احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

115: 115- بَابُ كُنْيَةِ الْمُشْرِكِ:
باب: مشرک کی کنیت کا بیان۔
وقال مسور سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إلا ان يريد ابن ابي طالب
اور مسور بن مخرمہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابوطالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دیدے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6207
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح حدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان، عن محمد بن ابي عتيق، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، ان اسامة بن زيد رضي الله عنهما، اخبره"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب على حمار عليه قطيفة فدكية واسامة وراءه يعود سعد بن عبادة في بني حارث بن الخزرج قبل وقعة بدر، فسارا حتى مرا بمجلس فيه عبد الله بن ابي ابن سلول، وذلك قبل ان يسلم عبد الله بن ابي، فإذا في المجلس اخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الاوثان واليهود، وفي المسلمين عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة، خمر ابن ابي انفه بردائه وقال: لا تغبروا علينا، فسلم رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم، ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله، وقرا عليهم القرآن، فقال له عبد الله بن ابي ابن سلول: ايها المرء لا احسن مما تقول، إن كان حقا فلا تؤذنا به في مجالسنا، فمن جاءك فاقصص عليه. قال عبد الله بن رواحة: بلى يا رسول الله، فاغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون والمشركون واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكتوا، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم دابته، فسار حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اي سعد، الم تسمع ما قال ابو حباب ؟ يريد عبد الله بن ابي"، قال: كذا وكذا، فقال سعد بن عبادة: اي رسول الله بابي انت اعف عنه واصفح، فوالذي انزل عليك الكتاب لقد جاء الله بالحق الذي انزل عليك، ولقد اصطلح اهل هذه البحرة على ان يتوجوه ويعصبوه بالعصابة، فلما رد الله ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك فذلك فعل به ما رايت، فعفا عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه يعفون عن المشركين واهل الكتاب كما امرهم الله، ويصبرون على الاذى، قال الله تعالى: ولتسمعن من الذين اوتوا الكتاب سورة آل عمران آية 186 الآية وقال: ود كثير من اهل الكتاب سورة البقرة آية 109، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتاول في العفو عنهم ما امره الله به حتى اذن له فيهم، فلما غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا، فقتل الله بها من قتل من صناديد الكفار وسادة قريش، فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه منصورين غانمين معهم اسارى من صناديد الكفار، وسادة قريش. قال ابن ابي ابن سلول ومن معه من المشركين عبدة الاوثان: هذا امر قد توجه، فبايعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاسلموا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن ابی شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کا بنا ہوا ایک کپڑا بچھا ہوا تھا، اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے یہ دونوں روانہ ہوئے اور راستے میں ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ عبداللہ نے ابھی تک اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے۔ بتوں کی پرستش کرنے والے کچھ مشرکین بھی تھے اور کچھ یہودی بھی تھے۔ مسلمان شرکاء میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس پر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) سواری کا غبار اڑ کر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اڑاؤ، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریب پہنچنے کے بعد) انہیں سلام کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر سواری سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور قرآن مجید کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ بھلے آدمی جو کلام تم نے پڑھا اس سے بہتر کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ واقعی یہ حق ہے مگر ہماری مجلسوں میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ جو تمہارے پاس جائے بس اس کو یہ قصے سنا دیا کرو۔ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ضرور، یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں بھی تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ اس معاملہ پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں کا جھگڑا ہو گیا اور قریب تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھا دیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خاموش کرتے رہے آخر جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھے اور روانہ ہوئے۔ جب سعد بن عبادہ کے یہاں پہنچے تو ان سے فرمایا کہ اے سعد! تم نے نہیں سنا آج ابوحباب نے کس طرح باتیں کی ہیں۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بولے، میرا باپ آپ پر صدقے ہو، یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگذر فرمائیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کو سچا کلام دے کر یہاں بھیجا جو آپ پر اتارا۔ آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس شہر (مدینہ منورہ) کے باشندے اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے (عبداللہ بن ابی کو) شاہی تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ باندھ دیں لیکن اللہ نے سچا کلام دے کر آپ کو یہاں بھیج دیا اور یہ تجویز موقوف رہی تو وہ اس کی وجہ سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ کیا، وہ اسی جلن کی وجہ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ، مشرکین اور اہل کتاب سے جیسا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ تم ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے (اذیت دہ باتیں) سنو گے۔ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا بہت سے اہل کتاب خواہش رکھتے ہیں۔ الخ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم کے مطابق توجیہ کیا کرتے تھے۔ بالآخر آپ کو (جنگ کی) اجازت دی گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کیا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کئے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ فتح مند اور غنیمت کا مال لیے ہوئے واپس ہوئے، ان کے ساتھ کفار قریش کے کتنے ہی بہادر سردار قید بھی کر کے لائے تو اس وقت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے بت پرست مشرک ساتھی کہنے لگے کہ اب ان کا کام جم گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لو، اس وقت انہوں نے اسلام پر بیعت کی اور بظاہر مسلمان ہو گئے (مگر دل میں نفاق رہا)۔

Share this: