احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: 6- بَابُ هَلْ يُقْرَعُ فِي الْقِسْمَةِ وَالاِسْتِهَامِ فِيهِ:
باب: کیا تقسیم میں قرعہ ڈالا جا سکتا ہے؟
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2493
حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"مثل القائم على حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة فاصاب بعضهم اعلاها وبعضهم اسفلها، فكان الذين في اسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم، فقالوا: لو انا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا، فإن يتركوهم وما ارادوا هلكوا جميعا، وإن اخذوا على ايديهم نجوا ونجوا جميعا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے، کہا میں نے عامر بن شعبہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔

Share this: