احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

49: 49- سورة الْحُجُرَاتِ:
باب: سورۃ الحجرات کی تفسیر۔
تشعرون: تعلمون ومنه الشاعر.
‏‏‏‏ «تشعرون» کا معنی جانتے ہو اس سے لفظ «شاعر» نکلا ہے یعنی جاننے والا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4845
حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن ابي مليكة، قال: كاد الخيران ان يهلكا ابو بكر وعمر رضي الله عنهما رفعا اصواتهما عند النبي صلى الله عليه وسلم، حين قدم عليه ركب بني تميم، فاشار احدهما بالاقرع بن حابس اخي بني مجاشع، واشار الآخر برجل آخر، قال نافع: لا احفظ اسمه، فقال ابو بكر لعمر: ما اردت إلا خلافي، قال: ما اردت خلافك، فارتفعت اصواتهما في ذلك، فانزل الله:يايها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم سورة الحجرات آية 2 الآية، قال ابن الزبير: فما كان عمر يسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الآية حتى يستفهمه، ولم يذكر ذلك عن ابيه يعني ابا بكر.
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہو جائیں یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر دی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنا دیں) ان میں سے ایک (عمر رضی اللہ عنہ) نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لیے کہا تھا اور دوسرے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم‏» اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو الخ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔

Share this: