرائیل مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے گئے اور اس کے پہرے دار سے کہا دروازہ کھولئے آپ نے فرمایا کہ دوسرے آسمان کے پہرے دار نے بھی وہی کچھ کہا جو آسمان دنیا کے خازن ( پہرےدار ) سے کہا : دروازہ کھولو ۔ اس کے خازن نے بھی پہلے آسمان والے کی طرح بات کی اور دروازہ کھول دیا ۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺنے بتایا کہ مجھے آسمانوں پر آدم ، ادریس ، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام ملے ( اختصار سے بتاتے ہوئے ) انہوں ( ابو ذر ) نے یہ تعیین نہیں کی کہ ان کی منزلیں کیسے تھیں ؟ البتہ یہ بتایا کہ آدم ‌علیہ ‌السلام ‌ آپ کو پہلے آسمان پر ملے اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر ( یہ کسی راوی کا وہم ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آپ ﷺ کی ملاقات ساتویں آسمان پر ہوئی ) ، فرمایا : جب جبرئیل اور رسول اللہ ﷺ ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا : صالح بنی اور صالح بھائی کو خوش آمدید ، پھر وہ آ گے گزرے تو میں نے ‎پوچھا : یہ کون ہیں ؟ تو ( جبریل نے ) کہا : یہ ادریس علیہ السلام ہیں ، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے نے کہا : صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید ، فرمایا : میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ ہیں ، پھر میں عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس سے گزرا ، انہوں نے کہا : صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید ، میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟کہا : عیسیٰ بن مریم ہیں ۔ آپ نے فرمایا : پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزراتو انہوں نے کہا : صالح نبی اور صالح بیٹے ، مرحبا! میں نےپوچھا : یہ کون ہیں ؟ کہا : یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ ‘ ‘ ابن شہاب نے کہا : مجھے ابن حزم نے بتایا کہ ابن عباس اور ابو حبہ انصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’پھر ( جبریل ) مجھے ( اور ) اوپر لے گئے حتی کہ میں ایک اونچی جگہ کے سامنے نمودار ہوا ، میں اس کے اندر سے قلموں کی آواز سن رہا تھا ۔ ‘ ‘ ابن حزم اور انس بن مالک ؓ نے کہا : رسو اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ، میں یہ ( حکم ) لے کر واپس ہوا یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا : آپ نے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہیں ۔ ؟ آپ نے فرمایا : میں نے جواب دیا : ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں ۔ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے مجھ سے کہا : اپنے رب کی طرف رجوع کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ۔ فرمایا : اس پر میں نے اپنےرب سے رجوع کیا تو اس نے اس کا ایک حصہ مجھ سے کم کر دیا ۔ آپ نے فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا اور انہیں بتایا ۔ انہوں نے کہا : اپنے رب کی طرف رجوع کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی ( بھی ) طاقت نہیں رکھے گی ۔ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو اس نے فرمایا : یہ پانچ ہیں اور یہی پچاس ہیں ، میرے ہاں پر حکم بدلا نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا : میں لوٹ کر موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کی طر ف آیا تو انہوں نے کہا : اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔ تو میں نے کہا : ( بار بارسوال کرنے پر ) میں اپنےرب سے شرمندہ ہوا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : پھر جبریل مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سدرۃ المنتہی پر پہنچ گئے تو اس کو ( ایسے ایسے ) رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے ؟ پھر مجھے جنت کے اندر لے جایا گیا ، اس میں گنبد موتیوں کے تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:163

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 320

صحيح مسلم حدیث نمبر: 416
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك، - لعله قال - عن مالك بن صعصعة، - رجل من قومه - قال قال نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول أحد الثلاثة بين الرجلين ‏.‏ فأتيت فانطلق بي فأتيت بطست من ذهب فيها من ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا ‏"‏ ‏.‏ قال قتادة فقلت للذي معي ما يعني قال إلى أسفل بطنه ‏"‏ فاستخرج قلبي فغسل بماء زمزم ثم أعيد مكانه ثم حشي إيمانا وحكمة ثم أتيت بدابة أبيض يقال له البراق فوق الحمار ودون البغل يقع خطوه عند أقصى طرفه فحملت عليه ثم انطلقنا حتى أتينا السماء الدنيا فاستفتح جبريل صلى الله عليه وسلم فقيل من هذا قال جبريل ‏.‏ قيل ومن معك قال محمد صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قيل وقد بعث إليه قال نعم - قال - ففتح لنا وقال مرحبا به ولنعم المجيء جاء - قال - فأتينا على آدم صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بقصته ‏.‏ وذكر أنه لقي في السماء الثانية عيسى ويحيى - عليهما السلام - وفي الثالثة يوسف وفي الرابعة إدريس وفي الخامسة هارون - صلى الله عليهم وسلم - قال ‏"‏ ثم انطلقنا حتى انتهينا إلى السماء السادسة فأتيت على موسى عليه السلام فسلمت عليه فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح ‏.‏ فلما جاوزته بكى فنودي ما يبكيك قال رب هذا غلام بعثته بعدي يدخل من أمته الجنة أكثر مما يدخل من أمتي ‏.‏ - قال - ثم انطلقنا حتى انتهينا إلى السماء السابعة فأتيت على إبراهيم ‏"‏ ‏.‏ وقال في الحديث وحدث نبي الله صلى الله عليه وسلم أنه رأى أربعة أنهار يخرج من أصلها نهران ظاهران ونهران باطنان ‏"‏ فقلت يا جبريل ما هذه الأنهار قال أما النهران الباطنان فنهران في الجنة وأما الظاهران فالنيل والفرات ‏.‏ ثم رفع لي البيت المعمور فقلت يا جبريل ما هذا قال هذا البيت المعمور يدخله كل يوم سبعون ألف ملك إذا خرجوا منه لم يعودوا فيه آخر ما عليهم ‏.‏ ثم أتيت بإناءين أحدهما خمر والآخر لبن فعرضا على فاخترت اللبن فقيل أصبت أصاب الله بك أمتك على الفطرة ‏.‏ ثم فرضت على كل يوم خمسون صلاة ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر قصتها إلى آخر الحديث ‏.‏
سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ( انہوں نے غالباً یہ کہا ) کہ مالک بن صعصعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے ( جو ان کی قوم کے فرد تھے ) کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا ، اس اثناء میں ایک کہنے والے کو میں نے یہ کہتے سنا : ’’ تین آدمیوں میں سے ایک ، دو کے درمیان والا ‘ ‘ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا ، اس کے بعد میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا ، پھر میرا سینہ کھول دیا گیا ، فلاں سے فلاں جگہ تک ( قتادہ نےکہا : میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا : اس سے کیا مراد لے رہے ہیں ؟ اس نے کہا ، پیٹ کے نیچے کےحصے تک ) پھر میرا دل نکالا گیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا ، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا ۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے ، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی ، مجھے اس پر سوار کیا گیا ، پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم سب سے نچلے ( پہلے ) آسمان تک پہنچے ۔ جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا : تو پوچھا گیا : یہ ( دروازہ کھلوانے والا ) کون ہے ؟ کہا : جبریل ہوں ۔ کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمدﷺ ہیں ۔ پوچھا گیا : کیا ( آسمانوں پر لانے کےلیے ) ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا : ہاں ۔ تو اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا : مرحبا ! آپ بہترین طریقے سے آئے ! فرمایا : پھر ہم آدم علیہ السلام کے سامنے پہنچ گئے ۔ آگے پورے قصے سمیت حدیث سنائی اور بتایا کہ دوسرے آسمان پر آپ عیسیٰ اور یحییٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، تیسرے پر یوسف علیہ السلام سے اور چوتھے پر ادریس علیہ السلام سے ، پانچویں پر ہارون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ملے ، کہا : پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے ، میں موسیٰ علیہ السلام کےپاس پہنچا اور ان کو سلام کیا ، انہوں نے کہا : صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا ، جب میں ان سے آگے چلا گیا تو وہ رونے لگے ، انہیں آواز دی گئی آپ کو کس بات نے رلا دیا ؟ کہا : اے میرے رب ! یہ نوجوان ہیں جن کو تو نے میرےبعد بھیجا ہے ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا : پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے تو میں ابراہیم علیہ السلام کے سامنے آیا ۔ ‘ ‘ اور انہوں نے حدیث میں کہا کہ نبی ا کرمﷺ نے بتایا کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں ، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں ۔ ’’میں نے کہا : اے جبریل ! یہ نہریں کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا : جو دو پوشیدہ ہیں تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں ، پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا میں نے پوچھا : اے جبریل! یہ کیا ہے ؟ کہا : یہ بیت معمور ہے ، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ، جب اس سے نکل جاتے ہیں ، تو اس ( زمانے ) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے ، پھر میرےپاس دو برتن لائے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا ، دونوں میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا ، اس پر کہا گیا ، آپ نے ٹھیک ( فیصلہ ) کیا ، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے ( سب کو ) صحیح ( فیصلہ ) تک پہنچائے ، آپ کی امت ( بھی ) فطرت پر ہے ، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں ..... ‘ ‘ پھر ( سابقہ ) حدیث کے آخر تک کا سارا واقعہ بیان کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:164.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 321

صحيح مسلم حدیث نمبر: 417
حدثني محمد بن المثنى، حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، عن مالك بن صعصعة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحوه وزاد فيه ‏ "‏ فأتيت بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن فغسل بماء زمزم ثم ملئ حكمة وإيمانا ‏"‏ ‏.‏
ہشام نے قتادہ سے حدیث سنائی ، ( انہوں نے کہا : ) ہمیں انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حضرت مالک بن صعصعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا.... پھر سابقہ حدیث کی طرح بیان کیا اور اس میں اضافہ کیا : ’’ تو میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرا سونے کا طشت لایا گیا اور ( میری ) گردن کے قریب سے پیٹ کے پتلے حصے تک چیرا گیا ، پھر زم زم کے پانی سے دھویا گیا ، پھر اسےحکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا 0 ‘ ‘ ( وضاحت کتاب الایمان کے تعارف میں دیکھیے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:164.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 322

صحيح مسلم حدیث نمبر: 418
حدثني محمد بن المثنى، وابن، بشار قال ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال سمعت أبا العالية، يقول حدثني ابن عم، نبيكم صلى الله عليه وسلم - يعني ابن عباس - قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أسري به فقال ‏"‏ موسى آدم طوال كأنه من رجال شنوءة ‏"‏ ‏.‏ وقال ‏"‏ عيسى جعد مربوع ‏"‏ ‏.‏ وذكر مالكا خازن جهنم وذكر الدجال ‏.‏
شعبہ نے ا بو قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : میں نے ابو عالیہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : مجھے تمہارے نبی ﷺ کے چچا کے بیٹے ، یعنی حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے حدیث سنائی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسراء کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا : ’’ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ گندمی رنگ کے اونچے لمبے تھے جیسے وہ قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں اور فرمایا : عیسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ گٹھے ہوئے جسم کے میانہ قامت تھے ۔ ‘ ‘ اور آپ نے دوزخ کے داروغے مالک اور دجال کا بھی ذکر فرمایا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:165.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 323

صحيح مسلم حدیث نمبر: 419
وحدثنا عبد بن حميد، أخبرنا يونس بن محمد، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن، عن قتادة، عن أبي العالية، حدثنا ابن عم، نبيكم صلى الله عليه وسلم ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مررت ليلة أسري بي على موسى بن عمران - عليه السلام - رجل آدم طوال جعد كأنه من رجال شنوءة ورأيت عيسى ابن مريم مربوع الخلق إلى الحمرة والبياض سبط الرأس ‏"‏ ‏.‏ وأري مالكا خازن النار والدجال ‏.‏ في آيات أراهن الله إياه فلا تكن في مرية من لقائه ‏.‏ قال كان قتادة يفسرها أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد لقي موسى عليه السلام ‏.‏
شیبان بن عبد الرحمن نے قتادہ کے حوالے سے سابقہ سند کے ساتھ حدیث سنائی کہ ہمیں تمہارے نبی ﷺ کے چچازاد ( ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) نے حدیث سنائی ، کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں اسراء کی رات موسیٰ بن عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس سے گزرا ، وہ گندمی گوں ، طویل قامت کے گٹھے ہوئے جسم کے انسان تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں ۔ اور میں نے عیسیٰ ابن مریم ‌علیہ ‌السلام ‌ کو دیکھا ، ا ن کا قد درمیانہ ، رنگ سرخ وسفید اور سر کے بال سیدھے تھے ۔ ‘ ‘ ( سفر معراج کے دوران میں ) ان بہت سی نشانیوں میں سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھائیں آپ کو دورخ کا داروغہ مالک اور دجال بھی دکھایا گیا ۔ ’’آپ ان ( موسیٰ ) سے ملاقات کے بارے میں شک میں نہ رہیں ۔ ‘ ‘ شیبان نےکہا : قتادہ اس آیت کی تفسیر بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ یقیناً موسیٰ علیہ السلام سے ملے تھے ۔ ( یہ ملاقات حقیقی تھی ، معراج محض خواب نہ تھا ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:165.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 324

صحيح مسلم حدیث نمبر: 420
حدثنا أحمد بن حنبل، وسريج بن يونس، قالا حدثنا هشيم، أخبرنا داود بن أبي هند، عن أبي العالية، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بوادي الأزرق فقال ‏"‏ أى واد هذا ‏"‏ ‏.‏ فقالوا هذا وادي الأزرق ‏.‏ قال ‏"‏ كأني أنظر إلى موسى - عليه السلام - هابطا من الثنية وله جؤار إلى الله بالتلبية ‏"‏ ‏.‏ ثم أتى على ثنية هرشى ‏.‏ فقال ‏"‏ أى ثنية هذه ‏"‏ ‏.‏ قالوا ثنية هرشى قال ‏"‏ كأني أنظر إلى يونس بن متى - عليه السلام - على ناقة حمراء جعدة عليه جبة من صوف خطام ناقته خلبة وهو يلبي ‏"‏ ‏.‏ قال ابن حنبل في حديثه قال هشيم يعني ليفا ‏.‏
احمد بن حنبل اور سریج بن یونس نے کہا : ہمیں ہشیم نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں داؤد بن ابی ہند نے ابوعالیہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ وادی ازرق سے گزرے تو آپ نے پوچھا : ’’ یہ کون سے وادی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : یہ وادی ازرق ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں موسیٰ علیہ السلام کو وادی کے موڑ سے اترتے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے اللہ کے سامنے زاری کر رہے ہیں ۔ ‘ ‘ پھر آپ ہرشیٰ کی گھاتی پر پہنچے تو پوچھا : ’’ یہ کو ن سی گھاٹی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : یہ ہرشیٰ کی گھاٹی ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ جیسے میں یونس بن متی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو دیکھ رہا ہوں جو سرخ رنگ کی مضبوط بدن اونٹنی پر سوار ہیں ، ان کے جسم پر اونی جبہ ہے ، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ لبیک کہہ رہے ہیں ۔ ‘ ‘ ابن حنبل نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ ہشیم نے کہا : خلبة سے لیف ، یعنی کھجور کی چھال مراد ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:166.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 325

صحيح مسلم حدیث نمبر: 421
وحدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن داود، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة فمررنا بواد فقال ‏"‏ أى واد هذا ‏"‏ ‏.‏ فقالوا وادي الأزرق ‏.‏ فقال ‏"‏ كأني أنظر إلى موسى صلى الله عليه وسلم فذكر من لونه وشعره شيئا لم يحفظه داود واضعا إصبعيه في أذنيه له جؤار إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي ‏"‏ ‏.‏ قال ‏"‏ ثم سرنا حتى أتينا على ثنية فقال ‏"‏ أى ثنية هذه ‏"‏ ‏.‏ قالوا هرشى أو لفت ‏.‏ فقال ‏"‏ كأني أنظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف خطام ناقته ليف خلبة مارا بهذا الوادي ملبيا ‏"‏ ‏.‏
ابن ابی عدی نے داؤد سے حدیث سنائی ، انہوں نےابو عالیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان رات کے وقت سفر کیا ، ہم ایک وادی سے گزرے توآپ نے پوچھا : ’’ یہ کون سی وادی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : وادی ازرق ہے ، آپ نے فرمایا : ’’جیسے میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں ( آپ نے موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے رنگ اور بالوں کے بارے میں کچھ بتایا جو داود کویاد نہیں رہا ) موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے اپنی دو انگلیاں اپنے ( دونوں ) کانوں میں ڈالی ہوئی ہیں ، اس وادی سے گزرتے ہوئے ، تلبیہ کے ساتھ ، بلند آواز سے اللہ کے سامنے زاری کرتے جا رہے ہیں ۔ ‘ ‘ ( حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک ( اور ) گھاٹی پر پہنچے تو آپ نے پوچھا : ’’یہ کون سی گھاٹی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے جواب دیا : ہرشیٰ یا لفت ہے ۔ تو آپ نے فرمایا : ’’ جیسے میں یونس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو سرخ اونٹنی پر سوار دیکھ رہا ہوں ، ان کے بدن پر اونی جبہ ہے ، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے ، وہ تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:166.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 326

صحيح مسلم حدیث نمبر: 422
حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن مجاهد، قال كنا عند ابن عباس فذكروا الدجال فقال إنه مكتوب بين عينيه كافر ‏.‏ قال فقال ابن عباس لم أسمعه ‏.‏ قال ذاك ولكنه قال ‏ "‏ أما إبراهيم فانظروا إلى صاحبكم وأما موسى فرجل آدم جعد على جمل أحمر مخطوم بخلبة كأني أنظر إليه إذا انحدر في الوادي يلبي ‏"‏ ‏.‏
مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ہم ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس تھے تو لوگوں نے دجال کا تذکرہ چھیڑ دیا ، ( اس پر کسی نے ) کہا : اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا گا ۔ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : میں نے آپ ﷺ سے نہیں سنا کہ آپ نے یہ کہا ہو لیکن آپ نے یہ فرمایا : ’’جہاں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ہے تو اپنے صاحب ( نبیﷺ ) کو دیکھ لو اور موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ گندمی رنگ ، گٹھے ہوئے جسم کے مرد ہیں ، سرخ اونٹ پر سوار ہیں جس کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے جیسے میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ جب وادی میں اترے ہیں تو تلبیہ کہہ رہے ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:166.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 327

صحيح مسلم حدیث نمبر: 423
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، ح وحدثنا محمد بن رمح، أخبرنا الليث، عن أبي الزبير، عن جابر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ عرض على الأنبياء فإذا موسى ضرب من الرجال كأنه من رجال شنوءة ورأيت عيسى ابن مريم - عليه السلام - فإذا أقرب من رأيت به شبها عروة بن مسعود ورأيت إبراهيم صلوات الله عليه فإذا أقرب من رأيت به شبها صاحبكم - يعني نفسه - ورأيت جبريل - عليه السلام - فإذا أقرب من رأيت به شبها دحية ‏"‏ ‏.‏ وفي رواية ابن رمح ‏"‏ دحية بن خليفة ‏"‏ ‏.‏
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے انہوں نے ابو زبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ انبیائے کرام میرے سامنے لائے گئے ۔ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ پھر پتلے بدن کے آدمی تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ایک ہوں اور میں نے عیسیٰ ابن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو دیکھا ، مجھے ان کے ساتھ سب سے قریبی مشابہت عروہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ میں نظر آتی ہے ، میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا ، مجھے ان کے ساتھ سب سے قریبی مشابہت تمہارے صاحب ( نبیﷺ ) میں نظرآئی ، یعنی خود آپ ۔ اور میں نے جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ کو ( انسانی شکل میں ) دیکھا ، میں نے ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ میں دیکھی ۔ ‘ ‘ ابن رمح کی روایت میں ’’دحیہ بن خلیفہ ‘ ‘ ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:167

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 328

صحيح مسلم حدیث نمبر: 424
وحدثني محمد بن رافع، وعبد بن حميد، - وتقاربا في اللفظ - قال ابن رافع حدثنا وقال عبد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ حين أسري بي لقيت موسى - عليه السلام - ‏"‏ ‏.‏ فنعته النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإذا رجل - حسبته قال - مضطرب رجل الرأس كأنه من رجال شنوءة - قال - ولقيت عيسى ‏"‏ ‏.‏ فنعته النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإذا ربعة أحمر كأنما خرج من ديماس ‏"‏ ‏.‏ - يعني حماما - قال ‏"‏ ورأيت إبراهيم - صلوات الله عليه - وأنا أشبه ولده به - قال - فأتيت بإناءين في أحدهما لبن وفي الآخر خمر فقيل لي خذ أيهما شئت ‏.‏ فأخذت اللبن فشربته ‏.‏ فقال هديت الفطرة أو أصبت الفطرة أما إنك لو أخذت الخمر غوت أمتك ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، کا : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’جب مجھے اسراء کروایا گیا تو میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا ( آپ نےان کا حلیہ بیان کیا : میرا خیال ہے آپ نے فرمایا : ) وہ ایک مضطرب ( کچھ لمبے اور پھر پتلے ) مرد ہیں ، لٹکتے بالوں والے ، جیسے وہ قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں ( اور آپ نے فرمایا : ) میری ملاقات عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ سے ہوئی ( آپﷺ نے ان کا حلیہ بیان فرمایا : ) وہ میانہ قامت ، سرخ رنگ کے تھے گویا ابھی دیماس ( یعنی حمام ) سے نکلے ہیں ۔ اور فرمایا : میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا ، ان کی اولاد میں سے میں ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہوں ( آپ ﷺ نے فرمایا ) میرے پاس دو برتن لائے گئے ، ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی ، مجھ سے کہا گیا : ان میں سے جو چاہیں لے لیں ۔ میں نے دودھ لیا اور اسے پی لیا ، ( جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ نے ) کہا کہ آپ کو فطرت کی راہ پر چلایا گیا ہے ( یا آپ نے فطرت کو پا لیا ہے ) اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت راستے سے ہٹ جاتی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:168

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 329

صحيح مسلم حدیث نمبر: 425
حدثنا يحيى بن يحيى، قال قرأت على مالك عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أراني ليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكئا على رجلين - أو على عواتق رجلين - يطوف بالبيت فسألت من هذا فقيل هذا المسيح ابن مريم ‏.‏ ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأنها عنبة طافية فسألت من هذا فقيل هذا المسيح الدجال ‏"‏ ‏.‏
مالک ( بن انس ) نے نافع سے اور ا نہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا تو میں نے ایک گندم گوں شخص دیکھا ، گندم گوں لوگوں میں سے سب سے خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو ، ان کی لمبی لمبی لٹیں تھیں جو ان لٹوں میں سے سب سے خوبصورت تھیں جنہیں تم دیکھتے ہو ، ان کو کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، دوآدمیوں کا ( یا دو آدمیوں کے کندھوں کا ) سہارا لیا ہوا تھا ۔ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ۔ میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ کہا گیا : یہ مسیح ابن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ہیں ۔ پھراچانک میں نے ایک آدمی دیکھا ، الجھے ہوئے گھنگریالے بالوں والا ، دائیں آنکھ کانی تھی ، جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو ، میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ تو کہاگیا : یہ مسیح دجال ( جھوٹا یا مصنوعی مسیح ) ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:169.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 330

صحيح مسلم حدیث نمبر: 426
حدثنا محمد بن إسحاق المسيبي، حدثنا أنس، - يعني ابن عياض - عن موسى، - وهو ابن عقبة - عن نافع، قال قال عبد الله بن عمر ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بين ظهرانى الناس المسيح الدجال فقال ‏"‏ إن الله تبارك وتعالى ليس بأعور ألا إن المسيح الدجال أعور عين اليمنى كأن عينه عنبة طافية ‏"‏ ‏.‏ قال وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أراني الليلة في المنام عند الكعبة فإذا رجل آدم كأحسن ما ترى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه رجل الشعر يقطر رأسه ماء ‏.‏ واضعا يديه على منكبى رجلين وهو بينهما يطوف بالبيت فقلت من هذا فقالوا المسيح ابن مريم ‏.‏ ورأيت وراءه رجلا جعدا قططا أعور عين اليمنى كأشبه من رأيت من الناس بابن قطن واضعا يديه على منكبى رجلين يطوف بالبيت فقلت من هذا قالوا هذا المسيح الدجال ‏"‏ ‏.‏
موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کے سامنے مسیح دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا : ’’ ا للہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے ، خبردار رہنا ! مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے جیسے انگور کا بے نور دانہ ہو ۔ ‘ ‘ کہا : آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے رات اپنے آپ کو نیند کے عالم میں کعبہ کے پاس دیکھا تو میں ایک گندم گوں شخص دیکھا ، گندم گوں لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو ۔ اس کے سر کی لٹیں کندھوں کے درمیان تک لٹک رہی ہیں ، بال کنگھی کیے ہوئے ، سر سے پانی لٹک رہا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اور ان دونوں کے درمیان بیت اللہ شریف کاطواف کر رہا ہے ، میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ تو انہوں ( جواب دینے والوں ) نے کہا : یہ مسیح ابن مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ہیں ۔ میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی دیکھا ، اس کے بال الجھے ہوئے گھنگریالے تھے ، دائیں آنکھ سے کانا ، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں وہ سب سے زیادہ ( عبد العزیٰ ) ابن قطن کے مشابہ تھا ، وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ جعلی مسیح ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:169.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 331

صحيح مسلم حدیث نمبر: 427
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا حنظلة، عن سالم، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ رأيت عند الكعبة رجلا آدم سبط الرأس واضعا يديه على رجلين ‏.‏ يسكب رأسه - أو يقطر رأسه - فسألت من هذا فقالوا عيسى ابن مريم أو المسيح ابن مريم - لا ندري أى ذلك قال - ورأيت وراءه رجلا أحمر جعد الرأس أعور العين اليمنى أشبه من رأيت به ابن قطن فسألت من هذا فقالوا المسيح الدجال ‏"‏ ‏.‏
حنظلہ نے سالم کے واسطے سے حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے کعبہ کے پاس ایک گندم گوں ، سر کے سیدھے کھلے بالوں والے آدمی کو دیکھا جو اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں پر رکھے ہوئے تھا ، اس کے سر سے پانی بہہ رہا تھا ( یا اس کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے ) میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ تو انہوں ( جواب دینے والوں ) نے کہا : عیسیٰ ابن مریم یا مسیح ابن مریم ( راوی کو یاد نہ تھا کہ ( دونوں میں سے ) کو ن سالفظ کہا تھا ) او ران کے پیچھے میں نے ایک آدمی دیکھا : سرخ رنگ کا ، سر کےبال گھنگریالے اور دائیں آنکھ سے کانا ، میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ، ان میں سب سے زیادہ ابن قطن اس کے مشابہ ہے ۔ میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : مسیح دجال ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:169.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 332

صحيح مسلم حدیث نمبر: 428
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن عقيل، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لما كذبتني قريش قمت في الحجر فجلا الله لي بيت المقدس فطفقت أخبرهم عن آياته وأنا أنظر إليه ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب قریش نے مجھے جھٹلایا ، میں نے حجر ( حطیم ) میں کھڑا ہو گیا ، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے اچھی طرح نمایاں کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر اس کی نشانیاں ان کو بتانی شروع کر دیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:170

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 333

صحيح مسلم حدیث نمبر: 429
حدثني حرملة بن يحيى، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب، عن أبيه، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ بينما أنا نائم رأيتني أطوف بالكعبة فإذا رجل آدم سبط الشعر بين رجلين ينطف رأسه ماء - أو يهراق رأسه ماء - قلت من هذا قالوا هذا ابن مريم ‏.‏ ثم ذهبت ألتفت فإذا رجل أحمر جسيم جعد الرأس أعور العين كأن عينه عنبة طافية ‏.‏ قلت من هذا قالوا الدجال ‏.‏ أقرب الناس به شبها ابن قطن ‏"‏ ‏.‏
ابن شہاب نےسالم بن عبد اللہ بن عمر سے ، انہوں نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ جب میں نیند میں تھا ، میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور دیکھا کہ ایک آدمی ہے جس کا رنگ گندمی ہے ، بال سیدھے ہیں ، اور دو آدمیٔن کے درمیان ہے ، اس کا سر پانی ٹپکا رہا ہے ( یا اس کا سر پانی گرا رہا ہے ) میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ ( جواب دینے والوں نے ) کہا : یہ ابن مریم ہیں ۔ پہر میں دیکھتا گیا تو اچانک ایک سرخ رنگ کا آدمی ( سامنے ) تھا ، جسم کا بھاری ، سر کے بال گھنگریالے ، آنکھ کانی ، جیسے ابھرا ہوا انگور کا دانہ ہو ، میں نے پوچھا : یہ کو ن ہے ؟ انہوں نے کہا : دجال ہے ، لوگوں میں اس کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ابن قطن ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:171

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 334

صحيح مسلم حدیث نمبر: 430
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا حجين بن المثنى، حدثنا عبد العزيز، - وهو ابن أبي سلمة - عن عبد الله بن الفضل، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراى فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها ‏.‏ فكربت كربة ما كربت مثله قط قال فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شىء إلا أنبأتهم به وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلي فإذا رجل ضرب جعد كأنه من رجال شنوءة وإذا عيسى ابن مريم - عليه السلام - قائم يصلي أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي وإذا إبراهيم - عليه السلام - قائم يصلي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاة فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال قائل يا محمد هذا مالك صاحب النار فسلم عليه ‏.‏ فالتفت إليه فبدأني بالسلام ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم ) میں دیکھا ، قریش مجھ سے میرے رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے ، انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کےبارے میں پوچھا جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں ، میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا ، آپ نے فرمایا : ’’اس پر اللہ تعالیٰ نے اس ( بیت المقدس ) اٹھا کر میرے سامنے کر دیا میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا ، وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے ، میں انہیں بتا دیتا ۔ اور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں ۔ اور عیسیٰ ابن مریم ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) کو دیکھا ، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ہیں ۔ اور ( وہاں ) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں ، آپ نے اپنی ذلت مراد لی ، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی ۔ جب میں نماز سے فارغ ہو ا تو ایک کہنے والے نے کہا : اے محمد! یہ مالک ہیں ، جہنم کے داروغے ، انہیں سلام کہیے : میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:172

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 335

صحيح مسلم حدیث نمبر: 431
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا مالك بن مغول، ح وحدثنا ابن نمير، وزهير بن حرب، جميعا عن عبد الله بن نمير، - وألفاظهم متقاربة - قال ابن نمير حدثنا أبي، حدثنا مالك بن مغول، عن الزبير بن عدي، عن طلحة، عن مرة، عن عبد الله، قال لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة إليها ينتهي ما يعرج به من الأرض فيقبض منها وإليها ينتهي ما يهبط به من فوقها فيقبض منها قال ‏{‏ إذ يغشى السدرة ما يغشى‏}‏ قال فراش من ذهب ‏.‏ قال فأعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا أعطي الصلوات الخمس وأعطي خواتيم سورة البقرة وغفر لمن لم يشرك بالله من أمته شيئا المقحمات ‏.‏
حضرت عبد اللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے ، انہوں نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ کو ’’اسراء ‘ ‘ کروایا گیا تو آپ کوسدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا ، وہ چھٹے آسمان پر ہے ، ( جبکہ اس کی شاخیں ساتویں آسمان کے اوپر ہیں ) وہ سب چیزیں جنہیں زمین سے اوپر لے جایا جاتا ہے ، اس تک پہنچتی ہیں اوروہاں سے انہیں لے لیا جاتا ہے اور وہ چیزیں جنہیں اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے ، وہاں پہنچتی ہیں اور وہیں سے انہیں وصول کر لیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ جب ڈھانپ لیا ، سدرہ ( بیری کے درخت ) کو جس چیز نے ڈھانپا ۔ ‘ ‘ عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : سونے کےپتنگوں نے ۔ اور کہا : پھر رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں : پانچ نمازیں عطا کی گئیں ، سورۃ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں اور آپ کی امت کے ( ایسے ) لوگوں کے ( جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ) جہنم میں پہنچانے والے ( بڑے بڑے ) گناہ معاف کر دیے گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:173

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 336

صحيح مسلم حدیث نمبر: 432
وحدثني أبو الربيع الزهراني، حدثنا عباد، - وهو ابن العوام - حدثنا الشيباني، قال سألت زر بن حبيش عن قول الله، عز وجل ‏{‏ فكان قاب قوسين أو أدنى‏}‏ قال أخبرني ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى جبريل له ستمائة جناح ‏.‏
عباد بن عوام نے کہا : ہمیں شیبانی نے خبر دی ، انہوں نے کہا : میں نے زربن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا : ’’وہ دو کمان کے برابر فاصلے پر تھے یا اس سے بھی زیادہ قریب تھے ۔ ‘ ‘ زر نے کہا : مجھے عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےخبر دی کہ رسو ل اللہﷺنےجبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ کو دیکھا ، ان کے چھ سو پر تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:174.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 337

صحيح مسلم حدیث نمبر: 433
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن الشيباني، عن زر، عن عبد الله، قال ‏{‏ ما كذب الفؤاد ما رأى‏}‏ قال رأى جبريل - عليه السلام - له ستمائة جناح ‏.‏
حفص بن غیاث نے شیبانی سے حدیث سنائی ، انہوں نے زر سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے آیت : ’’جھوٹ نہ دیکھا دل نے ، جو دیکھا ‘ ‘ پڑھی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے جبریلﷺ کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:174.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 338

صحيح مسلم حدیث نمبر: 434
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن سليمان الشيباني، سمع زر بن حبيش، عن عبد الله، قال ‏{‏ لقد رأى من آيات ربه الكبرى‏}‏ قال رأى جبريل في صورته له ستمائة جناح ‏.‏
شعبہ نے سلیمان شیبانی سے حدیث بیان کی ، انہوں نے زربن حبیش سے سنا کہا کہ حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے آیت ’’آپ نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ‘ ‘ پڑھی ، کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے جبرئیل کو ان کی ( اصل ) صورت میں دیکھا ، ان کے چھ سو پر تھے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:174.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 339

صحيح مسلم حدیث نمبر: 435
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا علي بن مسهر، عن عبد الملك، عن عطاء، عن أبي هريرة، ‏{‏ ولقد رآه نزلة أخرى‏}‏ قال رأى جبريل ‏.‏
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( اللہ کے فرمان ) آپ ﷺنے اسے ایک اور بار اترتےہوئے دیکھا ( کے بارے میں کہا’’آپﷺ نے جبرائیل علیہ سلام کو دیکھا)

صحيح مسلم حدیث نمبر:175

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 340

صحيح مسلم حدیث نمبر: 436
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص، عن عبد الملك، عن عطاء، عن ابن عباس، قال رآه بقلبه ‏.‏
عطاء نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے اسے ( رب تعالیٰ کو ) دل سے دیکھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:176.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 341

صحيح مسلم حدیث نمبر: 437
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو سعيد الأشج جميعا عن وكيع، - قال الأشج حدثنا وكيع، - حدثنا الأعمش، عن زياد بن الحصين أبي جهمة، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال ‏{‏ ما كذب الفؤاد ما رأى‏}‏ ‏{‏ ولقد رآه نزلة أخرى‏}‏ قال رآه بفؤاده مرتين ‏.‏
وکیع نے کہا : ہمیں اعمش نے زیاد بن حصین ابو جہمہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو عالیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے آیت : ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى﴾ ’’جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا ‘ ‘ اور ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى﴾ ’’اور آپ نے اسے ایک بار اترتے ہوئے دیکھا ‘ ‘ ( کےبارے میں ) کہا : رسول ا للہ ﷺ نے اسے ( رب تعالیٰ کو ) اپنے دل دو بار دیکھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:176.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 342

صحيح مسلم حدیث نمبر: 438
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن الأعمش، حدثنا أبو جهمة، بهذا الإسناد ‏.‏
(وکیع کے بجائے ) حفص ابن غیاث نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں ابو جہمہ ( زیاد بن حصین ) نے اسی سند کے ساتھ ( یہی ) حدیث سنائی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:176.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 343

صحيح مسلم حدیث نمبر: 439
حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن داود، عن الشعبي، عن مسروق، قال كنت متكئا عند عائشة فقالت يا أبا عائشة ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على الله الفرية ‏.‏ قلت ما هن قالت من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية ‏.‏ قال وكنت متكئا فجلست فقلت يا أم المؤمنين أنظريني ولا تعجليني ألم يقل الله عز وجل ‏{‏ ولقد رآه بالأفق المبين‏}‏ ‏{‏ ولقد رآه نزلة أخرى‏}‏ ‏.‏ فقالت أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض ‏"‏ ‏.‏ فقالت أولم تسمع أن الله يقول ‏{‏ لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏}‏ أولم تسمع أن الله يقول ‏{‏ وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم‏}‏ قالت ومن زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتم شيئا من كتاب الله فقد أعظم على الله الفرية والله يقول ‏{‏ يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته‏}‏ ‏.‏ قالت ومن زعم أنه يخبر بما يكون في غد فقد أعظم على الله الفرية والله يقول ‏{‏ قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله‏}‏ ‏.‏
اسماعیل بن ابراہیم نے داود سے ، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کی ، کہا : میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : ابو عائشہ ! ( یہ مسروق کی کنیت ہے ) تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کوئی بات کہی ، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، میں نے پوچھا : وہ باتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جس نے یہ گمان کیا کہ محمدﷺ نے اپنےرب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا ۔ انہوں نےکہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو ( یہ بات سنتے ہی ) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین !مجھے ( بات کرنے کا ) موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا : ’’ بےشک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا ‘ ‘ ( اسی طرح ) ’’اور آپ ﷺ نے اسے ایک بار اترتے ہوئے دیکھا ۔ ‘ ‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سےسوال کیا تو آپ نے فرمایا : ’’ وہ یقیناً جبرئیل ہیں ، میں انہیں اس شکل میں ، جس میں پیدا کیے گئے ، دو دفعہ کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا : ایک دفعہ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا ، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کےدرمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا ‘ ‘ پھر ام المومنین نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا : ’’ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ‘ ‘ اور کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ اور کسی بشر میں طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی پیغام لانےوالا ( فرشتے ) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بلاشبہ وہ بہت بلند اوردانا ہے ۔ ‘ ‘ ( ام المومنین نے ) فرمایا : جوشخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول ا للہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اے رسول ! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر ( بالفرض ) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہ پہنچایا ( فریضئہ رسالت ادا نہ کیا ۔ ) ‘ ‘ ( اور ) انہوں نے فرمایا : اور جوشخص یہ کہے کہ آپ اس بات کی خبر دے دیتے ہیں کہ کل کیا ہو گا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ ( اے نبی! ) فرما دیجیے ! کوئی ایک بھی جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، غیب نہیں جانتا ، سوائے اللہ کے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:177.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 344

صحيح مسلم حدیث نمبر: 440
وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا داود، بهذا الإسناد نحو حديث ابن علية وزاد قالت ولو كان محمد صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا مما أنزل عليه لكتم هذه الآية ‏{‏ وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه أمسك عليك زوجك واتق الله وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس والله أحق أن تخشاه‏}‏
(اسماعیل کے بجائے ) عبدالوہاب نے کہا : ہمیں داود نے اسی طرح حدیث سنائی ( اسماعیل بن ابراہیم ) ابن علیہ سے بیان کی اور اس میں اضافہ کیا کہ ( حضرت عائشہؓ نے ) فرمایا : اگر محمدﷺ کسی ایک چیز کو جو آپ پر نازل کی گئی ، چھپانے والے ہوتے ، تو آپ یہ آیت چھپا لیتے : ’’ اور جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور آپ نے ( بھی ) انعام فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو اور آپ اپنے جی میں وہ ہر چیز چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ، آپ لوگوں ( کےطعن و تشنیع ) سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ ہی سب سے زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:177.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 345

صحيح مسلم حدیث نمبر: 441
حدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا إسماعيل، عن الشعبي، عن مسروق، قال سألت عائشة هل رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه فقالت سبحان الله لقد قف شعري لما قلت ‏.‏ وساق الحديث بقصته ‏.‏ وحديث داود أتم وأطول ‏.‏
اسماعیل ( بن ابی خالد ) نے ( عامر بن شراحیل ) شعبی سے حدیث بیان کی ، انہوں نے مسروق سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا : کیا محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ ! جو تم نے کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ۔ پھر ( اسماعیل نے ) پورے قصے سمیت حدیث بیان کی لیکن داود کی روایت زیادہ کامل اور طویل ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:177.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 346

صحيح مسلم حدیث نمبر: 442
وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبو أسامة، حدثنا زكرياء، عن ابن أشوع، عن عامر، عن مسروق، قال قلت لعائشة فأين قوله ‏{‏ ثم دنا فتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى‏}‏ قالت إنما ذاك جبريل صلى الله عليه وسلم كان يأتيه في صورة الرجال وإنه أتاه في هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء ‏.‏
(سعید بن عمرو ) ابن اشوع نے عامر ( شعبی ) سے ، انہوں نے مسروق سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نےحضرت عائشہ ؓ سے عرض کی : اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا مطلب ہو گا : ’’ پھر وہ قریب ہوا اور اتر آیا اور د وکمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلے پر تھا ، پھر اس نے اس کے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی ؟ ‘ ‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : وہ تو جبریل تھے ، وہ ہمیشہ آپ کے پاس انسانوں کی شکل میں آتے تھے اور اس دفعہ وہ آپ کے پاس اپنی اصل شکل میں آئے اور انہوں نے آسمان کے افق کو بھر دیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:177.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 347

صحيح مسلم حدیث نمبر: 443
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، عن أبي ذر، قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم هل رأيت ربك قال ‏ "‏ نور أنى أراه ‏"‏ ‏.‏
یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا : ’’ وہ نو ر ہے ، میں اسے کہاں سے دیکھوں! ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:178.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 348

صحيح مسلم حدیث نمبر: 444
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا أبي ح، وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا همام، كلاهما عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال قلت لأبي ذر لو رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم لسألته فقال عن أى شىء كنت تسأله قال كنت أسأله هل رأيت ربك قال أبو ذر قد سألت فقال ‏ "‏ رأيت نورا ‏"‏ ‏.‏
ہشام او رہمام دونوں نے دو مختلف سندوں کے ساتھ قتادہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے ، انہوں نےکہا : میں نےابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : تم ان کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے آپ سے ( یہی ) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا : ’’ میں نے نور دیکھا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:178.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 349

صحيح مسلم حدیث نمبر: 445
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، حدثنا الأعمش، عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، عن أبي موسى، قال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات فقال ‏ "‏ إن الله عز وجل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور - وفي رواية أبي بكر النار - لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه ‏"‏ ‏.‏ - وفي رواية أبي بكر عن الأعمش ولم يقل حدثنا ‏.‏
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا : ہمیں ابو معاویہ نےحدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں اعمش نے عمرو بن مرہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر پانچ باتوں پر مشتمل خطبہ دیا ، فرمایا : ’’بےشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور نہ سونا اس کے شایان شان ہے ، وہ میزان کے پلڑوں کو جھکاتا اور اوپر اٹھاتا ہے ، رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، اس کا پردہ نور ہے ( ابو بکر کی روایت میں نور کی جگہ نار ہے ) اگر وہ اس ( پردے ) کو کھول دے تو اس کے چہرے کے انوار جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے اس کی مخلوق کو جلا ڈالیں ۔ ‘ ‘ ابو بکر کی روایت میں ہے : ’’ اعمش سے روایت ہے ، ‘ ‘ یہ نہیں کہا : ’’ اعمش نےہمیں حدیث سنائی

صحيح مسلم حدیث نمبر:179.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 350

صحيح مسلم حدیث نمبر: 446
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا جرير، عن الأعمش، بهذا الإسناد قال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربع كلمات ‏.‏ ثم ذكر بمثل حديث أبي معاوية ولم يذكر ‏ "‏ من خلقه ‏"‏ ‏.‏ وقال حجابه النور ‏.‏
اعمش کے ایک اور شاگرد جریر نے اسی ( مذکورہ ) سند سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہو کر چار باتوں پر مشتمل خطبہ دیا ..... پھر جریر نے ابو معاویہ کی حدیث کی طرح بیان کیا اور ’’مخلوقات کو جلا ڈالے ‘ ‘ کے الفاظ ذکر نہیں کیے اور کہا : اس کا پردہ نور ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:179.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 351

صحيح مسلم حدیث نمبر: 447
حدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثني شعبة، عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، عن أبي موسى، قال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربع ‏ "‏ إن الله لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يرفع القسط ويخفضه ويرفع إليه عمل النهار بالليل وعمل الليل بالنهار ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے عمرو بن مرہ کے حوالے سے ابو عبیدہ سےاور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ آپ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر چار باتوں پر مشتمل خطبہ دیا : ’’ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، سونا اس کےلائق نہیں ، میزان کو اوپر اٹھاتا اور نیچے کرتا ہے ۔ دن کا عمل رات کو اور رات کاعمل دن کو اس کے حضور پیش کیا جاتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:179.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 352

صحيح مسلم حدیث نمبر: 448
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، وأبو غسان المسمعي وإسحاق بن إبراهيم جميعا عن عبد العزيز بن عبد الصمد، - واللفظ لأبي غسان قال حدثنا أبو عبد الصمد، - حدثنا أبو عمران الجوني، عن أبي بكر بن عبد الله بن قيس، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ جنتان من فضة آنيتهما وما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما وما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن ‏"‏ ‏.‏
عبد اللہ بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’دو جنتیں چاندی کی ہیں ، ان کے برتن بھی اور جو کچھ ان میں ہے ( وہ بھی ۔ ) اور دو جنتیں سونے کی ہیں 8 ان کے برتن بھی اور جو کچھ ان میں ہے ۔ جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کی رؤیت کے درمیان اس کے چہرے پر عظمت و کبریائی کی جو چادر ہے اس چادر کے سوا کوئی چیز نہیں ہو گی ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:180

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 353

صحيح مسلم حدیث نمبر: 449
حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، قال حدثني عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن صهيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إذا دخل أهل الجنة الجنة - قال - يقول الله تبارك وتعالى تريدون شيئا أزيدكم فيقولون ألم تبيض وجوهنا ألم تدخلنا الجنة وتنجنا من النار - قال - فيكشف الحجاب فما أعطوا شيئا أحب إليهم من النظر إلى ربهم عز وجل ‏"‏ ‏.‏
عبد الرحمن بن مہدی نے کہا : ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے ، انہوں نے حضرت صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے ، ( اس وقت ) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ وہ جواب دیں گے : کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟ ‘ ‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:181.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 354

صحيح مسلم حدیث نمبر: 450
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، عن حماد بن سلمة، بهذا الإسناد وزاد ثم تلا هذه الآية ‏{‏ للذين أحسنوا الحسنى وزيادة‏}‏
(عبد الرحمن بن مہدی کےبجائے ) یزید بن ہارون نے حماد بن سلمہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔ اس میں یہ اضافہ ہے : پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ﴾ ’’جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے خوبصورت ( جزا ) اور مزید ( دیدار الہٰی ) ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:181.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 355

صحيح مسلم حدیث نمبر: 451
حدثني زهير بن حرب، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، أن أبا هريرة، أخبره أن ناسا قالوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ هل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه ‏.‏ فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد القمر القمر ويتبع من كان يعبد الطواغيت الطواغيت وتبقى هذه الأمة فيها منافقوها فيأتيهم الله - تبارك وتعالى - في صورة غير صورته التي يعرفون فيقول أنا ربكم ‏.‏ فيقولون نعوذ بالله منك هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه ‏.‏ فيأتيهم الله تعالى في صورته التي يعرفون فيقول أنا ربكم ‏.‏ فيقولون أنت ربنا ‏.‏ فيتبعونه ويضرب الصراط بين ظهرى جهنم فأكون أنا وأمتي أول من يجيز ولا يتكلم يومئذ إلا الرسل ودعوى الرسل يومئذ اللهم سلم سلم ‏.‏ وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان هل رأيتم السعدان ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ فإنها مثل شوك السعدان غير أنه لا يعلم ما قدر عظمها إلا الله تخطف الناس بأعمالهم فمنهم المؤمن بقي بعمله ومنهم المجازى حتى ينجى حتى إذا فرغ الله من القضاء بين العباد وأراد أن يخرج برحمته من أراد من أهل النار أمر الملائكة أن يخرجوا من النار من كان لا يشرك بالله شيئا ممن أراد الله تعالى أن يرحمه ممن يقول لا إله إلا الله ‏.‏ فيعرفونهم في النار يعرفونهم بأثر السجود تأكل النار من ابن آدم إلا أثر السجود حرم الله على النار أن تأكل أثر السجود ‏.‏ فيخرجون من النار وقد امتحشوا فيصب عليهم ماء الحياة فينبتون منه كما تنبت الحبة في حميل السيل ثم يفرغ الله تعالى من القضاء بين العباد ويبقى رجل مقبل بوجهه على النار وهو آخر أهل الجنة دخولا الجنة فيقول أى رب اصرف وجهي عن النار فإنه قد قشبني ريحها وأحرقني ذكاؤها فيدعو الله ما شاء الله أن يدعوه ثم يقول الله تبارك وتعالى هل عسيت إن فعلت ذلك بك أن تسأل غيره ‏.‏ فيقول لا أسألك غيره ‏.‏ ويعطي ربه من عهود ومواثيق ما شاء الله فيصرف الله وجهه عن النار فإذا أقبل على الجنة ورآها سكت ما شاء الله أن يسكت ثم يقول أى رب قدمني إلى باب الجنة ‏.‏ فيقول الله له أليس قد أعطيت عهودك ومواثيقك لا تسألني غير الذي أعطيتك ويلك يا ابن آدم ما أغدرك ‏.‏ فيقول أى رب ويدعو الله حتى يقول له فهل عسيت إن أعطيتك ذلك أن تسأل غيره ‏.‏ فيقول لا وعزتك ‏.‏ فيعطي ربه ما شاء الله من عهود ومواثيق فيقدمه إلى باب الجنة فإذا قام على باب الجنة انفهقت له الجنة فرأى ما فيها من الخير والسرور فيسكت ما شاء الله أن يسكت ثم يقول أى رب أدخلني الجنة ‏.‏ فيقول الله تبارك وتعالى له أليس قد أعطيت عهودك ومواثيقك أن لا تسأل غير ما أعطيت ويلك يا ابن آدم ما أغدرك ‏.‏ فيقول أى رب لا أكون أشقى خلقك ‏.‏ فلا يزال يدعو الله حتى يضحك الله تبارك وتعالى منه فإذا ضحك الله منه قال ادخل الجنة ‏.‏ فإذا دخلها قال الله له تمنه ‏.‏ فيسأل ربه ويتمنى حتى إن الله ليذكره من كذا وكذا حتى إذا انقطعت به الأماني قال الله تعالى ذلك لك ومثله معه ‏"‏ ‏.‏ قال عطاء بن يزيد وأبو سعيد الخدري مع أبي هريرة لا يرد عليه من حديثه شيئا ‏.‏ حتى إذا حدث أبو هريرة أن الله قال لذلك الرجل ومثله معه ‏.‏ قال أبو سعيد وعشرة أمثاله معه يا أبا هريرة ‏.‏ قال أبو هريرة ما حفظت إلا قوله ذلك لك ومثله معه ‏.‏ قال أبو سعيد أشهد أني حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قوله ذلك لك وعشرة أمثاله ‏.‏ قال أبو هريرة وذلك الرجل آخر أهل الجنة دخولا الجنة ‏.‏
یعقوب بن ابراہیم نے حدیث بیان کی ، کہا : میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہری سے حدیث سنائی ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے انہیں بتایا : کچھ لوگوں نے رسو ل اللہ ﷺ سے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : نہیں ، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : ’’ جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے عرض کی : نہیں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’ تم اسے ( اللہ ) اسی طرح دیکھو گے ، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا ، پھر فرمائے گا : جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے پیچھے چلا جائے ، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا ، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ ا س کے پیچھے چلا جائے گااور جو طاغوتوں ( شیطانوں ، بتوں وغیرہ ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتی کے پیچھے چلا جائے گا اور صرف یہ امت ، اپنے منافقوں سمیت ، باقی رہ جائے گی ۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتےہوں گے ، پھر فرمائے گا : میں تمہارارب ہوں ۔ وہ کہیں گے : ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارارب ہمارے پاس آ جائے ، جب ہمارا رب آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا : میں تمہارا پروردگار ہوں ۔ وہ کہیں گے ، تو ( ہی ) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے ، پھر ( پل ) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گاتو میں اور امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے ۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا ۔ اور رسولوں کو پکار ( بھی ) اس دن یہی ہو گی : اے اللہ ! سلامت رکھ ، سلامت رکھ ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے ، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے جواب دیا : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول !آپ نے فرمایا : ’’وہ ( آنکڑے ) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، وہ لوگ کو ان کے اعمال کا بدلہ چکانا ہوگا ۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا کہ اپنی رحمت سے ، جن دوزخیوں کو چاہتا ہے ، آگ سے نکالے تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ، لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا انہیں آگ سے نکال لیں ۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے ۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے ۔ آگ سجدے کے نشانات کے سوا ، آدم کے بیٹے ( کی ہر چیز ) کو کھا جائے گی ۔ ( کیونکہ ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے ، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گےکہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے ، ان پر آپ حیات ڈالا جائے گا تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اگ آئیں گے ، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اگ آتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا ۔ بس ایک شخص باقی ہو گا ، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا ، یہی آدمی ، تمام اہل جنت میں سے ، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ۔ وہ عرض کرے گا : میرا باپ ! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبونے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے ، چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا ، وہ اللہ کو پکارتا رہے گاپھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ ( حسن سلوک ) کر دوں تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟وہ عرض کرے گا : میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ ( لینا ) چاہے گا ، دے گا ، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گاجب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے ( اتنی دیر ) چپ رہے گا ، پھر کہے گا : میرا رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے ، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا : کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے ! آدم کے بیٹے ! تم کس قدر عہد شکن ہو ! وہ کہے گا : اے میرے رب ! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا : کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا : تیری عزت کی قسم ! ( اور کچھ ) نہیں ( مانگوں گا ۔ ) وہ اپنے رب کو ، جواللہ چاہے گا ، عہد و پیمان دے گا ، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا ، پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی ۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھے گا ۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا ، پھر کہے گا : میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے ، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا ، کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بدنصیب شخص نہ بنوں ، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا ( تو ) فرمائے گا : جنت میں داخل ہو جا ۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تمنا کر ! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا ، فلاں چیز ( مانگ ) فلاں چیز ( مانگ ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تواللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی ۔ ‘ ‘ عطاء بن یزید نے کہا کہ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بھی ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے ساتھ موجود تھے ، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے یہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا : ’’ یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی ‘ ‘ تو ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ فرمانے لگے : ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا ( اور بھی ) ، ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے تو آپ کا یہی فرمان یاد ہے : ’’یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی ۔ ‘ ‘ ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر آپ کا یہ فرمان دیکھا ہے : ’’ یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی ۔ ‘ ‘ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا

صحيح مسلم حدیث نمبر:182.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 356

صحيح مسلم حدیث نمبر: 452
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، أخبرنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وعطاء بن يزيد الليثي، أن أبا هريرة، أخبرهما أن الناس قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة وساق الحديث بمثل معنى حديث إبراهيم بن سعد ‏.‏
شعیب نے ابن شہاب زہری سے خبر دی ، انہوں نے کہا : عطاء اور سعید بن مسیب نے مجھے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےان دونوں کو خبر دی کہ لوگوں نے نبی ﷺ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیاہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟. .....آگے ابراہیم بن سعد کی طرح حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:182.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 357

صحيح مسلم حدیث نمبر: 453
وحدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فذكر أحاديث منها وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن أدنى مقعد أحدكم من الجنة أن يقول له تمن ‏.‏ فيتمنى ويتمنى فيقول له هل تمنيت فيقول نعم ‏.‏ فيقول له فإن لك ما تمنيت ومثله معه ‏"‏ ‏.‏
ہمام بن منبہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ( سن کر ) بیان کیں ، پھر ( ہمام نے ) بہت سی احادیث بیان کیں ، ان میں یہ حدیث بھی تھی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم میں سے کسی کی جنت میں کم از کم جگہ یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : تمنا کر ۔ تو وہ تمنا کرے گا ، پھر تمنا کرے گا ، اللہ اس سے پوچھے گا : کیا تم تمنا کر چکے ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ سب کچھ تیرا ہوا جس کی تو نے تمنا کی اوراس کےساتھ اتناہی ( اور بھی ۔ ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:182.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 358

صحيح مسلم حدیث نمبر: 454
وحدثني سويد بن سعيد، قال حدثني حفص بن ميسرة، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، أن ناسا، في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نعم ‏"‏ ‏.‏ قال ‏"‏ هل تضارون في رؤية الشمس بالظهيرة صحوا ليس معها سحاب وهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر صحوا ليس فيها سحاب ‏"‏ ‏.‏ قالوا لا يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ ما تضارون في رؤية الله تبارك وتعالى يوم القيامة إلا كما تضارون في رؤية أحدهما إذا كان يوم القيامة أذن مؤذن ليتبع كل أمة ما كانت تعبد ‏.‏ فلا يبقى أحد كان يعبد غير الله سبحانه من الأصنام والأنصاب إلا يتساقطون في النار حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر وفاجر وغبر أهل الكتاب فيدعى اليهود فيقال لهم ما كنتم تعبدون قالوا كنا نعبد عزير ابن الله ‏.‏ فيقال كذبتم ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد فماذا تبغون قالوا عطشنا يا ربنا فاسقنا ‏.‏ فيشار إليهم ألا تردون فيحشرون إلى النار كأنها سراب يحطم بعضها بعضا فيتساقطون في النار ‏.‏ ثم يدعى النصارى فيقال لهم ما كنتم تعبدون قالوا كنا نعبد المسيح ابن الله ‏.‏ فيقال لهم كذبتم ‏.‏ ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد ‏.‏ فيقال لهم ماذا تبغون فيقولون عطشنا يا ربنا فاسقنا ‏.‏ - قال - فيشار إليهم ألا تردون فيحشرون إلى جهنم كأنها سراب يحطم بعضها بعضا فيتساقطون في النار حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله تعالى من بر وفاجر أتاهم رب العالمين سبحانه وتعالى في أدنى صورة من التي رأوه فيها ‏.‏ قال فما تنتظرون تتبع كل أمة ما كانت تعبد ‏.‏ قالوا يا ربنا فارقنا الناس في الدنيا أفقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم ‏.‏ فيقول أنا ربكم ‏.‏ فيقولون نعوذ بالله منك لا نشرك بالله شيئا - مرتين أو ثلاثا - حتى إن بعضهم ليكاد أن ينقلب ‏.‏ فيقول هل بينكم وبينه آية فتعرفونه بها فيقولون نعم ‏.‏ فيكشف عن ساق فلا يبقى من كان يسجد لله من تلقاء نفسه إلا أذن الله له بالسجود ولا يبقى من كان يسجد اتقاء ورياء إلا جعل الله ظهره طبقة واحدة كلما أراد أن يسجد خر على قفاه ‏.‏ ثم يرفعون رءوسهم وقد تحول في صورته التي رأوه فيها أول مرة فقال أنا ربكم ‏.‏ فيقولون أنت ربنا ‏.‏ ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم ‏"‏ ‏.‏ قيل يا رسول الله وما الجسر قال ‏"‏ دحض مزلة ‏.‏ فيه خطاطيف وكلاليب وحسك تكون بنجد فيها شويكة يقال لها السعدان فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم ‏.‏ حتى إذا خلص المؤمنون من النار فوالذي نفسي بيده ما منكم من أحد بأشد مناشدة لله في استقصاء الحق من المؤمنين لله يوم القيامة لإخوانهم الذين في النار يقولون ربنا كانوا يصومون معنا ويصلون ويحجون ‏.‏ فيقال لهم أخرجوا من عرفتم ‏.‏ فتحرم صورهم على النار فيخرجون خلقا كثيرا قد أخذت النار إلى نصف ساقيه وإلى ركبتيه ثم يقولون ربنا ما بقي فيها أحد ممن أمرتنا به ‏.‏ فيقول ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من خير فأخرجوه ‏.‏ فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون ربنا لم نذر فيها أحدا ممن أمرتنا ‏.‏ ثم يقول ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال نصف دينار من خير فأخرجوه ‏.‏ فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون ربنا لم نذر فيها ممن أمرتنا أحدا ‏.‏ ثم يقول ارجعوا فمن وجدتم في قلبه مثقال ذرة من خير فأخرجوه ‏.‏ فيخرجون خلقا كثيرا ثم يقولون ربنا لم نذر فيها خيرا ‏"‏ ‏.‏ وكان أبو سعيد الخدري يقول إن لم تصدقوني بهذا الحديث فاقرءوا إن شئتم ‏{‏ إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه أجرا عظيما‏}‏ ‏"‏ فيقول الله عز وجل شفعت الملائكة وشفع النبيون وشفع المؤمنون ولم يبق إلا أرحم الراحمين فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوما لم يعملوا خيرا قط قد عادوا حمما فيلقيهم في نهر في أفواه الجنة يقال له نهر الحياة فيخرجون كما تخرج الحبة في حميل السيل ألا ترونها تكون إلى الحجر أو إلى الشجر ما يكون إلى الشمس أصيفر وأخيضر وما يكون منها إلى الظل يكون أبيض ‏"‏ ‏.‏ فقالوا يا رسول الله كأنك كنت ترعى بالبادية قال ‏"‏ فيخرجون كاللؤلؤ في رقابهم الخواتم يعرفهم أهل الجنة هؤلاء عتقاء الله الذين أدخلهم الله الجنة بغير عمل عملوه ولا خير قدموه ثم يقول ادخلوا الجنة فما رأيتموه فهو لكم ‏.‏ فيقولون ربنا أعطيتنا ما لم تعط أحدا من العالمين ‏.‏ فيقول لكم عندي أفضل من هذا فيقولون يا ربنا أى شىء أفضل من هذا ‏.‏ فيقول رضاى فلا أسخط عليكم بعده أبدا ‏"‏ ‏.‏
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ( آپ سے ) عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں ۔ ‘ ‘ ( ہاں ) فرمایا : ’’ کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع ہیں ، جب ابر نہ ہوں ، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے ؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟ ‘ ‘ صحابہ نے کہا : اللہ کےرسول نہیں ! فرمایا : ’’ قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے ۔ جب قیامت کا دن ہو گا ، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا : ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی ۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوابتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے ، وہ نیک ہوں یا بد ، اور اہل کتاب کے بقیہ ( بعد کے دور ) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا تو یہود کو بلایا جائے گا او ران سے کہا جائے گا : تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے : ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے تو کہا جائے گا : تم نے جھوٹ بولا ، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بوی بنائی نہ بیٹا ، تو ( اب ) کیا چاہتے ہو ؟کہیں گے : پروردگار ! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا ۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گاکہ تم پانی ( کے گھاٹ ) پر کیوں نہیں جاتے ؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا ، وہ سراب کی طرح ہو گی ، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا اوروہ سب ( ایک دوسرے کے پیچھے ) آگ میں گرتے چلے جائیں گے ، پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا او ران سے کہاجائے گا : تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے : ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے ۔ ان سے کہا جائے گا : تم جھوٹ بولتے ہو ، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا ، پھر ان سے کہا جائے گا! ( اب ) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : ہم پیاسے ہیں ہمارے پروردگار ! ہمیں پانی پلا ، آپ نے فرمایا : ان کواشارہ کیا جائے گا ، تم پانی ( کے گھاٹ ) پر کیوں نہیں جاتے ؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا ، وہ سراب کی طرح ہو گی ( اور ) اس کا ایک حصہ ( شدت اشتعال سے ) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا ، وہ ( ایک دوسرے کے پیچھے ) آگ میں گرتے چلے جائیں گے ، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ ( ہی ) کی عبادت کرتے تھے ، نیک ہوں یا بد ، ( تو ) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر ( یا مختلف ) صورت میں آئے گا ( اور ) فرمائے گا : تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو ؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی ، وہ ( سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر ) التجا کریں گے : اےہمارے رب ! ہم دنیا میں سب لوگوں سے ، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی ، الگ ہو گئے ، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا ۔ وہ کہے گا : میں تمہارا رب ہوں ، وہ کہیں گے : ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ( دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے ) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے تو وہ فرمائے گا : کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ( طے ) ہے جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے : ہاں !تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھامگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہر بنادے گا ، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا ، پھر وہ ( سجدے سے ) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو ( سب سے ) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں ۔ تووہ کہیں گے : ( ہاں ) تو ہی ہمارا رب ہے ، پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا ، اور ( سب رسول ) کہہ رہے ہوں گے : اے اللہ ! سلامت رکھ ، سلامت رکھ ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! جسر ( پل ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ بہت پھسلنی ، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے ، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے ۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے ، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بن تہ لگا دیے جانے والے ، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے ! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے ( کے معاملے ) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے ۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب !وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے ، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے ۔ تو ان سے کہا جائے گا : تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو ، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی ۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی ، پھر وہ کہیں گے : ہمارے رب ! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا ۔ تو وہ فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کےدل میں دینار بھر خیر ( ایمان ) پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر کہیں گے : ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم دوزخ میں نہیں چھوڑا ۔ وہ پھر فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ ( پھرسے ) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر وہ کہیں گے ، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا ۔ وہ پھر فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تووہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر وہ کہیں گے : ہمارے رب ! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا ۔ ‘ ‘ ( ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے ۔ ) ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کہا کرتے تھے : اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تواس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے ۔ ‘ ‘ ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : فرشتوں نے سفارش کی ، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تو وہ آ ‎گ سے ایک مٹھی بھرے گا او رایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا اور وہ ( جل کر ) کوئلہ ہو چکے ہوں گے ، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر ( بہنے والی ) ایک نہر میں ڈال دے گا جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے ، وہ اس طرح ( اگ کر ) نکل آئیں گے جس طرح ( گھاس کا ) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے ، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے وہ سفید ہوتا ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا : ’’ تووہ لوگ ( نہرسے ) موتیوں کے مانند نکلیں گے ، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی ، اہل جنت ( بعد ازاں ) ان کو ( اس طرح ) پہچانیں گے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو ، جنت میں داخل کیا ہے ۔ پھر وہ فرمائے گا : جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے ، اس پر وہ کہیں گے : اےہمارے رب ! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا ۔ تو وہ فرمائے گا : تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز ( ہوسکتی ) ہے ؟ تو وہ فرمائے گا : میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:183.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 359

صحيح مسلم حدیث نمبر: 455
قال مسلم قرأت على عيسى بن حماد زغبة المصري هذا الحديث في الشفاعة وقلت له أحدث بهذا الحديث عنك أنك سمعت من الليث بن سعد فقال نعم ‏.‏ قلت لعيسى بن حماد أخبركم الليث بن سعد عن خالد بن يزيد عن سعيد بن أبي هلال عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد الخدري أنه قال قلنا يا رسول الله أنرى ربنا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هل تضارون في رؤية الشمس إذا كان يوم صحو ‏"‏ ‏.‏ قلنا لا ‏.‏ وسقت الحديث حتى انقضى آخره وهو نحو حديث حفص بن ميسرة ‏.‏ وزاد بعد قوله بغير عمل عملوه ولا قدم قدموه ‏"‏ فيقال لهم لكم ما رأيتم ومثله معه ‏"‏ ‏.‏ قال أبو سعيد بلغني أن الجسر أدق من الشعرة وأحد من السيف ‏.‏ وليس في حديث الليث ‏"‏ فيقولون ربنا أعطيتنا ما لم تعط أحدا من العالمين ‏"‏ وما بعده فأقر به عيسى بن حماد ‏.‏
امام مسلم نے کہا : میں نے شفاعت کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کے سامنے پڑھی اور ان سے کہا : ( کیا ) یہ حدیث میں آپ کے حوالے سے بیان کروں کہ آپ نے اسے لیث بن سعد سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں! ( امام مسلم نےکہا : ) میں نے عیسیٰ بن حماد سے کہا : آپ کو لیث بن سعد نےخالدبن یزید سے خبر دی ، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے ، انہوں نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے عطاء بن یسار سے ، انہوں نے ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے کہاکہ ہم نے عرض کی : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جب چمکتا ہوا بے ابر دن ہو تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ ہم نے کہا : نہیں ۔ ( امام مسلم نے کہا : ) میں حدیث پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگئی اور ( سعید بن ابی ہلال کی ) یہ حدیث حفص بن میسرہ کی ( مذکورہ ) حدیث کی طرح ہے ۔ انہوں نے کیا اور بغیر کسی قدم کے جوانہوں نے آگے بڑھایا ‘ ‘ کے بعد یہ اضافہ کیا : ’’چنانچہ ان سے کہا جائے گا : تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم نے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ۔ ‘ ‘ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی ادھار سے زیادہ تیز ہو گا ۔ لیث کی روایت میں یہ الفاظ : ’’ تووہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ‘ ‘ اور اس کے بعد کے الفاظ نہیں ہیں ۔ چنانچہ عیسیٰ بن حماد نے اس کا اقرار کیا ( کہ انہوں نے اوپر بیان کی گئی سند کے ساتھ لیث سے یہ حدیث سنی ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:183.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 360

صحيح مسلم حدیث نمبر: 456
وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا هشام بن سعد، حدثنا زيد بن أسلم، بإسنادهما نحو حديث حفص بن ميسرة إلى آخره وقد زاد ونقص شيئا ‏.‏
زید بن اسلم کے ایک اور شاگرد ہشام بن سعد نے بھی ان دونوں ( حفص اور سعید ) کی مذکورہ سندوں کے ساتھ حفص بن میسرہ جیسی حدیث ( : 454 ) آخرتک بیان کی اور کچھ کمی و زیادتی بھی کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:183.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 361

صحيح مسلم حدیث نمبر: 457
وحدثني هارون بن سعيد الأيلي، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني مالك بن أنس، عن عمرو بن يحيى بن عمارة، قال حدثني أبي، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يدخل الله أهل الجنة الجنة يدخل من يشاء برحمته ويدخل أهل النار النار ثم يقول انظروا من وجدتم في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فأخرجوه ‏.‏ فيخرجون منها حمما قد امتحشوا ‏.‏ فيلقون في نهر الحياة أو الحيا فينبتون فيه كما تنبت الحبة إلى جانب السيل ألم تروها كيف تخرج صفراء ملتوية ‏"‏ ‏.‏
مالک بن انس نے عمرو بن یحییٰ بن عمارہ سے خبر دی ، انہوں نے کہا : میرے والد نے مجھے حضرت ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ اہل جنت میں سے جسے چاہے گا اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا ، اور دوزخیوں کو دوزخ میں ڈالے گا ، پھر فرمائے گا : دیکھو ( اور ) جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان پاؤ اس کو نکال لو ، ( ایسے ) لوگ اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ جل بھن کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے ۔ انہیں زندگی یا شادابی کی نہر میں ڈالا جائے گا تو اس میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح گھاس پھونس کا چھوٹا سا بیج سیلاب کے کنارے میں اگتا ہے تم نے اسے دیکھا نہیں کس طرح زرد ، لپٹا ہوا ، اگتا ہے ؟ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:184.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 362

صحيح مسلم حدیث نمبر: 458
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا وهيب، ح وحدثنا حجاج بن الشاعر، حدثنا عمرو بن عون، أخبرنا خالد، كلاهما عن عمرو بن يحيى، بهذا الإسناد وقالا فيلقون في نهر يقال له الحياة ‏.‏ ولم يشكا ‏.‏ وفي حديث خالد كما تنبت الغثاءة في جانب السيل ‏.‏ وفي حديث وهيب كما تنبت الحبة في حمئة أو حميلة السيل ‏.‏
وہیب اور خالد دونوں نے عمرو بن یحییٰ سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی ۔ اس میں ہے : ’’انہیں ایک نہر میں ڈالا جائے گا جسے الحیاۃ کہا جاتا ہے ۔ ‘ ‘ اور دونوں نے ( پچھلی روایت کی طرح اس لفظ میں ) کوئی شک نہیں کیا ۔ خالد کی روایت میں ( گآ ) یہ ہے : ’’ جس طرح کوڑا کرکٹ ( سیلاب میں بہ کر آنے والے مختلف قسم کے بیج ) سیلاب کے کنارے اگتے ہیں ۔ ‘ ‘ اور وہیب کی روایت میں ہے : ’’جس طرح چھوٹا سا بیج سیاہ گارے میں یا سیلاب کے خس و خاشاک میں اگتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:184.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 363

صحيح مسلم حدیث نمبر: 459
وحدثني نصر بن علي الجهضمي، حدثنا بشر، - يعني ابن المفضل - عن أبي مسلمة، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أما أهل النار الذين هم أهلها فإنهم لا يموتون فيها ولا يحيون ولكن ناس أصابتهم النار بذنوبهم - أو قال بخطاياهم - فأماتهم إماتة حتى إذا كانوا فحما أذن بالشفاعة فجيء بهم ضبائر ضبائر فبثوا على أنهار الجنة ثم قيل يا أهل الجنة أفيضوا عليهم ‏.‏ فينبتون نبات الحبة تكون في حميل السيل ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل من القوم كأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كان بالبادية ‏.‏
بشر بن مفضل نے ابو مسلمہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو نضرہ سے ، انہوں نے حضرت ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جہاں تک دوزخ والوں کی بات ہے تووہ لوگ جو ( ہمیشہ کے لیے ) اس کے باشندے ہیں نہ تو اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے ۔ لیکن تم ( اہل ایمان ) میں سے جن لوگوں کو گناہوں کی پاداش میں ( یا آپ نے فرمایا : خطاؤں کی بنا پر ) آگ کی مصیبت لاحق ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان پر ایک طرح کی موت طاری کر دے گا یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہو جائیں گے تو سفارش کی اجازت دے دی جائے گی ، پھر انہیں گروہ در گروہ لایا جائے گا اور انہیں جنت کی نہروں پر پھیلادیا جائے گا ، پھر کہا جائے گا : اے اہل جنت ! ان پر پانی ڈالو تو اس میں بیج کی طرح اگ آئیں گے جو سیلاب کے خس و خاشاک میں ہوتا ہے ۔ ‘ ‘ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : ایسا لگتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ صحرائی آبادی میں رہے ہیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:185.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 364

صحيح مسلم حدیث نمبر: 460
وحدثناه محمد بن المثنى، وابن، بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي مسلمة، قال سمعت أبا نضرة، عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله إلى قوله ‏ "‏ في حميل السيل ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكر ما بعده ‏.‏
(بشر کےبجائے ) شعبہ نے ابومسلمہ سے حدیث سنائی کہا ، میں نے ابونضرہ سے سنا ، ( انہوں نے ) حضرت ابو سعیدخدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی جیسی روایت میں فی حمیل السیل ’’ سیلاب کےخس و خاشاک میں ‘ ‘ ( کے جملے ) تک بیان کی اور بعد والاحصہ بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:185.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 365

صحيح مسلم حدیث نمبر: 461
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي، كلاهما عن جرير، قال عثمان حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله بن مسعود، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إني لأعلم آخر أهل النار خروجا منها وآخر أهل الجنة دخولا الجنة رجل يخرج من النار حبوا فيقول الله تبارك وتعالى له اذهب فادخل الجنة فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى فيرجع فيقول يا رب وجدتها ملأى ‏.‏ فيقول الله تبارك وتعالى له اذهب فادخل الجنة - قال - فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى فيرجع فيقول يا رب وجدتها ملأى فيقول الله له اذهب فادخل الجنة فإن لك مثل الدنيا وعشرة أمثالها أو إن لك عشرة أمثال الدنيا - قال - فيقول أتسخر بي - أو أتضحك بي - وأنت الملك ‏"‏ قال لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه ‏.‏ قال فكان يقال ذاك أدنى أهل الجنة منزلة ‏.‏
منصور نے ابراہیم سے ، انہوں نے عبیدہ سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ بے شک میں اسے جانتا ہوں جو دوزخ والوں میں سب سےآخر میں اس سے نکلے گااور جنت والوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائےگا ۔ وہ ایسا آدمی ہے جوہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائے گا : جا جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے ۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا : اے میرے رب !مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے فرمائے گا : جا جنت میں داخل ہو جا ۔ آپ نے فرمایا : وہ ( دوبارہ ) جائے گا تواسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے ۔ وہ واپس آ کر ( پھر ) کہے گا : اے میرے رب ! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : جا جنت میں داخل ہو جا ۔ تیرے لیے ( وہاں ) پوری دنیا کے برابر اور اس سے دس گنا زیادہ جگہ ہے ( یا تیرے لیے دنیا سے دس گنا زیادہ جگہ ہے ) آپ نے فرمایا : وہ شخص کہے گا : کیا تو میرے ساتھ مزاح کرتا ہے ( یا میری ہنسی اڑاتا ہے ) حالانکہ تو ہی بادشاہ ہے ؟ ‘ ‘ عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ۔ عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سب سے کم مرتبہ جنتی ہو گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:186.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 366

صحيح مسلم حدیث نمبر: 462
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إني لأعرف آخر أهل النار خروجا من النار رجل يخرج منها زحفا فيقال له انطلق فادخل الجنة - قال - فيذهب فيدخل الجنة فيجد الناس قد أخذوا المنازل فيقال له أتذكر الزمان الذي كنت فيه فيقول نعم ‏.‏ فيقال له تمن ‏.‏ فيتمنى فيقال له لك الذي تمنيت وعشرة أضعاف الدنيا - قال - فيقول أتسخر بي وأنت الملك ‏"‏ قال فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه ‏.‏
(منصور کے بجائے ) اعمش نے ابراہیم سے ، سابقہ سند کے ساتھ ، عبد ہ اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میں یقیناً دوزخ والوں میں سے سب سے آخر میں نکلنے والے کو جانتا ہوں ۔ وہ پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا اس میں سے نکل گا ۔ اس سے کہا جائے گا : چل جنت میں داخل ہو جا ۔ آپ نے فرمایا : وہ جائے گا اور جنت میں داخل ہو جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ سب منزلیں لوگ سنبھال چکے ہیں ۔ اس سے کہا جائے گا : کیا تجھے وہ زمانہ یاد ہے جس میں تو تھا؟ وہ کہے گا : ہاں ! تو اس سے کہا جائے گا : تمنا کر ، وہ تمنا کرے گا تو اسےکہاجائے گا : تم نے جو تمنا کی وہ تمہاری ہے اور پوری دنیا سے دس گنا مزید بھی ( تمہارا ہے ۔ ) وہ کہے گا : تو بادشاہ ہو کر میرے ساتھ مزاح کرتا ہے ؟ ‘ ‘ ( عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھاآپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نظر آنے لگے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:186.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 367

صحيح مسلم حدیث نمبر: 463
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أنس، عن ابن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ آخر من يدخل الجنة رجل فهو يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة فإذا ما جاوزها التفت إليها فقال تبارك الذي نجاني منك لقد أعطاني الله شيئا ما أعطاه أحدا من الأولين والآخرين ‏.‏ فترفع له شجرة فيقول أى رب أدنني من هذه الشجرة فلأستظل بظلها وأشرب من مائها ‏.‏ فيقول الله عز وجل يا ابن آدم لعلي إن أعطيتكها سألتني غيرها ‏.‏ فيقول لا يا رب ‏.‏ ويعاهده أن لا يسأله غيرها وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ثم ترفع له شجرة هي أحسن من الأولى فيقول أى رب أدنني من هذه لأشرب من مائها وأستظل بظلها لا أسألك غيرها ‏.‏ فيقول يا ابن آدم ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها فيقول لعلي إن أدنيتك منها تسألني غيرها ‏.‏ فيعاهده أن لا يسأله غيرها وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ‏.‏ ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي أحسن من الأوليين ‏.‏ فيقول أى رب أدنني من هذه لأستظل بظلها وأشرب من مائها لا أسألك غيرها ‏.‏ فيقول يا ابن آدم ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها قال بلى يا رب هذه لا أسألك غيرها ‏.‏ وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليها فيدنيه منها فإذا أدناه منها فيسمع أصوات أهل الجنة فيقول أى رب أدخلنيها ‏.‏ فيقول يا ابن آدم ما يصريني منك أيرضيك أن أعطيك الدنيا ومثلها معها قال يا رب أتستهزئ مني وأنت رب العالمين ‏"‏ ‏.‏ فضحك ابن مسعود فقال ألا تسألوني مم أضحك فقالوا مم تضحك قال هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فقالوا مم تضحك يا رسول الله قال ‏"‏ من ضحك رب العالمين حين قال أتستهزئ مني وأنت رب العالمين فيقول إني لا أستهزئ منك ولكني على ما أشاء قادر ‏"‏ ‏.‏
انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحضرت ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلےگا ، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ سے جھلسا دے گی ۔ جب و ہ آگ سے نکل آ ئے گا توپلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا : بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی ۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی ۔ اسے بلندی پر ایک درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں ۔ اس پر اللہ عز وجل فرمائے گا : اے ابن آدم ! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دےدوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو ۔ وہ کہے گا : نہیں ، اے میرے رب ! اور اللہ کے ساتھ عہد کرے گا کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا ۔ اس کا پروردگار اس کے عذر قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گاجس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا ۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس ( درخت ) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور اس کاپانی پیے گا ، پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گاجو پہلے درخت سےزیادہ خوبصورت ہو گا تووہ کہے گا : اےمیرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں ، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تم نے مجھ سےوعدہ نہ کیا تھا کہ تم مجھ سے کچھ اورنہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا : مجھے لگتا ہے اگر میں تمہیں اس کے قریب کردوں تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے ۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا ، اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا ، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا ۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا ۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کےپانی سے پیاس بجھائے گا ۔ اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں ، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ او رکچھ نہیں مانگو گے؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں میرے رب! ( وعدہ کیا تھا ) بس یہی ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ اس کا رب اس کاعذر قبول کر لے گاکیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا ۔ تو وہ اس شخص کے اس ( درخت ) کے قریب کر دے گاتو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب!مجھے اس میں داخل کر دے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اوردے دوں ؟وہ کہے گا : اے میرے رب! کیا تومیری ہنسی اڑاتا ہے جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ ‘ ‘ اس پر ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ہنس پڑے اور کہا : کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھوگے کہ میں کیوں ہنسا؟ سامعین نے پوچھا : آپ کیوں ہنسے؟ کہا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہنسے تھے توصحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے پوچھا تھا : اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’رب العالمین کے ہنس پڑے پر ، جب اس نے کہا کہ تو سارے جہانوں کارب ہے ، میری ہنسی اڑاتا ہے ؟ اللہ فرمائے گا : میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:187

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 368

صحيح مسلم حدیث نمبر: 464
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن أبي بكير، حدثنا زهير بن محمد، عن سهيل بن أبي صالح، عن النعمان بن أبي عياش، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن أدنى أهل الجنة منزلة رجل صرف الله وجهه عن النار قبل الجنة ومثل له شجرة ذات ظل فقال أى رب قدمني إلى هذه الشجرة أكون في ظلها ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بنحو حديث ابن مسعود ولم يذكر ‏"‏ فيقول يا ابن آدم ما يصريني منك ‏"‏ ‏.‏ إلى آخر الحديث وزاد فيه ‏"‏ ويذكره الله سل كذا وكذا فإذا انقطعت به الأماني قال الله هو لك وعشرة أمثاله - قال - ثم يدخل بيته فتدخل عليه زوجتاه من الحور العين فتقولان الحمد لله الذي أحياك لنا وأحيانا لك - قال - فيقول ما أعطي أحد مثل ما أعطيت ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اہل جنت میں سب سے کم درجے پر وہ آدمی ہوگا جس کے چہرے کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی طرف سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دے گا اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت دکھائی جائے گی ، وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں ہو جاؤں ..... ‘ ‘ آگے انہوں نے ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی طرح روایت بیان کی لیکن یہ الفاظ ذکر نہیں کیے : ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے! کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے..... ’’ البتہ انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا : ’’اور ا للہ تعالیٰ اسے یاد دلاتا جائے گا : فلاں چیز مانگ ، فلاں چیزطلب کر ۔ اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ سب کچھ تمہارا ہے اور اس سے دس گناہ اور بھی ۔ ‘ ‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں میں اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی : اللہ کی حمد جس نے تمہیں ہمارے لیے زندہ کیا اور ہمیں تمہارے لیے زندگی دی ۔ آپ نے فرمایا : تو وہ کہے گا : جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے ایسا کسی کو نہیں دیا گیا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:188

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 369

صحيح مسلم حدیث نمبر: 465
حدثنا سعيد بن عمرو الأشعثي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن مطرف، وابن، أبجر عن الشعبي، قال سمعت المغيرة بن شعبة، رواية إن شاء الله ح وحدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا مطرف بن طريف، وعبد الملك بن سعيد، سمعا الشعبي، يخبر عن المغيرة بن شعبة، قال سمعته على المنبر، يرفعه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ہمیں سعید بن عمر و اشعثی نے حدیث بیان سنائی ، کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی ، انہوں نے مطرف اور ( عبد الملک ) ابن ابجر سے ، انہوں نے شعبی سے روایت کی ، کہا : میں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انشاء ا للہ ( رسول اللہ ﷺ سے بیان کردہ ) روایت کے طور پر سنا ، نیز ابن ابی عمر نے سفیان سے ، انہوں نے مطرف اور عبدالملک بن سعید سے اور ان دونوں نے شعبی سے سن کر حدیث بیان کی ، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے حوالے سے خبر دی ، کہا : میں نے ان سے منبر پر سنا ، وہ اس بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر رہے تھے ، نیز بشر بن حکم نے مجھ سے بیان کیا ( روایت کے الفاظ انہیں کے ہیں ) سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں مطرف اور ابن ابجر نے حدیث بیان کی ، ان دونوں نے شعبی سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : میں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا ، وہ منبر پر لوگوں کو ( یہ ) حدیث سنا رہے تھے ۔ سفیان نے کہا : ان دونوں ( استادوں ) میں سےایک ( میرا خیال ہے ابن ابجر ) نے اس روایت کو مرفوعاً ( جسے صحابی نے رسو ل اللہﷺ سے سنا ہو ) بیان کیا ، آپ نے فرمایا : ’’موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے رب تعالیٰ سے پوچھا : جنت میں سب سے کم درجے کا ( جنتی ) کون ہو گا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ ( ایسا ) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کہا جائے گا : جنت میں داخل ہو جا ، وہ کہے گا : میرے رب ! کیسے ؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر ہو چکے ہیں اور جولینا تھا سب کچھ لے چکے ہین ۔ تو اس سے کہا جائے گا : کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے؟ وہ کہے گا : میرے رب! میں راضی ہوں ، اللہ فرمائے گا : وہ ( ملک ) تمہاراہوا ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر بار وہ آدمی ( بے اختیار ) کہے گا : میرے رب ! میں راضی ہوگیا ۔ اللہ عز وجل فرمائے گا : یہ ( سب بھی ) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا ، اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں ، پھر ( موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے ) کہا : پروردگار !تو وہ سب سے اونچے درجے کا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں ، ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی ( جس کے لیے چاہا محفوظ کر لیا ۔ ) ( عزت کا ) وہ ( مقام ) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا ۔ فرمایا : اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے : ’’کوئی ذی روح نہین جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی کسی ٹھنڈک چھپاکے رکھی گئی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:189.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 370

صحيح مسلم حدیث نمبر: 466
قال وحدثني بشر بن الحكم، - واللفظ له - حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا مطرف، وابن، أبجر سمعا الشعبي، يقول سمعت المغيرة بن شعبة، يخبر به الناس على المنبر قال سفيان رفعه أحدهما - أراه ابن أبجر - قال ‏"‏ سأل موسى ربه ما أدنى أهل الجنة منزلة قال هو رجل يجيء بعد ما أدخل أهل الجنة الجنة فيقال له ادخل الجنة ‏.‏ فيقول أى رب كيف وقد نزل الناس منازلهم وأخذوا أخذاتهم فيقال له أترضى أن يكون لك مثل ملك ملك من ملوك الدنيا فيقول رضيت رب ‏.‏ فيقول لك ذلك ومثله ومثله ومثله ومثله ‏.‏ فقال في الخامسة رضيت رب ‏.‏ فيقول هذا لك وعشرة أمثاله ولك ما اشتهت نفسك ولذت عينك ‏.‏ فيقول رضيت رب ‏.‏ قال رب فأعلاهم منزلة قال أولئك الذين أردت غرست كرامتهم بيدي وختمت عليها فلم تر عين ولم تسمع أذن ولم يخطر على قلب بشر ‏"‏ ‏.‏ قال ومصداقه في كتاب الله عز وجل ‏{‏ فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين‏}‏ الآية ‏.‏
ہا : میں نے شعبی سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ منبر پر کہہ رہے تھے : بے شک موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے اللہ عز وجل سے اہل جنت میں سے سب سے کم حصہ پانے والے کے بارے میں پوچھا........ اور سابقہ حدیث کی طرح روایت ( سفیان کے بجائے ) عبیداللہ اشجعی نے عبدالملک ابن ابجر سے روایت کی ، انہوں نے ک بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:189.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 371

صحيح مسلم حدیث نمبر: 467
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن المعرور بن سويد، عن أبي ذر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إني لأعلم آخر أهل الجنة دخولا الجنة وآخر أهل النار خروجا منها رجل يؤتى به يوم القيامة فيقال اعرضوا عليه صغار ذنوبه وارفعوا عنه كبارها ‏.‏ فتعرض عليه صغار ذنوبه فيقال عملت يوم كذا وكذا كذا وكذا وعملت يوم كذا وكذا كذا وكذا ‏.‏ فيقول نعم ‏.‏ لا يستطيع أن ينكر وهو مشفق من كبار ذنوبه أن تعرض عليه ‏.‏ فيقال له فإن لك مكان كل سيئة حسنة ‏.‏ فيقول رب قد عملت أشياء لا أراها ها هنا ‏"‏ ‏.‏ فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه ‏.‏
محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اعمش نے معرور بن سوید سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں اہل جنت میں سے سب کے بعد جنت میں جانے والے اور اہل دوزخ میں سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے کو جانتا ہوں ، وہ ایک آدمی ہے جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : اس کے سامنے اس کے چھوٹے گنا ہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ اٹھا رکھو ( ایک طرف ہٹادو ۔ ) تو اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کہا جائے گا : فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے ۔ وہ کہے گا : ہاں ، وہ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگا ، ( اس وقت ) اسے کہا جائے گا : تمہارے لیے ہر برائی کے عوض ایک نیکی ہے ۔ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے بہت سے ایسے ( برے ) کام کیے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا ۔ ‘ ‘ میں ( ابو ذر ) نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نمایاں ہو گئے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:190.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 373

صحيح مسلم حدیث نمبر: 468
وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو معاوية، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد ‏.‏
اعمش کے دوشاگردوں ابو معاویہ اور وکیع نے اپنی اپنی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:190.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 374

صحيح مسلم حدیث نمبر: 469
حدثني عبيد الله بن سعيد، وإسحاق بن منصور، كلاهما عن روح، قال عبيد الله حدثنا روح بن عبادة القيسي، حدثنا ابن جريج، قال أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يسأل عن الورود، فقال نجيء نحن يوم القيامة عن كذا، وكذا، انظر أى ذلك فوق الناس - قال - فتدعى الأمم بأوثانها وما كانت تعبد الأول فالأول ثم يأتينا ربنا بعد ذلك فيقول من تنظرون فيقولون ننظر ربنا ‏.‏ فيقول أنا ربكم ‏.‏ فيقولون حتى ننظر إليك ‏.‏ فيتجلى لهم يضحك - قال - فينطلق بهم ويتبعونه ويعطى كل إنسان منهم - منافق أو مؤمن - نورا ثم يتبعونه وعلى جسر جهنم كلاليب وحسك تأخذ من شاء الله ثم يطفأ نور المنافقين ثم ينجو المؤمنون فتنجو أول زمرة وجوههم كالقمر ليلة البدر سبعون ألفا لا يحاسبون ثم الذين يلونهم كأضوإ نجم في السماء ثم كذلك ثم تحل الشفاعة ويشفعون حتى يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة فيجعلون بفناء الجنة ويجعل أهل الجنة يرشون عليهم الماء حتى ينبتوا نبات الشىء في السيل ويذهب حراقه ثم يسأل حتى تجعل له الدنيا وعشرة أمثالها معها ‏.‏
ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، ان سے ( جنت اور جہنم میں ) وارد ہونے کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا : ہم قیامت کے دن فلاں فلاں ( سمت ) سے آئیں گے ( دیکھو ) ، یعنی اس سمت سے جو لوگوں کےاوپر ہے ۔ کہا : سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور جن ( معبودوں ) کی بندگی کرتی تھیں ان کے ساتھ بلائی جائیں گی ، ایک کے بعد ایک ، پھر اس کے بعد ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا اور پوچھے گا : تم کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ تو وہ کہیں گے : ہم اپنے رب کے منتظر ہیں ۔ وہ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں ۔ توسب کہیں گے : ( اس وقت ) جب ہم تمہیں دیکھ لیں ۔ تو وہ ہنستا ہوا ان کےسامنے جلوہ افروز ہو گا ۔ انہوں نے کہا : وہ انہیں لے کر جائے گااور وہ اس کے پیچھے ہوں گے ، ان میں ہر انسان کو ، منافق ہویا مومن ، ایک نور دیا جائے گا ، وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے ۔ اور جہنم کے پل پر کئی نوکوں والے کنڈے اور لوہے کے سخت کانٹے ہوں گے اور جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ اسے پکڑ لیں گے ، پھر منافقوں کا نور بجھا دیا جائے گا اور مومن نجات پائیں گے تو سب سے پہلا گروہ ( جو ) نجات پائے گا ، ان کے چہرے چودہویں کے چاند جیسے ہوں گے ( وہ ) ستر ہزار ہوں گے ، ان کا حساب نہیں کیا جائے گا ، پھر جو لوگ ان کے بعد ہوں گے ، ان کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے ، پھر اسی طرح ( درجہ بدرجہ ۔ ) اس کے بعد پھرشفاعت کا مرحلہ آئے گااور ( شفاعت کرنے والے ) شفاعت کریں گے حتی کہ ہر وہ شخص جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا اور جس کےدل میں جو کے وزن کے برابر بھی نیکی ( ایمان ) ہو گی ۔ ان کی جنت کے آگے کے میدان میں ڈال دیا جائے گا اور اہل جنت ان پر پانی چھڑکنا شروع کر دیں گے حتی کہ وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں اگ آتی ہے اور اس ( کے جسم ) کا جلا ہوا حصہ ختم ہو جائے گا ، پھر اس سے پوچھا جائے گا حتی کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا مزید عطا کر دیا جائے گا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:191.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 375

صحيح مسلم حدیث نمبر: 470
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، سمع جابرا، يقول سمعه من النبي، صلى الله عليه وسلم بأذنه يقول ‏ "‏ إن الله يخرج ناسا من النار فيدخلهم الجنة ‏"‏ ‏.‏
سفیان بن عیینہ نے عمر ( بن دینار ) سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : انہوں نے اپنے دونوں کانٔن سے یہ بات نبی ﷺسنی ، آپ فرما رہے تھے : ’’ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:191.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 376

صحيح مسلم حدیث نمبر: 471
حدثنا أبو الربيع، حدثنا حماد بن زيد، قال قلت لعمرو بن دينار أسمعت جابر بن عبد الله يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن الله يخرج قوما من النار بالشفاعة ‏"‏ ‏.‏ قال نعم ‏.‏
حماد بن زید نے کہا : میں نے عمر وبن دینارسے پوچھا : کیا آپ نے جابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو رسول اللہﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو شفاعت کے ذریعے سے آگ میں سے نکالے گا؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:191.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 377

صحيح مسلم حدیث نمبر: 472
حدثنا حجاج بن الشاعر، حدثنا أبو أحمد الزبيري، حدثنا قيس بن سليم العنبري، قال حدثني يزيد الفقير، حدثنا جابر بن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن قوما يخرجون من النار يحترقون فيها إلا دارات وجوههم حتى يدخلون الجنة ‏"‏ ‏.‏
قیس بن سلیم عنبری سے کہا : یزید الفقیر نے مجھے حدیث بیان کی کہ حضرت جابربن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی ، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ کچھ لوگ آگ میں سے نکالے جائیں گے ، وہ اپنے چہروں کے علاوہ ( پورے کے پورے ) اس میں جل چکے ہوں گے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:191.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 378

صحيح مسلم حدیث نمبر: 473
وحدثنا حجاج بن الشاعر، حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا أبو عاصم، - يعني محمد بن أبي أيوب - قال حدثني يزيد الفقير، قال كنت قد شغفني رأى من رأى الخوارج فخرجنا في عصابة ذوي عدد نريد أن نحج ثم نخرج على الناس - قال - فمررنا على المدينة فإذا جابر بن عبد الله يحدث القوم - جالس إلى سارية - عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فإذا هو قد ذكر الجهنميين - قال - فقلت له يا صاحب رسول الله ما هذا الذي تحدثون والله يقول ‏{‏ إنك من تدخل النار فقد أخزيته‏}‏ و ‏{‏ كلما أرادوا أن يخرجوا منها أعيدوا فيها‏}‏ فما هذا الذي تقولون قال فقال أتقرأ القرآن قلت نعم ‏.‏ قال فهل سمعت بمقام محمد - عليه السلام - يعني الذي يبعثه الله فيه قلت نعم ‏.‏ قال فإنه مقام محمد صلى الله عليه وسلم المحمود الذي يخرج الله به من يخرج ‏.‏ - قال - ثم نعت وضع الصراط ومر الناس عليه - قال - وأخاف أن لا أكون أحفظ ذاك - قال - غير أنه قد زعم أن قوما يخرجون من النار بعد أن يكونوا فيها - قال - يعني فيخرجون كأنهم عيدان السماسم ‏.‏ قال فيدخلون نهرا من أنهار الجنة فيغتسلون فيه فيخرجون كأنهم القراطيس ‏.‏ فرجعنا قلنا ويحكم أترون الشيخ يكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجعنا فلا والله ما خرج منا غير رجل واحد أو كما قال أبو نعيم ‏.‏
م ، یعنی محمد بن ابی ایوب نے کہا : مجھے یزید الفقیر نےحدیث سنائی ، انہوں نے کہا : کہ خارجیوں کے نظریات میں سے ایک بات میرے دل میں گھر کر گئی تھی ۔ ہم ایک جماعت میں نکلے جس کی اچھی خاصی تعداد تھی ۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کریں اور پھر لوگوں کو خلاف خروج کریں ( جنگ کریں ۔ ) ہم مدینہ سے گزرے تو ہم نےدیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ( ایک ستون کے پاس بیٹھے ) لوگوں کو رسول اللہﷺ کی احادیث سنا رہے ہیں ، انہوں نے اچانک «الجهميين» ( جہنم سے نکل کر جنت میں پہنچنے والے لوگوں ) کا تذکرہ کیا تو میں ان سے پوچھا : اے رسول اللہ کے ساتھی! یہ آپ کیا بیان کر رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ فرماتا ہے : ’’بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا اس کو رسوا کر دیا ۔ ‘ ‘ اور : ’’وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے ، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے ۔ ‘ ‘ تویہ کیا بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں ؟ ( یزیدنے ) کہا : انہوں نے ( جواب میں ) کہا : کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی : ہاں!انہوں نے کہا : کیا تم نے محمدﷺ کے مقام کے بارے میں سنا ہے ، یعنی وہ مقام جس پر قیامت کے دن آپ کومبعوث کیا جائے گا؟ میں نے کہا : ہاں! انہوں نے کہا : بے شک و ہ محمدﷺ کا مقام محمود ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں ( جہنم سے ) نکالنا ہو گا نکالے گا ، پھر انہو ں نے ( جہنم پر ) پل رکھے جانے اور اس پر سے لوگوں کے گزرنے کا منظر بیان کیا ۔ ( یزید نے ) کہا : مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا ہوں ۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے بتایا : کچھ لوگ جہنم میں چلے جانے کے بعد اس سے نکلیں گے ، یعنی انہوں نےکہا : وہ اس طرح نکلیں گے جیسے وہ ’’تلوں ‘ ‘ ( کےپودوں ) کی لکڑیاں ہوں ، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہو ں گے اور اس میں نہائیں گے ، پھر اس میں سے ( کورے ) کاغذوں کی طرح ( ہوکر ) نکلیں گے ، پھر ( یہ حدیث سن کر ) ہم واپس آئے اورہم نے کہا : تم پر افسوس ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ بوڑھا ( صحابی حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھ رہا ہے ؟ اور ہم نے ( سابقہ رائے سے ) رجوع کر لیا ۔ اللہ کی قسم ! ہم میں سے ایک آدمی کے سوا کسی نے خروج نہ کیا ، یا جس طرح ( کے الفاظ میں ) ابو نعیم نے کہا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:191.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 379

صحيح مسلم حدیث نمبر: 474
حدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي عمران، وثابت، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يخرج من النار أربعة فيعرضون على الله فيلتفت أحدهم فيقول أى رب إذ أخرجتني منها فلا تعدني فيها ‏.‏ فينجيه الله منها ‏"‏ ‏.‏
ابو عمران اور ثابت نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دوزخ سے چار آدمی نکلیں گے ، انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا ۔ ان میں سے ایک متوجہ ہو گا اور کہے گا : اے میرے رب !جب تو نے مجھے اس سے نکال ہی دیا ہے تو اب دوبارہ اس میں نہ ڈالنا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دے دے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:192

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 380

صحيح مسلم حدیث نمبر: 475
حدثنا أبو كامل، فضيل بن حسين الجحدري ومحمد بن عبيد الغبري - واللفظ لأبي كامل - قالا حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يجمع الله الناس يوم القيامة فيهتمون لذلك - وقال ابن عبيد فيلهمون لذلك - فيقولون لو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا - قال - فيأتون آدم صلى الله عليه وسلم فيقولون أنت آدم أبو الخلق خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا ‏.‏ فيقول لست هناكم - فيذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها - ولكن ائتوا نوحا أول رسول بعثه الله - قال - فيأتون نوحا صلى الله عليه وسلم فيقول لست هناكم - فيذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها - ولكن ائتوا إبراهيم صلى الله عليه وسلم الذي اتخذه الله خليلا ‏.‏ فيأتون إبراهيم صلى الله عليه وسلم فيقول لست هناكم - ويذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها - ولكن ائتوا موسى صلى الله عليه وسلم الذي كلمه الله وأعطاه التوراة ‏.‏ قال فيأتون موسى - عليه السلام - فيقول لست هناكم - ويذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها - ولكن ائتوا عيسى روح الله وكلمته ‏.‏ فيأتون عيسى روح الله وكلمته فيقول لست هناكم ‏.‏ ولكن ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ‏"‏ ‏.‏ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فيأتوني فأستأذن على ربي فيؤذن لي فإذا أنا رأيته وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله فيقال يا محمد ارفع رأسك قل تسمع سل تعطه اشفع تشفع ‏.‏ فأرفع رأسي فأحمد ربي بتحميد يعلمنيه ربي ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود فأقع ساجدا فيدعني ما شاء الله أن يدعني ثم يقال ارفع رأسك يا محمد قل تسمع سل تعطه اشفع تشفع ‏.‏ فأرفع رأسي فأحمد ربي بتحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة - قال فلا أدري في الثالثة أو في الرابعة قال - فأقول يا رب ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن أى وجب عليه الخلود ‏"‏ ‏.‏ - قال ابن عبيد في روايته قال قتادة أى وجب عليه الخلود ‏.‏
ابو کامل فضیل بن حسین جحدری اور محمد بن عبید غبری نے کہا : ( الفاظ ابو کامل کے ہیں ) ہمیں ابو عوانہ نے قتادہ سےحدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور وہ اس بات پر فکر مند ہوں گے ( کہ اس دن کی سختیوں سے کیسے نجات پائی جائے؟ ) ( ابن عبید نے کہا : ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی ) او ر وہ کہیں گے : اگر ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش لائیں تاکہ وہ ہمیں اس جگہ ( کی سختیوں ) سے راحت عطا کر دے ۔ آپ نے فرمایا : چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اورکہیں گے : آپ آدم ہیں ، تمام مخلوق کے والد ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں کہ وہ ہمیں اس ( اذیت ناک ) جگہ سے راحت دے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس مقام پر نہیں ، پھر وہ اپنی غلطی کو ، جو ان سے ہو گئی تھی ، یاد کر کے اس کی وجہ سے اپنےرب سے شرمندگی محسوس کریں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ( لوگوں کی طرف ) مبعوث فرمایا ، آپ نے فرمایا : تو اس پر لوگ نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آئیں گے ۔ وہ کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں اور وہ اپنی غلطی کو ، جس کا ارتکاب ان سے ہو گیا تھا ، یادکرکے اس پر اپنے رب کی شرمندگی محسوس کریں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل ( خالص دوست ) بنایا ہے ۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی غلطی کو یادکریں گےجو ان سے سرزد ہو گئی تھی اور اس پر اپنے رب سے شرمندہ ہوں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نےکلام کیا اور انہیں تورات عنایت کی ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کی خدمت میں حاضر ہوں گے ، وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں اور اپنی غلطی کو ، جو ان سے ہو گئی تھی ، یاد کر کے اس پر اپنے رب سے شرمندگی محسوس کریں گے ( او رکہیں گے : ) لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےپاس آئیں گے ۔ وہ ( بھی یہ ) کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں ہے ، تم محمدﷺ کے پاس جاؤ ، وہ ایسے برگزیدہ عبد ( بندت ) ہیں جس کے اگلے پچھلے گناہ ( اگر ہوتے تو بھی ) معاف کیے جا چکے ۔ ‘ ‘ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر وہ میرے پاس آئیں گے ، میں اپنے رب ( کے پاس حاضری ) کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی ، اسے دیکھتے ہی میں سجدے میں گر جاؤں گا ، تو جب تک اللہ چاہے گا مجھے اس حالت ( سجدہ ) میں رہنے دے گا ۔ پھر کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیے ، کہیے : آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیے ، آپ کودیاجائے گا ، سفارش کیجیے ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب تعالیٰ کی ایسی حمد وستائش بیان کروں گا جو میرا رب عز وجل خود مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا ۔ وہ میرے لیے حد مقرر کر دے گا ، میں ( اس کے مطابق ) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا ، پھر میں واپس آکر سجدے میں گر جاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر کہا جائے گا : اپنا سر اٹھائیے ، اے محمدﷺ!کہیے : آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیے ، آپ کو ملے گا ، سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جومیرا رب مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تووہ میرے لیے پھر ایک حد مقرر فرما دےگا ، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا ۔ ‘ ‘ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : مجھے یاد نہیں ، آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا ) پھر میں کہوں گا : ’’اےمیرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ، یعنی جن کا ( دوزخ میں ) ہمیشہ رہنا ( اللہ کی طرف سے ) لازمی ہو گیا ہے ۔ ‘ ‘ ابن عبید نےاپنی روایت میں کہا : قتادہ نے کہا : یعنی جس کا ہمیشہ رہنا لازمی ہو گیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:193.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 381

صحيح مسلم حدیث نمبر: 476
وحدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، قالا حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يجتمع المؤمنون يوم القيامة فيهتمون بذلك أو يلهمون ذلك ‏"‏ ‏.‏ بمثل حديث أبي عوانة وقال في الحديث ‏"‏ ثم آتيه الرابعة - أو أعود الرابعة - فأقول يا رب ما بقي إلا من حبسه القرآن ‏"‏ ‏.‏
دوسری سند سے جس میں ( ابو عوانہ کے بجائے ) سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن مومن جمع ہوں گے اور اس ( کی ہولناکیوں سے بچنے ) کی فکر میں مبتلا ہوں گے یا یہ بات ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی ۔ ‘ ‘ .... ( آگے ) ابو عوانہ کی حدیث کےمانند ہے ، البتہ انہوں نے اس حدیث میں یہ کہا : ’’پھر میں چوتھی بار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گا ( یا چوتھی بار لوٹوں گا ) اور کہوں گا : اے میرے رب! ان کے سوا جنہیں قرآن ( کے فیصلے ) نے روک رکھاہے اور کوئی باقی نہیں بچا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:193.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 382

صحيح مسلم حدیث نمبر: 477
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، عن أنس بن مالك، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يجمع الله المؤمنين يوم القيامة فيلهمون لذلك ‏"‏ بمثل حديثهما وذكر في الرابعة ‏"‏ فأقول يا رب ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن أى وجب عليه الخلود ‏"‏ ‏.‏
معاذ بن ہشام نے کہا : میرے والد نے مجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی ﷺ نےفرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمع کرے گا ، پھر اس ( دن کی پریشانی سے بچنے ) کے لیے ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی ۔ ‘ ‘ .... یہ حدیث بھی ان دونوں ( ابوعوانہ اور سعید ) کی حدیث کی طرح ہے ، چوتھی دفعہ کے بارے میں یہ کہا : ’’تو میں کہوں گا : اے میرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں جسے قرآن ( کے فیصلے ) نے روک لیا ہے ، یعنی جس کے لیے ( آگ میں ) ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:193.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 383

صحيح مسلم حدیث نمبر: 478
وحدثنا محمد بن منهال الضرير، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد بن أبي عروبة، وهشام، صاحب الدستوائي عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ح وحدثني أبو غسان المسمعي، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا معاذ، - وهو ابن هشام - قال حدثني أبي، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة ثم يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن برة ثم يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن ذرة ‏"‏ ‏.‏ زاد ابن منهال في روايته قال يزيد فلقيت شعبة فحدثته بالحديث فقال شعبة حدثنا به قتادة عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم بالحديث ‏.‏ إلا أن شعبة جعل مكان الذرة ذرة قال يزيد صحف فيها أبو بسطام ‏.‏
محمد بن منہال الضریر ( نابینا ) نے کہا : ہمیں یزید بن زریع نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں سعید بن ابی عروبہ اور دستوائی ( کپڑے ) والے ہشام نے قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسو ل اللہﷺ نے فرمایا .... ، اسی طرح ابوغسان مسمعی اور محمد بن مثنیٰ نےکہا : میرے والد نےمجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی ، ( انہوں نے کہا : ) ہمیں انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’اس شخص کو آگ سے نکال لیا جائےگا جس نے لا اله الا الله کہا اور ا س کےدل میں ایک جوکے وزن کے برابر خیر ہوئی ، پھر ایسے شخص کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا اله الا الله کہا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر ہوئی ، پھر اس کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا اله الا الله کہا اور اس کےدل میں ایک ذرے کے برابر بھی خیر ہوئی ۔ ‘ ‘ ( گزشتہ متعدد احادیث سے وضاحت ہوتی ہے کہ خیر سے مراد ایمان ہے ۔ ) ابن منہال نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ یزید نے کہا : میں شعبہ سے ملا اور انہیں یہ حدیث سنائی تو شعبہ نےکہا : ہمیں یہ حدیث قتادہ نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبی ﷺ سے سنائی ، البتہ شعبہ نے ’’ایک ذرے ‘ ‘ کے بجائے ’’مکئی کا دانہ ‘ ‘ کہا ۔ یزید نے کہا : اس لفظ میں ابو بسطام ( شعبہ ) سے تصحیف ( حروف میں اشتباہ کی وجہ سے غلطی ) ہو گئی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:193.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 384

صحيح مسلم حدیث نمبر: 479
حدثنا أبو الربيع العتكي، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا معبد بن هلال العنزي، ح وحدثناه سعيد بن منصور، - واللفظ له - حدثنا حماد بن زيد، حدثنا معبد بن هلال العنزي، قال انطلقنا إلى أنس بن مالك وتشفعنا بثابت فانتهينا إليه وهو يصلي الضحى فاستأذن لنا ثابت فدخلنا عليه وأجلس ثابتا معه على سريره فقال له يا أبا حمزة إن إخوانك من أهل البصرة يسألونك أن تحدثهم حديث الشفاعة ‏.‏ قال حدثنا محمد صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض فيأتون آدم فيقولون له اشفع لذريتك ‏.‏ فيقول لست لها ولكن عليكم بإبراهيم - عليه السلام - فإنه خليل الله ‏.‏ فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى - عليه السلام - فإنه كليم الله ‏.‏ فيؤتى موسى فيقول لست لها ولكن عليكم بعيسى - عليه السلام - فإنه روح الله وكلمته ‏.‏ فيؤتى عيسى فيقول لست لها ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم فأوتى فأقول أنا لها ‏.‏ فأنطلق فأستأذن على ربي فيؤذن لي فأقوم بين يديه فأحمده بمحامد لا أقدر عليه الآن يلهمنيه الله ثم أخر له ساجدا فيقال لي يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعطه واشفع تشفع فأقول رب أمتي أمتي ‏.‏ فيقال انطلق فمن كان في قلبه مثقال حبة من برة أو شعيرة من إيمان فأخرجه منها ‏.‏ فأنطلق فأفعل ثم أرجع إلى ربي فأحمده بتلك المحامد ثم أخر له ساجدا فيقال لي يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعطه واشفع تشفع ‏.‏ فأقول أمتي أمتي ‏.‏ فيقال لي انطلق فمن كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فأخرجه منها ‏.‏ فأنطلق فأفعل ثم أعود إلى ربي فأحمده بتلك المحامد ثم أخر له ساجدا فيقال لي يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعطه واشفع تشفع فأقول يا رب أمتي أمتي ‏.‏ فيقال لي انطلق فمن كان في قلبه أدنى أدنى أدنى من مثقال حبة من خردل من إيمان فأخرجه من النار فأنطلق فأفعل ‏"‏ ‏.‏ هذا حديث أنس الذي أنبأنا به فخرجنا من عنده فلما كنا بظهر الجبان قلنا لو ملنا إلى الحسن فسلمنا عليه وهو مستخف في دار أبي خليفة - قال - فدخلنا عليه فسلمنا عليه فقلنا يا أبا سعيد جئنا من عند أخيك أبي حمزة فلم نسمع مثل حديث حدثناه في الشفاعة قال هيه ‏.‏ فحدثناه الحديث ‏.‏ فقال هيه ‏.‏ قلنا ما زادنا ‏.‏ قال قد حدثنا به منذ عشرين سنة وهو يومئذ جميع ولقد ترك شيئا ما أدري أنسي الشيخ أو كره أن يحدثكم فتتكلوا ‏.‏ قلنا له حدثنا ‏.‏ فضحك وقال خلق الإنسان من عجل ما ذكرت لكم هذا إلا وأنا أريد أن أحدثكموه ‏"‏ ثم أرجع إلى ربي في الرابعة فأحمده بتلك المحامد ثم أخر له ساجدا فيقال لي يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعط واشفع تشفع ‏.‏ فأقول يا رب ائذن لي فيمن قال لا إله إلا الله ‏.‏ قال ليس ذاك لك - أو قال ليس ذاك إليك - ولكن وعزتي وكبريائي وعظمتي وجبريائي لأخرجن من قال لا إله إلا الله ‏"‏ ‏.‏ قال فأشهد على الحسن أنه حدثنا به أنه سمع أنس بن مالك أراه قال قبل عشرين سنة وهو يومئذ جميع ‏.‏
معبد بن ہلال عنزی نے کہا : ہم لوگ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس گئے اور ثابت ( البنانی ) کو اپنا سفارشی بنایا ( ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی ۔ ) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ ثابت نے ہمارے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت لی ۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے ۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا ۔ ثابت نے ان سے کہا : اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو ( یہ ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں ۔ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ہمیں حضرت محمدﷺ نے بتایا : ’’ جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے : اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے ( کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں ۔ ) وہ کہیں گے : میں اس کے لیے نہیں ہوں ۔ لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ( خالص دوست ) ہیں ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس کے لیےنہیں ۔ لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں ( جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا ) تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضری ہو گی ۔ وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ تو عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آمد ہو گی ، وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم محمدﷺ کے پاس پہنچ جاؤ ، تو ( ان کی ) آمد میرے پاس ہو گی ۔ میں جواب دوں گا : اس ( کام ) کے لیے میں ہوں ۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا ، مجھے اجازت عطا کی جائے گی ، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں ، اللہ تعالیٰ ہی یہ ( حمد ) میرے دل میں ڈالے گا ، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! ، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا : جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں ، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت! مجھے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، اسے نکال لیں ۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا ۔ تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! ا پنا سر اٹھائیں ، کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت !تو مجھ سے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم ، اس سے ( بھی ) کم ، اس سے ( اور بھی ) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ۔ ‘ ‘ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی ۔ ( معبدی بن ہلال عنزی نے ) کہا : چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے ، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا : ( کیا ہی اچھاہو ) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں ۔ وہ ( حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے ۔ انہوں نےکہا : جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا ۔ ہم نے کہا : جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی کنیت ہے ) کے پاس سے آرہے ہیں ۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی ۔ حسن بصری نے کہا : لائیں سنائیں ۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا : آگے سنائیں ۔ ہم نے کہا : انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا ۔ انہوں ( حسن بصری ) نے کہا : ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی ، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے ۔ انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے ، معلوم نہیں ، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم ( اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر ) بھروسا نہ کر لو ۔ ہم نےعرض کی : آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا : انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے ، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا ( اور کسی وجہ سے ) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا ، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! مجھے ان کےبارے میں ( بھی ) اجازت دیجیے جنہوں نے ( صرف ) لا الہ الا اللہ کہا ۔ اللہ فرمائے گا : یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم ، میری کبریائی ، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم ! میں ان کو ( بھی ) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ۔ ‘ ‘ معبد کا بیان ہے : میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت سنی ۔ میرا خیال ہے ، انہوں نے کہا : بیس سال پہلے ، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:193.05

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 385

صحيح مسلم حدیث نمبر: 480
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ومحمد بن عبد الله بن نمير، - واتفقا في سياق الحديث إلا ما يزيد أحدهما من الحرف بعد الحرف - قالا حدثنا محمد بن بشر حدثنا أبو حيان عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بلحم فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها نهسة فقال ‏ "‏ أنا سيد الناس يوم القيامة وهل تدرون بم ذاك يجمع الله يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون وما لا يحتملون فيقول بعض الناس لبعض ألا ترون ما أنتم فيه ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس لبعض ائتوا آدم ‏.‏ فيأتون آدم فيقولون يا آدم أنت أبو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا إلى ربك ألا ترى إلى ما نحن فيه ألا ترى إلى ما قد بلغنا فيقول آدم إن ربي غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله وإنه نهاني عن الشجرة فعصيته نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري اذهبوا إلى نوح ‏.‏ فيأتون نوحا فيقولون يا نوح أنت أول الرسل إلى الأرض وسماك الله عبدا شكورا اشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن فيه ألا ترى ما قد بلغنا فيقول لهم إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله وإنه قد كانت لي دعوة دعوت بها على قومي نفسي نفسي اذهبوا إلى إبراهيم صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فيأتون إبراهيم فيقولون أنت نبي الله وخليله من أهل الأرض اشفع لنا إلى ربك ألا ترى إلى ما نحن فيه ألا ترى إلى ما قد بلغنا فيقول لهم إبراهيم إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولا يغضب بعده مثله ‏.‏ وذكر كذباته نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري اذهبوا إلى موسى ‏.‏ فيأتون موسى صلى الله عليه وسلم فيقولون يا موسى أنت رسول الله فضلك الله برسالاته وبتكليمه على الناس اشفع لنا إلى ربك ألا ترى إلى ما نحن فيه ألا ترى ما قد بلغنا فيقول لهم موسى صلى الله عليه وسلم إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله وإني قتلت نفسا لم أومر بقتلها نفسي نفسي اذهبوا إلى عيسى صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فيأتون عيسى فيقولون يا عيسى أنت رسول الله وكلمت الناس في المهد وكلمة منه ألقاها إلى مريم وروح منه فاشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن فيه ألا ترى ما قد بلغنا فيقول لهم عيسى صلى الله عليه وسلم إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله - ولم يذكر له ذنبا - نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري اذهبوا إلى محمد صلى الله عليه وسلم فيأتوني فيقولون يا محمد أنت رسول الله وخاتم الأنبياء وغفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر اشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن فيه ألا ترى ما قد بلغنا فأنطلق فآتي تحت العرش فأقع ساجدا لربي ثم يفتح الله على ويلهمني من محامده وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه لأحد قبلي ثم يقال يا محمد ارفع رأسك سل تعطه اشفع تشفع ‏.‏ فأرفع رأسي فأقول يا رب أمتي أمتي ‏.‏ فيقال يا محمد أدخل الجنة من أمتك من لا حساب عليه من الباب الأيمن من أبواب الجنة وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الأبواب والذي نفس محمد بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة لكما بين مكة وهجر أو كما بين مكة وبصرى ‏"‏ ‏.‏
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی کیونکہ آپ آپ کو مرغوب تھی ، آپ نے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا : ’’ میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلون اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا ۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ( اللہ کی ) نظر سب کے آر پار ( سب کو دیکھ رہی ) ہو گی ۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا ۔ لوگ ایک دوسرے کہیں گے : کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو ؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور ۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے : آدم علیہ السلام کے پاس چلو تو وہ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے آدم ! آپ سب انسانوں کے والد ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ آدم علیہ السلام جواب دیں گے : میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اسے سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت ( کےقریب جانے ) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی ، مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ ، نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے نوح! آپ ( اہل ) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے : آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا نہ آیندہ کبھی آئے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا ( خاص کی گئی ) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی ۔ ( آج تو ) میری اپنی جان ( پر بنی ) ہے ۔ مجھے اپنی جان ( کی فکر ) ہے ۔ تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ، چنانچہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے : آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل ( صرف اس کے دوست ) ہیں ، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہیں گے : میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا اور اپنے ( تین ) جھوٹ یاد کریں گے ، ( اور کہیں ) مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے ۔ کسی اورکے پاس جاؤ ، موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے : اے موسیٰ!آپ اللہ کےرسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی ، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ ان سے کہیں گے : میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا ۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا ۔ میری جان ( کا کیا ہو گا ) میری جان ( کیسے بچے گی؟ ) عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پا س جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے : اے عیسیٰ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی طرف القاء کیا اور اس کی روح ہیں ، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ انہیں جواب دیں گے : میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا ، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے ، ( کہیں گے مجھے ) اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ، محمدﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس ےئین گآ اور کہیں گے : اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ ( اگر ہوتے تو بھی ) معاف کر دیے ، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا ( کے دروازے ) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے ، پھر ( اللہ ) فرمائےگا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیے ، مانگیے ، آپ کو ملے گا ، سفارش کیجیے ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا : اےمیرے رب ! میری امت ! میری امت ! توکہا جائے گا : اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں ( بھی ) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا ( فاصلہ ) ہے جتنامکہ اور ( شہر بجر ) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:194.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 386

صحيح مسلم حدیث نمبر: 481
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال وضعت بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم قصعة من ثريد ولحم فتناول الذراع وكانت أحب الشاة إليه فنهس نهسة فقال ‏"‏ أنا سيد الناس يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ ثم نهس أخرى فقال ‏"‏ أنا سيد الناس يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فلما رأى أصحابه لا يسألونه قال ‏"‏ ألا تقولون كيفه ‏"‏ ‏.‏ قالوا كيفه يا رسول الله قال ‏"‏ يقوم الناس لرب العالمين ‏"‏ ‏.‏ وساق الحديث بمعنى حديث أبي حيان عن أبي زرعة وزاد في قصة إبراهيم فقال وذكر قوله في الكوكب هذا ربي ‏.‏ وقوله لآلهتهم بل فعله كبيرهم هذا ‏.‏ وقوله إني سقيم ‏.‏ قال ‏"‏ والذي نفس محمد بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة إلى عضادتى الباب لكما بين مكة وهجر أو هجر ومكة ‏"‏ ‏.‏ قال لا أدري أى ذلك قال ‏.‏
(ایک دوسرے سند سے ) عمارہ بن قعقاع نے ابو زرعہ سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہﷺ کے سامنے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا ، آپ نے دستی اٹھائی ، آپ کو بکری ( کے گوشت ) میں سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا ، آپ نےاس میں سے ایک بار اپنے داندان مبارک سے تناول کیا اور فرمایا : ’’میں قیامت کےدن تمام لوگوں کاسردار ہوں گا ۔ ‘ ‘ پھر دوبارہ تناول کیا اور فرمایا : ’’میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ ‘ ‘ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کے ساتھی ( اس کے بارےمیں ) آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا : ’’ تم پوچھتے کیوں نہیں کہ یہ کیسے ہو گا؟ انہوں نے پوچھا : یہ کیسے ہو گا؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’لوگ رب العالمین کے سامنےکھڑے ہو ں گے..... ‘ ‘ ( عمارہ نے بھی ) ابوزرعہ کے حوالے سے ابو حیان کی بیان کردہ حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں یہ اضافہ کیا : ( آپﷺ نے ) فرمایا : ابراہیم علیہ السلام نےستارے کے بارے میں اپنا قول : ’’یہ میرا رب ہے ‘ ‘ اور ان کے معبودوں کے بارے میں یہ کہنا : ’’ بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے ‘ ‘ اور یہ کہنا : ’’میں بیمار ہوں ‘ ‘ یاد کیا ۔ ( رسول اللہ ﷺنے ) فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! چوکھٹ کےدونوں بازؤں تک جنت کے کواڑوں میں سے ( ہر ) دو کواڑوں کے درمیان : اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ، یا ( فرمایا ) ہجر اور مکہ کےدرمیان ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:194.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 387

صحيح مسلم حدیث نمبر: 482
حدثنا محمد بن طريف بن خليفة البجلي، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا أبو مالك الأشجعي، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، وأبو مالك عن ربعي، عن حذيفة، قالا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يجمع الله تبارك وتعالى الناس فيقوم المؤمنون حتى تزلف لهم الجنة فيأتون آدم فيقولون يا أبانا استفتح لنا الجنة ‏.‏ فيقول وهل أخرجكم من الجنة إلا خطيئة أبيكم آدم لست بصاحب ذلك اذهبوا إلى ابني إبراهيم خليل الله - قال - فيقول إبراهيم لست بصاحب ذلك إنما كنت خليلا من وراء وراء اعمدوا إلى موسى صلى الله عليه وسلم الذي كلمه الله تكليما ‏.‏ فيأتون موسى صلى الله عليه وسلم فيقول لست بصاحب ذلك اذهبوا إلى عيسى كلمة الله وروحه ‏.‏ فيقول عيسى صلى الله عليه وسلم لست بصاحب ذلك ‏.‏ فيأتون محمدا صلى الله عليه وسلم فيقوم فيؤذن له وترسل الأمانة والرحم فتقومان جنبتى الصراط يمينا وشمالا فيمر أولكم كالبرق ‏"‏ ‏.‏ قال قلت بأبي أنت وأمي أى شىء كمر البرق قال ‏"‏ ألم تروا إلى البرق كيف يمر ويرجع في طرفة ين ثم كمر الريح ثم كمر الطير وشد الرجال تجري بهم أعمالهم ونبيكم قائم على الصراط يقول رب سلم سلم حتى تعجز أعمال العباد حتى يجيء الرجل فلا يستطيع السير إلا زحفا - قال - وفي حافتى الصراط كلاليب معلقة مأمورة بأخذ من أمرت به فمخدوش ناج ومكدوس في النار ‏"‏ ‏.‏ والذي نفس أبي هريرة بيده إن قعر جهنم لسبعون خريفا ‏.‏
محمد بن فضیل نے کہا : ہمیں ابو مالک اشجعی نے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، نیز ابو مالک نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، ان دونوں نے کہاکہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا تو مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور وہ آدم ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آکر عرض کریں گے : اے والد بزرگ ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے ۔ وہ جواب دیں گے : کیا جنت سے تمہیں نکالنے کا سبب تمہارے باپ آدم کی خطاکے علاوہ کوئی اور چیز بنی تھی! میں اس کام کا اہل نہیں ہوں ۔ میرے بیٹے ، اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ آپ نے فرمایا : ’’ابراہیم علیہ السلام کہیں گے : اس کام ( کو کرنے ) والا میں نہیں ہوں ، میں خلیل تھا ( مگر اولین شفاعت کے اس منصب سے ) پیچھے پیچھے ۔ تم موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کا رخ کرو ، جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آئیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : اس کام ( کو کرنے ) والا میں نہیں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌‌علیہ ‌السلام ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ عیسیٰ ‌‌علیہ ‌السلام ‌ ‌ فرمائیں گے ، میں اس کام ( کو کرنے ) والا نہیں ہوں ۔ تو لوگ محمدﷺ کے پاس آئیں گے ۔ آپ اللہ کے سامنے قیام فرمائیں گے اور آپ کو ( شفاعت کی ) اجازت دی جائے گی ۔ امانت اور قرابت داری کو بھیجا جائے گا ، وہ پل صراط کی دونوں جانب دائیں اوربائیں کھڑی ہو جائیں گی ۔ تم میں سے اولین شخص بجلی کی طرح گزر جائے گا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! بجلی گزرنے کی طرح ’’کیا ہے ؟ ‘ ‘ آپ نے فرمایا : ’’تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا ، کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے ؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح ( تیزی سے ) پھر پرندہ گزرنے اورآدمی کے دوڑنے کی طرح ، ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے اور تمہارا نبی پل صراط پر کھڑا ہوا کہہ رہا ہو گا : اے میرے رب ! بچا بچا ( میری امت کے ہر گزرنے والے کو سلامتی سے گزار دے ۔ ) حتی کہ بندوں کے اعمال ان کو لے کر گزر نہ سکیں گے یہاں تک کہ ایسا آدمی آئے گاجس میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے سے زیادہ کی استطاعت نہ ہوگی ۔ آپ نے فرمایا : ( پل ) صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے معلق ہو ں گے ، وہ اس بات پر مامور ہوں گےکہ جن لوگوں کے بارے میں حکم ہو ان کو پکڑ لیں ، اس طرح بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض آگ میں دھکیل دیے جائیں گے ۔ ‘ ‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال ( کی مسافت ) کے برابر ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:195

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 388

صحيح مسلم حدیث نمبر: 483
حدثنا قتيبة بن سعيد، وإسحاق بن إبراهيم، قال قتيبة حدثنا جرير، عن المختار بن فلفل، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أنا أول الناس يشفع في الجنة وأنا أكثر الأنبياء تبعا ‏"‏ ‏.‏
جریر نےمختار بن فلفل سے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’لوگوں میں سے سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جو جنت کے بارے میں سفارش کرے گا اور تمام انبیاء سے میرے پیروکار زیادہ ہوں گے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:196.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 389

صحيح مسلم حدیث نمبر: 484
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا معاوية بن هشام، عن سفيان، عن مختار بن فلفل، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أنا أكثر الأنبياء تبعا يوم القيامة وأنا أول من يقرع باب الجنة ‏"‏ ‏.‏
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «أَنَا أَكْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ»

صحيح مسلم حدیث نمبر:196.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 390

صحيح مسلم حدیث نمبر: 485
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن المختار بن فلفل، قال قال أنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أنا أول شفيع في الجنة لم يصدق نبي من الأنبياء ما صدقت وإن من الأنبياء نبيا ما يصدقه من أمته إلا رجل واحد ‏"‏ ‏.‏
زائدہ نےمختار بن فلفل سے روایت کی ، انہوں نے کہا : حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جنت کے بارے میں سب سے پہلا سفارش کرنے والا میں ہو ں گا ، انبیاء میں سے کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری کی گئی ۔ اور بلاشبہ انبیاء میں ایسا بھی نبی ہوگا جن کی امت ( دعوت ) میں سے ایک شخص ہی ان کی تصدیق کرتا ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:196.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 391

صحيح مسلم حدیث نمبر: 486
وحدثني عمرو الناقد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ آتي باب الجنة يوم القيامة فأستفتح فيقول الخازن من أنت فأقول محمد ‏.‏ فيقول بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك ‏"‏ ‏.‏
ثابت نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا او ردروازہ کھلواؤں گا ۔ جنت کا دربان پوچھے گا : آپ کون ہیں؟میں جواب دوں گا : محمد! وہ کہے گا : مجھے آپ ہی کےبارےمیں حکم ملا تھا ( کہ ) آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:197

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 392

صحيح مسلم حدیث نمبر: 487
حدثني يونس بن عبد الأعلى، أخبرنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني مالك بن أنس، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لكل نبي دعوة يدعوها فأريد أن أختبئ دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
مالک بن انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ابن شہاب سے خبر دی ، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے اور انہوں نے حضر ت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک ( یقینی ) دعا ہے جو وہ مانگتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:198.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 393

صحيح مسلم حدیث نمبر: 488
وحدثني زهير بن حرب، وعبد بن حميد، قال زهير حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي دعوة وأردت إن شاء الله أن أختبئ دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
(مالک بن ا نس کے بجائے ) ابن شہاب کے بھتیجے نے ابن شہاب سے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’یقیناً ہر نبی کی ایک دعا ہے ( جس کی قبولیت یقینی ہے ۔ ) میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان شاءاللہ میں اپنی اس دعا کو قیامت کے روز اپنی امت کی سفارش کرنے کے لیے محفوظ رکھوں گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:198.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 394

صحيح مسلم حدیث نمبر: 489
حدثني زهير بن حرب، وعبد بن حميد، قال زهير حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، حدثني عمرو بن أبي سفيان بن أسيد بن جارية الثقفي، مثل ذلك عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏
ابن شہاب کے بھتیجے نے ابن شہاب سے اور انہوں نے ( ابو سلمہ کے بجائے ) عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی سے اسی کے مانند حدیث حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:198.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 395

صحيح مسلم حدیث نمبر: 490
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أن عمرو بن أبي سفيان بن أسيد بن جارية الثقفي، أخبره أن أبا هريرة قال لكعب الأحبار إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لكل نبي دعوة يدعوها فأنا أريد إن شاء الله أن أختبئ دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏ فقال كعب لأبي هريرة أنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو هريرة نعم ‏.‏
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ عمرو بن ابی سفیان ثقفی نےخبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کعب احبار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا ، بلاشبہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک ( یقینی ) دعا ہے جو وہ کرتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ میں اپنی دعا قیامت کےدن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھوں ۔ ‘ ‘ اس پر کعب نےحضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : آپ نے یہ فرمان ( براہ راست ) رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا؟ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےجواب دیا : ہاں

صحيح مسلم حدیث نمبر:198.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 396

صحيح مسلم حدیث نمبر: 491
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب - واللفظ لأبي كريب - قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي دعوة مستجابة فتعجل كل نبي دعوته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة فهي نائلة إن شاء الله من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا ‏"‏ ‏.‏
ابو صالح نےحضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جو ( یقینی طور پر ) قبول کی جانے والی ہے ۔ ہر نبی نےاپنی وہ دعا جلدی مانگ لی ) جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ کر لی ہے ، چنانچہ یہ دعا ان شاء اللہ میری امت کے ہر اس فرد کو پہنچے گی جو ا للہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرتے ہوئے فوت ہوا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:199.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 397

صحيح مسلم حدیث نمبر: 492
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن عمارة، - وهو ابن القعقاع - عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي دعوة مستجابة يدعو بها فيستجاب له فيؤتاها وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
ابو زرعہ ے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہر نبی کے لیے ایک قبول کی جانے والی دعا ہے ، وہ اسےمانگتا ہے تو ( ضرور ) قبول کی جاتی ہے اور وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے ۔ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے چھپا ( بچا ) کر رکھی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:199.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 398

صحيح مسلم حدیث نمبر: 493
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن محمد، - وهو ابن زياد - قال سمعت أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي دعوة دعا بها في أمته فاستجيب له وإني أريد إن شاء الله أن أؤخر دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
محمد بن زیاد نے کہا : میں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : ’’ہر نبی کی ایک دعا ہے جو اس نے اپنی امت کے بارے میں مانگی اور وہ اس کے لیے قبول ہوئی ۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ میں اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے مؤخر کر دوں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:199.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 399

صحيح مسلم حدیث نمبر: 494
حدثني أبو غسان المسمعي، ومحمد بن المثنى، وابن، بشار حدثانا - واللفظ، لأبي غسان - قالوا حدثنا معاذ، - يعنون ابن هشام - قال حدثني أبي، عن قتادة، حدثنا أنس بن مالك، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ لكل نبي دعوة دعاها لأمته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
ہشام نے قتادہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہمیں انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ہر نبی کی ایک ( یقینی مقبول ) دعا ہے جو اس نے اپنی امت کے لیے کی جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے روز اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ کر لی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:200.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 400

صحيح مسلم حدیث نمبر: 495
وحدثنيه زهير بن حرب، وابن أبي خلف، قالا حدثنا روح، حدثنا شعبة، عن قتادة، بهذا الإسناد ح
مذکورہ بالا روایت ( ہشام کے بجائے ) شعبہ نے قتادہ سےباقی ماندہ اسی سند کے ساتھ بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:200.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 401

صحيح مسلم حدیث نمبر: 496
وحدثنا أبو كريب، حدثنا وكيع، ح وحدثنيه إبراهيم بن سعيد الجوهري، حدثنا أبو أسامة، جميعا عن مسعر، عن قتادة، بهذا الإسناد غير أن في، حديث وكيع قال قال ‏ "‏ أعطي ‏"‏ ‏.‏ وفي حديث أبي أسامة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏.‏
وکیع اور ابو اسامہ نےمسعر سے حدیث سنائی ، انہوں نےقتادہ سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی ، اتنا فرق ہے کہ وکیع کی روایت کے الفاظ ہیں : ’’ آپ نے فرمایا : ( ہر نبی کو ایک دعا ) ’’عطا کی گئی ہے ‘ ‘ اور ابو اسامہ کی روایت کے الفاظ ہیں : ’’نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:200.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 402

صحيح مسلم حدیث نمبر: 497
وحدثني محمد بن عبد الأعلى، حدثنا المعتمر، عن أبيه، عن أنس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحو حديث قتادة عن أنس ‏.‏
معتمر کے والد سلیمان بن طرخان نےحضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا......... آگے کی حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی روایت کی طرح ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:200.04

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 403

صحيح مسلم حدیث نمبر: 498
وحدثني محمد بن أحمد بن أبي خلف، حدثنا روح، حدثنا ابن جريج، قال أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لكل نبي دعوة قد دعا بها في أمته وخبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ‏"‏ ‏.‏
حضرت جابر نے عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ’’ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے جو وہ اپنی امت کے بارے میں کر چکا جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کےلیے محفوظ کر رکھی ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:201

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 404

صحيح مسلم حدیث نمبر: 499
حدثني يونس بن عبد الأعلى الصدفي، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، أن بكر بن سوادة، حدثه عن عبد الرحمن بن جبير، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن النبي صلى الله عليه وسلم تلا قول الله عز وجل في إبراهيم ‏{‏ رب إنهن أضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فإنه مني‏}‏ الآية ‏.‏ وقال عيسى عليه السلام ‏{‏ إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم‏}‏ فرفع يديه وقال ‏"‏ اللهم أمتي أمتي ‏"‏ ‏.‏ وبكى فقال الله عز وجل يا جبريل اذهب إلى محمد وربك أعلم فسله ما يبكيك فأتاه جبريل - عليه الصلاة والسلام - فسأله فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قال ‏.‏ وهو أعلم ‏.‏ فقال الله يا جبريل اذهب إلى محمد فقل إنا سنرضيك في أمتك ولا نسوءك ‏.‏
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کہ نبیﷺ نےابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : ’’پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے ( ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا ان میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے ۔ ‘ ‘ اور عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے قول ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف فرما دے تو بلاشبہ توہی غالب حکمت والا ہے ‘ ‘ کی تلاوت فرمائی اور اپنے ہاتھ اٹھ کر فرمایا : ’’ اے اللہ ! میری امت ، میری امت ‘ ‘ اور ( بے اختیار ) روپڑے ۔ اللہ تعالیٰ نےحکم دیا : اے جبرئیل !محمدﷺ کے پاس جاؤ ، جبکہ تمہارا رب زیادہ جاننےوالا ہے ، ان سے پوچھو کہ آپ کو کیا بات رلا رہی ہے ؟ جبریل ‌علیہ ‌السلام ‌ آپ کےپاس آئے اور ( وجہ ) پوچھی تو رسو ل ا للہﷺ نے جو بات کہی تھی ان کو بتائی ، جبکہ وہ ( اللہ اس بات سے ) زیادہ اچھی طرح آگاہ ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبریل! محمدﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کریں گے اور ہم آپ کو تکلیف نہ ہونے دیں گے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:202

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 405

صحيح مسلم حدیث نمبر: 500
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس، أن رجلا، قال يا رسول الله أين أبي قال ‏"‏ في النار ‏"‏ ‏.‏ فلما قفى دعاه فقال ‏"‏ إن أبي وأباك في النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ آگ میں ۔ ‘ ‘ پھر جب وہ پلٹ گیا توآپ نے اسے بلا کر فرمایا : ’’ بلاشبہ میراباپ اور تمہارا باپ آگ میں ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:203

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 406

صحيح مسلم حدیث نمبر: 501
حدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب، قالا حدثنا جرير، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن أبي هريرة، قال لما أنزلت هذه الآية ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فاجتمعوا فعم وخص فقال ‏"‏ يا بني كعب بن لؤى أنقذوا أنفسكم من النار يا بني مرة بن كعب أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد شمس أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد مناف أنقذوا أنفسكم من النار يا بني هاشم أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد المطلب أنقذوا أنفسكم من النار يا فاطمة أنقذي نفسك من النار فإني لا أملك لكم من الله شيئا غير أن لكم رحما سأبلها ببلالها ‏"‏ ‏.‏
جریر نےعبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی ، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری : ’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈائیے ‘ ‘ تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو بلایا ۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے عمومی حیثیت سے ( سب کو ) اور خاص کر کے ( الگ خاندانوں اور لوگوں کے ان کے نام لے لے کر ) فرمایا : ’’اے کعب بن لؤی کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو ، اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو ، اے عبدمناف کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو ، اے بنو ہاشم کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو ، اے عبد المطلب کی اولاد! اپنےآپ کو آگ سے بچالو ، اے فاطمہ ( ینت رسول اللہﷺ ) ! اپنے آپ کو آگ سے بچالو ، میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ( کسی مؤاخذے کی صورت میں ) تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، تم لوگوں کے ساتھ رشتہ ہے ، اسے میں اسی طرح جوڑتا رہوں گا جس طرح جوڑنا چاہیے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:204.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 407

صحيح مسلم حدیث نمبر: 502
وحدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، حدثنا أبو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، بهذا الإسناد وحديث جرير أتم وأشبع ‏.‏
عبدالملک سے ( جریر کے علاوہ ) ابوعوانہ نے بھی یہ حدیث اسی سند کے ساتھ بیان کی ۔ لیکن جریر کی روایت زیادہ مکمل اور سیر حاصل ہے ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:204.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 408

صحيح مسلم حدیث نمبر: 503
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا وكيع، ويونس بن بكير، قالا حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت لما نزلت ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏ قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصفا فقال ‏"‏ يا فاطمة بنت محمد يا صفية بنت عبد المطلب يا بني عبد المطلب لا أملك لكم من الله شيئا سلوني من مالي ما شئتم ‏"‏ ‏.‏
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ جب آیت : ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘ ‘ نازل ہوئی تو رسو ل ا للہﷺ نے صفا پہاڑ پر کھڑے ہو کر فرمایا : ’’ اے محمد ( ﷺ ) کی بیٹی فاطمہ ! اے عبد المطلب کی بیٹی صفیہ ! اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ۔ ( ہاں! ) میرے مال میں سے جوچاہو مجھ سے مانگ لو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:205

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 409

صحيح مسلم حدیث نمبر: 504
وحدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني ابن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزل عليه ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏ ‏"‏ يا معشر قريش اشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد المطلب لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت رسول الله سليني بما شئت لا أغني عنك من الله شيئا ‏"‏ ‏.‏
ابن مسیب اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہاکہ جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت اتاری گئی : ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں ‘ ‘ تو آپ نے فرمایا : ’’ اے قریش کےلوگو!اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو ، میں اللہ تعالیٰ کے ( فیصلے کے ) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا ، اے عبد المطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے ( فیصلے کے ) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا ، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں اللہ کے ( فیصلے کے ) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا ، اے اللہ کےرسول کے بیٹی فاطمہ ! مجھ سے ( میرے مال میں سے ) جو چاہو مانگ لو ، میں اللہ کے ( فیصلےکے ) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:206.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 410

صحيح مسلم حدیث نمبر: 505
وحدثني عمرو الناقد، حدثنا معاوية بن عمرو، حدثنا زائدة، حدثنا عبد الله بن ذكوان، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا ‏.‏
ایک اور سند سے اعرج نےحضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:206.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 411

صحيح مسلم حدیث نمبر: 506
حدثنا أبو كامل الجحدري، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا التيمي، عن أبي عثمان، عن قبيصة بن المخارق، وزهير بن عمرو، قالا لما نزلت ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏ قال انطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم إلى رضمة من جبل فعلا أعلاها حجرا ثم نادى ‏"‏ يا بني عبد منافاه إني نذير إنما مثلي ومثلكم كمثل رجل رأى العدو فانطلق يربأ أهله فخشي أن يسبقوه فجعل يهتف يا صباحاه ‏"‏ ‏.‏
یزید بن زریع نے ( سلیمان ) تیمی سے ، انہوں نے ابو عثمان کے واسطے سے حضرت قبیصہ بن مخارق اور حضرت زہیر بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی ، دونوں نےکہا کہ جب آیت : ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘ ‘ اتری ، کہا : تو اللہ کے نبی ﷺ ایک پہاڑی چٹان کی طرف تشریف لے گئے اور اس کے سب سے اونچے پتھروں والے حصے پر چڑھے ، پھر آواز دی : ’’ اے عبد مناف کی اولاد! میں ڈرانے والا ہوں ، میری اور تمہاری مثال اس آدمی کی ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ خاندان کو بچانے کے لیے چل پڑا اور اسے خطرہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے تووہ بلند آواز سے پکارنے لگاؤ : وائے اس کی صبح ( کی تباہی! ) ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:207.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 412

صحيح مسلم حدیث نمبر: 507
وحدثنا محمد بن عبد الأعلى، حدثنا المعتمر، عن أبيه، حدثنا أبو عثمان، عن زهير بن عمرو، وقبيصة بن مخارق، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه ‏.‏
(یزید بن زریع کے بجائے ) معتمر نے اپنے والد ( سلیمان ) کے حوالے سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:207.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 413

صحيح مسلم حدیث نمبر: 508
وحدثنا أبو كريب، محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال لما نزلت هذه الآية ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏ ورهطك منهم المخلصين ‏.‏ خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى صعد الصفا فهتف ‏"‏ يا صباحاه ‏"‏ ‏.‏ فقالوا من هذا الذي يهتف قالوا محمد ‏.‏ فاجتمعوا إليه فقال ‏"‏ يا بني فلان يا بني فلان يا بني فلان يا بني عبد مناف يا بني عبد المطلب ‏"‏ فاجتمعوا إليه فقال ‏"‏ أرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا تخرج بسفح هذا الجبل أكنتم مصدقي ‏"‏ ‏.‏ قالوا ما جربنا عليك كذبا ‏.‏ قال ‏"‏ فإني نذير لكم بين يدى عذاب شديد ‏"‏ ‏.‏ قال فقال أبو لهب تبا لك أما جمعتنا إلا لهذا ثم قام فنزلت هذه السورة تبت يدا أبي لهب وقد تب ‏.‏ كذا قرأ الأعمش إلى آخر السورة ‏.‏
ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری : ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘ ‘ ( خاص کر ) اپنے خاندان کے مخلص لوگوں کو ۔ تو رسول اللہ ﷺ ( گھر سے ) نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور پکار کر کہا : ’’وائے اس کی صبح ( کی تباہی ) ِِ ( سب ایک دوسرے سے ) پوچھنے لگے : یہ کون پکا رہا ہے ؟ ( کچھ ) لوگوں نے کہا : محمدﷺ ، چنانچہ سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد ! اے عبدمناف کی اولاد! اے عبد المطلب کی اولاد! ‘ ‘ یہ لوگ آپ کےقریب جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا : ’’تمہارا کیا خیال ہے ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا : ہمیں آپ سے کبھی جھوٹی بات ( سننے ) کا تجربہ نہیں ہوا ۔ آپ نے فرمایا : ’’تو میں تمہیں آنےوالے شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں ۔ ‘ ‘ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : تو ابولہب کہنے لگا : تمہارے لیے تباہی ہو ، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لیے جمع کیا تھا؟ پھر وہ اٹھ گیا ۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی : ’’ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے اور وہ خود ہلاک ہوا ۔ ‘ ‘ اعمش نے اسی طرح سورت کے آخر تک پڑھا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:208.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 414

صحيح مسلم حدیث نمبر: 509
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، بهذا الإسناد قال صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم الصفا فقال ‏"‏ يا صباحاه ‏"‏ ‏.‏ بنحو حديث أبي أسامة ولم يذكر نزول الآية ‏{‏ وأنذر عشيرتك الأقربين‏}‏
اعمش شے ( ابو اسامہ کے بجائے ) ابو معاویہ نے اسی ( سابقہ ) سند کے ساتھ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن کوہ صفا پر چڑھے اور فرمایا : ’’ وائے اس کی صبح ( کی تباہی! ) ‘ ‘ اس کے بعد ابو اسامہ کی بیان کر دہ حدیث کی طرح روایت کی اورآیت : ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ اترنے کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:208.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 415

صحيح مسلم حدیث نمبر: 510
وحدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، ومحمد بن أبي بكر المقدمي، ومحمد بن عبد الملك الأموي، قالوا حدثنا أبو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن العباس بن عبد المطلب، أنه قال يا رسول الله هل نفعت أبا طالب بشىء فإنه كان يحوطك ويغضب لك قال ‏ "‏ نعم هو في ضحضاح من نار ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار ‏"‏ ‏.‏
ابو عوانہ نے عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے اور انہوں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کہ انہوں نے کہا : اے اللہ کےرسول! کیا آپ نے ابو طالب کو کچھ نفع پہنچایا؟ وہ ہر طرف سے آپ کا دفاع کرتے تھے اور آپ کی خاطر غضب ناک ہوتے تھے ۔ آپ نےجواب دیا : ’’ہاں ، وہ کم گہری آگ میں ہیں ( جو ٹخنوں تک آتی ہے ) اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:209.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 416

صحيح مسلم حدیث نمبر: 511
حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الله بن الحارث، قال سمعت العباس، يقول قلت يا رسول الله إن أبا طالب كان يحوطك وينصرك فهل نفعه ذلك قال ‏ "‏ نعم وجدته في غمرات من النار فأخرجته إلى ضحضاح ‏"‏ ‏.‏
سفیان ( بن عیینہ ) نے عبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی ، انہوں نے عبد اللہ بن حارث سے روایت کی ، کہا : میں نے حضرت عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، کہہ رہے تھے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ابو طالب ہر طرف سے آپ کی حفاظت کرتے تھے ، آپ کی مدد کرتے تھے اور آپ کی خاطر ( مخالفین پر ) غصہ کرتے تھے توکیا اس سے ان کو کچھ نفع ہوا؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں ، میں نے ان کو آگ کی اتھاہ گہرائیوں میں پایا تو ان کم گہری آگ تک نکال لایا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:209.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 417

صحيح مسلم حدیث نمبر: 512
وحدثنيه محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، قال حدثني عبد الملك بن عمير، قال حدثني عبد الله بن الحارث، قال أخبرني العباس بن عبد المطلب، ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، بهذا الإسناد عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديث أبي عوانة ‏.‏
سفیان ( ثوری ) نے اسی سند کے ساتھ نبیﷺ سے اسی طرح حدیث بیان کی ابو عوانہ نے بیان کی ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:209.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 418

صحيح مسلم حدیث نمبر: 513
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن الهاد، عن عبد الله بن خباب، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر عنده عمه أبو طالب فقال ‏ "‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة فيجعل في ضحضاح من نار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کےسامنے آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ’’امید ہے قیامت کے دن میری سفارش ان کو نفع دے گی اور انہیں اتھلی ( کم گہری ) آ گ میں ڈالا جائے گا جو ( بمشکل ) ان کے ٹخنوں تک پہنچتی ہو گی ، اس سے ( بھی ) ان کا دماغ کھولے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:210

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 419

صحيح مسلم حدیث نمبر: 514
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن أبي بكير، حدثنا زهير بن محمد، عن سهيل بن أبي صالح، عن النعمان بن أبي عياش، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ إن أدنى أهل النار عذابا ينتعل بنعلين من نار يغلي دماغه من حرارة نعليه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو سعیدخدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اہل جہنم میں سے سب سے کم عذاب میں وہ ہو گا جو آگ کی دو جوتیاں پہنے ہوگا ، اس کی جوتیوں کی گرمی سے اس کا دماغ کھولے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:211

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 420

صحيح مسلم حدیث نمبر: 515
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن أبي عثمان النهدي، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ أهون أهل النار عذابا أبو طالب وهو منتعل بنعلين يغلي منهما دماغه ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا ، انہوں نے دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جن سے ان کا دماغ کھولے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:212

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 421

صحيح مسلم حدیث نمبر: 516
وحدثنا محمد بن المثنى، وابن، بشار - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت أبا إسحاق، يقول سمعت النعمان بن بشير، يخطب وهو يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ "‏ إن أهون أهل النار عذابا يوم القيامة لرجل توضع في أخمص قدميه جمرتان يغلي منهما دماغه ‏"‏ ‏.‏
شعبہ نے ابو اسحاق سے سن کر حدیث بیان کی ، انہوں نےکہا : میں نے حضرت نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو خطاب کرتے ہوئے سنا ، کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےسنا : آپ نے فرمایا : ’’قیامت کےدن دوزخیوں میں سے سب کم عذاب اس آدمی کو ہو گا جس کے تلووں کےنیچے آگ کے دو انگارے رکھے جائیں گے ، ان سے اس کا دماغ کھولے گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:213.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 422

صحيح مسلم حدیث نمبر: 517
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش، عن أبي إسحاق، عن النعمان بن بشير، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إن أهون أهل النار عذابا من له نعلان وشراكان من نار يغلي منهما دماغه كما يغلي المرجل ما يرى أن أحدا أشد منه عذابا وإنه لأهونهم عذابا ‏"‏ ‏.‏
(شعبہ کے بجائے ) اعمش نے ابو اسحاق سے ، انہو ں نے حضرت نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دوزخیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہو گا جس کےدونوں جوتے اور دونوں تسمے آگے کے ہوں گے ، ان سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے ، وہ نہیں سمجھے گا کہ کوئی بھی اس سے زیادہ عذاب میں ہے ، حالانکہ حقیقت میں وہ ان سب میں سے ہلکے عذاب میں ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:213.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 423

صحيح مسلم حدیث نمبر: 518
حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن داود، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت قلت يا رسول الله ابن جدعان كان في الجاهلية يصل الرحم ويطعم المسكين فهل ذاك نافعه قال ‏ "‏ لا ينفعه إنه لم يقل يوما رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين ‏"‏ ‏.‏
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کےرسول! ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا : ’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ( کیونکہ ) اس نے کسی ایک دن ( بھی ) یہ نہیں کہا تھا : میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:214

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 424

صحيح مسلم حدیث نمبر: 519
حدثني أحمد بن حنبل، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس، عن عمرو بن العاص، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم جهارا غير سر يقول ‏ "‏ ألا إن آل أبي - يعني فلانا - ليسوا لي بأولياء إنما وليي الله وصالح المؤمنين ‏"‏ ‏.‏
حضرت عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے برسرعام یہ کہتے ہوئے سنا : ’’ یقیناآل ابی ، یعنی فلاں میرے ولی نہیں ، میرا ولی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے اور نیک مومن ہیں

صحيح مسلم حدیث نمبر:215

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 425

صحيح مسلم حدیث نمبر: 520
حدثنا عبد الرحمن بن سلام بن عبيد الله الجمحي، حدثنا الربيع، - يعني ابن مسلم - عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يدخل من أمتي الجنة سبعون ألفا بغير حساب ‏"‏ ‏.‏ فقال رجل يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ قال ‏"‏ اللهم اجعله منهم ‏"‏ ‏.‏ ثم قام آخر فقال يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ قال ‏"‏ سبقك بها عكاشة ‏"‏ ‏.‏
ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد کے واسطے سے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’میری امت میں سے ستر ہزار ( افراد ) بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ‘ ‘ ایک آدمی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ، آپ نے دعا فرمائی : ’’اے اللہ ! اسے ان میں شامل کر ۔ ‘ ‘ پھر ایک اور کھڑا ہو گیا اور کہا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے وہ مجھے بھی ان شامل کر دے ۔ آپ نے جواب : ’’عکاشہ اس معاملے میں تم سے سبقت لے گئے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:216.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 426

صحيح مسلم حدیث نمبر: 521
وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال سمعت محمد بن زياد، قال سمعت أبا هريرة، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏.‏ بمثل حديث الربيع ‏.‏
ششعبہ نے کہا : میں نے محمد بن زیاد سے حدیث سنی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنی ، انہوں نےکہا : میں نےحضرت ابو ہریرہ سے سنی ، انہوں نےکہا : میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے...... ( آگے ) ربیع کی حدیث کی طرح ( ہے ۔)

صحيح مسلم حدیث نمبر:216.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 427

صحيح مسلم حدیث نمبر: 522
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة، حدثه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ يدخل من أمتي زمرة هم سبعون ألفا تضيء وجوههم إضاءة القمر ليلة البدر ‏"‏ ‏.‏ قال أبو هريرة فقام عكاشة بن محصن الأسدي يرفع نمرة عليه فقال يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم اجعله منهم ‏"‏ ثم قام رجل من الأنصار فقال يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سبقك بها عكاشة ‏"‏ ‏.‏
سعید بن مسیب نے حدیث سنائی کہ انہیں ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا : ’’میری امت کا ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا ، وہ ستر ہزار افراد ہوں گے ، ان کے چہرے اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح چودھویں رات کو ماہ کامل چمکتا ہے ۔ ‘ ‘ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ( اس پر ) عکاشہ بن محصن اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اپنی سرخ ، سفید اور سیاہ دھاریوں والی چادر بلند کرتے ہوئے اٹھے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ ! اسے ان میں سے کردے ۔ ‘ ‘ پھر انصاری کھڑا ہو ا اور کہا : اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:216.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 428

صحيح مسلم حدیث نمبر: 523
وحدثني حرملة بن يحيى، حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني حيوة، قال حدثني أبو يونس، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا زمرة واحدة منهم على صورة القمر ‏"‏ ‏.‏
(سعید بن مسیب کے بجائے ) ابو یونس نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میری امت سے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے ، چاند کی سی صورت میں ، ان کا ایک گروہ ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:217

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 429

صحيح مسلم حدیث نمبر: 524
حدثنا يحيى بن خلف الباهلي، حدثنا المعتمر، عن هشام بن حسان، عن محمد، - يعني ابن سيرين - قال حدثني عمران، قال قال نبي الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا بغير حساب ‏"‏ ‏.‏ قالوا ومن هم يا رسول الله قال ‏"‏ هم الذين لا يكتوون ولا يسترقون وعلى ربهم يتوكلون ‏"‏ ‏.‏ فقام عكاشة فقال ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ قال ‏"‏ أنت منهم ‏"‏ ‏.‏ قال فقام رجل فقال يا نبي الله ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ قال ‏"‏ سبقك بها عكاشة ‏"‏ ‏.‏
محمد بن سیرین نے کہا کہ حضرت عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے مجھے یہ حدیث سنائی ، انہوں نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’میری امت کے ستر ہزا اشخاص حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے ، نہ دم ہی کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘ ‘ عکاشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کھڑے ہوئے اور کہا : اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں ( شامل ) کر دے ۔ آپ نے فرمایا : ’’تم ان میں سے ہو ۔ ‘ ‘ ( عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا او رکہنے لگا : اے اللہ کے نبی ! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے ( بھی ) ان میں ( شامل ) کر دے ، آپ نے فرمایا : ’’اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:218.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 430

صحيح مسلم حدیث نمبر: 525
حدثني زهير بن حرب، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا حاجب بن عمر أبو خشينة الثقفي، حدثنا الحكم بن الأعرج، عن عمران بن حصين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا بغير حساب ‏"‏ ‏.‏ قالوا من هم يا رسول الله قال ‏"‏ هم الذين لا يسترقون ولا يتطيرون ولا يكتوون وعلى ربهم يتوكلون ‏"‏ ‏.‏
حکم بن اعرج نے حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے ستر ہزار لوگ حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام نے پوچھا : ا ے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو دم نہیں کرواتے ، شگون نہیں لیتے ، داغنے کے ذریعے سے علاج نہیں کرواتے او راپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:218.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 431

صحيح مسلم حدیث نمبر: 526
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، - يعني ابن أبي حازم - عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ ليدخلن الجنة من أمتي سبعون ألفا أو سبعمائة ألف - لا يدري أبو حازم أيهما قال - متماسكون آخذ بعضهم بعضا لا يدخل أولهم حتى يدخل آخرهم وجوههم على صورة القمر ليلة البدر ‏"‏ ‏.‏
حضرت سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میری امت میں سے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد ( ابو حازم کو شک ہے کہ سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کون سا عدد بتایا ) اس طرح جنت میں داخل ہوں گے کہ وہ یکجا ہوں گے ، ایک دوسرےکو پکڑے ہوئے ، ان میں سے پہلا فرد اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک آخری فرد ( بھی ساتھ ہی ) داخل نہ ہو گا ، اکٹھے ہی ( جنت کے وسیع دروازے سے ) اندر جائیں گے ۔ ان کے چہرے چو دھویں رات کے چاندجیسے ہوں گے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:219

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 432

صحيح مسلم حدیث نمبر: 527
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا هشيم، أخبرنا حصين بن عبد الرحمن، قال كنت عند سعيد بن جبير فقال أيكم رأى الكوكب الذي انقض البارحة قلت أنا ‏.‏ ثم قلت أما إني لم أكن في صلاة ولكني لدغت ‏.‏ قال فماذا صنعت قلت استرقيت ‏.‏ قال فما حملك على ذلك قلت حديث حدثناه الشعبي ‏.‏ فقال وما حدثكم الشعبي قلت حدثنا عن بريدة بن حصيب الأسلمي أنه قال لا رقية إلا من عين أو حمة ‏.‏ فقال قد أحسن من انتهى إلى ما سمع ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ عرضت على الأمم فرأيت النبي ومعه الرهيط والنبي ومعه الرجل والرجلان والنبي ليس معه أحد إذ رفع لي سواد عظيم فظننت أنهم أمتي فقيل لي هذا موسى صلى الله عليه وسلم وقومه ولكن انظر إلى الأفق ‏.‏ فنظرت فإذا سواد عظيم فقيل لي انظر إلى الأفق الآخر ‏.‏ فإذا سواد عظيم فقيل لي هذه أمتك ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب ‏"‏ ‏.‏ ثم نهض فدخل منزله فخاض الناس في أولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب فقال بعضهم فلعلهم الذين صحبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وقال بعضهم فلعلهم الذين ولدوا في الإسلام ولم يشركوا بالله ‏.‏ وذكروا أشياء فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ما الذي تخوضون فيه ‏"‏ ‏.‏ فأخبروه فقال ‏"‏ هم الذين لا يرقون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون ‏"‏ ‏.‏ فقام عكاشة بن محصن فقال ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ فقال ‏"‏ أنت منهم ‏"‏ ثم قام رجل آخر فقال ادع الله أن يجعلني منهم ‏.‏ فقال ‏"‏ سبقك بها عكاشة ‏"‏ ‏.‏
ہشیم نے کہا : ہمیں حصین بن عبد الرحمن نے خبر دی ، کہا کہ میں سعید بن جبیر کے پاس موجود تھا ، انہوں نے پوچھا : تم میں سے وہ ستارا کس نے دیکھا تھا جو کل رات ٹوٹا تھا ۔ میں نے کہا : میں نے ، پھر میں نے کہا کہ میں نماز میں نہیں تھا بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا ( کسی موذی جانور نے ڈس لیا تھا ۔ ) انہوں نے پوچھا : پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا : میں نے دم کروایا ۔ انہوں نےکہا : تمہیں کس چیز نےاس پر آمادہ کیا ؟ میں نے جواب دیا : اس حدیث نے جو ہمیں شعبی نے سنائی ۔ انہوں نے پوچھا : شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا : انہوں ( شعبی ) نےہمیں بریدہ بن حصیب اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت سنائی ، انہوں نے بتایا کہ نظر بد لگنے اور زہریلی چیز کےڈسنے کے علاوہ اور کسی چیز کے لیے جھاڑ پھونک نہیں ۔ تو سعید نے کہا : جس نے سنا ، اسے اختیار کیا تو اچھا کیا ۔ لیکن ہمیں عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے نبی اکرم ﷺ سے حدیث سنائی کہ آپ نے فرمایا : ’’میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں ، میں نے ایک نبی کو دیکھا ، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا ( دس سے کم کا ) گروہ تھا ، کسی ( اور ) نبی کو دیکھا کہ اس کےساتھ ایک یا دو امتی تھے ، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا ، اچانک ایک بڑی جماعت میرے سامنے لائی گئی ، مجھے گمان ہوا کہ یہ میرے امتی ہیں ، اس پر مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ اور ان کی قوم ہے لیکن آپ افق کی طرف دیکھیں ، میں نے دیکھا تو ( وہاں بھی ) ایک بہت بڑی جماعت تھی ، مجھے بتایا گیا : یہ آپ کی امت ہے ۔ اور ان کےساتھ ایسے ستر ہزار ( لوگ ) ہیں جو کسی حساب کتاب اور کسی عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ ‘ ‘ پھر آپ اٹھے اور ا پنے گھر کے اندر چلے گئے ، وہ ( صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو میں مصروف ہو گئے ، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ان میں سے بعض نے کہا : شاید وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہے ۔ بعض نے کہا : شاید یہ لوگ وہ ہوں گے جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور ( ایک لمحہ بھی ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا اور انہوں نے بعض دوسری باتوں کا بھی تذکرہ کیا پھر ( کچھ دیربعد ) رسول اللہ ﷺ ( گھر سے ) نکل کر ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا : ’’ تو کن باتوں میں لگے ہوئے ہو ؟ ‘ ‘ انہوں نے آپ کو وہ باتیں بتائیں ، اس پر آپ نے فرمایا : ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں ، نہ دم کرواتے ہیں ، نہ شگون لیتے ہیں اور وہ اپنے رب پر پوراتوکل کرتے ہیں ۔ ‘ ‘ اس پر عکاشہ بن محصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کھڑے ہوئےاور عرض کی : اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں ( شامل ) کر دے تو آپ نے فرمایا : ’’ تو ان میں سے ہے ۔ ‘ ‘ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : دعا فرمائیے ! اللہ مجھے ( بھی ) ان میں سے کردے تو آپ نے فرمایا : ’’عکاشہ اس ( فرمائش ) کے ذریعے سے تم سے سبقت لے گئے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:220.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 433

صحيح مسلم حدیث نمبر: 528
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا محمد بن فضيل، عن حصين، عن سعيد بن جبير، حدثنا ابن عباس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ عرضت على الأمم ‏"‏ ‏.‏ ثم ذكر باقي الحديث نحو حديث هشيم ولم يذكر أول حديثه ‏.‏
حصین بن عبد الرحمن سے ( ہشیم کے بجائے ) محمد بن فضیل نے سعید بن جبیر کے حوالے سے حدیث سنائی ، انہوں نےکہا : ہمیں حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میرےسامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ..... ‘ ‘ پھر حدیث کا باقی حصہ ہشیم کی طرح بیان کیا اور ابتدائی حصے ( حصین کےواقعے ) کا ذکر نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:220.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 434

صحيح مسلم حدیث نمبر: 529
حدثنا هناد بن السري، حدثنا أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما ترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة ‏"‏ قال فكبرنا ‏.‏ ثم قال ‏"‏ أما ترضون أن تكونوا ثلث أهل الجنة ‏"‏ قال فكبرنا ‏.‏ ثم قال ‏"‏ إني لأرجو أن تكونوا شطر أهل الجنة وسأخبركم عن ذلك ما المسلمون في الكفار إلا كشعرة بيضاء في ثور أسود أو كشعرة سوداء في ثور أبيض ‏"‏ ‏.‏
ابو احوص نے ابو اسحاق سے حدیث سنائی ، انہوں نےعمرو بن میمون سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نےہم سے فرمایا : ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو ؟ ‘ ‘ ہم نے ( خوشی ) اللہ اکبر کہا ، پھر آپ نے فرمایا : ’’ کیا تم اس پر راضی نہ ہوگے کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو ؟ ‘ ‘ کہا کہ ہم نے ( دوبارہ ) نعرہ تکبیر بلند کیا ، پھر آپ نے فرمایا : ’’میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کانصف ہو گے اور ( یہ کیسے ہو گا؟ ) میں اس کے بارے میں ابھی بتاؤں گا ۔ کافروں ( کے مقابلے ) میں مسلمان اس سے زیادہ نہیں جتنے سیاہ رنگ کے بیل میں ایک سفید بال یا سفید رنگ کے بیل میں ایک

صحيح مسلم حدیث نمبر:221.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 435

صحيح مسلم حدیث نمبر: 530
حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، - واللفظ لابن المثنى - قالا حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة نحوا من أربعين رجلا فقال ‏"‏ أترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة قال قلنا نعم ‏.‏ فقال ‏"‏ أترضون أن تكونوا ثلث أهل الجنة ‏"‏ فقلنا نعم ‏.‏ فقال ‏"‏ والذي نفسي بيده إني لأرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة وذاك أن الجنة لا يدخلها إلا نفس مسلمة وما أنتم في أهل الشرك إلا كالشعرة البيضاء في جلد الثور الأسود أو كالشعرة السوداء في جلد الثور الأحمر ‏"‏ ‏.‏
ابو اسحاق سے ( ابو احوص کے بجائے ) شعبہ نے حدیث سنائی ، انہو ں نے عمرو بن میمون سے ا ور انہوں نے حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ ہم تقریباً چالیس افراد ایک خیمے میں رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ نے فرمایا : ’’ کیا تم اس بات پر راضی ہو گے کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو؟ ‘ ‘ ہم نےکہا : ہاں ۔ تو آپ نے فرمایا : ’’کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو ؟ ‘ ‘ ہم نےکہا : ہاں ۔ تو آپ نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت میں سے آدھے ہو گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں اس انسان کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا جس نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا ۔ اور مشرکوں میں تمہاری تعداد ایسی ہی ہے جیسے سیاہ بیل کی جلد پر ایک سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پر ایک سیاہ بال ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:221.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 436

صحيح مسلم حدیث نمبر: 531
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا مالك، - وهو ابن مغول - عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسند ظهره إلى قبة أدم فقال ‏"‏ ألا لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة اللهم هل بلغت اللهم اشهد ‏.‏ أتحبون أنكم ربع أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏ فقلنا نعم يا رسول الله ‏.‏ فقال ‏"‏ أتحبون أن تكونوا ثلث أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏ قالوا نعم يا رسول الله ‏.‏ قال ‏"‏ إني لأرجو أن تكونوا شطر أهل الجنة ما أنتم في سواكم من الأمم إلا كالشعرة السوداء في الثور الأبيض أو كالشعرة البيضاء في الثور الأسود ‏"‏ ‏.‏
مالک بن مغول نے ابو اسحاق کےواسطے سے عمرو بن میمون سے حدیث سنائی انہوں نے حضرت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب کیا آپ نے چمڑے کے ایک خیمے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور فرمایا : ’’یاد رکھو ! جنت میں اسلام لانے والی روح کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا ۔ اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ ! تو گواہ رہنا ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو ؟ ‘ ‘ ہم نےکہا : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول !آپ نے فرمایا : ’’کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو ؟ ‘ ‘ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے ، دوسری امتوں میں تم ( اس سے زیادہ ) نہیں ہو مگر ( ایسے ) جس طرح ایک سیاہ بال جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا ایک سفید بال جو سیاہ بیل پر ہو ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:221.03

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 437

صحيح مسلم حدیث نمبر: 532
حدثنا عثمان بن أبي شيبة العبسي، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يقول الله عز وجل يا آدم فيقول لبيك وسعديك والخير في يديك - قال - يقول أخرج بعث النار ‏.‏ قال وما بعث النار قال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين ‏.‏ قال فذاك حين يشيب الصغير وتضع كل ذات حمل حملها وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد ‏"‏ ‏.‏ قال فاشتد ذلك عليهم ‏.‏ قالوا يا رسول الله أينا ذلك الرجل فقال ‏"‏ أبشروا فإن من يأجوج ومأجوج ألفا ومنكم رجل ‏"‏ ‏.‏ قال ثم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده إني لأطمع أن تكونوا ربع أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏ فحمدنا الله وكبرنا ثم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده إني لأطمع أن تكونوا ثلث أهل الجنة ‏"‏ ‏.‏ فحمدنا الله وكبرنا ثم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده إني لأطمع أن تكونوا شطر أهل الجنة إن مثلكم في الأمم كمثل الشعرة البيضاء في جلد الثور الأسود أو كالرقمة في ذراع الحمار ‏"‏ ‏.‏
جریر نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ عز وجل فرمائے گا : اے آدم ! وہ کہیں گے : میں حاضر ہوں ( میرے رب! ) قسمت کی خوبی ( تیری عطا ہے ) اور ساری خیر تیرے ہاتھ میں ہے ! کہا : اللہ فرمائے گا : دوزخیوں کی جماعت کو الگ کر دو ۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے : دوزخیوں کی جماعت ( تعداد میں ) کیا ہے ؟ اللہ فرمائے گا : ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے ۔ یہ وقت ہو گا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے ۔ ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش کی طرح دیکھو گے ، حالانکہ وہ ( نشےمیں ) مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہو گا ۔ ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا کہ یہ بات ان ( صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) پر حد درجہ گراں گزری ۔ انہوں نے پوچھا ‎ : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے وہ ( ایک ) آدمی کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ ، ہزار یا جوج ماجوج میں سے ہیں اور ایک تم میں سے ہے ، ( ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : پھر آپ نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا چوتھائی ( حصہ ) ہو گے ۔ ‘ ‘ ہم نےاللہ تعالیٰ کی حمد کی او رتکبیر کہی ( اللہ اکبرکہا ۔ ) ، پھر آپ نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا تہائی ( حصہ ) ہو گے ۔ ‘ ‘ ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی ، پھر فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گے ۔ ( دوسری ) امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال اس سفید بال کی سی ہے جو سیاہ بیل کی جلدپر ہوتا ہے یا اس چھوٹے سے نشان کی سی ہے جو گدھے کے اگلے پاؤں پر ہوتا ہے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم حدیث نمبر:222.01

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 438

صحيح مسلم حدیث نمبر: 533
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، ح وحدثنا أبو كريب، حدثنا أبو معاوية، كلاهما عن الأعمش، بهذا الإسناد غير أنهما قالا ‏"‏ ما أنتم يومئذ في الناس إلا كالشعرة البيضاء في الثور الأسود أو كالشعرة السوداء في الثور الأبيض ‏"‏ ‏.‏ ولم يذكرا ‏"‏ أو كالرقمة في ذراع الحمار ‏"‏ ‏.‏
(جریر کے بجائے ) اعمش کے دو شاگردوں وکیع اور ابو معاویہ نےاسی سند کے ساتھ روایت کی ، لیکن دونوں کے الفاظ ہیں : ’’اس دن لوگوں میں تم ( اسےسے زیادہ ) نہیں ہو گے مگر ( ایسے ) جس طرح ایک سفید بال جو سیاہ بیل پر ہوتا ہے یا سیاہ بال جو سفید بیل پر ہوتا ہے ۔ ‘ ‘ ان دونوں نے گدھے کے اگلے پاؤں کے نشان کا تذکرہ نہیں کیا ۔

صحيح مسلم حدیث نمبر:222.02

صحيح مسلم باب:1 حدیث نمبر : 439

Share this: