احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

8: 8- بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
باب: جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔
قال: ابو العالية مطهرة من الحيض والبول والبزاق كلما رزقوا سورة البقرة آية 25 اتوا بشيء ثم اتوا بآخر قالوا هذا الذي رزقنا من قبل سورة البقرة آية 25 اتينا من قبل واتوا به متشابها سورة البقرة آية 25 يشبه بعضه بعضا ويختلف في الطعوم قطوفها سورة الحاقة آية 23 يقطفون كيف شاءوا دانية سورة الحاقة آية 23 قريبة الارائك سورة الكهف آية 31 السرر، وقال الحسن: النضرة في الوجوه والسرور في القلب، وقال مجاهد:سلسبيلا سورة الإنسان آية 18 حديدة الجرية غول سورة الصافات آية 47 وجع البطن ينزفون سورة الصافات آية 47 لا تذهب عقولهم، وقال ابن عباس: دهاقا سورة النبا آية 34 ممتلئا وكواعب سورة النبا آية 33 نواهد الرحيق الخمر سورة المائدة آية 90 التسنيم يعلو شراب اهل الجنة ختامه سورة المطففين آية 26 طينه مسك سورة المطففين آية 26 نضاختان سورة الرحمن آية 66 فياضتان يقال: موضونة منسوجة منه وضين الناقة والكوب ما لا اذن له ولا عروة والاباريق ذوات الآذان والعرى عربا سورة الواقعة آية 37 مثقلة واحدها عروب مثل صبور وصبر يسميها اهل مكة العربة واهل المدينة الغنجة واهل العراق الشكلة، وقال مجاهد روح سورة يوسف آية 87 جنة ورخاء والريحان سورة الرحمن آية 12 الرزق والمنضود الموز والمخضود الموقر حملا، ويقال: ايضا لا شوك له والعرب المحببات إلى ازواجهن، ويقال: مسكوب جار وفرش مرفوعة سورة الواقعة آية 34 بعضها فوق بعض لغوا سورة مريم آية 62 باطلا تاثيما سورة الواقعة آية 25 كذبا افنان اغصان وجنى الجنتين دان سورة الرحمن آية 54 ما يجتنى قريب مدهامتان سورة الرحمن آية 64 سوداوان من الري.
‏‏‏‏ ابوالعالیہ نے کہا (سورۃ البقرہ میں) جو لفظ «مطهرة» آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کی حوریں حیض اور پیشاب اور تھوک اور سب گندگیوں سے پاک صاف ہوں گی اور جو یہ آیا ہے «كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا» آخر آیت تک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس ایک میوہ لایا جائے گا پھر دوسرا میوہ تو جنتی کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو ہم کو پہلے مل چکا ہے۔ «متشابها‏» کے معنی صورت اور رنگ میں ملے جلے ہوں گے لیکن مزے میں جدا جدا ہوں گے (سورۃ الحاقہ میں) جو لفظ «قطوفها دانية» آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کے میوے ایسے نزدیک ہوں گے کہ بہشتی لوگ کھڑے بیٹھے جس طرح چاہیں ان کو توڑ سکیں گے۔ «دانية» کا معنی نزدیک کے ہیں، «أرائك» کے معنی تخت کے ہیں، امام حسن بصریٰ نے کہا لفظ «نضرة منه» کی تازگی کو اور سرور دل کی خوشی کو کہتے ہیں۔ اور مجاہد نے کہا «سلسبيلا‏» کے معنی تیز بہنے والی، اور لفظ «غول‏» کے معنی پیٹ کے درد کے ہیں۔ «ينزفون‏» کے معنی یہ کہ ان کی عقل میں فتور نہیں آئے گا۔ جیسا کہ دنیاوی شراب سے آ جاتا ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ نبا میں) جو «دهاقا‏» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی لبالب بھرے ہوئے کہ ہیں۔ لفظ «كواعب‏» کے معنی پستان اٹھے ہوئے کے ہیں، لفظ «رحيق» کے معنی جنت کی شراب، «تسنيم» وہ عرق جو بہشتیوں کی شراب کے اوپر ڈالا جائے گا۔ بہشتی اس کو پئیں گے اور لفظ «ختام» (سورۃ المطففین میں) کے معنی مہر کی مٹی (جس سے وہاں کی شراب کی بوتلوں پر مہر لگی ہوئی ہو گی۔ «نضاختان‏» (سورۃ الرحمن میں) دو جوش مارتے ہوئے چشمے، لفظ «موضونة» (سورۃ الواقعہ میں) کا معنی جڑاو بنا ہوا، اسی سے لفظ «وضين الناقة‏.‏» نکلا ہے۔ یعنی اونٹنی کی جھول وہ بھی بنی ہوئی ہوتی ہے اور لفظ «كوب» کا معنی جس کی جمع «اكواب» (سورۃ الواقعہ میں) ہے، کوزہ جس میں نہ کان ہو نہ کنڈا اور لفظ «لأباريق» «ابريق» کی جمع وہ کوزہ جو کان اور کنڈہ رکھتا ہو۔ اور لفظ «عربا‏» (سورۃ الواقعہ میں) «عروب» کی جمع ہے جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے۔ مکہ والے «عروب» کو «عربة» اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «شكلة‏.‏» کہتے ہیں۔ ان سب سے وہ عورت مراد ہے جو اپنے خاوند کی عاشق ہو۔ اور مجاہد نے کہا لفظ «روح‏.‏» (سورۃ الواقعہ میں ہے) کا معنی بہشت اور فراخی رزق کے ہیں۔ «ريحان‏.‏» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) رزق کے ہیں اور لفظ «منضود‏» (سورۃ الواقعہ) کا معنی کیلے کے ہیں۔ «مخضود» وہ بیر جس میں کانٹا نہ ہو۔ میوے کے بوجھ سے لٹکا ہوا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ عرب (جو سورۃ الواقعہ میں ہے) اس کے معنی وہ عورتیں جو اپنے خاوند کی محبوبہ ہوں، «مسكوب» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) بہتا ہوا پانی۔ اور لفظ «وفرش مرفوعة‏» (سورۃ الواقعہ) کا معنی بچھونے اونچے یعنی اوپر تلے بچھے ہوئے، لفظ «لغوا‏» جو اسی سورۃ میں ہے۔ اس کے معنی غلط جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «تأثيما‏» جو اسی سورۃ میں ہے اس کا معنی بھی جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «أفنان» جو سورۃ الرحمن میں ہے۔ اس کے معنی شاخیں ڈالیاں اور «وجنى الجنتين دان‏» کا معنی بہت تازگی اور شاداب کی وجہ سے وہ کالے ہو رہے ہوں گے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3240
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا الليث بن سعد، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا مات احدكم فإنه يعرض عليه مقعده بالغداة والعشي، فإن كان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار فمن اهل النار".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص مرتا ہے تو (روزانہ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا (جہاں وہ آخرت میں رہے گا) اسے دکھلایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔

Share this: