احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

صحيح مسلم
00: مقدمة
مقدمہ
صحيح مسلم حدیث نمبر: 0
صحیح مسلم اردو ترجمہ کتا ب الایمان شروع سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، ہمیشہ مہربانی کرنے والے اللہ کے نام سے ۔ تمام تر حمد وثنا سارے جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے اور بہترین جزا تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے ۔ اللہ خاتم النبیین محمدﷺ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور تمام نبیوں اور رسولوں پر بھی ۔ اس کے بع اللہ آپ رحم فرمائے! بلاشبہ آپ نے اپنے پیدا کرنے والے کی توفیق سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ دین کے طریقوں اور احکام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے ( امت تک ) پہنچنے والی تمام احادیث کو ان کی منقولہ اسناد سمیت جاننا چاہتے ہیں اور ان احادیث کو بھی جو ثواب اور عذاب ، رغبت دلانے اور ڈرانے اور ان جیسی دوسری چیزوں کے بارے میں ہیں اور اہل علم نے ایک دوسرے سے لیں اور پہنچائیں ۔ اللہ آپ کی رہنمائی فرمائے ! آپ چاہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث شمار کر کے مجموعے کی شکل میں آپ کی دسترس میں لائی جائیں ۔ آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں ان احادیث کو زیادہ تکرار کے بغیر آپ کے لیے ایک تالیف کی شکل میں ملخص کر دوں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ( تکرار ) ان احادیث کو اچھی طرح سمجھنے اور ان سے استنباط کرنے میں آپ کے لیے رکاوٹ کا باعث بنے گا جو کہ آپ کا ( اصل ) مقصد ہے ( اللہ آپ کو عزت دے! ) آپ نے جس چیز کا ( مجھ سے ) مطالبہ کیا ہے ، جب میں نے اس کے اور اس سے حاصل ہونے والے ثمرات کے بارے میں غوروفکر کی طرف رجوع کیا تو ( مجھے یقین ہو گیا کہ ) ان شاء اللہ اس کے نتائج قابل تعریف اور فوائد یقینی ہوں گے ۔ اور جب آپ نے مجھ سے اس کام کی زحمت اٹھانے کا مطالبہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر مجھے اس کی توفیق ملی اور اللہ کی طرف سے اس کے مکمل ہونے کا فیصلہ ہوا تو پہلا شخص ، جسے دوسرے لوگوں سے قبل اس سے خاص طور پر فائدہ ہو گا ، وہ میں خود ہوں گا ۔ اس کی وجوہات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا ، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان خصوصیات کی حامل کم احادیث کو محفوظ رکھنا اور ان میں اچھی طرح مہارت حاصل کرنا انسان کے لیے کثیر احادیث کو سنبھالنے کی نسبت زیادہ آسان ہے ، خصوصاً عوام میں سے ایک ایسے شخص کے لیے جو اس وقت تک ان میں ( سے صحیح اور ضعیف کے بار ے میں بھی ) امتیاز نہیں کر سکتا جب تک کوئی دوسرا اسے اس فرق سے آگاہ نہ کرے ۔ جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے ہم نے بیان کیا تو کم تعداد میں صحیح ( احادیث ) چن لینا کثیر تعداد میں ضعیف احادیث کو جمع کرنے سے کہیں بہتر ہے ۔ یہ بات ( اپنی جگہ ) درست ہے کہ بہت سی احادیث کو اکٹھا کرنے اور مکرر ( احادیث ) کو جمع کرنے کے بھی کچھ فوائد ہیں ، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جنہیں اس ( علم ) میں کسی قدر شعور اور اسباب وعلل کی معرفت سے نوازا گیا ہے ۔ اللہ کی مشیت سے ایسا انسان ان خصوصیات کی وجہ سے جو اسے عطا کی گئی ہیں ، کثیر احادیث کے مجموعے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے جو شعو ومعرفت رکھنے والے خواص سے مختلف ہیں ، وہ کم احادیث کی معرفت سے بھی عاجز ہیں تو ان کے لیے کثیر احادیث کے حصول میں کوئی فائدہ نہیں ۔ پھر آپ نے جس ( کتاب ) کا مطالبہ کیا ہم ان شاء اللہ اس التزام کے ساتھ اس کی اس کی تخریج ( مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت ) اور تالیف کا آغاز کرتے ہیں جس کا میں آپ کے سامنے ذکر کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کو لے لیں گے جو سنداً نبی اکرمﷺ سے بیان کی گئیں اور تکرار کے بغیر انہیں تین اقسام اور ( بیان کرنے والے ) لوگوں کے تین طبقوں کے مطابق تقسیم کریں گے ، الا یہ کہ کوئی ایسا مقام آ جائے جہاں کسی حدیث کو دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہ ہو ، ( مثلاً : ) اس میں کوئی معنیٰ زیادہ ہو یا کوئی سند ایسی ہو جو کسی علت یا سبب کی بنا پر دوسری سند کے پہلو بہ پہلو آئی ہو کیونکہ حدیث میں ایک زائد معنیٰ ، جس کی ضرورت ہو ، ایک مکمل حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے ، اس لیے ایسی حدیث کو ، جس میں ہمارا بیان کردہ کوئی ( معنوی ) اضافہ پایا جاتا ہے ، دوبارہ لائے بغیر چارہ نہیں یا جب ممکن ہوا تو ہم اس معنیٰ کو اختصار کے ساتھ پوری حدیث سے الگ ( کر کے ) بیان کر دیں گے لیکن بسااوقات اسے پوری حدیث سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کی گنجائش نہ ہو تو اسے اصل شکل میں دوبارہ بیان کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے ، البتہ جہاں ہمارے لیے اسے مکمل طور پر دہرانے سے بچنا ممکن ہو گا اور ( کامل شکل میں ) ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو گی تو ہم ان شاء اللہ اس سے اجتناب کریں گے ۔ جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے ( اس میں ) ہم یہ کوشش کریں گے کہ انہی احادیث کو ترجیح دیں جو دوسری احادیث کی نسبت ( فنی ) خامیوں سے زیادہ محفوظ اور زیادہ پاک ہوں ، یعنی ان کے ناقلین ( راوی ) نقل حدیث میں صحت اور ثقاہت رکھنے والے ہوں ، ان کی روایت میں شدید اختلاف پایا جائے نہ ( الفاظ ومعانی کو ) بہت برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہو جس طرح کہ بہت سے احادیث بیان کرنے والوں میں پایا گیا ہے اور ان کی روایت میں یہ چیز واضح ہوچکی ہے ۔ جب ہم اس قسم کے ( ثقہ ) لوگوں کی مرویات کا احاطہ کر لیں گے تو بعد ازیں ایسی روایات لائیں گے جن کی سندوں میں کوئی ایسے راوی موجود ہوں گے جو طبقہ اولیٰ جیسے ( راویوں کے ) حفظ واتقان سے متصف نہیں لیکن وہ بھی ( انہی میں سے ہیں ) چاہے ان صفات میں ان سے ذرا کم ہیں جن کو ان سے مقدم رکھا گیا ہے لیکن عفت ، صدق اور علم سے شغف رکھنے جیسی صفات ان میں عام ہوں ، جس طرح عطاء بن سائب ، یزید بن ابی زیاد ، لیث بن ابی سلیم اور ان کی طرح کے ( دیگر ) حاملین آثار اور ناقلین اخبار ہیں ۔ یہ حضرات اگرچہ اہل علم کے ہاں علم اور عفت ( جیسی صفات ) میں معروف ہیں لیکن ان کے ہم عصر لوگوں میں سے ( بعض ) دیگر حضرات ایسے ہیں جو اتقان اور روایت کی صحت کے معاملے میں اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ ( حفظ واتقان ) ایک بہت اونچا مرتبہ اور ایک اعلیٰ ترین صفت ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ان تینوں حضرات : عطاء ، یزید اور لیث ، جن کا ہم نے ابھی نام لیا ، کا موازنہ حدیث کے حفظ و اتقان میں منصور بن معتمر ، سلیمان اعمش اور اسماعیل بن ابی خالد سے کریں تو انہیں آپ ان حضرات سے خاصے فاصلے پر پائیں گے ، یہ ان کے قریب بھی نہیں آ پاتے ۔ ماہرین علم حدیث کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ منصور ، اعمش اور اسماعیل کے ہاں حفظ کی صحت اور حدیث بیان کرنے میں مہارت کی جو صفات فراواں اہل علم کو نظر آتی ہیں ان کے نزدیک وہ عطاء ، یزید اور لیث کے ہاں اس طرح معروف نہیں ۔ اگر آپ ( دیگر ) ہمسروں کے درمیان موازنہ کریں تو ( بھی ) یہی ماجرا ( سامنے آتا ) ہے ، مثلاً آپ ابن عون اور ایوب سختیانی کا ( موازنہ ) عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی سے کریں ۔ یہ دونوں ( بھی اسی طرح ) حسن بصری اور ابن سیرین کے شاگرد ہیں جس طرح ابن عون اور ایوب ان کے شاگرد ہیں لیکن ان دونوں اور ان دونوں کے درمیان کمال فضل اور صحت نقل کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔ عوف اور اشعث بھی اگرچہ اہل علم کے ہاں صدق وامانت سے ہٹے ہوئے نہیں ( مانے جاتے ) لیکن جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے تو اہل علم کے ہاں حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی ۔ ہم نے نام ذکر کر کے مثال اس لیے دی ہے تاکہ اس شخص کے لیے ، جو اہل علم کے ہاں حاملین حدیث کی درجہ کے طریقے سے ناواقف ہے ، یہ مثال ایسا واضح نشان ثابت ہو جس کے ذریعے سے وہ مکمل واقفیت حاصل کر لے اور اونچا درجہ رکھنے والے کو اس کے مرتبے سے گھٹائے اور نہ کم درجے والے کو اس کے مرتبے سے بڑھائے ، ہر ایک کو اس کا حق دے اور اس کے مرتبے پر رکھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت بیان کی گئی ، انہوں نے کہا : ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا تھا کہ کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھیں ۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا حکم جو قرآن نے بیان فرمایا : ’’ہر علم والے سے اوپر ایک علم رکھنے والا ہے ۔ ‘ ‘ ہم احادیث رسولﷺ کو اپنی ذکر کردہ صورتوں کے مطابق تالیف کریں گے ۔ جو احادیث ان لوگوں سے مروی ہیں جو ( تمام ) ماہرین علم حدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک متہم ہیں ، ہم ان کی روایات سے کوئی سروکار نہ رکھیں گے ، جیسے : عبد اللہ بن مسور ابو جعفر مدائنی ، عمرو بن خالد ، عبد القدوس شامی ، محمد بن سعید مصلوب ، غیاث بن ابراہیم ، سلیمان بن عمرو نخعی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی مرویات سے بھی ، جن پر وضع احادیث اور روایات سازی کے الزامات ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی مرویات کی غالب تعداد منکر اور غلط ( احادیث ) پر مشتمل ہے ، ہم ان کی احادیث سے بھی احتراز کریں گے ۔ کسی حدیث بیان کرنے والے کی منکر روایت کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کی روایت کردہ حدیث کا دوسرے اصحاب حفظ اور مقبول ( محدثین ) کی روایت سے موازنہ کیا جائے تو وہ ان کی روایت کے مخالف ہو یا ان کے ساتھ موافق نہ ہو پائے ۔ جب کسی کی اکثر مرویات اس طرح کی ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوتا ہے ، اس کی روایات غیر مقبول ہوتی ہیں ، ( اجتہاد واستنباط کے لیے ) استعمال نہیں ہوتیں ۔ اس قسم کے راویان حدیث میں عبد اللہ بن محرر ، یحییٰ بن ابی انیسہ ، جراح بن منہال ابو عطوف ، عباد بن کثیر ، حسین بن عبد اللہ بن ضمیرہ ، عمر بن صہبان اور اس طرح کے دیگر منکر روایات بیان کرنے والے لوگ شامل ہیں ، ہم ان کی روایت کا رخ نہیں کرتے نہ ان روایات سے کوئی سروکار ہی رکھتے ہیں ۔ کیونکہ حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ ( راوی ) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ ( متفرد ) کوئی ایسا اضافہ بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ ( محدثین کے ہاں ) قبول کیا جائے گا لیکن جس ( حدیث بیان کرنے والے ) کو آپ دیکھیں کہ وہ امام زہری جیسے جلیل القدر ( محدث ) سے روایت بیان کرتا ہے جن کے کثیر تعداد میں ایسے شاگر د ہیں جو حفاظ ( حدیث ) ہیں ، ان کی اور دوسرے ( محدثین ) کی روایت کے ماہر ہیں یا وہ ہشام بن عروہ جیسے ( امام التابعین ) سے روایت کرتا ہے ۔ ان دونوں کی احادیث تو اہل علم کے ہاں خوب پھیلی ہوئی ہیں ، وہ سب ان کی روایت میں ( ایک دوسرے کے ساتھ ) اشتراک رکھتے ہیں اور ان دونوں کی اکثر احادیث میں ان کے شاگرد ایک دوسرے سے متفق ہیں اور یہ شخص ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے متعدد ایسی احادیث روایت کرے جن میں ان کے شاگردوں میں سے اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تو اس جیسے لوگوں سے اس قسم کی کوئی حدیث قبول کرنا جائز نہیں ۔ اللہ ( ہی ) زیادہ جاننے والا ہے ۔ ہم نے حدیث اور اصحاب حدیث ( محدثین ) کے طریق کار کا کچھ حصہ ہر اس شخص کی توجہ کےلیے جو ان کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور جسے اس کی توفیق نصیب ہوتی ہے ، تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ ان شاء اللہ ہم ( اس طریق کار کی ) مزید شرح اور وضاحت کتاب کے ان مقامات پر کریں گے جہاں معلول احادیث ( جن میں کوئی خفیہ علت پائی جاتی ہے ) کا ذکر ہو گا ، ( یعنی ) جب ہم وہاں پہنچیں گے جہاں اس ( موضوع ) کی شرح اور وضاحت کا مناسب موقع ہو گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس ( وضاحت ) کے بعد ، اللہ آپ پر رحم فرمائے! ( ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ) اگر ہم نے اپنے آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سےلوگوں کی ضعیف احادیث اور منکر روایات کے بیان کو ترک کرنے جیسے معاملات میں ، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا ، غلط کارروائیاں نہ دیکھی ہوتیں ، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا ، جنہیں ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق وامانت میں معروف ہیں ، وہ بھی ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جو کچھ وہ ( سیدھے سادھے ) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا رہے ہیں ، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے ، ان لوگوں سے نقل کیا گیا ہے جن سے لینے پر اہل علم راضی نہیں اور جن سے روایت کرنے کو ( بڑے بڑے ) ائمہ حدیث ، مثلاً مالک بن انس ، شعبہ بن حجاج ، سفیان بن عیینہ ، یحییٰ بن سعید قطان ، عبد الرحمن بن مہدی وغیرہم قابل مذمت سمجھتے ہیں ۔ اگر ہم نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو آپ نے ( صحیح وضعیف میں ) امتیاز اور ( صرف صحیح کے ) حصول کے حوالے سے جو مطالبہ کیا ہے اسے قبول کرنا آسان نہ ہوتا ۔ لیکن جس طرح ہم نے آپ کو قوم کی طرف سے کمزور اور مجہول سندوں سے ( بیان کی گئی ) منکر حدیثوں کو بیان کرنے اور انہیں ایسے عوام میں ، جو ان ( احادیث ) کے عیوب سے ناواقف ہیں ، پھیلانے کے بارے میں بتایا تو ( صرف ) اسی بنا پر ہمارے دل کے لیے آپ کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان ہوا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 0

صحيح مسلم حدیث نمبر: 1
جان تو! اللہ تجھ کو توفیق دے جو شخص صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور ثقہ (‏‏‏‏معتبر) اور متہم (‏‏‏‏جن پر تہمت لگی ہو کذب وغیرہ کی) راویوں کو پہچانتا ہو اس پر واجب ہے کہ نہ روایت کرے مگر اس حدیث کو جس کے اصل کی صحت ہو اور اس کے نقل کرنے والے وہ لوگ ہوں جن کا عیب فاش نہ ہوا ہو، اور بچے ان لوگوں کی روایت سے جن پر تہمت لگائی ہے یا جو عناد رکھتے ہیں اہل بدعت میں سے۔ اور دلیل اس پر جو ہم نے کہا: یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ جا پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو پچھتاؤ اپنے کیے ہوئے پر“۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور گواہ کرو دو مردوں کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو جن کو تم پسند کرتے ہو“ (گواہی کیلئے یعنی جو سچے اور نیک معلوم ہوں) اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے گواہ کرو دو شخصوں کو جو عادل ہوں“ تو ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ فاسق کی بات بے اعتبار ہے اور اسی طرح حدیث شریف سے یہ بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ منکر روایت کا بیان کرنا (جس کے غلط ہونے کا احتمال ہو) درست نہیں جیسے قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور وہ حدیث وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ شہرت منقول ہے کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے۔“ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اسناد سے روایت کیا سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یعنی وہی حدیث جو اوپر گزری کہ جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ سمجھتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے)۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 1

صحيح مسلم حدیث نمبر: 2
ابو بکر بن ابی شیبہ ، نیز محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے کہا : ہم سے محمد بن جعفر ( غندر ) نے شعبہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ربعی بن حراش سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، جب وہ خطبہ دے رہے تھے : کہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو ، بلاشبہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا وہ جہنم میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 2

صحيح مسلم حدیث نمبر: 3
وحدثني زهير بن حرب، حدثنا إسماعيل، - يعني ابن علية - عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك، أنه قال إنه ليمنعني أن أحدثكم حديثا كثيرا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ "‏ من تعمد على كذبا فليتبوأ مقعده من النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، کہا : مجھے تمہارے سامنے زیادہ احادیث بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا : ’’جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 3

صحيح مسلم حدیث نمبر: 4
وحدثنا محمد بن عبيد الغبري، حدثنا أبو عوانة، عن أبي حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار ‏"‏ ‏.‏
حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 4

صحيح مسلم حدیث نمبر: 5
۔ سعید بن عبید نے کہا : ہمیں علی بن ربیعہ والبی نے حدیث بیان ، کہا : میں مسجد میں آیا اور ( اس وقت ) حضرت مغیرہ ( بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) کوفہ کے امیر ( گورنر ) تھے : مغیرہ نے کہا : میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : ’’مجھ پر جھوٹ بولنا اس طرح نہیں جیسے ( میرے علاوہ ) کسی ایک ( عام آدمی ) پر جھوٹ بولنا ہے ، جس نے جان بوجھ کر مجھ پرجھوٹ بولا وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 5

صحيح مسلم حدیث نمبر: 6
۔ محمد بن قیس اسدی نے علی بن ربیعہ اسدی سے ، انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبیﷺ سے اسی طرح روایت کی لیکن ’’بلاشبہ مجھ پر جھوٹ بولنا اس طرح نہیں جیسے کسی ایک ( عام ) آدمی پر جھوٹ بولنا ہے ۔ ‘ ‘ ( اس جملہ ) بیان نہیں کیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 6

صحيح مسلم حدیث نمبر: 7
عبیداللہ بن معاذ بن عنبری اور عبد الرحمن بن مہدی دونوں نے کہا : ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انہوں نے خبیب بن عبد الرحمن سے ، انہوں نے حفص بن عاصم سے روایت کی ، کہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 7

صحيح مسلم حدیث نمبر: 8
۔ ابو بکر بن ابی شیبہ ‘ علی بن حفص نے شعبہ سے ، انہوں نے خبیب بن عبد الرحمٰن سے ، انہوں نے حفص بن عاصم سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبیﷺ سے اس کے مانند روایت کی ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 8

صحيح مسلم حدیث نمبر: 9
یحییٰ بن یحییٰ ‘ ہشیم ‘ سلیمان تیمی ‘ ابو عثمان نہدی سے روایت ہے ، کہا : عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : آدمی کے لیے جھوٹ سے اتنا کافی ہے ( جس کی بنا پر وہ جھوٹا قرار دیا جا سکتا ہے ) کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 9

صحيح مسلم حدیث نمبر: 10
ابن وہب نے خبر دی کہا : مالک ( بن انس ، نے مجھ سے کہا : مجھے معلوم ہے کہ ایسا آدمی ( صحیح ) سالم نہیں ہوتا جو ہر سنی ہوئی بات ( آگے ) بیان کر دے ، وہ کبھی امام نہیں بن سکتا ( جبکہ ) وہ ہر سنی ہوئی بات ( آگے ) بیان کر دیتا ہے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 10

صحيح مسلم حدیث نمبر: 11
محمد بن مثٰنی ‘ عبد الرحمٰن ‘ سفیان ‘ ابو اسحاق ‘ ابو الاحوص نے عبد اللہ ( بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) سے روایت کی ، کہا : آدمی کے جھوٹ میں یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 11

صحيح مسلم حدیث نمبر: 12
۔ محمد بن مثنیٰ نے کہا : میں نے عبد الرحمن بن مہدی سے سنا ، کہہ رہے تھے : آدمی اس وقت تک امام نہیں بن سکتا کہ لوگ اس کی اقتداء کریں یہاں تک کہ وہ سنی سنائی بعض باتوں ( کو بیان کرنے ) سے باز آ جائے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 12

صحيح مسلم حدیث نمبر: 13
سفیان بن حسین سے روایت ہے کہ ایاس بن معاویہ مجھ سے مطالبہ کیا اور کہا میں تمہیں دیکھتا ہوں تم قرآن کےعلم سے شدید رغبت رکھتے ہوں تم میرے سامنے ایک سورۃ پڑھو اور اس کی تفسیر کرو تاکہ جو تمہیں علم ہے میں بھی اسے دیکھوں ۔ کہا .میں نے ایسا کیا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا جوبات میں تم سے کہنے لگا ہوں اسے میری طرف سے ہمیشہ یاد رکھنا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 13

صحيح مسلم حدیث نمبر: 14
ابو طاہر ‘ حرملہ بن یحییٰ ‘ ابن وہب ‘ یونس ‘ ابن شہاب ‘ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : تم کسی قوم کے سامنے ایسی حدیث بیان نہیں کرتے جس ( کے صحیح مفہوم ) تک ان کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں مگر وہ ان میں سے بعض کے لیے فتنے ( کا موجب ) بن جاتی ہیں ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 14

صحيح مسلم حدیث نمبر: 15
وحدثني محمد بن عبد الله بن نمير، وزهير بن حرب، قالا حدثنا عبد الله بن يزيد، قال حدثني سعيد بن أبي أيوب، قال حدثني أبو هانئ، عن أبي عثمان، مسلم بن يسار عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ "‏ سيكون في آخر أمتي أناس يحدثونكم ما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤكم فإياكم وإياهم ‏"‏ ‏.‏,وحدثني حرملة بن يحيى بن عبد الله بن حرملة بن عمران التجيبي، قال حدثنا ابن وهب، قال حدثني أبو شريح، أنه سمع شراحيل بن يزيد، يقول أخبرني مسلم بن يسار، أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ يكون في آخر الزمان دجالون كذابون يأتونكم من الأحاديث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤكم فإياكم وإياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم ‏"‏ ‏.‏
محمد بن عبد اللہ بن نمیر ‘ زہیر بن حرب ‘ عبداللہ بن یزید ‘ سعد بن ابی ایوب ‘ ابوہانی نے ابو عثمان مسلم بن یسار سے ، انہوں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے رسول اللہﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : ’’میری امت کے آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے ، تم اس قماش کے لوگوں سے دور رہنا ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 15

صحيح مسلم حدیث نمبر: 16
۔ حرملہ بن یحییٰ ‘ عبد اللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی ‘ ابن وہب ‘ شراحیل بن یزید کہتے ہیں : مجھے مسلم بن یسار نے بتایا کہ انہوں نے ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ کہتے ہوئے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’آخری زمانے میں ( ایسے ) دجال ( فریب کار ) کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے ۔ تم ان سے دور رہنا ( کہیں ) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔ ‘ ‘

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 16

صحيح مسلم حدیث نمبر: 17
ابو سعید اشج ‘ وکیع ‘ اعمش ‘ مسیب بن رافع ‘ عامر بن عبدہ سے روایت ہے ، کہا : حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 17

صحيح مسلم حدیث نمبر: 18
محمد بن رافع ‘ عبد الرزاق ‘ معمر ‘ ابن طاؤس ‘ طاؤس نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : سمندر ( کی تہ ) میں بہت سے شیطان قید ہیں جنہیں حضرت سلیمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے باندھا تھا ، وقت آ رہا ہے کہ وہ نکلیں گے اور لوگوں کے سامنے قرآن پڑھیں گے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 18

صحيح مسلم حدیث نمبر: 19
محمد بن عباد ‘ سعید بن عمر ‘ اشعثیٰ ‘ ابن عیینہ ‘ سعید ‘ سفیان ‘ ہشام بن جحیر نے طاوس سے روایت کی ، کہا : یہ ( ان کی مراد بشیر بن کعب سے تھی ) حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آیا اور انہیں حدیثیں سنانے لگا ، ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اس سے کہا : فلاں فلاں حدیث دہراؤ ۔ اس نے دہرا دیں ، پھر ان کے سامنے احادیث بیان کیں ۔ انہوں نے اس سے کہا : فلاں حدیث دوبارہ سناؤ ۔ اس نے ان کے سامنے دہرائیں ، پھر آپ سے عرض کی : میں نہیں جانتا کہ آپ نے میری ( بیان کی ہوئی ) ساری احادیث پہچان لی ہیں اور اس حدیث کو منکر جانا ہے یا سب کو منکر جانا ہے اور اسے پہچان لیا ہے؟ حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سے کہا : جب آپﷺ پر جھوٹ نہیں بولا جاتا تھا ہم رسول اللہﷺ سے احادیث بیان کرتے تھے ، پھر جب لوگ ( ہر ) مشکل اور آسان سواری پر سوار ہونے لگے ( بلا تمیز صحیح وضعیف روایات بیان کرنے لگے ) تو ہم نے ( براہ راست ) آپﷺ سے حدیث بیان کرنا ترک کر دیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 19

صحيح مسلم حدیث نمبر: 20
محمد بن رافع ‘ عبد الرزاق ‘ ابن طاؤس ‘ طاؤس کے بیٹے نے اپنےوالد ( طاوس ) سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ہم رسول اللہﷺ کی احادیث حفظ کرتے تھے اور رسول اللہﷺ سے ( مروی ) حدیث کی حفاظت کی جاتی تھیں مگر جب سے تم لوگوں نے ( بغیر تمیز کے ) ہر مشکل اور آسان پر سواری شروع کر دی تو یہ ( معاملہ ) دو رہو گیا ( یہ بعید ہو گیا کہ ہماری طرح کے محتاط لوگ اس طرح بیان کردہ احادیث کو قبول کریں ، پھر یاد رکھیں ۔)

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 20

صحيح مسلم حدیث نمبر: 21
مجاہد سے روایت ہے کہ بشیر بن کعب عدوی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے احادیث بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا : رسول اللہﷺ نے فرمایا ، رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔ حضرت ابن عباسؓ ( نے یہ رویہ رکھا کہ ) نہ اس کو دھیان سے سنتے تھے نہ اس کی طرف دیکھتے تھے ۔ وہ کہنے لگا : اے ابن عباس! میرے ساتھ کیا ( معاملہ ) ہے ، مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ میری ( بیان کردہ ) حدیث سن رہے ہیں؟ میں آپ کو رسول اللہﷺ سے حدیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں ۔ حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے سنتے : رسول اللہﷺ نے فرمایا تو ہماری نظریں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کان لگا کر غور سے اس کی بات سنتے ، پھر جب لوگوں نے ( بلا تمیز ) ہر مشکل اور آسان پر سواری ( شروع ) کر دی تو ہم لوگوں سے کوئی حدیث قبول نہ کی سوائے اس ( حدیث ) کے جسے ہم جانتے تھے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 21

صحيح مسلم حدیث نمبر: 22
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے ، کہا : میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی طرف لکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے لیے ایک کتاب لکھیں اور ( جن باتوں کی صحت میں مقال ہو یا جو نہ لکھنے کی ہوں وہ ) باتیں مجھ سے چھپا لیں ۔ انہوں نے فرمایا : لڑکا خالص احادیث کا طلبگار ہے ، میں اس کے لیے ( حدیث سے متعلق ) تمام معاملات میں ( صحیح کا ) انتخاب کروں گا اور ( موضوع اور گھڑی ہوئی احادیث کو ) ہٹا دوں گا ( کہا : انہوں نے حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے فیصلے منگوائے ) اور ان میں سے چیزیں لکھنی شروع کیں اور ( یہ ہوا کہ ) کوئی چیز گزرتی تو فرماتے : بخدا! یہ فیصلہ حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے نہیں کیا ، سوائے اس کے کہ ( خدانخواستہ ) وہ گمراہ ہو گئے ہوں ( جب کہ ایسا نہیں ہوا ۔)

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 22

صحيح مسلم حدیث نمبر: 23
عمر وناقد ‘ سفیان بن عیینہ ‘ ہشام ‘ بن حجیر ‘ طاوس سے روایت ہے ، کہا : حضرت ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس ایک کتاب لائی گئی جس میں حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے فیصلے ( لکھے ہوئے ) تھے تو انہوں نے اس قدر چھوڑ کر باقی ( سب کچھ ) مٹا دیا اور سفیان بن عیینہ نے ہاتھ ( جتنی لمبائی ) کا اشارہ کیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 23

صحيح مسلم حدیث نمبر: 24
حسن بن علی حلوانی ‘ یحییٰ بن آدم ‘ ابن ادریس ‘ اعمش ‘ ابو اسحاق سے روایت ہے ، کہا : جب ( بظاہر حضرت علی کا نام لینے والے ) لوگوں نے حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے بعد ( ان کے نام پر ) یہ چیزیں ایجاد کر لیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کہا : اللہ ان ( لوگوں ) کو قتل کرے! انہوں نے کیسا ( عظیم الشان ) علم بگاڑ دیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 24

صحيح مسلم حدیث نمبر: 25
علی بن خشرم ‘ ابو بکر بن عیاش نے ہمیں بتایا ، کہا : میں نے مغیرہ سے سنا ، فرماتے تھے : حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے مروی احادیث میں کسی چیز کی تصدیق نہ کی جاتی تھی ، سوائے اس کے جو عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے شاگردوں سے روایت کی گئی ہو ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 25

صحيح مسلم حدیث نمبر: 26
حسن بن ربیع ‘ حماد بن زید ‘ ایوب ‘ ہشام ‘ محمد ‘ ح ‘ فضیل ‘ ہشام ‘ مخلد بن حسین ‘ ہشام ، انہوں نے محمد بن سیرین سے روایت کی ، یہ علم ، دین ہے ، اس لیے ( اچھی طرح ) دیکھ لو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 26

صحيح مسلم حدیث نمبر: 27
عاصم احول نے ابن سیرین سے روایت کی ، کہا : ( ابتدائی دور میں عالمان حدیث ) اسناد کے بارے میں کوئی سوال نہ کرتے تھے ، جب فتنہ پڑ گیا تو انہوں نے کہا : ہمارے سامنے اپنے رجال ( حدیث ) کے نام لو تاکہ اہل سنت کو دیکھ کر ان سے حدیث لی جائے اور اہل بدعت کو دیکھ کر ان کی حدیث قبول نہ کی جائے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 27

صحيح مسلم حدیث نمبر: 28
۔ اوزاعی نے سلیمان بن موسٰی سے روایت کی ‘ انھوں نے کہا .میں ظاوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ملا اور ان سے کہا .مجھےشخص نے اس اس کرح حدیث سنائی ۔ انھوں کہا ’اگر تمہارے صاحب ( استاد ) پوری طرح قابل اعتماد ہیں توان سے اخذ کر لو ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 28

صحيح مسلم حدیث نمبر: 29
سعید بن عبد العزیز نے سلیمان بن موسیٰ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے طاوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے عرض کی : فلاں نے ان ان الفاظ سے مجھے حدیث سنائی ۔ انہوں نے کہا : اگر تمہارے صاحب ثقاہت میں بھر پو ہیں تو ان سے اخذ کر لو ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 29

صحيح مسلم حدیث نمبر: 30
(عبد الرحمن ) بن ابی زناد نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : میں مدینہ میں سو ( اہل علم ) سے ملا جو ( دین میں تو ) محفوظ ومامون تھے ( لیکن ) ان سے حدیث اخذ نہیں کی جاتی تھیں ، کہا جاتا تھا یہ اس ( علم ) کے اہل نہیں

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 30

صحيح مسلم حدیث نمبر: 31
۔ مسعر سے روایت ہے ، کہا : میں نے سعد بن ابراہیم ( بن عبد الرحمن بن عوف ) سے سنا ، کہہ رہے تھے : ثقہ راویوں کے علاوہ اور نہ کوئی شخص رسول اللہﷺ سے حدیث بیان نہ کرے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 31

صحيح مسلم حدیث نمبر: 32
محمد بن عبد اللہ بن قہزاد نے ( جو مرو کے باشندوں میں سے ہیں ) کہا : میں نے عبدان بن عثمان سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے عبد اللہ بن مبارک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو یہ کہتے ہوئے سنا : اسناد ( سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا ) دین میں سے ہے ۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا ، کہہ دیتا ۔ ( امام مسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ) کہا : اور محمد بن عبد اللہ نے کہا : مجھے عباس بن ابی رزمہ نے حدیث سنائی ، کہا : میں نے عبد اللہ ( بن مبارک ) کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہمارے اور لوگوں کے درمیان ( فیصلہ کن چیز ، بیان کی جانے والی خبروں کے ) پاؤں ، یعنی سندیں ہیں ( جن پر روایات اس طرح کھڑی ہوتی ہیں جس طرح جاندار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔)

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 32

صحيح مسلم حدیث نمبر: 33
۔ ابو نضر ہاشم بن قاسم نے حدیث بیان کی ، کہا : ہم نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل ( یحییٰ بن متوکل ) نے حدیث بیان کی ، کہا : میں قاسم بن عبید اللہ ( بن عبد اللہ بن بن عمر جن کی والدہ ام عبد اللہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیں ) اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یحییٰ نے قاسم بن عبید اللہ سے کہا : جناب ابو محمد! آپ جیسی شخصیت کے لیے یہ عیب ہے ، بہت بڑی بات ہے کہ آپ سے اس دین کے کسی معاملے کے بارے میں ( کچھ ) پوچھا جائے اور آپ کے پاس اس کے حوالے سے نہ علم ہو نہ کوئی حل یا ( یہ الفاظ کہے ) نہ علم ہو نہ نکلنے کی کوئی راہ ۔ تو قاسم نے ان سے کہا : کس وجہ سے؟ ( یحییٰ نے ) کہا : کیونکہ آپ ہدایت کے دو اماموں ابو بکر اور عمرؓ کے فرزند ہیں ۔ کہا : قاسم اس سے کہنے لگے : جس شخص کو اللہ کی طرف سے عقل ملی ہو ، اس کے نزدیک اس سے بھی بد تر بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہہ دوں یا اس سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو ۔ ( یہ سن کر یحییٰ ) خاموش ہو گئے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 33

صحيح مسلم حدیث نمبر: 34
بشر بن حکم عبدی نے مجھ سے بیان کیا ، کہا : میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : مجھے سے بہت سے لوگوں نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل سے ( سن کر ) روایت کی کہ ( کچھ ) لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے ایک بیٹے سے کوئی بات پوچھی جس کے بارے میں ان کے علم میں کچھ نہ تھا تو یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا : میں اس کو بہت بڑی بات سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے انسان سے ( جبکہ آپ ہدایت کے وو اماموں یعنی عمر اور ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے بیٹے ہیں ، کوئی بات پوچھی جائے ( اور ) اس کےب ارے میں آپ کو کچھ علم نہ ہو ۔ انہوں نے کہا : بخدا! اللہ کے نزدیک اور اس شخص کے نزدیک جسے اللہ نے عقل دی اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہوں یا کسی ایسے شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہیں ۔ ( سفیان نے ) کہا : ابو عقیل یحییٰ بن متوکل ( بھی ) ان کے پاس موجود تھے جب انہوں نے یہ بات کی ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 34

صحيح مسلم حدیث نمبر: 35
یحییٰ بن سعید نے کہا : میں نے سفیان ثوری ، شعبہ ، مالک اور ابن عیینہ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو حدیث میں پور ی طرح قابل اعتماد ( ثقہ ) نہ ہو ، پھر کوئی آدمی آئے اور مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے؟ تو ان سب نے کہا : اس کے بارے میں بتا دو کہ وہ پوری طرح قابل اعتماد نہیں ہے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 35

صحيح مسلم حدیث نمبر: 36
۔ نضر کہتے ہیں کہ ابن عون سے شہر ( بن حوشب ) کی حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا ، ( اس وقت ) وہ ( اپنی ) دہلیز پر کھڑے تھے ، وہ کہنے لگے : انہوں ( محدثین ) نے یقینا شہر کو مطعون ٹھہرایا ہے ، انہوں نے شہر کو مطعون ٹھہرایا ہے ۔ امام مسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : لوگوں کی زبانوں نے انہیں نشانہ بنایا ، ان کے بارے میں باتیں کیں ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 36

صحيح مسلم حدیث نمبر: 37
ہمیں شبابہ نے بتایا ، کہا : شعبہ نے کہا : میں شہر سے ملا لیکن ( روایت حدیث کے حوالے سے ) میں نے انہیں اہمیت نہ دی ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 37

صحيح مسلم حدیث نمبر: 38
عبد اللہ بن مبارک نے کہا : میں نے سفیان ثوری سے عرض کی : بلاشبہ عباد بن کثیر ایسا ہے جس کا حال آپ کو معلوم ہے ۔ جب وہ حدیث بیان کرتا ہے تو بڑی بات کرتا ہے ، کیا آپ کی رائے ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دیا کروں : اس سے ( حدیث ) نہ لو؟ سفیان کہنےلگے : کیوں نہیں! عبد اللہ نے کہا : پھر یہ ( میرا معمول ) ہو گیا کہ جب میں کسی ( علمی ) مجلس میں ہوتا جہاں عباد کا ذکر ہوتا تو میں دین کے حوالے سے اس کی تعریف کرتا اور ( ساتھ یہ بھی ) کہتا : اس سے ( حدیث ) نہ لو ۔ ہم سے محمد نے بیان کیا ، کہا : ہم سے عبد اللہ بن عثمان نے بیان کیا ، کہا : میرے والد نے کہا : عبد اللہ بن مبارک نے کہا : میں شعبہ تک پہنچا تو انہوں نے ( بھی ) کہا : یہ عباد بن کثیر ہے تم لوگ اس سے ( حدیث بیان کرنے میں ) احتیاط کرو

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 38

صحيح مسلم حدیث نمبر: 39
فضل بن سہل نے بتایا ، کہا : میں نے معلیٰ رازی سے محمد بن سعید کے بارے میں ، جس سے عباد بن کثیر نے روایت کی ، پوچھا تو انہوں نے مجھے عیسیٰ بن یونس کے حوالے سے بیان کیا ، کہا : میں اس کے دروزاے پر تھا ، سفیان اس کے پاس موجود تھے جب وہ باہر نکل گیا تو میں نے ان ( سفیان ) سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ کذاب ہے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 39

صحيح مسلم حدیث نمبر: 40
محمد بن ابی عتاب نے کہا : مجھ سے عفان نے محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے حدیث بیان کی ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : ہم نے نیک لوگوں ( صوفیا ) کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے والا نہیں پایا ۔ ابن ابی عتاب نے کہا : میں محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے ملا تو اس ( بات کے ) بارے میں پوچھا ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا : تم اہل خیر ( زہد و ورع والوں ) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے ۔ امام مسلم نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے فرمایا : ان کی زبان پر جھوٹ جاری ہو جاتا ہے ، وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 40

صحيح مسلم حدیث نمبر: 41
خلیفہ بن موسیٰ نے خبر دی ، کہا : میں غالب بن عبید اللہ کے ہاں آیا تو اس نے مجھے لکھوانا شروع کیا : مکحول نے مجھ سے حدیث بیان کی ، مکحول نے مجھ سے حدیث بیان کی ۔ اسی اثنا میں پیشاب نے اسے مجبور کیا تو وہ اٹھ گیا ، میں نے ( جو ) اس کی کاپی دیکھی تو اس میں اس طرح تھا : مجھے ابان نے انس سے یہ حدیث سنائی ، ابان نے فلاں سے حدیث روایت کی ۔ اس پر میں نے اسے چھوڑ دیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ ( امام مسلم نے کہا : ) اور میں نے حسن بن علی حلوانی سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے عفان کی کتاب میں ابو مقدام ہشام کی ( وہ ) روایت دیکھی ( جو عمر بن عبد العزیز کی حدیث ہے ) ( اس میں تھا : ) ہشام نے کہا : مجھ سے ایک شخص نے جسے یحییٰ بن فلاں کہا جاتا تھا ، محمد بن کعب سے حدیث بیان بیان کی ، کہا : میں نے عفان سے کہا : ( اہل علم ) کہتے ہیں : ہشام نے یہ ( حدیث ) محمد بن کعب سے سنی تھی ۔ تو وہ کہنے لگے : وہ ( ہشام ) اسی حدیث کی وجہ سے فتنے میں پڑے ۔ ( پہلے ) وہ کہا کرتے تھے : مجھے یحییٰ نے محمد ( بن کعب ) سے روایت کی ، بعد ازاں یہ دعویٰ کر دیا کہ انہوں نے یہ ( حدیث براہ راست ) محمد سے سنی ہے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 41

صحيح مسلم حدیث نمبر: 42
مجھے محمد بن عبد اللہ قہزاذ نے حدیث سنائی ، کہا : میں نے عبد اللہ بن عثمان بن جبلہ سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے عبد اللہ بن مبارک سے کہا : یہ کون ہے جس سے آپ نے عبد اللہ بن عمرو کی حدیث : ’’ عید الفطر کا دن انعامات کا دن ہے ۔ ‘ ‘ روایت کی؟ کہا : سلیمان بن حجاج ، ان میں سے جو ( احادیث ) تم نے اپنے پاس ( لکھ ) رکھی ہیں ( یا میں نے تمہیں اس کی جو حدیثیں دی ہیں ) ان میں ( اچھی طرح ) نظر کرنا ( غور کر لینا ۔ ) ابن قہزاذ نے کہا : میں نے وہب بن زمعہ سے سنا ، وہ سفیان بن عبد الملک سے روایت کر رہے تھے ، کہا : عبد اللہ ، یعنی ابن مبارک نے کہا : میں نے ایک درہم کے برابر خون والی حدیث کے راوی روح بن غطیف کو دیکھا ہے ۔ میں اس کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا تو میں اپنے ساتھیوں سے شرم محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھے اس سے حدیث بیان کرنے کے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ بیٹھا دیکھیں اس کی حدیث ناپسندیدگی کی وجہ سے اور اس کی روایت میں نہ مقبولی کی وجہ سے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 42

صحيح مسلم حدیث نمبر: 43
ابن قہزاذ نے کہا ، میں نے وہب سے سنا ، انہوں نے سفیان سے اور انہوں نے عبد اللہ بن مبارک سے روایت کی ، کہا : بقیہ زبان کے سچے ہیں لیکن وہ ہر آنے جانے والے ( علم حدیث میں مہارت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ہر شخص ) سے حدیث لے لیتے ہیں ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 43

صحيح مسلم حدیث نمبر: 44
قتیبہ بن سعید ‘ جریر نے مغیرہ سے ، انہوں نے شعبی سے روایت کی ، کہا : مجھے حارث اعور ہمدانی نے حدیث سنائی اور وہ کذاب تھا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 44

صحيح مسلم حدیث نمبر: 45
ابو عامر عبداللہ بن براداشعری ‘ ابو اسامہ ‘ مفضل بن مغیرہ سے روایت کی ، کہا : میں نے شعبی کو کہتے ہوئے سنا : مجھ سے حارث اعور نے روایت کی بیان کی اور ( یہ کہ ) وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ ( حارث ) جھوٹوں میں سے ایک تھا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 45

صحيح مسلم حدیث نمبر: 46
قتیبہ بن سعید ‘ جریر ‘ مغیرہ نے ابراہیم سے روایت کی ، کہا : علقمہ نے کہا : میں نے دو سال میں قرآن پڑھا ( تدبر کرتے ہوئے ختم کیا ۔ ) تو حارث نے کہا : قرآن آسان ہے ، وحی اس سے زیادہ مشکل ہے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 46

صحيح مسلم حدیث نمبر: 47
حجاج بن شاعر ‘ احمد بن یونس نے ابراہیم نخعی سے روایت کی کہ حارث ( اعور ) نے کہا : میں نے قرآن تین سال میں سیکھا اور وحی دو سال میں ( یا کہا ) : وحی تین سال میں اور قرآن دو سال میں ۔ لغت میں وحی کے کئی معانی ہیں ، مثلاً : اشارہ کرنا ، کتابت ، الہام اور خفیہ کلام وغیرہ ، مگر اسلامی اصطلاح میں وحی اللہ کی طرف سے مقررہ طریقوں میں سے کسی طریقے سے ، اپنے رسول کی طرف کلام ، پیغام وغیرہ بھجوانا ہے ۔ حارث کی اس بات سے اسلامی اصطلاحات کے معاملے میں اس کی جہالت کا پتہ چلتا ہے ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 47

صحيح مسلم حدیث نمبر: 48
۔ منصور اور مغیرہ نے ابراہیم سے روایت کی کہ حارث متہم راوی ہے

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 48

صحيح مسلم حدیث نمبر: 49
۔ حمزہ زیات سے روایت ہے ، کہا : مرہ ہمدانی نے حارث سے کوئی بات سنی تو اس سے کہا : تم دروازے ہی پر بیٹھو ( اندر نہ آؤ ) ۔ پھر وہ ( گھر میں ) داخل ہوئے اور اپنی تلوار اٹھا لی تو حارث نے برا انجام محسوس کر لیا اور چل دیا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 49

صحيح مسلم حدیث نمبر: 50
۔ ( عبد اللہ ) بن عون سے روایت ہے ، کہا : ابراہیم ( نخعی ) نے ہم سے کہا : تم لوگ مغیرہ بن سعید اور ابو عبد الرحیم سے بچ کر رہو ، وہ کذاب ہیں

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 50

صحيح مسلم حدیث نمبر: 51
ہمیں عاصم نے حدیث بیان کی ، کہا : ہم بالکل نو عمر لڑکے تھے جو ابو عبد الرحمن سلمی کے پاس حاضر ہوتے تھے ، وہ ہم سے کہا کرتے تھے : ابو احوص کے سوا دوسرے قصہ گوؤں ( واعظوں ) کی مجالس میں مت بیٹھو اور شقیق سے بچ کر رہو ۔ شقیق خوارج کا نقطہ نظر رکھتا تھا ، یہ ابو وائل نہیں ( بلکہ شقیق ضبی ہے ۔)

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 51

صحيح مسلم حدیث نمبر: 52
جریر کہتے ہیں : میں جابر بن یزید جعفی سے ملا تو میں نے اس سے حدیث نہ لکھی ، وہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 52

صحيح مسلم حدیث نمبر: 53
۔ مسعر نے کہا : ہم سے جابر بن یزید ( جعفی ) نے ان بدعتوں سے پہلے ، جو اس نے گھڑیں ، حدیث بیان کی ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 53

صحيح مسلم حدیث نمبر: 54
سفیان نے کہا : جابر نے جس ( عقیدے ) کا اظہار کیا اس کے اظہار سے پہلے لوگ اس سے حدیث لیتے تھے ، جب اس نے اس کا اظہار کر دیا تو لوگوں نے اسے اس کی ( بیان کردہ ) حدیث کے بارے میں مطعون کیا اور بعض نے اسے چھوڑ دیا ۔ ان سے پوچھا گیا : اس نے کس چیز کا

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 54

صحيح مسلم حدیث نمبر: 55
۔ جراح بن ملیح کہتے ہیں : میں نے جابر بن یزید ( جعفی ) کو یہ کہتے سنا : میرے ابو جعفر ( محمد باقر بن علی بن حسین بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) کی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو سب کی سب رسول اللہﷺ سے ( روایت کی گئی ) ہیں ۔

صحيح مسلم باب:0 حدیث نمبر : 55

Share this: