احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: 4- بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا} إِلَى قَوْلِهِ: {عَجَبًا}:
باب: آیت کی تفسیر ”پس جب وہ دونوں اس جگہ سے آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لاؤ سفر سے ہمیں اب تو تھکن ہونے لگی ہے“ لفظ «عجبا» تک۔
صنعا: عملا، حولا: تحولا، قال ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا، إمرا، ونكرا: داهية، ينقض: ينقاض كما تنقاض السن لتخذت واتخذت واحد، رحما: من الرحم وهي اشد مبالغة من الرحمة ونظن انه من الرحيم وتدعى مكة ام رحم اي الرحمة تنزل بها.
‏‏‏‏ لفظ «صنعا» عمل کے معنی میں ہے۔ «حولا» بمعنی پھر جانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہی تو وہ چیز تھی جو ہم چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ «إمرا» کا معنی عجیب بات۔ «نكرا» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ينقض» اور «ينقاض» ‏‏‏‏ دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں «تنقاض السن» یعنی دانت گر رہا ہے۔ «لتخذت» اور «واتخذت» (دونوں روایتیں ہیں) دونوں کا معنی ایک ہیں۔ «رحما»، «رحم» سے نکلا ہے جس کے معنی بہت رحمت تو یہ مبالغہ ہے رحمت کا اور ہم سمجھتے ہیں (یا لوگ سمجھتے ہیں) کہ یہ «رحم» سے نکلا ہے۔ اسی لیے مکہ کو «أم رحم» کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اترتی ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4727
حدثني قتيبة بن سعيد، قال: حدثني سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس: إن نوفا البكاليي زعم ان موسى بني إسرائيل ليس بموسى الخضر، فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"قام موسى خطيبا في بني إسرائيل، فقيل له: اي الناس اعلم ؟ قال: انا، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، واوحى إليه، بلى عبد من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب كيف السبيل إليه ؟ قال: تاخذ حوتا في مكتل، فحيثما فقدت الحوت فاتبعه، قال: فخرج موسى ومعه فتاه يوشع بن نون ومعهما الحوت حتى انتهيا إلى الصخرة، فنزلا عندها، قال: فوضع موسى راسه فنام، قال سفيان: وفي حديث غير عمرو، قال: وفي اصل الصخرة عين يقال لها الحياة لا يصيب من مائها شيء إلا حيي، فاصاب الحوت من ماء تلك العين، قال: فتحرك وانسل من المكتل، فدخل البحر، فلما استيقظ موسى، قال لفتاه آتنا غداءنا سورة الكهف آية 62 الآية، قال: ولم يجد النصب حتى جاوز ما امر به، قال له فتاه يوشع بن نون، ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت سورة الكهف آية 63 الآية، قال: فرجعا يقصان في آثارهما، فوجدا في البحر كالطاق ممر الحوت، فكان لفتاه عجبا وللحوت سربا، قال: فلما انتهيا إلى الصخرة إذ هما برجل مسجى بثوب فسلم عليه موسى، قال: وانى بارضك السلام، فقال: انا موسى، قال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا ؟ قال له الخضر: يا موسى إنك على علم من علم الله علمكه الله لا اعلمه، وانا على علم من علم الله علمنيه الله لا تعلمه، قال: بل اتبعك، قال: فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا، فانطلقا يمشيان على الساحل، فمرت بهم سفينة، فعرف الخضر، فحملوهم في سفينتهم بغير نول، يقول: بغير اجر، فركبا السفينة، قال: ووقع عصفور على حرف السفينة، فغمس منقاره في البحر، فقال الخضر لموسى: ما علمك وعلمي وعلم الخلائق في علم الله إلا مقدار ما غمس هذا العصفور منقاره، قال: فلم يفجا موسى إذ عمد الخضر إلى قدوم، فخرق السفينة، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت سورة الكهف آية 71 الآية، فانطلقا إذا هما بغلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه فقطعه، قال له موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا قال الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا إلى قوله فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 75 - 77، فقال بيده: هكذا، فاقامه، فقال له موسى: إنا دخلنا هذه القرية فلم يضيفونا ولم يطعمونا، لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"وددنا ان موسى صبر حتى يقص علينا من امرهما، قال: وكان ابن عباس يقرا 0 وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا واما الغلام فكان كافرا 0".
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے حیات کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا «قال لفتاه آتنا غداءنا‏» کہ ہمارا ناشتہ لاؤ الآیۃ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا «أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت‏» آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا الآیۃ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما «وكان وراءهم ملك» کی بجائے «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» قرآت کرتے تھے اور بچہ (جسے قتل کیا تھا) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ (مشیت الٰہی میں) کافر تھا۔

Share this: